امریکی عزائم: ورلڈ اسلامک فورم کے زیر اہتمام دوسرا علماء کنونشن

ادارہ

عالمِ اسلام کے بارے میں امریکہ کے منفی عزائم اور پاکستان کے داخلی معاملات میں بڑھتی ہوئی امریکی مداخلت کے خلاف رائے عامہ کو ہموار اور منظم کرنے کی غرض سے ورلڈ اسلامک فورم کے زیر اہتمام علماء اور دینی کارکنوں کا دوسرا کنونشن ۱۲ جنوری ۱۹۹۴ء کو مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ میں منعقد ہوا جس میں موسم کی خرابی کے باوجود علماء اور کارکنوں کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی۔ کنونشن کی پہلی نشست کی صدارت پیر طریقت حضرت مولانا سید نفیس الحسینی مدظلہ العالی نے کی اور دوسری نشست شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر دامت برکاتہم کی زیرصدارت منعقد ہوئی۔ کنونشن سے ورلڈ اسلامک فورم کے چیئرمین مولانا زاہد الراشدی کے علاوہ مولانا عبد الحمید قریشی، علامہ محمد احمد لدھیانوی، ڈاکٹر غلام محمد، ماسٹر عنایت اللہ اور دیگر حضرات نے بھی خطاب کیا اور شاعرِ اسلام سید سلمان گیلانی نے اپنے پرجوش کلام سے حاضرین کو گرمایا۔

کنونشن میں رتہ دوہتڑ توہینِ رسالت کیس کی تازہ ترین صورتحال کا بھی جائزہ لیا گیا اور اس سلسلہ میں بیرونی لابیوں اور بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کے اس پروپیگنڈا کو بے بنیاد قرار دیا گیا کہ یہ کیس ذاتی دشمنی کی بنیاد پر قائم کیا گیا ہے۔ شرکاء کو بتایا گیا کہ گوجرانوالہ کے علماء کی قائم کردہ ’’تحفظ ناموس رسالت ایکشن کمیٹی‘‘ کے سیکرٹری ڈاکٹر غلام محمد اور مولانا علی احمد جامی نے خود مذکورہ گاؤں رتہ دوہتڑ جا کر واقعات کی انکوائری کی ہے اور علاقہ کے عوام نے اس بارے میں مغربی میڈیا کے پروپیگنڈے کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے تصدیق کی ہے کہ کیس میں گرفتار ملزمان نے مبینہ طور پر جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شانِ اقدس میں شرمناک گستاخی کا ارتکاب کیا ہے۔ کنونشن میں فیصلہ کیا گیا کہ کیس کے ملزمان کی ضمانت پر رہائی کے خلاف ہائی کورٹ کے فل بینچ سے اپیل کی جائے گی اور لاہور کی سطح پر کیس کی پیروی کے لیے لاہور کے علمائے کرام کا ایک اجتماع بہت جلد منعقد کیا جائے گا۔

کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے شیخ الحدیث مولانا محمد سرفراز خان صفدر نے کہا کہ قرآن کریم نے یہود و نصارٰی کے ساتھ مسلمانوں کی دوستی کو نقصان دہ قرار دیا ہے اور اس سے منع کیا ہے، لیکن ہم نے اس حکمِ خداوندی کو نظرانداز کرتے ہوئے دوستی کے تعلقات قائم کیے جس کا خمیازہ آج ہم یہ بھگت رہے ہیں کہ پورا عالمِ اسلام یہودیوں اور عیسائیوں کی معاندانہ سازشوں میں جکڑا جا چکا ہے اور دنیائے کفر کی قیادت کرتے ہوئے امریکہ مسلمانوں کے خلاف کھلم کھلا اقدامات میں مصروف ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے اکابر نے برطانوی استعمار کے تسلط کے خلاف آزادی کی جنگ لڑی تھی اور انہی کی قربانیوں کے نتیجہ میں برصغیر آزاد ہوا ہے لیکن آج برطانیہ کا جانشین امریکہ دوستی کے پردے میں ہم پر غلامی مسلط کر چکا ہے۔ اس لیے ہماری ذمہ داری ہے کہ اکابر کے مشن اور روایات کو زندہ کرتے ہوئے امریکی تسلط کے خلاف جدوجہد کریں۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت عالمِ اسلام میں اسلام کے احکام کے عملی نفاذ میں سب سے بڑی رکاوٹ موجودہ حکمران طبقہ ہے جو مغربی نظامِ تعلیم کا پروردہ ہے اور مغرب کے مفادات کا محافظ ہے۔ اس کے سامنے جب حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کے دورِ حکومت کی مثال پیش کی جاتی ہے اور خلفائے راشدین کی سادگی اور قناعت کا ذکر کیا جاتا ہے تو اس طبقہ کو اپنا موجودہ طرز زندگی اور مفادات خطرہ میں دکھائی دیتے ہیں اور وہ اپنے تعیش اور طبقاتی مفادات کو بچانے کے لیے نفاذِ اسلام کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کرتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ آج یہ کہا جاتا ہے کہ اسلام کے نفاذ کی راہ میں فرقہ واریت حائل ہے، یہ بات درست نہیں ہے، اس لیے کہ فرقہ وارانہ اختلافات اسلام کے نفاذ کے مسائل پر نہیں ہیں، اور اس لیے بھی کہ یہ فرقہ واریت تو صرف برصغیر کے ممالک میں ہے اور اگر یہی نفاذ اسلام میں رکاوٹ ہے تو دنیا کے بیشتر مسلم ممالک جہاں فرقہ واریت نہیں ہے وہاں اسلام کیوں نافذ نہیں ہو رہا ہے؟ حالانکہ بعض مسلم ممالک کا تو یہ حال ہے کہ وہاں علمائے کرام جمعہ کا خطبہ بھی حکومت کی مرضی کے بغیر نہیں دے سکتے، لیکن اسلام وہاں بھی مکمل طور پر نافذ نہیں ہے۔ اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ نفاذ اسلام کی راہ میں فرقہ واریت نہیں بلکہ حکمرانوں کے مفادات حائل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ علماء کی ذمہ داری ہے کہ وہ معاشرہ میں اسلام کے احکام کے نفاذ کے لیے پرخلوص جدوجہد کریں اور اس سلسلہ میں جو کچھ ان کے بس میں ہے اس سے گریز نہ کریں۔

حضرت شیخ الحدیث مدظلہ نے رتہ دوہتڑ کیس اور پاکستان کے داخلی معاملات میں امریکی مداخلت کا بطور خاص ذکر کیا اور علمائے کرام پر زور دیا کہ وہ اس سلسلہ میں امریکی عزائم کو بے نقاب کرنے کے لیے محنت کریں اور عوام کو ذہنی طور پر اس کے لیے تیار کریں۔

مولانا زاہد الراشدی نے کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ کے نیو ورلڈ آرڈر کا مقصد عالمِ اسلام کو سیاسی وحدت اور نفاذِ اسلام سے روکنا ہے، اور مغربی ممالک متحد ہو کر امریکہ کی قیادت میں ملتِ اسلامیہ کو نظریاتی استحکام، معاشی خود کفالت، ایٹمی توانائی اور سیاسی وحدت کی منزل سے دور رکھنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ ایک طرف انسانی حقوق کا واویلا کر رہا ہے اور دوسری طرف مسلم ممالک کو ایٹمی توانائی سے محروم رکھنا چاہتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ فلسطین، کشمیر، صومالیہ اور بوسنیا میں مغربی ممالک کا دوہرا کردار سامنے آ چکا ہے اور انہیں ان خطوں کے مظلوم مسلمانوں کے انسانی حقوق دکھائی نہیں دے رہے۔ انہوں نے کہا کہ ورلڈ اسلامک فورم نے امریکہ کے عزائم اور کردار کو بے نقاب کرنے کے لیے ملک کے مختلف شہروں میں علماء اور دینی کارکنوں کے اجتماعات کا سلسلہ شروع کر دیا ہے جو مسلسل جاری رہے گا، اور ہم جماعتی سیاست اور انتخابی سیاست سے الگ تھلگ رہتے ہوئے رائے عامہ کو امریکی عزائم کے خلاف منظم کرنے کی جدوجہد جاری رکھیں گے، ان شاء اللہ تعالیٰ۔

اخبار و آثار

(فروری و مارچ ۱۹۹۴ء)

تلاش

Flag Counter