مولانا عبید اللہ سندھیؒ ہماری قومی زندگی کی ایک بلند پایہ شخصیت اور ملتِ اسلامیہ ہند و پاکستان کا سرمایہ افتخار تھے۔ انہوں نے لیلائے وطن کی آزادی کے عشق میں اور ملتِ اسلامیہ کی سرخروئی کے لیے وطنِ مالوف میں مقیم زندگی کے عیش و راحت کے مقابلے میں غربت اور جلاوطنی کی چوبیس سالہ زندگی کو قبول کیا تھا اور اس زندگی میں ہر طرح کے آلام و مصائب کو خندہ پیشانی کے ساتھ برداشت کر لیا تھا۔ وہ جنگِ آزادی کے سورما، انقلابی رہنما، بلند پایہ عالمِ دین، تفسیرِ قرآن میں ایک خالص دبستانِ فکر کے بانی تھے، اور اس دور میں امام ولی اللہ دہلویؒ کے علوم و معارف کے سب سے بڑے شارح اور محقق تھے۔ ان کے افکار کا سرچشمہ قرآنِ حکیم اور علوم و معارفِ ولی اللّٰہی تھے۔
وہ سیال کوٹ (پنجاب) کے ایک سکھ خاندان میں پیدا ہوئے تھے لیکن اسلام قبول کرنے کے بعد سندھ کے بزرگوں نے ان کے لیے سایۂ عاطفت فراہم کیا تھا۔ اس لیے ان کی محبت میں مولانا نے سندھ کو اپنا وطن بنا لیا تھا۔ اس طرح آبائی سندھی (Son of Soil) نہ ہونے کے باوجود وہ سندھ کے ایک نامور اور قابلِ فخر سپوت تھے۔ ان کی زندگی، افکار اور سیرت میں اہلِ وطن کے لیے ایک قابلِ تقلید نمونہ ہے۔ اسلام قبول کر لینے کے بعد انہوں نے مسلمانوں کی تہذیب و روایات اور تاریخ سے اپنا رشتہ جوڑ لیا تھا لیکن وہ جدید دور کے ایک اعلٰی دماغ، روشن خیال اور بلند فکر انسان بھی تھے۔
وہ مسلمانوں کی انفرادی زندگی کی اصلاح، فکر کی تربیت، اخلاق کی تہذیب، سیرت کی تشکیل، اور اجتماعی قومی زندگی کی تنظیم سے لے کر متحدہ انسانیت کے قیام تک کے لیے ایک جامع فکر کی حامل شخصیت تھے۔ ان کے انقلابی افکار میں ملک کی تعمیر و ترقی، قومی حکومت کے قیام، اور معاشی، اقتصادی، مذہبی فرقہ وارانہ مسائل کے حل کے لیے وقت کی سب سے بڑی رہنمائی پوشیدہ ہے۔ اس وقت پاکستان میں لسانی اور علاقائی قومیتوں کے بڑھتے ہوئے رجحانات، مذہبی جنون کے پھیلتے ہوئے زہر، لاقانونیت کے نشو و ارتقا پاتے ہوئے عفریت، علیحدگی پسندی کے پھیلتے ہوئے تباہ کن نظریات، اور بے دینی کے پھوٹ پڑنے والے فساد کا کوئی تریاق، اور بھوک، افلاس، جہالت اور ہر طرح کے علاقائی، صوبائی اور بین الملکی مسائل کا کوئی حل موجود ہے تو امامِ انقلاب مولانا عبید اللہ سندھی کے افکار ہیں۔
مولانا سندھی مرحوم کے افکار اور ان کی بنیاد پر سماجی اور قومی زندگی کی تشکیل ہی پاکستان کو ایک دینی اسٹیٹ رکھتے ہوئے تمام ملکی و قومی مسائل کو حل کر سکتی ہے اور اقوامِ عالم میں پاکستان کے بلند مقام کی ضمانت ثابت ہو سکتے ہیں۔ مولانا سندھی کے افکار کو اپنائے بغیر نہ طبقاتی کشمکش کا حل دریافت کیا جا سکتا ہے، نہ فرقہ واریت کے فتنے کا سدباب ممکن ہے، اور نہ پاکستان کے رفاہی و فلاحی مملکت کے نصب العین کا حصول ہی ممکن ہو سکتا ہے۔
انہی خیالات کے پیشِ نظر اس سال ۲۲ اگست ۱۹۹۴ء کو امامِ انقلاب مولانا سندھی کے پچاس سالہ یومِ وفات کی تقریب سے مرحوم کے عقیدت کیشوں اور ارادت مندوں نے عزم کیا ہے کہ مولانا سندھی کے افکار اور سرچشمۂ افکار قرآنِ حکیم اور علوم و معارف ولی اللّٰہی کے مطالعہ و تحقیق کے ایک نئے دور کا آغاز کیا جائے اور اس سلسلے میں:
(۱) مولانا عبید اللہ سندھی کے افکار، ان کے سرچشموں، مولانا مرحوم کے سوانح، سیرت اور خدمات کے پہلوؤں پر کتاب کی تالیف و تدوین کا انتظام کیا جائے۔
(۲) اخبارات و رسائل کی خصوصی اشاعتوں کا اہتمام کیا جائے۔
(۳) ملک کے تمام صوبوں کے مرکزی شہروں میں سیمیناروں اور مذاکروں کا انعقاد کیا جائے۔
(۴) مولانا عبید اللہ سندھی سے عقیدت اور ان کے افکار اور ان کے سرچشموں سے استفادے کا ذوق رکھنے والوں میں ربط پیدا کر کے ملک و قوم کی عملی خدمت کی ایک مستقل تحریک پیدا کر دی جائے۔
اس سلسلے میں پاکستان و ہندوستان کے تقریباً ایک سو روزناموں، ہفت روزوں اور ماہناموں کو اردو، انگریزی اور سندھی مضامین کی فراہمی کے انتظامات، نیز کراچی، حیدرآباد، لاہور، پشاور (اور کسی اور شہر میں بھی) سیمیناروں اور سمپوزیم (مذاکروں) کے انعقاد کے انصرامات، اور سندھی، اردو اور انگریزی زبانوں میں کتابوں کی اشاعت کے مسائل درپیش ہیں۔ تجویز یہ ہے کہ
(الف) مختلف شہروں میں جہاں امامِ انقلاب مولانا عبید اللہ سندھی کے معتقدین خاصی تعداد میں موجود ہوں، وہ باہم صلاح و مشورہ سے شہری/علاقائی، انتظامی کمیٹیاں تشکیل دے لیں۔
(ب) سیمینار اور مذاکرے جس شہر میں منعقد ہوں وہاں کی کمیٹیاں اپنے حالات و وسائل کے مطابق ان کا انتظام کریں۔
(ج) مولانا سندھی مرحوم کی یاد میں مقامی (شہری/علاقائی) اخبارات و رسائل کے خصوصی نمبروں اور کتابوں کی اشاعت کا انتظام کریں۔ ’’مولانا عبید اللہ سندھی نیشنل کمیٹی پاکستان‘‘ کے پیشِ نظر تین طرح کی تالیفات پیشِ نظر ہیں:
(۱) مولانا سندھی پر تالیفات،
(۲) مولانا سندھی کی تصنیفات، تراجم اور آثارِ علمیہ باقیہ،
(۳) مولانا سندھی کی یاد میں (دوسری شخصیات، ملی تحریکات اور علمی و فکری موضوعات پر) تصنیفات و تالیفات۔
(د) اس وقت تک مندرجہ ذیل تالیفات تیار ہو چکی ہیں اور صرف نظرِثانی میں اصلاح و ترمیم و اضافہ کا بہت تھوڑا کام باقی ہے۔
مولانا سندھی پر کتابیں
(۱) امام انقلاب مولانا عبید اللہ سندھی ۔ ایک مطالعہ (۲) تحریک ریشمی خطوط اور سندھ (۳) معارف عبید اللّٰہی ۔ ایک کتابیاتی جائزہ (۴) مولانا عبید اللہ سندھی اور دارالعلوم دیوبند سے ان کا اخراج ۔ پس منظر کے واقعات و شخصیات پر ایک نظر (۵) مولانا عبید اللہ سندھی ۔ شخصیت و سیرت (سندھی)
مولانا سندھی کے افادات
(۶) مولانا عبید اللہ سندھی کے سیاسی مکتوبات (۷) مولانا عبید اللہ سندھی کا انقلابی منصوبہ ۔ آزاد وطن کے بارے میں مولانا سندھی کا سروراجی پروگرام
مولانا سندھی کی یاد میں
(۸) شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی ۔ ایک سیاسی مطالعہ (۹) کلیاتِ شیخ الہند ۔ مولانا محمود حسن دیوبندی کے اردو، فارسی کلام کا مجموعہ۔
اس سلسلے میں اور بھی کئی چیزیں ہیں جو شائع کی جا سکتی ہیں۔ مذکورۃ الصدر میں ۱ تا ۵ اور نمبر ۷ مولانا عبید اللہ سندھیؒ اکیڈمی (کراچی) کی، نمبر ۶ ندوۃ المصنفین (لاہور) کی، اور ۸، ۹ مجلسِ یادگار شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی ؒ (کراچی) کی تالیفات ہیں۔ ان میں سے بیشتر کی اشاعت کا انتظام ہو گیا ہے۔
(ہ) پاکستان (اور ہندوستان) کے تقریباً سو اخبارات و رسائل کی خصوصی اشاعتوں کے لیے اردو، سندھی اور انگریزی کے قریباً چار سو مضامین کی فراہمی، ان میں کچھ مضامین کے مختلف زبانوں میں تراجم کروانے، ان کے فوٹو اسٹیٹ بنوانے اور انہیں ہر شہر کے اخبارات و رسائل کو ڈاک یا کارکنان کے ذریعے بجھوانے کے انتظامات کرنا ہیں۔
(ر) اگر کوئی صاحبِ قلم یا ناشر اپنے طور پر کوئی کتاب شائع کریں تو ان سے گزارش ہے کہ وہ مولانا عبید اللہ سندھیؒ نیشنل کمیٹی پاکستان کو اپنے عزم سے مطلع فرمائیں اور اپنی تصنیف و تالیف کے لیے نیشنل کمیٹی کا یادگاری صفحہ یا اس کا مضمون اور سلسلہ مطبوعات کا نمبر حاصل کر لیں تاکہ ان کے مساعی بھی اس یادگاری پروگرام سے مربوط ہو جائیں۔
(ز) امامِ انقلاب مولانا عبید اللہ سندھی کے پچاس سالہ یومِ وفات کے حوالے سے نیشنل کمیٹی کے پیشِ نظر بعض ضروری کاموں/تالیفات کی تکمیل ابھی باقی ہے۔
اس سلسلے میں:
(۱) انگریزی زبان میں ایک تصنیف، تالیف یا مجموعہ مضامین کی اشاعت ہونی چاہیے۔ یہ مضامین پہلے سے لکھے ہوئے مہیا ہو جائیں، نئے لکھوائے جائیں، یا اردو، سندھی سے ترجمہ کروا لیے جائیں۔
(۲) اردو، سندھی میں کئی اور اہم موضوعات پر بھی کتابیں آنی چاہئیں، ان میں سے چند یہ ہو سکتی ہیں:
(الف) مولانا عبید اللہ سندھی اور ان کے شیوخ و اساتذہ: اس کتاب میں سید العارفین حضرت امروٹی، حضرت دین پوری، حضرت شیخ الہند، حضرت گنگوہی، مولانا سید احمد، حافظ محمد احمد، میاں نذیر حسین، لکھنؤ اور رام پور وغیرہ کے بعض اساتذہ، پیر جھنڈا کے بعض بزرگ اور دیگر شخصیات جن سے استفادۂ دروس کا اعتراف اور ذکر مولانا سندھی نے عقیدت اور احترام کے ساتھ کیا ہے۔
(ب) مولانا سندھی اور ان کے معاصرین: اس کتاب میں مولانا سندھی کے تعلقات، افکار اور علمی، دینی، سیاسی ذوق کی ہم آہنگی کے حوالے سے ان اکابر شخصیات کا تذکرہ ہونا چاہیے: مولانا ابوالکلام آزاد، علامہ محمد اقبال، ڈاکٹر ذاکر حسین، اللہ بخش سومرو شہید، مولانا محمد صادق، مولانا حسین احمد مدنی، مولانا محمد علی، مسٹر محمد علی جناح، بعض غیر مسلم کانگریسی رہنماؤں (مثلاً سوبھاش چندر بوس، جواہر لال نہرو، گاندھی جی وغیرہ) کے علاوہ بعض اور شخصیات کو شامل کیا جا سکتا ہے۔
(ج) مولانا عبید اللہ سندھی اور ان کے تلامذہ: یہ بہت بڑا اور اہم موضوع ہے، اور اگر اس کے عنوان میں ’’اور ان کی علمی، دینی اور ملی خدمات‘‘ کا اضافہ کر لیا جائے تو یہ پی ایچ ڈی کے لیے ایک عظیم الشان موضوع قرار پائے گا۔ اس کتاب میں میرے علم اور سرسری مطالعے کے مطابق بہ ترتیبِ عہد اِن حضرات کا تذکرہ ہونا چاہیے:
(۱) ابتدائی دور کے تلامذہ: مولانا عبد القادر دین پوری، مولوی کمال الدین (بھرچونڈی)، مولوی محمد اکرم ہالانی، مولوی عبد الوہاب کولاچی، مولانا محمد (نہری)، پیر ضیاء الدین راشدی (پیرجھنڈا)، مولانا احمد علی لاہور، اور مولوی محمد علی و عزیز احمد (اخوان)، مولوی امید علی جیکب آبادی، مولانا عبد الرزاق بستی خیرا، مولانا عبد اللہ لغاری۔
(۲) دورانِ قیامِ دیوبند و دہلی کے تلامذہ: مولوی مظہر الدین شیرکوٹی، مولانا خواجہ عبد الحی فاروقی، مولوی انیس احمد، قاضی ضیاء الدین، پیر مصباح الدین اور دیگر حضرات۔
(۳) افغانستان کے قیام کے دور کے تلامذہ: ظہیر حسن ایبک، خوشی محمد، محمد وارث بٹ، شیخ عبد القادر، عبد النبی۔
(۴) تاشقند کے سفر کے دوران میں علامہ موسٰی جار اللہ نے بعدہ مولانا کے قیامِ مکہ کے زمانے میں استفادہ کیا۔
(۵) مکہ مکرمہ کے روز قیام کے تلامذہ: علامہ موسٰی جار اللہ، مولانا محمد طاہر پنج پیری، مولوی عبد الوہاب مکی، مرشد محمد نور مکی، شیخ عمر فاروق حبشی، مولوی عبد اللہ عمر پوری، مولوی محمد اسماعیل گودھروی، ایک نامعلوم الاسم، ایک انڈونیشی، شیخ محمد بن عبد الرزاق، داد شاہ بن ریحان الحق، پروفیسر محمد سرور، ڈاکٹر فیروز الدین، ایک برطانوی جاسوس جو دو سال تک قرآن پڑھتا رہا۔
(۶) وطن واپسی کے بعد کے تلامذہ: ان حضرات نے کراچی، پیرجھنڈا، لاہور، دہلی وغیرہ میں مولانا سندھی کے سامنے زانوئے ادب تہ کیا تھا: مولانا غلام مصطفٰی قاسمی، مولوی عسل محمد کاکے بوتو، مولانا عبد الحق ربانی، مولوی خلیل احمد، مولوی نور محمد نور، مولوی محمد وارث دل، مولوی شیخ عبد المجید امجد، مولوی عزیز اللہ جروار، میاں ظہیر الحق دین پوری، بشیر احمد لودھیانوی، مقبول احمد، غازی خدا بخش، پیر وہب اللہ شاہ راشدی، ڈاکٹر خواجہ عبد الرشید، مولوی دین محمد وفائی، مولوی محمود، مولوی عبد الغفور، مولوی محمد یوسف ندوی، مولانا عبید اللہ انور، قاضی مولوی عبد الرزاق، علامہ محمد صدیق بہاول پوری۔
(۷) غیر رسمی طور پر بھی مولانا سندھی کے درس و افادہ سے فیضیاب ہونے والوں کی ایک طویل فہرست ہے، مثلا: مولانا محمد اسماعیل غزنوی، مولانا غلام رسول مہر، مولانا سعید احمد اکبر آبادی، خواجہ عبد الوحید، سردار محمد امین خان کھوسو۔
اس کتاب میں ہر تلمیذ کو اتنی ہی جگہ ملنی چاہیے جتنی جگہ کا وہ اپنی تلمیذانہ حیثیت کے مطابق مستحق ہے۔ اس کتاب کی شخصیات کے حالات، ان کی تلمیذانہ حیثیت اور ان کے علمی و عملی کاموں پر نقد و تبصرہ میں متعدد حضرات حصہ لے سکتے ہیں۔ لیکن مجلسِ علمی (اکیڈمک کمیٹی) کسی صاحبِ قلم کے مضمون یا اس کے کسی حصے کو رد بھی کر سکتی ہے، اور اس کے مضمون کے صرف کسی حصے کو اس کی علمی کاوش کے اعتراف کے ساتھ لے سکتی ہے۔ کتاب کو متوازن اور ایک خاص ضخامت میں رکھنے کے لیے یہ ضروری ہے۔ البتہ اپنے طور پر شائع کرنے کے لیے ہر صاحبِ علم اور ناشر قطعاً آزاد ہو گا۔
اس پروگرام کو کامیاب بنانے اور اس موقع پر پاکستان اور ہندوستان میں ہونے والے تمام کاموں کو مربوط کرنے کے لیے نیشنل کمیٹی کو مولانا سندھی کے تمام عقیدت مندوں کے تعاون اور اربابِ وسائل اور اصحابِ عزائم و ہمم کی سرپرستی و رہنمائی کی ضرورت ہے۔ امامِ انقلاب مولانا سندھی مرحوم پر مصنفین اور مقالہ نگار اور ان پر تصنیفات و تالیفات شائع کرنے کے خواہشمند (ناشرین) حضرات بھی کمیٹی سے رجوع فرمائیں۔ کمیٹی کی جانب سے بھی اہلِ قلم اور اربابِ فکر و نظر سے رجوع کیا جائے گا۔
ڈاکٹر ابو سلمان شاہجہانپوری
ڈائریکٹر مولانا عبید اللہ سندھی اکیڈمی پاکستان
آرگنائزر مولانا عبید اللہ سندھی نیشنل کمیٹی پاکستان
رابطہ کے لیے: 9/1 علی گڑھ کالونی، کراچی 75800