میڈیا کی جنگ اور اس کے تقاضے
لندن میں ورلڈ اسلامک فورم کی فکری نشست

ادارہ

لندن (پ ر) میڈیا کے متعلق ’’ورلڈ اسلامک فورم‘‘ کا اجلاس ’’تحریکِ ادبِ اسلامی‘‘ کے کنوینر عادل فاروقی کی رہائشگاہ واقع (ہیرو، لندن) میں منعقد ہوا جس میں بڑی تعداد میں علماء، دانشور، صحافی، ادبا اور شعرا نے شرکت کی۔

برالٹن اسلامک سنٹر کے ڈائریکٹر پروفیسر عبد الجلیل ساجد نے کہا کہ مسلمانوں کو مغرب میں میڈیا کی جنگ بہت ہوشمندی اور تیاری سے لڑنی ہے۔ میڈیا کی فکری و ثقافتی یلغار نے ہماری نئی نسل کو پوری طرح اپنی گرفت میں لے لیا ہے۔ الیکٹرونک میڈیا میں ابھی تک ہم کوئی پیشرفت نہیں کر سکے، اس لیے ورلڈ اسلامک فورم کو الیکٹرونک میڈیا کے ذریعے اسلام کے مثبت اور اتحادی پہلوؤں کو پیش کرنے کے لیے پروگرام ترتیب دینا ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ الحمد للہ نارتھ امریکہ، ملیشیا، دبئی، مصر اور ساؤتھ افریقہ میں کچھ کام ہوا ہے، فورم اس کو سامنے رکھ کر اس سمت پیشرفت کرے۔

اسلامک کمپیوٹنگ سنٹر کے ڈائریکٹر مفتی برکت اللہ نے کہا کہ بدقسمتی سے ہمارے علمائے کرام کی بڑی تعداد جدید تقاضوں اور آج کے دور کی معاشرتی ضرورت کا شعور نہ ہونے کی وجہ سے ابھی تک اس کے جواز و عدم جواز کی بحث میں الجھی ہوئی ہے۔ وقت تیزی سے نکلا جا رہا ہے، پورا مغربی میڈیا اسلام کی صورت بگاڑنے، اسلام کو بدنام کرنے، فحاشی و بے حیائی پھیلانے، ذہنی انارکی، بے راہ کے لیے استعمال ہو رہا ہے۔ لیکن جب اس میڈیا کو بچوں کی تعلیم و تربیت میں مدد لینے، اسلام کی اشاعت اور اس کے متعلق غلط فہمیوں کو دور کرنے کے لیے استعمال کی بات آتی ہے تو ہم اس کے جواز و عدم جواز کی بحث چھیڑ دیتے ہیں۔ آج ہم میں سے کون ہے جس کا گھر اس میڈیا کی یلغار سے محفوظ ہو؟ ہمیں سنجیدگی سے اسلامی حدود کو مدنظر رکھتے ہوئے  میڈیا کے صحیح استعمال کا پروگرام ترتیب دینا ہو گا۔

تحریکِ ادبِ اسلامی کے کنوینر عادل فاروقی نے کہا، ہمیں ربع صدی سے زائد اس ملک میں ہو گئے، ہم نے آج تک انگریزی زبان کے کتنے ادیب، صحافی اور شاعر پیدا کیے؟ ہمارے بچے دن رات پاپ میوزک، ٹی وی، ریڈیو میں ڈوبے ہوئے ہیں، اسلامی تشخص ختم ہوتا جا رہا ہے، ان کا مزاج یہاں کی سوسائٹی کی سانچے میں ڈھل رہا ہے، ہمیں اپنی نئی نسل کو تیار کرنا ہو گا کہ ادب و صحافت میں امتیاز پیدا کریں۔

ورلڈ اسلامک فورم کے سیکرٹری جنرل مولانا محمد عیسٰی منصوری نے کہا کہ جب ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ اس ملک میں رہنا ہے اور بحیثیت مسلمان کے رہنا ہے تو ایسے اسلامی تشخص کے باقی رکھنے کی جدوجہد ہم پر فرض ہے۔ ہمیں میڈیا اور ذرائع ابلاغ کے صحیح استعمال کے متعلق پروگرام بنانا ہو گا۔ رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے کہ کفر جس میدان میں اور جس انداز سے سامنے آیا، آپؐ نے اسی میدان میں اسے جواب دیا۔

غزوۂ خندق کے موقع پر آپؐ نے فرمایا کہ کفارِ مکہ سے اب ہماری جنگ اسلحہ کے میدان میں نہیں بلکہ شاعری کے میدان میں ہو گی۔ یاد رہے کہ شاعری اس دور کا میڈیا تھا جس کے ذریعے آناً فاناً خیالات و افکار پورے عرب میں  پھیل جاتے تھے۔ چنانچہ جلیل القدر صحابہ کرامؓ نے اس چیلنج کو قبول کر کے شاعری کے میدان میں کفر کا مقابلہ کیا۔ تاریخ گواہ ہے کہ ان حضراتِ صحابہؓ نے اس فیلڈ میں بھی اسلام کی خدمت کا حق ادا کر دیا۔ اس طرح آج کا میڈیا صحافت ہے، ٹیلی ویژن اور سیٹلائٹ ہے، جو اسلام اور مسلمانوں کے خلاف بھڑکانے اور مشتعل کرنے میں لگا ہوا ہے۔ ہمیں اس میڈیا کو خیر اور اسلامی تعلیمات کو عام کرنے کے لیے استعمال کرنا ہو گا۔ 

مولانا منصوری نے کہا کہ ہمارے درسِ نظامی میں جو علوم و فنون پڑھائے جاتے ہیں: فلسفہ، علمِ کلام اور منطق وغیرہ، یہ فنون اس دور کے یونان و روم کے غیر اسلامی فنون تھے جو اسلام کی تیزرفتار اشاعت میں رکاوٹ ڈالنے کے لیے استعمال کیے جا رہے تھے۔ اس دور میں علماء نے ان علوم و فنون کو سیکھا، ان میں کامل مہارت حاصل کی، ان سے غیر اسلامی افکار و خیالات کو الگ کیا، انہیں ازسرِنو مدون کیا، ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ان علوم کو مسلمان بنایا، حتٰی کہ آج یہ سب علوم و فنون اسلامی علوم سمجھے جاتے ہیں۔ اسی طرح ہمیں آج کے ذرائع ابلاغ و میڈیا پر دسترس حاصل کرنا ہو گی، اسے خیر کے لیے استعمال کرنا ہو گا، بالفاظ دیگر اس میڈیا کو، اس ٹیلی ویژن اور سیٹلائٹ کو مسلمان بنانا ہو گا۔

آپ موجودہ میڈیا پر پابندی نہیں لگا سکتے البتہ اس کا صحیح استعمال کر سکتے ہیں۔ کسی شاہراہ پر نو انٹری کا بورڈ لگانے سے قبل آپ کو متبادل راستہ دینا ہو گا، ورنہ آپ کی بندش مؤثر نہیں ہو سکتی۔ اس طرح میڈیا کو حرام کہنے سے پہلے ہماری ذمہ داری بنتی ہے کہ اس کے صحیح اور مثبت استعمال کا ہم پروگرام بنائیں ورنہ یہ سیلاب بڑے بڑے دیندار، متقی پرہیزگار علماء اور مفتی صاحبان کی نسلوں کو بہا لے جائے گا۔

فورم پوری سنجیدگی سے جدید میڈیا کو تعلیمی مقاصد اور اسلام کی نشرواشاعت کے ذریعے کے طور پر استعمال کرنے کا پروگرام بنا رہا ہے۔ فورم نے اپنی جدوجہد سے علمائے کرام اور جدید طبقے کے دانشوروں کو یکجا کر دیا ہے، یہاں علماء بھی ہیں اور دانشور بھی، ادیب و صحافی بھی، ہم سب کو مل کر عصرِ حاضر کے اس چیلنج کو قبول کرنا ہے، جس طرح ہر دور میں ہمارے اسلاف نے کیا ہے۔ اس ضمن میں جلد ہی فورم کی طرف سے پروگرام پیش کیا جائے گا۔

اجلاس کے آخر میں مشہور شاعر و ادیب عبد الرحمٰن بزمی اور سلطان الحسن فاروقی اور عادل فاروقی نے اپنا تازہ نعتیہ کلام پیش کیا۔

(بشکریہ ’’جنگ‘‘ لندن ۔ ۲۶ جنوری ۱۹۹۴ء)


اخبار و آثار

(اپریل ۱۹۹۴ء)

تلاش

Flag Counter