عالمِ اسلام کے بارے میں امریکہ کے عزائم اور پاکستان کے داخلی معاملات میں بڑھتی ہوئی امریکی مداخلت کے خلاف ورلڈ اسلامک فورم نے علمائے کرام کے اجتماعات کے سلسلہ کا آغاز کر دیا ہے۔ اس سلسلہ میں پہلا علماء کنونشن ۲۶ دسمبر ۱۹۹۳ء کو مسجد باب الرحمت (پرانی نمائش، کراچی) میں مولانا فداء الرحمٰن درخواستی کی زیرصدارت منعقد ہوا جس میں کراچی کے مختلف حصوں سے علماء کرام کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ شیخ الحدیث مولانا محمد سرفراز خان صفدر مدظلہ العالی، خطیب اسلام مولانا محمد اجمل خان، مولانا اللہ وسایا، مولانا نظام الدین شامزئی اور سید سلمان گیلانی نے خطاب کیا۔ جبکہ مولانا محمد انور فاروقی نے اسٹیج سیکرٹری کے فرائض سرانجام دیے۔ کنونشن کا آغاز قاری مفتاح اللہ نے تلاوت کلامِ پاک سے کیا اور اس کے بعد ورلڈ اسلامک فورم کے چیئرمین مولانا زاہد الراشدی نے کنونشن کے اغراض و مقاصد پر مشتمل مندرجہ خطبہ استقبالیہ پیش کیا۔
استقبالیہ کلمات
قابلِ صد احترام علمائے کرام، مشائخ عظام و راہنمایانِ ملت!
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
میں ورلڈ اسلامک فورم کی طرف سے آپ سب بزرگوں کا شکرگزار ہوں کہ انتہائی مختصر نوٹس پر آپ حضرات اس اجتماع میں تشریف لائے، اللہ پاک آپ کو جزائے خیر سے نوازیں، آمین۔
حضراتِ محترم! آج کے اس علماء کنونشن کے دعوت نامہ سے آپ حضرات کو علم ہو چکا ہے کہ یہ اجتماع عالمِ اسلام اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے معاملات میں امریکہ کی بڑھتی ہوئی مداخلت اور اس کے روز افزوں منفی اثرات سے پیدا شدہ صورتحال کا خالصتاً دینی نقطۂ نظر سے جائزہ لینے کے لیے منعقد کیا جا رہا ہے اور اس کا مقصد صرف اور صرف یہ ہے کہ اکابر اہلِ علم علمائے حق کی تاریخی روایات کا تسلسل قائم رکھتے ہوئے اس نازک اور حساس مسئلہ پر شرعی اصولوں کی روشنی میں امتِ مسلمہ کی راہنمائی کریں تاکہ علماء اور دینی کارکن اس کی بنیاد پر اپنی آئندہ جدوجہد اور تگ و تاز کی راہیں متعین کر سکیں۔
راہنمایانِ قوم! علمائے حق کی تاریخ شاہد ہے کہ امت مسلمہ کو اجتماعی طور پر جب بھی بیرونی قوتوں کی دخل اندازی اور سازشوں سے سابقہ پڑا ہے، علمائے امت نے آگے بڑھ کر ملتِ اسلامیہ کی راہنمائی کی ہے۔ تاتاری یورش کے خلاف شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ کی جدوجہد، اکبر بادشاہ کے دینِ الٰہی کے خلاف حضرت مجدد الف ثانیؒ کا نعرۂ حق، مرہٹوں کی بڑھتی ہوئی یلغار کے مقابلہ میں حضرت امام ولی اللہ دہلویؒ کی مومنانہ تدبیریں، اور فرنگی استعمار کے تسلط کے خلاف حضرت شاہ عبد العزیز دہلویؒ کا فتوٰی جہاد علمائے حق کی اسی جدوجہد کے سنگ ہائے میل ہیں جو آج بھی اسلام کی بالادستی اور امتِ مسلمہ کی خودمختاری کی منزل کی طرف ہماری راہنمائی کرتے ہیں اور تاریخ کے اسی تسلسل کے ساتھ حال کا رشتہ جوڑنے کے لیے آپ حضرات کو اس کنونشن میں شرکت کی زحمت دی گئی ہے۔
زعمائے ملت! امریکہ جو اس وقت سب سے بڑی عالمی قوت اور اسلام کے خلاف کفر کی تمام قوتوں کا نقیب ہے، عالمِ اسلام میں دینی بیداری کی تحریکات کو سبوتاژ کرنے اور بے اثر بنانے کے لیے جو جتن کر رہا ہے وہ آپ جیسے اصحابِ دانش و فراست سے مخفی نہیں ہیں، اور اس کے یہ مقاصد اب کسی پر پوشیدہ نہیں رہے کہ
- عالمِ اسلام کے کسی ملک میں اسلامی نظریاتی حکومت قائم نہ ہونے پائے،
- کوئی مسلم ملک معاشی خود کفالت اور اقتصادی خودمختاری کی منزل حاصل نہ کر سکے،
- کوئی مسلم ملک ایٹمی توانائی سمیت دفاع کی کوئی جدید تکنیک مہیا نہ کر سکے،
- عالمِ اسلام کے اتحاد اور سیاسی یکجہتی کی کسی جدوجہد کو کامیابی سے ہمکنار نہ ہونے دیا جائے۔
اس مقصد کے لیے نہ صرف دنیائے کفر کی تمام قوتیں بلکہ عالمِ اسلام کی سیکولر لابیاں اور لادین قوتیں بھی امریکہ کے ساتھ شریکِ کار ہیں۔
اسی طرح اسلامی جمہوریہ پاکستان کے داخلی معاملات میں امریکہ کی مداخلت بھی اب کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں رہی۔ یہ مداخلت جو پاکستان کے قیام کے ساتھ ہی شروع ہو گئی تھی اب بڑھتے بڑھتے یہ کیفیت اختیار کر گئی ہے کہ پاکستان عملاً امریکہ کی نوآبادی بن کر رہ گیا ہے، اور اس کی قومی زندگی کے کسی بھی شعبہ میں امریکہ کی رضامندی کے بغیر اعلٰی سطح کا کوئی فیصلہ نہیں ہو پاتا۔ اس وقت عملی صورتحال یہ ہے کہ
- امریکہ نے پاکستان کی امداد کو ۱۹۸۷ء میں جن شرائط کے ساتھ مشروط کیا تھا، روزنامہ جنگ لاہور (۵ مئی ۱۹۸۷ء) میں شائع شدہ ایک رپورٹ کے مطابق ان میں قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے اور اسلامی اصطلاحات کے استعمال سے روکنے کے اقدامات واپس لینے کے علاوہ اسلامی قوانین کو انسانی حقوق کے منافی قرار دیتے ہوئے ان کے نفاذ سے باز رہنے کی شرائط بھی شامل ہیں، جن پر امریکہ بدستور قائم ہے اور پورا کرانے کے لیے مسلسل دباؤ ڈال رہا ہے۔
- ماہنامہ محقق لاہور (دسمبر ۱۹۹۳ء) کے انکشاف کے مطابق صدر جنرل محمد ضیاء الحق مرحوم نے آخری دور میں ’’شریعت آرڈیننس‘‘ جاری کیا تو امریکی حکومت نے اس قدر سخت باز پرس کی کہ حکومتِ پاکستان کو اس پر عملدرآمد نہ ہونے کی یقین دہانی کرانا پڑی اور امریکہ کو سرکاری طور پر مطلع کرنے کے علاوہ دنیا بھر کے پاکستانی سفارتخانوں کو بھی ہدایات جاری کی گئیں کہ وہ ان حکومتوں کو اس سے آگاہ کر دیں۔ اس کے ساتھ ہی سرکاری طور پر منظور کرائے جانے والے ’’شریعت بل‘‘ میں قرآن و سنت کی بالادستی سے حکومتی ڈھانچے اور سیاسی نظام کو مستثنٰی قرار دینے جانے پر اسلام آباد میں متعین امریکی سفیر نے کھلم کھلا جس طرح اطمینان کا اظہار کیا وہ اس سلسلہ میں امریکی پالیسیوں کے رخ کی واضح نشاندہی کرتا ہے۔
- پاکستان کو ایٹمی توانائی کے حصول سے روکنے اور اپنے دفاع کے لیے خاطرخواہ انتظام کے شرعی اور جائز حق سے محروم کرنے کے لیے امریکہ جو کچھ کر رہا ہے وہ آپ بزرگوں کے سامنے ہے، اور پاکستان کو اقتصادی طور پر محتاج اور اپاہج بنائے رکھنے کی امریکی پالیسی روزِ روشن کی طرح واضح ہے۔
- کشمیر کو تقسیم کر کے امریکی فوجی اڈہ بنانے کا منصوبہ منظرِ عام پر آ چکا ہے اور امریکہ نے ایک طے شدہ پالیسی کے تحت پاکستان کی فوج کو صومالیہ میں الجھا کر وہاں کی مسلم آبادی سے پاک فوج کو لڑانے اور افریقی مسلمانوں میں پاکستان کے خلاف نفرت پیدا کرنے کی راہ ہموار کی ہے اور اس کے اثرات بتدریج سامنے آ رہے ہیں۔
ان حالات میں آپ بزرگوں کو زحمت دی گئی ہے کہ اسلام کی بالادستی، عالمِ اسلام کے اتحاد، مسلمانوں کی خودمختاری، مذہبی آزادی اور قومی وقار کے تحفظ کے لیے امتِ مسلمہ کی راہنمائی فرمائیں اور دینی جماعتوں، علماء اور کارکنوں کے لیے ایک ایسا واضح لائحہ عمل متعین فرمائیں جو امریکی استعمار کے تسلط سے عالمِ اسلام اور پاکستان کی حقیقی آزادی کی جدوجہد کی دینی بنیاد ثابت ہو۔
میں ایک بار پھر تشریف آوری پر آپ سب بزرگوں کا شکرگزار ہوں، فجزاکم اللہ احسن الجزاء۔
مولانا مفتی نظام الدین شامزئی
اس کے بعد جامعۃ العلوم الاسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی کے استاذ الحدیث مولانا مفتی نظام الدین شامزئی نے خطاب کیا اور عالمِ اسلام کے حوالہ سے امریکی عزائم کا تفصیل کے ساتھ ذکر کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ عوام اور دینی حلقوں کو اس سلسلہ میں بیدار کرنے کی ضرورت ہے اور علمائے کرام کو اس مقصد کے لیے سب سے اہم کردار ادا کرنا ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ عالمِ اسلام میں اپنے ایجنٹوں اور لابیوں کے ذریعے فکری انتشار بپا کیے ہوئے ہے، اسلام کے اجتماعی نظام کے نفاذ میں رکاوٹ بنا ہوا ہے، دینی قوتوں کو منتشر رکھنا چاہتا ہے، کشمیر کو تقسیم کر کے وہاں اپنا فوجی اڈا قائم کرنے کے منصوبے بنا رہا ہے، پاکستان کے آئین میں بنیادی تبدیلیاں کر کے اسے ایک سیکولر ریاست کی حیثیت دینے کے درپے ہے، اور قادیانیت جیسے گمراہ گروہوں کی آبیاری کر رہا ہے۔ ان حالات میں اگر علماء نے اپنی ذمہ داری محسوس نہ کی اور مسلمانوں کو منظم و بیدار کرنے کی محنت نہ کی تو وہ اپنے دینی فرائض سے عہدہ برآ نہیں ہو سکیں گے۔
انہوں نے کہا کہ امریکہ افغانستان میں مستحکم اسلامی حکومت کے قیام میں رکاوٹ ہے، فلسطین میں تحریکِ آزادی کو کچلنے کے لیے یاسر عرفات سے سازباز کر چکا ہے، صومالیہ میں اپنے استعماری مقاصد کے لیے پاکستان کی فوج کو استعمال کر رہا ہے، اور عالمِ اسلام کے کسی ملک کو ایٹمی قوت کے طور پر نہیں دیکھنا چاہتا۔ یہ صورتحال علماء اور دانشوروں کے لیے لمحۂ فکریہ ہے اور انہیں آگے بڑھ کر اس سلسلہ میں امت مسلمہ کی راہنمائی کرنی چاہیے۔
مولانا اللہ وسایا
عالمی مجلسِ تحفظِ ختمِ نبوت کے مرکزی راہنما مولانا اللہ وسایا نے خطاب کرتے ہوئے امریکہ کی طرف سے قادیانیوں کی پشت پناہی اور پاکستان کے اندرونی معاملات میں امریکہ کی مداخلت کا تذکرہ کیا اور بتایا کہ پاکستان کی طرح بنگلہ دیش اور دیگر مسلم ممالک میں بھی امریکہ اپنے مقاصد کے لیے قادیانیوں کو آگے بڑھا رہا ہے اور ان کی پشت پناہی کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ امریکی عزائم کے بارے میں مولانا زاہد الراشدی نے جو تجزیہ کیا ہے وہ بالکل درست ہے اور وقت کی آواز ہے، اس لیے تمام دینی جماعتوں کو اس مہم میں ورلڈ اسلامک فورم کے ساتھ تعاون کرنا چاہیے۔
حضرت شیخ الحدیث مدظلہ
علماء کنونشن کے مہمانِ خصوصی شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر دامت برکاتہم نے خطاب کرتے ہوئے قرآن کریم کے اس ارشاد کا حوالہ دیا جس میں مسلمانوں کو ہدایت دی گئی ہے کہ یہودیوں اور عیسائیوں کو دوست نہ بنائیں اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان بیان کیا کہ یہودیوں اور عیسائیوں کو جزیرہ عرب سے نکال دو۔ انہوں نے فرمایا کہ اللہ رب العزت کو معلوم تھا کہ یہی وہ دو گروہ آئندہ چل کر مسلمانوں کے خلاف فریق بنیں گے اور مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کی سازش کریں گے اس لیے شروع میں ہی ان سے بچنے کی ہدایت فرما دی۔ لیکن ہم اس ہدایت پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے آج یہودیوں اور عیسائیوں کے شکنجے میں پھنسے ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ اس وقت عالمِ اسلام کے سب سے بڑے دشمن کے طور پر سامنے آیا ہے اور وہ مسلمانوں کو دینی اعتبار سے کچل دینا چاہتا ہے۔ اس لیے ہمیں امریکی سازشوں کے مقابلہ میں اپنے دینی تشخص کے تحفظ کے لیے جو کچھ بس میں ہو کر گزرنا چاہیے۔
انہوں نے فرمایا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جب آگ میں پھینکا گیا تو ایک بلبل اپنی چونچ میں پانی لے کر آگ پر پھینکتی رہی، اس کے اس عمل سے آگ نہ بجھ سکتی تھی لیکن اس کے جذبہ اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ محبت کا اس سے ضرور اظہار ہوتا ہے۔ ہمیں اس بلبل سے سبق حاصل کرنا چاہیے اور نتائج سے بے نیاز ہو کر اپنے فرض کی ادائیگی کے لیے اس مہم میں ہر ممکن حصہ ڈالنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ امریکی عزائم کو بے نقاب کرنے اور عالمِ اسلام کو اس کے خلاف منظم کرنے کے لیے خطباء کو زبان کی قوت، اہلِ قلم کو قلم کی قوت، اور اہلِ مال کو مال کی قوت استعمال کرنی چاہیے اور ایک دوسرے سے تعاون کر کے مہم کو منظم کرنا چاہیے۔
مولانا محمد اجمل خان
خطیبِ اسلام مولانا محمد اجمل خان نے کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے اکابر نے انگریزی استعمار کا مقابلہ کیا اور اسے شکست دی۔ امریکہ بھی اس کا جانشین ہے اور انہی مقاصد کو آگے بڑھانے کے لیے کام کر رہا ہے، اس لیے ہم اس کا بھی مقابلہ کریں گے اور عالمِ اسلام کے بارے میں اس کے مکروہ مقاصد کو پورا نہیں ہونے دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ مغرب انسانی حقوق اور جمہوریت کی بات کرتا ہے لیکن اس نے دوہرا معیار اختیار کر رکھا ہے۔ افغانستان کے عوام جب تک روس کے خلاف نبرد آزما تھے، انہیں مجاہدین کہا جاتا تھا۔ لیکن روس کے سامنے ہٹتے ہی اب افغان مجاہدین مغرب کی نظر میں دہشت گرد بن گئے ہیں اور امریکہ ان ’’دہشت گردوں‘‘ کی حکومت قائم ہونے میں مسلسل رکاوٹیں ڈال رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ امریکہ اور دوسرے مغربی ممالک نے بوسنیا، صومالیہ، فلسطین اور کشمیر بارے میں جو طرزعمل اختیار کر رکھا ہے اس سے ان کی جمہوریت پسندی اور انسانی حقوق کی قلعی کھل گئی ہے اور وہ اب زیادہ دیر تک دنیا کو دھوکہ نہیں دے سکتے۔ انہوں نے کہا کہ مغربی جمہوریت ایک غیر فطری نظام ہے جس نے انسانی معاشرہ کو اخلاقی انارکی سے دوچار کر دیا ہے، اس لیے ضروری ہے کہ اسلام کے عادلانہ نظام کو دنیا کے سامنے لایا جائے۔
اظہارِ تشکر
ورلڈ اسلامک فورم کے چیئرمین مولانا زاہد الراشدی نے علماء کنونشن میں شرکت پر اکابر علماء اور کراچی کے احباب کا، جبکہ میزبانی کے فرائض سرانجام دینے پر مجلسِ تحفظِ ختمِ نبوت کراچی کے راہنماؤں بالخصوص مولانا سعید احمد جلال پوری، مولانا محمد جمیل خان اور مولانا محمد انور فاروقی کا شکریہ ادا کیا۔