پاکستان کے بارے میں امریکی عزائم کی ایک جھلک
وزیر اعظم پاکستان کے نام کھلا خط

ڈاکٹر محمود الرحمٰن فیصل

السلام علیکم!

اتفاق سے آپ کی دوسری وزارتِ عظمٰی سیاستِ دوراں میں کچھ تیزی لانے کا باعث بنی ہے۔ یہ حکومت بنانے میں کامیابی کا شاخسانہ ہے کہ آپ نے انتخابات کو آزادانہ، منصفانہ اور شفاف قرار دیا ہے۔ اس سبب سے جہاں الیکشن کمیشن، فوج اور عدلیہ شکریہ کے مستحق قرار پائے ہیں وہاں سب سے زیادہ خراجِ تحسین نگران وزیر اعظم معین قریشی کو ملنا چاہیے جو آپ سے وزارتِ عظمٰی کے بدلہ میں پھولوں کا گلدستہ وصول کر کے سیدھے واشنگٹن واپس پہنچے، وہ اس مشن کی تکمیل کامیابی سے کر چکے تھے جسے پورا کرنے کے لیے انہیں درآمد کیا گیا تھا۔

قبل ازیں پاکستان کو امریکی نوآبادیاتی نظام (Neo-colonialism) کا حصہ سمجھا جاتا تھا اور امریکی سفیر کو یہاں وائسرائے بہادر کا درجہ حاصل تھا۔ لیکن اب بات اس سے کہیں آگے بڑھ چکی ہے اور انکل سام اپنے احکامات پر حرف بحرف عملدرآمد کرانے پر بضد ہے۔ نگران حکومت نے ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کی ریکوری ٹیم کا کردار ادا کیا۔ معین قریشی نے ایک تحلیل کنندہ (Liquidator) کی طرح پاکستان کی عوام کا خون نچوڑ کر سود کی رقم بدیشی آقاؤں کی خدمت میں پیش کر دی۔ امریکہ جن اقتصادی پابندیوں کے ذریعے ایران، لیبیا، عراق اور سوڈان کو نیچا دکھا کر عالمِ اسلام کو کمزور کرنے کا سلسلہ شروع کر چکا تھا، پاکستانی کرنسی کی قیمت کم کر کے وہی مقاصد حاصل کر لیے گئے۔ بنیادی ضروریاتِ زندگی کو مہنگائی کے ذریعے عام آدمی کی دسترس سے دور کر دیا گیا۔ پاکستانی باشندوں کو مقدمہ چلانے کے لیے امریکہ کے حوالے کر کے ملک کی عزت و ناموس کو نیلام کیا گیا۔ منشیات کے نام پر موت کی سزا کا آرڈیننس جاری کر کے ثابت کیا گیا کہ جو سزا امریکی شہریوں کو نہیں دی جا سکتی وہ پاکستان میں اس لیے نافذ کی گئی کہ یہ غلاموں کا ملک ہے، امریکی جنرل ہوور کو سیاچن جیسے علاقے کا دورہ کرایا گیا۔

نام نہاد عالمی مبصرین کی ٹیمیں بھی ایک سازش کے تحت پاکستان آئی تھیں۔ امریکی قانون ساز ادارے نے ۱۹۹۰ء سے ’’پاکستان کی امداد‘‘ کے ممبران سے یہ شرط عائد کر رکھی ہے کہ پاکستان کی اقتصادی امداد، فوجی امداد اور تعلیم و تربیت کے پروگرام اس شرط پر جاری رکھے جائیں گے کہ پاکستان میں انتخابات عالمی نگرانی میں (Internationally Monitored)  منعقد ہوں گے اور خصوصی عدالتیں ان کی راہ میں مزاحمت نہیں ہوں گی۔ یہی وجہ ہے کہ ان ٹیموں سے آزادانہ، منصفانہ اور شفاف انتخابات کے انعقاد کے سرٹیفکیٹ حاصل کیے گئے۔ یہ ملکی معاملات میں بیرونی مداخلت کی بہترین مثال تھی۔ صہیونی لابی کی اس سے بھی بڑی سازش پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو ختم (Roll back) کرنا ہے۔ عالمی نظامِ نو (نیو ورلڈ آرڈر) کی کامیابی کے لیے بھارت اور اسرائیل کے تعاون سے اس فریضہ کو سرانجام دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

فحاشی اور عریانی کا فروغ اخلاق باختہ مغرب کی اندھادھند پیروی سے ہو رہا ہے۔ یہودی گماشتے عیسائی دنیا کو فحاشی کا دلدادہ بنا کر اب باقی ماندہ اقوام کو بھی اسی دلدل میں گھسیٹ رہے ہیں تاکہ انہیں ناکارہ بنا کر اپنے دامِ پُرفریب میں لا سکیں اور اپنے نئے عالمی نظام کو دنیا پر مسلط کر سکیں۔ اگر اس کے حل کی طرف فوری توجہ نہ دی گئی تو ایڈز کی وبا مسلم ممالک کا رخ کرے گی۔

نفاذِ شریعت (Islamaization) سے دراصل اسلام کی نشاۃِ ثانیہ اور اس کا احیا مراد ہے۔ درباری ملاؤں کی تخمین و ظن سے دامن بچاتے ہوئے اسلام کے ازلی، ابدی اور آفاقی اصولوں پر مبنی نظام کا قیام ضروری ہے۔ آپ کی سابقہ کابینہ کے ایک اجلاس میں شرعی قوانین کو فرسودہ (Archaic) اور وحشیانہ (Barbaric) کہا گیا تھا جس کا نوٹس سپریم کورٹ نے بھی لیا۔ لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ آئندہ مغربی پراپیگنڈے سے متاثر ہوئے بغیر سابقہ روش کو خیرباد کہا جائے۔

آئین میں چند اسلامی دفعات نمائشی طور پر شامل کر دی گئی ہیں لیکن انہیں دیگر دفعات پر کوئی فوقیت نہیں دی گئی۔ وزارتِ قانون پر غیر اسلامی قوانین بنانے پر کوئی قدغن نہیں۔ یہ عوام پر چھوڑ دیا گیا ہے کہ وہ اگر فارغ ہوں تو اپنے وسائل خرچ کر کے ان غیر اسلامی قوانین کو وفاقی شرعی عدالت میں چیلنج کر سکتے ہیں۔ اگر عدالت انہیں غیر اسلامی قرار دے بھی دے تو حکومت حسبِ عادت سپریم کورٹ میں اپیل دائر کر دیتی ہے۔ سالہا سال کے بعد اگر فیصلہ ہو جائے تو سرکار کارپرداز معمولی ردوبدل کے بعد وہی قانون دوبارہ نافذ کر دیتے ہیں اور معترضین کو ایک بار پھر وفاقی شرعی عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے کا مشورہ دیتے ہیں۔

پارلیمنٹ کے اکثر ممبران بنیادی اسلامی تعلیمات سے نابلد ہوتے ہیں اور آرٹیکل ۶۲ اور ۶۳ کے تقاضے پورے نہ کرتے ہوئے بھی پارلیمان میں جا بیٹھتے ہیں۔ لہٰذا قوانین وہ نہیں بناتے، بلکہ وزارتِ قانون میں بیٹھا ہوا ایک ڈرافٹس مین تیار کرتا ہے۔ پارلیمنٹ کا کام صرف ان پر انگوٹھا لگانا ہوتا ہے۔ اتنے اہم معاملہ سے حکومت کا اغماض، غفلت شعاری کے زمرہ میں آتا ہے اور اس غیر ذمہ داری پر اسے معاف نہیں کیا جا سکتا۔

سب سے بڑی مثال سود کے بارے میں وفاقی شرعی عدالت کا فیصلہ ہے، جس پر عملدرآمد کرنے کی بجائے سابقہ حکومت اپیل میں چلی گئی۔ یہ فیصلہ راقم الحروف کی درخواست پر دیا گیا اور اب اس کی اپیل ’’وفاق پاکستان بنام ڈاکٹر محمود الرحمٰن فیصل‘‘ سپریم کورٹ میں سماعت کی منتظر ہے۔ سود کے خاتمہ کے لیے آئین میں موجود دفعات پر کاربند ہونے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔ تمام علماء، عامۃ الناس، دینی و سیاسی جماعتوں کے متفقہ مطالبہ کے باوجود اس فیصلہ کو من و عن تسلیم نہیں کیا گیا اور نہ سپریم کورٹ سے یہ اپیل واپس لی گئی۔ یہ سود کا وبال تھا جو سابقہ حکومت کی کشتی ڈبو گیا، اب گیند آپ کی کورٹ میں ہے، اللہ اور اس کے رسولؐ کے حکم کو پسِ پشت ڈالنا کسی طرح بھی آپ کے مفاد میں نہیں ہوگا۔ اس ضمن میں قرآن کی سرزنش ملاحظہ ہو:

’’اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور اگر تم مومن ہو تو باقی ماندہ سود کو ختم کر دو۔ اگر تم ایسا نہیں کرتے تو اللہ اور اس کے رسولؐ سے جنگ کے لیے تیار ہو جاؤ۔‘‘ (البقرہ ۲۷۸ و ۲۷۹)

سود کی ممانعت صرف دینِ اسلام میں ہی نہیں بلکہ دیگر آسمانی ادیان بشمول عیسائیت و یہودیت میں بھی سود کا لین دین منع ہے۔ لہٰذا اس ضمن میں معذرت خواہانہ رویہ اپنانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ جدید ماہرینِ معاشیات سود کے ظالمانہ نظام کی تباہ کاریوں سے واقف ہو چکے ہیں، اسی لیے لارڈ کینز نے دورِ حاضر میں صفر شرح سود (Zero Rate of Interest) کو مثالی قرار دیا ہے اور اس طرح سود کے خاتمہ کو اپنا آئیڈیل بنایا ہے۔ دنیا بھر میں پائی جانے والی غربت، مہنگائی، افراطِ زر اور معاشی ناہمواری سود کی مرہون منت ہے۔ ہر سال کی جانے والی خسارے کی سرمایہ کاری اور انڈیکیشن سود کی مرہون منت ہے۔ اس کا خاتمہ ہو جائے تو پوری دنیا سکھ کا سانس لے گی۔ اگر عالمی مالیاتی نظام مختلف ہے تو ہم اس کے پابند نہیں۔ ابتدا میں قربانی بھی دینا پڑے تو ایک نظریاتی مملکت ہونے کی بنا پر پاکستان کو اس سے گریز نہیں کرنا چاہیے۔

کشمیر کا مسئلہ انتہائی نازک معاملہ ہے۔ آپ کے انتخاب پر سب سے پہلے بھارتی وزیر اعظم نرسیماراؤ نے مبارکباد بھجواتے ہوئے کشمیر کے بارے میں مذاکرات کی پیشکش کی۔ بھارتی حکمران آپ کی حکومت سے کچھ زیادہ ہی توقعات وابستہ کیے ہوئے ہیں کیونکہ ماضی کا تجربہ ان کے سامنے ہے۔ بھارت نے اپنی بڑی کامیابی شملہ معاہدہ کی صورت میں پہلے ہی حاصل کر رکھی ہے، جس کی رو سے کشمیر کا مسئلہ کے حل کے لیے عالمی ادارے بشمول اقوامِ متحدہ مداخلت کے لیے مجاز نہیں ہیں۔

پاک فوج کا تشخص بہتر بنانے اور امیج بحال کرنے کی جانب کافی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ۱۹۷۱ء کے بعد آرمی کا مورال بلند کرنے کے لیے کوئی خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے گئے۔ جنرل ضیاء کے مارشل لاء کے بعد فوج کو سیاست میں ملوث کرنے کی پوری کوشش کی گئی اور اسے مستقل سیاسی کردار دیے جانے کی بات ہوئی۔ فوج کے ایک سربراہ کو آپ نے تمغۂ جمہوریت بھی دیا۔ آپ کی پارٹی کے پہلے دورِ حکومت میں سول مارشل لاء کی بدعت ڈالی گئی جس کے اثرات آمرانہ سول حکومت کی صورت میں سامنے آئے۔ جمہوریت ہنوز اس قابل نہیں ہو سکی کہ فوج کی مدد کے بغیر اپنے پاؤں پر کھڑی ہو سکے۔

خلیج کی جنگ کے تلخ تجربہ کے بعد اسلامی، آئینی اور اخلاقی تقاضوں کو بالائے طاق رکھ کر پاک فوج کو ایک مرتبہ پھر امریکی کمان میں صومالیہ میں اپنے ہی مسلمان بھائیوں کے خلاف لڑنے پر مجبور کر دیا گیا۔ امریکی صہیونی شاطروں نے صومالیہ میں پاک فوج کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا۔ ذرائع ابلاغ کے ذریعے اسے بدنام کیا، اور اپنے عالمی نظام کی توسیع اور سوڈان سمیت افریقہ کے مسلم ممالک میں اسلامی احیا کی تحریک کو روکنے کے لیے مہرے کے طور پر استعمال کیا۔ تقریباً سو فیصد مسلم آبادی والے ملک صومالیہ میں قحط زدگان کے لیے امدادی سرگرمیوں کو پسِ پشت ڈال کر وہاں کے سیاسی نظام میں مداخلت اور عوام کے قتلِ عام کا کوئی جواز نہیں تھا۔ خود امریکہ میں صومالیہ سے فوجیں واپس بلانے کا مطالبہ زور پکڑنے کے باوجود ہمارے اربابِ اختیار کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی۔ صومالیہ میں امریکی مداخلت کے عزائم مندرجہ ذیل تھے جو اس نے بڑی حد تک حاصل کر لیے ہیں:

(۱) اسلامی ملک صومالیہ کے حصے بخرے کرنا، (۲) بحیرہ احمر اور بحر ہند میں آبی راستوں کا کنٹرول حاصل کرنا، (۳) صومالیہ میں خام لوہے اور یورانیم کے ذخائر پر قبضہ کرنا، (۴) سوڈان میں مداخلت کے لیے راہ ہموار کرنا، (۵) بھارت کو اسرائیل کے اتحادی کی حیثیت سے صومالیہ کے معاملات میں لانا، (۶) پاکستان کے خلاف نفرت پیدا کرنا اور پاک فوج کو نقصان پہنچانا، (۷) دنیا بھر میں آئندہ فوجی مداخلت کے لیے جواز فراہم کرنا، (۸) عیسائی قوتوں اور حلیف مسلمانوں کو صومالیہ کی اسلامی ریاست تباہ کرنے کے لیے استعمال کرنا، (۹) صومالیہ کا تشخص اور اسلامی نظریہ تباہ کرنا، (۱۰) بڑی تعداد میں صومالی باشندوں کا انخلا اور ہجرت، (۱۱) اور عالمی اسلامی تحریک کو نقصان پہنچانا۔

ان حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومت کی اہم ذمہ دری یہ ہے کہ آئندہ کسی بھی فوجی مہم میں پاک فوج کو سوچے سمجھے بغیر ملوث نہ کیا جائے تاکہ اس کی کردارکشی کی نوبت نہ آئے۔ بوسنیا کے حالات اس امر کے زیادہ متقاضی تھے کہ افواج وہاں بھجوائی جاتیں۔

فلسطین کے حالیہ واقعات انتہائی تشویش کا باعث ہیں۔ یاسر عرفات کا اسرائیل سے معاہدہ کوئی معجزہ نہیں بلکہ ایک بزدلانہ اقدام ہے۔ یہ اسرائیل کے ہاتھوں فلسطین کو فروخت کر دینے کے مترادف ہے۔ یہ معاہدہ کم اور اعلامیہ زیادہ ہے۔ اسرائیل کی شروع سے کوشش تھی کہ اسے اپنے وجود کا جواز مل جائے۔ محدود پیمانے پر بلدیاتی اختیارات کے حصول کی اتنی بڑی قیمت ادا کرنے کے اہلِ فلسطین کبھی متحمل نہیں ہو سکتے۔ اسلامی ممالک کو یہ معاہدہ ہرگز تسلیم نہیں کرنا چاہیے۔ پاکستان، جس نے جلد بازی کا مظاہرہ کرتے ہوئے فلسطین کے لیے سفیر کا تقرر بھی کر دیا تاکہ اسرائیلی حدود میں سفارتخانہ کھولا جا سکے، امریکی دباؤ کا مظہر ہے۔ اسرائیل کو تسلیم کرنا یا اس کے ساتھ کسی قسم کے تعلقات رکھنا پاکستانی حکمرانوں کے لیے ناممکن ہو گا کیونکہ ایسا کرنا نظریۂ پاکستان کی نفی، قبلۂ اول سے غداری اور عالمِ اسلام پر یہودی تسلط کے مترادف ہے۔

پاکستانی سیاست میں وراثت اور تجارت کے داخلہ سے نظامِ حکومت جمود کا شکار ہے۔ سیاستدان اس ملک کو اپنے باپ کی جاگیر سمجھتے ہیں اور تجارت کرنے کے نظریہ سے سیاست میں آئے ہیں۔ وراثت کا عنصر اس قدر مضبوط ہے کہ اگر آپ بھٹو کی بیٹی نہ ہوتیں تو کبھی پاکستان کی وزیراعظم نہ بن سکتیں۔ یہاں لوگوں کی قدر و منزلت ان کی اہلیت کی بنا پر نہیں کی جاتی۔ نااہلی کا یہ حال ہے کہ صدر سے لے کر چپڑاسی تک کوئی بھی اپنی اہلیت یا میرٹ کی بنا پر اپنے عہدے تک نہیں پہنچا۔ ہمارے ہاں پائی جانے والی جمہوریت کا مغربی ایڈیشن بڑے پیمانے پر اصلاح طلب ہے۔ اگرچہ آپ دخترِ مشرق کہلاتی ہیں لیکن آپ کی تعلیم و تربیت آکسفورڈ اور ہارورڈ جیسے سکہ بند مغربی اداروں میں ہوئی ہے۔ تیسری دنیا کے ممالک کا یہ سب سے عظیم المیہ ہے کہ یہاں مغرب کی حکومت ہے۔

یہاں کی سیاست میں لوٹے، لفافے، ڈبے اور بریف کیس بھی شامل ہو چکے ہیں۔ آپ نے خود تسلیم کیا ہے کہ جمہوری نظام بجائے خود آخری منزل نہیں بلکہ حصولِ مقصد کی طرف ایک قدم ہے۔ الیکشن ۱۹۹۳ء میں ۶۵ فیصد عوام نے ووٹ نہ ڈال کر اس نظام سے بیزاری کا اظہار کر دیا ہے۔ چند فیصد ووٹ حاصل کرنے والے خود فیصلہ کریں کہ وہ جمہوری اصول کی بنیاد پر سو فیصد عوام کی نمائندگی کا حق ادا کر رہے ہیں اور کس مینڈیٹ کی بات کرتے ہیں۔ اکثریت کی حکومت کا اصول غلط ثابت ہو چکا ہے۔ نیز یہ انتخابات کسی قومی معاملہ (Issue)  کی بجائے شخصیات کی بنیاد پر منعقد ہوئے۔ لہٰذا یہ ثابت کرنا کہ نتائج سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کوئی ایشو نہیں، انصاف پر مبنی نہیں۔ ان انتخابات میں اسلامی جماعتوں کا حصہ لینا مناسب نہیں تھا۔ بعض اسلام پسندوں نے تیر بے ہدف (Misguided Missile) کا کام کیا لہٰذا الیکشن کا نتیجہ ان کے لیے تباہ کن ثابت ہوا۔ اسمبلیوں میں ہندسوں کا کھیل (Game of Numbers) شروع ہوا، کوئی بھی پارٹی تنِ تنہا حکومت بنانے کے قابل نہیں تھی۔ بات پھر وہیں ہارس ٹریڈنگ تک جا پہنچی۔ لہٰذا سپورٹس مین سپرٹ، اپوزیشن کو جائز مقام دینے، مخالفت برائے مخالفت نہ کرنے، اقتدار کی میوزیکل چیئر کا کھیل جاری نہ رکھنے، اکھاڑ پچھاڑ نہ کرنے کی بات اپنے آپ کو دھوکہ دینے کے مترادف ہے۔

موجودہ نظامِ انتخابات اور اس میں ہونے والے اسراف و تبذیر کے شیطانی عمل کو وفاقی شرعی عدالت غیر اسلامی قرار دے چکی ہے۔ لیکن حکومت حسبِ عادت اپیل میں چلی گئی اور اب تک اس فرسودہ نظام کو باقی رکھے ہوئے ہے۔ الیکشن کمیشن کے اختیارات محدود ہیں۔ آئینی تقاضے پورے کرنے کے لیے مناسب قانون سازی نہیں کی گئی۔ امیدوار کی تعلیمی اہلیت اور دیانتداری کا اعلیٰ معیار نہیں پرکھا جاتا۔ ووٹر کی صرف عمر کی حد مقرر کرنے کی بجائے اس کی ذہنی استعداد اور اخلاقی حالت کو جانچنا ضروری ہے۔ امیدوار کے علاوہ ووٹر کا معیار بھی مقرر کیا جائے۔ مزراعت، برادری اور سرداری نظام کے اثرات کو ختم کیا جائے۔ دھن، دھونس اور دھاندلی کے امکانات کا سدباب کیا جائے۔ انتخابی اخراجات امیدوار کے ذمہ نہ ہوں بلکہ اس کا تعارف ذرائع ابلاغ کے ذریعے الیکشن کمیشن کے زیرانتظام کرایا جائے۔ دور رس انتخابی اصلاحات کے بغیر موجودہ نظام جمہوری کہلانے کا مستحق نہیں۔ سیاسی نظام ہی نہیں بلکہ سماجی اور اقتصادی میدانوں میں بھی اسلامی بنیادوں پر انقلابی تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔

عارضی حدبندیوں کے ٹوٹنے اور نوعِ انسانیت کے قریب آجانے کی بنا پر آپ نے جس عالمی گاؤں (Global Village) اور نئے عالمی نظام کا ذکر کیا ہے وہ ظالمانہ صہیونی نظام میں جکڑا ہوا ہے۔ تیسری دنیا کے عوام کو اس میں ایک ’’پینڈو‘‘ سے زیادہ اہمیت حاصل نہیں ہے، بلکہ اقوامِ متحدہ کا روبہ زوال ادارہ بھی یہودی عزائم کی تکمیل کے لیے بنایا گیا ہے اور اسی کو وہ اپنی عالمی حکومت (World Government) کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ اس ادارہ میں مسلمان ممالک کی اکثریت کے باوجود انہیں ویٹو کا حق حاصل نہیں ہے۔ انسانی بنیادی حقوق کے اپنے ہی چارٹر کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اس نے متعدد ممالک پر اقتصادی پابندیاں عائد کر رکھی ہیں جن کے نقصان دہ اور مہلک اثرات بے گناہ عوام کو برداشت کرنا پڑتے ہیں۔ اس تناظر میں دنیا بھر کی مظلوم اقوام خصوصاً اسلامی ممالک کو اپنے لیے علیحدہ لائحہ عمل اور اپنے الگ عالمی ادارے قائم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ کرہ ارض کی یہ عظیم بستی واقعی انسانوں کے بسنے کے قابل بن سکے۔ اس ضمن میں پاکستان کیا کردار ادا کرتا ہے، اس کا انتظار ہے۔

آخر میں، میں آپ کے اس عندیہ کی جانب آتا ہوں جس میں امریکہ سے تعلقات کی بحالی کی خواہش ظاہر کی گئی ہے۔ امریکی حکمرانوں سے یہ توقع رکھنا کہ وہ کسی اسلامی ملک سے ہمدردانہ رویہ رکھیں گے، قطعاً عبث ہے۔ روس کے زوال کے بعد اب دنیا یکطرفہ ہو کر طاقت کا توازن کھو چکی ہے، طاقت کا یہ توازن اسلامی دنیا اپنے اتحاد کے ذریعے قائم کر سکتی ہے بشرطیکہ اس مقصد کے حصول کے لیے خلوص دل سے کام کیا جائے۔

والسلام، ڈاکٹر محمود الرحمٰن فیصل


(بشکریہ، ماہنامہ محقق لاہور ۔ دسمبر ۱۹۹۳ء)

پاکستان ۔ قومی و ملی مسائل

(فروری و مارچ ۱۹۹۴ء)

تلاش

Flag Counter