گذشتہ رات (۱۲ جون ۲۰۲۴ء) استادِمکرم مولانا زاہدالراشدی صاحب کے ہمراہ قائدِ جمعیۃ حضرت مولانا فضل الرحمٰن صاحب کی خدمت میں حاضر ہونے کی سعادت ہوئی۔ پرتپاک مصافحے اور حال احوال کے بعد مجلس میں موجود مولانا عطاء الرحمٰن صاحب نے کہا کہ پچھلے دنوں مولانا زاہدالراشدی صاحب نے بھی جمعیۃ کا رکنیت فارم پُر کیا ہے۔ اس پر قائد جمعیت گویا ہوئے کہ " یہ رکنیت تو ہر بار کرتے ہیں مگر اپنے آپ کو غیر فعال کارکن کہتے ہیں، حالانکہ جتنے یہ فعال ہیں شائد ہی کوئی اور ہو۔"
قائد جمعیۃ نے حضرت مولانا عبدالکریم قریشی رحمہ اللہ کا واقعہ بھی سنایا کہ ایک مرتبہ انہوں نے مجھ سے فرمایا کہ "فضل الرحمٰن! جمعیت کے کسی کارکن کی رکنیت مت ختم کرنا، میرے نزدیک کسی کو جمعیت سے نکالنا اسلام سے نکالنے کے مترادف ہے۔"
اسی دوران میں نے اپنی حالیہ کتاب "سفرنامہ دارالعلوم دیوبند" پیش کی تو قائد جمعیت نے 1980ء میں منعقدہ دارالعلوم دیوبند کے صدسالہ اجتماع کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ میں بھی والدِ محترم حضرت مفتی محمود صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی قیادت میں پہلی بار دیوبند گیا تھا۔ اور پھر حضرت مفتی صاحب کے خطاب کا تذکرہ کیا کہ انہوں نے اپنے خطاب میں پاکستان میں بھی اسی طرز کے اجتماع کے انعقاد کی خواہش کا اظہار فرمایا تھا مگر 1980ء میں ان کا انتقال ہوگیا۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں 2001ء میں توفیق سے نوازا اور ہم نے پشاور میں ڈیڑھ سوسالہ خدمات دارالعلوم دیوبند کے عنوان سے ایک مثالی عالمی اجتماع منعقد کیا جس میں کم و بیش پندرہ سے بیس لاکھ افراد شریک تھے۔
جامعہ نصرۃالعلوم گوجرانوالہ کے فاضل حافظ دانیال عمر نے مولانا راشدی کے گزشتہ نصف صدی کے دوران کے پانچ ہزار کے لگ بھگ اخباری کالموں کا اسکین کردہ مجموعہ ایک یوایس بی کی صورت میں قائد جمعیت کی خدمت میں ہدیہ پیش کیا تو انہوں نے اس پر بہت خوشی کا اظہار فرمایا۔
اسی دوران قائد جمعیت کے سیکرٹری نے بتایا کہ آدھےگھنٹے تک وزیراعظم شہباز شریف ملاقات کے لیے آرہے ہیں، تو قائد محترم نے فرمایا کہ جلدی سے دستر خوان لگوائیں تاکہ مہمانوں کے ساتھ پہلے کھانا کھا لیا جائے۔ کھانے کے بعد استاد گرامی مولانا زاہدالراشدی صاحب نے واپسی کے لیے قائد جمعیت سے اجازت طلب کی تو انہوں نے فرمایا کہ آپ بھی وزیراعظم کے ساتھ ملاقات میں شامل ہوں گے۔ قائد جمعیت نے میاں صاحب سے حضرت مولانا زاہدالراشدی صاحب کا تعارف کرانا چاہا تو انہوں نے کہاکہ میرا ان سے پرانا تعارف ہے پھر انہوں نے استاد محترم سے پوچھا کہ اب آپ ملتے نہیں ہیں تو انہوں نے مسکرا کر دوسری کوئی بات شروع کردی۔
چونکہ استادجی نے واپسی گوجرانوالہ کے لیے سفر کرنا تھا لہٰذا وزیراعظم اور قائد جمعیت کی ملاقات کے دوران ہی استادجی اجازت لےکر اٹھ کھڑے ہوئے۔ گاڑی تک صاحبزادہ مولانا اسعد محمود صاحب چھوڑنے آئے۔ کم و بیش گھنٹہ ڈیڑھ قائد جمعیت حضرت مولانا فضل الرحمٰن صاحب کے ہاں گزار کر رات دس بجے گوجرانوالہ کے لیے عازمِ سفر ہوئے۔ ملاقات میں جامعہ نصرۃالعلوم گوجرانوالہ کے فاضل مولانا دانیال عمر اور حافظ شاہد میر صاحب بھی موجود تھے۔