خلاصہ
محبت کے مروجہ تصورات انسانی تاریخ کے ایک انتہائی پیچیدہ تجربے کی محض ایک تکرار ہیں۔ یہاں تک کہ محبت کے سیکولرائزڈ ورژن بھی محبت کے خاص باقی رہ گئے لاہوتی اثرات رکھتے ہیں58۔ تاہم مختلف مذہبی روایات میں محبت کی کہانی بہت مختلف ہے جیسا کہ اسلام کے معاملے میں ہے، جس کا یہاں اظہار میں نے ممتاز مسلم مفکر غزالیؒ کی مدد سے کیا۔ اگر محبت کے مسلم تصورات کو اس روایت کی تاریخی اساس کے لحاظ سے پیش کیا جائے تو وہ بھی محبت کے متنوع تصور کا ایک حصہ ہو سکتے ہیں اور محبت کی بالادستی والی تفہیم کو کم کر سکتے ہیں۔
سیاسی الٰہیات اور سیاست کے مباحثوں میں مسلم الٰہیاتی تصورات اور اس کے رحمت و محبت کے تصورات کی عدم موجودگی نے عام طور پر مکالمے اور باہمی افہام و تفہیم میں رکاوٹ ڈالی ہے۔ اسلام میں محبت جیسے تصور کے مظاہر کا اس کی اساس سے آگاہی کے بغیر ترجمہ صرف غلط تعبیر اور الجھن کا باعث بن سکتا ہے۔
اسلام کا اخلاقی نظریہ ادراک، معرفت اور اطاعت کے مظاہر پر مبنی ہے۔ حکم "اپنے پڑوسی سے پیار کرو!" عیسائی الہیات کی ایک مرکزی تعلیم ہے اور اس کے عقیدۂ کفارہ سے جڑی ہے۔ مسیحی محبت، اور "اپنے پڑوسی سے پیار کرو" والا بیانیہ کفارہ کے عقیدہ سے مربوط ایک عمل ہے اور یہ عیسائیت کے لیے لازم و ملزوم کی حیثیت رکھتا ہے۔ اسلامی تعلیمات میں اپنے پڑوسی سے محبت کرنے کا کوئی حکم نہیں ہے۔ جی ہاں، آپ کو اپنے پڑوسی کے ساتھ عدل و انصاف سے پیش آنا اور عزت اور مہربانی کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔
پڑوسیوں کے ساتھ بدسلوکی خدا کی ناراضگی کا باعث بنتی ہے۔ آپ سوئیں اور آپ کا پڑوسی بھوکا ہو یہ اسلام میں ناقابل برداشت ہے۔
اسلامی الٰہیات میں فوکس "خدا کی عبادت" یا "خدا کی خدمت" پر ہے۔ خدا کی خدمت کا مطلب خدا کی مخلوق کی خدمت کرنا ہے۔ ایسی تعلیمات ہیں جن میں خدا انسان سے مخاطب ہے، اور ایک بیان میں مخاطب حضرت موسیٰ ہیں جن سے خدا کہتا ہے: ''میں بیمار تھا اور تم نے میری عیادت نہیں کی؟'' موسیٰ نے جواب دیا 'اے رب، کیسے؟ کیا یہ ہو سکتا ہے؟'' خدا نے جواب دیا: ''میرا فلاں بندہ بیمار تھا اور تم نے اس کی عیادت نہیں کی۔ اگر تم اس کے پاس جاتے تو تم مجھے اس کے ساتھ پاتے 59۔
اس سے پہلے بائبل میں بھی میں اسی طرح کا بیان موجود ہے (میتھیو 25:31-46) جسے حضرت محمدﷺ کی احادیث کی صورت میں مسلم روایت میں بھی جگہ ملی۔ مثلاً اس روایت کے دیگر مسلم متون میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو بھوکے تھے اور تکلیف میں تھے جنہیں ان کے ساتھی انسانوں نے کھانا نہیں کھلایا یا تسلی نہیں دی۔ جب بندہ اس بات سے پریشان ہوتا ہے کہ وہ خدا کی عیادت کیسے کر سکتا، اسے کھانا کیسے کھلا سکتا اور تسلی کیسے دے سکتا ہے، تو اسے بتایا جاتا ہے کہ بیماروں، مسکینوں اور بھوکوں کی خدمت کرنا خدا کو کھانا کھلانے کے مترادف ہے۔ اس میں شامل تشبیہ یہ تو بتاتی ہے کہ احسان کے یہ اعمال خدا کو کھانا کھلانے کے مترادف ہیں، لیکن ان کو کبھی بھی جسمانی طور پر خود خدا کو کھانا کھلانے کے مترادف نہیں سمجھا گیا۔ یاد رکھیں کہ شروع سے ہی مسلم الٰہیات خالق اور مخلوق کے درمیان واضح فرق رکھنے کی کوشش کرتی ہے۔
ایک جیسی روایات اور روایات میں مماثلت سطحی طور پر یہ تاثر دے سکتی ہے کہ مسلم اور عیسائی روایات میں ایک ہی جیسے نظریات ہیں جب کہ وہ واقعی مختلف ہیں۔ ہر ایک کا ایک پیچیدہ الٰہیاتی نظام ہوتا ہے۔اسی طرح اس کے دینیاتی دائرہ میں محبت کا مقام نازک اور نتیجہ خیز نتائج کے ساتھ باہم مختلف ہوتا ہے۔ جیسا کہ میں نے پہلے اشارہ کیا ہے۔”کامن ورڈ“ کے مصنفین اسلام اور عیسائیت کے درمیان غیر مفید اور غلط مذہبی مفاہمت کے چکر میں دونوں کے عقیدہ اور نتائج میں نمایاں فرق کو نظر انداز کر ڈالتے ہیں۔
غزالیؒ کی تعلیمات سے جو نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے وہ یہ ہے کہ خدا کو نہ جان سکنے کا اثبات دوسرے لفظوں میں انسان کے مطلق اور کلی علمیاتی دعوے کی نفی ہے۔ یہ بالکل ممکن ہے کہ کچھ لوگ خدا کو خالص سریان یا مطلق ماورائی بنانے کے لئے بہت پرجوش ہوں۔ کیا یہ ممکن نہیں کہ جس خدا سے محبت کی جانی چاہیے اُسے جاننے کی خواہش اور جس خدا کی معرفت حاصل کی جا سکتی ہے اس سے محبت کی خواہش کسی اور ہی چیز کی تلاش ہو؟ کیا یہ اپنی مرضی کا سراسر استعمال نہیں ہو سکتا جو اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کرنا ہے کہ ہماری خدا کو ایک فریم دینے کی کوشش ہمارے جدلیاتی افق سے نہ بچ پائے۔ کیا خدا کو جاننے کی یہ خواہش اپنے آپ میں طاقت کی خواہش نہیں ہوگی؟ اسلامی روایت و اسلامی نظریہ اللہ کے اسرار کے تصور کو برقرار رکھنے کی کوشش کرتا ہے جو انسانوں کی مکمل گرفت سے باہر ہے۔
تاہم، جب کوئی مسیحی دنیا کے رہنماؤں کے نام کھلے خط میں "ہمارے اور آپ کے درمیان ایک مشترکہ بیان" پڑھتا ہے، تو اس کو کسی اسلامی خصوصیت کا احساس نہیں ہوتا60۔ اس بیان پر دستخط کرنے والوں میں سے کئی جو یورپ اور شمالی امریکہ میں مقیم مسلمان دانشور ہیں، پوپ کو یاد دلاتے ہیں کہ قرآن کے خدا نے اپنے لیے رحمت تجویز کی تھی (قرآن 6:12؛ 6:54 دیکھیں)۔ وہ اسے ایک اور ارشاد خداوندی یاد دلاتے ہیں۔ یعنی یہ قرآنی آیت کہ: ”میری رحمت ہر چیز پر محیط ہے“ (الاعراف 7:156)۔
تاہم ان حضرات نے اس آیت کی تفسیر میں یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ ”رحمت“ کی توضیح محبت، مہربانی اور شفقت سے بھی کی جا سکتی ہے۔ اسی لفظ رحمت سے کلمہ ”بسم اللہ الرحمن الرحیم“ (خدائے رحمن و رحیم کے نام سے) جس کو مسلمان عموماً روز ہی استعمال کرتے ہیں، نکلا ہے۔ کامن ورڈ کے مصنفین سے میرا اختلاف یہ ہے کہ میرے نزدیک مسلم علم کلام میں خدا کی رحمت خدا کی قدرت کا ایک عمل ہے۔ جبکہ دوسری جانب محبت ایک ایسا عمل ہے جس میں محبت کرنے والا اور محبوب دونوں ایک دوسرے سے بندھے ہوتے ہیں جیسا کہ امام غزالی نے واضح کیا ہے61۔
اسلام میں محبت کا مقام اعمال کے اس دائرہ میں واقع ہے جہاں عمل اور وجود دونوں میں تفریق نہیں ہوتی۔جہاں وجودیات اور اعمال میں فرق نہیں کرتے۔ فکری سرگرمی میں خلوص اور سوشل اور اخلاقی کاموں میں محبت پوری طرح راسخ اور جمی ہوئی ہے۔ دوسرے لفظوں میں محبت کی سیاسیات (یعنی تصورات محبت) کو صیقل کرنے کی غرض سے اسلامی وسائل کا جائزہ لینا چھوٹی چیزوں (مائکریونٹس) پر مرتکز رہتا ہے، جو اجتماعی زندگی کو تشکیل دیتی ہیں۔ یعنی فرد، خاندان اور کمیونیٹی کو۔ یہ جائزہ بھی خطرہ سے خالی نہیں۔ اس لیے کہ خاندان کا تصور کم ازکم روایتی خاندان کا جس قسم کے اختیارات کو تشکیل دیتا ہے ان میں بھی خاصے اختلافات موجود ہیں۔ سماج ان افراد کا مجموعہ ہے جو مشترکہ مفادات کی بنیاد پر جمع ہو جاتے ہیں۔ جبکہ قوم یا کمیونیٹی وابستگی کے ایک شدید احساس پر مبنی ہوتی ہے۔ محبت کی سیاسیات سماجی زندگی کے مرکز میں جس چیز کو دوبارہ لاتی ہے وہ معیاریت کے مسائل کی ضرورت پر غور و فکر کرنا ہے۔ دوسرے لفظوں میں فرائض و واجبات کو اختیار کرنا۔ جس کو کہ آج کے ”حقوق“ کلچر کی فضا کا مخالف سمجھا جاتا ہے۔ جو کہ لبرٹی کو دوسری تمام اقدار پر غلبہ دیتی ہے۔ محبت کی سیاسیات ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کرتی ہے کہ ان چیزوں پر بھی غور کریں کہ جن کے باعث ہم اپنی اجتماعیت کو انسانی سماج کے بطور تصور کر پاتے ہیں۔لیکن اس میں ہمیں تنوع و تکثیریت پر بھی زور دینا ہو گا۔
حواشی و تعلیقات
58. ایگلٹن:The Event of Literatureایگلٹن لزومیت کے ساتھ متصادم ہے۔جوایک ایساتصورہے جسے فلسفی وجودی اصطلاحات میں ”کسی چیز کے وجودکی نوعیت کے بارے میں ایک سوال“کے طورپر پیش کرتے ہیں۔محبت وہ ہے جوایگلٹن کے ذہن میں ایک وجودی زمرہ کے طورپر آتی ہے۔ پھروہ ایک جوہرکی طرح محبت سے رجوع کرنے کی تجویز پیش کرتاہے۔مثلامحبت کواخلاقی طورپر ایپروچ کرنا۔ایک انسان کا جوہر کیاہے؟وہی ہے جس سے انسانی محبت کا ظہورہوتاہے۔(17-18 )دوسروں سے محبت کے لیے سب سے پہلے ان کے بارے میں ایک خاص انداز کا احساس کرناہی نہیں بلکہ ان کے ساتھ ایک خاص اندازمیں برتاؤکرنابھی ہے۔(۱۶)یہاں ایگلٹن محبت کوہونے (Being)کی وجودیات سے عمل کی اخلاقیات کی طرف دھکیل رہاہے۔لیکن اس کی اگلی لائن ہی ایک مختلف وجودی موڈکی طرف پھسل جاتی ہے۔”یہی وجہ ہے کہ خیرات کی مثال غیروں کی محبت ہے دوستوں کی نہیں۔اجنبیوں سے محبت کرنے کی کوشش میں ہم محبت کوپیٹ کے گڑھے میں گرم چمک (مطلب کسی کا پیٹ بھرنا)سمجھ بیٹھنے کا امکان کم ہی رکھتے ہیں“(۲۶۔۱۶)غزالی کی سوچ یہ ہے کہ محبت کوپیٹ کے گڑھے میں گرم چمک (ان کی ضرورتیں پوری کرنا)یقینا سمجھاجاسکتاہے۔ایسی محبت جس میں دوست اورغیرسب شامل ہوسکتے ہیں۔جوچیز مسرت آگیں ہوتی ہے اس سے محبت کی جاتی ہے۔کسی سے محبت کرنا،غزالی کہیں گے،اس کے بارے میں ایک خاص انداز کا احساس کرنااوراس کے ساتھ ایک خاص طرح کا برتاؤکرنادونوں ہوسکتاہے۔ایگلٹن واضح طورپرمحبت کے ساتھ ایک وجودیات کوجوڑرہاہے نہ اس کی مظہریت کو۔اسی لیے وہ جذبات اورعمل میں علیحدگی قائم کرتاہے۔
59. الغزالی:کتاب المحبۃوالعشق والانس والرضا،احیاء علوم الدین ص 268
60. http://www.acommonword.com
61. Aijaz Ahmad, In Theory: Classes, Nations, Literatures, (London:Verso, 1992), 190
62. جیساکہ اعجاز احمدنے کہا:جوچیز راسخ العقیدہ اسلام کے لیے مسئلہ ہے وہ یسوع کی نہیں بلکہ عیسائیت کی حیثیت ہے۔اورجس طرح سے یسوع مسیحی عقیدہ میں ظاہرہوتے ہیں۔کیونکہ راسخ العقیدہ عیسائیت اسلام کوایک بدعت مانتی ہے توراسخ العقیدہ اسلام نے بھی تاریخی طورپر عیسائیت کے کچھ بنیادی عقیدوں کومکمل طوپر توہین آمیز اورکفریہ سمجھاہے جیسے کہ تثلیث کا نظریہ اور مسیح علیہ السلام کوخداکابیٹاتصورکرنا۔
نوٹ:
To cite (this article: Ebrahim Moosa (15 Jan 2024): Decolonizing the Politics of Love: A GhazÄlian Genealogy of Love in Islam, Political Theology, DOI: 10.1080/1462317X.2024.2304442 To link to this article:
https://doi.org/10.1080/1462317X.2024.2304442)