اقبالؒ کا تصورِ اجتہاد

ڈاکٹر محمد آصف اعوان

(۹ نومبر ۱۹۹۳ء کو گوجرانوالہ بار ایسوسی ایشن کے ہال میں علامہ اقبالؒ کی یاد میں منعقد ہونے والی تقریب میں یہ مقالہ پڑھا گیا۔)


علامہ محمد اقبالؒ کو بلاشبہ بیسویں صدی کا ایک عظیم مفکر اور اسلام کا ممتاز ترین ترجمان کہا جا سکتا ہے۔ انہوں نے اپنی زندگی کا طویل عرصہ اسلامی تاریخ، اسلامی تہذیب و ثقافت اور اصول و قوانین کے مطالعہ میں گزارا، جس سے انہیں اسلام کی اصل روح کو سمجھنے اور جاننے کے لیے گہری بصیرت حاصل ہوئی۔ اقبال اسلام کی حقانیت اور ابدیت پر کامل یقین اور پختہ ایمان رکھتے تھے، لیکن اس کے ساتھ انہیں اس بات کا  بھی احساس تھا کہ زمانے کے بدلتے ہوئے تقاضوں کے ساتھ اسلامی اصول و قوانین کی نئی تشریح و تعبیر کی بھی سخت ضرورت ہے تاکہ اسلام جدید دنیا کے چیلنجوں کا مقابلہ کر سکے اور دنیا پر یہ حقیقت واضح ہو کہ اسلام کسی ایک عہد اور زمانے کے لیے ہی نہیں تھا بلکہ اس کے اصول و قوانین میں اتنی لچک اور پھیلاؤ ہے کہ یہ ہر دور کا ساتھ دے سکے اور ہر مسئلے کا  حل پیش کر سکے۔

اقبال حرکت و حرارت کا پیامبر ہے، جمود اس کے نزدیک شر اور حرکت سب سے بڑی خیر ہے۔ بقول خلیفہ عبد الحکیم ’’اقبال کے لیے ہر وہ تحریک خوش آئند تھی جو زندگی کے جمود کو توڑ دے‘‘1 چنانچہ اقبال نے اپنے دور میں ترکی اور ایران میں اٹھنے والی نئی سیاسی اور معاشرتی تحریکوں کا  بھرپور ساتھ دیا اور ان کی تعریف کی۔ اقبال کا خیال یہ ہے کہ

’’تہذیب و ثقافت کی نظر سے دیکھا جائے تو بحیثیت ایک تحریک، اسلام نے دنیائے قدیم کا یہ نظریہ تسلیم نہیں کیا کہ کائنات ایک ساکن و جامد وجود ہے، برعکس اس کے وہ اسے متحرک قرار دیتا ہے۔‘‘2

اقبال چاہتے تھے کہ اسلام کے اصول و قوانین کا ازسرنو جائزہ لے کر زمانۂ حال کے سیاسی، معاشرتی اور معاشی مسائل کا حل پیش کیا جائے۔ کیونکہ اسی طریقے سے اسلامی اصول و قوانین کی ابدیت کو ثابت کیا جا سکتا ہے۔ اقبال کو اس بات کا پورا احساس تھا کہ اگر موجودہ دور کے تقاضوں کا احساس نہ کیا گیا اور اسلامی اصول و قوانین کی تدوینِ نو کر کے موجودہ مسائل کا حل پیش نہ کیا گیا تو ہو سکتا ہے کہ لوگوں کا اسلام کے مکمل ضابطۂ حیات ہونے سے ایمان اٹھ جائے، اور وہ جدید مسائل کا حل تلاش کرنے کے لیے اسلام کی رائے سنے یا اس کا انتظار کیے بغیر مغربی طریقوں اور اصولوں کو اپنا لیں۔ پروفیسر محمد عثمان اپنی کتاب ’’فکرِ اسلامی کی تشکیلِ نو‘‘ میں لکھتے ہیں:

’’جو لوگ صدی، نصف صدی زندہ رہنے کی خواہش رکھتے ہوں، ان کی بات اور ہے، مگر جو قومیں اور تہذیبیں صدیوں تک یا تا قیامت صفحۂ ہستی پر اپنے آپ کو قائم دائم دیکھنے کی آرزومند اور دعویدار ہوں، ان کے لیے اور باتوں کے علاوہ ایک نہایت اہم بات یہ ہے کہ وہ ثبات اور تغیر کے باہمی ربط اور ان کی حقیقت کو واضح طور پر جانیں۔ زندگی نہ محض ثبات ہے اور نہ محض تغیر ہے ۔۔۔۔ مستقل اقدار کی مسلسل حفاظت کرنا اور بدلنے والے پہلوؤں میں تبدیلی قبول کرنا بقا و دوام کی شرطِ اول ہے۔‘‘3

حضرت علامہ اقبالؒ اسلام کی بقا اور استحکام کے پرجوش مبلغ اور علمبردار تھے۔ انہوں نے سب سے پہلے اس حقیقت کو محسوس کیا کہ جب تک مسلمانوں میں فکری سطح پر تعطل اور جمود کو دور نہ کیا جائے گا ان کا دنیا میں تری کرنا اور آگے بڑھنا ممکن نہیں۔ علامہ اقبال کا مشہور و معروف انگریزی خطبہ

The Principle of Movement in the Structure of Islam

فقہ اسلامی کی تدوینِ نو کے ضمن میں عالمِ اسلام کی بہترین رہنمائی کرتا ہے۔ سید نذیر نیازی نے اس انگریزی لیکچر کا ترجمہ ’’الاجتہاد فی الاسلام‘‘ کے نام سے کیا ہے۔ اقبال اپنے خطبے میں فرماتے ہیں کہ اسلام میں ثبات اور تغیر دونوں پہلو موجود ہیں، لیکن ابدی اصول و قوانین سے یہ نہ سمجھنا چاہیے کہ وہ تغیر کے ہر امکان کو رد کرتا ہے بلکہ حرکت اور تغیر ہی خدا کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے۔ اقبال فرماتے ہیں:

’’اسلام کے نزدیک حیات کی یہ روحانی اساس ایک قائم و دائم وجود ہے، جسے ہم اختلاف اور تغیر میں جلوہ گر دیکھتے ہیں۔ اب اگر کوئی معاشرہ حقیقت مطلقہ کے اس تصور پر مبنی ہے تو پھر یہ بھی ضروری ہے کہ وہ اپنی زندگی میں ثبات اور تغیر دونوں خصوصیات کا لحاظ رکھے۔ اس کے پاس کچھ تو اس قسم کے دوامی اصول ہونے چاہئیں جو حیاتِ اجتماعیہ میں نظم و انضباط قائم رکھیں، کیونکہ مسلسل تغیر کی اس بدلتی ہوئی دنیا میں ہم اپنا قدم مضبوطی سے جما سکتے ہیں تو دوامی اصولوں ہی کی بدولت۔ لیکن دوامی اصولوں کا یہ مطلب تو ہے نہیں کہ اس سے تغیر اور تبدیلی کے جملہ امکانات کی نفی ہو جائے، اس لیے کہ تغیر وہ حقیقت ہے جسے قرآن پاک نے اللہ تعالیٰ کی ایک بہت بڑی آیت ٹھہرایا ہے۔ اس صورت میں تو ہم اس شی کو، جس کی فطرت ہی حرکت ہے، حرکت سے عاری کر دیں گے۔‘‘4

پھر اقبال خود ہی یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ

’’سوال پیدا ہوتا ہے کہ اسلام کی ہیئتِ ترکیبی میں وہ کون سا عنصر ہے جو اس کے اندر حرکت اور تغیر قائم رکھتا ہے؟‘‘5

اور ساتھ ہی اس کا جواب دیتے ہیں کہ

’’اس کا جواب ہے، اجتہاد‘‘6

اقبال اجتہاد پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ

’’فقہ اسلامی کی اصطلاح میں اس کا مطلب ہے وہ کوشش جو کسی قانونی مسئلے میں آزادانہ رائے قائم کرنے کے لیے کی جائے۔‘‘7

گویا روزمرہ زندگی کے بدلتے ہوئے تقاضوں کے لیے قوانین وضع کرنے، اور ایسے مسائل جن میں شک و شبہ کا امکان ہو، قرآن و حدیث کی روشنی میں ان کے لیے قوانین مرتب کرنے کا نام اجتہاد ہے۔ ارشاد رب العزت ہے:

’’جو لوگ ہمارے بارے میں کوشش کرتے ہیں ہم ان کو اپنے راستے دکھائیں گے۔‘‘

اقبال اجتہاد کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ایک حدیث کا حوالہ بھی دیتے ہیں۔ حضرت معاذؓ کو جب یمن کا حاکم مقرر کیا گیا تو ان کی روانگی کے وقت نبی کریمؐ نے ان سے دریافت کیا کہ اے معاذ! معاملات کا فیصلہ کیسے کرو گے؟ تو حضرت معاذؓ نے عرض کیا کہ اللہ کی کتاب کے مطابق فیصلے کروں گا۔ آپؐ نے فرمایا، اگر کتاب اللہ سے تمہاری رہنمائی نہ ہو تو پھر کیا کرو گے؟ معاذؓ نے جواب دیا، تو رسول اللہ کی سنت کے مطابق۔ آپؐ نے فرمایا، اگر سنتِ رسول سے بھی رہنمائی میسر نہ ہو تو پھر؟ حضرت معاذؓ نے جواب دیا، تو پھر میں خود ہی کوئی رائے قائم کرنے کی کوشش کروں گا۔8

گویا نئے ماحول اور حالات میں نئی ضروریات اور تقاضوں کا ساتھ دینے کے لیے قرآن و حدیث کے مطابق فیصلے کرنا ضروری ہے، لیکن اگر قرآن و حدیث کسی خاص معاملے میں خاموش ہوں تو پھر قرآن و سنت اور اجتماعی اسلامی مزاج کا لحاظ رکھنا قانون سازی کرتے ہوئے لازمی ہے۔

اگر اقبال کے خطبے ’’الاجتہاد فی الاسلام‘‘ کا دقتِ نظر سے مطالعہ کیا جائے تو یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ اقبال اس خطبے میں خاص طور پر اسلامی ممالک اور ان میں پیش آنے والے مسائل سے گفتگو کر رہے ہیں، لیکن اس کے ساتھ ساتھ ان کا یہ خطبہ مختلف اسلامی ممالک میں اجتہادی کوششوں کے ضمن میں ایک Guideline کی حیثیت بھی رکھتا ہے۔ علامہ نے ترکوں کی اجتہادی کوششوں کی ہمیشہ تعریف کی ہے۔ اقبال ترکوں کے متعلق لکھتے ہیں کہ

’’دراصل یہ صرف ترک ہیں جو اممِ اسلامیہ میں قدامت پرستی کے خواب سے بیدار ہو کر شعورِ ذات کی نعمت حاصل کر چکے ہیں۔ یہ صرف ترک ہیں جنہوں نے ذہنی آزادی کا حق طلب کیا ہے اور جو ایک خیالی دنیا سے نکل کر اب عالمِ حقیقت میں آ گئے ہیں۔ لیکن یہ وہ تغیر ہے جس کے لیے انسان کو ایک زبردست دماغی اور اخلاقی کشاکش سے گزرنا پڑتا ہے۔ لہٰذا یہ ایک طبعی امر تھا کہ ایک ہر لحظہ حرکت اور وسعت پذیر زندگی کی روز افزوں پیچیدگیوں سے انہیں نئے نئے حالات اور نئے نئے نقطہ ہائے نظر سے سابقہ پڑتا اور وہ ان اصولوں کی ازسرنو تعبیر پر مجبور ہو جاتے، جو ایک ایسی قوم کے لیے جو روحانی وسعتوں کی لذت سے محروم ہے، خشک بحثوں سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتے۔‘‘9

علامہ اقبالؒ فرماتے ہیں کہ ترکوں نے ایک نہایت جرأتمندانہ اقدام کر کے اپنی سیاسی اور تہذیبی زندگی میں اپنی اجتہاد پسندی کا ثبوت دیا ہے اور زندگی کے نئے تقاضوں اور ضروریات کا ساتھ دیا  ہے۔ اگر ہم یعنی ہندوستان کے لوگ بھی اسلامی اصول و قوانین کو موجودہ دور میں مؤثر بنانا چاہتے ہیں تو یہ ضروری ہے کہ اپنے ذہنی اور فکری ورثے کا ازسرنو جائزہ لے کر اسے موجودہ دور کے تقاضوں کے مطابق بنایا جائے۔ اقبالؒ فرماتے ہیں کہ

’’اگر اسلام کی نشاۃِ ثانیہ ناگزیر ہے، جیسا کہ میرے نزدیک قطعی طور پر ہے، تو ہمیں بھی ترکوں کی طرح ایک نہ ایک دن اپنے عقلی اور ذہنی ورثے کی قدر و قیمت کا جائزہ لینا پڑے گا۔‘‘10

اقبالؒ کی نظر میں اجتہاد ہی اسلام کی نشاۃِ ثانیہ کا ضامن ہے اور اسی کی مدد سے ہر دور میں اسلام اپنے پیروکاروں کو اپنے فیوض و برکات سے مستفید کر سکتا ہے۔ تاہم جہاں اقبال اجتہاد کی ضرورت و اہمیت سے پوری طرح آگاہ ہیں اور عالمِ اسلام کو اجتہاد کی دعوت دیتے ہیں، وہاں انہیں اس بات کا بھی مکمل احساس ہے کہ اس معاملے میں ذرا سی زیادتی بھی مسلمانوں کو دین و ایمان سے دور پھینک سکتی ہے۔ آزادیٔ افکار کی گو اپنی اہمیت ہے، تاہم فکر و تدبر کا سلیقہ اس سے بھی اہم تر اور ضروری ہے کیونکہ ؎

ہو فکر اگر خام تو آزادیٔ افکار
انسان کو حیوان بنانے کا طریقہ

بقول ڈاکٹر سید عبد اللہ:

’’علامہ اقبال کو فقہ اسلام کی تاریخ و تدوین کی اہمیت کا پورا احساس رہا۔ انہیں آج کے علمی و فکری ماحول میں اسلام کے اصولوں کی صداقت و افادیت ثابت کرنے پر اصرار رہا۔ بلاشبہ اس تدوینِ نو میں اجتہاد کی ضرورت اور بحث بھی آجاتی ہے، لیکن وہ اجتہاد کی ذمہ داریوں سے پوری طرح آگاہ تھے، کیونکہ اس کے لیے وافر اور فراواں اہلیت، تقوٰی اور تبحرِ علمی درکار ہے۔ اس کے علاوہ وہ اس خدشے سے بھی غافل نہ تھے کہ بلا قید اور بلا شرط اجتہاد سے انتشار پیدا ہو کر ملت کا شیرازہ بکھر بھی سکتا ہے۔‘‘12

علامہ اقبال اپنے انگریزی خطبے میں رقمطراز ہیں:

’’ہم اس تحریک کا، جو حریت اور آزادی کے نام پر عالمِ اسلام میں پھیل رہی ہے، دل سے خیرمقدم کرتے ہیں۔ لیکن یاد رکھنا چاہیے، آزاد خیالی کی یہی تحریک اسلام کا نازک ترین لمحہ بھی ہے۔ آزاد خیالی کا رجحان بالعموم تفرقہ اور انتشار کی طرف ہوتا ہے۔ لہذا نسلیت اور قومیت کے یہی تصورات جو اس وقت دنیائے اسلام میں کارفرما ہیں، اس وسیع مطمح نظر کی نفی بھی کر سکتے ہیں جس کی اسلام نے مسلمانوں کو تلقین کی ہے۔ پھر اس کے علاوہ یہ بھی خطرہ ہے کہ ہمارے مذہبی اور سیاسی رہنما حریت اور آزادی کے جوش میں، بشرطیکہ اس پر کوئی روک عائد نہ کی گئی، اصلاح کی جائز حدود سے تجاوز کر جائیں۔‘‘13

علامہ اقبال اگرچہ نئے فقہی فیصلوں کے حق میں تھے اور چاہتے تھے کہ زمانہ جدید کی مخصوص ضرورتوں کے تحت بنیادی ماخذ کی روشنی میں اسلامی اصول و قوانین کی تدوینِ نو کی جائے، تاہم ان کی اعتدال پسند طبیعت اس بات کو قطعاً گوارا نہیں کرتی تھی کہ اجتہاد اور تجدد کے نام پر ایسے تجاوزات عمل میں لائے جائیں جو اسلامی تعلیمات کی روح سے عاری ہوں۔ حضرت علامہ سید سلیمان ندویؒ کے نام ایک خط میں البانیہ کے مسلمانوں سے متعلق وہ اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ

’’میں نے سنا ہے کہ البانیہ کے مسلمانوں نے وضو اڑا دیا اور ممکن ہے نماز میں بھی کوئی ترمیم کی ہو۔‘‘14

اگرچہ اقبالؒ نے ترکوں کے اجتہاد کی ہر جگہ تعریف کی ہے مگر وہ اس اجتہاد کے ان پہلوؤں کا احتساب بھی کرتے ہیں جن سے اسلام کے بنیادی اصول و قوانین کے خلاف بغاوت کی بو آتی ہے۔ مثال کے طور پر اقبال کہتے ہیں کہ ترکی کی نیشنلسٹ پارٹی کا موقف یہ ہے کہ

’’ریاست ہی حیاتِ قومی کا بنیادی جزو ہے اور اس لیے باقی سب اجزا کی نوعیت اور وظائف بھی ریاست ہی سے متعین ہوں گے۔‘‘15

لیکن اقبال فرماتے ہیں کہ

’’ذاتی طور پر مجھے اس سے اختلاف ہے کہ اسلام کی توجہ تمام تر ریاست پر ہے اور ریاست ہی کا خیال اس کے باقی تمام تصورات پر حاوی۔‘‘16

اقبال واضح طور پر کہتے ہیں کہ

’’دراصل ترک وطن پرستوں نے ریاست اور کلیسا کی تفریق کا اصول مغربی سیاست کی تاریخ افکار سے اخذ کیا  ہے۔‘‘17

اقبال ایک ترک شاعر ضیا کی ان نظموں کا بھی سختی سے محاسبہ کرتے ہیں جن میں اس نے نماز، اذان اور تلاوتِ قرآن کو عربی کے بجائے ترکی زبان میں ادا کرنے کی ترغیب دی ہے۔ اقبال، ضیا کی نظم کے ایک بند کو ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں:

’’وہ سرزمین جہاں ترکی میں اذان دی جاتی ہے، جہاں نمازی اپنے مذہب کو جانتے اور سمجھتے ہیں، جہاں قرآن پاک کی تلاوت ترکی زبان میں کی جاتی ہے، جہاں پر چھوٹا بڑا احکامِ الٰہیہ سے واقف ہے، اے فرزندِ ترکی! وہ ہے تیرا آبائی وطن۔‘‘18

حضرت علامہ، ترک شاعر ضیا کے اس اجتہاد کو، کہ نماز ترکی زبان میں ادا کی جائے، اذان ترکی زبان میں دی جائے، اور قرآن پاک کی ترکی زبان میں تلاوت کی جائے، مناسب خیال نہیں کرتے اور فرماتے ہیں کہ

’’عربی کو ترکی سے بدلنے کا یہ خیال مسلمانانِ ہند کی غالب اکثریت کو ناگوار گزرے گا اور وہ اس کی مذمت کریں گے۔‘‘19

اپنی نظم کے ایک بند میں ضیا نے مساواتِ مرد و زن کے خیال کو بڑے پرجوش انداز میں بیان کیا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ اسلام کے عائلی نظام میں بنیادی تبدیلیاں لائی جائیں تاکہ عورت کے ساتھ عدل و انصاف ہو سکے۔ اس کے خیال میں جب تک عورت کو جائیداد میں آدھا حصہ ملے گا، اسے گواہی دینے کے  معاملے میں بھی آدھا انسان ہی تصور کیا جائے گا، ترک شاعر ضیا کہتا ہے کہ

’’جب تک عورتوں کی صحیح قدر و قیمت کا احساس نہیں ہو گا، حیاتِ ملی نامکمل رہے گی۔ اہل و عیال کی پرورش میں عدل و انصاف پر عمل کرنا چاہیے اور اس کے لیے تین چیزیں ہیں جن میں مساوات ناگزیر ہے: طلاق میں، علیحدگی میں، وراثت میں۔‘‘20

اقبال، ترک شاعر کے ان خیالات کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ

’’رہا ترکی شاعر کا مطالبہ، سو میں سمجھتا ہوں وہ اسلام کے قانونِ عائلہ سے کچھ بہت زیادہ واقف نہیں۔ وہ نہیں سمجھتا کہ قرآن پاک نے وراثت کے بارے میں جو قاعدہ نافذ کیا ہے اس کی معاشی قدر و قیمت کیا ہے۔ شریعتِ اسلامی میں نکاح کی حیثیت ایک عقد اجتماعی کی ہے۔ اور بیوی کو یہ حق حاصل ہے کہ بوقتِ نکاح شوہر کا حقِ طلاق بعض شرائط کی بنا پر خود اپنے ہاتھ میں لے لے۔ یوں امرِ طلاق میں تو مرد و زن کے درمیان مساوات قائم ہو جاتی ہے۔ رہی وہ اصلاح جو شاعر نے قانونِ وراثت میں تجویز کی ہے، سو اس کی بنا غلط فہمی پر ہے۔ اگر قانون کے کچھ حصوں میں مساوات نہیں کی گئی تو اس سے یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ مردوں کو عورتوں پر فضیلت ہے، اس لیے کہ یہ خیال تعلیماتِ قرآن کے منافی ہے۔ قرآن مجید کا صاف و صریح ارشاد ہے ’’ولھن مثل الذی علیھن (بقرہ ۲۲۸) لہٰذا لڑکی کا حصہ متعین ہوا تو کسی کمتری کی بنا پر نہیں بلکہ ان فوائد کے پیشِ نظر جو معاشی اعتبار سے اسے حاصل ہیں۔‘‘21

اس سے یہ بات واضح ہو گئی کہ اگرچہ اقبال عصری تقاضوں کے پیشِ نظر قوانینِ اسلامی کی تدوینِ نو کے قائل ہیں اور اسے وقت کی ضرورت خیال کرتے ہیں، تاہم وہ بے اعتدالی اور کسی بھی معاملے میں کسی کی بھی کورانہ تقلید کے ہرگز قائل نہیں۔ اقبال اسلام کے بنیادی اور ابدی ماخذ میں کسی قسم کی بھی تبدیلی کے حق میں نہیں۔ ان کے نزدیک بنیادی ماخذ ہمارے ماضی کا شاندار علمی ورثہ ہیں، جن سے منہ موڑ کر اور انہیں پسِ پشت ڈال کر ہم کبھی بھی صحیح نتیجے پر نہیں پہنچ سکتے۔ اقبال فرماتے ہیں کہ ہمارے پاس اسلامی قوانین کے لیے چار بنیادی ماخذ ہیں: (۱) قرآن (۲) حدیث (۳) قیاس (۴) اجماع۔

(۱) قرآن مجید

قرآن کو اسلامی قوانین کا اولین ماخذ قرار دیا جاتا ہے لیکن قرآن قانونی ضابطوں کی کتاب نہیں ہے بلکہ معاملاتِ زندگی سے متعلق عام لیکن بنیادی اصولوں کی طرف ہماری رہنمائی کرتی ہے۔ اقبال فرماتے ہیں کہ

’’قرآن کوئی قانونی ضابطہ نہیں، اس کا حقیقی منشا، جیسا کہ ہم اس سے پہلے عرض کر آئے ہیں، یہ ہے کہ ذہنِ انسانی میں اس تعلق کا، جو اسے کائنات اور خالقِ کائنات سے ہے، اعلیٰ اور بہترین شعور پیدا کرے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ قرآن پاک میں قانونی نوعیت کے کچھ عام اصول اور قواعد و ضوابط موجود ہیں ۔۔۔‘‘22

اقبالؒ ملتِ اسلامیہ کی توجہ قرآن پاک کے اس خاص انداز اور اسلوب کی طرف دلا رہے ہیں کہ قرآن پاک کی جامعیت اور ابدیت اسی میں ہے کہ اس نے انسان کی رہنمائی کے لیے بنیادی اصول فراہم کر دیے ہیں جن کے اندر رہتے ہوئے ہم ہر زمانے اور ہر دور میں نئی ضروریات اور بدلتے ہوئے تقاضوں کا ساتھ دے سکتے ہیں۔ گویا اس طرح اگر ہم غور کریں تو قرآن اپنے اندر ایک حرکی تصورِ حیات رکھتا ہے۔ اقبال لکھتے ہیں:

’’ظاہر ہے کہ جس کتاب کا مطمح نظر ایسا ہو گا اس کی روش ارتقا کے خلاف کیسے ہو سکتی ہے؟‘‘23

حرکی تصورِ حیات کا یہ مطلب ہیں کہ اس میں ثبات کا کوئی بھی پہلو نہیں، بلکہ اقبال کے تصورِ حیات میں ایک Element of Permanence بھی ہے جس کا دمن کبھی بھی ہاتھ سے چھوڑا نہیں جا سکتا۔ اقبال فرماتے ہیں:

’’ہمیں نہیں بھولنا چاہیے تو یہ کہ زندگی محض تغیر ہی نہیں، اس میں حفظ و ثبات کا ایک عنصر بھی موجود ہے۔‘‘24

اور پھر اقبال بڑے واضح انداز میں فرماتے ہیں کہ

’’تعلیماتِ قرآن کی یہی وہ جامعیت ہے جس کا لحاظ رکھتے ہوئے جدید عقلیت کو اپنے ادارات کا جائزہ لینا ہو گا۔ دنیا کی کوئی قوم اپنے ماضی سے قطع نظر نہیں کر سکتی، اس لیے کہ یہ ان کا ماضی ہی تھا جس سے ان کی موجودہ شخصیت متعین ہوئی۔‘‘25

(۲) حدیث

قرآن پاک کے بعد اسلامی قوانین کا سب سے بڑا ماخذ احادیثِ رسولؐ ہیں۔ ہمیں قانونی حیثیت کی حامل احادیث اور دوسری احادیث میں امتیاز کرنا ہو گا۔ بقول علامہ اقبال:

’’جہاں تک مسئلہ اجتہاد کا تعلق ہے، ہمیں چاہیے کہ ان احادیث کو، جن کی حیثیت سراسر قانونی ہے، ان احادیث سے الگ رکھیں جن کا قانون سے کوئی تعلق نہیں۔‘‘26

احادیث کی قانونی حیثیت کا ذکر کرتے ہوئے علامہ اقبال، حضرت شاہ ولی اللہ کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ رسول کریمؐ نے بہت سے احکام عربوں کی مقامی روایات اور ان کے قومی مزاج کو سامنے رکھ کر دیے تھے، جن کی اطاعت دوسری قوموں کے افراد کے لیے ضروری نہیں، کیونکہ آئندہ نسلوں کا مزاج، روایات اور ماحول عربوں سے مختلف بھی ہو سکتا ہے۔ حضرت علامہ اپنے انگریزی خطبے میں شاہ ولی اللہ کے حوالے سے رقمطراز ہیں:

’’انبیاء کا عام طریقِ تعلیم تو یہی ہے کہ وہ جس قوم میں مبعوث ہوتے ہیں ان پر اسی قوم کے رسم و رواج اور عادات و خصائص کے مطابق شریعت نازل کی جاتی ہے۔ لیکن جس نبی کے سامنے ہمہ گیر اصول ہیں، اس پر نہ تو مختلف قوموں کے لیے مختلف اصول نازل کیے جائیں گے، نہ یہ ممکن ہے کہ وہ ہر قوم کو اپنی اپنی ضروریات کے لیے الگ الگ اصولِ عمل متعین کرنے کی اجازت دے۔ وہ کسی ایک قوم کی تربیت کرتا اور پھر ایک عالمگیر شریعت کی تشکیل میں اس سے تمہید کا کام لیتا ہے۔ لیکن ایسا کرنے میں وہ اگرچہ انہی اصولوں کو حرکت دیتا ہے جو ساری نوعِ انسانی کی حیاتِ اجتماعیہ میں کارفرما ہیں۔ پھر بھی ہر معاملے اور ہر موقع پر عملاً ان کا اطلاق اپنی قوم کی مخصوص عادات کے مطابق ہی کرتا ہے۔ لہٰذا اس طرح جو احکام وضع ہوتے ہیں (مثلاً تعزیرات) ایک لحاظ سے اسی قوم کے لیے مخصوص ہوں گے۔ پھر چونکہ احکام مقصود بالذات نہیں، اس لیے یہ بھی ضروری نہیں کہ ان کو آئندہ نسلوں کے لیے بھی واجب ٹھہرایا جائے۔‘‘27

علامہ اقبالؒ امام ابوحنیفہؒ کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ امام صاحب نے اپنی فقہ میں ایسی احادیث کا خاص طور پر استعمال ہیں کیا جن کا ایک خاص زمانے سے اور لوگوں کے مزاج سے تعلق تھا۔ علامہ فرماتے ہیں:

’’شاید یہی وجہ تھی کہ امام ابوحنیفہؒ نے، جو اسلام کی عالمگیر نوعیت کو خوب سمجھ گئے تھے، ان احادیث سے اعتنا نہیں کیا۔‘‘28

یہاں ’’ان احادیث‘‘ سے مراد ایسی احادیث ہیں جن کا (تعلق) مخصوص زمانے سے اور اس زمانے کے لوگوں کے مخصوص عادات و کردار اور مزاج سے تھا۔ چنانچہ اقبال فرماتے ہیں:

’’اگر آزادیٔ اجتہاد کی وہ تحریک جو اس وقت دنیائے اسلام میں پھیل رہی ہے، احادیث کو بلا جرح و تنقید قانون کا ماخذ تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں تو اس سے اہل سنت والجماعت کے ایک امام الائمہ ہی کی پیروی مقصود ہے۔‘‘29

یہاں بعض لوگوں کو یہ احتمال گزر سکتا ہے کہ اقبال، خدانخواستہ، احادیث کو کم اہمیت دیتے تھے یا یہ کہ وہ منکرِ حدیث تھے، لیکن ایسا ہرگز نہیں۔ اگر اقبال کا ایسا خیال ہوتا تو وہ قانون سازی کے عمل میں احادیث کا قرآن کے بعد ذکر ہی نہ کرتے۔ اقبالؒ تو محض Indiscriminate use of Traditions کے خلاف ہیں، ورنہ تو حضرت علامہ رقمطراز ہیں:

’’سب سے بڑی خدمت جو محدثین نے شریعتِ اسلامیہ کی سرانجام دی ہے، یہ ہے کہ انہوں نے مجرد غور و فکر کے رجحان کو روکا اور اس کی بجائے ہر مسئلے کی الگ تھلگ شکل اور انفرادی حیثیت پر زور دیا۔‘‘30

اقبالؒ قانون سازی کے عمل میں احادیث کی اہمیت کا ذکر کرتے ہوئے رقمطراز ہیں:

’’احادیث کا مطالعہ اگر اور زیادہ گہری نظر سے کیا جائے اور ہم ان کا استعمال یہ سمجھتے ہوئے کریں کہ وہ کیا روح تھی جس کے تحت آنحضرتؐ نے احکامِ قرآن کی تعبیر فرمائی، تو اس سے ان قوانین کی حیاتی قدر و قیمت کے فہم میں اور بھی آسانی ہو گی جو قرآن پاک نے قانون کے متعلق قائم کیے ہیں۔ پھر یہ ان اصولوں کی حیاتی قدر و قیمت ہی کا پورا پورا علم ہے جس کی بدولت ہم اپنی فقہ کے بنیادی ماخذ کی ازسرنو تعبیر اور ترجمانی کر سکتے ہیں۔‘‘31

(۳) اجماع

فقہ اسلامی کا تیسرا بڑا ماخذ اجماع ہے۔ مولانا محمد حنیف ندوی اپنی کتاب ’’مسئلہ اجتہاد‘‘ میں اجماع کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ

’’اصطلاح کی رو سے اجماع اس سے تعبیر ہے کہ مجتہدین اور اربابِ حل و عقد آنحضرتؐ کے بعد کسی عصر و زمانہ میں کسی امرِ دینی پر متفق ہو جائیں ۔۔۔۔ جب کوئی مسئلہ مخصوص اسباب کی بنا پر ابھرے اور ائمہ و مجتہدین کے سامنے آئے تو اس کے فیصلہ میں اس دور کے مجتہدین و اربابِ اختیار میں اختلافِ رائے نہ پایا جاتا ہو۔‘‘32

علامہ کو اس بات پر افسوس ہے کہ ’’اجماع‘‘ باوجود اسلامی قانون سازی کا ایک بہت بڑا اور اہم ماخذ ہونے کے، علمی صورت اختیار نہ کر سکا۔ اقبال کے نزدیک اس کی وجہ یہ ہے کہ شروع اسلام میں مطلق العنان سلطنتیں قانون سازی کی مجالس کو اپنے سیاسی مفادات کے لیے خطرہ تصور کرتی تھیں۔ اقبال لکھتے ہیں کہ

’’اموی اور عباسی خلفاء کا فائدہ اسی میں تھا کہ اجتہاد کا حق بحیثیت افراد مجتہدین ہی کے ہاتھ میں رہے، اس کی بجائے کہ اس کے لیے ایک مستقل مجلس قائم ہو، جو بہت ممکن ہے انجام کار ان سے بھی زیادہ طاقت حاصل کر لیتی۔‘‘33

حضرت علامہؒ اس بات پر اطمینان کا اظہار کرتے ہیں کہ اب اسلامی ممالک میں مجالس قانون ساز اور جمہوریت   کا فروغ ہو رہا ہے اور اجماع کے لیے بہتر صورت پیدا ہو رہی ہے۔ اقبال موجودہ زمانہ میں اجماع کی ممکنہ صورت پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ

’’مذاہبِ اربعہ کے نمائندے جو سردست فردًا فردًا اجتہاد کا حق رکھتے ہیں، اپنا یہ حق مجالسِ تشریعی کو منتقل کر دیں گے۔ یوں بھی مسلمان چونکہ متعدد فرقوں میں بٹے ہوئے ہیں، اس لیے ممکن بھی ہے تو اس وقت اجماع کی یہی شکل۔ مزید برآں غیر علماء بھی، جو ان امور میں بڑی گہری نظر رکھتے ہیں، اس میں حصہ لے سکیں گے۔ میرے نزدیک یہی ایک طریقہ ہے جس سے کام لے کر ہم زندگی کی اس روح کو، جو ہمارے نظاماتِ فقہ میں خوابیدہ ہے، ازسرنو بیدار کر سکتے ہیں۔ یونہی اس کے اندر ایک ارتقائی مطمح نظر پیدا ہو گا۔‘‘34

اقبالؒ دورِ جدید میں ترکوں کی مثال دیتے ہیں جنہوں نے منصبِ اجتہاد کو افراد کی ایک جماعت بلکہ منتخب شدہ مجلسِ قانون ساز کے سپرد کر دیا۔ اقبال کے نزدیک ترکوں کا یہ اقدام قابلِ استحسان ہے، لیکن یہاں ایک خدشہ اقبال کے ذہن میں جنم لیتا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ جو افراد منتخب ہو کر اسمبلی میں آئیں اور قانون سازی کریں، وہ اسلامی اصول و قوانین سے نابلد  ہوں۔ چنانچہ اقبال کی نظر میں:

’’اس قسم کی مجالس شریعت کی تعبیر میں بڑی بڑی شدید غلطیاں کر سکتی ہیں۔ ان غلطیوں کے ازالے یا کم سے کم امکان کی صورت کیا ہو گی؟‘‘35

اقبال کے نزدیک اس قسم کی غلط تعبیرات کی روک تھام کا واحد طریقہ یہ ہے کہ علماء کا ایک مشاورتی بورڈ قائم کیا جائے جو اسمبلی کی معاونت اور رہنمائی کر سکے۔ اقبال لکھتے ہیں:

’’انہیں چاہیے، مجالسِ قانون ساز میں علماء کو بطور ایک مؤثر جزو شامل تو کر لیں، لیکن علماء بھی ہر امرِ قانون میں آزادانہ بحث و تمحیص اور اظہارِ رائے کی اجازت دیتے ہوئے اس کی رہنمائی کریں۔ بایں ہمہ شریعتِ اسلامی کی غلط تعبیرات کا سدباب ہو سکتا ہے تو صرف اس طرح کہ بحالتِ موجودہ بلادِ اسلامیہ میں فقہ کی تعلیم جس نہج پر ہو رہی ہے، اس کی اصلاح کی جائے۔ فقہ کا نصاب مزید توسیع کا محتاج ہے، لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ اس کے ساتھ ساتھ جدید فقہ کا مطالعہ بھی باحتیاط اور سوچ سمجھ کر کیا جائے۔‘‘36

(۴) قیاس

اقبالؒ کے نزدیک اجتہاد کا چوتھا اور آخری ماخذ قیاس ہے۔ قانون سازی میں مماثلتوں کی بنا پر استدلال سے کام لینا قیاس کہلاتا ہے۔ اقبال فرماتے ہیں:

’’چوتھا ماخذ قیاس ہے، یعنی قانون سازی میں مماثلتوں کی بنا پر استدلال سے کام لینا۔‘‘37

قیاس کرتے ہوئے اسلام کے بنیادی تقاضوں اور روح کو پیشِ نظر رکھا جاتا ہے اور ان کی روشنی میں نئے احکام اور اصول و قوانین مرتب کیے جاتے ہیں۔ قیاس کی تین صورتیں ہیں:

(۱) کوئی ایسا حکم جو قرآن مجید میں ہو، اس پر کسی دوسرے غیر مذکور حکم کو قیاس کرنا۔

(۲) کوئی ایسا حکم جو حدیث میں ہو، اس پر کسی غیر مذکور حکم کو قیاس کرنا۔

(۳) کوئی ایسا حکم جو اجماع سے ثابت ہو، اس پر قیاس کرنا۔

اقبال کا واضح نقطہ نظر یہ ہے کہ قیاس صرف اسی موقع پر عمل میں آئے گا جہاں قرآن، سنتِ رسولؐ اور اجماع رہنمائی نہ کرے۔ اقبال فرماتے ہیں کہ

’’قیاس کو ٹھیک ٹھیک سمجھ کر کام میں لایا جائے تو، جیسا کہ امام شافعی کا ارشاد ہے، وہ اجتہاد ہی کا دوسرا نام ہے۔ اور اس لیے نصوصِ قرآنی کی حدود کے اندر ہمیں اس کے استعمال کی پوری پوری آزادی ہونی چاہیے۔ پھر بحیثیت ایک اصولِ قانون اس کی اہمیت کا اندازہ صرف اس بات سے ہو جاتا ہے کہ بقول قاضی شوکانی زیادہ تر فقہاء اس امر کے قائل تھے کہ حضور رسالتمابؐ کی حیاتِ طیبہ میں بھی قیاس سے کام لینے کی اجازت تھی۔‘‘38

علامہؒ زندگی کو ایک مسلسل تخلیقی بہاؤ قرار دیتے ہیں۔ اس میں جمود، سکونت اور ٹھہراؤ نہیں بلکہ روانی، حرکت اور ارتقا اس کی فطرت ہے۔ اس لیے ہر زماں اپنے قانونی نظام کا ازسرنو جائزہ لینا اور اسے Reconstruct کرنا لازمی ہے۔ زندگی کے اندر بڑھنے اور پھلنے پھولنے کی وہی طاقت ہے جو بیج میں درخت بننے کی قوت ہوتی ہے۔ ڈاکٹر خالد مسعود اپنی کتاب ’’اقبال کا تصورِ اجتہاد‘‘ میں اجتہاد کے تصور کے حوالے سے رقمطراز ہیں:

’’یہ بحرِ حیات کی موجوں کا اضطراب ہے۔ رمِ زندگی ہے، ولولۂ شوق ہے۔ لذتِ پرواز ہے۔ جراتِ نمو ہے۔ یہ طوفانِ زندگی سے نبرد آزمائی کا عزم ہے۔ یہ تندیٔ باد مخالف کے تھپڑوں کا مقابلہ کرنے کا شاہینی شکوہ ہے۔ عزیمت کی راہ ہے۔ نغمۂ تارِ حیات ہے اور کشمکشِ انقلاب ہے۔‘‘39

گویا زندگی ہر دم منزلِ نو کی طرف گامزن ہے۔ جمود اور سکون اس کی سرشت میں نہیں۔ تغیر و ارتقا اس کے لیے وجۂ ثبات ہے۔ تو ضرورت ہے کہ رمِ آہو کی مانند ہر دم نئے راستوں اور راہوں پر گامزن حیاتِ مسلسل کے لیے کچھ ایسے ابدی اصول و قوانین ہوں جو زندگی کے تغیرات کی رہنمائی کر سکیں۔ حضرت علامہ اقبالؒ نے اپنے خطبہ ’الاجتہاد فی الاسلام‘‘ میں اسی امر کی طرف توجہ مبذول کروائی ہے۔ ان کا خیال ہے کہ اگر ہم جدید دور میں نئے حالات اور ماحول کی روشنی میں زندگی کو آگے بڑھانا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنے اندر اجتہادی فکر کا پیدا کرنا ازبس ضروری ہے۔ حضرت علامہ کا خطبہ ’’الاجتہاد فی الاسلام‘‘ ممالک اسلامیہ کے لیے ایک Guideline ہے جس سے استفادہ کر کے مسلمان نہ صرف اپنے آپ کو جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ کر سکتے ہیں بلکہ ترقی یافتہ قوموں کی صف میں اپنا ایک منفرد مقام بھی بنا سکتے ہیں۔


حوالہ جات

  1. ’’فکرِ اقبال‘‘ ص ۱۴۹ ۔ خلیفہ عبد الحکیم ۔ بزمِ اقبال، لاہور ( ۱۹۶۸ء) ۔
  2. ’’تشکیلِ جدید الٰہیات اسلامیہ‘‘ ص ۲۲۳ ۔ ترجمہ: سید نذیر نیازی ۔ بزمِ اقبال، لاہور (۱۹۸۶ء) ۔
  3. ’’فکرِ اسلامی کی تشکیلِ نو‘‘ ص ۱۵۱، ۱۵۲ ۔ پروفیسر محمد عثمان ۔ سنگ میل پبلیکیشنز، لاہور (۱۹۸۷ء) ۔
  4. ’’تشکیلِ جدید الٰہیاتِ اسلامیہ‘‘ ص ۲۲۷، ۲۲۸۔
  5. ایضاً ص ۲۲۸
  6. ایضاً۔
  7. ایضاً۔
  8. ’’فکرِ اسلامی کی تشکیلِ نو‘‘ ص ۱۵۳، ۱۵۴۔
  9. ’’تشکیلِ جدید الٰہیاتِ اسلامیہ‘‘ ص ۲۵۰۔
  10. ایضاً ص ۲۳۶۔
  11. ’’کلیاتِ اقبال‘‘ ۔ اقبالؒ ۔ شیخ غلام علی اینڈ سنز لاہور (۱۹۸۲ء)۔
  12. ’’مطالعۂ اقبال کے چند نئے رخ‘‘ ص ۱۲۱، ۱۲۲ ۔ ڈاکٹر سید عبد اللہ ۔ بزمِ اقبال لاہور (۱۹۸۲ء)۔
  13. ’’تشکیلِ جدید الٰہیاتِ اسلامیہ‘‘ ص ۲۵۱، ۲۵۲۔
  14. ’’اقبال نامہ‘‘ (حصہ اول) ص ۱۴۴ ۔ محمد اقبال ۔ مرتبہ: شیخ عطاء اللہ ۔ ناشر: شیخ محمد اشرف، لاہور۔
  15. ’’تشکیلِ جدید الٰہیاتِ اسلامیہ‘‘ ص ۲۳۶۔
  16. ایضاً ص ۲۳۷۔
  17. ایضاً ص ۲۳۹۔
  18. ایضاً ص ۲۴۸۔
  19. ایضاً۔
  20. ایضا۔ ص ۲۴۹۔
  21. ایضاً ص ۲۶۱، ۲۶۲۔
  22. ایضاً ص ۲۵۵، ۲۵۶۔
  23. ایضاً ص ۲۵۷۔
  24. ایضاً۔
  25. ایضاً ص ۲۵۷، ۲۵۸۔
  26. ایضاً ص ۲۶۴۔
  27. ایضاً ص ۲۶۵، ۲۶۶۔
  28. ایضاً۔
  29. ایضاً۔ ص ۲۶۶، ۲۶۷۔
  30. ایضاً۔
  31. ایضاً۔
  32. ’’مسئلہ اجتہاد‘‘ ص ۱۰۱، ۱۰۲ ۔ مولانا محمد حنیف ندوی ۔ ادارہ ثقافتِ اسلامیہ، لاہور (۱۹۸۳ء)۔
  33. ’’تشکیلِ جدید الٰہیاتِ اسلامیہ‘‘ ص ۲۶۷، ۲۶۸۔
  34. ایضاً ص ۲۶۸۔
  35. ایضاً ص ۲۷۰۔
  36. ایضاً ص ۲۷۱۔
  37. ایضاً۔
  38. ایضاً ص ۲۷۴۔
  39. ’’اقبال کا تصورِ اجتہاد‘‘ ص ۲۳۶ ۔ ڈاکٹر خالد مسعود ۔ مطبوعاتِ حرمت، راولپنڈی (۱۹۸۵ء)۔

شخصیات

(فروری و مارچ ۱۹۹۴ء)

تلاش

Flag Counter