جوں جوں زمانہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور قرونِ مشہود لہا بلاخیر سے دور ہوتا جا رہا ہے، دوں دوں امورِ دین اور سنت میں رخنے پڑتے جا رہے ہیں۔ ہر گروہ اور ہر شخص اپنے من مانے نظریات و افکار کو خالص دین بنانے پر تلا ہوا ہے، اور تمام نفسانی خواہشات اور طبعی میلانات کو ایڑی چوٹی کا زور لگا کر دین اور سنت ثابت کرنے کا ادھار کھائے بیٹھا ہے، الا ما شاء اللہ، اور ایسی ایسی باتیں دین اور کارِ ثواب قرار دی جا رہی ہیں کہ سلف صالحینؒ کے وہم و گمان میں بھی وہ نہ ہوں گی، حالانکہ دین صرف وہی ہے جو ان حضرات سے ثابت ہوا ہے اور انہی کے دامنِ تحقیق سے وابستہ رہنے میں نجات منحصر ہے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جس طرح شرک و بدعت کی تردید فرمائی ہے اتنی تردید کسی اور چیز کی نہیں فرمائی، اور تمام بدعات اور مخترعات سے باز رہنے کی سختی سے تاکید فرمائی ہے اور خصوصاً وہ بدعات جو قیامت کے قریب رونما ہوں گی۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ
’’آخر زمانہ میں کچھ ایسے دجال اور کذاب ہوں گے جو تمہارے سامنے ایسی حدیثیں اور باتیں پیش کریں گے جو نہ تو تم نے سنی ہوں گی اور نہ تمہارے آبا و اجداد نے۔ پس تم ان سے بچو اور ان کو اپنے قریب نہ آنے دو تاکہ وہ تمہیں نہ تو گمراہ کر سکیں اور نہ فتنے میں ڈال سکیں۔‘‘ (مسلم ج ۱ ص ۱۰ و مشکوٰۃ ج ۱ ص ۲۸)
اور ان کی ایک اور روایت میں ہے:
’’تمہارے پاس وہ گھڑ گھڑ کر حدیثیں پیش کریں گے۔‘‘ (البدع والنہی عنہا، امام محمد بن وضاح قرطبی اندلسیؒ، ص ۲۷ طبع مصر)
اہلِ بدعت کے جتنے فرقے ہیں وہ اپنے مزعوم افعال کی بنیاد ایسی بے سروپا احادیث پر رکھتے ہیں جن کا معتبر کتب حدیث میں کوئی وجود نہیں، اور اگر کہیں ہے بھی تو محدثین نے ان کو ضعیف اور معلول قرار دیا ہوتا ہے۔ اور اہلِ بدعت ایسی ایسی بدعات آئے دن نکالتے رہتے ہیں کہ پہلے ان سے کوئی شناسا نہ تھا، اور جیسے جیسے قیامت نزدیک آتی رہے گی نئی نئی بدعات جنم لیتی رہیں گی اور سنتِ مظلومہ اٹھتی چلی جائے گی، فوا اسفاً۔ حضرت عبد اللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں کہ
’’جو نیا سال لوگوں پر آئے گا اس میں وہ کوئی نہ کوئی نئی بدعت گھڑیں گے اور سنت کو مٹا دیں گے حتٰی کہ بدعتیں زندہ کی جائیں گی اور سنتیں مٹ جائیں گی۔‘‘ (البدع والنہی عنہا، ص ۳۸)
یہ حدیث اگرچہ موقوف ہے لیکن حکماً مرفوع ہے اور یہ جو کچھ فرمایا بالکل بجا ہے۔
حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں کہ
’’تمہاری کیا حالت ہو گی جبکہ تم پر فتنہ چھا جائے گا، اس فتنہ میں بچے بڑے ہوں گے اور عمر رسیدہ بوڑھے ہو جائیں گے۔ اور اپنی طرف سے ایک سنت گھڑی جائے گی جس پر عمل ہوتا رہے گا، جب اس کو بدلنے کی کوشش ہو گی تو کہا جائے گا ہائے سنت بدل دی۔ دریافت کیا گیا اے ابو عبد الرحمٰن! یہ کب ہو گا؟ فرمایا کہ جب تمہارے قاری زیادہ ہو جائیں گے اور فقیہ کم ہوں گے اور مال زیادہ ہو گا اور امین کم ہوں گے اور آخرت کے عمل کے بدلہ میں دنیا طلب کی جائے گی اور دین کا علم محض دنیا کمانے کا ذریعہ بن جائے گا۔‘‘ (البدع والنہی عنہا ص ۸۹)
اور ایک روایت میں آتا ہے کہ
’’آخر زمانہ میں جاہل عابد ہوں گے اور فاسق قاری ہوں گے۔‘‘ (الجامع الصغیر جلد ۲ ص ۲۰۶ طبع مصر)
حضرت ابن مسعودؓ کی روایت حکماً مرفوع ہے اور اس میں بدعت کے بعض اسباب کا خوب نقشہ کھینچا گیا ہے۔
حضرت معاذؓ بن جبل سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں کہ
’’ایسا فتنہ برپا ہو گا جس میں مال زیادہ ہو جائے گا اور قرآن اس میں کھول کر پڑھا جائے گا۔ یہاں تک کہ مومن و منافق اور عورت و مرد اور چھوٹے اور بڑے تقریباً سبھی قرآن پڑھیں گے۔ سو ان میں ایک شخص آہستہ قرآن پڑھے گا تو اس کی پیروی نہیں کی جائے گی تو وہ کہے گا کہ کیوں میری بات نہیں مانی جاتی، بخدا میں بلند آواز سے قرآن پڑھوں گا، تو وہ چلّا چلّا کر قرآن پڑھے گا۔ پھر بھی لوگ اس کی طرف مائل نہ ہوں گے تو وہ الگ مسجد بنائے گا اور ایسی ایسی بدعت کی باتیں ایجاد کرے گا کہ قرآن و سنت میں نہ ہوں گی۔ تو تم ان سے بچو اور اس کو اپنے نزدیک نہ آنے دو کیونکہ اس کی یہ کارروائی بدعتِ ضلالہ ہو گی (تین مرتبہ یہ الفاظ فرمائے)۔‘‘ (البدع والنہی عنہا ص ۲۶)
اور یہ روایت ان سے ان الفاظ سے بھی مروی ہے:
’’قریب ہو گا کہ کہنے والا کہے گا کہ لوگ میری طرف مائل نہیں ہوتے حالانکہ میں بھی قرآن پڑھتا ہوں۔ کیوں یہ لوگ میری پیروی نہیں کرتے؟ یہاں تک کہ وہ ان کے لیے بدعت گھڑے گا تاکہ لوگ اس کی طرف مائل ہوں۔ سو تم اس کی بدعت سے بچنا کیونکہ اس کی کارروائی نری بدعتِ ضلالہ ہو گی۔‘‘ (ابوداؤد ج ۲ ص ۲۷۶)
الغرض بدعت اور بدعتی سے بچنے کی اشد تاکید آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کرامؓ سے ثابت ہے۔ اور بدعت کی ایسی نحوست پڑتی ہے کہ دنیا میں توبہ کی توفیق نصیب نہیں ہوتی اور آخرت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت سے محرومی ہوتی ہے (العیاذ باللہ)۔ چنانچہ حضرت انس ؓ سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ
’’بے شک اللہ تعالیٰ نے ہر بدعتی پر توبہ کا دروازہ بند کر دیا ہے۔‘‘ (البدع والنہی عنہا ص ۵۵ و مجمع الزوائد ج ۱۰ ص ۱۸۹)
ایک تو بدعت کی نحوست سے دل کی بصیرت اور نیکی کی استعداد مفقود ہو جاتی ہے اور دوسرے جب بدعتی بدعت کو دین اور کارِ ثواب سمجھے گا تو توبہ کیوں کرے گا؟ حضرت بکر بن عبد اللہؓ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ
’’میری شفاعت میری ساری امت کے لیے ثابت ہو گی مگر بدعتی کے لیے نہیں ہوگی۔‘‘ (البدع والنہی عنہا ص ۳۶)
صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ کبیرہ گناہ کے مرتکب کے لیے تو آپ کی شفاعت ہو گی لیکن بدعتی کے لیے نہیں ہو گی۔ اس سے معلوم ہوا کہ شریعت میں بدعت کبیرہ گناہ سے بھی بدتر ہے، اللہ تعالیٰ سب مسلمانوں کو تمام گناہوں سے اور خصوصاً شرک و بدعت سے محفوظ رکھے۔
حضرت درخواستیؒ کی علالت
شیخ الاسلام حضرت مولانا محمد عبد اللہ درخواستی دامت برکاتہم کافی عرصہ سے علیل ہیں اور ان دنوں کراچی کے ایک ہسپتال میں زیر علاج ہیں۔ احباب دعا فرمائیں کہ اللہ رب العزت حضرت مدظلہ کو صحت کاملہ و عاجلہ سے نوازیں اور ان کے وجود و برکات سے عالمِ اسلام کو تادیر مستفیذ ہونے کی توفیق دیں، آمین۔