(خانگی تنازع سے متعلق ایک عزیزہ کے استفسار پر یہ معروضات پیش کی گئیں۔ شاید بہت سی دوسری بہنوں کے لیے بھی اس میں کوئی کام کی بات ہو، اس لیے یہاں نقل کی جا رہی ہیں۔)
آپ کے معاملات کے متعلق جان کر دکھ ہوا۔ اللہ تعالی بہتری کی سبیل پیدا فرمائے۔
جہاں تک مشورے کا تعلق ہے تو ناکافی اور یک طرفہ معلومات کی بنیاد پر یہ طے کرنا بہت مشکل ہوتا ہے کہ کہاں کس فریق کی غلطی ہے۔ دیانت دارانہ مشورہ، ظاہر ہے، وہی ہو سکتا ہے جس میں کسی ممکنہ غلطی کی اصلاح کی طرف بھی متوجہ کیا جائے۔ لیکن مجھے بالکل اندازہ نہیں کہ آپ کی کیا انڈرسٹینڈنگ تھی اور پھر کہاں کس کی طرف سے خرابی شروع ہوئی۔
البتہ عمومی مشاہدے کی روشنی میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ سسرال سے الگ گھر میں آزادانہ رہنے کی خواہش اگرچہ فطری اور کافی حد تک بجا ہے، لیکن ہمارے معروضی حالات میں بسا اوقات مرد کے لیے کئی اسباب سے اس کا انتظام ممکن نہیں ہوتا۔ مرد پر بیوی بچوں کے ساتھ بوڑھے ماں باپ کی بھی ذمہ داریاں ہوتی ہیں۔ اگر ماں باپ کے پاس کسی کے رہنے کا کوئی انتظام نہیں اور بیوی بھی اس ذمہ داری میں کسی قسم کا ہاتھ بٹانے سے انکار کر دے تو مرد دوہری مشکل میں پڑ جاتا ہے جس کا اثر بدیہی طور پر بیوی بچوں کے ساتھ رشتے پر بھی پڑتا ہے۔ معاش کی ذمہ داریاں ویسے ہی بہت بھاری اور ناقابل برداشت ہو گئی ہیں اور ان مختلف قسم کے بوجھوں تلے کسی آدمی کے لیے معمول کی نفسیاتی زندگی بسر کرنا آج کے دور میں ممکن نہیں رہا۔ یہ صورت حال زیادہ تقاضا کرتی ہے کہ باہمی رشتوں میں ایک دوسرے کی مجبوریوں اور حالات کو ہمدردانہ سمجھنے کی کوشش کی جائے اور باہمی تعاون اور ایثار کا طریقہ اختیار کیا جائے۔
اس لحاظ سے اگر سسرال میں آپ کے ساتھ کوئی کھلی بدسلوکی نہ کی جا رہی ہو تو میرا مشورہ یہی ہوگا کہ سردست الگ رہائش کا مطالبہ چھوڑ کر اپنی استطاعت کے مطابق کچھ ذمہ داریاں اٹھاتے ہوئے سسرال کے ساتھ رہنا قبول کریں۔ اگر ذمہ داریوں کا بوجھ ناقابل تحمل ہو تو اس پر بے شک اسٹینڈ لیں اور کہیں کہ میں اس حد تک ذمہ داری لے سکتی ہوں، اس سے زیادہ نہیں۔ لیکن پھر جو ذمہ داری لیں، اس کو خوش دلی اور خلوص کے ساتھ انجام دینے کی کوشش کریں۔
اللہ تعالیٰ سے دعا اور استخارہ بھی کریں کہ آپ کو بہتر فیصلہ کرنے کی توفیق اور راہ نمائی عطا فرمائے۔ آمین
خانگی ذمہ داریوں میں شوہر کا ہاتھ بٹانے کے ضمن میں اوپر جو معروضات پیش کی گئی ہیں، ان کا ایک دوسرا پہلو بھی ہے جو اتنا ہی اہم ہے۔ ماں باپ سے متعلق ذمہ داریوں کی ادائیگی میں حسب ضرورت شوہر کی معاونت کرنا ایک الگ معاملہ ہے اور بیٹے کی بیوی کو پورے سسرال کی خادمہ سمجھنا ایک بالکل الگ معاملہ ہے۔ دونوں کو قطعاً کنفیوز نہیں کرنا چاہیے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر شوہر کے والدین کو واقعتاً خدمت وغیرہ کی ضرورت نہیں ہے یا اس کا انتظام الگ سے موجود ہے تو پھر بہو کو لازماً ساس سسر کے ساتھ ہی رکھنا اور ان کی طرف سے اس کو اپنا استحقاق سمجھنا، غیر صحت مند رویہ ہے۔ یہ توقع دراصل مشترک خاندانی نظام کے روایتی کلچر سے پیدا ہوتی ہے جس میں لڑکی کی شادی صنفی تعلق کی حد تک تو لڑکے سے ہوتی ہے، لیکن اس کے حقوق، اختیارات اور ذمہ داریوں کا تعین پورا سسرال کرتا ہے اور ان سب کو خوش رکھنا ایک اچھی بہو کے فرائض میں شامل سمجھا جاتا ہے۔ یہ قطعاً ناروا رویہ ہے اور ناچاقی کے اسباب میں زیادہ تر اسی طرح کے اسباب کا کردار بنیادی ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں تینوں فریقوں کی تربیت کی ضرورت ہے۔
- ساس سسر اور دیگر سسرالی رشتہ داروں کو یہ سکھانا چاہیے کہ نکاح کا رشتہ میاں بیوی میں قائم ہوا ہے اور اپنے باہمی معاملات کو طے کرنا انھی کا اختیار ہے۔ شوہر کے رشتہ داروں کو گھر میں اپنی حیثیت کی وجہ سے میاں بیوی کے معاملات میں دخل نہیں دینا چاہیے اور نہ بہو کو باقی اہل خانہ کی نیم منکوحہ کا درجہ دے کر اس سے معاملہ کرنا چاہیے۔
- شوہروں کو یہ سکھانے کی ضرورت ہے کہ انھیں اپنی دو طرفہ ذمہ داریوں میں ایک توازن قائم کرنا ہے اور اس کے لیے وہ اگر ابتدا ہی سے میاں بیوی کے معاملات میں اپنے اختیار کو جتانا اور استعمال کرنا شروع کر دیں تو تھوڑے بہت تناؤ کے بعد ایک مناسب توازن قائم ہو جائے گا۔ اگر وہ معاملے کو بیوی اور سسرالی رشتہ داروں کے درمیان چھوڑ دیں گے تو بگاڑ زیادہ ہوگا اور پھر اس کو سنبھالنا مشکل ہو جائے گا۔ یہ بھی ذہن میں رکھیں کہ توازن قائم کرنے کی ذمہ داری کا ایک لازمی حصہ دونوں طرف سے شکایتوں کی زد میں رہنا بھی ہے۔ اس کے لیے ذہنی طور پر تیار رہیں اور یہ توقع نہ کریں کہ کوئی بھی فریق آپ کو انصاف یا فیئرنیس کا تمغہ دے گا۔
- بیویوں کو یہ سکھانے کی ضرورت ہے کہ وہ کیسے توقعات کے اس دباؤ میں حکمت کے ساتھ اپنے حق اور اختیار کے لیے اسٹینڈ بھی لیں، شوہر کی پوزیشن کو بھی ملحوظ رکھیں اور معروف کے حدود میں سسرالی رشتہ داروں کے ساتھ بھی خوشگوار تعلق استوار کریں۔ یہ سب چیزیں ممکن ہیں اگر ہم بچیوں کو شادی سے پہلے درست اور ضروری راہنمائی فراہم کریں اور تعلقات کو بنانے کا ہنر ان کو سکھائیں۔
اقلیتوں کے مذہبی جذبات کے احترام اور آئینی حقوق کی بحث
کچھ عرصہ قبل والد گرامی مولانا زاہد الراشدی نے، ہمارے ہاں مروج مذہبی انداز گفتگو کے تناظر میں اہل علم کے سامنے یہ سوال رکھا تھا کہ
"ہمارا بین الاقوامی اداروں سے یہ مطالبہ ہے جو درست بلکہ ضروری ہے کہ حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کی اہانت کو قابل سزا جرم تسلیم کیا جائے مگر یہ بات ہمیں پیش نظر رکھنا ہوگی کہ اگر بین الاقوامی اداروں نے یہ بات مان لی تو وہ انبیاء کرام کی فہرست ہم سے نہیں مانگیں گے بلکہ جس شخص کو بھی دنیا کی آبادی کا کوئی حصہ نبی مانتا ہے، اس کی اہانت جرم قرار پائے گی اور پھر دیکھ لیں کہ مقدمات کی زد میں کون زیادہ آئے گا؟"
بعض حضرات نے اس سوال کو یہ مفہوم پہنانے کی کوشش کی ہے کہ والد گرامی نے گویا اپنی طرف سے یہ "تجویز" دی ہے کہ مرزا صاحب کا نام بین الاقوامی سطح پر قابل احترام انبیاء کی فہرست میں شامل کیا جائے۔ ظاہر ہے، یہ بات درست نہیں۔ اس حوالے سے مذہبی ذہن کو جو بنیادی الجھن درپیش ہے، اس کی وجہ اس سوال پر غور نہ کرنا ہے کہ موجودہ سیکولر دنیا میں بین الاقوامی سطح پر مختلف مذاہب کی مقدس شخصیات کی توہین کو قانونی سدباب کا موضوع بنانے کی اساس کیا ہو سکتی ہے۔
اس ضمن میں بنیادی نکتہ یہ ہے کہ توہین مذہب پر مواخذہ کا جو قانون مذہبی واعتقادی اساس پر مبنی ہے، اس کا تعلق مسلمان حکومتوں کے داخلی دائرہ اختیار سے ہے اور اس دائرے میں ہم اس قانون کو ان انبیاء تک محدود رکھ سکتے ہیں جن پر مسلمان ایمان رکھتے ہیں۔ دیگر مذاہب کو بھی توہین وتحقیر کے خلاف قانونی چارہ جوئی کا حق حاصل ہے، لیکن اس کی قانونی بنیاد مختلف ہے۔ اسی لیے ہمارے ضابطہ تعزیرات میں 295 بی اور 295 سی کی الگ الگ شقیں رکھی گئی ہیں۔
تاہم بین الاقوامی سطح پر کسی قانونی بندوبست کی بنیاد ظاہر ہے، مسلمانوں کا عقیدہ نہیں ہوگا، بلکہ مشترک انسانی اخلاقیات ہوگی اور اس لحاظ سے سچے یا جھوٹے نبیوں کے فرق کا سوال اٹھائے بغیر تمام مذہبی گروہوں کے لیے مذہبی جذبات مجروح کیے جانے کے خلاف تحفظ کا حق قبول کرنا ہوگا۔ بصورت دیگر اس موقف سے ہی دستبرداری اختیار کرنی ہوگی کہ کسی مذہبی شخصیت کی توہین کو جرم قرار دیا جائے۔
ہمارے ہاں اس بحث میں جو غلط فہمی پیدا ہو رہی ہے، وہ اسی نکتے کو سمجھے بغیر ہو رہی ہے اور نتیجتاً ایک خاص انداز کے مذہبی ذہن کے عقل وفہم کی سطح کو ایکسپوز کرنے کا ذریعہ بن رہی ہے۔
اسی نوعیت کی غلط فہمی قادیانیوں پر عائد کی گئی بعض قانونی پابندیوں کے تناظر میں بطور اقلیت قادنیوں کے حقوق کے حوالے سے بھی عام ہے۔ اس ضمن میں سپریم کورٹ نے ایک حالیہ فیصلے میں (جس کا ترجمہ ڈاکٹر مشتاق احمد صاحب کے قلم سے الشریعہ کے جون ۲۰۲۲ء کے شمارے میں شائع ہوا ہے) قانون میں احمدیوں پر عائد کی گئی اس پابندی کی تشریح کرتے ہوئے کہ وہ شعائر اسلام کو استعمال نہیں کریں گے، کہا گیا ہے کہ:
’’ہمارے ملک کی کسی غیر مسلم (اقلیت) کو اس کے مذہبی عقائد ماننے سے محروم رکھنا، اسے اپنی مذہبی عبادت گاہ کی چاردیواری کے اندر اپنے مذہب پر عمل پیرا ہونے اور اس کے اظہار سے روکنا ہمارے جمہوری دستور کی اساس کے بھی خلاف ہے اور ہماری اسلامی جمہوریہ کی روح اور کردار کے بھی منافی ہے۔ یہ انسانی تکریم کو بھی بری طرح مسخ اور پامال کرتا ہے اور کسی غیر مسلم اقلیت کی حقِ خلوت (پرائیویسی) کو بھی، جبکہ وہ دستور کی رو سے ملک کے دیگر شہریوں کی طرح برابر کے حقوق اور حفاظتیں رکھتے ہیں۔ ہماری اقلیتوں کے ساتھ عدم برداشت کا رویہ پوری قوم کی غلط تصویر کشی کرتا ہے اور ہمیں غیر متحمل مزاج، متعصب اور غیر لچکدار دکھاتا ہے۔ وقت آگیا ہے کہ ہم اپنی دستوری اقدار اور مساوات اور برداشت کے متعلق بہترین اسلامی تعلیمات اور روایات کو قبول کرلیں۔“
عدالتی تشریح کی رو سے قانون نے احمدیوں پر یہ پابندی نہیں لگائی کہ وہ خود بھی اپنے آپ کو مسلمان نہ سمجھیں یا اپنی عبادت گاہوں کے اندر بھی وہ عبادات ادا نہ کریں جن کو وہ اپنے عقیدے کی رو سے ضروری سمجھتے ہیں۔ عبادت گاہوں یا چار دیواری کے اندر وہ جو بھی عمل بجا لانا چاہیں، لا سکتے ہیں، چاہے وہ اسلام کے شعائر ہوں۔ اس سے ان کو روکنے یا ان کے خلاف توہین شعائر اسلام کے مقدمے درج کروانے کا، قانون اور آئین سے کوئی تعلق نہیں۔ مذہبی تنظیموں اور ان کے کارکنوں کو یہ فرق پیش نظر رکھنا چاہیے۔