ڈاکٹر ابو سلمان شاہجہانپوری

کل مضامین: 3

مولانا سندھیؒ کا بچپن ۔ ولادت سے اظہارِ اسلام تک

(۱) ۱۸۸۷ء میں مولانا عبید اللہ سندھی نے، جب کہ ان کی عمر صرف پندرہ برس کی تھی، اسلام قبول کر لیا تھا۔ اس کے بعد کے واقعات کو مولانا نے اپنی مختصر خودنوشت میں، جو انہوں نے مکہ مکرمہ سے اپنی روانگی سے قبل مولانا غلام رسول مہر مدیر روزنامہ انقلاب لاہور کو اشاعت کے لیے بھیجی تھی، تحریر کر دیا تھا۔ مولانا سندھی کی یہ خودنوشت گو بہت مختصر ہے لیکن بہت اہم ہے۔ (۲) ان کے دورِ جلاوطنی کے زمانے کے حالات میں سب سے اہم تحریر وہ ہے جو ’’کابل میں سات سال‘‘ کے عنوان سے پروفیسر محمد سرور نے سندھ ساگر اکادمی لاہور سے شائع...

مولانا سندھیؒ کی ایک تاریخی تقریر

عزیزانِ گرامی! ۱۹۱۵ء میں مجھے میرے استاد حضرت شیخ الہندؒ نے افغانستان بھیجا تھا۔ آپ کے بزرگوں نے مجھے باہر بھیجا تھا۔ باہر رہ کر جو کچھ اسلام کی خدمت کر سکتا تھا، میں نے کی۔ میرے سامنے پہاڑ آئے، شکست کھا گئے، موت آئی، شکست کھا گئی۔ میں ان سپہ سالاروں کا رفیق رہا جنہوں نے دنیا کے بڑے بڑے معرکے سر کیے۔ آپ میری باتوں کو محض تاثرات یا عارضی ہیجانات کا نتیجہ نہ سمجھئے گا۔ میرے پیچھے تجربات کی دنیا ہے۔ میرے مشاہدات بہت وسیع ہیں۔ میں نے کھلی آنکھوں سے دنیا کو دیکھا ہے اور انقلابات اور ان کے اثرات و نتائج کا انقلاب کی سرزمینوں میں رہ کر مطالعہ کیا...

مولانا سندھیؒ کا پچاس سالہ یومِ وفات

مولانا عبید اللہ سندھیؒ ہماری قومی زندگی کی ایک بلند پایہ شخصیت اور ملتِ اسلامیہ ہند و پاکستان کا سرمایہ افتخار تھے۔ انہوں نے لیلائے وطن کی آزادی کے عشق میں اور ملتِ اسلامیہ کی سرخروئی کے لیے وطنِ مالوف میں مقیم زندگی کے عیش و راحت کے مقابلے میں غربت اور جلاوطنی کی چوبیس سالہ زندگی کو قبول کیا تھا اور اس زندگی میں ہر طرح کے آلام و مصائب کو خندہ پیشانی کے ساتھ برداشت کر لیا تھا۔ وہ جنگِ آزادی کے سورما، انقلابی رہنما، بلند پایہ عالمِ دین، تفسیرِ قرآن میں ایک خالص دبستانِ فکر کے بانی تھے، اور اس دور میں امام ولی اللہ دہلویؒ کے علوم و معارف کے...
1-3 (3)