لاؤڈ اسپیکر اور علماء کرام

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

ان دنوں پاکستان کی وفاقی حکومت کے ایک مبینہ فیصلہ کے حوالہ سے لاؤڈ اسپیکر دینی حلقوں میں پھر سے موضوع بحث ہے اور لاؤڈ اسپیکر کی آواز کو مساجد کی چار دیواری کے اندر محدود کر دینے کے فیصلہ یا تجویز کو مداخلت فی الدین قرار دے کر اس کی پرجوش مخالفت کی جا رہی ہے۔

ایک دور تھا جب لاؤڈ اسپیکر نیا نیا متعارف ہوا تو مساجد میں اس کے استعمال کے جواز و عدم جواز اور نماز میں لاؤڈ اسپیکر کے ذریعے سے امام کی آواز مقتدیوں تک پہنچنے کی شرعی حیثیت کی بحث چھڑ گئی تھی۔ ایک مدت تک ہمارے فتاوٰی اور علمی مباحث میں اس کا تذکرہ ہوتا رہا۔ تب لوگوں کی خواہش تھی کہ آواز کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کی غرض سے اس مفید ایجاد سے دینی مقاصد کے لیے فائدہ اٹھایا جائے مگر علماء کرام اس میں ہچکچاہٹ محسوس کر رہے تھے۔ اب جبکہ اس مفید ایجاد کے بے تحاشا اور زائد از ضرورت استعمال نے اس کے منفی پہلو کو اجاگر کیا ہے اور اس کے استعمال کو محدود کرنے کی خواہش عام لوگوں میں ابھر رہی ہے تو علماء کرام کا ایک طبقہ اس کے لیے ذہنی طور پر تیار نہیں ہے۔ یہ ایک ایسی صورتحال ہے جس نے اہل فکر و دانش کو الجھن اور پریشانی سے دوچار کر رکھا ہے جبکہ اپنے دلوں میں علماء کرام کے لیے احترام اور عقیدت کا جذبہ رکھنے والے لوگ بھی اس طرز عمل پر خود کو مطمئن نہیں پا رہے۔

جہاں تک لاؤڈ اسپیکر کا تعلق ہے یہ محض ایک آلہ ہے جو ایک شخص کی آواز کو لوگوں کی ایک بڑی تعداد تک پہنچانے کا کام دیتا ہے۔ اس کا دین سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ جب یہ آلہ موجود نہیں تھا دین اس وقت بھی موجود تھا اور اب جبکہ اس سے زیادہ مفید اور موثر آلات کے استعمال میں آنے سے اس کی پہلے والی اہمیت باقی نہیں رہی، دین تب بھی قائم ہے۔ اس لیے لاؤڈ اسپیکر کے استعمال کے مسئلہ کو دین کا سوال بنانے کی بجائے اس کی افادیت اور نقصانات کے حوالہ سے دیکھنا ہی دانشمندی کا تقاضا ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ لاؤڈ اسپیکر کے بے تحاشا استعمال نے عام آدمی کی پریشانی میں اضافہ کیا ہے۔ ایک ایک محلہ میں تین تین چار چار مساجد میں انتہائی طاقتور قسم کے لاؤڈ اسپیکرز کے بیک وقت استعمال سے اہل محلہ کے کانوں اور دماغوں میں شور و غل کی جو دھماچوکڑی مچتی ہے وہ یقیناً دین، مسجد اور علماء کے ساتھ ان کے تعلق میں اضافہ کا باعث نہیں بنتی اور دینی نقطۂ نظر سے اس کا نتیجہ نقصان کے سوا کچھ برآمد نہیں ہوتا۔ پھر شرعی نقطۂ نظر سے بیمار لوگوں، مطالعہ کرنے والوں، آرام کرنے والوں، اور آپس میں ضروری گفتگو کرنے والوں کے معاملات میں یہ بلند آہنگ خلل اندازی بجائے خود توجہ طلب ہے۔ لاؤڈ اسپیکر کی آواز کو محدود کرنے کی تجویز کی دین کے نام پر مخالفت کا ہمیں کوئی جواز نظر نہیں آتا۔ بلکہ ایک لحاظ سے یہ ذمہ داری خود علماء کرام پر عائد ہوتی ہے کہ وہ اس مسئلہ کے شرعی و اخلاقی تقاضوں اور مفاد عامہ کو سامنے رکھتے ہوئے لاؤڈ اسپیکر کے استعمال اور اس کی آواز کے دائرہ کے لیے حدود کا تعین کریں اور اس پر عمل درآمد کا اہتمام کریں۔

چنانچہ ہم لاؤڈ اسپیکر کی آواز کو مسجد کی چار دیواری میں محدود کر دینے کی تجویز کی حمایت کرتے ہیں اور اس کے ساتھ یہ اضافہ بھی ضروری سمجھتے ہیں کہ اس کار خیر کو صرف مسجد تک محدود نہ رکھا جائے بلکہ بازاروں، سینماؤں، شادی بیاہ کی تقریبات، ٹیپ ریکارڈنگ کی دکانوں اور دیگر تمام مقامات پر لاؤڈ اسپیکر کے استعمال کو ممنوع قرار دیا جائے تاکہ عام شہری لاؤڈ اسپیکر کے ضرورت سے زیادہ استعمال سے پیدا ہونے والے شوروغل سے نجات حاصل کر سکیں۔


دین اور معاشرہ

(جولائی ۱۹۹۴ء)

تلاش

Flag Counter