اکیسویں صدی اور اسلام ۔ مغرب کیا سوچتا ہے؟

محمد عادل فاروقی

۲۱ ویں صدی کی اصل سپرپاور مسجد ہے یا گرجا؟ بلاشبہ یہ وہ نئی سرد جنگ ہے جو اب بھرپور انداز میں مشرق اور مغرب کے درمیان شروع ہو چکی ہے۔ اس جنگ کے اصل حریف مسلمان اور عیسائی ہیں۔ مغربی مفکر جان آسپوزیٹو نے اپنی نئی ریسرچ میں اسلام اور عیسائیت کی نئی محاذ آرائی کا ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ اب تقریباً تقریباً وہی حالات پیدا ہو چکے ہیں جو آج سے ۷۵ سال پہلے سلطنتِ عثمانیہ کے زوال کے وقت تھے۔ جس طرح سلطنتِ عثمانیہ کمزور ہوئی تھی اس طرح آج کلیسا پر زوال کے گہرے سائے پڑ چکے  ہیں۔ جان کا کہنا ہے کہ جس طرح اس زمانے میں مسلمانوں کو یقین نہیں آتا تھا کہ ان کا سورج ڈوبنے والا ہے، اس طرح آج عیسائی دنیا کو محسوس نہیں ہو رہا کہ ان کی پے در پے غلطیوں کے باعث عیسائی متعدد اداروں کو زوال آ رہا ہے۔

جان کی تحقیق کا مقصد عیسائیوں کو بتانا ہے کہ خلیجی جنگ اور اس علاقے کے اختلافات نے دراصل مسلمانوں کو اسی انداز میں سوچنے پر مجبور کر دیا ہے جس طرح صلیبی جنگوں کے وقت عیسائی سوچ رہے تھے۔ جان کا کہنا ہے کہ اب مسلمانوں کو بے وقوف خیال کرنا عیسائیت کی سب سے بڑی غلطی ہے کیونکہ اگر مسلمان ناسمجھ یا نادان ہوتے تو وہ ایٹم بنانے کی کوشش نہ کرتے۔ پاکستان، سعودی عرب اور دوسرے عرب اور اسلامی ممالک مسلمانوں کو متحد کرنے کے لیے اسلامی بم بنانے کے بارے میں عملی طور پر غور نہ کرتے۔ آج اگر پاکستان، عراق اور ایران نے ایٹمی میدانوں میں صلاحیتیں حاصل کی ہیں تو اس کی صرف ایک ہی وجہ تھی کہ عیسائی ممالک ان ملکوں کو پسماندہ ہی خیال کرتے رہے، حالانکہ ان ملکوں کے حالات خراب ضرور ہیں لیکن ان کے افراد دماغ اور ذہانت کے لحاظ سے پسماندہ نہیں۔

’’اسلامک تھرٹ‘‘ کے مصنف نادر جوزف نے کہا کہ آج کلیسا کے زوال کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ عیسائیت کا پرچار اسلامی تبلیغ کے مقابلے میں انسانوں کو مطمئن کرنے کے فائنل راؤنڈ میں جا چکا ہے۔

ویٹی کن پادریوں کا کہنا ہے کہ آج ہماری بدقسمتی کا عالم یہ ہے کہ ہم مسلم مبلغ احمد دیدات کے مقابلے میں کوئی مستند پادری نہیں لا سکے جو لوگوں کو مذہب کے بارے میں اس طرح مطمئن کرے جس طرح احمد دیدات کرتا ہے۔ پادری البرٹ کا کہنا ہے کہ عیسائیت کا اس سے بڑھ کر کیا نقصان  ہو گا کہ جہاں احمد دیدات عیسائیوں سے مناظرہ کرنے آتا ہے وہاں پادریوں کی شکست کے بعد پیدائشی عیسائیوں کی اکثریت اسلام قبول کر لیتی ہے۔ پادری البرٹ نے مغرب کو خبردار کیا ہے کہ اگر مغربی حکومتوں نے خود نوٹس نہ لیا تو امریکہ سمیت مغرب کے تمام بڑے بڑے ملکوں کے کٹر عیسائی باشندے، جو مغرب کی اصل طاقت ہیں، پادریوں کی نالائقی کے باعث دائرۂ اسلام میں داخل ہو جائیں گے۔

لندن کے معروف پادری فادر ملٹن کا کہنا ہے کہ روسی بٹوارے کے بعد امریکہ کے ورلڈ اسٹیج پر اکیلا رہ جانے سے مسلمان ’’دنیا‘‘ پر ہولڈ کرنے کی پوزیشن میں آتے جا رہے ہیں۔ فادر ملٹن نے واشنگٹن میں عیسائیوں کے بہت بڑے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے برطانیہ اور امریکہ پر تنقید کی کہ وہ سیکولر بننے کے چکر میں مسلمانوں کے مفادات پورے کر رہے ہیں۔ بین الاقوامی امداد اور اداروں کی خدمات عیسائیت والے ملکوں کو دینے کی بجائے اسلامی ملکوں کو دے رہے ہیں۔ فادر ملٹن نے آبدیدہ ہوتے ہوئے کہا کہ اگر امریکہ پاکستان، ایران اور سعودی عرب کو دفاع کے لحاظ سے تکنیکی امداد نہ دیتا تو آج یہ ملک مغرب کو آنکھیں دکھانے کی پوزیشن میں نہ آتے۔ فادر ملٹن نے تو اسلامی بم بننے کا ذمہ دار بھی امریکہ اور دوسری مغربی سپر طاقتوں کو قرار دیا ہے۔

ایک برطانوی ریٹائرڈ جرنیل نے، جس نے اپنا نام ظاہر نہیں کیا، ایک بین الاقوامی میگزین میں مسلم اور عیسائی طاقت کا موازنہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ پاکستانی، اردنی، مصری اور ۔۔۔۔۔۔۔ برطانیہ نے ترتیب دے کر خود اپنے پاؤں پر کلہاڑی دے ماری ہے۔ جرنیل نے لکھا ہے کہ لوگ جب اپنی افواج کی مقتدر حیثیت میں  آتے تو ان ملکوں کی بنیاد پرست حکومتوں کے اشارے پر یہ امریکہ اور برطانیہ کے سکھائے ہوئے طریقوں سے ہی انہیں ’’خرچ‘‘ کرنے میں کسی قسم کی ہچکچاہٹ کو محسوس نہیں کریں گے۔ جرنیل نے اپنے تجزیے میں لکھا ہے کہ اسلامی دنیا میں جہاد، شہادت اور غازی کا جذبہ ایسی طاقت ہے جس کا مقابلہ آسانی سے صلیبی نشان رکھنے والے نہیں کر سکتے۔ جرنیل نے اپنے مشاہدے کے تجربات لکھتے ہوئے کہا ہے کہ جس طرح مسلمانوں کے فوجیوں کو میدانِ جنگ یا فوجی نوعیت کے مقامات پر ڈیوٹی کے دوران مرنے کا شوق ہے اس طرح کا شوق عیسائی فوجیوں میں نہیں۔ عیسائی فوجی صرف ہتھیار اور صلاحیت پر یقین رکھتے ہیں جبکہ اسلامی فوجی جذبات کو ہتھیار اور صلاحیت پر فوقیت دیتے ہیں اور یہ چیز جنگوں میں فتح دلاتی ہے۔

غیر ملکی جریدے رائزے ویسٹ نے اپنے مارچ کے شمارے میں ایک پورا ایڈیشن اسلامی گوسٹ ’’اسلامی بھوت‘‘ کے نام سے شائع کیا ہے جس کا نچوڑ یہ ہے کہ اس صدی میں مغرب والوں کو ہتھیار بنانے، اسلحہ بڑھانے، ایٹم بم مارنے یا عالمی سیاست کرنے کی بجائے مسلمانوں کی ایٹمی طاقت کو فورًا دبانے کے لیے ہنگامی نوعیت کے اقدامات کرنے چاہئیں۔

جریدے یو ایس نیوز نے اپنے ایک حالیہ شمارے میں عیسائیت کو خبردار کرتے ہوئے اپنے اداریے اور مضامین میں کہا ہے کہ پاکستان، ایران، عراق، مصر، اردن اور عرب ممالک کی آج کی فوجی طاقت کسی وقت بھی اچانک بپھر کر سارے یورپ میں عیسائیت کے پچھلے اقتدار کا فیوز اڑا سکتی ہے۔

غیر ملکی اخبارات میں عیسائی مشنریوں کے شائع ہونے والے تبلیغی اشتہاروں سے حاصل ہونے والے مواد میں صاف صاف لفظوں میں لکھا گیا ہے کہ مسلمانوں میں پڑی پھوٹ کو ختم کرنے کی بجائے عیسائیوں کو خود کو متحد اور مضبوط کرنا ہو گا ورنہ اسلام کے جنونی کچھ عرصہ بعد دنیا میں اپنا اقتدار قائم کر لیں گے۔

دی ڈیلی انڈیپینڈینٹ نے اپنے مارچ کے ایک روزنامے میں مسلم عیسائی طاقت کا موازنہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ چند برسوں میں جو عالمی سطح پر تبدیلیاں ہوئی ہیں وہ زیادہ تر مسلمانوں کے فائدے میں جا رہی ہیں۔ اس نے عیسائی لوگوں کو مشورہ دیا ہے کہ وہ مسلمانوں کو اب نظرانداز کرنے کا انداز چھوڑ دیں اور مسلمانوں کی اصل ترقی کے محرکات کے بارے میں غور کریں اور دیکھیں آج کل مسلمان پھر سے کیسے سر اٹھا رہے ہیں۔

سی آئی اے نے بھی اپنی حالیہ رپورٹ میں واضح طور پر یہ کہہ دیا ہے کہ امریکی مفادات کو سب سے بڑا خطرہ اسلامی بنیاد پرستی سے ہے۔ سی آئی اے نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ اب صدام اتنا خطرناک نہیں رہا جتنا خطرناک مجاہدین کی تحریکوں میں حصہ لینے والے مسلمان ہیں۔

ایک اور اہم مغربی مفکر جان لیفن نے اپنی تحقیقی کتاب ’’دی ڈینجر آف اسلام‘‘ کے بعد انکشاف کیا ہے کہ مغربی دانشور مسلمانوں کی موجودہ سیاسی اور مذہبی قیادت کو نہ سمجھ کر بہت بڑی غلطی کر رہے ہیں۔ لیفن نے کہا کہ اب کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں رہی کہ لیبیا، سعودی عرب، ایران اور پاکستان اس وقت اسلامی بنیاد پرستوں کی نمائندگی کر رہے ہیں کیونکہ کشمیر، افغانستان، بوسنیا اور جہاں جہاں بھی مسلمان آزادی کے لیے لڑ رہے ہیں، ان ملکوں کے باشندے ہی زیادہ تر وہاں خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔۔۔ سپوزیٹو کے حوالے سے اخبار لکھتا ہے کہ مسلمان ممالک اور اسلامی تحریکیں اب دقیانوسی طور طریقے چھوڑ کر جدید انداز میں اپنے مفادات کو حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اب اسلامی تحریکیں مذہبی نعروں کی بجائے جمہوری، معاشی اور سیاسی سہولتوں کا فائدہ دے کر اپنے لوگوں کو اسلام کے پھیلانے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ مغرب میں سیکولرازم کا زبانی جمع خرچ ہو رہا ہے جبکہ عملی طور پر سیکولرازم اسلامی ممالک اختیار کر رہے ہیں۔ جس کی وجہ سے اسلامی ملکوں کی غیر مسلم اقلیتیں بھی عیسائیت سے آخری جنگ میں مسلمانوں کا ساتھ دیں گی۔۔۔۔ سپوزیٹو کا کہنا ہے کہ اسلام کی کامیابی صرف اور صرف ایک نکتہ میں ہے کہ اسلام میں عیسائیت کے مقابلے میں موجودہ حالات و واقعات کے مطابق خود کو تبدیل اور جدید رجحان اپنانے کی بے پناہ صلاحیت ہے۔ شاید اسی وجہ سے آئندہ صدی میں عیسائیت اسلام سے مات کھا جائے گا۔

ویسٹ ورلڈ نامی جریدے نے لکھا ہے کہ دراصل صدر بش نے خلیجی جنگ میں اپنی تھانیداری دکھا کر درحقیقت گرجے کو کمزور اور مسجد کو مضبوط کیا ہے۔ وہ امریکی فوج جس کے بارے میں ساری اسلامی دنیا ڈرتی رہتی تھی، اس کو اسلامی دنیا کے فوجیوں میں مکس کر کے اسلامی فوجیوں کو بتا دیا کہ امریکی فوج اصل میں کتنے پانی میں ہے اور آئندہ کبھی جنگ ہوئی تو اس فوج کو کیسے شکست دینی ہے۔ ویسٹ ورلڈ نے کہا کہ صدر کلنٹن بھی بش کی پالیسی اپنائے ہوئے ہیں۔

مسلمانوں کی اقتصادی اور معاشی صورتحال کے بارے میں تجزیہ کرتے ہوئے ’’اکنامک‘‘ غیر ملکی جریدے نے لکھا ہے کہ گزشتہ دس سالوں کے دوران مسلم اور عرب ممالک نے مغرب کی پالیسیوں کو اختیار کر کے اپنی دولت کے استعمال سے مکمل آگاہی حاصل کر  لی ہے، جو اب آئندہ سالوں میں مغرب کو اقتصادی موت دینے کے مترادف ہو گا۔

مغربی تاریخ دان مائیکل ہورن ہائے کا کہنا ہے کہ اب فطرت اور قدرتی طور پر بننے والے حالات و واقعات، وہ تمام علاقے جو عیسائی دنیا نے فراڈ سے اسلامی دنیا سے چھین لیے تھے، لوٹا رہی ہے۔ اس کی مثال اس نے وسطی ایشیائی ریاستوں سے دی۔ افغانستان، بوسنیا اور وسطی ایشیائی ریاستوں میں جیسے جیسے اسلامی بنیاد پرست مستحکم ہوتے گئے ویسے ویسے وہ عیسائی دنیا کو اپنے نرغے میں لیتے جائیں گے۔ مائیکل نے عیسائیوں اور مسلمانوں کے موجودہ حالات کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اب عیسائیوں میں وہ تمام قباحتیں آ چکی ہیں جو مسلمانوں کے دنیائے عالم سے اقتدار مٹانے کا سبب بنی تھیں۔

تقریباً تمام غیر ملکی جرائد گزشتہ چھ ماہ سے اپنے اداریوں اور مضامین میں یہ دہائی دینے لگ پڑے ہیں کہ کلیسا اور حکومتی ایوانوں میں عورتوں کو مقتدر حیثیت دے کر عیسائیوں نے گرجے کی بنیادی خود کھوکھلی کر دی ہیں۔

’’دی رائزنگ ہیرلڈ‘‘ نے اپنے فروری کے ایشو میں لکھا ہے کہ اسلامی ممالک کو ان کے ایٹمی پروگراموں سے باز نہ رکھنے میں ناکامی نے جنگ سے پہلے ہی مغرب کو شکست اور مشرق کو فتح دلائی ہے۔ رائزنگ نے مسلم دنیا کو اوپر اٹھانے کا کریڈٹ شاہ فیصل مرحوم، ذوالفقار علی بھٹو مرحوم، شہنشاہ ایران، صدر اسحاق، امام خمینی، کرنل قذافی، صدام حسین اور ڈاکٹر قدیر کو دیا ہے اور ان کی تصاویر بھی شائع کی ہیں۔

(بشکریہ ’’جنگ‘‘ لندن ۔ ۱۴ اکتوبر ۱۹۹۳ء)

عالم اسلام اور مغرب

(فروری و مارچ ۱۹۹۴ء)

تلاش

Flag Counter