ایسٹر مسیحی دنیا کا خاص تہوار ہے۔ مسیحی عقائد کے مطابق یسوع نے صلیب پر وفات پائی، جمعہ کے روز شام کو دفن ہوئے اور تیسرے روز اتوار کی صبح مردوں میں سے جی اٹھے (دیکھیے بالترتیب متی ۲۷: ۳۵ و ۶۰ اور لوقا ۲۴: ۵، ۶)۔ ایسٹر کا تہوار یسوع مسیح کے دوبارہ جی اٹھنے کی یاد میں منایا جاتا ہے۔ پادری ایف ایس خیر اللہ لکھتے ہیں:
’’اس کی تاریخ ۲۲ مارچ اور ۲۵ اپریل کے درمیان ہوتی ہے، یعنی موسمِ بہار کے اس دن کے بعد جب دن اور رات برابر ہوتے ہیں (۲۱ مارچ)، اس کی تاریخ معلوم کرنے کا طریقہ یہ ہے، ۲۱ مارچ یا اس کے بعد جس تاریخ کو پورا چاند ہو، اس کے بعد کا پہلا اتوار ایسٹر ہو گا، لیکن اگر پورا چاند اتوار کے دن ہو تو اس سے اگلا اتوار ایسٹر ہو گا۔‘‘ (قاموس الکتاب ص ۱۰۸ کالم ۲)۔
چنانچہ اس سال ۳ اپریل کو ایسٹر منایا جا رہا ہے۔
عقیدہ کفارہ
عیسائی نظریات کے مطابق یسوع کے مصلوب ہونے کی بنا عقیدہ کفارہ پر ہے، انجیل میں ہے:
’’مسیح جو ہمارے لیے لعنتی بنا اس نے ہمیں مول لے کر شریعت کی لعنت سے چھڑایا کیونکہ لکھا ہے کہ جو کوئی لکڑی پر لٹکایا گیا وہ لعنتی ہے۔‘‘ (گلتیوں ۳: ۱۳)
بائبل کے قوانین کے مطابق کفارہ کا نظریہ بالکل باطل ہے۔
(الف) حضرت داؤد علیہ السلام خدا کے متعلق فرماتے ہیں:
’’اس کی کسی نعمت کو فراموش نہ کر وہ تیری ساری بدکاری کو بخشتا ہے۔‘‘ (زبور ۱۰۳: ۲، ۳)
اگر خدا توبہ کرنے والوں کی ساری گناہگاری اور بدکاری کو بخش دیتا ہے تو کفارے کی کیا ضرورت ہے؟ مزید فرمایا:
’’اس نے ہمارے گناہوں کے موافق ہم سے سلوک نہیں کیا اور ہماری بدکاریوں کے مطابق ہم کو بدلہ نہیں دیا، کیونکہ جس قدر آسمان زمین سے بلند ہے اسی قدر اس کی شفقت ان پر ہے جو اس سے ڈرتے ہیں۔‘‘ (زبور ۱۰۳ : ۱ تا ۱۱)
(ب) ایک کا گناہ دوسرے کے سر تھوپنے سے متعلق توریت میں ہے:
’’بیٹوں کے بدلے باپ مارے نہ جائیں، نہ باپ کے بدلے بیٹے مارے جائیں۔ ہر ایک اپنے ہی گناہ کے سبب سے مارا جائے۔‘‘ (استثنا ۲۴ : ۱۶ و ۲۔تواریخ ۲۵ : ۴ و یرمیاہ ۳۱ : ۱۹ و ۳۰ حزقی ایل ۱۸ : ۲۰ تا ۲۲)
(ج) انسان سے غلطیاں ہوتی رہتی ہیں جس کے لیے توریت میں مختلف طریقوں سے کفارہ ادا کر دینے کا حکم اور معافی مل جانے کی یقین دہانی کرائی گئی تھی (دیکھیے گنتی ۱۵ : ۲۲ تا ۲۹ و احبار ۱۴ : ۲۰ و ۸ : ۳۴)۔ پھر عام کفارہ کا بھی قانون مقرر کیا:
’’اور یہ تمہارے لیے ایک دائمی قانون ہو کہ ساتویں مہینے کی دسویں تاریخ کو تم اپنی اپنی جان کو دکھ دینا اور اس دن کوئی، خواہ وہ دیسی ہو یا پردیسی جو تمہارے بیچ بود و باش رکھتا ہو، کسی طرح کا کام نہ کرے کیونکہ اس روز تمہارے واسطے تم کو پاک کرنے کے لیے کفارہ دیا جائے گا سو تم اپنے سب گناہوں سے خداوند کے حضور پاک ٹھہرو گے۔‘‘ (احبار ۱۶ : ۲۹ و ۳۰)
جب پوری قوم گناہوں سے پاک ہو گئی اور یہ دائمی حکم ٹھہرا اور ہر سال ایسا کرنے کو کہا پھر بھلا یسوع کو صلیب پر چڑھانے کی کیا ضرورت رہ گئی؟
(د) بائبل مقدس میں قانونِ خداوندی درج ہے کہ
’’شریر صادق کا فدیہ ہو گا اور دغا باز راست بازوں کے بدلہ میں دیا جائے گا۔‘‘ (امثال ۲۱ : ۱۸)
لہٰذا خدا نے بت پرست اقوام کو مار کر بنی اسرائیل کا کفارہ دیا:
’’میں نے تیرے فدیہ میں مصر کو اور تیرے بدلے کوش اور سبا کو دیا۔ چونکہ تو میری نگاہ میں بیش قیمت اور مکرم ٹھہرا اور میں نے تجھ سے محبت رکھی اس لیے میں تیرے بدلے لوگ اور تیری جان کے عوض امتیں دے دوں گا تو خوف نہ کرنا کیونکہ میں تیرے ساتھ ہوں۔‘‘ (یسعیاہ ۴۳ : ۳ تا ۵)
معلوم ہوا کہ کفارہ ایسے لوگوں کے لیے دیا جاتا ہے جو بیش قیمت اور مکرم ہوں، جن سے خدا کو محبت ہو اور جن کے ساتھ خدا ہو، اور کفارہ کے لیے ایسے لوگوں کو مارا جاتا ہے جو خدا کو پیارے نہیں، جو مکرم نہیں، جو شریر اور دغاباز ہوں اور خدا جن کے ساتھ نہ ہو۔ لہٰذا نصِ بائبل سے مسیح کا مصلوب ہونا درست نہیں کیونکہ یسوع راست باز تھا (متی ۲۷ : ۱۹، ۲۴ و لوقا ۲۳ : ۲۷ و اعمال ۳ : ۱۴)، نبی تھا (متی ۱۳ : ۵۷ اور ۱۴ : ۵ اور ۲۱ : ۱۱ و لوقا ۷ : ۱۶) اور سب سے بڑھ کر یہ کہ خدا اس کے ساتھ تھا (یوحنا ۸ : ۲۹) پھر بھلا خدا اپنے محبوب بندے کو ایسی موت کیوں دیتا جو باعثِ رسوائی ہو؟ (گلتیوں ۳ : ۱۳)
(ہ) خدا نے عہدِ عتیق میں وعدہ فرمایا تھا کہ مسیح موجودہ دنیا اور آخرت میں با آبرو اور مقربوں میں سے ہو گا، چنانچہ زبور میں ہے:
’’خداوند تیری تمام درخواستیں پورے کرے اب میں جان گیا کہ خداوند اپنے ممسوح کو بچا لیتا ہے۔‘‘ (زبور ۲۰ : ۵ و ۶)
لہٰذا جب یسوع نے انتہائی دلسوزی اور تضرع کے ساتھ رو رو کر مصلوبیت سے بچنے کے لیے خدا کے حضور دعائیں کیں (متی ۲۶ : ۳۶ تا ۳۹، مرقس ۱۴ : ۳۵) تو خدا کے فرشتہ نے نازل ہو کر آپ کو تسلی دی کہ بے فکر رہیں آپ مصلوب نہ ہوں گے (لوقا ۲۲ : ۴۳) چنانچہ آپ کی اشک بار دعائیں اور التجائیں قبول ہوئیں اور خدا نے آپ کو مصلوبیت سے بچا لیا (عبرانیوں ۵ : ۷) اور سالم کے بادشاہ ملک صدق کی طرح (عبرانیوں ۵ : ۱) طویل زندگی عطا فرمائی (عبرانیوں ۷ : ۳)۔ حضرت داؤد علیہ السلام یوں نبوت فرماتے ہیں:
’’اس نے تجھ سے زندگی چاہی اور تو نے بخشی بلکہ عمر کی درازی ہمیشہ کے لیے۔‘‘ (زبور ۲۱ : ۴)
خدا نے خود بھی فرمایا تھا کہ
’’وہ مجھے پکارے گا اور میں اسے جواب دوں گا، میں مصیبت میں اس کے ساتھ رہوں گا، میں اسے چھڑاؤں گا اور عزت بخشوں گا، میں اسے عمر کی درازی سے آسودہ کروں گا۔‘‘ (زبور ۹۱ : ۱۵ و ۱۶)
خدا وعدہ خلافی نہیں کرتا لہٰذا خدا نے آپ کو مصلوب ہونے سے بچا لیا۔ مصلوبیت سے بچنے کے لیے مسیح کی دعائیں، التجائیں، رونا اور گڑگڑانا یہ ظاہر کرتا ہے کہ آپ کفارہ بن جانا نہ چاہتے تھے بلکہ خدا کے حضور دعاگو تھے کہ بدکاروں، گناہگاروں اور لفنگوں کو سزا دی جائے، چنانچہ زبور میں ہے:
’’ان کی آنکھیں تاریک ہو جائیں تاکہ وہ دیکھ نہ سکیں اور ان کی کمریں ہمیشہ کانپتی رہیں، اپنا غضب ان پر انڈیل دے اور تیرا شدید قہر ان پر آ پڑے، ان کا مسکن اجڑ جائے ۔۔۔۔ ان کے گناہ پر گناہ بڑھا اور وہ تیری صداقت میں داخل نہ ہوں۔‘‘ (زبور ۶۹ : ۲۳، ۲۷)
رومن کیتھولک بائبل میں یہ عبارت مزمور ۶۸ : ۲۴ تا ۲۹ میں ہے، اور حاشیہ میں اس مزمور کو یسوع مسیح کے الفاظ قرار دیا ہے۔ اب آپ غور فرمائیں کہ حضرت مسیح کس بے قراری سے مجرموں سے ظالموں کے لیے عذابِ الٰہی مانگ رہے ہیں بلکہ یہاں تک دعا کر رہے ہیں کہ وہ خدا کی صداقت کو سمجھ تک نہ سکیں کیونکہ جو سچے دل سے خدا کا طالب ہو وہ فلاح پاتا ہے (یرمیاہ ۲۸ : ۱۳) لیکن مسیح چاہتے تھے کہ گنہگار حق کو نہ پہچان پائیں ایسا نہ ہو کہ سیدھے راستے پر چلیں اور سزا سے بچ جائیں (یوحنا ۱۲ : ۴ و ۲، تھسلینیکیوں ۲ : ۱۱) اس لیے یہ کہنا غلط ہے کہ مسیح نے دنیا جہان کے پاپیوں، گنہگاروں، زانیوں، لفنگوں اور تلنگوں کے لیے صلیب پر چڑھ کر جان دے دی۔
واقعہ تصلیب
اب ذرا اناجیل میں مذکور واقعہ تصلیب کی حقیقت ملاحظہ فرمائیے:
زبور میں یہ بشارت دے دی گئی تھی کہ مسیح گرفتار نہ ہو سکیں گے بلکہ فرشتے آپ کو اٹھا کر آسمان پر لے جائیں گے کہ آپ کے مبارک قدموں کو ٹھیس تک نہ لگے (زبور ۹۱ : ۱۰ تا ۱۲ و متی ۴ : ۶)۔ حضرت مسیح کو بھی خدائی وعدوں پر مکمل بھروسہ تھا لہٰذا آپ نے لوگوں کو بتا دیا تھا کہ تم سب اسی رات میرے متعلق شک میں مبتلا ہو جاؤ گے (متی ۲۶ و ۳۱)۔ اور فرمایا کہ جس طرح یوناہ تین رات تین دن مچھلی کے پیٹ میں زندہ رہا اور لوگ مردہ سمجھتے رہے اس طرح وہ بھی تین رات تین دن زندہ سلامت ہوں گے اور لوگ آپ کو مردہ سمجھتے رہیں گے (متی ۱۲ ۳۹ و ۴۰)۔ مسیح نے اس واقعہ کو اپنا واحد معجزہ قرار دیا اور فرمایا کہ یہود اپنے گناہ میں مرتے اور آپ کو ڈھونڈتے رہیں گے لیکن ڈھونڈ نہ پائیں گے کیونکہ یہود کی رسائی وہاں تک نہیں۔ یہود زمین پر رہیں گے اور آپ آسمان پر تشریف لے جائیں گے (یوحنا ۸ : ۲۱ تا ۲۴ و ۷ : ۳۳ و ۳۵)۔
خدا نے مسیح کو یہ معجزہ عطا فرمایا کہ آپ جب چاہتے اچانک لوگوں کی نظروں سے اوجھل ہو جایا کرتے تھے (یوحنا ۸ : ۵۹ اور ۱۲ : ۳۶ اور ۱۰ : ۳۹ و لوقا ۴ : ۲۹ و ۳۰ اور ۲۴ : ۳۱) لہٰذا جب حواریوں نے مسیح کی خاطر اپنی نیند تک کی قربانی نہ دی (متی ۲۶ : ۴ و مرقس ۱۴ : ۳۸) اور پکڑنے والے پہنچ گئے تو حضرت مسیح اچانک غائب ہو گئے جیسا کہ بائبل مقدس میں ہے کہ شریر اپنی ہی شرارت سے گر پڑے گا ۔۔ صادق مصیبت سے رہائی پاتا ہے اور شریر اس میں پڑ جاتا ہے (امثال ۱۱ : ۵ تا ۸)۔ کیتھولک بائبل میں ہے کہ شریر اس کی جگہ میں آجاتا ہے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا صادق (مسیح) نے رہائی پائی اور شریر غدار یہوداہ اسکریوتی اسی مصیبت میں مبتلا ہو گیا اور معجزانہ طور پر مسیح کا ہم شکل بن گیا، جیسا کہ انجیل برنباس میں ہے:
’’تب اللہ نے ایک عجیب کام کیا پس یہوداہ بولا اور چہرے میں بدل کر یسوع کے مشابہ ہو گیا‘‘ (برنباس ۲۱۶ : ۳ و ۴) ’’پس سپاہیوں نے یہوداہ کو پکڑ لیا‘‘ (برنباس ۲۱۷ : ۱)
یہوداہ خوب رویا چلایا کہ وہ مسیح نہیں ہے لیکن اس کی کون سنتا تھا، تمام حواری جو سوئے پڑے تھے انہوں نے مسیح کے اچانک غائب ہو جانے اور یہوداہ کی شکل تبدیل ہو جانے کا منظر نہ دیکھا لیکن سپاہیوں اور یہوداہ اسکریوتی کے شور و غوغا کی وجہ سے جب ان کی آنکھ کھلی تو اپنے استاد یسوع کو گرفتار و پریشان پایا تو تمام حواری اپنے خیال کے مطابق یسوع مسیح کو گرفتاری کے عالم میں مار کھاتا پیٹتا چھوڑ کر بھاگ گئے (مرقس ۱۴ : ۵۰ و ۵۱ اور متی ۲۶ : ۵۲) ۔۔۔ مسیح نے فرمایا تھا کہ جب تم مجھے چھوڑ کر بھاگ جاؤ گے تو تب بھی میں اکیلا نہ ہوں گا بلکہ اللہ میرے ساتھ ہو گا اور میری حفاظت کرے گا (یوحنا ۱۶ : ۳۲) پطرس جانتا تھا کہ مسیح غائب ہو چکے ہیں اور یہوداہ غدار پکڑا گیا ہے چنانچہ وہ فاصلہ رکھ کر پیچھے پیچھے ہو لیا کہ غدار یہوداہ اسکریوتی کا انجام اپنی آنکھوں سے دیکھے، کچھ لوگوں نے پطرس کو ملزم کا ساتھی قرار دیا تو پطرس نے گرفتار ہونے والے ملزم (یہوداہ اسکریوتی) پر لعنتیں بھیجیں اور اس کا ساتھی ہونے سے صاف انکار کر دیا (لوقا ۲۲ : ۵۷ و ۵۸ ، مرقس ۱۴ : ۲۶ تا ۷۱ ، متی ۲۶ : ۷۲ و ۷۳) اگر گرفتار ہونے والا یسوع ہوتا تو پطرس جیسا عظیم حواری اپنی گردن اتروا لیتا لیکن اپنے ہادی و مربی کا انکار نہ کرتا اور نہ ہی لعنت کرنے کی جرات کرتا۔ مصلوبیت کے وقت یہوداہ سمجھ گیا تھا کہ یسوع شکل تبدیل کیے اپنی پریشان ماں کے پاس کھڑا ہے کیونکہ حضرت مسیح کا یہ مشہور معجزہ تھا کہ بوقت ضرورت شکل تبدیل فرما لیا کرتے تھے (لوقا ۹ : ۲۹ اور ۲۴ : ۱۵ تا ۲۳ ، یوحنا ۲۰ : ۱۴ اور ۲۱ : ۴) چنانچہ مصلوب نے مقدسہ مریم کو پکار کر کہا کہ ’’اے عورت دیکھ تیرا بیٹا یہ ہے‘‘ (یوحنا ۱۹ : ۲۶ و ۲۷) اگر مصلوب ہونے والا یسوع ہوتا تو وہ ایسے وقت میں جبکہ ماں غم سے نڈھال تھی اس کو اے عورت کہہ کر تحقیر نہ کرتا اور مزید دکھی نہ کرتا۔
مسیحی حضرات کہتے ہیں کہ یسوع کے بعد مریم کا کوئی سہارا نہ تھا اس لیے آخری وقت میں اس نے بے سہارا ماں کو ایک شاگرد کے سپرد کیا۔ لیکن ہم عرض کریں گے کہ جبکہ یسوع جانتا تھا کہ اسے تیسرے روز جی اٹھنا ہے تو اسے اپنی ماں کو کسی کے حوالے کرنے کی ضرورت ہی کیا تھی؟ جی نہ اٹھنے کے بعد ہی کوئی انتظام کر دیا ہوتا بلکہ مصلوبیت سے پہلے ہی یہ کام کیا ہوتا کیونکہ انجیل کے مطابق یسوع کو سب کچھ پہلے ہی معلوم تھا (مرقس ۸ : ۳۱ ، متی ۱۶ : ۲۱) اور پھر یسوع کو ضرورت ہی کیا تھی کہ ماں کو ایک غیر محرم کے حوالے کر دیتا جبکہ مریم رشتے داروں والی تھی (لوقا ۱ : ۳۶) اور انجیل میں یہ بھی کہیں نہیں لکھا کہ یوسف نجار فوت ہو چکا تھا۔ عورت کے لیے شوہر سے بڑا اور کونسا سہارا ہو سکتا ہے؟ بالفرض مان لیا کہ یوسف فوت ہو چکا تھا لیکن ہم بر سبیل الزام کہتے ہیں کہ جب بھی مریم کو شاگرد کے ساتھ جانے کی کوئی ضرورت نہ تھی کیونکہ بقول انجیل مریم اور یوسف نجار کے اور بھی بیٹیاں تھیں اور یسوع کے سگے بھائی تھے، اس بات کو تقویت لفظ ’’پہلوٹھے‘‘ کے استعمال سے ہوتی ہے (لوقا ۲ : ۷)۔ متی ۱ : ۲۵ سے بھی یہی نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ یسوع کی پیدائش کے بعد میاں بیوی کا ازدواجی تعلق قائم ہوا۔ چوتھی صدی میں اس نظریہ کی حمایت ہل ویڈیس (Helvidius) نے کی، لیکن راہبانہ تحریک کے بڑھتے ہوئے اثر نے، جو مقدسہ مریم کی دائمی دوشیزگی کی قائل تھی، اسے ایک بدعت قرار دیا۔ پروٹسٹنٹ کلیسیا کا بڑا حصہ اس عقیدے کا حامی ہے (قاموس الکتاب ص ۱۶۰ کالم ۲)۔ یعقوب کے خط کے مصنف کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے: ’’پروٹسٹنٹ اعتقاد کے مطابق یہ یعقوب یسوع مسیح کا سگا بھائی تھا‘‘ (ایضاً ص ۱۱۵۰ کالم ۲ سطر آخری)۔ مزید لکھا ہے: ’’یسوع مسیح کے خاندان کے بارے میں جو حوالجات ملتے ہیں ان سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یسوع مسیح کے بعد مقدسہ مریم کے اور بچے بھی ہوئے (مرقس ۶ : ۳ ، متی ۱۲ : ۴۶ تا ۵۰)۔ پروٹسٹنٹ مسیحی یہ سمجھتے ہیں کہ اس کا انکار کرنے کی پشت پر وہ جذبہ کارفرما ہے جس کے تحت دوشیزگی کے مقابلہ میں شادی کو گھٹیا تصور کیا جاتا ہے (ایضاً ص ۱۱۵۱ کالم ۱)۔ پس اتنے سارے بیٹے بیٹیاں اور اتنا بڑا خاندان ہوتے ہوئے حضرت مریمؑ کو ایک نامحرم غیر شخص کے ساتھ جانے کی کیا ضرورت تھی؟ لہٰذا ثابت ہوا کہ مریم کے پاس کھڑا ہوا شخص یسوع ہی تھا۔
صلیب دے دینے کے بعد بھی جنونی یہودیوں کے دل سے مسیح دشمنی کی آگ سرد نہ ہوئی لہٰذا اسی رات یہودی قبر سے لاش چرا کر لے گئے اور رات کے اندھیرے میں ہی لاش کو مسخ کر کے باہر کھیت میں گرا دیا۔ اب یہوداہ کی لاش اپنی اصل شکل و صورت میں تھی لیکن لاش چرانے والے اندھیرے اور گھبراہٹ کی وجہ سے پہچان نہ سکے، انہوں نے لاش کا سر کچل دیا اور پیٹ چاک کر کے انتڑیاں باہر نکال دیں، دن چڑھے جب لوگوں نے کھیت میں پڑی یہوداہ اسکریوتی کی مسخ شدہ لاش دیکھی تو مختلف قسم کی افواہوں نے جنم لیا۔ کچھ کا خیال تھا کہ وہ روپیوں کو مقدس میں پھینک کر چلا گیا اور جا کر اپنے آپ کو پھانسی دی (متی ۲۷ : ۵) لیکن بعض سوچتے تھے کہ اس نے کھیت میں خود کو کس طرح پھانسی دی؟ اور اگر پھانسی دی ہوتی تو اس کا سر کیسے پچک گیا اور اس کی انتڑیاں کیسے باہر آ گئیں؟ لہٰذا اکثر کا خیال تھا کہ اس نے بدکاری کی کمائی سے ایک کھیت حاصل کیا اور سر کے بل گرا اور اس کا پیٹ پھٹ گیا اور اس کی سب انتڑیاں نکل پڑی (اعمال ۱ : ۱۸)۔ لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ شہر سے باہر کھیت میں یہوداہ اتنی زور سے سر کے بل کیسے گرا کہ اس کا سر پچک جائے اور پیٹ پھٹ جائے اور سب کی سب انتڑیاں باہر نکل آئیں؟ سر کے بل گر جانے کی وجہ سے پیٹ کا پھٹ جانا اور وہ بھی اس طرح کے ساری کی ساری انتڑیاں باہر نکل آئیں محال عقلی ہے۔ لہٰذا یہ حقیقت کے زیادہ قریب ہے کہ یہوداہ چونکہ مصلوب ہوا اس لیے لوگوں نے کھیت میں پڑی لاش کو دیکھ کر پھانسی کے آثار پائے اور لاش کو مسخ کیا ہوا اور انتڑیاں نکلی ہوئی دیکھیں تو بعض نے سمجھا کہ یہ سر کے بل گرا ہے اور پیٹ پھٹ گیا۔ بعد میں اس کھیت کا نام ’’ہقل دما‘‘ یعنی خون کا کھیت مشہور ہو گیا (متی ۲۷ : ۷، ۸ و اعمال ۱ : ۹)
جمعہ کے روز صلیب دی گئی، دوسرے روز ہفتہ (سبت) تھا، اس روز یہودی کوئی کام نہیں کرتے (خروج ۲۰ : ۸ تا ۱۱ اور احبار ۲۳ : ۳ و لوقا ۲۴ : ۱) اس لیے کوئی مرد یا عورت قبر پر نہ گیا۔ تیسرے دن یعنی اتوار کو جب قبر کو خالی پایا گیا تو افواہ مشہور ہو گئی کہ یسوع مردوں میں سے جی اٹھا ہے، لیکن راسخ الاعتقاد مسیحی جانتے تھے کہ مسیح مصلوب ہی نہیں ہوا پھر جی اٹھنے کا قصہ ہی غلط ہے۔ چنانچہ مسیح شکل تبدیل کیے لوگوں کے درمیان پھرتے رہے لیکن لوگ آپ کو پہچان نہ پائے (لوقا ۲۴ : ۱۵ تا ۳۲ ، یوحنا ۲۰ : ۱۴ اور ۲۱ : ۴، مرقس ۱۶ : ۱۲)۔
لاش کو قبر سے چرا کر مسخ کر کے کھیت میں پھینکنے والے یہودی حیران تھے کہ جس کی لاش کو انہوں نے پیٹ چاک کر کے اور سر کچل کر کھیت میں پھینکا تھا وہ یسوع کی بجائے یہوداہ اسکریوتی نکلا، پھر یسوع کہاں گیا؟ لہٰذا انہوں نے بزرگوں کے ساتھ جمع ہو کر مشورہ کیا اور سپاہیوں کو بہت سا روپیہ دے کر کہا کہ یہ کہہ دینا کہ رات کو جب ہم سو رہے تھے اس کے شاگرد آ کر اسے چرا لے گئے، اور اگر یہ بات حاکم کے کان تک پہنچی تو ہم اسے سمجھا کر تم کو خطرہ سے بچا لیں گے، پس انہوں نے روپیہ لے کر جیسا سکھایا گیا تھا ویسا ہی کیا، اور یہ بات آج تک یہودیوں میں مشہور ہے اور گیارہ شاگرد کلیل کے اس پہاڑ پر گئے جو یسوع نے ان کے لیے مقرر کیا تھا اور انہوں نے اسے دیکھ کر سجدہ کیا (یعنی تعظیم بجا لائے جیسا کہ عام رواج تھا، مثلاً دیکھو دانی ایل ۲ : ۴۶ ، پیدائش ۳۷ : ۷ و ۱۱ ، متی ۱۸ : ۲۶ و ۲۷ ، سموئیل ۹ : ۸ ۔ عابد) مگر بعض نے شک کیا، یسوع نے پاس آ کر ان سے باتیں کیں (متی ۲۸ : ۱۲ تا ۱۸) اور پورے چالیس دن تک یسوع چپکے چپکے شاگردوں سے ملتا اور احکاماتِ شریعت سمجھاتا رہا۔ یوں شاگردوں پر ثابت کر دیا کہ وہ زندہ ہے مرا نہیں تھا (اعمال ۱ : ۳ و متی ۲۸ : ۹ و مرقس ۱۶ : ۱۴ و لوقا ۲۴ : ۳۶)۔
لہٰذا حواریوں کا ایمان پختہ ہو گیا کہ مسیح مصلوب نہیں ہوئے، چنانچہ پطرس نے اپنی انجیل میں یہی بیان کیا ہے اور ڈوسیٹی کی انجیل اور برنباس کی انجیل (یہ دونوں انجیلیں دوسری صدی عیسوی تک رائج تھیں) میں لکھا ہے کہ مسیح کو زندہ آسمان پر اٹھا لیا گیا اور یہوداہ اسکریوتی کو مسیح کی جگہ مصلوب کیا گیا۔ ڈاکٹر کے ایل ناصر لکھتے ہیں کہ ۳۰۰ء کے باسیلائڈیز اور ناسٹک فرقوں کا بھی یہی عقیدہ تھا کہ حضرت عیسٰی علیہ السلام کو نہ قتل کیا گیا ہے اور نہ ہی مصلوب (ماہنامہ کلام حق بابت ماہ فروری ۱۹۸۹ء ص ۱۱ و ۱۲)
ایسٹر کا تہوار
قدیم دستاویزات و کتب کے مطالعہ سے ہمیں معلوم ہو جاتا ہے کہ سب سے پہلے مسیحی مصلوبیت اور ایسٹر کو نہیں مانتے تھے۔ ایسٹر کا مختصر تاریخی مطالعہ ذیل میں پیش کیا جا رہا ہے:
ڈبلیو ای وائن بتاتے ہیں کہ
’’سن عیسوی کی تیسری صدی کے وسط تک کلیسیائیں مسیحی ایمان کے عقیدوں سے یا تو پھر گئیں یا (بگاڑ کر) ان کی نقل کی۔ برگشتہ کلیسیائی نظام کے اثر کو بڑھانے کے لیے غیر قوم لوگوں کے وسیلہ سے ان کی اصلاح کے بغیر ہی کلیساؤں کے اندر قبول کر لیا گیا اور ان کو زیادہ تر اپنے نشانوں اور علامتوں کے پابند رہنے دیا گیا۔‘‘ (بحوالہ ’’سچائی جو باعث ابدی زندگی ہے‘‘ ص ۱۴۳)
لہٰذا سورج پرست جب مسیحیت میں آئے تو اپنے ساتھ سورج دیوتا اور ایسٹر دیوی کی پوجا بھی ساتھ لے آئے اور اپنی رسوم کو مسیحی رسوم کا نام دیا۔ مشہور مسیحی جریدہ بیان کرتا ہے:
’’مسیحی ہونے سے پہلے وہ لوگ موسمِ بہار کی دیوی مانتے تھے اور اس دیوی کا نام ایسٹر تھا، مسیحیوں نے اس دیوی کو بھلا دینے کے لیے موسم بہار میں آنے والی مسیحی عید کا نام ایسٹر رکھ دیا اور یوں لفظ ایسٹر کے معنی تبدیل ہو گئے۔‘‘ (پندرہ روزہ کاتھولک نقیب لاہور ۔ ایسٹر نمبر ۱۹۸۶ء)
یعنی ایسٹر دیوی کے پجاری مسیحی ہوئے تو قیامت مسیح کی کہانی نے جنم لیا۔ رہا مسیحی جریدہ کا یہ کہنا کہ ’’موسمِ بہار میں آنے والی مسیحی عید کا نام ایسٹر رکھ دیا‘‘ تو یہ غلط ہے۔ کیونکہ جب صلیب کا واقعہ ہوا اس وقت سخت سردی کا موسم تھا نہ کہ موسمِ بہار، بلکہ اس موسم میں لوگ آگ تاپتے تھے۔ گرفتاری والی رات پطرس رسول بھی آگ تاپ رہا تھا اور سپاہی جاڑے کے سبب سے کوئلے دہکا کر تاپ رہے تھے (یوحنا ۱۸ و لوقا ۲۲ : ۸۸ و مرقس ۱۴ : ۶۷)۔ معلوم ہوا کہ صلیب کا واقعہ سخت سردی کے موسم غالباً وسط دسمبر میں پیش آیا ہو گا۔ پادری بشیر عالم نے لکھا ہے:
’’تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ بہت سی رسوم معہ ایسٹر کلیسیا نے بت پرستوں اور غیر اقوام سے مستعار لی ہیں۔ بظاہر Easter انگریزی نام لگتا ہے اور اس کی نسبت غالباً East یعنی مشرق سے ہو گی۔ سورج مشرق سے طلوع ہو کر یعنی جنم لے کر مغرب میں غروب ہو جاتا یعنی دفن ہو جاتا ہے، اور پھر مشرق سے جنم لیتا ہے۔ شاید مسیح کی موت اور موت سے زندگی کو کسی مبارک شخص نے ایسٹر (Easter) سے نسبت قائم کر لی ہو۔ بعض کے نزدیک کے نزدیک جرمنی لفظ Astarte سورج کی دیوی سے اس کی نسبت ہے اور جرمن زبان میں یہ لفظ اوسٹرین، اوسٹور، آسٹو، ایشتار مختلف طریقوں سے مستعمل ہے۔ جن کا ماخذ ایک ہی ہے اور سب کے معنی نورسمیں، طلوع آفتاب، نئی پیدائش وغیرہ ہیں۔ کہنا یہ ہے کہ ایسٹر کی نسبت کہیں نہ کہیں سے East یعنی سورج سے جا ملتی ہے اور سورج کی پوجا کرنے والوں کی آج بھی دنیا میں کمی نہیں۔‘‘ (ماہنامہ قاصد جدید لاہور ص ۳ ۔ مارچ ۱۹۹۱ء)
ہر ایسٹر اتوار کے روز ہی منایا جاتا ہے، اس کی وجہ پادری بشیر عالم کے اس بیان سے عیاں ہے:
’’اتوار سورج کا دن ہے (یہ دن سورج کی عبادت کے لیے وقف تھا) جیسے بہت سے مسیحی مناتے ہیں ۔۔۔ اب یہ دن مسیح کے جی اٹھنے کی یاد میں منایا جاتا ہے‘‘ (قاصد جدید ص ۱۰ ۔ دسمبر ۱۹۹۲ء)
پادری صاحب مزید فرماتے ہیں:
’’توریم Phonician جن کا دارالخلافہ کارتھیج تھا، Ashtroth دیوی کے پجاری تھے جو سورج کی دیوی کہلاتی ہے۔ ان کے عقیدے کے مطابق یہ زرخیزی اور پیداوار اور نئی زندگی کی دیوی ہے۔ قدما ایشٹراتھ کو موسمِ بہار میں نئی زندگی کی عید سے منسوب کرتے تھے۔ اسی لیے انگریزی میں مقامِ طلوعِ آفتاب کو ایسٹ یا اوسٹ کہا جاتا ہے۔ پس اس سے یہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ ایسٹر کی نسبت سورج کی دیوی عستارات سے ہی ہے اور اس کا میلہ وغیرہ بھی بہار میں منایا جاتا تھا۔ چونکہ بہار سے پیشتر خزاں میں درخت بظاہر مردہ نظر آتے ہیں لیکن بہار انہیں نئی زندگی دیتی ہے، اس سے بھی مسیح کی موت اور قبر پر فتح کی نسبت عیاں ہے۔ عستارات دیوی جس کی نسبت سے ہمیں ایسٹر نام ملا ہے ۔۔۔ گو اس کا نام بگڑتے بگڑتے ایسٹر رہ گیا‘‘ (قاصد جدید ص ۳ تا ۴ ۔ مارچ ۱۹۹۱ء)
مذکورہ بالا اقتباسات سے ثابت ہوا کہ قیامت مسیح کی کہانی نے اس وقت جنم لیا جب سورج پرستوں نے مسیحیت کو قبول کیا۔ اس کی تصدیق جناب پادری بشیر عالم صاحب کے اس بیان سے بھی ہوتی ہے:
’’قسطنطین رومی فرمانروا بھی اسی دیوی کا پجاری تھا، بلکہ اس وقت کے دستور کے مطابق وہ اس ہیکل میں بطور سردار کاہن بھی تھا ۔۔ وہ ۔۔ مسیحیت کا حلقہ بگوش ہو گیا مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ عستارات کی محبت ساری عمر اس کے دل سے نہ گئی، اس نے مسیحیوں اور عستارات کے ماننے والوں کو متحد کرنے کے لیے حکماً کہا کہ ہفتہ وار عبادت اور قیامت مسیح اتوار کو منائی جایا کرے، آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ کس طرح عستارات ایسٹر کا لازم و ملزوم انگ بن گئی۔‘‘ (ایضاً ص ۴ کالم ۲)
مزید تفصیلات پادری ایف ایس خیر اللہ صاحب کی زبانی ملاحظہ کیجئے:
’’اس کی بیوی کا نام عستارات دیوی تھا، ان کی پوجا کی رسومات میں گھناؤنے زناکاری کے عمل بھی شامل تھے۔ روایت کے مطابق تموز کو ایک جنگلی سور نے مار دیا تھا جب وہ اپنی بھیڑ بکریوں کی رکھوالی کر رہا تھا۔ اس کی بیوی اسے پاتال سے بچا کر نکال لائی۔ جب سردی کے موسم کے شروع میں درخت اور سبزہ سوکھ جاتا ہے تو خیال کیا جاتا ہے کہ یہ تموز کی موت کی علامت ہے، اور جب موسمِ بہار میں پودے پھر ہرے بھرے ہو جاتے ہیں تو سمجھا جاتا تھا کہ تموز جی اٹھا ہے ۔۔۔۔ تموز کا ذکر صرف حزقی ایل ۸ : ۱۴ میں ہے جہاں بتایا گیا ہے کہ کیسے ہیکل کے شمالی پھاٹک کے عین سامنے عورتیں بیٹھ کر تموز پر نوحہ کرتی تھیں ۔۔۔ اس دیوتا کا یونانی نام ادونیس Adonis تھا جو عبرانی اور فینیکی زبان کے لفظ سے نکلا جس کے معنی ہیں خداوند۔‘‘ (قاموس الکتاب ص ۲۶۲)
آپ غور فرمائیں، تموز کو ادونیس یعنی خداوند کہا جاتا تھا، عیسائیوں نے یسوع مسیح کو بھی یہی یعنی خداوند کہنا شروع کر دیا اور اسے الوہیت کا درجہ دیا۔ تموز کو جنگلی سور نے مار دیا اور وہ عالمِ ارواح میں اتر گیا لیکن پھر جی اٹھا۔ عیسائیوں نے اسی کہانی کو مسیح سے منسوب کر دیا کہ اسے یہودیوں نے صلیب پر چڑھا کر قتل کر دیا، یسوع بھی تین رات دن مردہ رہا اور پھر جی اٹھا۔ دونوں کا جی اٹھنا موسمِ بہار میں منایا جاتا ہے۔ تموز بھیڑیوں کی رکھوالی کرتا مارا گیا جبکہ یسوع اسرائیل کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کی گلہ بانی کرتے ہوئے۔ عورتیں اپنے خاوند تموز کا ماتم کرتی تھیں (حزقی ایل ۸ : ۱۴)۔ عیسائیوں نے اپنے مسیح خداوند کا ماتم کیا (مرقس ۱۶ : ۱) اسی طرح صلیب مسیحیت کی خاص علامت ہے۔ ڈبلیو ای وائن بتاتے ہیں کہ
’’صلیب کی ابتدا قدیمی کلدان (بابل) میں ہوئی اور یہ معبود تموز کی علامت میں استعمال ہوتی تھی کیونکہ یہ رمزی TAU یا T شکل کی تھی جو اس کے نام کا ابتدائی حرف تھا۔ لہٰذا TAU یا T کے آرے ٹکڑے کو نیچے کر کے اسے مسیح کی صلیب کی جگہ قبول کر لیا۔‘‘ (سچائی جو باعث ابدی زندگی ہے ۔ ص ۱۴۳ و ۱۴۴)
مسیحیوں کے دیگر معمولاتِ زندگی میں بھی سورج پرستی کی جھلک نظر آتی ہے۔ مثال کے طور پر انہوں نے سبت کے احکامات کو پس پشت ڈال کر اتوار کو مقدس ٹھہرایا۔ پاسٹر پیز صاحب بتاتے ہیں کہ اتوار سورج کی عبادت کا دن ہے (قاصد جدید ص ۱۴ ۔ اپریل ۱۹۹۲ء)۔ کتاب ’’سچائی جو باعث ابدی زندگی ہے‘‘ کا مصنف لکھتا ہے کہ
’’آپ نے شاید یہ نوٹ کیا ہو گا کہ یسوع مسیح کی بعض تصویروں میں اس کے سر کے چوگرد روشنی کا گول گھیرا ہوتا ہے، یہ اولیا کا نورانی تاج یا نور کا ہالہ کہلاتا ہے۔ اگر آپ اس کے انگریزی لفظ نمبس Nimbus کو کسی انسائیکلوپیڈیا میں دیکھیں تو آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ قدیم مصری اور یونانی اور رومی لوگ اسے اپنی غیر قوم مذہبی صنعت میں استعمال کرتے تھے۔ یہ نورانی ہالہ بابلیوں کی سورج پرستی سے جا ملتا ہے اور یہ ظاہر ہے کہ یہ بابلی معبودوں کی نمائندگی کرتا ہے۔‘‘ (ص ۱۴۶ ۔ مطبوعہ ریاستہائے متحدہ امریکا)
اور ایسٹر سے متعلق لکھا ہے:
’’مروجہ رسوم جو ابھی تک اس کی یادگاری کے عرصہ میں منائی جاتی ہیں وہ تاریخ کی اس شہادت کی کافی تصدیق کرتی ہے کہ اس کی سیرت بابلی ہے۔ گڈ فرائیڈے کے میٹھے کلچے جن پر کراس (صلیب) کا نشان بنا ہوتا ہے اور فصحی یا ایسٹر سنڈے کے رنگے ہوئے انڈے کلدانی (بابلی) مذہبی رسوم میں خوب نمایاں تھے، جیسے وہ اب نمایاں ہیں‘‘ (ایضاً ص ۱۴۹) ’’مسیحی دنیا کے خاص تہوار ایسٹر کو بائبل کے اندر کچھ حمایت نہیں ملتی، یہ غیر قوم اصل سے ہے اور اس لیے خدا کو ناپسند ہے‘‘ (ایضاً ص ۱۴۹)
آخر میں ہم پادری بشیر عالم صاحب کا مسیحیوں کے حق میں ایک مبنی بر انصاف قول نقل کر رہے ہیں:
’’انہوں نے کبھی بھی مسیحیت کو دل میں جگہ نہ دی، وہ سورج کی پوجا کرتے آئے تھے اور دوبارہ انہوں نے اسی کی پوجا شروع کر دی۔‘‘ (ماہنامہ قاصد جدید ص ۶ کالم ۱ ۔ بابت ماہ فروری ۱۹۹۳ء)’’