صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 4 فروری کی تجویز میں غزہ کی پٹی پر قبضہ کرنے، اس کے مقامی فلسطینیوں کو بے گھر کرنے، اور اسے ’’مشرقِ وسطیٰ کا تفریحی ساحل‘‘ بنانے کی بات کی گئی تھی۔ اس کے جواب میں عرب رہنماؤں نے 4 مارچ کو قاہرہ میں ایک غیر معمولی سربراہی اجلاس منعقد کیا تاکہ غزہ کی پٹی کی تعمیرِ نو کے لیے ایک متبادل مصری منصوبے پر تبادلۂ خیال اور پھر اس کی توثیق کی جا سکے۔ مصری منصوبے میں فلسطینیوں کو کہیں منتقل کیے بغیر مختلف مراحل میں غزہ کی تعمیرِ نو کی تجویز پیش کی گئی ہے۔ اس منصوبے کے مطابق 2007ء سے اس علاقے پر حکومت کرنے والی حماس کی بجائے فلسطینی اتھارٹی کو دعوت دی جائے گی کہ وہ دوبارہ اس خطہ پر حکومت قائم کرے، اور فلسطینی پولیس افسران کی تربیت کے ساتھ ساتھ سکیورٹی کو یقینی بنانے کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی طرف سے منظور شدہ بین الاقوامی امن دستوں کا مطالبہ کیا جائے گا۔ جبکہ حماس پہلے ہی غزہ پر حکومت کرنے کے اپنے دعوے سے دستبردار ہو چکی ہے بشرطیکہ سب فلسطینیوں کی مرضی کے مطابق ہو، لیکن اس نے اپنے غیر مسلح ہونے کے بارے میں کسی بھی طرح کی بات کرنے سے انکار کیا ہے۔
عرب رہنماؤں نے متفقہ طور پر مجوزہ مصری منصوبے کی منظوری دی، لیکن اسرائیل اور ٹرمپ انتظامیہ نے اسے مسترد کر دیا۔ اسرائیل نے بہت پہلے ہی اس علاقے میں حماس یا فلسطینی اتھارٹی کے کسی بھی کردار کو قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ اسرائیلی وزارت خارجہ نے عرب سربراہ اجلاس میں شریک نمائندگان پر ’’فرسودہ نقطہ نظر میں جڑے رہنے‘‘ کا الزام لگایا، اور یہ بات دہرائی کہ ٹرمپ کا منصوبہ ہی فلسطینیوں کے لیے اصل راستہ ہے۔ امریکہ نے اپنی طرف سے فلسطینیوں اور عرب دنیا کو یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ اسے اس علاقے کی مقامی آبادی کی پرواہ ہے، یہ یاد دلا کر کہ غزہ رہنے کے قابل نہیں ہے، لیکن اس بات کو تسلیم کیے بغیر کہ غزہ پر اسرائیل کی جنگ ہی اس کی تباہی کی اصل وجہ ہے۔
عرب سینٹر واشنگٹن ڈی سی (ACW) نے اپنے تجزیہ کاروں اور رفیق کاروں سے سربراہی اجلاس اور غزہ کے لیے مصری تجویز کے حوالے سے موجود وسیع تر جغرافیائی سیاسی ماحول پر روشنی ڈالنے کے لیے مختصر تبصرے فراہم کرنے کی درخواست کی۔ ان کے نقطہ نظر ذیل میں ہیں۔
مغربی کنارے میں فلسطینی اتھارٹی ناکام ہو گئی ہے
(یارا ایم آسی، غیر رہائشی رفیق کار؛ اسسٹنٹ پروفیسر، یونیورسٹی آف سینٹرل فلوریڈا)
دسمبر 2024ء کے اوائل میں، فلسطینی اتھارٹی (PA) نے مغربی کنارے میں جنین مہاجر کیمپ پر چھاپے مارے۔ بہت سے مبصرین کے سامنے اس کے مقاصد واضح تھے: اسرائیل اور آنے والی ٹرمپ انتظامیہ کو یہ ظاہر کرنا کہ پی اے کنٹرول قائم کر سکتی ہے اور ممکنہ طور پر غزہ میں جنگ بندی کے بعد گورننگ اتھارٹی کے طور پر کام کر سکتی ہے۔ پی اے جس طریقے سے یہ ثابت کرتی ہے وہ یقیناً یہ نہیں ہے کہ فلسطینیوں کو مناسب خدمات فراہم کی جائیں، جن پر وہ مبینہ طور پر حکومت کرتی ہے، یا اپنی عوام کے لیے انصاف اور احتساب کے حوالے سے محنت کی جائے؛ نہ ہی وہ ایک ایسے معاشی بحران پر قابو پانے کی صلاحیت دکھا سکتی ہے جس نے دسیوں ہزاروں فلسطینیوں کو بے روزگار کر دیا ہے یا وہ اپنی تنخواہوں کا آدھا حصہ وصول کر رہے ہیں؛ یا یہ کہ وہ انہیں اسرائیلی آباد کاروں اور فوجی دستوں کے روزانہ کے حملوں سے تحفظ فراہم کر رہی ہو۔ اس کے بجائے اس کا مقصد طاقت دکھانا ہے، خاص طور پر ان فلسطینیوں کے خلاف جو مزاحمتی گروپوں میں سرگرم ہیں،یا جن پر سرگرم ہونے کا شبہ ہے، یا محض ان لوگوں کے خلاف جو خود پی اے پر تنقید کرتے ہیں۔ درحقیقت، ان چھاپوں میں راہگیروں سمیت کئی فلسطینی زخمی یا ہلاک ہوئے۔ کیا پی اے کے اسی طرزِ حکمرانی کو عرب ممالک غزہ لانے کے لیے کام کر رہے ہیں؟
ایسے وقت میں جب فلسطینی عوام کو تاریخی فلسطین میں رہنے کے حوالے سے انوکھے خطرات کا سامنا ہے، شاید کوئی بھی قوت فلسطینی عوام کی نمائندگی کی جائز حقدار اور ان کے لیے جدوجہد کے حوالے سے پی اے سے کم موزوں نہیں ہے۔ 1990ء کی دہائی میں اپنے قیام کے بعد سے پی اے نے فلسطینی عوام میں اپنی حمایت تسلسل کے ساتھ کھوئی ہے۔ خاص طور پر جس طرح سے اس نے بدعنوانی کی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئی ہیں اور محمود عباس کی صدارت کو برقرار رکھا ہوا ہے، جو کہ 2005ء میں منتخب ہوئے تھے اور تب سے انہوں نے انتخابات نہیں ہونے دیے۔ عوامی رائے شماری نے مسلسل یہ ظاہر کیا ہے کہ مغربی کنارے میں اپنی اتھارٹی برقرار رکھنے کے لیے پی اے کے لیے بہت کم حمایت ہے، غزہ کی پٹی تک اپنا دائرہ کار بڑھانا تو دور کی بات ہے۔
مصر اور اردن کے تقاضے کیا ہیں؟
(ہبہ گوید، غیر رہائشی رفیق کار؛ پروفیسر آف سوشیالوجی، سی یو این وائی ہنٹر کالج)
فلسطینیوں کی نسل کشی کے دوران اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کا سلسلہ جاری رکھنے پر مصر اور اردن کے ساتھ ساتھ دیگر عرب ریاستوں کی قیادت پر مہینوں کی اندرونی و بین الاقوامی تنقید کے بعد عرب سربراہی اجلاس منعقد ہوا ہے۔ یہ غیر معمولی اجلاس امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے غزہ کو ’’مسمار شدہ علاقہ‘‘ قرار دینے اور اس تجویز کے ہفتوں بعد منعقد ہوا کہ فلسطینی ’’دہائیوں کی موت‘‘ کے بعد مصر یا اردن میں ’’صاف ستھری نئی زمین‘‘ پا کر خوش ہوں گے۔ ان کے تبصرے، جو اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو کے واشنگٹن ڈی سی کے دورے سے عین قبل کیے گئے تھے، اس کے بعد ٹرمپ کی جانب سے نام نہاد غزہ تفریحی ساحل (Riviera) کی مصنوعی ذہانت سے بنی ایک پریشان کن ویڈیو سوشل میڈیا پر پوسٹ کی گئی، جس میں فلسطینی زمین پر ایک ساحلی ٹرمپ ریزورٹ کو دکھایا گیا تھا۔
اردن اور مصر کے رہنماؤں کا خود ارادیت اور غزہ کی تعمیرِ نو کے حوالے سے 53 بلین ڈالر کے منصوبے پر فلسطینیوں کے ساتھ تعاون کرنے کا اظہار مہینوں کے سکوت سے فرار ہے۔ دونوں ممالک میں مظاہرین نے اپنی حکومتوں سے نسل کشی کو روکنے اور اسرائیلی ناکہ بندی کو توڑنے کے لیے مداخلت کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ مصر میں مظاہرین نے انسانی امداد کے لیے رفح کراسنگ کھولنے کا مطالبہ کیا اور اپنی حکومت پر ناکہ بندی میں اسرائیل کے ساتھ تعاون کرنے کا الزام لگایا۔
قاہرہ سربراہی اجلاس کی سیاسی اہمیت اس حقیقت سے بڑھ جاتی ہے کہ فلسطینیوں کی جبری بے دخلی کے خدشات کو ٹرمپ کی مضحکہ خیز سوچ کہہ کر مسترد نہیں کیا جا سکتا۔ فروری 2024ء میں، جب اسرائیلی محاصرے کی وجہ سے شمالی غزہ سے بے گھر ہونے والے فلسطینیوں کو مصر کے ساتھ رفح سرحد میں دھکیل دیا گیا، مصری حکام نے خفیہ طور پر سینائی میں چھ میٹر اونچی دیوار بنائی تاکہ آٹھ مربع میل کے علاقے کو بند کیا جا سکے۔ مبصرین کے خیال میں یہ رکاوٹ اس صورتحال سے بچنے کے لیے بنائی گئی ہے کہ رفح پر اسرائیل کی بمباری فلسطینیوں کو بڑے پیمانے پر مصر میں داخل ہونے پر مجبور کر سکتی ہے۔ کیونکہ غزہ جنگ کے آغاز سے ہی اس اسرائیلی منصوبہ کی افواہیں تھیں، جیسا کہ 2023ء میں نیتن یاہو سے وابستہ ایک تھنک ٹینک نے ’’پوری غزہ آبادی کی منتقلی اور حتمی آبادکاری‘‘ کا بلیو پرنٹ شائع کیا تھا۔
غزہ کی تعمیرِ نو کے لیے مالی اعانت کے راستے کیا ہیں؟
(عماد کے حرب، ڈائریکٹر آف ریسرچ اینڈ اینا لسٹس)
اقوام متحدہ، یورپی یونین، اور عالمی بینک نے غزہ کی تعمیرِ نو کی لاگت 50 بلین ڈالر سے زیادہ بتائی ہے۔ عرب سربراہی اجلاس نے ابھی ایک مرحلہ وار تعمیرِ نو کا منصوبہ تجویز کیا ہے جس میں فلسطینیوں کو غزہ سے منتقل نہیں کیا جائے گا، لیکن اس کے لیے عرب اور بین الاقوامی عطیہ دہندگان سے مالی اعانت کی ضرورت ہو گی۔ خلیجی عرب ریاستیں بنیادی عطیہ دہندگان ہوں گی جنہوں نے مختلف پیمانوں میں پہلے بھی فلسطینیوں کی مالی مدد کی ہے۔ دیگر ممکنہ عطیہ دہندگان مسلم ممالک ہیں جو فلسطینی زندگی اور املاک کی بحالی میں دلچسپی رکھتے ہیں، یا ایشیا، یورپ اور (شمالی) امریکہ کے امیر ممالک ہیں۔ عالمی مالیاتی ادارے جیسے کہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ، یورپی بینک برائے تعمیرِ نو اور ترقی، اور دیگر ادارے اپنی تنظیمی نوعیت کی وجہ سے مدد نہیں کر سکتے کیونکہ وہ قرض دینے والے ادارے ہیں نہ کہ عطیہ دہندگان۔
عرب سربراہی اجلاس میں تجویز کردہ مصری منصوبے کو ٹرمپ کی طرف سے مسترد کیے جانے کے بعد، اور امریکہ کی جانب سے دی جانے والی زیادہ تر غیر ملکی امداد کے حوالے سے ان کی مخالفت کے پیش نظر، اس کا امکان بہت کم ہے کہ ان کی انتظامیہ غزہ کی تعمیرِ نو کے لیے عطیہ دینے میں کوئی جلدی دکھائے گی۔ پراپرٹی کے کاروبار والی سوچ جو اِس وقت فلسطین کے حقوق کے حوالے سے امریکی نقطۂ نظر کی نمائندگی کر رہی ہے، وہ غزہ کو محض ایک ساحل سمندر کے طور پر دیکھتی ہے جو ریزورٹس اور خوبصورت تفریح گاہ بننے کے لیے تیار ہے۔ برطانیہ اور جرمنی جیسے یورپی ممالک غزہ پر اسرائیل کی جنگ کی حمایت کرنے میں اتنے ہی قصوروار ہیں جتنا کہ امریکہ، اس لیے ان کی طرف سے اس تعمیرِ نو میں مدد کا امکان بھی کم ہے۔ اس کے علاوہ امریکہ کے جان چھڑانے کے بعد یورپ اس وقت یوکرین کے لیے فنڈنگ اکٹھی کرنے کی مصیبت میں پھنسے ہوئے ہیں، اگر یورپ غزہ کی مدد کرتا بھی ہے تو اس کی شرکت بامعنی طور پر مطلوبہ ہدف پورا کرنے میں ناکام رہے گی۔
لیکن فنڈز دینے والے جو بھی ہوں اور وہ جو بھی حصہ ڈال سکیں، ایک ضروری سوال کا جواب دیا جانا چاہیے: اگر مقصد پورا ہو جاتا ہے تو کیا غزہ کی تعمیرِ نو وقتاً فوقتاً ہونے والی اسرائیلی جنگ سےاور جو کچھ تعمیر کیا گیا ہو اس کی تباہی سے بچ جائے گی، جیسا کہ 2008ء-2009ء، 2014 ءاور 2021ء میں ہوا تھا؟ فلسطینی زمین پر اسرائیلی قبضے اور فلسطینی زندگی کی تباہی کا سلسلہ ختم کیے بغیر، تعمیرِ نو کے فنڈز دینے والوں کو کیسے یقین دلایا جا سکتا ہے کہ ان کی نیک خواہش کو قائم رہنے دیا جائے گا؟
ٹرمپ کی جانب سے عرب سربراہی اجلاس کو دھوکہ
(خلیل ای جہشان، ایگزیکٹو ڈائریکٹر)
اندرون اور بیرون ملک مبصرین صدر ٹرمپ کے غزہ پر قبضہ کرنے کے ’’دہشت اور حیرت‘‘ والے اعلان سے متوقع طور پر چونک گئے، اگرچہ وہ اس وقت ان کی خوفناک تجویز کی سنجیدگی کا اندازہ نہیں لگا سکے۔ عرب رہنما، خاص طور پر مصر اور اردن جیسے متاثرہ ممالک کی نمائندگی کرنے والے، ٹرمپ کے منصوبے کو روکنے، یا کم از کم، اس کو محدود کرنے کے لیے اپنے متبادل منصوبوں کو سامنے لانے کے لیے صاف نظر آنے والی گھبراہٹ میں نکل پڑے۔ ان کے نقطہ نظر سے، اس منصوبے میں نہ صرف غزہ کی آبادی کی غیر قانونی نسلی صفائی ہو گی بلکہ یہ ان کے ممالک کے لیے جغرافیائی، معاشی اور سیاسی سطح پر قومی سلامتی کا خطرہ بھی ہے۔
عرب دنیا کی جانب سے تفصیلی 112 صفحات پر مشتمل مصری منصوبے کی تیز رفتار منظوری شرکاء خاص طور پر واشنگٹن کے ساتھ براہ راست رابطے میں رہنے والوں کے درمیان اس وسیع تاثر کی وجہ سے فوری طور پر ممکن بنائی گئی کہ ٹرمپ انتظامیہ ان کی کوششوں سے پوری طرح آگاہ ہے اور ٹرمپ کی جانب سے تجویز کردہ غزہ کی نسلی صفائی کے متبادل کے طور پر ان کی تجاویز کو قبول کرنے کے لیے تیار ہے۔ یہ تاثر اس غلط مفروضے سے مزید تقویت پا گیا کہ امریکی صدر نے یہ کہہ کر غزہ کی آبادی کو ختم کرنے کے اپنے موقف کو بتدریج نرم کیا کہ وہ کسی پر بھی اپنی غزہ تجویز ’’مسلط نہیں کر رہے‘‘ ہیں۔
قاہرہ میں سربراہی اجلاس کے اختتام کے چند گھنٹوں بعد ہی عربوں کی امیدیں چکنا چور ہوگئیں۔ ہفتوں کی سرگرم سفارت کاری، زمینی تحقیق اور حل کی تلاش کے باوجود، شرکاء کو واشنگٹن میں صدر ٹرمپ کے سامنے اپنے تفصیلی منصوبے کو باضابطہ طور پر پیش کرنے کا موقع بھی نہیں ملا، جیسا کہ ان کا ارادہ تھا۔ ٹرمپ انتظامیہ اور نیتن یاہو حکومت نے اپنے ماہرین کی جانب سے اس کے مندرجات پر تفصیلی نظر ڈالنے سے پہلے ہی عرب غزہ تعمیرِ نو کے منصوبے کو فوری طور پر مسترد کر دیا۔ قومی سلامتی کے ترجمان برائن ہیوز نے اعلان کیا کہ عرب لیگ کا تعمیرِ نو کا منصوبہ ’’اس حقیقت کا ذکر نہیں کرتا کہ غزہ اس وقت رہنے کے قابل نہیں ہے اور اس کے رہائشی ملبے اور بغیر پھٹے گولہ بارود سے ڈھکے علاقے میں انسانی طور پر نہیں رہ سکتے‘‘۔
آیا عرب سربراہی اجلاس کی تعمیرِ نو کا منصوبہ اس قابل ہے یا نہیں، یہ بنیادی طور پر ایک اہم سوال ہے۔ اس کی اصل قدر دیکھنے والے کی نظر میں ہے۔ اسے تیار کرنے والوں کا خیال ہے کہ یہ ایک قابلِ عمل منصوبہ ہے جو غزہ میں جنگ بندی کو برقرار رکھنے اور تباہ شدہ علاقے میں درکار بڑے پیمانے پر تعمیرِ نو کے ابتدائی مراحل کا آغاز کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔تاہم زیادہ اہم بات یہ ہے کہ عرب کیمپ کے ارکان اس بات کو شدت سے محسوس کرتے ہیں کہ ان کا منصوبہ اپنی خامیوں کے باوجود کہیں زیادہ بہتر اور طویل عرصے تک خطے کے لیے بہتر رہے گا، ٹرمپ کے متبادل منصوبہ کی بہ نسبت، جو خطے اور اس سے بھی آگے مزید افراتفری، لڑائی اور بدحالی کا باعث بنے گا۔
اسی وجہ سے، امریکہ کے اتحادی سمجھے جانے والے عرب ممالک ٹرمپ وائٹ ہاؤس میں منصفانہ شنوائی حاصل کرنے میں اپنی ناکامی پر کافی مایوس ہیں، اور واضح طور پر موجودہ انتظامیہ کی جانب سے غزہ میں فلسطینی انسانی زندگی کے معیار کے حوالے سے دکھائی جانے والی اچانک ہمدردی اور جعلی تشویش سے متاثر نہیں ہوئے ہیں۔ آج عرب رائے سازوں کے غالب جذبات اس حقیقت پر مرکوز ہیں کہ صدر ٹرمپ نے امریکی علاقائی اتحادیوں کو کئی ہفتوں کے ایک احمقانہ مشن پر بھیج کر دھوکہ دیا ہے، کیونکہ منصوبے کے اصل مواد سے قطع نظر اسے سنجیدگی سے لینے کا کوئی ارادہ ظاہر نہیں کیا۔
کیا فلسطینی اتھارٹی غزہ پر حکومت کرنے کے لیے واپس آسکتی ہے؟
(یوسف منایر، فلسطین/اسرائیل پروگرام کے سربراہ اور سینئر رفیق کار)
فتح کی بھرپور حمایت یافتہ پی اے کی غزہ پر کنٹرول کے لیے واپسی کی راہ میں حائل بہت سی رکاوٹیں اسرائیلی نسل کشی اور غزہ کی تباہی کے بعد ہی بڑھ گئی ہیں۔ فتح کی حمایت یافتہ پی اے کی غزہ پر کنٹرول کے لیے واپسی پر اثر انداز ہونے والے بہت سے معاملات عرصہ دراز سے چلے آ رہے ہیں جو کہ مزید پیچیدہ ہو گئے ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ اہم یہ ہیں: حماس کی طرف سے تعاون کا عزم، پی اے کی طرف سے غزہ کا کنٹرول سنبھالنے کا عزم، اور پی اے کی حکومت کرنے کی صلاحیت ہے۔
حماس کا موقف شاید واحد معاملہ ہے جو گزشتہ 16 مہینوں میں قابل قدر انداز سے تبدیل ہوا ہے، کیونکہ اس نے عندیہ دیا ہے کہ وہ پیچھے ہٹنے کے لیے تیار ہے بشرطیکہ غزہ فلسطینیوں کے کنٹرول میں رہے۔ یہ پہلے اس کا موقف نہیں تھا، اگرچہ حماس طویل عرصے سے مزاحمتی تحریک کے طور پر اپنے کردار پر توجہ مرکوز کرنے کا خواہشمند تھا، نہ کہ حکومتی اتھارٹی کے طور پر، لیکن آج یہ معاملہ زیادہ لگتا ہے۔ جہاں تک غزہ پر حکومت کرنے کے پی اے کے عزم کا تعلق ہے، رملہ اس مشن سے وابستہ مسائل کی وجہ سے کبھی بھی اس کا خواہشمند نہیں رہا۔ جیسا کہ پی اے بمشکل مقبوضہ مغربی کنارے کے ان علاقوں پر حکومت کرتی ہے جہاں اس کا مبینہ طور پر دائرہ اختیار ہے۔ نسل کشی کے بعد غزہ پر حکومت کرنے کا کام پہلے سے کہیں زیادہ چیلنجوں سے بھرا ہوا ہے، اور یہ تصور کرنا مشکل ہے کہ پی اے اس کے امکانات کے بارے میں کتنا پرجوش ہوگا۔
اس کام کو اتنا ناپسندیدہ بنانے کی ایک وجہ پی اے کی ناقص صلاحیتیں ہیں، خاص طور پر غزہ کے معاملے میں۔ 2007ء میں حماس کے غزہ کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد کئی سالوں تک فتح کی قیادت پر مشتمل پی اے نے غزہ میں اپنے بہت سے وفاداروں اور سرکاری ملازمین کو اپنی تنخواہ پر رکھا۔ بالآخر یہ ادائیگیاں سست یا مکمل طور پر بند ہوگئیں، جس سے غزہ میں پی اے کی رسائی بہت کم ہوگئی۔ مزید برآں، نسل کشی کے دوران غزہ سے باہر جانے والے زیادہ تر فلسطینی حماس سے وابستہ نہیں تھے، جس کا مطلب ہے کہ باقی ماندہ میں سے بہت سے لوگ حماس کی حمایت کرتے ہیں، پی اے کی نہیں۔ اس کے نتیجے میں، اگرچہ حماس اب غزہ کا کنٹرول کسی مختلف فلسطینی دھڑے کے حوالے کرنے کے لیے زیادہ رضامند ہے، تب بھی پی اے اس علاقے کا کنٹرول سنبھالنے کے بارے میں پہلے سے کہیں کم پرجوش ہے۔
کیا عرب سربراہی اجلاس کی تجویز ٹرمپ انتظامیہ کے لیے قابل قبول ہے؟
(اینیل شیلین، غیر رہائشی رفیق کار)
غزہ کے لیے عرب منصوبے پر ردعمل دیتے ہوئے ٹرمپ وائٹ ہاؤس نے کہا ہے کہ یہ منصوبہ دو اہم مسائل کو حل کرنے میں ناکام رہا ہے: ایک غزہ کے حالات سے متعلق اور دوسرا علاقے میں حماس کی مسلسل موجودگی سے متعلق۔
قومی سلامتی کونسل کے ترجمان برائن ہیوز کے مطابق عرب منصوبہ ’’اس حقیقت کی طرف توجہ نہیں کرتا کہ غزہ اس وقت ناقابل رہائش ہے اور وہاں کے رہائشی ملبے اور غیر پھٹنے والے ہتھیاروں سے ڈھکے ہوئے علاقے میں انسانی طور پر نہیں رہا جا سکتا‘‘۔ ہیوز نے یہ تسلیم نہیں کیا کہ اسرائیل نے غزہ میں جدید تاریخ کی سب سے شدید بمباری کے 16 ماہ کے دوران یہ خوفناک حالات پیدا کیے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی تسلیم نہیں کیا کہ اسرائیل اس وقت تمام سامان اور امداد کو غزہ میں داخل ہونے سے روک رہا ہے، جو کہ اسرائیل کے جنگی جرائم کی ایک طویل فہرست میں تازہ ترین ہے، جن میں سبھی کے لیے اسے امریکہ کی طرف سے اجازت اور حمایت حاصل ہے۔
حماس کے بارے میں ہیوز نے کہا کہ ’’صدر ٹرمپ واضح کر چکے ہیں کہ حماس غزہ پر حکومت جاری نہیں رکھ سکتی‘‘ اور یہ کہ ’’صدر ٹرمپ حماس کے بغیر غزہ کی تعمیرِ نو کے اپنے وژن پر قائم ہیں‘‘۔ ہیوز نے اس سوال پر توجہ نہیں دی کہ امریکہ اس وژن کو کیسے حاصل کرے گا۔ ٹرمپ کے اس دعوے کے بعد کہ امریکہ غزہ کا ’’مالک‘‘ ہوگا، یہاں تک کہ سینٹ کے چند ری پبلکنز نے بھی وہاں امریکی فوجیوں کی تعیناتی کے امکان کی مخالفت کا اظہار کیا۔ ہیوز نے مزید کہا: ’’جیسا کہ جنگ کے بعد کے غزہ کے لیے صدر اپنے جرأتمندانہ وژن پر قائم ہیں، وہ خطے میں ہمارے عرب شراکت داروں کی جانب سے تجاویز کا خیرمقدم کرتے ہیں‘‘ ۔
مشرقِ وسطیٰ کے لیے خصوصی ایلچی اسٹیو وِٹکوف نے قدرے مفاہمت آمیز لہجہ اختیار کرتے ہوئے اسے ’’بہت ساری زبردست خصوصیات‘‘ کے ساتھ ’’نیک نیتی کا پہلا قدم‘‘ قرار دیا۔ نہ ہی ہیوز، نہ ہی وٹکوف، اور نہ ہی ٹرمپ انتظامیہ کے دیگر عہدیداروں نے حماس یا اس کی جگہ لینے والی کسی بھی تنظیم کے بنیادی رجحان پر توجہ دی ہے: فلسطین پر اسرائیل کے غیر قانونی قبضے اور فلسطینیوں کے خلاف جاری تشدد کے خلاف مزاحمت۔