محترم مجیب الرحمٰن شامی کی خدمت میں!

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

مجیب الرحمٰن شامی صاحب ہمارے محترم اور بزرگ دوست اور ملک کے ممتاز دانشور ہیں جنہوں نے دینی و قومی تحریکات میں ہمیشہ اجتماعی ضمیر کی نمائندگی کی ہے اور اپنے دائرہ کار میں صفِ اول کے راہنما کا کردار ادا کیا ہے۔ گزشتہ روز انہوں نے ایک نشری گفتگو میں قادیانیوں کے شہری حقوق اور ان کے بقول قادیانیوں کے ساتھ ہونے والی مبینہ زیادتیوں کا تذکرہ کیا ہے اور ملک کی دینی قیادت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ مل بیٹھ کر اس مسئلہ کا کوئی حل نکالیں۔

جہاں تک مولانا مفتی محمد تقی عثمانی، مولانا فضل الرحمٰن اور مولانا مفتی منیب الرحمٰن سمیت ملک کی دینی قیادت سے ان کا یہ تقاضہ ہے کہ وہ قادیانیوں کے شہری حقوق کے بارے میں دن بدن بڑھتی چلی جانے والی کنفیوژن کا باہمی مشاورت کے ساتھ کوئی متوازن حل نکالیں، ہم اس کی مکمل حمایت کرتے ہیں۔ بلکہ ہماری درخواست یہ ہو گی کہ ۱۹۵۳ء، ۱۹۷۴ء اور ۱۹۸۴ء کی تحریکاتِ ختمِ نبوت کی طرح تمام مکاتبِ فکر کی قیادتیں ایک بار پھر ’’کل جماعتی مجلسِ عمل تحفظِ ختمِ نبوت‘‘ کا فورم بحال کر کے اس نئی صورتحال پر اجتماعی راہنمائی اور قیادت فراہم کریں۔ جس میں حسبِ سابق قانون دان حلقوں، تاجر برادری، سیاسی راہنماؤں اور دیگر اہلِ دانش کی بھرپور نمائندگی موجود ہو تاکہ ان کا موقف اور فیصلہ پہلے کی طرح اب بھی قومی حیثیت کا حامل سمجھا جائے۔

مگر شامی صاحب محترم نے خود قادیانیوں کے ساتھ ہونے والی مبینہ زیادتیوں کا تذکرہ تو فرمایا ہے جبکہ اس میں تلخ لہجہ کی آمیزش کے ساتھ قادیانیوں کی طرف سے مسلسل سامنے آنے والی زیادتیوں کو یکسر نظرانداز کر دیا ہے، اس پر ان سے ہمارا شکوہ بنتا ہے۔ شامی صاحب محترم سے زیادہ کون جانتا ہے کہ ہم نے دوسری غیر مسلم اقلیتوں کی طرح قادیانیوں کے مسلمہ شہری حقوق کی ہمیشہ حمایت کی ہے، بلکہ قادیانیوں کو ایک اسلامی ریاست میں غیر مسلم اقلیت کے طور پر قبول کرنے کا اصولی فیصلہ بھی مسلّمہ شہری حقوق کے دائرہ میں کیا گیا تھا۔ ورنہ ماضی میں اسلامی ریاست میں ختمِ نبوت کے منکرین کو غیر مسلم اقلیت کے دائرہ میں بطور شہری تسلیم کرنے کی کوئی روایت کم از کم ہمارے مطالعہ اور علم کے مطابق موجود نہیں ہے۔

قیامِ پاکستان کے بعد ملک کے تمام دینی مکاتب فکر کی قیادتوں کی طرف سے قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کا متفقہ مطالبہ ایک نئی روایت تھی جو مسلمہ دینی قیادتوں نے اجتہادی فیصلہ کے طور پر قائم کی تھی، اور اب تک وہ اس پر متفق اور قائم چلے آ رہے ہیں۔ ا سکے پیچھے مفکر پاکستان علامہ محمد اقبالؒ کا برطانوی حکومت سے یہ مطالبہ تھا کہ قادیانیوں کا شمار مسلمانوں سے الگ امت کے طور پر کیا جائے اور انہیں کسی بھی حوالہ سے مسلمانوں کا حصہ نہ سمجھا جائے۔ علامہ محمد اقبالؒ کا یہ مطالبہ آج کے عالمی ماحول اور اس میں اقوام و طبقات کے مسلّمہ شہری حقوق کے دائرہ میں ہی تھا جسے دینی قیادت نے قبول کر کے قادیانیوں کو اسلامی جمہوریہ پاکستان میں دیگر غیر مسلم اقلیتوں کے ساتھ شمار کرنے کا مطالبہ کیا، اور اس مطالبہ کو ۱۹۷۴ء میں پارلیمنٹ نے متفقہ فیصلہ کی رو سے تسلیم کر کے دستور و قانون کا حصہ بنا لیا۔ جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ ملک میں بسنے والی دیگر غیر مسلم اقلیتوں کی طرح قادیانیوں کو بھی وہ تمام شہری حقوق حاصل ہوں گے جو آج کے عالمی عرف و قانون میں کسی بھی ملک کی کسی بھی اقلیت کے لیے تسلیم شدہ ہیں۔

مگر شامی صاحب یہ بھی جانتے ہیں کہ قادیانیوں نے دستور و قانون کے اس فیصلہ بلکہ اس کے ساتھ ملک کی اعلیٰ عدالتوں کے تمام متعلقہ فیصلوں کو تسلیم کرنے سے انکار کر رکھا ہے۔ اور ان کے اس انکار اور ہٹ دھرمی کے باعث ۱۹۸۴ء کا وہ امتناعِ قادیانیت کا قانون لانا پڑا جس میں ان پر متعینہ پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔ یہ پابندیاں دستور و قانون کے فیصلوں کو تسلیم نہ کرنے کی قادیانی ہٹ دھرمی کا نتیجہ تھیں جو اس ہٹ دھرمی کے بدستور قائم رہنے کی وجہ سے مسلسل چلی آ رہی ہیں۔ ورنہ اگر قادیانی دستوری فیصلہ کو تسلیم کر لیتے تو ان کے لیے پابندیوں کی کسی الگ فہرست کی ضرورت نہیں تھی، بلکہ جو قوانین اور حدود دیگر اقلیتوں کے لیے موجود ہیں وہی ان کے لیے بھی کافی تھے۔

محترم شامی صاحب یہ بھی جانتے ہیں کہ قادیانیوں نے پارلیمنٹ اور اعلیٰ عدالتوں کے ان فیصلوں اور قوم کے تمام طبقات اور مکاتبِ فکر کے متفقہ موقف کو نہ صرف مسترد کر رکھا ہے بلکہ اس کے خلاف وہ عالمی سطح پر منفی پراپیگنڈا اور ہر سطح پر لابنگ میں بھی مسلسل سرگرمِ عمل ہیں، جو بجائے خود ملک و قوم کے خلاف سنگین جرم کی حیثیت رکھتا ہے۔ شامی صاحب سے گزارش ہے کہ ان کا موقف یقیناً‌ قابل توجہ ہے اور اس پر دینی مکاتب فکر کی قیادتوں کے متفقہ غور و خوض کی ضرورت ہم بھی محسوس کر رہے ہیں مگر اس کے لیے کسی ’’ہجوم‘‘ یا ’’بے لگام مذہبی قیادت‘‘ کے خلاف غصہ نکالتے چلے جانے کی بجائے اس کے حقیقی اسباب کو بھی سامنے رکھنے کی ضرورت ہے، اور کوئی بھی یکطرفہ بات ملک کی رائے عامہ کی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکتی۔

ہم بارہا اعلانیہ کہہ چکے ہیں بلکہ میں نے خود چند سال قبل چناب نگر میں منعقدہ احرار کانفرنس میں کھلے بندوں یہ عرض کیا تھا کہ قادیانی ملک کے دستور و قانون کو تسلیم کرنے کا اعلان کریں اور اس کے مطابق اپنی شہری حیثیت تسلیم کریں تو ہم ان کے ان تمام شہری حقوق کی حمایت کریں گے جو آج کے دور میں مسلّمہ ہیں، اس کے بغیر ان کا کوئی واویلا پاکستانی قوم سے موقف تسلیم کرانے میں کبھی کامیاب نہیں ہو سکتا۔

پاکستان ۔ قومی و ملی مسائل

(الشریعہ — جولائی ۲۰۲۴ء)

الشریعہ — جولائی ۲۰۲۴ء

جلد ۳۵ ۔ شمارہ ۷

محترم مجیب الرحمٰن شامی کی خدمت میں!
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

اردو تراجمِ قرآن پر ایک نظر (۱۱۴)
ڈاکٹر محی الدین غازی

قرآن کی سائنسی تفسیر
ڈاکٹر ظفر اسحاق انصاری

صوفیہ، مراتبِ وجود اور مسئلہ وحدت الوجود (۳)
ڈاکٹر محمد زاہد صدیق مغل

تصوراتِ محبت کو سامراجی اثرات سے پاک کرنا (۳)
ڈاکٹر ابراہیم موسٰی

انسانی نفس کے حقوق اسلامی شریعت کی روشنی میں
مولانا ڈاکٹر عبد الوحید شہزاد

تحفظ ماحولیات میں اسلام کا کردار و رہنمائی
مولانا محمد طارق نعمان گڑنگی

یوم نکبہ اور فلسطینیوں کے لیے اس کی اہمیت
اسلامک ریلیف

رُموزِ اوقاف
ابو رجب عطاری مدنی

سینیٹر مشتاق احمد کے ’’غزہ بچاؤ دھرنا‘‘ میں مولانا زاہد الراشدی کی شرکت
سید علی محی الدین

قائدِ  جمعیۃ مولانا فضل الرحمٰن کی صحبت میں چند ساعتیں!!
مولانا حافظ خرم شہزاد

سوال و جواب
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

’’الجامع المعین فی طبقات الشیوخ المتقنین والمجیزین المسندین‘‘
ڈاکٹر محمد اکرم ندوی

A New Round of the Qadiani Issue
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

The Pseudo-Believers of the State of Madina
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

تلاش

Flag Counter