اسلام آباد ہائی کورٹ کے فاضل جج جناب جسٹس بابر ستار نے ایک فیصلے میں قرار دیا کہ محض جسمانی بلوغت پر 18 سال سے کم عمر لڑکی اپنی مرضی سے شادی کی اہل نہیں ہوجاتی۔ ایسا ہر نکاح فاسد اور فسخ کرنے کے لائق ہے۔ فاضل جج صاحب اگر اس مقدمے کے حقائق و واقعات کے مطابق اتنا ہی فیصلہ سنا تےجو صرف اس مقدمے تک محدود رہتا تو اضطراب نہ پیدا ہوتا لیکن فاضل جج صاحب کے فیصلے نے اسلام اور پورے قانون فطرت کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ فاضل جج صاحب نے حلف تو پاکستانی آئین کے تحت اٹھایا ہے جس کے مطابق کوئی قانون اور قانون کے تحت سنایا گیا فیصلہ قرآن و سنت کے منافی نہیں ہو سکتا۔ لیکن اس فیصلے میں وہ قانون بین الاقوام کا حوالہ دیتے نظر آتے ہیں۔ پورے احترام کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ جج صاحب کا فیصلہ رواروی میں اور باریک بینی سے خالی ذہنی کیفیت میں لکھا گیا ہے۔
یہ بات بھی نہیں ہے کہ اس نوعیت کا مقدمہ عدالت میں پہلی بار آیا ہے۔ عدالت میں تو کیا، کم سنی کی شادی کا مسئلہ پوری دنیا میں قانون فطرت کے مطابق وضع کردہ قوانین کے ذریعے نمٹایا جاتا ہے۔ لیکن فاضل جج صاحب نے مسئلے کا جائزہ مجتہدانہ بصیرت کے ساتھ نہیں لیا۔ وہ اس فکری آسیب کا شکار نظر آتے ہیں جس کے تحت کم سنی کی ہر شادی غلط ہوتی ہے۔ اس زیر نظر مقدمے کی حد تک تو شاید فیصلہ قبول کر لیا جائے لیکن یہ کہنا کہ اٹھارہ سال سے کم عمری کی ہر شادی غلط اور زنا کے مماثل ہے، ایسا داعیہ ہے جس کی تائید نہ تو قانون فطرت کرتا ہے اور نہ جدید متمدن ممالک میں فیصلہ یوں سنایا جاتا ہے، نہ شریعت مطہرہ میں اس کی تائید ملتی ہے۔ متعدد متمدن ممالک میں کم سنی کی شادی کا تصور عام ہے۔ شریعت اسلامی بھی کم سنی کی شادی کی تائید کرتی ہے۔
آج کل انسانی حقوق پر بڑا زور دیا جاتا ہے۔ انہی کی روشنی میں اس مقدمے کو دیکھتے ہیں۔ کسی شخص کا جسمانی نظام غذا طلب کرتا ہے، اسے بھوک لگتی ہے تو بتائیے، دنیا کے کس حصے میں، کس مذہب میں، کس تمدن میں اسے کھانا کھانے سے روکا جا سکتا ہے۔ کسی شخص کا جسمانی نظام نو دس سال کی عمر میں فعال ہو کر صنف مخالف کا تقاضا کرے تو کون سے انسانی حقوق رکاوٹ کھڑی کرتے ہیں۔ میرے محدود مطالعے کے تحت سات ہزار سالہ انسانی تاریخ میں ایسا کبھی نہیں ہوا۔ تمام انسان بلاامتیاز ملک و ملت و مذہب بلوغ کی علامتیں ظاہر ہوتے ہی ہر شخص کی صنفی ضروریات پوری کرنے میں مدد کرتے ہیں کہ یہ انسانی حقوق میں سے ہے۔ مجھے بھوک لگے تو آپ مجھے کھانا کھانے سے منع کرنے والے کون ہوتے ہیں؟ مجھے زندگی گزارنے کے لیے صنف مخالف کی ضرورت ہے تو آپ کون ہوتے ہیں مجھے باز رکھنے والے؟ یہ انسانی حقوق تو مجھے ہر سہولت دیتے ہیں. آج بھی دنیا بھر میں یہی چلن ہے۔
پاکستان میں کم سنی کی شادی کا مسئلہ متعدد دفعہ اٹھا۔ 2019 میں کم سنی کی شادی روکنے کی خاطر قومی اسمبلی میں بل پیش ہوا تو میں نے اخبارات میں ایک سلسلہ مضامین لکھا تھا۔ انہی مضامین کی بنیاد پر یہ واضح کرنے کی کوشش کی جائے گی کہ عالی مقام جسٹس صاحب کے فیصلے کے عموم کو کسی طرح سے بھی اخلاق و قانون کی تائید حاصل نہیں ہے، شریعث تو ذرا اعلی مقام رکھتی ہے۔ اسے کسی اور موقع پر زیر بحث لایا جائے گا۔ آئیے ! کم سنی کی شادی کا جائزہ جج صاحب کے اپنے قانون بین الاقوام کی روشنی میں لیتے ہیں کہ دنیا کے دیگر ممالک اس قانون کا کتنا خیال رکھتے ہیں۔
امریکہ پچاس ریاستوں کی یونین ہے جس کی ہر ریاست کو اپنا عائلی قانون بنانے کا اختیار ہے۔ ان ریاستوں میں شادی کی کم سے کم عمر کیا ہے؟ کسی ریاست میں اٹھارہ سالہ عمر تو کیا، سولہ ریاستوں میں ایسی کوئی عمر ہی نہیں۔ ان تمام ریاستوں کا عائلی قانون ایک دوسرے سے معمولی فرق کے ساتھ بڑی حد تک قانونِ فطرت ہے۔
الاسکا اور نارتھ کیرولینا نامی دو ریاستوں میں شادی کی کم سے کم عمر 14 سال ہے۔ میری لینڈ، کنساس، انڈیانا اورجزائر ہوائی نامی چار ریاستوں میں یہ عمر پندرہ سال ہے۔ انیس امریکی ریاستیں وہ ہیں جن میں کم سے کم عمر سولہ سال ہے۔ وہ ریاستیں کنِکٹی کٹ، جارجیا، الباما، ایریزونا، الینو ئس، آئیوا، نارتھ ڈکوٹا، منی سوٹا، مِسوری، ہیمپشائر، ساؤتھ ڈکوٹا، ٹیکساس، اوٹاہ، ویرمونٹ، ورجینیا، وسکونسن، واشنگٹن ڈی سی، ساؤتھ کیرولینا اور مونٹینا ہیں۔ اسی طرح فلوریڈا، ارکنساس، نبراسکا، کنیٹکی، اوہائیو، نیویارک اور اوریگان نامی سات ریاستوں میں یہ عمر سترہ سال ہے۔ سولہ ریاستیں وہ ہیں جن میں شادی کی کم از کم کوئی عمر نہیں ہے جو یہ ہیں:وائیومنک، ویسٹ ورجینیا، واشنگٹن (ڈی سی نہیں) ساؤتھ کیرولینا (قانونی تضادات کے بعد اسے سولہ سال والی عمر میں بھی شمار کیا جاتا ہے) پنسلوینیا، اوکلاہاما، نیو میکسیکو، مسی سپی، نیویڈا، مشی گن، میسا چوسٹس، مینی، لوزیانا، کولاریڈو، اِڈاہو اور کیلی فورنیا۔
شادی کی قانونی عمر (اٹھارہ، انیس یا اکیس) سے کم عمر کی جو تفصیلات بیان ہوئی ہیں، ان میں کم سنی کی شادی چند شرائط سے منسلک ہے۔ درج ذیل میں سے بعض ریاستیں ایک شرط اور بعض زیادہ شرائط پوری ہونے پر قانونی عمر سے کم کسی بھی عمر میں شادی کی اجازت دیتی ہیں: کم سن لڑکی نے بچے کو جنم دیا ہو؛ کم سن بالکل آزاد (Emancipated)ہو جیسے ماں باپ مرگئے ہوں یا معلوم نہ ہوں؛ لڑکی حاملہ ہو گئی ہو؛ والدین یا قانونی سرپرست کی اجازت ہو؛ اور یہ عدالتی اطمینان ہو کہ اس کم سن کی شادی ممکن ہے۔
ان شرائط خمسہ میں سے بعض ریاستوں میں عدالتی اطمینان پر زیادہ زور دیا جاتا ہے۔ یہ قانون کا پہلا حصہ ہے۔ دوسرا حصہ بلوغ کی قانونی عمر کی تکمیل پر حرکت میں آتا ہے۔ پورے امریکہ میں شادی کی قانونی عمر اٹھارہ سال ہے (نبراسکا اور مسی سپی میں یہ عمر بالترتیب انیس اور اکیس سال ہے). قانونی عمر کی تکمیل پر مرد و زن خود مختار ہیں کہ پسند کی شادی کریں۔
کیا آپ نے غور کیا کہ ان تمام ریاستوں میں سے کسی ایک میں بھی شادی کی کم سے کم عمر اٹھارہ سال نہیں ہے۔دو امریکی ریاستوں میں کم سے کم مقررہ عمر اگر 14 سال ہے تو سولہ ریاستوں میں شادی کی کم سے کم عمر سرے سے ہے ہی نہیں۔ ان حالات میں اگر ہمارا کوئی فاضل جج ہم پر ”یہ“ امریکی فکر مسلط کرنا چاہے تو ہم بسر و چشم دیدہ و دل فرش راہ کیے بیٹھیں گے کہ آؤ کر گزرو یہ امریکی قانون ہمارے یہاں بھی نافذ۔ امید ہے کہ مسٹر و ملا اور راہروانِ مسجد و میخانہ دونوں کو اس امریکی مثال سے ہدایت مل جائے گی۔
دنیا کا کوئی قانون دیکھ لیں،میری مراد ترقی یافتہ دنیا ہے۔ آپ دیکھیں گے کہ اس میں بال کی کھال اتاری جاتی ہے۔ انسانی فہم میں آنے والا بعید ترین امکان بھی قانونی دائرے میں لانے کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ شادی بھی انہی امور میں سے ہے جس کے متعدد پہلو ہیں۔ ہر ایک پر بڑی سوچ بچار کے بعد اگر جامعیت سے بھرپور قانون بنایا جائے تو وہی قانون، قانونِ فطرت کہلاتا ہے۔
اپنے ملک میں آزاد خیال لوگوں اور خواتین کے حقوق والیوں نے بغیر جانے اور بغیر پڑھے یہ فرض کر رکھا ہے کہ چونکہ فلاں جگہ ایک اَسّی سالہ جاگیردار نے تیرہ سالہ لڑکی سے شادی کر لی ہے، لہٰذا یقینا سارے ملک میں ایسے ہی ہوتا ہو گا۔ اور یہ کہ ہر کم سنی والی شادی بوڑھے کے ساتھ ہی ہوتی ہے، اس لیے ریاستی نظام فوراً حرکت میں آ ئے۔ حالانکہ یہ لوگ شہروں سے نکل کر جی ٹی روڈ، موٹر وے سے چھ آٹھ کلومیٹر دور کی دنیا دیکھیں، وہاں چند سال گز اریں تو انہیں اندازہ ہوگا کہ ہمارے ان دیہات کی دنیا یکسر مختلف نوعیت کی ہے۔
گویا کسی امریکی ریاست میں شادی کی کم سے کم عمر اٹھارہ سال کہیں نہیں۔ یہ کام امریکہ میں جائز ہو سکتا ہے تو یہاں پاکستان میں کیا رکاوٹ ہے؟ یہ وہ دلیل ہے جس کی بنا پر میں کہتاہوں کہ مذہب بیزار یا مذہب دشمن طبقہ کسی عقلی بنیاد پر اس کا مخالف نہیں ہے، اس کی مخالفت دین دشمنی پر ہے۔ یہاں آکر میں انسانوں کو مذہبی بنیاد پر تقسیم نہیں کرتا۔ میرے نزدیک ایک طرف یزدان کے خیمے میں مقیم انسان ہیں جو قانونِ فطرت کی حفاظت میں لگے رہتے ہیں تو دوسرے لوگ اہرمن کے پجاری ہیں۔ اوّل الذکر اللہ والے امریکی سپریم کورٹ میں اس خاتون رجسٹرار کی صورت میں مل جائیں گے جس نے ہم جنسوں کی شادی پر عدالتی فیصلے کی نقل اپنے دستخطوں سے یہ کہہ کردینے سے انکار کر دیا تھا کہ میرے مذہبی عقائد اس فیصلے کی تائید نہیں کرتے۔ وہ نیک بخت خاتون اپنی ملازمت داؤ پر لگا بیٹھی لیکن فیصلے کی نقل نہیں دی۔ رہے اہرمن کے راکھشش تو وہ آپ کو ہر ملک اور ہر معاشرے میں ملیں گے۔
کچھ لوگوں یا اداروں نے ہمارے دینی طبقوں کو ان ہیولوں کے تعاقب میں لگا رکھا ہے جن کا کوئی وجود ہی نہیں جن میں سے ایک کم سنی کی شادی ہے۔ میرے مخاطبین دینی طبقے کے میرے اپنے عزیز لوگ ہیں۔ ان عزیزان گرامی سے گزارش ہے کہ اپنے مسلک کے کسی بڑے کے ملفوظات کے ساتھ عہد حاضر کی فکر کا مطالعہ بھی کیا کریں۔ کلمة الحکمۃ پر کسی کی اجارہ داری نہیں ہے۔ اسی کو ”لوہا لوہے کو کاٹتا ہے“ کہا جاتاہے۔ اس مسئلے کو لے لیں،دین دشمن طبقات میں سے کون ہے جو آپ کے شرعی دلائل اور قرآن و سنت پر کان دھرے گا۔ کیا موسیٰ علیہ السلام فرعونی سانپوں کا سر لکڑی کی بوجھل الہامی الواح سے نہیں کچل سکتے تھے؟ تختیاں جن کی ایک ضرب سے ان کے قتلے بن جاتے، لیکن سنپولیوں کا مقابلہ اژدھے سے کیا گیا۔
کم سنی کی شادی کا معاملہ ایسا ہی ہے، یہ قانونِ فطرت ہے اور قانونِ فطرت کا تعلق کسی مذہب سے تلاش نہ کیا جائے۔ یہ ہر مذہب اور ہر معاشرت میں مل جاتا ہے۔جس قانونِ فطرت کا نام ہم نے یا اللہ کریم نے اسلام رکھا ہے، اس کے مظاہر ہمیں کُو بہ کُو اور قریہ بہ قریہ مل سکتے ہیں۔
کم سنی کی شادی کے متعلق انسانی رجحانات آج بھی وہی ہیں جو صنعتی انقلاب سے قبل کے معاشروں میں تھے۔ آج کم سنی کی شادی سے متعلق دو طرفہ بظاہر دلائل، لیکن حقیقتاً لوگوں کے اپنے نقطہ ہاےنظر، ملتے ہیں۔ ان دلائل میں کوئی چیز نہیں ملتی تو ”تلاشِ حق“ کی کیفیت نہیں ملتی۔ اور یہ کام جستجو، کھوج، پِتّہ ماری اور تحقیق کے بغیر نہیں ہوتا۔
کم سنی کی شادی پر مذہبی طبقہ دلائل دیتا ہے تو حضرت عائشہؓ سے ابتدا ہوتی ہے۔ غیر ضروری مدافعت اور اُکتا دینے والی گھسی پٹی گفتگو سے آگے لوگ جا تے ہی نہیں۔ دوسرا وہ طبقہ ہے جس کا ذہن مذہب کے خلاف اتنا زہر آلود ہے کہ انہیں کوئی اچھی چیز تو کیا ملے گی، وہ تو تلاشِ حق کے بھی روادار نہیں ہیں۔ ان کی زندگی محض مذہب دشمنی اور مذہبی طبقے سے منافرت پر قائم ہے۔ پس ضروری ہے کہ اس امریکی قانون کا ہلکا سا خلاصہ ذرا دوسرے انداز میں پیش کیا جائے جہاں صغر سنی کی شادیاں کم و بیش ویسے ہی ہوتی ہیں جیسے ہمارے دیہات میں بغیر کسی تقنین (Codification) کے ہو رہی ہیں۔
جن ریاستوں میں کم از کم عمر نہیں ہے ، وہاں پیدائش کے بعد بچے کی شادی عدالتی اطمینان کے بعد کسی بھی عمر میں ممکن ہے۔ لوگ سوچیں گے کہ یہ کیسے ممکن ہے ، ممکن ہی نہیں ہو بھی رہا ہے۔ جنوبی امریکی زندگی قبائلی نظام سے عبارت ہے۔ مثلاً ماں کو ڈاکٹروں نے لاعلاج قرار دے کر کہا کہ بس دو ایک ماہ زندگی باقی ہے۔ ماں مچل گئی کہ میں نے اپنے دو ایک سالہ بچے کے سہرے کے پھول دیکھنا ہیں، وہ عدالت جا پہنچی، عدالت اجازت دے دے گی ،کیوں دے گی؟ کیونکہ وہاں کی عدالتوں پر این جی او کے تاریک آسیبی سائے نہیں ہیں۔ جج اپنے دماغ سے سوچتے ہیں جن میں انسانی جذبات بھی شامل ہوتے ہیں۔
ان امریکی ریاستی قوانین پر عمل کا جائزہ لیا جائے تو اپنے ہاں کسی کو یقین نہیں آئے گا۔ حوالہ جات کے لیے عرض کروں کہ میں نے مشہور امریکی تھِنک ٹینک ، پیو (Pew) ریسرچ سینٹر کی تحقیق پر انحصار کیا ہے جس کے بیشتر اعدادوشمار امریکی بیورو آف اسٹیٹسکس سے لیے گئے ہیں، ماسوائے اس کے کہ ان کے اپنے سروے وغیرہ ہوں۔ پیو کے مطابق صرف 2014ءمیں 57,800 ایسے بچوں کی شادیاں ہوئیں جن کی عمریں 15 تا 17 سال تھیں۔
ان میں 31,644 کم سن بچیاں تھیں۔ ایک اور ادارہ اَن چینڈ ایٹ لاسٹ (Unchained at Last) ہے۔ اس کا مقصد جبری اور صغر سنی کی شادیاں روکنا ہے۔اس کے مطابق اکیسویں صدی کے ابتدائی 15 سالوں میں دو لاکھ بچوں کی شادیاں انہی قوانین کے مطابق ہوئیں۔ ضرب تقسیم خود کر لیں، ہر روز چھتیس شادیوں سے بھی قدرے زائد۔ این جی اوز اور ریاست کے اندھے وکیل ذرا صبر سے تفصیلات پڑھ لیں: صرف فلوریڈا میں سترہ سالوں میں 13 سالہ بچوں سمیت 16,400 بچوں کی شادیاں ہوئیں۔ ٹیکساس اس سے بھی آگے ہے جہاں 14 سالوں میں 40,000 بچوں کی شادیاں ہوئیں۔ نیویارک متجددین کا گڑھ ہونے کا باعث ذرا پیچھے رہا جہاں دس سالوں میں 3,800 شادیاں ہوئیں یعنی اوسط ہر روز ایک سے قدرے زائد ۔ اوہائیو میں پندرہ سالہ مدت میں 4,443 لڑکیوں کی شادیاں مختلف عمروں کے مردوں سے ہوئیں۔ ایک بچی کی شادی 48 سالہ مرد کے ساتھ ہوئی۔
مذکورہ دو لاکھ شادیوں کا ایک فی صد تقریباً دو ہزار، 14 سال سے کم عمری کی شادیاں ہے۔ حد تو یہ ہے کہ ذرائع ابلاغ میں اس کا کوئی نوٹس تک نہیں لیا گیا۔ ان میں 13 سالہ بچوں کی تعداد اکیاون ہے۔ 6 بچوں کی شادیاں 12 سالہ عمر میں ہوئیں۔ الباما میں ایک 74 سالہ شخص نے 14 سالہ لڑکی سے شادی کی۔ ایک اور ریاست میں 10 سالہ بچیوں کی شادیاں 24 تا31 سالہ مردوں سے ہوئیں۔ یہ سب کچھ متعلقہ ریاستی قوانین اور دستور کی چھتری کے نیچے ہو رہا ہے۔ اپنے متجددین اور دین بیزار طبقے سے امید ہے کہ یہ امریکی رویہ لینے میں اسے کوئی تامل نہ ہو گا۔
بچے کی شادی والدین کا مسئلہ ہے۔ وہ معاشرتی قدروں کے مطابق یہ کام کریں تو ٹھیک، ورنہ عدالتی اطمینان کے بغیر شادی نہیں ہو سکتی۔ عدالتی اطمینان شادی روکنے کے لیے نہیں، شادی سے مفاسد دور کرنے کے لیے ہوگا۔ عبداللہ ؓ ابن مسعود سے منسوب حدیث کا ترجمہ ملاحظہ ہو: ”جسے مسلمان اچھا سمجھیں وہ اللہ کے نزدیک بھی اچھا ہے (ماراہ المسلمون حسناً فھو عنداللہ حسن) اسلامی معاشرت میں ریاست کا وجود بہت معدوم سا اور خبر گیری کی حد تک کا ہے۔ مارکس کا قول کس سے پنہاں ہے جو ریاست کو آلہ جبر قرار دیتا ہے۔ اثباتی انداز میں محرم راز خالقِ کائنات کا فرمان لاگو کریں ذرا، شخصی امور میں ریاست کا کوئی وجود نہیں ہوتا۔ والدین بگڑے ہوے ہوں تو اجتماعی معاشرت میں غیر متوازن کام ممکن نہیں ہوتا، پھر بھی بگاڑ کا امکان رہتا ہے۔ یہاں آ کر ریاست نگران (Watch Dog) کا کردار ادا کرتی ہے، نہ کہ مقنن (Legislator) کا۔ ریاستی نمائندوں ججوں وغیرہ سے گزارش ہے کہ اس بابت اسلامی قوانین وضع شدہ (Codified) شکل میں موجود ہیں، کسی نئی تقنین کی حاجت نہیں ہے۔
بلوغت کے ساتھ جب انسان کے جسمانی تقاضے بیدار ہوتے ہیں تو یہ مسئلہ قانون، ریاست، معاشرے سے زیادہ انسانی حقوق سے مربوط ہو جاتا ہے جن کا کام رکاوٹ پیدا کرنا نہیں بلکہ معاشرے کے مجموعی میلانات کے اندر نئے جوڑے کا درست ترین مقام متعین کرنا ہوتا ہے۔ معمولی مقامی اختلافات کے ساتھ یہ مسئلہ دنیا بھر میں ایک ہی اصول سے منسلک ہے جس کا مذہب سے بہت کم تعلق ہے۔
پارلیمان، کابینہ اور سپریم کورٹ کورٹ سے توقع کی جاتی ہے کہ اس اہم معاشرتی مسئلے کو خوب بحث و تمحیص کے بعد مناسب انداز میں نمٹایا جائے۔ ایسی قانون سازی کے ذریعے جو سات ہزار سالوں سے دنیا بھر میں معروف ہے اور متمدن دنیا میں بھی اس پر عمل کیا جاتا ہے۔ سپریم کورٹ سے یہ توقع بھی کی جاتی ہے کہ وہ ججوں کے ذاتی میلانات کو عدالتی فیصلوں پر اثر انداز ہونے سے باز رکھنے کا کوئی مکینزم وضع کرے گی۔ کیا یہ امر باعث تعجب نہیں ہے کہ جج آئین کے تحت حلف اٹھائیں اور فیصلے لکھتے وقت آئینی شقوں کا خیال رکھنے کی بجائے قانون بین الاقوام کا سہارا لیں ؟
اللہ نے موقع دیا تو کم سنی کی شادی پر یورپی اور چند دیگر ممالک کے قوانین کا جائزہ بھی پیش کیا جائے گا۔