مطیع سید: سنن نسائی کے بارے میں ڈاکٹر محمود احمدغازی اپنے محاضراتِ حدیث میں لکھتے ہیں کہ صحت کے اعتبار سے بخاری و مسلم کے بعد اس کا مقام ہے۔ اس میں سب سے کم ضعیف روایتیں ہیں، رواۃ بھی بڑے مضبوط ہیں۔
عمار ناصر: جی التزام ِ صحت اس میں زیادہ ہے۔
مطیع سید: تو پھر اسے صحاح ستہ میں چوتھے یا پانچویں نمبر پر کیوں رکھا جا تا ہے ؟
عمار ناصر: وہ اصل میں معنوی افادیت کے پہلوسے ہے۔ سنن میں سب سے زیادہ اہمیت ترمذی کو ملی ہے۔ اس کی کچھ اپنی خصوصیات ہیں۔ ایک تو وہ روایت کے ساتھ حکم بھی بتا دیتے ہیں۔ اس کا مافی الباب ذکرکرتےہیں۔ پھر فقہی مذاہب بھی بیان کرتے ہیں۔ فقہی نقطہ نظر سے اس کی زیادہ اہمیت ہے۔ اس کے بعد سنن ابی داود ہے جو بنیادی طور پر احادیث احکام کا مجموعہ ہے۔ اس کی فقہی اہمیت بھی بہت ہے اور امام ابوداود جو حدیث کے علل وغیرہ پر گفتگو کرتے ہیں، وہ محدثانہ نقطہ نظر سے بہت قیمتی ہوتی ہے۔ یوں سنن نسائی کی اہمیت ذرا کم ہو جاتی ہے، اگرچہ ان کا معیار صحت بلند ہے۔
مطیع سید: حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ عصر کے بعد کی دو رکعتیں نبی ﷺ نے ہمیشہ پڑھیں اور حضرت ام سلمہ فرماتی ہیں کہ آپ ﷺ نے ایک بار پڑھیں، پھر نہیں پڑھیں۔ (کتاب المواقیت، باب الرخصۃ فی الصلاۃ بعد العصر، حدیث نمبر ۵۷۰، ۵۷۵) آپﷺ اپنی ازواج کے ساتھ رہتے تھے اور وہ بڑی باریکی سے ہر چیز نوٹ کرتی تھیں تو یہ اتنا بڑا اختلاف کیسے ہو سکتاہے؟
عمار ناصر: دو ہی امکان ہو سکتے ہیں۔ ازواج تو ہمیشہ ساتھ ہی رہتی تھیں، لیکن یہ ضروری نہیں کہ ہر روز آپ ﷺ عصر کے وقت ایک ہی جگہ ہوں۔ روایت میں ہے کہ آپ نے یہ دو رکعتیں اس وقت پڑھنی شروع کی تھیں جب آپ ﷺ کسی خاص وجہ سے ظہر کے بعد دو رکعتیں نہیں پڑھ سکے تھے تو آپ نے عصر کے بعد پڑھ لیں۔ ام المومنین حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ آپ جو عمل شروع کرتے تو پھر اس کو ہمیشہ کرتےتھے۔ تو ممکن ہے، آپ نے ایک دفعہ یہ رکعتیں پڑھنے کے بعد اس کا تسلسل جاری رکھا ہو۔ اگر ایسا ہوا ہے تو پھر سیدہ عائشہ کی روایت واقعے کی صحیح تصویر بتا رہی ہے۔ حضرت ام سلمہ کے سامنے ممکن ہے، ایک دفعہ پڑھنے کے بعد دوبارہ ایسا موقع نہ آیا ہو۔
مطیع سید: نمازوں کے جو مکروہ اوقات ہیں، امام شافعی فرماتے ہیں کہ ان سب اوقات میں نماز جائز ہے ؟
عمار ناصر: وہ غالباً بیت اللہ میں ان اوقات میں نماز کے جواز کے قائل ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ بیت اللہ کراہت کے حکم سے مستثنیٰ ہے۔
مطیع سید: اگر سوا پانچ بجے عصر کی جماعت ہو گئی تو اب جس نے عصر پڑھ لی ہے، وہ پانچ بج کر تیس منٹ پر بھی نفل نہیں پڑھ سکتا۔ اور جس نے عصر نہیں پڑھی، وہ ساڑھے چھ تک پڑ ھ سکتا ہے۔ تو وقت تومکروہ ہی چل رہا ہے۔
عمار ناصر: نہیں اس کا تعلق وقت سے نہیں ہے۔ یہ الگ حکم ہے۔ اصل میں عصرکے فرض پڑھ لینے کے بعد احتیاطاً اس کو ناپسندکیا گیا ہے کہ نوافل پڑھے جائیں۔ یہ بنیادی طور پر وقت کے مکروہ ہونے کا مسئلہ نہیں ہے۔
مطیع سید: کہا جاتا ہے کہ ان تینوں اوقات میں سورج کی پوجا کی جاتی تھی، تو اس کے ساتھ مشابہت سے بچنے کے لیے یہ کیا جاتا ہے۔
عمار ناصر: یہاں دو الگ الگ باتیں ہیں۔ ایک ہیں وہ تین متعین اوقات، یعنی سورج کے طلوع کا وقت، نصف النہار کا وقت اور ایک جب سورج غروب ہو رہا ہو۔ ان تین اوقات میں تو مطلق ممانعت ہے۔ عین ان اوقات میں نماز پڑھنا، اس کی حکمت سورج کی عبادت کی مشابہت سے بچنا ہے اور اس وقت فرض ادا کرنا بھی درست نہیں۔ دوسرا حکم الگ ہے، وہ یہ کہ آپ نے فجر پڑھ لی تو اس کے بعد آپ سورج کے طلوع ہونے تک نوافل نہ پڑھیں۔ دو الگ الگ حکم ہیں۔
مطیع سید: آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں تمہیں پیچھے سے بھی دیکھتا ہوں۔ (کتاب الامامۃ، باب کم مرۃ یقول استووا، حدیث نمبر ۸۰۹) یہ آپ ﷺ کا معجزہ تھا یا ویسے ہی آپ نے مجازاً فرمایا ؟
عمار ناصر: دونوں پر محمو ل کر سکتے ہیں۔ مطلب یہ کہ مجھے پتہ چل جاتا ہے کہ تم پیچھے کیا کر رہے ہوں۔ ممکن ہے، آپﷺ باقاعدہ پیچھے بھی دیکھ لیتے تھے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آپﷺ کی مراد یہ ہو کہ مجھے معلوم ہو جاتاہے۔
مطیع سید: جماعت میں شر کت نہ کرنے پر ایک روایت میں بڑی سخت وعیدآئی ہے جس میں آپﷺ نے ان لوگوں کا گھر جلانے کے بارے میں بات کی ہے جو بلاعذر جماعت میں شریک نہیں ہوتے۔ (کتاب الامامۃ، باب التشدید فی التخلف عن الجماعۃ، حدیث نمبر ۸۴۴) اتنی سخت وعید کے باوجود فقہا اسے فرض یا واجب کی بجائے سنت موکدہ قرار دیتے ہیں ؟
عمار ناصر: اس وعید کا سیاق یہ بتاتا ہے کہ وہاں دراصل فی نفسہ باجماعت نماز کا حکم نہیں بیا ن کیا جا رہا۔ اصل میں منافقین کے کچھ گروہوں کا ذکر ہو رہا ہےجن کے، جماعت میں شرکت نہ کرنے کی باقاعدہ قرآن نے بھی شکایت کی ہے۔ ان کے بارے میں آپ ﷺ یہ فرما رہے ہیں کہ انہوں نے ایک عادت بنالی ہے، یعنی وہ ایک تسلسل سے جماعت میں شرکت نہیں کررہے۔ ایک عام مسلمان کا رد عمل تو یہ ہوگا کہ وہ ضرور جماعت میں آئے گا۔ کسی وجہ سے نہیں آسکا، کچھ سستی ہو گئی یا ایک آدھ جماعت چھوٹ گئی ہے تو یہ اور چیز ہے۔ تبصرہ اصل میں ان لوگوں پر ہو رہا ہے جو ایک اجتماعی شعار سے مسلسل رو گردانی کر رہے تھے۔ قرآن نےبھی اسی لیے ان کے بارے میں کہا ہے۔ واذا قاموا الی الصلاۃ قاموا کسالیٰ اور اس طرح کی دیگر آیات بھی ہیں۔
مطیع سید: آپ نے اس روایت کا سیاق بیان فرمایا ہے، وہ کہاں سے لیا ہے ؟
عمار ناصر: روایت میں بھی شواہد ہیں اور جیسے میں نے کہا، قرآن سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔
مطیع سید: قنوت سے متعلق باب میں ایک روایت میں ہے کہ خلفائے راشدین نے (فرض نمازوں میں) دشمن کے خلاف دعائے قنوت نہیں پڑھی اور یہ بدعت ہے۔ (کتاب التطبیق، باب ترک القنوت، حدیث نمبر ۱۰۷۶) لیکن آپ نے ایک مرتبہ فرمایا تھاکہ حضرت علی اور امیر معاویہ کے مابین جو جنگیں ہوئیں، ان میں وہ دونوں قنوت پڑھتے تھے۔
عمار ناصر: امام نسائی کا مطلب یہ ہے کہ معمولاً نہیں پڑھی۔ نبیﷺ نے بھی معمولاً نہیں پڑھی۔ صحابہ کا معمول بھی نہیں رہا، لیکن اہم مواقع پر ان سے ثابت ہے۔
مطیع سید: حضرت حکیم کہتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عہد کیا کہ میں قیام کی حالت سے ہی سجدے میں جاوں گا۔ (کتاب التطبیق، باب کیف یحنی للسجود، حدیث نمبر ۱۰۸۰) اس سے کیا مراد ہے ؟
عمار ناصر: مراد یہ ہے کہ رکوع سے اٹھنے کے بعد جب تک بالکل سیدھا کھڑا نہ ہو جاوں، سجدے میں نہیں جاوں گا۔ یہ تعدیل ارکان کی ہدایت ہے جو اور بھی بہت سی حدیثوں میں بیان ہوئی ہے۔
مطیع سید: یہ اونٹ کی طرح نماز میں بیٹھنے کی پوزیشن کیا ہو سکتی ہے جس سے منع کیا گیا ہے؟ (کتاب التطبیق، باب اول ما یصلی الی الارض من الانسان فی سجودہ، حدیث نمبر ۱۰۸۶)
عمار ناصر: اس کے متن میں ایسا لگتا ہے کہ کچھ خلل واقع ہو گیا ہے۔ الفاظ کے مطابق یہ کہا گیا ہے کہ سجدہ میں جاتے ہوئے اونٹ کی طرح اعضاء زمین پر نہ رکھا کرو، یعنی پہلے ہاتھ زمین پر رکھو اور پھر گھٹنے رکھو۔ اب اونٹ جب بیٹھتا ہے تو وہ پہلے اگلی ٹانگیں زمین پر بچھاتا ہے۔ اس لحاظ سے جملہ یوں ہونا چاہیے کہ پہلے گھٹنے زمین پر رکھو اور اس کے بعد ہاتھ رکھو۔ دیگر روایات میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سجدہ کرنے کا طریقہ بھی یہی بیان ہوا ہے۔ (کتاب التطبیق، باب اول ما یصلی الی الارض من الانسان فی سجودہ، حدیث نمبر ۱۰۸۵) فطری طور پر بھی یہی بات درست لگتی ہے کہ آپ پہلے اپنے گھٹنے نیچے رکھیں، نہ یہ کہ پہلے ہاتھ رکھیں۔
مطیع سید: لیکن بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ اگر آپ ہاتھ پہلے رکھیں گے تو سجدے کی حالت میں جلدی چلےجائیں گے، یعنی اللہ کی طرف جھکاؤ جلدی ہو جائے گا۔
عمار ناصر: نہیں، نماز میں فطری طریقے پر انتقال ہوتا ہے۔ زیادہ فطری طریقہ یہی لگتا ہے کہ پہلے گھٹنے رکھے جائیں، پھر ہاتھ اور پھر سر رکھا جائے۔
مطیع سید: ان روایتوں میں جو اختلاف ہے، اس میں آ پ کا نقطہ نظر کیا ہے؟
عمار ناصر: میں نے ان کےطرق کی تحقیق تو نہیں کی۔ میں تو ایک کامن سینس کی بات کر رہاہوں۔ فطری ترتیب یہی لگتی ہے کہ آ پ سجدے میں جائیں تو جو اعضا آ پ کے زمین کے قریب ہیں، پہلے ان کو زمین پر رکھیں۔
مطیع سید: امام نسائی نے ایک باب میں نماز میں دائیں بائیں دیکھنے کی بھی رخصت لکھی ہے، (کتاب السہو، باب الرخصۃ فی الالتفات فی الصلاۃ یمینا وشمالا، حدیث نمبر ۱۱۹۷) لیکن ہمارے ہاں تو اس کی اجازت نہیں دی جاتی۔
عمار ناصر: احادیث میں بلا ضرورت ادھر ادھر دیکھنے کو نماز میں شیطان کا حصہ کہا گیا ہے۔ البتہ کسی ضرورت کے تحت یا غیر ارادی طورپر دیکھ لیا جائے تو اس میں مضائقہ نہیں ہے، اگرچہ بہتر یہی ہے کہ چہر ے کو سیدھا ہی رکھا جائے۔ عام لوگوں کو فقہی مسائل بتانے میں کچھ سختی کی جاتی ہے۔
مطیع سید: ایک موقع پر ظہر کی پانچ رکعتیں پڑھانے کے بعد آپ ﷺ نے چھٹی رکعت نہیں ملائی، بلکہ سجدہ سہو کر لیا (کتاب السہو، باب ما یفعل من صلی خمسا، حدیث نمبر ۱۲۵۰)، جبکہ فقہا کہتے ہیں کہ اگر آپ نے غلطی سے پانچ پڑھ لی ہیں تو اب چھٹی ملانی ضروری ہوگی تا کہ پہلی چار فر ض بن جائیں اور باقی دو نفل بن جائیں۔
عمار ناصر: اس میں اہم بات یہ ہے کہ نبی ﷺ کو پانچ رکعتیں پڑھا دینے یعنی نماز مکمل کر لینے کے بعد یہ معلوم ہوا تھا۔ تو اس سے فرق پڑ جاتا ہے۔ اگر آپ کو نماز میں خود ہی پتہ چل گیا ہے کہ ایک رکعت زائد ہو گئی ہے تو پھر یہ قیاس ٹھیک لگ رہا ہے کہ ایک اور رکعت ملا کر دو زائد رکعتیں کر دی جائیں۔ لیکن اگر آپ کو بعد میں پتہ چلتا ہے تو پھر حدیث کے مطابق یہ بھی کافی ہے کہ اب ایک مزید رکعت پڑھنے کے بجائے بس سجدہ سہو کر لیا جائے۔
مطیع سید: جمعہ کے خطبے کے دوران میں ایک آدمی بیٹھنے لگا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ بیٹھو نہیں، بلکہ نماز پڑھو (کتاب الجمعۃ، باب الصلاۃ یوم الجمعۃ لمن جاء والامام یخطب، حدیث نمبر ۱۳۹۶)جبکہ ہمارے ہاں کہا جاتا ہے کہ خطبہ سننا واجب ہے، اس کے دوران نماز نہیں پڑھنی چاہیے۔
عمار ناصر: اس بارے میں محدثین اور فقہا میں بحث ہے کہ کیا آپ ﷺ کا مقصد اس واقعے میں لوگوں کو یہ بتانا تھا کہ نماز پڑھے بغیر نہ بیٹھیں، یعنی اصل مقصد نماز پڑھوانا تھا، یا کوئی اور وجہ تھی۔ احناف کا کہنا ہے کہ وہ ایک غریب آدمی تھا، اس کی حالت ایسی تھی کہ آپﷺ نے فرمایا کہ تم نماز پڑھو تاکہ لوگ اس کی حالت کو دیکھ لیں اور اس کے بعد آپ نے لوگوں کو اس پر صدقہ کرنے کی ترغیب بھی دی۔ احناف کی یہی رائے ہے کہ وہ ایک خاص واقعہ تھا۔ اس کے علاوہ اور کہیں نہیں ملتا کہ آپ نے لوگوں کو خطبے کے دوران میں نماز کے لیے کہا ہو۔ اصل میں لوگوں کو اس شخص کی حالت کی طرف متوجہ کرناتھا۔ البتہ یہ حکم عربی خطبے کا ہے جو فقہاء کے نزدیک نماز کی دو رکعتوں کے قائم مقام ہے۔ اردو میں جو تقریر کی جاتی ہے، اس کا فقہی طور پر یہ نہیں ہے۔ اس دوران میں نماز ادا کی جا سکتی ہے۔
مطیع سید: عبد اللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں کہ صلوۃ الخوف کی ایک رکعت فرض کی گئی ہے۔ (کتاب صلاۃ الخوف، باب صلاۃ الخوف، حدیث نمبر ۱۵۲۸) اس کے کیا معنی ہیں؟
عمار ناصر: وہ غالباً یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ اگر سفر میں صلوۃ الخوف ادا کی جائے تو دو رکعتوں میں سے مقتدیوں کو امام کے ساتھ ایک ہی رکعت ملتی ہے، دوسری رکعت وہ خود اپنے طور پر پڑھتے ہیں۔
مطیع سید: صلوۃ الکسوف کے اتنے زیادہ طریقے منقول ہیں۔ کیا سورج گرہن کا واقعہ ایک ہی دفعہ ہوا تھا یا کئی دفعہ؟
عمار ناصر: عموماً یہی مانا جاتا ہے کہ آپ کے دور میں ایک ہی دفعہ سورج کو گرہن لگنے کا واقعہ پیش آیا۔ اس لیے یہ سوال اہم ہے کہ جب یہ ایک ہی دفعہ کا واقعہ ہے تو روایات میں اتنا اختلاف کیسے پیدا ہوگیا۔ بعض اہل علم کہتے ہیں کہ آپ نے کافی لمبا رکوع کیا تھا اور لوگ بار بار اٹھ کر دیکھتے تھے کہ آپ رکوع سے اٹھے یا نہیں، اس لیے راویوں میں اختلافات پیدا ہو گئے۔ دیگر حضرات کہتے ہیں کہ نہیں، آپ نے واقعی ایک سے زائد رکوع کیے تھے۔
مطیع سید: نماز وترکے بارے میں فرمایا کہ جس کا جی چاہے، ایک رکعت پڑھ لے اور جس کا جی چاہے، بس اشارہ کر دے۔ (کتاب قیام اللیل وتطوع النہار، باب ذکر الاختلاف علی الزہری فی حدیث ابی ایوب فی الوتر، حدیث نمبر ۱۷۰۹) اس کا کیا مطلب تھا ؟
عمار ناصر: بظاہر مطلب یہ بنتا ہے کہ وتر کو ترک نہ کرے، اگر باقاعدہ کھڑے ہو کر پڑھنے کو جی نہ چاہ رہا ہو تو بے شک بیٹھے یا لیٹے ہوئے اشارے سے ہی پڑھ لے۔ لیکن شارحین نے اور معنوں پر بھی محمول کیا ہے۔ مثلاً یہ کہ اس سے مراد بیمار آدمی ہے جو کھڑے ہو کر یا بیٹھ کر وتر نہ پڑھ سکتا ہو۔ اس کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ اس حالت میں بھی چاہے اشارے سے وتر پڑھ لے، لیکن ضرور پڑھے۔
مطیع سید: یہ جو وتر کی پانچ یاسات رکعتیں ہیں، کیا یہ ایک ہی سلام کے ساتھ پڑھی جاسکتی ہیں ؟
عمار ناصر: جی، روایات میں منقول ہے کہ آپ ﷺ تہجد میں یہ سب رکعات اکٹھی پڑ ھ کر آخر میں سلام پھیر دیتے تھے۔
مطیع سید: یہ پانچ یا سات رکعتیں وترہیں یا یہ تہجد کی نماز کا حصہ ہے ؟
عمار ناصر: روایات میں وتر کا استعما ل مختلف معنوں میں ہواہے۔ بحیثیت مجموعی پوری نماز تہجد کو بھی وتر کہا گیا ہے، کیونکہ دو دو رکعتیں پڑھتے ہوئے آخر میں آپ ایک یا تین رکعت ملائیں تو اس سے پوری نماز طاق ہو جاتی ہے۔ لیکن دوسرے لحاظ سے دیکھیں تو وہ ایک رکعت یا تین رکعتیں جو طاق تعداد میں پڑھی گئیں، دراصل وہی وتر ہوتی ہیں۔ اس سے فقہا اور محدثین میں بحث پیدا ہوگئی کہ وتر ایک الگ نماز ہے جو تہجد کے آخر میں اس کے ساتھ ملا لی جاتی ہے یا نماز ِتہجد کو ہی مجموعی طور پر وتر کہا گیا ہے۔ چونکہ جو لوگ آخر شب میں نہ اٹھ سکیں، ان کو نماز وتر سونے سے پہلے ادا کر لینے کی تاکید آئی ہے تو اس سے اس امکان کو تقویت ملتی ہے کہ یہ ایک مستقل نماز ہے۔
مطیع سید: اگر کوئی آدمی عشا کی نماز کے بعد وتر سے پہلے چار یا چھ نوافل پڑھے اور ان کو خود پر لازم کر تو کیا اس کی نماز تہجد شمار ہو جائے گی ؟
عمار ناصر: تہجد کی نماز تو رات کے کسی حصے میں اور زیادہ افضل یہ ہے کہ پچھلے پہر میں نیند سے بیدار ہو کر ادا کی جاتی ہے۔ عشاء کے فوراً بعد پڑھنے سے نوافل کا اجر ملے گا، لیکن یہ تہجد کی نماز شمار نہیں ہوگی۔
مطیع سید: ظہر سے پہلے اور بعد کی رکعتوں میں بڑا اختلاف ہے کہ یہ دو رکعتیں تھیں یا چار۔
عمار ناصر: آپﷺ کا معمول مختلف رہا ہے۔ اس لیے فقہا فرق کر تے ہیں۔ جو رکعتیں آپ ﷺ نے معمولاً پڑھیں اور جن کی آپ ﷺ نے اہتمام سے تاکید بیان کی، وہ موکدہ ہیں اور ان کے علاوہ جو ہیں، وہ غیر موکدہ ہیں۔
مطیع سید: یہ موکدہ نبی ﷺ کی سنت تھیں۔ آپ ﷺ نے ان کی ترغیب دلائی، لیکن ان کے چھوڑنے پر کوئی وعید بیان نہیں فرمائی۔ تو یہ جو کہا جاتا ہے کہ جو کوئی انہیں چھوڑے گا، وہ گنہگار ہوگا، کیا یہ بات ٹھیک ہے ؟
عمار ناصر: مجھے ایسے لگتا ہے کہ یہ بات فقہی مفہوم میں اتنی نہیں کہی گئی جتنی کہ عام لوگوں کے مزاج اور نفسیات کو ملحوظ رکھ کر کہی گئی ہے۔ فقہی مفہوم میں یہ بات نہیں بنتی۔ سنن موکدہ ادا کرنا لازم نہیں ہے۔ اس میں بھی احادیث میں ترغیب کا ہی انداز آیا ہے۔
مطیع سید: ایک حدیث کے مطابق ہر بچہ فطرت ِ اسلام پر پیداہوتا ہے۔ لیکن حضرت عائشہ کی ایک روایت ہے کہ انصار کا ایک بچہ وفات پا گیا تو سیدہ عائشہ نے کہا کہ وہ جنت کی چڑیوں میں سے ایک چڑیا تھی۔ آپﷺ نے فرمایا کہ نہیں، ایسے نہ کہو۔ کیا پتہ اس کے ساتھ کیا معاملہ ہو۔ (کتاب الجنائز، باب الصلاۃ علی الصبیان، حدیث نمبر ۱۹۴۳)
عمار ناصر: اس میں پہلی بات تو یہ پیش نظر رکھنی چاہیے کہ جزا وسزا اور اخروی انجام کے معاملات متشابہات کی نوعیت کے ہوتے ہیں۔ قرآن اور حدیث میں جب ان کا ذکرکیا جاتا ہے تو قانون الٰہی کی کسی قطعی یا حتمی وضاحت کے بجائے انسانوں کو کوئی بات یا رویہ سکھانا مقصود ہوتا ہے۔ تو جو بات کہنی مقصود ہو، اس پر نظر رکھنی چاہیے۔ اس حدیث میں وہ بات یہ ہے کہ ہم کسی انسان کے بارے میں، چاہے وہ بچہ ہی کیوں نہ ہو، کوئی حتمی رائے نہ دیں۔ یہ چیز ہم سے متعلق نہیں ہے۔ وہ اللہ کا دائرہ اختیار ہے کہ وہ اس بچے کے ساتھ کیا معاملہ کرتا ہے۔ جہاں تک حدیث میں بیان کیے گئے حکم کا تعلق ہے تو روایتوں میں کل مولود کے الفاظ ہیں، لیکن کیا اس سے واقعتا ً عموم ہی مراد ہے، اس کو دیکھنے کی ضرورت ہے۔ احادیث میں یہ مسئلہ عموماً پیش آتا ہے۔ کئی جگہ الفاظ عموم کے ہوتے ہیں، وہ عموم کلی نہیں ہوتا۔
تو یہ دیکھنا چاہیے کہ اگر کوئی عام قاعدہ بیان ہوا ہے تو پھر آپ کو یہ کہنا پڑے گا کہ اس میں بعض استثنا ءات ہیں۔ عموم ہو تو اس میں بھی استثنا ہوتے ہیں۔ مثلاً حضرت خضر نے جس لڑکے کو قتل کر دیا، اس کے بارے میں روایت میں آتاہے کہ وہ پیدائشی کافر تھا۔ قرآن میں ہے کہ اللہ تعالیٰ کے علم میں تھا کہ وہ بچہ بڑا ہو کر والدین کو اپنی سرکشی اور کفر سے مصیبت میں ڈال دے گا تو اس بچے کو اللہ نے واپس لے لیا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اخروی انجام کے فیصلوں میں اس کا بھی ایک حد تک عمل دخل ہوگا کہ اللہ کے علم کے مطابق اگر کسی کو بلوغت تک زندگی ملتی تو اس کا عمل اور کردار کیا ہوتا۔ اسی پہلو سے انصار کے اس بچے کے متعلق بھی آپ نے فرمایا کہ اس کے حتمی انجام کے بارے میں کوئی بات کہنا خلاف احتیاط ہے، اس سے گریز کرنا چاہیے۔
مطیع سید: امام نسائی نے قبر ستان میں چپل پہننے کی ممانعت اور اجازت کے بارے میں دو حدیثیں نقل کی ہیں اور ان سے اخذ کرتے ہیں کہ سبتی چپل پہننا مکروہ ہے، لیکن ان کے علاوہ دوسرے چپل پہنے جا سکتےہیں۔ (کتاب الجنائز، باب کراہیۃ المشی بین القبور، حدیث نمبر ۲۰۴۴، باب التسہیل فی غیر السبتیۃ، حدیث نمبر ۲۰۴۵) یہ سبتی چپل کیا ہے اور اس فرق کی کیا وجہ ہے؟
عمار ناصر: سبتی چپل چمڑے سے بنی ہوئی ایک خاص چپل تھی جو اس دور میں پہنی جاتی تھی۔ قبرستان میں یہ چپل نہ پہننے اور دوسری کوئی چپل پہننے کی اجازت کی بات دراصل حدیث میں نہیں آئی، بلکہ یہ امام نسائی نے اپنی طرف سے ایک تطبیق دی ہے۔ کیونکہ ایک حدیث میں ہے کہ آپ نے کسی شخص کو سبتی چپل پہن کر قبروں کے درمیان پھرتے دیکھا تو اس سے کہا کہ ان کو اتار دو، جبکہ دوسری حدیث میں ذکر ہے کہ دفنانے والے جب دفنا کر واپس جاتے ہیں تو مردے کو ان کی چپلوں کی چاپ سنائی دیتی ہے۔ امام نسائی نے اپنے فہم کےمطابق یوں تطبیق دی ہے کہ سبتی چپل نہ پہنی جائے لیکن دوسری کوئی چپل پہنی جا سکتی ہے۔
مطیع سید: آپ ﷺ کا گزر دو قبروں پر ہوا جنھیں عذاب دیا جا رہا تھا۔ آپ نے فرمایا کہ انہوں نے کوئی بڑا گناہ نہیں کیا تھا، بلکہ ایک چغلی کرتا تھا اور دوسرا اپنے پیشاب کے چھینٹوں سے بچنے کا اہتمام نہیں کرتا تھا۔ (کتاب الجنائز، باب وضع الجریدۃ علی القبر، حدیث نمبر ۲۰۶۴) کیا چغلی کوئی چھوٹا گنا ہ ہے ؟
عمار ناصر: مراد یہ ہے کہ بظاہر دیکھنے میں وہ کسی بڑے معاملے میں مبتلا نہیں تھا، لیکن حقیقت میں یہ بڑا گناہ ہے۔
مطیع سید: سماعِ موتی کے بار ے میں صحابہ میں کوئی اختلاف تھا ؟ حضرت عائشہ فرماتی تھیں کہ مردے نہیں سنتے؟ (کتاب الجنائز، باب ارواح المومنین، حدیث نمبر ۲۰۷۲)
عمار ناصر: ام المومنین حضرت عائشہ کا خیال یہ تھا کہ اس طرح کی جوروایتیں ہیں وہ ظاہر پر نہیں ہیں، کیونکہ قرآن کہتا ہے کہ انک لا تسمع الموتیٰ۔ حضرت عمر اور دیگر صحابہ کا یہ خیال تھا کہ ایسا ہی ہے جیسا بظاہر بدر کے مو قع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مشرکین جو قتل ہو چکے ہیں، میری بات تم سے زیادہ سن رہے ہیں۔
مطیع سید: تو اب آ کریہ بات زیادہ سنگین کیوں بنا دی گئی ہے، جبکہ صحابہ میں بھی یہ اختلاف تھا؟
عمار ناصر: صحابہ کے ہاں اس اختلاف کی نوعیت کلامی یا اعتقادی اختلاف کی نہیں تھی۔ متاخرین کے ہاں آ کر یہ چیزیں باقاعدہ کلامی اعتقادات و تعبیرات کی شکل اختیار کر لیتی ہیں، اس سے شدت اور سنگینی پیدا ہو جاتی ہے۔
مطیع سید: کیا اگرکوئی عمرہ کرے تو اس پر حج فرض ہو جاتا ہے ؟
عمار ناصر: استنباطی چیزوں میں حالات کا کا کافی دخل ہوتا ہے۔ پرانے دور میں فقہا نے یہ لکھا کہ جو آدمی عمرے کے لیے چلا گیا تو اس کا مطلب ہے کہ اس کی استطاعت ثابت ہو گئی۔ غالباً اس کا مفہوم یہ نہیں ہوگا کہ اب وہ بے شک واپس چلا جائے، لیکن حج کرنے کے لیے دوبارہ لازماً آئے۔ مطلب یہ ہوگا کہ اب جب وہ آ چکا ہے تو پھر حج کرکے جائے۔ اس زمانے کے سفر کے لحاظ سے آپ دیکھیں تو یہ بات قابل فہم بنتی ہےکہ آپ تین ماہ کا سفر کرکے آئے ہیں اور تین ماہ واپسی پر لگیں گے تو اس کا مطلب ہے کہ آپ لمبے عرصے کے لیے انتظام کر کے آئے ہیں تو پھر آپ کو حج کرکے ہی جانا چاہیے، دوبارہ معلوم نہیں، موقع ملتا ہے یا نہیں ملتا۔ لیکن اس کو آپ آج کے حالات پر بعینہ منطبق نہیں کر سکتے۔ اب عمرے اور حج کے اخراجات میں بہت فرق ہے۔ صرف عمرے کے اخراجات کا بندوبست کر لینے سے یہ لازم نہیں آتا کہ آپ کے پاس حج کے اخراجات بھی مہیا ہو گئے ہیں۔
مطیع سید: بعض لوگ اس مسئلے کو آج بھی ایسے ہی بیا ن کرتے ہیں۔
عمار ناصر: جی، وہ لفظاً اس جزئیے کو لے لیتے ہیں، لیکن وہ ٹھیک نہیں لگتا۔
مطیع سید: حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے حج اور عمرے دونوں کے لیے لبیک کہا، یعنی حج تمتع کرنا چاہا تو حضرت عثمان نے منع کیا۔ حضرت علی نے فرمایا کہ میں کسی کی وجہ سے نبی ﷺ کی سنت نہیں چھوڑ سکتا۔ (کتاب مناسک الحج، باب القران، حدیث نمبر ۲۷۱۹) یہ کیا اختلاف تھا؟
عمار ناصر: یہ صحابہ میں بحث رہی ہے کہ ایک ہی سفر میں حج او رعمرہ دونوں ادا کرنے چاہییں یا نہیں۔ اس بارے میں صحابہ کے دونوں رجحان رہے ہیں۔ نبی ﷺ نے حج تمتع کیا تھا۔ بعض صحابہ مثلاً حضرت عمر اور حضرت معاویہ سمجھتے تھے کہ اس کی اجازت تو ہے، لیکن افضل یہ ہے کہ جب لوگ حج کے لیے جائیں تو احرام باندھنے کے بعد پھر تبھی اس کی پابندیوں سے آزاد ہوں جب حج مکمل کر لیں۔ اگر وہ عمرے کے بعد احرام کھول لیں گے تو پابندیاں بھی اٹھ جائیں گی۔ یوں حج کے سفر میں وہ پابندیوں کے بغیر کچھ دن گزاریں گے جو مناسب بات نہیں۔ اس خیال کے تحت وہ لوگوں کو منع کرتے تھے کہ تمتع نہ کریں۔ لیکن دیگر اکابر صحابہ نے ان کی رائے قبول نہیں کی۔
مطیع سید: یعنی یہ دونوں آپشن باقی رہنے چاہییں؟
عمار ناصر: یہ اجتہادی بحث ہے۔ ایک پہلو سے حضرت عمر کی رائے کی تائید اس سے ہوتی ہے کہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے تمتع کی رخصت تو دی ہے، لیکن اس کے ساتھ قربانی دینا یا روزے رکھنا ضروری قرار دیا ہے۔ یہ گویا کفارہ ادا کرنے کی ایک صورت ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا۔ ممکن ہے، حضرت عمر اسی کے پیش نظر لوگوں کو روکنا چاہتے ہوں۔
مطیع سید: کیا خاص طور پر محرم کے لیے شکار کیے گئے جانور کا گوشت کھانا جائزہے ؟ ایک حدیث میں ہے کہ اگر محرم کے لیے جانور شکار کیا جائے تو اس کا کھانا اس کے لیے حلال نہیں۔ (کتاب مناسک الحج، باب اذا اشارا لمحرم الی الصید فقتلہ الحلال، حدیث نمبر ۲۸۲۴)
عمار ناصر: اس پر فقہا کے درمیان بحث ہے اور روایتیں بھی دونوں طرح کی موجود ہیں۔
مطیع سید: آپ ﷺ سے پوچھا گیا کہ آپ ﷺ نے انصار کی عورتوں سے شادی کیوں نہیں کی تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ ان میں بہت زیادہ غیر ت ہوتی ہے۔ (کتاب النکاح، باب المراۃ الغیراء، حدیث نمبر ۳۲۳۰) غیرت ہونے کے کیا معنی ہیں ؟
عمار ناصر: عربی میں غیرت کا مطلب ہوتا ہے، رقابت محسوس کرنا۔ مراد یہ ہے کہ میری تو بہت سی بیویاں ہیں اور بیویوں میں رقابت فطری ہے، لیکن انصار کی خواتین میں رقابت کا جذبہ بہت زیادہ ہوتا ہے۔ گویا آپ کو خدشہ تھا کہ انصاری عورت جو نکاح میں آئے گی، وہ خود بھی اذیت میں پڑی رہے گی اور آپ کے لیے بھی پریشانی کا موجب بنے گی۔
مطیع سید: جو آدمی اپنی بیوی کی باندی سے ہم بستری کر لے تو اگر بیوی نے اسے اس کی اجازت دی ہو تو اس کو سو کوڑے لگائے جائیں گے اور اگر اجازت نہ دی ہو تو اسے سنگسار کیا جائے گا۔ (کتاب النکاح، باب احلال الفرج، حدیث نمبر ۳۳۵۷) یہ کیا معاملہ ہے؟
عمار ناصر: اگر بیوی نے اجازت دی ہو تو اس میں ایک طرح کا شبہ آ جاتا ہے کہ گویا اس نے اپنی لونڈی شوہر کی ملکیت میں دے دی ہے۔ اس وجہ سے اسے زنا کی سنگین سزا نہیں دی جائے گی، یعنی رجم نہیں کیا جائے گا بلکہ سو کوڑے لگائے جائیں گے۔
مطیع سید: حضرت عمر نے اپنے بیٹے کو کہا کہ وہ اپنی بیوی کو طلاق دےدے، یہ کس بنیا د پر آپ نے حکم دیا؟انہیں ایسی کیا خامی نظر آئی؟
عمار ناصر: روایت میں وجہ تو بیان نہیں ہوئی۔ محدثین قیاسات ہی کرتےہیں کہ کوئی معقول وجہ ہوگی۔ کوئی بات ان کی طبیعت و مزاج کے مطابق نہیں ہوگی۔ خیال یہی ہے کہ حضرت عمر خواہ مخوہ ایسی بات کہنے والے نہیں تھے۔ ویسے بھی ثقافت کا فرق ہوتا ہے۔ عربوں کے ہاں طلاق ہو جانا کوئی اتنا بڑا مسئلہ نہیں تھا۔
مطیع سید: ابھی بھی شاید ایسا ہی ہے۔
عمار ناصر: جی اب بھی ایسا ہی ہے۔ ہمارے کلچر میں تو یہ ہے کہ طلاق ہو گئی تو گویا زندگی بر باد ہو گئی۔ عرب کلچر میں ایسا نہیں ہے۔
مطیع سید: اسی طرح ایک روایت حضرت ابراہیم ؑ کی ملتی ہے کہ وہ کچھ عرصے کے بعد حضرت اسماعیل کو ملنے آئے تو وہ شکار پر نکلے ہوئے تھے۔ ان کی اہلیہ سے آپ ؑ نے پوچھا کہ کیسے حالات ہیں ؟انہوں نے حالات کی شکایت کی تو حضرت ابراہیم نے بیٹے کو دہلیز بدلنے کے اشارے سے اسے طلاق دینے کا مشورہ دیا۔
عمار ناصر: اگر واقعہ کی پوری تفصیل یہی ہے تو ٹھیک ہے، انہوں نے بیٹے کو پیغام دیا کہ آدمی کے گھر میں ایسی خاتون کو ہونا چاہیے جو شکرگزار ہو۔
مطیع سید: لعان کے بعد طلاق خود بخود واقع ہو جائے گی یا دینی پڑے گی ؟
عمار ناصر: احناف کے ہاں یہ ہے کہ یا تو شوہر طلاق دے گا یا قاضی تفریق کرے گا، خود بخود نہیں ہوگی۔ دوسرے فقہا یہ کہتے ہیں کہ خود بخود تفریق ہو جائے گی۔
مطیع سید: ان کے مابین تفریق ہمیشہ کے لیے ہو جائے گی؟
عمار ناصر: جمہور کی رائے یہی ہے۔ احناف اس میں بھی گنجائش دیتے ہیں کہ اگر شوہر اپنے اس الزام سے رجوع کرلے اور تائب ہو جائے تو دوبارہ نکاح ہوسکتاہے۔
مطیع سید: ایک روایت میں ہے کہ آپ ﷺ نے عبد الرحمن بن زبیر کی بیوی سے فرمایا کہ جب تک تم اور تمھارا شوہر ایک دوسرے کا مزہ نہ چکھ لو، تم اس سے طلاق لے کر اپنے پہلے شوہر رفاعہ کے لیے حلال نہیں ہو سکتیں۔ (کتاب الطلاق، باب احلال المطلقۃ ثلاثا، حدیث نمبر ۳۴۰۸) سوال یہ ہے کہ آپﷺ کیسے فرما رہے تھے کہ تم جب تک ایک دوسرے کا مزا نہ چکھ لو۔ شادی ہوئے کافی وقت گزر چکا تھا اور یقیناً وہ اس مرحلے سے گزر چکے ہوں گے۔
عمار ناصر: یہ بات تو اس عورت نے خود ہی آ کر کہی تھی کہ شوہر جماع کے قابل نہیں ہے۔ اس پر آپ نے یہ جواب دیا۔ تفتیش سے آپ ﷺ کو اطمینان ہو گیا تھا کہ وہ غلط کہہ رہی ہے۔ خاوند بھی آیا اور اس نے بھی اپنا موقف بیان کیا اور اس کی بات سے آپﷺ مطمئن ہو گئے۔ آپﷺ کو معلوم ہو گیا کہ یہ عورت جھوٹا بہانہ بنا کر نکاح ختم کرنا چاہ رہی ہے تاکہ پہلے شوہر سے دوبارہ نکاح کر لے۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ اگر اس مقصد کے لیے طلاق لینا چاہ رہی ہو وہ تب تک پورا نہیں ہو سکتا جب تک موجودہ شوہر کے ساتھ ہم بستری نہ ہو جائے۔ اس سے گویا آپ ﷺ اس عورت کو اس کے اپنے ہی الفاظ کا پابند بنا کر طلاق لینے سے روکنا چاہ رہے تھے۔
مطیع سید: یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ دوسرے شوہر کے پاس آئی ہی اسی مقصد کے لیے ہو۔
عمار ناصر: یہ بھی ہو سکتا ہے۔ اس نے نکاح ہی اسی نیت سے کیا ہو کہ میں بعد طلاق لے لوں گی۔
مطیع سید: ایک عورت سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح کیا۔ جب اس کے پاس گئے تو اس نے کہااعوذ باللہ منک۔ میں آپ سے اللہ کی پناہ میں آتی ہوں)۔ اس پر آپﷺ نے اس کو طلاق دے دی۔ (کتاب الطلاق، باب مواجہۃ الرجل المراۃ بالطلاق، حدیث نمبر ۳۴۱۴) یہ کون تھی اور اس نے آنحضرت ﷺ کو ایساکیوں کہا ؟جبکہ وہ جانتی تھی کہ آپ پیغمبر ِ اسلام ہیں اور میں ان کی بیوی ہو ں، پھر ایسا کہنا بڑا عجیب لگتا ہے۔
عمار ناصر: اس عورت کا نام اور واقعہ کی تفصیلات مختلف روایات میں مختلف بیان ہوئی ہیں۔ بعض میں ہے کہ آپﷺ کو اس کے جسم پر کوئی داغ نظرآیا۔ بعض میں ہے کہ خود اس نے کراہت کا اظہارکیاتو آپﷺ نے فرمایاکہ اچھا اگر یہ بات ہے تو ٹھیک ہے۔ آپ نے طلاق دے دی۔ بعض روایات میں یوں ہے کہ وہ ایسا کہنا نہیں چاہتی تھی، لیکن اس کی سہیلیوں نے اسے کہاکہ اگر ایسے کہو گی تو آپ کی نظر میں تمہاری وقعت بڑھ جائے گی۔ اب ان ساری روایات کی روشنی میں واقعے کی جو صورت معقول دکھائی دیتی ہو، وہ تصور کی جا سکتی ہے۔
مطیع سید: حضرت علی فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے سونے کی انگوٹھی سے منع کیا، لیکن میں یہ نہیں کہتا کہ تم کو بھی اس سے منع فرمایا۔ (کتاب الزینۃ، باب خاتم الذہب، حدیث نمبر ۵۱۸۵) تو کیا یہ صرف ان کے لیے ممنوع تھی ؟
عمار ناصر: یعنی ان کا فہم یہ ہے کہ نبی ﷺ نے ہمیں یعنی اہل ِبیت کو اس سے منع فرمایا ہے۔ اہل بیت کے ذرا خاص احکام تھے۔ نبی ﷺ ان کو ایک خاص معیار پر دیکھنا چاہتے تھے۔ تو حضرت علی کا فہم یہ ہے کہ میں یہ نہیں کہتا کہ یہ حکم عام ہے اور تم پر بھی لاگو ہوتا ہے۔
مطیع سید: حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے اس قول کو فقہا نے قبول کیا ؟
عمار ناصر: فقہا کی عمومی رائے تو مردوں کے لیے سونے کے ممنوع ہونے کی ہے اور بہت سی احادیث میں بھی یہی بات آئی ہے۔ حضرت علی کی روایات میں سے بعض میں یہ ہے کہ آپ نے انھیں شہادت کی انگلی اور درمیانی انگلی میں انگوٹھی پہننے سے منع کیا۔ (کتاب الزینۃ، باب خاتم الذہب، حدیث نمبر ۵۱۸۵)اب اس میں تحقیق کی ضرورت ہے کہ اس روایت کے طرق جمع کیے جائیں اور دیکھا جائے کہ کیا یہ دو الگ الگ ہدایات تھیں یا اصل میں کسی خاص انگلی میں انگوٹھی پہننے کا ذکر تھا اور راوی نے قیاس سے سونے کی انگوٹھی کا ذکر کر دیا۔
مطیع سید: حدیث میں ہے کہ اب نبوت کا کوئی حصہ باقی نہیں رہ گیا، سوائے مبشرات کے اور مبشرات کی تشریح یہ کی گئی ہے کہ کسی آدمی کو کوئی خواب دکھا دیا جائے۔ یہ جو "الا المبشرات" والی روایت ہے، اس سے تو پتہ چلتا ہے کہ الہام، کشف اور القا وغیر ہ کی کوئی حقیقت نہیں جو صوفیہ بیان کرتے ہیں۔ حدیث کے الفاظ میں تو بڑا واضح حصرہے کہ مبشرات کے علاوہ اور کچھ باقی نہیں رہا۔
عمار ناصر: روایت میں جو کہا گیا ہے "الاالمبشرات"، اس سے قطعی حصر اخذ کرنا درست نہیں۔ اس میں دیکھنا یہ چاہیے کہ کیا چیز ہے جس کے متعلق بات کی جا رہی ہے۔ جب حدیث کے مجموعی ذخیرے کو ہم دیکھتے ہیں تو اس سے پتہ چلتا ہے کہ بعض دفعہ بظاہر بات بڑی حصر کے ساتھ ہو رہی ہوتی ہے، لیکن وہ ایک خاص سیاق میں ہوتی ہے جو متکلم کے ذہن میں ہوتا ہے۔ متکلم کے ذہن میں ایک سیاق ہے اور سننے والوں کے ذہن میں بھی وہ موجود ہوتا ہے، اس میں بات کی جا رہی ہوتی ہے۔ تو یہ بھی دیکھناچاہیے۔ آپﷺ فرمارہے ہیں کہ نبوت کے اجزا ختم ہو گئے ہیں۔ ظاہر ہے، یہاں نبوت سے مراد وہ چیزیں نہیں جو انبیا ہی کے ساتھ خاص ہوتی ہیں، ان کے علاوہ کسی کو نہیں دی جاتیں۔ اس سے مراد ایسے امور ہیں جن میں انبیاء کے علاوہ دوسرے مقربین بھی شریک ہو سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے انسانوں کے ساتھ رابطہ یا ان تک پیغام پہنچانا یہ ایک عمل ہے جو اصلا ًانبیا ؑ کے ساتھ ہوتا ہے، لیکن اللہ تعالیٰ دوسرے لوگو ں کے ساتھ بھی اکراماً یہ معاملہ کر سکتے ہیں۔ انھی کے متعلق آپ فرما رہے ہیں کہ اب نبوت تو ختم ہو گئی ہے اور صرف مبشرات باقی رہ گئے ہیں اور اس کی تشریح میں مثال کے طور پر خواب کا ذکر کر دیا گیا ہے۔
اب خواب کے علاوہ بھی رابطے اور پیغام رسانی کی کئی شکلیں ہیں۔ ایک الہام کی تو کوئی بھی نفی نہیں کرتا کہ انسان کے دل میں فرشتوں کے ذریعے سے کوئی خیال ڈال دیا جائے یا آپ اللہ سے دعا مانگتے ہیں اور اس کے نتیجے میں ایک کیفیت آپ کے دل پر طاری کر دی جاتی ہے۔ استخارہ توایک مستقل چیز ہے تو ان چیزوں کی کوئی نفی نہیں کرتا۔ ہاں، صوفیہ ان معنوں میں بھی الہام کا دعویٰ کرتے ہیں کہ فرشتوں کا انسانوں کے ساتھ تخاطب ہوتا ہے یا کشف کی صورت واقع ہوتی ہے جن میں کچھ پردے ہٹا دیے جاتے ہیں۔
مطیع سید: کشف و الہام کے بارے میں صوفیہ، خاص طورپر ابن عربی وغیرہ بہت کچھ کہتے ہیں اور اس سے بہت بڑے بڑے حقائق اور نظریات اخذ کرتے ہیں۔
عمار ناصر: کشف اورالہام کو ایک مستقل ذریعہ علم قرار دینا اور اس کی بنیاد پر آرا اور نظریات اور نظام علم قائم کرنا، یہ تو میرے خیال میں تجاوز ہے۔ لیکن جزوی طور پر یہ کسی طریقے سے ہو جائے تو اس کی نفی شاید نہیں کی جا سکتی۔
مطیع سید: لیکن یہ جو صوفیا اپنے مشاہدات لکھتے ہیں کہ ہم نے سلوک کی منازل میں ایسے دیکھا، یوں مشاہدات ہوئے، ان کی کیا حقیقت ہے؟
عمار ناصر: ہو سکتا ہے، ان کو واقعتاً کسی حقیقی عالم کا ایسا تجربہ ہوتا ہو۔ یہ بھی ممکن ہے کہ کچھ موضوعی اور Subjective قسم کی کیفیات طاری ہو جاتی ہوں۔ یقین سے کچھ کہا نہیں جا سکتا۔
مطیع سید: یہ چیزیں صحابہ اور تابعین میں نظر نہیں آتیں۔
عمار ناصر: شاہ ولی اللہ نے لکھا ہے کہ تصوف کے تین چار ادوار ہیں۔ چوتھے دور میں آ کر یہ چیزیں یعنی کشف وغیر ہ زیادہ عام ہوئی ہیں۔ ہر دور کی اپنی کچھ خصوصیات ہیں۔ خاص طبائع اور مزاج ہیں۔ یہ جو بہت غیر معمولی ذرائع علم سے استفاد ہ ہے، یہ اسی چوتھے دور میں جا کر ہوا ہے۔
مطیع سید: شاہ صاحب اس پر نقد بھی کرتے ہیں ؟
عمار ناصر: نہیں، شاہ صاحب چو نکہ خود اسی ذوق کے ہیں، اس لیے نقد نہیں کرتے۔
مطیع سید: وہ کئی دفعہ لکھتے ہیں کہ مجھے یہ دکھایا گیا یا مجھے یہ کہا گیا۔
عمار ناصر: جی، فیوض الحرمین میں اور دیگر کتابوں میں، ان کے اس قسم کے کافی مشاہدا ت ہیں۔