اسلام اور مغرب کی کشمکش ۔ برطانوی ولی عہد کی نظر میں

ادارہ

(آکسفورڈ (برطانیہ) میں اسلامی تعلیمات کے مطالعہ کا  مرکز ’’آکسفورڈ سنٹر فار اسلامک اسٹڈیز‘‘ کے نام سے مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی دامت برکاتہم کی سرپرستی اور نگرانی میں قائم ہے جس کے ڈائریکٹر معروف دانشور ڈاکٹر فرحان احمد نظامی ہیں جو برصغیر کے نامور محقق و مصنف جناب پروفیسر خلیق احمد نظامی کے فرزند اور صاحبِ فکر و بصیرت استاذ ہیں۔ برطانوی ولی عہد شہزادہ چارلس نے ستمبر ۱۹۹۳ء کے دوران اس سنٹر میں اسلام اور مغرب کے تعلقات کے حوالہ سے ایک تقریب میں مفصل خطاب کیا، ہم اس خطاب کا مکمل متن اور مصدقہ اردو ترجمہ حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جسے قارئین کی خدمت میں پیش کیا جائے گا، ان شاء اللہ العزیز، سرِدست ماہنامہ ترجمان القرآن لاہور میں اس کا شائع شدہ خلاصہ ادارہ ترجمان القرآن کے شکریہ کے ساتھ نذرِ قارئین ہے۔ ادارہ)

عالمِ اسلام اور مغربی دنیا کے درمیان روابط آج جتنی اہمیت رکھتے ہیں پہلے کبھی نہ رکھتے تھے۔ آج کی باہم منحصر دنیا میں دونوں کو ساتھ رہنے اور ساتھ کام کرنے کی ضرورت شدید ہے لیکن دونوں کے درمیان سنگین غلط فہمیاں موجود ہیں اور ان میں مسلسل اضافہ ہی ہو رہا ہے۔ ظاہر ہے کہ مغرب کی غلط فہمیوں کی وجہ اسلام اور مسلمانوں سے ناواقفیت نہیں، آخر مسلمان ہمارے ہی آس پاس رہتے ہیں، خود برطانیہ میں پانچ سو مسجدیں ہیں اور ۱۹۷۶ء کے ’’فیسٹیول آف اسلام‘‘ کی یادیں ابھی تازہ ہیں۔

نوے کے عشرے میں، سرد جنگ کے بعد، امن کے امکانات اس صدی میں کسی دوسرے دور سے زیادہ ہونا چاہیے تھے، لیکن ہم دیکھ رہے ہیں کہ سابق یوگوسلاویہ میں، صومالیہ، انگولا اور سوڈان میں، اور سابق سوویت جمہوریتوں میں نفرت اور تشدد نے لوگوں کو مصیبت میں مبتلا کر رکھا ہے۔ بوسنیا کے مسلمانوں پر خوفناک مظالم نے اس خوف اور بداعتمادی کو نئی زندگی دی ہے جو ہماری دو دنیاؤں کے درمیان پہلے سے موجود ہیں۔

کشمکش اور تنازع کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ دونوں فریق ایک دوسرے کی بات نہ سمجھ پا رہے ہوں۔ ہمیں باہمی خوف اور انتشار کے ایک نئے دور میں محض اس لیے نہ داخل ہو جانا چاہیے کہ حکومتیں، عوام، مذاہب اور مختلف طبقات ایک سکڑتی ہوئی دنیا میں پُراَمن زندگی گزارنے کی اہلیت نہیں رکھتے۔ جو مشترک امور اسلام اور مغرب کو قریب کرتے ہیں، وہ ان سے بہت زیادہ طاقتور ہیں جو دونوں کو دور کرتے ہیں۔ مسلمان، عیسائی اور یہودی اہلِ کتاب ہیں۔ اسلام اور عیسائیت ایک خدا پر، اس دنیاوی زندگی کے عارضی ہونے پر، اپنے اعمال کی جوابدہی پر اور اخروی زندگی پر یقین رکھنے میں یکساں ہیں۔ احترام، علم و عدل، محروموں سے حسنِ سلوک، اور خاندانی زندگی کی اہمیت ہماری مشترک اقدار ہیں۔ اپنی ماں اور اپنے باپ کی عزت کرنا، یہ قرآن کا بھی حکم ہے۔

مسئلہ کی ایک جڑ یہ ہے کہ ہماری چودہ سو سال کی تاریخ باہمی کشمکش اور تصادم کی تاریخ ہے۔ اس نے خوف اور بد اعتمادی کی ایسی روایت کو جنم دیا ہے کہ ہم تاریخ کو متضاد نقطۂ نظر سے دیکھتے ہیں۔ مغرب کے سکول کے طالب علموں کے لیے صلیبی جنگوں کے دو سو برس اس دلیرانہ جدوجہد کی داستان ہیں جو یورپ کے بچے بچے نے یروشلم کو ’’کافر‘‘ مسلمانوں سے آزاد کرانے کے لیے کی۔ لیکن مسلمانوں کے لیے صلیبی جنگیں مغرب کے ’’کافر‘‘ سپاہیوں کے ظلم و ستم اور لوٹ کھسوٹ کی داستان ہیں جس کی بدترین علامت وہ قتل و غارت ہے جو ۱۰۹۹ء میں اسلام کے تیسرے مقدس ترین شہر کو واپس لیتے ہوئے صلیبیوں نے برپا کی۔ ہمارے لیے مغرب میں ۱۴۹۲ء وہ اہم سال ہے جب کولمبس نے امریکہ کی نئی دریافت کی۔ مسلمانوں کے لیے یہ ایک المیہ کا سال تھا جب فرڈیننڈ اور ازابیلا کے آگے غرناطہ سرنگوں ہوا اور یورپ میں مسلمانوں کی آٹھ سو سالہ تہذیب کا خاتمہ ہوا۔ اصل مسئلہ یہ نہیں ہے کہ سچ کیا ہے، بلکہ یہ ہے کہ دنیا، اس کی تاریخ اور اس میں اپنے کردار کے بارے میں ہم دوسروں کا نقطۂ نظر نہیں سمجھ پاتے۔

اس کا یہ نتیجہ ہے کہ ہم ماضی میں اسلام کو فاتح کی حیثیت سے ایک خطرہ سمجھتے رہے، اور اب جدید دور میں اسے عدمِ رواداری، انتہا پسندی اور تشدد کا منبع تصور کرتے ہیں۔ یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ ۱۴۵۳ء میں جب قسطنطنیہ سلطان محمد کے آگے سرنگوں ہو گیا اور ۱۵۲۹ء اور ۱۶۸۳ء میں جب ترکی وی آنا کے دروازوں تک پہنچ گئے تھے تو یورپ کے حکمرانوں پر کیوں لرزہ طاری ہو گیا تھا۔ عثمانیوں کے دور میں بھی بلقان میں ظلم کی ایسی مثالیں سامنے آئیں جو مغرب کے شعور پر ثبت ہو گئیں، مگر یہ یکطرفہ نہ تھا۔ ۱۷۹۸ء میں مصر پر نپولین کے حملہ اور اس کے بعد انیسویں صدی کی فتوحات نے حالات کو پلٹ دیا، اور تقریباً تمام عرب دنیا مغربی طاقتوں کے استعمار کا شکار ہو گئیں۔ سلطنتِ عثمانیہ کے زوال کے ساتھ اسلام پر یورپ کی فتح مکمل ہو گئی۔

فتوحات کا دور تو گزر گیا لیکن اب بھی اسلام کے بارے میں ہمارا رویہ درست نہیں ہوا ہے۔ ہماری نظروں میں جو اسلام ہے وہ یہ ہے جسے انتہا پسندوں نے ’’اغوا‘‘ کیا ہوا ہے۔ مغرب میں ہم میں سے بیشتر، اسلام کو لبنان کی خانہ جنگی اور شرقِ اوسط کے انتہا پسند گروہوں کی جانب سے قتل اور بم پھینکنے کی وارداتوں، جسے اب عام طور پر اسلامی بنیاد پرستی کہہ دیا جاتا ہے، کے آئینہ میں دیکھتے ہیں۔ غیر معمولی انتہاؤں کو معمول قرار دے کر ہم نے اسلام کے بارے میں اپنی رائے کو مسخ کر دیا ہے، یہ بڑی سنگین غلطی ہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے ہم برطانوی معاشرے میں قتل، عصمت دری، نشہ بازی اور بچوں پر ظلم کے واقعات سے یہاں کی زندگی کے بارے میں رائے قائم کریں۔ انتہاؤں کا وجود کہاں نہیں ہوتا، لیکن اگر انہیں کسی معاشرے کے بارے میں فیصلہ کرنے کی بنیاد بنا لیا جائے تو حقائق مسخ ہو جاتے ہیں۔

مثال کے طور پر، اس ملک میں اکثر لوگ کہتے ہیں کہ ٍشرعی قوانین ظالمانہ ہیں، اور ہمارے اخبارات بھی ان تعصبات کو بہت شوق سے آگے بڑھاتے ہیں۔ حقیقت یقیناً اس سے بہت مختلف ہے۔ میرا خیال ہے کہ ہاتھ کاٹنے جیسے انتہائی اقدامات پر شاذ ہی عمل ہوتا ہے۔ اسلامی قانون کی روح اور راہنما اصول اگر قرآن سے براہ راست اخذ کیے جائیں تو ہمدردی اور انصاف ہونا چاہیے۔ اپنا فیصلہ دینے سے پہلے ہمیں ان کے عملی نفاذ کی صورتحال کے بارے میں بھی معلومات حاصل کرنا چاہئیں۔ اس وقت خود اسلامی دنیا میں زیر بحث ہے کہ اسلامی قانون کہاں تک آفاقی یا ابدی ہے، اور کہاں تک اس میں نفاذ کے حوالے سے تبدیلی اور ارتقا ہونا چاہیے۔ ہمیں اسلام اور بعض اسلامی ممالک کے رسوم و رواج میں بھی فرق کرنا چاہیے۔

مغرب کا ایک واضح تعصب اسلامی معاشرہ میں خواتین کے مقام کے حوالے سے ہے۔ حالانکہ مصر، ترکی اور شام نے سوئٹزرلینڈ سے بہت پہلے ہی عورتوں کو ووٹ کا حق دیا۔ چودہ سو سال پہلے قرآن نے خواتین کو جائیداد، وراثت، تجارت اور طلاق کی صورت میں بعض تحفظات کے حقوق دیے، خواہ ان پر ہر جگہ عمل نہ کیا گیا ہو۔ برطانیہ میں یہ حقوق میری دادی اور ان کے اہل خاندان کے لیے بھی نئے تھے۔ خالدہ ضیا اور بے نظیر بھٹو اپنے روایتی معاشروں میں اس وقت وزیراعظم بنیں جب برطانیہ کی تاریخ میں پہلی خاتون وزیراعظم کا انتخاب ہوا۔

اسلامی معاشرے میں عورت خودبخود دوسرے درجے کی شہری نہیں بن جاتی۔ بہت زیادہ قدامت پسند ملک میں عورت کے مقام کو دیکھ کر اسلامی معاشروں میں اس کے مقام کا اندازہ نہیں لگانا چاہیے۔ پردہ کا رواج بھی تمام اسلامی ممالک میں نہیں ہے۔ مجھے یہ جان کر حیرانی ہوئی کہ پردہ کی ابتدا بازنطینی اور ساسانی ادوار میں ہوئی، پیغمبرؐ اسلام کے دور سے نہیں۔ بعض مسلمان خواتین سرے سے پردہ نہیں کرتیں، بعض نے اسے ترک کر دیا ہے۔ حالیہ دور میں بعض نے، خصوصاً نوجوان نسل نے پردہ اختیار کیا ہے تو اپنی اسلامی شناخت کے اظہار کے لیے۔

ہمیں یہ بھی جاننا چاہیے کہ اسلامی دنیا ہمارے بارے میں کیا رائے رکھتی ہے۔ اگر ہم یہ جاننے سے انکار کر دیں کہ اسلامی دنیا یورپ کی مادی ثقافت کو اپنی اقدار اور طرزِ حیات کے لیے خطرہ تصور کرتی ہے تو اس سے ہمیں نقصان زیادہ اور فائدے کم ہوں گے۔ اسی طرح بعض اسلامی اقدار کے بارے میں یورپی لوگوں کے ردعمل کا اسلامی دنیا میں سمجھا جانا ضروری ہے۔

ہمیں بنیادی پرستی کے لیبل کے بارے میں بھی محتاط ہونا چاہیے۔ ہمیں احیائے اسلام کے ان علمبرداروں میں جو اپنے مذہب پر مکمل طور پر عمل کرنا چاہتے ہیں، اور ان جنونی انتہا پسندوں میں فرق کرنا چاہیے جو اس تعلق کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ احیائے اسلام کو تحریک درحقیقت اس احساس سے ملی ہے کہ مغرب نے جو کچھ مادی حوالے سے دیا ہے وہ ناکافی ہے اور حقیقی معنوں میں زندگی کو تسکین دراصل اسلامی عقیدہ ہی سے ملتی ہے۔ ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ انتہا پسندی کچھ مسلمانوں کے ساتھ ہی خاص نہیں ہے، عیسائیت سمیت یہ دوسرے مذاہب میں بھی موجود ہے۔ مسلمانوں کی عظیم اکثریت، جو ذاتی طور پر نیک ہے، سیاست میں معتدل روش اختیار کرتی ہے۔ پیغمبرِ اسلامؐ خود انتہا پسندی کو ناپسند کرتے تھے، یہ مذہب اعتدال کا مذہب ہے۔

ہماری تہذیب اور تمدن پر اسلامی دنیا کے جو احسانات ہیں ہم ان سے بڑی حد تک ناواقف ہیں۔ وسطِ ایشیا سے بحرِ اوقیانوس کے ساحلوں تک پھیلی ہوئی اسلامی دنیا علم و دانش کا گہوارہ تھی۔ لیکن اسلام کو ایک دشمن مذہب اور اجنبی تہذیب قرار دینے کی وجہ سے ہمارے اندر اپنی تاریخ پر اس کے اثرات کو نظرانداز کرنے یا مٹانے کا رجحان رہا۔ ہم نے اسپین میں مسلمانوں کی آٹھ سو برس کی تہذیب کی اہمیت کو محسوس نہیں کیا۔ مغرب میں احیائے تہذیب کی تحریک پر مسلم اسپین نے گہرے اثرات ڈالے۔ یہاں علوم کی ترقی سے یورپ نے صدیوں بعد تک فائدہ اٹھایا۔ دسویں صدی میں قرطبہ یورپ کا مہذب ترین شہر تھا۔ حکمران کی لائبریری میں موجود چار لاکھ کتب پورے یورپ کی لائبریریوں کی کتب کی تعداد سے زائد تھیں۔ یہ اس لیے ممکن ہوا کہ غیر مسلم یورپ سے چار سو سال پہلے مسلمانوں نے چین سے کاغذ بنانے کی مہارت حاصل کر لی تھی۔

جدید یورپ آج جن باتوں پر فخر کرتا ہے اس نے مسلم اسپین سے حاصل کیں۔ سفارت کاری، آزاد تجارت، کھلی سرحدیں، علمی تحقیق کے طریقے، ایٹیکیٹ، فیشن، ہسپتال، ادویات، سب کچھ اس عظیم شہر سے ہی آتے تھے۔ اپنے وقت میں اسلام رواداری کا مذہب تھا جس نے یہودیوں اور عیسائیوں کو ان کے عقائد کے مطابق عمل کی آزادی دی اور ایسی مثال پیش کی جس پر بدقسمتی سے کئی صدیوں تک یورپ عمل نہ کر سکا۔ یہ بات حیرتناک ہے کہ اسلام کو یورپ میں، پہلے اسپین میں اور پھر بلقان میں، اتنا طویل عرصہ دخل رہا۔ اس نے ہماری تہذیب کی تعمیر میں، جسے ہم اکثر غلطی سے صرف مغربی قرار دیتے ہیں، اپنا حصہ ادا کیا۔ دراصل اسلام ہمارے ماضی اور حال کا حصہ ہے، اس نے جدید یورپ کی تعمیر میں اپنا حصہ ادا کیا ہے، اسلام ہمارا ورثہ ہے۔

اس دنیا میں  مل جل کر رہنے کے لیے اسلام کے دامن میں وہ کچھ ہے جو اب عیسائیت کے پاس نہیں ہے۔ اسلام کا کائنات اور انسان کا تصور ایک جامع، ہمہ گیر تصور ہے جو زندگی کے ہر پہلو کا احاطہ کرتا ہے، اسلام میں پوری زندگی ایک اکائی ہے۔ مغرب کی ساری ترقی یک رخی ہے، اگر ہم نے زندگی کے ہمہ جہتی انداز کو نہ سمجھا تو ہو سکتا ہے کہ ہم اس دھارے میں بہہ جائیں جہاں ہمارا علم ہمیں محض کارِ جہاں سکھائے اور ہم دنیا کے حسن اور توازن کو بگاڑ دیں۔ دنیا کے بارے میں احساسِ مسئولیت اور اس کی نگرانی و بہبود کی ذمہ داری کا جو تصور اسلام نے دیا ہے، ہم مغرب میں اس سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ زندگی کے مادی اور روحانی پہلو میں جو توازن ہم کھو چکے ہیں وہ ہمیں دوبارہ حاصل کرنا ہے، یہ نہ ہوا تو ہم تباہی تک پہنچ جائیں گے۔

آج ہم رسل و رسائل و ابلاغ کی ایک ایسی دنیا میں زندگی بسر کر رہے ہیں جس کا تصور بھی ہمارے آباؤ اجداد نہ کر سکتے تھے۔ عالمی معیشت باہم منحصر ایک وحدت کی حیثیت سے کام کرتی ہے۔ معاشرہ کے مسائل، زندگی کا معیار، ماحول، یہ سب اپنے اسباب و نتائج کے حوالہ سے عالمی نوعیت اختیار کر چکے ہیں۔ ہم میں کوئی صرف خود انہیں حل نہیں کر سکتا۔

اسلامی اور مغربی دنیا کو مشترک مسائل کا سامنا ہے۔ ہم اپنے معاشروں میں آنے والی تبدیلیوں سے کس طرح اپنے آپ کو ہم آہنگ کرتے ہیں؟ ہم ان نوجوانوں کی کیا مدد کر سکتے ہیں جو معاشرہ کی اقدار اور والدین سے دور ہونے کا احساس رکھتے ہیں؟ ہم منشیات، ایڈز اور خاندانی نظام کے بکھر جانے کا کس طرح مقابلہ کرتے ہیں؟ ہمارے اندرون شہر کے مسائل قاہرہ اور دمشق کے مسائل کی طرح نہیں ہیں لیکن انسانی تجربات میں مماثلت ضرور ہے۔ منشیات کا بین الاقوامی کاروبار، اور ماحول کو ہم جو نقصان پہنچا رہے ہیں، یہ بھی ہمارے مشترک مسائل ہیں۔ جس طرح بھی ہو، ہمیں ایک دوسرے کو سمجھنا ہو گا۔ ہمیں اپنے بچوں کو درست تعلیم دینا ہو گی تاکہ ان کا نقطۂ نظر اور سوچ ہم سے مختلف ہو اور وہ ایک دوسرے کو سمجھیں۔ مشترک مسائل کے حل کے سلسلہ میں اسلامی اور مغربی دنیا ایک دوسرے سے الگ تھلگ نہیں رہ سکتے۔

ہمارے لیے یہ ممکن نہیں ہے اور نہ مناسب، کہ ماضی کی سیاست اور علاقائی تلخیوں کو دوبارہ زندہ کریں۔ ہمیں اپنے تجربات میں ایک دوسرے کو شریک کرنا ہو گا۔ باہم تبادلہ خیال کرنا ہو گا۔ ثقافتی ورثہ میں جو کچھ مشترک ہے اسے اپنانا ہو گا۔ ہمیں تدبر کی اہمیت کو محسوس کرنا ہو گا تاکہ ہمارے ذہن کشادہ ہوں اور دلوں کے قفل بھی کھلیں۔ یقیناً عالم اسلام اور مغرب ایک دوسرے سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ ایسا نہیں چاہیے کہ یہ دونوں ایک دوسرے سے الگ تھلگ رہیں، ضروری نہیں کہ ان میں تصادم ہو، اسلام اور مغرب ایک دوسرے کو بہت کچھ دے سکتے ہیں۔ ہم دونوں کو مل کر بہت کچھ کرنا ہے۔ باہمی نفرت کو ختم کرنے اور خوف و بد اعتمادی کی لعنت کو دور کرنے کے لیے ابھی بہت کچھ کیا جانا ہے۔ ہم اس راہ پر جتنا آگے بڑھیں گے آنے والی نسلوں کے لیے اتنی ہی بہتر دنیا بنا سکیں گے۔

عالم اسلام اور مغرب

(فروری و مارچ ۱۹۹۴ء)

تلاش

Flag Counter