یوم نکبہ اور فلسطینیوں کے لیے اس کی اہمیت

اسلامک ریلیف


آج یومِ نکبہ ہے، جسے اس سال غزہ میں فلسطینیوں پر مسلسل بمباری، نقل مکانی اور ناکہ بندی کے باعث یادگاری کے سالانہ دن کے طور پر نمایاں کیا جا رہا ہے۔ یہاں ہم اس دن کی ابتدا اور اہمیت کو دیکھیں گے:

یومِ نکبہ کیا ہے؟

یوم نکبہ ہر سال 15 مئی کو منایا جاتا ہے۔ یہ فلسطینی وطن کی تباہی اور 1948ء میں فلسطینی آبادی کی اکثریت کے بڑے پیمانے پر نقل مکانی کے آغاز کی نشاندہی کرتا ہے۔

نکبہ کا مطلب عربی میں 'تباہ' کا  ہے۔ اور یہ وہ لفظ ہے جو فلسطینیوں اور دیگر لوگوں نے اس تاریخی لمحے کے لیے استعمال کیا ہے۔ کچھ لوگوں کے لیے یہ اصطلاح اس کے بعد فلسطینیوں پر جاری ظلم و ستم اور علاقے پر قبضہ کو بیان کرنے کے لیے بھی استعمال ہوتی ہے۔

1998ء میں، یومِ نکبہ کا باضابطہ افتتاح فلسطینی رہنما یاسر عرفات نے کیا، حالانکہ اس تاریخ کو 1949ء سے یادگاری اور مزاحمت کے احتجاج کے ساتھ نشان زد کیا گیا تھا۔

مئی 1948 میں کیا ہوا؟

مئی 1948ء میں بڑے پیمانے پر نقل مکانی کا آغاز ہوا جس میں 700,000 (سات لاکھ) سے زیادہ فلسطینیوں کو اپنے گھر بار چھوڑنے پر مجبور کیا گیا۔

1948ء کی فلسطین جنگ کے دوران، جو جنوری 1949ء تک جاری رہی، اسرائیلی افواج نے 530 سے ​​زائد فلسطینی دیہاتوں کو تباہ کیا اور کئی قتلِ عام کیے، جس میں تقریباً 15,000 (پندرہ ہزار) افراد ہلاک ہوئے۔

فلسطین کے 78 فیصد تاریخی علاقے پر قبضہ کر لیا گیا اور اسے اسرائیل قائم کرنے کے لیے استعمال کیا گیا۔ بقیہ زمین ان علاقوں میں تقسیم کی گئی تھی جو آج مقبوضہ مغربی کنارہ اور غزہ کی پٹی ہیں۔

جنگ میں اسرائیلی فتح کے بعد یہودی آباد کاروں کو متروکہ مکانات دے دیے گئے۔ 1948ء میں جلاوطن ہونے والے بہت سے فلسطینیوں کی اولادیں آج تک فلسطین کے اندر اور پوری دنیا میں بے گھر ہیں۔ اس وقت تقریباً 60 لاکھ فلسطینی پناہ گزین ہیں۔

اس کی وجہ کیا ہے؟

1920ء سے مئی 1948ء تک برطانیہ نے ’’لیگ آف نیشنز‘‘ کے ایک معاہدے کے تحت ’’لازمی فلسطین‘‘ نامی علاقے پر حکومت کی، جو کہ ’’یونائیٹڈ نیشنز‘‘  (اقوام متحدہ) کا پیش خیمہ ہے۔

دوسری جنگ عظیم اور ہولوکاسٹ کے خاتمے کے بعد برطانیہ نے مینڈیٹ کو ختم کرنے کے اپنے ارادے کا اعلان کیا، اور نو تشکیل شدہ اقوامِ متحدہ نے ایک یہودی ریاست کے قیام کی اجازت دینے کے لیے فلسطین کی دوبارہ حد بندی شروع کی۔ 

تقسیم کے مختلف منصوبوں میں سے کسی کو بھی فلسطینیوں یا عرب لیگ کی حمایت حاصل نہیں ہوئی۔ تاہم جب مینڈیٹ ختم ہواتو  اسرائیل کی ریاست کے قیام کا اعلان کیا گیا جس سے 1948ء کی فلسطین جنگ شروع ہوئی جسے ’’1948ء کی عرب اسرائیل جنگ‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔

نکبہ کے بعد کیا ہوا؟

نکبہ کے بعد کے 76 سالوں میں اسرائیلی ریاست نے فلسطینی سرزمین پر قبضہ کرنے، خاندانوں کو بے گھر کرنے اور اس عمل میں بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔

اس کی بڑی مثالوں میں 1967ء کی چھ روزہ جنگ تھی، جس میں اسرائیلی افواج نے غزہ اور مغربی کنارے سمیت تمام تاریخی فلسطین پر قبضہ کرتے ہوئے 300,000 (تین لاکھ) لوگوں کو ان کے گھروں سے بے دخل کیا۔

اس کے بعد کی دہائیوں میں خطے میں کشیدگی بہت زیادہ رہی ہے، پہلے کی نسبت کشیدگی کے زیادہ واقعات کے ساتھ۔ تاہم اس میں اضافہ کی موجودہ صورتحال واقعی بے مثال ہے۔  35,000 (پینتیس ہزار) سے زیادہ لوگ ہلاک کیے جا چکے ہیں اور بہت سے بے گھر ہوئے ہیں جن میں وہ لوگ بھی ہیں جو نکبہ کے بعد غزہ منتقل ہوئے تھے۔ ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ ہفتے کے دوران صرف رفح سے 450,000  (ساڑھے چار لاکھ) افراد بے گھر ہوئے۔ 

نکبہ سے پہلے فلسطین کیسا تھا؟

نکبہ سے فوراً پہلے فلسطین انگریزوں کے زیر انتظام تھا۔ ’’لازمی فلسطین‘‘ کا قیام شدید نوعیت کی یورپی نوآبادیاتی توسیع کے دور میں، اور عرب بغاوت (1916ء-2018ء) میں سلطنتِ عثمانیہ کی افواج کی بے دخلی کے بعد ہوا۔

(برطانوی) مینڈیٹ کی مدت کے دوران فلسطین ایک مربوط سیاسی اکائی بن گیا جس کا دارالحکومت یروشلم تھا۔ اس دور میں بیوروکریسی، انفراسٹرکچر اور ٹیکنالوجی میں ترقی دیکھنے میں آئی۔  اور یہ بھی سمجھا جاتا ہے کہ یہودی ہجرت کو فروغ دینے اور فلسطینیوں کو خود مختاری سے محروم کرکے اسرائیل کے قیام کی بنیاد رکھی گئی۔

مینڈیٹ کی مدت سے پہلے فلسطین 400 سال تک سلطنتِ عثمانیہ کا حصہ رہا تھا۔

نکبہ کے طویل مدتی نتائج کیا ہیں؟

نکبہ کا نتیجہ دنیا کے سب سے طویل عرصے سے جاری غیر حل شدہ پناہ گزینی بحران کی صورت میں نکلا۔ جس میں غزہ اور مغربی کنارے کے ساتھ ساتھ اردن، لبنان اور شام جیسے پڑوسی ممالک میں تقریباً 6 ملین (ساٹھ لاکھ) فلسطینی پناہ گزین چلا آ رہے ہیں۔ کچھ جگہوں پر ، مشرق وسطیٰ میں فلسطینی پناہ گزینوں نے اپنے میزبان ممالک میں جنگوں اور مزید جلاوطنی کا سامنا کیا ہے۔

خطہ کا بڑا قبضہ جس کا آغاز نکبہ سے ہوا، فلسطینیوں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کر رہا ہے۔ بہت سے قیمتی وسائل اس سرزمین میں موجود ہیں جن پر اب اسرائیل نے دعویٰ کیا ہوا ہے، جو فلسطینیوں کو ان تک رسائی اور ممکنہ طور پر اپنی معیشت کو بڑھانے سے روکتے ہیں۔

اسرائیلی قبضہ، جسے بین الاقوامی قوانین کے تحت غیر قانونی قرار دیا گیا ہے، فلسطینیوں کی زندگی کے ہر پہلو کو متاثر کرتا ہے۔ یہ ان کے بنیادی انسانی حقوق کو تسلیم نہیں کرتا، ان کے وقار کو مجروح کرتا ہے اور غربت کا سبب بنا ہوا ہے۔ یہ نقل و حرکت اور تجارت  کے ساتھ ساتھ پانی، سروسز، کھیتی باڑی، بازاروں، خاندانوں اور مذہبی مقامات تک رسائی کو محدود کرتا ہے۔ یہ غزہ، مشرقی یروشلم اور مغربی کنارے کے فلسطینیوں کو ایک دوسرے سے لاتعلق رکھتا ہے۔ 

غزہ 2007ء سے اسرائیلی ناکہ بندی کی زد میں ہے جس کی وجہ سے علاقہ کے اندر اور باہر سامان اور لوگوں کی نقل و حرکت محدود ہے۔ اس کے انسانی مدد کے حوالے سے ہونے والی سرگرمیوں پر بہت زیادہ مضمرات ہیں۔ مثال کے طور پر ہزاروں ضروری اشیاء کو غزہ میں داخل ہونے سے روک دیا گیا ہے کیونکہ اسرائیل ان کا "دوہرا  استعمال" قرار دیتا ہے، یعنی اسے شہری اور فوجی دونوں مقاصد کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ ایندھن، پانی کے فلٹرز، سولر پمپس اور سرجیکل آلات جیسی چیزوں کو اس بنیاد پر داخلے سے روک دیا گیا ہے۔ اسلامک ریلیف کے عملے نے ایندھن کے بغیر کھانا پکانے کی دشواری کی خبر دی ہے، خاندان کے افراد دھوئیں کے باعث سانس کے مسائل کا شکار ہیں کیونکہ ان کے پاس کھلی آگ پر کھانا پکانے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔ ایندھن کے بغیر ہسپتال زندگی بچانے کے آپریشن نہیں کر سکتے، کوڑا کرکٹ جمع نہیں کیا جا سکتا، اور پانی نہیں پہنچایا جا سکتا۔ ایندھن کی کمی کے اثرات کو اس سے زیادہ بیان  نہیں کیا جا سکتا۔

یومِ نکبہ کیسے منایا جاتا ہے؟

بہت سے لوگوں کے لیے یومِ نکبہ فلسطینیوں پر ہونے والے تاریخی ظلم و ستم کی طرف توجہ مبذول کرنے اور اس بات کو اجاگر کرنے کا ایک موقع ہے کہ یہ اب بھی پوری طرح جاری ہے، خاص طور پر اس طرح کے سالوں میں، جب یومِ نکبہ بحران میں اضافے کے دوران آتا ہے۔

یہ دن مصائب کی داستان سے ہٹ کر فلسطین کی بھرپور ثقافت اور تاریخ کو منانے کا بھی وقت ہے، جو بہت سے لوگوں کے لیے اس علاقے اور اس کے لوگوں کی شناخت واضح کرتا ہے۔ فلسطینی نہ صرف لچکدار ہیں، بلکہ وہ باصلاحیت مصنفین اور رقاص، ہنرمند کڑھائی کرنے والے اور فراخ میزبان ہیں۔

گزشتہ سال، تاریخ میں پہلی بار، اقوامِ متحدہ نے یومِ نکبہ منایا۔ عالمی ادارے نے "فلسطینی عوام کے ساتھ ہونے والی تاریخی ناانصافی کی یاد دہانی" کے ساتھ ساتھ مہاجرین کے جاری بحران کو اجاگر کرنے کے لیے ایک تقریب کا انعقاد کیا۔ تقریب میں تقاریر، موسیقی، تصاویر اور ذاتی شہادتیں شامل تھیں۔

30 سے ​​زائد ممالک نے یومِ نکبہ منانے کی قرارداد کے خلاف ووٹ دیا، جو کہ اسرائیل کی اپنی حمایت کے ساتھ فلسطینیوں کے مصائب کے اعتراف کو متوازن کرنے میں بہت سی ریاستوں کی نااہلی کی عکاسی کرتا ہے۔ اسرائیل اکثر یومِ نکبہ کی سرکاری اور غیر سرکاری تقریبات کی مخالفت کرتا ہے اور انہیں خطے میں امن کی راہ میں رکاوٹ قرار دیتا ہے۔

اسلامک ریلیف یومِ نکبہ کی بات کیوں کر رہا ہے؟

اسلامک ریلیف 1997ء سے مقبوضہ فلسطینی علاقے میں کام کر رہی ہے، ہنگامی ردعمل کی کوششوں اور ترقیاتی پروگرامنگ کے ذریعے ضرورت مند فلسطینیوں کی مدد کر رہی ہے۔

ہمارا بہت سے عملہ اور مقامی شراکت دار اکتوبر 2023ء سے بے گھر ہو گئے ہیں اور انہیں انہی چیلنجوں کا سامنا ہے جن کی ہم حمایت کرتے ہیں۔ غزہ میں ہمارا دفتر ان تقریباً 900,000  (نو لاکھ) عمارتوں میں شامل ہے جنہیں جاری بمباری کے سلسلہ سے تباہی یا نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

بے پناہ چیلنجوں کے باوجود، ہم جب بھی اور جہاں بھی ہو سکے، خوراک اور پانی کی تقسیم، یتیموں کی کفالت اور دیگر امداد کے ذریعے غزہ میں کمزور لوگوں کی مدد کرتے رہتے ہیں۔ اشد ضرورت کے وقت یہ امداد ہزاروں خاندانوں کے لیے لائف لائن ہے۔

تاہم جاری تشدد کے براہ راست نتیجے کے طور پر ہمارے کام اور بہت سی عالمی اور مقامی انسانی تنظیموں کے کام کو روکا جا رہا ہے۔ جنگ بندی اور غزہ کی ناکہ بندی کے خاتمے کے بغیر ہم ان لوگوں کو جو مدد فراہم کر سکتے ہیں، جنہیں اس کی اشد ضرورت ہے، وہ محدود  اور ناکافی ہے۔ 

اسلامک ریلیف یومِ نکبہ کے اس موقع سے فائدہ اٹھا رہا ہے تاکہ عطیہ دہندگان، فیصلہ سازوں اور عام لوگوں کو فلسطینی عوام کی دیرینہ جدوجہد اور مصائب کی یاد دلائے۔ ان کے مصائب کو تاریخ کی کتابوں میں شامل نہیں کیا گیا ہے، یہ ایک گہرا اور تباہ کن انسانی بحران ہے جو دنیا کی آنکھوں کے سامنے آ رہا ہے۔ موجودہ کشیدگی کے 200 دنوں سے زیادہ عرصے سے خاندان الگ ہوئے ہیں، بھوکے کا شکار ہوئے ہیں اور ہلاک کیے گئے ہیں۔ یہ غزہ میں ہر ایک کے لیے موجودہ دور کی حقیقت ہے، لیکن آیا ان کا مستقبل بھی اسی طرح برقرار رہتا ہے یا نہیں، اس کا انحصار آج عالمی رہنماؤں اور بین الاقوامی اداروں کے فیصلوں پر ہے۔


https://islamic-relief.org/news/explainer-nakba-day-and-its-significance-to-palestinians
15 May 2024



عالم اسلام اور مغرب

فلسطین و اسرائیل

(الشریعہ — جولائی ۲۰۲۴ء)

الشریعہ — جولائی ۲۰۲۴ء

جلد ۳۵ ۔ شمارہ ۷

محترم مجیب الرحمٰن شامی کی خدمت میں!
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

اردو تراجمِ قرآن پر ایک نظر (۱۱۴)
ڈاکٹر محی الدین غازی

قرآن کی سائنسی تفسیر
ڈاکٹر ظفر اسحاق انصاری

صوفیہ، مراتبِ وجود اور مسئلہ وحدت الوجود (۳)
ڈاکٹر محمد زاہد صدیق مغل

تصوراتِ محبت کو سامراجی اثرات سے پاک کرنا (۳)
ڈاکٹر ابراہیم موسٰی

انسانی نفس کے حقوق اسلامی شریعت کی روشنی میں
مولانا ڈاکٹر عبد الوحید شہزاد

تحفظ ماحولیات میں اسلام کا کردار و رہنمائی
مولانا محمد طارق نعمان گڑنگی

یوم نکبہ اور فلسطینیوں کے لیے اس کی اہمیت
اسلامک ریلیف

رُموزِ اوقاف
ابو رجب عطاری مدنی

سینیٹر مشتاق احمد کے ’’غزہ بچاؤ دھرنا‘‘ میں مولانا زاہد الراشدی کی شرکت
سید علی محی الدین

قائدِ  جمعیۃ مولانا فضل الرحمٰن کی صحبت میں چند ساعتیں!!
مولانا حافظ خرم شہزاد

سوال و جواب
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

’’الجامع المعین فی طبقات الشیوخ المتقنین والمجیزین المسندین‘‘
ڈاکٹر محمد اکرم ندوی

A New Round of the Qadiani Issue
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

The Pseudo-Believers of the State of Madina
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

تلاش

Flag Counter