ڈاکٹر سید سلمان ندوی کا دورہ برطانیہ
مختلف اجتماعات سے فکر انگیز خطاب

ادارہ

عالمِ اسلام کی ممتاز علمی شخصیت علامہ سید سلیمان ندویؒ کے فرزند اور ڈربن یونیورسٹی (جنوبی افریقہ) میں شعبہ اسلامیات کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر سید سلمان ندوی نے گزشتہ ماہ ورلڈ اسلامک فورم کی دعوت پر برطانیہ کا پانچ روزہ دورہ کیا اور لندن، بولٹن، باٹلی، ڈیوزبری، لیسٹر اور دیگر شہروں میں متعدد اجتماعات سے خطاب کیا۔ ورلڈ اسلامک فورم کے سیکرٹری جنرل مولانا محمد عیسٰی منصوری بھی دورہ میں ان کے ہمراہ رہے۔

ڈاکٹر سلمان نے ان اجتماعات سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میں اس سے پہلے بارہا برطانیہ آ چکا ہوں لیکن ہر مرتبہ میری آمد آکسفورڈ، کیمبرج اور اسلامک فاؤنڈیشن تک محدود رہی ہے۔ اس بار ورلڈ اسلامک فورم کی دعوت پر پہلی بار صحیح معنوں میں برطانیہ دیکھ رہا ہوں۔ مسلمانوں کے دینی ادارے، مساجد، علماء اور دانشوروں سمیت مختلف طبقات سے ملا ہوں، مجھے خوشی ہے کہ آپ حضرات نے یہاں ایمان کا چراغ جلا رکھا ہے۔

مغرب کی علمی و فکری برتری آج انسانیت کی تخریب کے لیے استعمال ہو رہی ہے۔ مغرب نے عالمِ اسلام پر اپنے خونی پنجے گاڑ رکھے ہیں اور مسلم حکمرانوں کو اسلام کے خلاف استعمال کر رہا ہے۔ مصر، الجزائر، عالمِ اسلام میں حکمرانوں کی جنگ اسرائیل سے نہیں، یورپ سے نہیں، کفر سے نہیں، بلکہ ان لوگوں سے جاری ہے جو اللہ کا کلمہ بلند دیکھنا چاہتے ہیں، جو اللہ کے دین پر جینا اور اسے نافذ کرنا چاہتے ہیں، اور اس جرم میں ہر روز مسلم نوجوانوں کو قتل اور پھانسی دیے جانے کی خبریں آ رہی ہیں۔ ان مسلم نوجوانوں کا سب سے بڑا جرم یہ ہے کہ وہ اسلام کو سربلند کرنا چاہتے ہیں۔

آپ حضرات کو یہاں مغرب میں مسلم ممالک سے کہیں بڑھ کر اسلام پر چلنے کی آزادی حاصل ہے۔ مجھے محسوس ہوتا ہے کہ شاید اسلام کی نشاۃِ ثانیہ مغرب سے ہو، اس کے لیے آپ لوگوں کو پوری تیاری کرنی ہے۔ علمائے کرام کو چاہیے کہ انگریزی زبان میں پوری مہارت حاصل کریں، مغرب کی تاریخ کا مطالعہ کریں، نئی نسل سے براہ راست تعلق پیدا کریں۔ دین و دنیا کی تفریق اسلام کو زبردست نقصان پہنچا رہی ہے۔ مغرب کی پوری کوشش ہے کہ مسلمانوں میں دین و دنیا کی تفریق قائم رہے اور دو متوازی طبقے، جو ایک دوسرے سے متعلق ہوں، وجود میں آجائیں، اس طرح وہ نئی نسل کو نظریاتی فکری اعتبار سے اسلام سے کاٹ لے۔

انہوں نے کہا کہ آپ حضرات جن قوموں کے درمیان رہ رہے ہیں وہ اسلام کے متعلق شدید غلط فہمیوں میں مبتلا ہیں۔ اس لیے کہ عیسائیوں کے ساتھ مسلمانوں کا تعارف ہی میدانِ جنگ میں ہوا۔ صدیوں سے یورپ میں اسلام کو قتل و غارت گری، سفاکیت اور بے رحمی کے مذہب کے طور پر پیش کیا جاتا رہا ہے۔ آپ حضرات کو اپنے کردار سے ثابت  کرنا ہے کہ اسلام امن و سلامتی کا مذہب ہے۔ اسلام دیگر مذاہب کی طرح ایک مذہب نہیں بلکہ ایک دین ہے۔ مذہب عبادت کی چند رسموں کا نام ہوتا ہے اور دین زندگی کے ہر شعبہ پر محیط نظامِ حیات ہوتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ میں نے برطانیہ میں دیکھا کہ دینی مکاتب و مدارس کا نصاب و طرزِ تعلیم وہی چل رہا ہے جو ۷۰، ۸۰ سال پہلے برصغیر میں تھا۔ آپ حضرات کو چاہیے کہ اس ملک کے بیک گراؤنڈ (پس منظر)، آج کی معاشرتی ضرورتوں، اور یہاں کے بچوں کے مزاج و نفسیات کو مدنظر رکھتے ہوئے نصاب ازسرنو مرتب کریں۔

انہوں نے کہا کہ روس کی شکست و ریخت کے بعد مغرب نے اسلام کے خاتمہ کو اپنا مقصد بنا لیا ہے۔ مغرب کو آپ کی نمازوں سے خطرہ نہیں ہے، آپ جتنی چاہے مسجدیں بنا لیں۔ مغرب یہی چاہتا ہے کہ اسلام مسجد میں بند رہے۔ مغرب لرز رہا ہے خالد بن ولید کے اسلام سے، صلاح الدین ایوبی، طارق بن زیاد اور محمد بن قاسم کے اسلام سے، کیونکہ ان کا اسلام عبادات کی چند رسموں تک محدود نہیں تھا بلکہ زندگی کے ہر شعبہ پر محیط تھا۔

جب آپ حضرات نے یہاں رہنے کا فیصلہ کر لیا ہے تو اپنی نسلوں کو ایمان و اسلام پر پابند رکھنے کا انتظام کرنا آپ پر فرض ہے۔ انہوں نے کہا کہ بوسنیا میں لاکھوں مسلمانوں کے قتلِ عام پر مغرب خاموش تماشائی بنا رہا، ان ہیومن رائٹس کے علمبرداروں کی اسلام دشمنی بوسنیا میں پوری طرح عیاں ہے۔ فرانس کا صدر اور برطانیہ کے پرائم منسٹر کھلے الفاظ میں کہہ چکے ہیں کہ یورپ کے دل میں کسی مسلمان ریاست کو ہرگز برداشت نہیں کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ یہاں آپ کو اپنی بقا کی جنگ لڑنی ہے اور وہ جنگ ٹینک و میزائل سے نہیں، علمی و فکری محاذ پر لڑنی ہے۔ یہ اس وقت ہو گا جب آپ اپنی اولاد کو دینی و عصری تعلیم سے آراستہ کریں گے۔

ورلڈ اسلامک فورم کے سیکرٹری جنرل مولانا محمد عیسٰی منصوری نے ان اجتماعات سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پروفیسر سلمان ندوی فورم کے سرپرست اور بانی رہنماؤں میں ہیں۔ گزشتہ سال ساؤتھ افریقہ میں پروفیسر صاحب نے تجویز پیش کی تھی کہ یورپ کی سرزمین پر علمی و فکری کام کی ضرورت ہے۔ فورم نے بطور خاص دو مقاصد سامنے رکھے ہیں:

  • ایک مغربی میڈیا تک رسائی حاصل کرنا، اس کے طریقہ واردات کو سمجھنا، اور اسی انداز میں اس کا جواب فراہم کرنا ۔
  • اور دوسرے یہاں کے پس منظر اور یہاں کے بچوں کے مزاج و نفسیات کو مدنظر رکھتے ہوئے تعلیمی نظام کو استوار کرنا۔

الحمد للہ ورلڈ اسلامک فورم دونوں محاذوں پر سرگرم عمل ہے۔ انہوں نے کہا کہ مغربی میڈیا اسلام اور مسلمانوں کی اتنی شرانگیز اور گھناؤنی تصویر پیش کر رہا ہے کہ اگر دنیا میں کہیں اسلام غالب ہو گیا تو انسانی حقوق، انسانی کلچر و تمدن اور انسانی ترقیات سب ختم ہو جائیں گی اور دنیا ظلم و تاریکی کے دور میں واپس لوٹ جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ ورلڈ اسلامک فورم نے میڈیا کے محاذ پر کام کرنے کے لیے ’’ویسٹ واچ اسٹڈی گروپ‘‘ تشکیل دیا ہے، فورم جلد ہی ملک کے مختلف شہروں میں تربیتی کورس شروع کر رہا ہے۔

اخبار و آثار

آراء و افکار

(اپریل ۱۹۹۴ء)

تلاش

Flag Counter