انسان کی دس فطری چیزیں

شیخ التفسیر مولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒ

عن عمار بن یاسر ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قالہ ان من الفطرۃ (او الفطرۃ) المضمضۃ والاستنشاق و قص الشارب والسواک و تقلیم الاظفار وغسل البراجم ونتف الابط والاستحداد والاختتان والانتضاح۔

’’حضرت عمارؓ بن یاسرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، دس چیزیں فطرت میں سے ہیں (یا فطرت ان دس چیزوں پر بھی مشتمل ہے) کلی کرنا، ناک صاف کرنا، مونچھوں کو کاٹنا، مسواک کرنا، ناخنوں کو کاٹنا، ہاتھوں کی چنٹوں کو صاف کرنا، بغل کے بالوں کو اکھاڑنا، زیرناف بالوں کو صاف کرنا، ختنہ کرنا اور استنجا کرنا۔‘‘

فطرت سے مراد وہ حالت ہے جو بنی نوع انسان میں قدرتاً پائی جاتی ہے، تمام نبیوں کے طریق میں جاری رہی ہے اور خود نبیوں نے بھی ان کی تعلیم دی ہے۔ جب کوئی شخص اپنی فطرت پر قائم ہو گا تو وہ ان دس چیزوں پر ضرور عمل کرے گا:

(۱) المضمضہ

کُلّی، یعنی منہ میں پانی ڈال کر منہ کو صاف کرنا۔ انسان کھانا کھاتا ہے یا سو کر اٹھتا ہے تو منہ میں آلائش ہوتی ہے، اس کو صاف کرنے کے لیے کُلی کرنا سنت انبیاءؑ ہے۔

(۲) الاستنشاق

یعنی ناک جھاڑنا۔ ناک میں پانی ڈال کر اس کو اچھی طرح صاف کرنا بھی فطری امر ہے۔ اگر ناک صاف نہ ہو تو قرآن پاک کی تلاوت یا دیگر عبادات کی ادائیگی کے دوران خلل واقع ہوتا ہے۔ انسان عام گفتگو بھی اچھے طریقے سے نہیں کر سکتا۔ لہٰذا ناک کی صفائی بھی ضروری ہے۔ حضور علیہ السلام کا فرمان ہے کہ جب نیند سے بیداری ہو تو ناک میں پانی ڈال کر اس کو خوب جھاڑو۔ اس میں حکمت یہ ہے کہ رات کو جب سوتے وقت انسانی جسم کے تمام راستے بند ہو جاتے ہیں تو صرف ناک کا راستہ کھلا ہوتا ہے، لہٰذا شیطان اس میں گھس کر بیٹھ جاتا ہے اور رات بھر انسان کے دماغ میں وسوسے ڈالتا رہتا ہے۔ جب بیدار ہو کر آدمی ناک جھاڑتا ہے تو شیطان کا یہ اڈہ بھی ختم ہو جاتا ہے۔ یہ کام بھی نبیوں کی سنت اور فطرتِ انسانی میں داخل ہے۔

(۳) قص الشارب

مونچھوں کا کاٹنا بھی سنتِ انبیاءؑ ہے، ان کو کتروانا چاہیے۔ دوسری حدیث میں یہ الفاظ آتے ہیں کہ داڑھی کو بڑھاؤ اور مونچھوں کو کاٹو۔ لمبی مونچھیں مجوسیوں، یہودیوں اور ہندوؤں کی علامت ہیں، لہٰذا مسلمانوں کے لیے حکم ہے کہ ان کو کاٹو۔

(۴) السواک

یعنی مسواک کرنا۔ یہ منہ کو پاک کرنے والا عمل ہے جو اللہ تعالیٰ کو پسند ہے۔ عام نیکی کا اجر تو دس گنا ملتا ہے تاہم جو عبادت مسواک کرنے کے بعد کی جائے اس کا اجر ستر گنا بڑھ جاتا ہے۔ مسواک کی وجہ سے اللہ تعالیٰ پائیوریا وغیرہ جیسی بیماریوں سے محفوظ رکھتا ہے، گویا مسواک مادی لحاظ سے بھی مفید چیز ہے۔

(۵) تقلیم الاظفار

ناخنوں کا ترشوانا بھی فطری امور میں سے ہے۔ لمبے ناخنوں میں میل کچیل جمع ہو کر بیماریوں کا باعث بن سکتی ہے۔ ہفتہ عشرہ بعد ناخنوں کو ضرور کٹوا دینا چاہیے تاہم چالیس دن سے زیادہ کوتاہی نہیں ہونی چاہیے۔

(۶) غسل البراجم

ہاتھوں کی چنٹوں کو صاف کرنا۔ ان میں بھی بعض اوقات میل کچل جم جاتی ہے لہٰذا صفائی ضروری ہے کہ یہ بھی سنتِ انبیاءؑ اور فطری امر ہے۔

(۷) نتف الابط

یعنی بغلوں کے بالوں کو اکھاڑنا بھی فطرتِ انسانی میں داخل ہے۔ امام شافعیؒ فرماتے ہیں کہ اصل سنت تو یہی ہے لیکن میں اس کو برداشت نہیں کر سکتا۔ لہٰذا اگر ان بالوں کو اکھاڑنے میں دقت پیش آتی ہو تو استرے یا پاؤڈر وغیرہ سے صاف کر دینا بھی درست ہے۔

(۸) الاستحداد

زیرِ ناف مستورہ مقامات سے بالوں کو صاف کرنا بھی سنت ہے۔ یہ مردوں اور عورتوں دونوں کے لیے ضروری ہے۔ اگرچہ عورتوں کے لیے بھی استرا وغیرہ استعمال کرنا جائز ہے تاہم اگر وہ پوڈر وغیرہ استعمال کریں تو بہتر ہے۔ دوسری روایت میں حضور علیہ السلام نے زیرِ ناف بالوں کی صفائی کے لیے چالیس دن کی تحدید فرمائی ہے کہ یہ بال اس عرصہ سے زیادہ دیر تک نہیں رہنے چاہئیں۔ اگر کوئی شخص بلاعذر چالیس دن سے زیادہ عرصہ تک بال صاف نہیں کرتا تو اس کی نماز مکروہ ہوتی ہے۔ البتہ بیمار آدمی یا جس کے اس حصہ جسم میں کوئی تکلیف ہو وہ مستثنٰی ہے۔

(۹) الاختتان

ختنہ کرنا بھی فطری امر اور سنتِ انبیاءؑ میں سے ہے۔ سب سے پہلے ابراہیم علیہ السلام نے ختنہ کیا اور آپ کے بعد یہ تمام انبیاءؑ کی سنت ہے اور ہماری امت میں بھی جاری ہے۔

(۱۰) الانتضاح

استنجا کرنا بھی ضروری ہے۔ عام حالات میں ڈھیلے سے اور اگر نجاست زیادہ ہو تو پانی استعمال کرنا واجب ہو جاتا ہے۔

یہ تمام امور سارے نبیوںؑ کی سنت میں داخل ہیں کیونکہ یہ انسان کی فطرت کا حصہ ہیں۔

دین و حکمت

(اپریل ۱۹۹۴ء)

تلاش

Flag Counter