ہمارا محلہ کھوکھر کی گوجرانوالہ کا بہت پرانا محلہ ہے۔ یہاں عیسائی اور مسلم آبادی باہم شیر وشکر رہتی ہے۔ سیالکوٹ روڈ کے پار عیسائیوں کے بڑے بڑے عبادت خانے موجود ہیں۔ عیسائی مسلم کشیدگی کی صورت کبھی سننے میں نہیں آئی۔ انٹر نیٹ پر عیسائی زعما نے خود بھی اس بات کا اعتراف کیا کہ اس محلے اور اس کی مضافات (عزیز کالونی، گلزار کالونی، اسلام کالونی) میں ایک سو پچیس سال سے عیسائی اور مسلمان بھائیوں کی طرح پر امن رہ رہے ہیں۔ یہاں عیسائی خاندانوں کی تعداد تین ہزار بیان کی جاتی ہے۔ وہ پر امن رہے ہیں اور امن و امان کی چادر تلے خوش و خرم ہیں۔ کبھی انتظامی بے اعتدالی ہوئی بھی تو مسیحی برادری نے درگذر سے کام لیا۔ اس کی مثال پچھلے دنوں سیالکوٹ روڈ کو کشادہ کرنے کے لیے تجاوزات گرانے کی مہم کے دوران سامنے آئی۔ اس مہم میں گرجا گھروں اور مشنریوں کے دیگر اداروں نے تجاوزات کو، رضاکارانہ طور پر خالی کیا۔ مگر صد افسوس، سیشن کورٹ کے مین دروازے کے بالمقابل، کھو کھر کی کا پرانا قبرستان اور اس کے کونے پر واقع مسجد انصاف کا منہ چڑا رہی ہے۔ انصاف کا تقاضا یہ تھا کہ مسلمانوں کے قبرستان اور مسجد کو سڑک کی حدود سے ہٹانے میں پہل کی جاتی، پھر عیسائیوں کے معبدوں کو چھیڑا جاتا۔ بلا شبہہ انتظامیہ نے یہاں کمزوری دکھائی اور مسلمانوں کو اپنے تجاوزات ہٹانے کے لیے مہلت دے دی۔ اس انتظامی بے انصافی پر عیسائی کمیونٹی نے در گزر سے کام لیا۔ اگر اسے تنازع بنایا جاتا تو معاملہ دور تک جا سکتا تھا۔
مسلمانوں کے علما بالعموم انتظامیہ سے ساز گاری رکھتے ہیں۔ اگر انتظامیہ انصاف پر مبنی طرز عمل اختیار کرتی تو میرے نزدیک علما کی جانب سے مشکلات پیدا نہ کی جاتیں۔ یہاں میں راستے میں واقع مسجد اور مسلمانوں کے قبرستان کا ذکر، عیسائیوں کی نظر میں نمبر گیم کے لیے نہیں کر رہا۔ اس متجاوز مسجد اور قبرستان کے قریب سے دن میں کئی بار گزرنا پڑتا ہے ۔ اس طرح یہ منظر مجھے ہر بار کھٹکتا ہے۔
محلہ میں رہتے ہوئے بھی اکثر مجھے کئی بڑے بڑے واقعات کا کافی بعد میں علم ہوتا ہے۔ عام روایت ہے کہ تھانے میں درج ابتدائی رپورٹ کے مطابق قرآن حکیم کے اوراق کی بے حرمتی اور توہین رسالت کا الزام ایک شخص انور مسیح گل پر عائد کیا گیا۔ انٹر نیٹ کی رپورٹ کے مطابق اس کیس میں مشتاق گل اور اس کا بیٹا فرخ مشتاق بھی گرفتار ہوا۔ واقعہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے سخت اشتعال انگیز تھا۔ احتجاج شروع ہوا۔ قبا مسجد وقوعہ کے قریب ترین جامع مسجد ہونے کی وجہ سے احتجاج کا مرکز بنی۔ مسجد کے خطیب و متولی سید عرفان شاہ احتجاجی تحریک کے قائد ہوئے۔ ان کے جمعہ کے خطابات بڑے متوازن تھے۔ امن میں خلل ڈالنے کا کوئی عندیہ ان کی جانب سے نہیں تھا۔ وہ بر ملا یہی کہتے رہے کہ وہ پر امن احتجاج کریں گے۔ انہوں نے یہ بھی بار ہا کہا کہ ہم احتجاج کو ہر صورت پر امن اور قانون کے دائرے کے اندر رکھنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے اس بات کا بھی اندیشہ ظاہر کیا کہ ان کی پر امن ریلیوں میں تخریب کار گھس کر اسے تشدد کی راہ دکھا سکتے ہیں۔ وہ لوگوں اور انتظامیہ کو اس بارے میں خبر دار کرتے رہے۔ وقوعہ کی نسبت تھانہ جناح روڈ میں رپورٹ ابتدائی ۱۵؍ اپریل ۲۰۱۱ء کو درج ہوئی۔ وقوعہ گزری ہوئی رات کا تھا۔ اگلی صبح سویرے جمعہ کا دن تھا۔ صبح ہوتے ہی اس رو فرسا واقعہ کا لوگوں کے علم میں آیا تو پولیس کو رپورٹ کیاگیا۔ جمعہ ہی سے احتجاج شروع ہوا۔
۲۲؍اپریل ۲۰۱۱ء کو مجھے صورت حال کا علم ایک یارِ مہربان سے ہوا۔ میں ان کے ہمراہ صبح صبح احتجاج کے ذمہ داران سے ملا۔ ان میں عرفان شاہ صاحب شامل تھے۔ مقدمہ درج ہو چکا تھا۔ ملزم گرفتار تھا۔ تفتیش کا مرحلہ درپیش تھا۔ درج ایف آئی آر نمبر ۱۷۱ کی نقل دکھائی گئی، مگر اس نقل کو کوئی خاص دستاویز کے طور پر مجھے فراہم کرنے سے گریز کیاگیا۔ البتہ ۱۹۲۹ء کی غازی علم الدین شہید والی ابتدائی رپورٹ کی نقل مجھے آسانی سے فراہم کر دی گئی۔ میں نے خود قبا مسجد میں جمعہ کی نماز ادا کی۔ نماز سے پہلے شاہ صاحب کا خطاب جزوی طور پر سنا۔ مسئلہ ہی کچھ ایسا تھا۔ پھر شاہ صاحب کا جذبات کو آگ لگادینے والا موثر اور ماہرانہ انداز، اپنی جگہ موقعہ کی مناسبت سے کسی طرح بے جوڑ نہیں تھا۔ بڑی مدت کے بعد ایسا منظر دیکھنے کو ملا۔ لوگوں کے جذبات کو زبان دینا لازم تھا اور اس میں ان کے جذبات کو کھولنا کسی لحاظ سے نا مناسب قرار نہیں دیا جاسکتاتھا۔ جذبات کا پرامن طور پر اظہار، خواہ احتجاج کی صورت میں ہو، لوگوں کا حق ہے اور فرض بھی۔ لیکن یہ حق اور فرض، ہر صورت پر امن رہنے کی شرط کے ساتھ منسلک ہے۔
محلے کی مساجد میں جمعہ کا اجتماع اور جمعہ کے خطبات احتجاج کے لیے مخصوص ہو کر رہ گئے۔ علمائے کرام کی جذباتی تقاریر آگ لگا دینے والی تھیں۔ تقاریر کے نتیجہ میں ایک ہی نعرہ لگتا: حرمت رسول پر جان بھی قربان۔ اس طرح کے قبیح واقعات میں ہر مسلمان کے جذبات ایک جیسے ہی ہیں۔ اس میں کوئی استثنا نہیں۔ کوئی کتنا ہی امن اور اعتدال پسند ہو، اس کی جذباتی کیفیت کسی انتہا پسند سے مختلف نہیں ہو سکتی۔ یہاں تک کہ سکیورٹی پر متعین افسران سے لے کر معمولی سپاہیوں کی کیفیت بھی یہی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ پنجاب کے سابق گورنر سلمان تاثیر کے محافظ کے ہاتھوں قتل کی سادہ اور واحد ممکنہ تشریح، اسی سیاق و سباق میں ہو سکتی ہے۔
۲۹؍اپریل کو احتجاجی ریلی نکالنے کے بجائے مسجد کے اندر جلسہ ہوا۔ دیگر مساجد سے آئے ہوئے خطبا نے اپنی تقاریر میں لوگوں کے جذبات کی ترجمانی کی۔ پرنٹ اور اسکرین میڈیا مکمل بائیکاٹ کیے ہوئے تھا۔ عام لوگوں میں چہ میگوئیاں ہو رہی تھیں کہ بین الاقوامی سطح پر این جی اوز مسیحی برادری کی کھل کر مدد کر رہی ہیں۔ ۲۹ اور ۳۰ کی درمیانی رات کو، اوراق مقدسہ اور رسالت کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کا دوسرا واقعہ سامنے آیا۔ اس کی ایف آئی آر نمبر ۱۸۳ تھانہ جناح روڈ میں درج کی گئی۔ اس پر لوگوں میں پہلے سے پایا جانے والا اشتعال شدت اختیار کر گیا۔ انٹر نیٹ رپورٹ کے مطابق، مقدمہ نمبر ۱۷۱ میں گرفتار ملزمان مشتاق اور فرخ مشتاق کی رہائی بھی اشتعال کا باعث ہوئی۔ ہفتے کا دن تھا۔ جمعہ کے معمول کے اجتماعات کے بغیر ہی لوگ، صبح ہی سے جمع ہونے شروع ہوگئے۔ ایک بڑی ریلی سیالکوٹ روڈ پرپہنچی۔ ٹائروں کو جلا کر سڑک پر دھواں دھواں کر دیا گیا۔ رواں ٹریفک مسدود ہو گئی۔ توڑ پھوڑ کے معمولی واقعات ہوئے۔ بالآخر لوگ چرچ روڈ اور ڈی آئی جی آفس کے سامنے جمع ہو گئے۔ بیان کیا جاتا ہے کہ چرچ روڈ پر لوگوں نے بعض گرجوں کو جلانے کی کوشش کی۔ علما بھی یہی کہتے ہیں کہ پے درپے واقعات کے نتیجہ میں پیدا ہونے والے اشتعال سے یہ رد عمل کچھ زیادہ غیر معمولی نہیں تھا۔ بہر حال انتظامیہ نے نظم عامہ کو کنٹرول میں رکھنے کے لیے آنسو گیس کے شیل پھینکے، گرفتاریاں کیں۔ اس کشیدہ صورت حال سے متعلق رپورٹ ابتدائی نمبر ۱۸۴ تھانہ جناح روڈ اور رپورٹ ابتدائی نمبر ۵۲۱ تھانہ سول لائن میں درج کی گئی۔ راتوں رات اڑھائی سو کے لگ بھگ لوگ گرفتار کر لیے گئے۔ ان میں چھوٹے بچے بھی کافی تعداد میں شامل تھے۔ احتجاج کے قائدین روپوش ہو گئے یا انتظامیہ نے ان کو اپنی حفاظت میں لے کر حالات پر قابو پانے کے لیے بات چیت کا سلسلہ بھی شروع کر دیا۔
اسی دوران روح فرساواقعات کی تفتیش بھی جاری رہی۔ پریس اور ابلاغ عامہ کے دیگر ذرائع قریب قریب خاموش رہے یا خاموش بنا دیے گئے۔ صورت حال کو امن کی جانب گامزن کرنے کے لیے پے درپے اقدامات ہوئے۔ اس میں جماعت اسلامی کی پھرتیاں اپنے کمال کو پہنچی ہوئی تھیں۔ کہاں احتجاجی ریلیوں میں اپنی بساط سے بڑھ کر شرکت اور کہاں عیسائی بھائیوں کے ساتھ یک جہتی اور ان کے نقصانات کے ازالہ کے لیے کیمپوں تک قیام۔ اتنی لچک بڑی غیر معمولی بات تھی۔ دوسری طرف پولیس کی انسدادی کارروائیوں سے مسلمانوں میں خوف و ہراس دور دور تک سرایت کر گیا۔ ان ایام میں تحریک کا مرکز بننے والی مسجد قبا میں نمازیوں کی تعداد برائے نام رہ گئی۔ پولیس والے وردی اور وردی کے بغیر رسم نماز ادا کرتے رہے۔ تیسرے روز صورت حال کا اندازہ کرنے فجر کی نماز کے لیے میں مسجد میں پہنچا۔ یہ مسجد کھوکھر کی کے بڑے قبرستان کے قریب عابد کالونی کی آخری گلیوں میں واقع ہے۔ مسجد کم وبیش ایک کنال اراضی کے لمبوترے پلاٹ پر تعمیر شدہ ہے۔مسجد کا ہال، برآمدہ، اس کے ساتھ وسیع لان ہے۔ لان کے ایک حصے میں باغیچہ کا منظر پر کشش ہے۔ مساجد کے اعتبار سے یہ ایک غیر معمولی کیفیت ہے۔ گرجوں میں باغیچے کا ماحول اور احاطے کی وسعت تو انگریز دور کی یاد گار کے علاوہ این جی اوز کی عنایات کی مرہون منت ہے، جبکہ ہمارے ہاں مساجد زیادہ تر سوسائٹی کی جانب سے پلاٹوں کی خرید اور تجاوزات کی صورت میں معرض وجود میں آتی ہیں۔ اس طرح پلاٹ مختصر اور ان پر تعمیر کاروباری لوگوں کے عطیات سے ہوتی ہے، کیونکہ اہل ثروت کو دو سجدوں کے لیے بھی محل نما مساجد کی ضرورت ہوتی ہے۔ البتہ ائمہ و خطبا حضرات کو مسجد محل پر ظل الٰہی جیسا کنٹرول حاصل ہو جاتا ہے۔ کھوکھر کی کے مضافات میں واقع مسجد قبا عرفان شاہ صاحب کی ذاتی طور پر تعمیر کردہ بیان کی جاتی ہے۔ یہ مسجد بریلوی مسلک سے منسلک ہے۔
جمعہ کو احتجاج کا پروگرام تھا، چنانچہ جمعہ کی نماز مذکورہ مسجد میں ادا کی۔ دوپہر سوا تین بجے مسجد پہنچا تو عرفان شاہ صاحب کا خطاب جمعہ جاری تھا۔ مجھے برآمدے میں جگہ ملی۔ اپنی چھڑی اور دیوار کے سہارے کھڑے ہو کر شاہ صاحب کی مہارت خطاب کا مشاہدہ کرنے لگا۔ لوگوں کے جذبات کو بر انگیختہ کرنے میں ان کا ایک ایک جملہ گہرا اثر رکھتا تھا۔ پولیس کی نفری بھی خوب تھی۔ شروع شروع میں احتجاجی ریلی پولیس کی نفری کے مقابلے پر کافی کم تھی، مگر تھوڑی دیر بعد دیگر مساجد سے لوگوں کی بڑی تعداد کی آمد سے خاصی بڑی ریلی منظم ہو گئی۔ میں ریلی میں شامل ہو کر سیالکوٹ روڈ تک ساتھ رہا اور پھر اس خیال سے واپس آ گیا کہ سائیکل لے کر آخر تک ساتھ چلوں گا۔ گھر پہنچ کر مہمانوں کی آمد کے انتظامات نے گھر سے دوبارہ نکلنے کا موقع نہ دیا، البتہ فون پرصورت حال سے با خبر رہا۔ ریلی بخیر و خوبی ریل بازار چوک پر جلسہ کی صورت میں پر امن طور پر ختم ہوئی۔
اختصار سے پیش آنے والے واقعات کے بعد بعض توجہ طلب پہلوؤں کا ذکر لازم ہے۔
سب سے اہم تر بات یہ ہے کہ احتجاج کی قیادت سید عرفان شاہ صاحب خطیب جامع مسجد قبا کے ہاتھ میں رہی۔ ان کی مسجد علاقائی وجہ سے احتجاج کا مرکز بنی۔ اس طرح شاہ صاحب پر قیادت کی ذمہ داری حالات نے ڈال دی۔ شاہ صاحب نے قیادت خوب نبھائی۔ انہوں نے راز داری سے بھی کام لیا اور کسی دوسرے کو قیادت میں شرکت سے بھی دور رکھنے کا پورا اہتمام کیا۔ اس پر اعتراض نہیں ہو سکتا۔ لیکن احتجاج کے برآمد ہونے والے نتائج کی ذمہ داری بھی انہی پر عائد ہو گی۔ حالات کے کنٹرول سے باہر ہونے کے بعد جو صورت حال پیدا ہوئی، اس میں شاہ صاحب کو جتنی بھی رعایت دی جائے، اسے ناکامی کے سوا کچھ اور نہیں کہا جاسکتا۔ کیس کی تفتیش اور احتجاج میں تشدد شامل ہونے کے نتیجہ میں وسیع گرفتاریاں، مسلمانوں میں پیدا خوف و ہراس کا ہر پہلو نا خوشگوار ہے اور اس کی ذمہ داری احتجاج کے قائد پر ہی عائد ہو گی۔ احتجاج کو قابو میں نہ رکھنے کے کتنے بھیانک نتائج نکلیں گے، اس کا اندازہ ابھی احتجاج کرنے والوں میں سے کسی کو نہیں۔ اس صورت حال میں لوگوں کا بڑی تعداد میں گرفتار ہونا اور قائدین کا بچ رہنا شعوری ہو یا انتظامیہ کی حکمت عملی کے تحت ہو، نہایت افسوس ناک ہے۔ جماعت کی مقامی قیادت میں سے حکیم کلیم ابتدائی رپورٹ میں نامزد ملزم ہیں۔ انہوں نے قبل از گرفتاری ضمانت کرائی ہے اور نہ ہی وہ گرفتار ہوئے۔ یہ صورت حال انتظامیہ کے ساتھ ملی بھگت کی نشاندہی کرتی ہے۔ عام لوگوں کو قید و بند کا شکار کر کے خود محفوظ رہنے کی حکمت عملی کسی طرح درست نہیں ہو سکتی۔ تحریک کو پر امن رکھنے کی تمام تر ذمہ داری قائدین کی ہوتی ہے۔ اس کا تشدد کی راہ پر جانا اس کی سو فی صد ناکامی ہے۔ کوئی سمجھے یا نہ سمجھے، مانے یا نہ مانے، احتجاج کی کامیابی اس کے پر امن رہنے میں ہے۔ تشدد کی راہ پر جانے میں دشمن یا انتظامیہ کی سازش کا عنصر بھی ہو سکتا ہے۔ مگر تمام تر نتائج تحریک کے قائدین پر عائد ہوں گے۔
ضرورت اس بات کی تھی کہ احتجاج کو پر امن رکھنے کے لیے بھر پور حکمت عملی اختیار کی جاتی۔ اس میں احتجاج کی نوعیت کا تبدیل کرنا بھی ایک اچھی اور موثر تدبیر ہوسکتی ہے۔ لگتا ہے کہ سید عرفان شاہ اور دیگر قائدین قیادت کی ذمہ داریوں کے لحاظ سے اپنی نا تجربہ کاری کی مار کھا گئے۔ احتجاج کا اگر حاصل یہ ہے کہ خوف و ہراس کے نتیجہ میں تحریک کا مرکز بننے والی مسجد میں نماز یں ادا کرنے کے لیے پولیس کی نفری ہی باقی رہ جائے تو بڑی مایوسی کی بات ہے۔ نعرے اتنے بلند بانگ، ہزاروں کے جلوسوں میں ’’حرمت رسول پر جان بھی قربان‘‘ اور جب آزمائش کا وقت آئے تو لیڈر گرفتاری سے بچ رہیں! مسجدوں میں ادائیگی نماز کے لیے بھی لوگ نہ آسکیں!
پولیس انتظامیہ کے ساتھ معاملات پر مذاکرات میں پبلک کی جانب سے کوئی شخص یا تنظیم کبھی آسان وکٹ پر نہیں ہوتی۔ علما کے لیے تو مذاکرات ہمیشہ ہی دلدل بن جاتے ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ تفتیش اور پولیس کے اقدامات دونوں میں علما قانون، ضابطہ اور پولیس و انتظامیہ کے مزاج پر گرفت رکھنے کی صلاحیت و مزاج سے محروم ہیں۔ وہ اپنی اعانت کے لیے وکلا کی خدمات حاصل کر سکتے ہیں مگر اس کی کسی مرحلے میں ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔ اگر ایسا ہوتا بھی تو تحریک کو تشدد کی راہ پر جانے کے بعد مذاکرات میں کچھ حاصل کر لینا بہت ہی مشکل ہو جاتا ہے۔ ایسے خطرناک مرحلے میں اخلاقی طور پر لوگوں کے ساتھ، آزمائش کے مرحلے میں، بہادرانہ گزرنے کے سوا کوئی راستہ نہیں۔ مصلحت، بزدلی یا سمجھوتے کے تحت گرفتاری سے بچنا سخت ہزیمت ہے۔ کوئی یہ نہ سمجھے کہ گرفتار لوگوں کی ضمانتوں کے مرحلے میں، لوگوں کی مدد سے کوئی سیاسی فائدہ ہو جائے گا۔ قیادت کے لیے لازم ہے کہ وہ بہادر ہو، حالات پر قابو رکھے، بے قابو ہونے کی انہونی صورت پیدا ہو جائے تو لوگوں کے ساتھ مرے اور جیے۔ دوستوں کے ہاں پناہ گیری اختیار کرے اور نہ انتظامیہ کے ساتھ سودا بازی سے گرفتاری سے بچنے کی راہ تلاش کرے۔
تازہ صورت یہ ہے کہ اوراق مقدسہ اور رسول اقدس کی اہانت کے دونوں مقدمات کی تفتیش کے بارے میں صورت حال واضح نہیں۔ مقدمات کی ابتدائی رپورٹ نمبر ۱۷۱، ۱۸۳ کہیں سے مہیا نہیں۔ قانون کی رو سے اس کا ایک پرت علاقہ مجسٹریٹ کے پاس جانا چاہیے۔ وہاں یہ پرت نہیں گیا۔ تھانے سے بھی یہ مہیا نہیں ہوا۔ ایس پی کے دفتر میں بھی یہ دستیاب نہیں۔ یہ کتنی بڑی زیادتی ہے کہ ایف آئی آر ایک پبلک دستاویز ہے۔ قانونی طور پر یہ دستاویز ہر ایک کے لیے کھلی ہے، مگر یہ کہیں بھی مہیا نہیں۔ اس پر علما کیا احتجاج کر سکتے ہیں! وہ قانون کے اس پہلو سے بے خبر رہیں گے۔ واقعات کی تفتیش میں پولیس نے کیا کیا اور کیا نہیں کیا، کوئی نہیں جانتا۔ پولیس سب کچھ خاموشی اور راز داری سے کر رہی ہے۔ تفتیش صاف اور شفاف ہے یا نہیں، یہ بعد کی بات ہے۔ پہلے یہ تو واضح ہو الزامات کیا ہیں، کس پر ہیں اور کن شواہد کی بنیاد پر ہیں؟ ان شواہد کی جانچ کے لیے، پولیس کس حد تک اپنی ذمہ داری قانون اور انصاف کی رو سے پورا کر رہی ہے؟ اس بارے میں علما کچھ کہنے کو تیار ہیں اور نہ ہی پولیس حکام کچھ کہتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ مسئلے کی حساسیت کے پیش نظر، ایف آئی آر سیل کر دی گئی۔ تفتیش راز داری سے کی گئی تاکہ اشتعال نہ پھیلے۔ یہ سب کچھ غلط اور قانون اور ضابطے کے سخت خلاف ہے۔ ابتدائی رپورٹ کو سیل کر کے اسے پبلک دستاویز کے status سے ایک خفیہ دستاویز تک لے آنے کو کم سے کم بد معاشی کے الفاظ سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ قانون میں زیادہ سے زیادہ اتنی گنجائش ہے کہ اگر کوئی، اس دستاویز کی مدد سے نقص امن کی صورت کو خطرے میں ڈالے تو قانون تحفظ امن عامہ کی دفعہ ۳ کے تحت انسدادی کارروائی کے طور پر اس کے خلاف نظر بندی کا اقدام ہو سکتا ہے یا اگر کوئی نقص امن کا باعث بنے تو مذکورہ قانون کی دفعہ ۱۶کے تحت مقدمہ درجہ کر کے گرفتاری عمل میں لائی جاسکتی ہے۔ میرے علم کے مطابق قانون میں کسی مقدمے کی رپورٹ ابتدائی کو سیل کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہو سکتی۔ سیاسی اور تحریکی کارکنوں کو یہ امر بخوبی سمجھنا چاہیے۔ اس پہلو سے پولیس حکام نے قانون کو ہاتھ میں لیا ہے اور سخت زیادتی کی ہے۔ تفتیش گم اور خفیہ انداز میں جاری رہی۔ آج تک تفتیش کے بارے میں کوئی اعلان تفتیش کرنے والوں کی جانب سے جاری نہیں ہوا۔ اس سے لوگوں میں بجا طور پر بے چینی اور بد اعتمادی پیدا ہوئی ہے۔
سارے قضیے میں مقامی، صوبائی، قومی اور بین الاقوامی سطح پر این جی اوز نے عیسائی کمیونٹی کی بھر پور ر اخلاقی امداد کی ہے۔ اس پر کوئی اعتراض نہیں ہو سکتا۔ قابل توجہ امر یہ ہے کہ مسلمانوں کا کیس پرنٹ اور اسکرین میڈیا سے غائب کر دیا گی۔ ابتدائی رپورٹ خفیہ کر دی گئی۔ تفتیش کے مراحل اور نتائج بھی لوگوں کی نظروں سے اوجھل رہے۔ اگر عیسائی کمیونٹی اکثریتی احتجاج سے خوف و ہراس کا شکار ہوئی تو مسلمان اکثریت میں ہوتے ہوئے میڈیا، انتظامیہ اور علما کی بے تدبیری سے خود کتنے دباؤ کا شکار ہوئے! اس کیس کو عیسائیوں کی جانب سے قومی اور بین الاقوامی سطح پر لیا جا رہا ہے۔ ۸۲ این جی اوز مسیحی برادری کی حمایت میں ہیں۔ ان میں اکثر این جی اوز مسلمانوں کی ہیں۔ انٹر نیٹ پر ساری تفصیلات موجود ہیں۔ یہ صورت حال مقامی انتظامیہ پر دباؤ کا باعث ہے۔ میڈیا خاموش ہے یا خاموشی کا پابند کر دیا گیا ہے۔ واقعہ سنگین ہونے اور احتجاج میں پوری توانائی کے باوجود، اسے مقامی سطح تک کارنر کر کے مکمل طور پر کچل دیا گیا بلکہ تفتیش میں بھی جانب داری اور بد دیانتی کے کھلے شواہد سامنے آچکے ہیں، لیکن احتجاجی تحریک کی پسپائی سی پسپائی ہے کہ کوئی پرسان حال بھی نہیں۔ تحریک کے تشدد کی راہ پر جانے سے تحریک اخلاقی ہمدردی اور حمایت کھو بیٹھی۔ یہ پہلو قیادت کو کسی صورت نظر انداز نہیں کرنا چاہیے تھا۔
امن وامان کی صورت کو کنٹرول کرنے کے لیے اندھا دھند گرفتاریاں بڑی زیادتی تھی۔ نابالغ بچوں تک کو گرفتاری اور تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ لطف یہ ہے کہ امن کے قیام کی منزل سر کر لینے کے بعد بعد بھی گرفتاریوں کے لیے چھاپے جاری ہیں۔ اس بارے میں ابتدائی رپورٹ نمبر ۱۸۴ تھانہ جناح روڈ اور ابتدائی رپورٹ نمبر ۵۲۱ تھانہ سول لائن میں درج ہوئیں۔ دونوں رپورٹس علیحدہ تھانوں میں درج ہوئی ہیں۔ ان کے مرتب کرنے والے بھی مختلف ہیں، لیکن مضمون میں اتنی یکسانیت پائی جاتی ہے کہ مصنف ایک ہی معلوم ہوتا ہے۔ دونوں میں بعض جملے بطور خاص قابل توجہ ہیں۔ کہا یہ گیا ہے کہ نفرت اور اشتعال انگیز تقریریں کی گئیں اور نعرے لگائے گئے۔ یہ الزام مبہم ہی نہیں، بے معنی ہیں۔ نفرت اور اشتعال پیدا کرنے والی تقریروں کے جملے اور نعرے اور متعلقہ اشخاص کا رپورٹ میں واضح طور پر درج کیا جانا ضروری تھا۔ اسی طرح دونوں رپورٹس میں کہا گیا کہ دو اڑھائی سو افراد امن عامہ کو برباد کر رہے تھے۔ رپورٹ مرتب کرنے والے پولیس افسر ان ان دو اڑھائی سو افراد کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ان کو سامنے آنے پر وہ شناخت کر سکتے ہیں۔ یہ جملے بھی لا یعنی اور غیر ذمہ دارانہ ہیں۔ اگر ان کی پہچان اتنی ہی غیر معمولی اور طاقتور ہے تو ایسے افراد کے حلیے، قد کاٹھ، رنگ روپ اور لباس و چال ڈھال کا ذکر متعین انداز میں کرنا چاہیے تھا۔ اس کے بغیر ایسے جملے کی آڑ میں گرفتاری کے لیے ایک ایسا کھلا لائسنس حاصل کرنے والی بات ہے جس کی قانون میں کوئی گنجائش نہیں ہو سکتی۔
ان مقدمات میں، انسداد دہشت ایکٹ کی دفعہ لگایا جانا سخت ظلم ہے۔ یہ واقعہ سخت اشتعال انگیز صورت حال میں بہت معمولی فساد کا ہے جسے آنسو گیس اور گرفتاریوں سے کنٹرول بھی کر لیا گیا۔ دہشت گردی کا ٹھپہ لگا کر انتظامیہ نے صورت حال کو بگاڑا ہے۔ اوراق مقدسہ اور رسول اقدس کی توہین پر احتجاج کے ذرا سے بے قابو ہو جانے پر دہشت گردی کا لیبل لگا کر پولیس انتظامیہ نے سخت بے تدبیری سے کام لیا ہے۔ اس سے این جی اوز کو خوش کرنے کی کوشش کی گئی ہے، مگر اسے حسن تدبیر کہنا ممکن نہیں ہو گا۔ حقیقت میں یہ انتظامیہ کی جانب سے دہشت گردی کے مترادف ہے۔ دہشت گردی کی دفعات کو انتظامیہ امرت دھارا نہ سمجھے۔ یہ دفعات بہت ہی غیر معمولی صورت حال کے لیے ہیں۔
اس معاملے میں پولیس انتہائی بد دیانتی کی حدوں کو بھی پار کر گئی ہے۔ یہ پہلو سخت قابل مذمت ہے ۔ ہوا یہ کہ پولیس نے تھانہ سول لائن میں اس تصادم کے بارے میں ابتدائی رپورٹ نمبر ۵۲۱ مورخہ ۳۰؍اپریل کو درج کی۔ اس رپورٹ میں مقدمہ کے لیے جو دفعات لگائی گئیں، وہ 427/295,431/147,149/353,186 تعزیرات پاکستان ہیں۔ ایف آئی آر کے خانہ نمبر ۳ اور اس کے متن میں یہی دفعات درج ہیں۔ عدالت میں موصولہ رپورٹ مقدمے کی حقیقی شکل پر واضح شہادت ہے۔ اس ابتدائی رپورٹ میں بعد میں پولیس حکام نے دفعہ 7-ATA کا اضافہ کیا۔ یہ اضافہ ضابطے کے تحت ممکن تھا۔ ایک ضمنی لکھ کر ایسا آسانی سے کیا جاسکتا تھا، مگر ایف آئی آر کے متن میں کمی بیشی کرنا واضح طور پر جعل سازی ہے۔ پولیس حکام کا پبلک ریکارڈ میں اس طرح کا جعل سازی کرنا سنگین نوعیت رکھتا ہے۔ پھر یہ جعل سازی ایسے کیس میں ہو جس میں پبلک وسیع پیمانے پر فریق ہے، اس صورت حال کا سنجیدہ نوٹس لیا جانا چاہیے۔ اتفاق سے ہماری بار کے ایک ذمہ دار وکیل جناب شہزاد اشرف کے نوٹس میں یہ جعل سازی آئی تو انہوں نے پوری جرات سے خود سائل بن کر پولیس حکام کو کٹہرے میں لانے کی کوشش کی۔ اس کے لیے انہوں نے مقدمہ کے اندراج کے لیے باقاعدہ درخواست ضابطہ فوجداری کی دفعہ 22-A/22-B کے تحت دائر کی۔ سیشن جج جناب رشید قمر صاحب نے اس درخواست پر ریلیف دینے کے بجائے وقتی طور پر ٹالنے کی راہ اختیار کی اور سائل کو، جو کہ ہماری بار کے ایک جرات مند وکیل ہیں، مشورہ کے انداز میں پیار پوچا ڈال کر درخواست واپس واپس لینے پر آمادہ کر لیا۔ یہاں میرے عزیز بھائی ناتجربہ کاری کی مار کھا گئے۔ سیشن جج صاحب نے پولیس کے ایک سنگین جرم کو عملاً تحفظ فراہم کیا۔ سیشن جج صاحب نے اپنے تجربے، مہارت اور اختیار کو طاقتور فریق کے حق میں استعمال کیا۔ انہوں نے میرے عزیز وکیل صاحب کو خود فریق نہ بننے کے بجائے متاثرہ سائل کو میدان میں لانے کا مشورہ دیا۔ سیشن جج صاحب کا یہ رویہ کسی طرح ان کے منصب کے مطابق نہیں تھا۔ قانون کی رو سے ہر شہری، کسی بھی جرم کے ارتکاب کا علم ہونے پر، اس کی اطلاع دینے کا پابند ہے۔ اس میں وکیل کا کوئی استثنا نہیں۔ وکیل کو تو عام شہری سے زیادہ ذمہ دار خیال کیا جانا چاہیے۔ پولیس کے خلاف وکلا سے بڑھ کر کون میدان میں اتر سکتا ہے؟ پولیس کے خلاف کسی پرائیویٹ شخص کا سائل بننے کی توقع، جج صاحب اپنے ذہن میں قائم کر سکتے ہیں، مگر زمینی حقائق بہت مختلف ہیں۔ میں مان نہیں سکتا کہ سیشن جج صاحب اس زمینی صورت حال سے آگاہ نہیں ہوں گے۔ جج صاحب بہت جذباتی شخص معلوم ہوتے ہیں۔ ایسے شخص سے اس طرح کی فروگذاشت ہر وقت ممکن ہے۔ یہ فروگذاشت طاقت ور پولیس کے حق میں ہو تو جج صاحب کے بارے میں کوئی اچھا تاثر نہیں چھوڑے گی۔
مجھے دکھ کے ساتھ واضح کرنا پڑتا ہے کہ وکیل سوسائٹی میں ظلم کے خلاف پروٹیکشن کی علامت ہے۔ کسی آبادی میں ایک وکیل کی رہائش اس آبادی کے لیے تحفظ کے قوی احساس کا باعث ہے۔ وکلا تحریک کے دوران اعتزاز احسن کہا کرتے تھے کہ ’’پندرہ کروڑ عوام میرے کلائنٹ ہیں‘‘۔ اسی طرح اگر وکیل پیسے ٹھگنے والی مشین نہیں تو وہ یقیناًہر ظلم کے خلاف موثر جد و جہد کی مضبوط علامت ہے۔ جناب شہزاد اشرف ایڈووکیٹ ایسی ہی حیثیت رکھتے ہیں۔ میں ان کی اس کاوش پر ان کو مبارکباد دیتا ہوں۔ ان شا ء اللہ وہ دن دور نہیں جب وکلا میں سے راست رو لوگ، سوسائٹی کے استحصال کے بجائے استحصالی قوتوں کے لیے ضرب کلیمی بن کر ابھریں گے۔