توہین رسالت کی سزا کے متعلق حنفی مسلک

محمد مشتاق احمد

(علامہ ابن عابدین الشامی کی معرکۃ الآرا تحقیق کا خلاصہ)


ماہنامہ ’’الشریعہ ‘‘ کے مارچ ۲۰۱۱ء کے شمارے میں راقم کا ایک مقالہ ’’ توہین رسالت کی سزا فقہ حنفی کی روشنی میں ‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا۔ اس مقالے کے آخر میں تمام مباحث کا خلاصہ راقم نے ان سات نکات کی صورت میں پیش کیا تھا : 

’’ ۱۔ کسی شخص کو اس وقت تک گستاخ رسول قرار نہیں دیا جاسکتا جب تک مقررہ شرعی ضابطے پر اس کا جرم ثابت نہ ہو۔ 

۲ ۔ اگر گستاخ رسول اس جرم سے پہلے مسلمان تھا تو اس کے اس جرم پر ارتداد کے احکام کا اطلاق ہوگا اور اگر وہ پہلے ہی غیر مسلم تھا تو پھر اس فعل پر سیاسۃ کے احکام کا اطلاق ہوگا ۔ 

۳ ۔ حد ارتداد کو ملزم کے اقرار یا دو ایسے مسلمان مردوں کی گواہی ، جن کا کردار بے داغ ہو ، سے ہی ثابت کیا جاسکتا ہے ، جبکہ سیاسۃ کو عورتوں اور غیر مسلموں کی گواہی ، نیز قرائن اور واقعاتی شہادتوں سے بھی ثابت کیا جاسکتا ہے ۔ 

۴ ۔ پہلی صورت میں سزا بطور حد موت ہے لیکن سزا کے نفاذ سے پہلے عدالت مجرم کو توبہ کے لیے کہے گی اور اگر عدالت اس کی توبہ سے مطمئن ہو تو اس کی سزا ساقط کردے گی ۔ دوسری صورت میں کوئی مقررہ سزا نہیں ہے بلکہ جرم کی شدت و شناعت اور مجرم کے حالات کو دیکھتے ہوئے عدالت مناسب سزا سنائے گی ، جو بعض حالات میں سزاے موت بھی ہوسکتی ہے ۔ سیاسۃً دی جانے والی سزا کو حکومت معاف کرسکتی ہے اگر مجرم کا طرز عمل تخفیف کا متقاضی ہو ۔ 

۵ ۔ حد ارتداد حق اللہ ہے اور سیاسۃ کی سزا حق الامام ہے ، اور حنفی فقہا کے مسلمہ اصولوں کے مطابق حقوق اللہ اور حقوق الامام دونوں سے متعلق سزاؤں کا نفاذ حکومت کا کام ہے ۔ 

۶ ۔ اگر کسی شخص نے قانون کو اپنے ہاتھ میں لے کر ایسے شخص کو قتل کیا جو پہلے مسلمان تھا لیکن توہین رسالت کے نتیجے میں مرتد ہوگیا تھا اور اس کا جرم مقررہ ضابطے پر ثابت ہوا تھا ، تو قاتل کو قصاص کی سزا نہیں دی جائے گی لیکن قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے پر اس قاتل کو سیاسۃً مناسب سزا دی جاسکے گی ۔ اگر مقتول کا جرم مقررہ ضابطے پر ثابت نہیں ہوا تھا تو سیاسۃ کے علاوہ قاتل کو قصاص کی سزا بھی دی جائے گی ۔ 

۷ ۔ اگر مقتول پہلے سے ہی غیر مسلم تھا اور اس کے خلاف الزام ثابت نہیں ہوا تھا ، یا اسے عدالت کی جانب سے سزاے موت نہیں سنائی گئی تھی ، یا اس سزا میں تخفیف کی گئی تھی ، تو قاتل کو قصاص کی سزا بھی دی جائے گی اور سیاسۃً کوئی اور مناسب سزا بھی سزا بھی دی جاسکے گی ۔ اگر مقتول کا جرم بھی ثابت تھا اور اسے سزاے موت بھی سنائی گئی تھی تو قاتل کو قصاص کی سزا نہیں دی جائے گی لیکن قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے پر تادیب کے لیے اسے سیاسۃً مناسب سزا دی جاسکے گی ۔ ‘‘ 

ان نتائج بحث میں سے بعض پر چند اہل علم کی جانب سے عدم اطمینان کا اظہار کیا گیا کیونکہ ان کی راے میں متاخرین فقہاے احناف کی راے اس مقالے میں نظر انداز کی گئی تھی۔ درحقیقت متاخرین کی اختلافی راے پر راقم نے مقالے کے حواشی میں بحث کی تھی اور شاید اسی وجہ سے بعض اہل علم اسے نظر انداز کرگئے تھے۔ اس مقالے میں راقم کا مفروضہ یہ تھا کہ متاخرین کی راے حنفی مسلک کی صحیح نمائندگی نہیں کرتی ۔ اس موضوع پر اپنی جانب سے مزید کچھ کہنے کے بجاے راقم نے مناسب خیال کیا کہ اس مسئلے میں علامہ محمد امین ابن عابدین الشامی کی معرکہ آرا تحقیق کا خلاصہ پیش کر دیا جائے۔ 

توہین رسالت کی سزا کے متعلق معاصر اہل علم کی بحث میں بالعموم قاضی عیاض بن موسی کی الشفا بتعریف حقوق المصطفی اور شیخ الاسلام احمد بن عبد الحلیم ابن تیمیہ الحرانی کی الصارم المسلول علی شاتم الرسول کے مندرجات کو ہی مد نظر رکھا گیا ہے ۔ قاضی عیاض کا تعلق مالکی مسلک سے جبکہ امام ابن تیمیہ کا تعلق حنبلی مسلک سے تھا۔ شافعی مسلک سے تعلق رکھنے والے ممتاز فقیہ خاتمۃ المجتہدین تقی الدین السبکی کی نہایت اہم تالیف السیف المسلول علی من سبّ الرسول کو بالعموم اس سلسلے میں نظر انداز کیا گیا ہے، لیکن سب سے بڑا ظلم علامہ ابن عابدین الشامی کے ساتھ ہوا ہے کیونکہ ان کی تحقیق کا جو خلاصہ رد المحتار میں ملتا ہے، اس سے لوگوں نے بالعموم مختلف اقتباسات سیاق و سباق سے کاٹ کر نقل کیے ہیں اور یوں علامہ شامی نے جس بات کی تردید میں اپنی توانائیاں صرف کی اسی بات کو علامہ شامی کے حوالے سے لوگوں نے نقل کیا ہے ! یہی کچھ ان کے اس رسالے کے ساتھ ہوا ہے جس کا خلاصہ یہاں پیش کیا جارہا ہے ۔ 

علامہ شامی کا یہ رسالہ ان کے مجموعۂ رسائل کی پہلی جلد میں پندرھویں نمبر پر آتا ہے ۔ اس کا پورا عنوان ہے : 

’’تنبیہ الولاۃ و الحکام علی أحکام شاتم خیر الأنام أو أحد أصحابہ الکرام علیہ و علیھم الصلاۃ و السلام ‘‘

راقم کی راے یہ ہے کہ موجودہ دور کے مخصوص تناظر میں اس عنوان میں تھوڑی تبدیلی کی ضرورت ہے ۔ اب اسے محض تنبیہ الولاۃ و الحکام نہیں ہونا چاہیے بلکہ اس کا زیادہ مناسب عنوان شاید تنبیہ العلماء والولاۃ والحکام  ہو ۔ راقم نے اس انتہائی اہم رسالے کا انگریزی زبان میں ترجمہ مکمل کر لیا ہے اور آج کل اس پر تحقیقی حواشی اور مقدمہ لکھنے کا کام جاری ہے ۔ اللہ تعالیٰ اس کاوش کو قبول فرمائے ۔ 

واضح رہے کہ اس مقالے میں راقم کا مطمح نظر توہین رسالت کی سزا کے بارے میں حنفی فقہا کے موقف کے دلائل واضح کرنا نہیں ، بلکہ راقم کا مقصود صرف یہ ہے کہ توہین رسالت کی سزا کے مختلف پہلووں پر حنفی فقہا کے موقف کی صحیح تصویر سامنے لائی جائے ، اگرچہ اس کوشش میں ضمناً فقہاے احناف کے دلائل کا خلاصہ بھی سامنے آجائے گا ۔ 

علامہ شامی کے رسالے کا اجمالی خاکہ

علامہ شامی نے اپنے اس رسالے کو دو ابواب میں تقسیم کیا ہے : 

باب اول میں گستاخ رسول کی سزا پر تفصیلی بحث ہے جبکہ باب دوم صحابۂ کرام کی شان میں گستاخی کرنے والے کی سزا کے بارے میں ہے۔ 

چونکہ موضوع زیر بحث کا تعلق باب اول سے ہے اس لیے اس باب کے مندرجات کا خاکہ یہاں پیش کیا جاتا ہے۔ علامہ شامی نے اس باب کو تین فصول میں تقسیم کیا ہے جن میں پہلی دو فصول اس شخص کے متعلق ہیں جو اس فعل کے ارتکاب سے قبل مسلمان تھا : 

فصل اول میں علامہ شامی نے ثابت کیا ہے کہ اگر ایسا شخص اس فعل سے توبہ نہ کرے تو اس کی سزا بطور حد موت ہے۔ 

فصل دوم میں علامہ شامی نے تفصیل سے ثابت کیا ہے کہ ایسے شخص سے توبہ کے لیے کہنا لازم ہے اور اگر قاضی اس کی توبہ سے مطمئن ہو تو اس شخص کی دنیوی سزا ساقط ہو جائے گی ۔ انھوں نے تفصیل سے اس سلسلے میں امام ابو حنیفہ کا مسلک واضح کیا ہے ۔ 

فصل سوم اس گستاخ رسول کی سزا کے متعلق ہے جو مسلمان ریاست کا باشندہ ہو ۔ علامہ شامی نے ثابت کیا ہے کہ اس شخص کو فساد کے ارتکاب کی وجہ سے قاضی مناسب سزا دے سکتا ہے جو بعض شنیع صورتوں میں سزاے موت بھی ہوسکتی ہے۔ 

فصل اول : اگر مسلمان اس جرم کا ارتکاب کرے 

علامہ شامی نے اس فصل کو دو حصوں میں تقسیم کیا ہے : 

پہلے حصے میں انھوں نے اس مسئلے میں فقہا کی آرا اور دلائل کا خلاصہ ذکر کیا ہے ، جبکہ دوسرے حصے میں انھوں نے اس بات کا تفصیلی جائزہ پیش کیا ہے کہ ایسے گستاخ رسول کی سزا کی علت ’’گستاخی‘‘ ہے یا ’’ کفر ‘‘ ؟ 

ایسا مجرم اگر توبہ نہ کرے تو اس کی سزاے موت پر اجماع ہے ۔ 

چنانچہ پہلے حصے میں علامہ شامی نے اس بات پر فقہا کا اجماع نقل کیا ہے کہ اگر مسلمان کہلانے والا شخص رسول اللہ ﷺ کی شان میں گستاخی کرے اور اس فعل سے توبہ نہ کرے تو اس کی سزا بطور حد موت ہے ۔ انھوں نے اس ضمن میں بعض لوگوں کے شبہے کا جواب بھی دیا ہے جو یہ کہتے تھے کہ اس فعل کے ارتکاب سے مسلمان تبھی مرتد ہوگا جب وہ اس فعل کو اعتقاداً جائز سمجھے ۔ علامہ شامی نے قرآن و سنت کی نصوص اور اجماع و قیاس کے ذریعے ثابت کیا ہے کہ اس فعل کا مرتکب مرتد ہوجاتا ہے خواہ وہ اعتقاداً اس کی حلت کا قائل نہ ہو ۔ 

سزاے موت کی علت : گستاخی یا ارتداد ؟ 

اس کے بعد دوسرے مسئلے میں علامہ شامی نے یہ بحث اٹھائی ہے کہ ایسے شخص کو جو سزا دی جاتی ہے وہ خاص اس گستاخی کے سبب سے دی جاتی ہے یا اس وجہ سے دی جاتی ہے کہ یہ گستاخی ارتداد ہے اور اس وجہ سے اس شخص کو دراصل ارتداد کی سزا دی جاتی ہے ؟ 

انھوں نے قرار دیا ہے کہ گستاخ رسول کی سزاے موت کی علت یہ ہے کہ اس فعل کی وجہ سے وہ مرتد ہوجاتا ہے ۔ اگر گستاخی ہی علت ہوتی تو پھر ہر گستاخ کو بطور حد سزاے موت دی جاتی حالانکہ فقہائے احناف سے صراحت کی ہے کہ غیرمسلم گستاخ رسول کو بعض حالات میں سزاے موت دی جاتی ہے تو وہ بطور حد نہیں بلکہ بطور سیاسۃ دی جاتی ہے۔ چنانچہ پہلے وہ مرتد اور عام کافر میں چند فروق ذکر کرتے ہیں ۔ مثال کے طور عام کافر کو ذمی بناکر اس پر جزیہ عائد کیا جاسکتا ہے اور اسے اسلام قبول کرنے پر مجبور نہیں کیا جاسکتا ، جبکہ مرتد کو ذمی نہیں بنایا جاسکتا اور اگر اس نے اسلام کی طرف رجوع نہیں کیا تو اسے قتل کیا جائے گا ۔ اس سے وہ یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ قتل مرتد کی علت کفر نہیں بلکہ کفر کی خاص شکل ۔ مسلمان کی طرف سے ارتداد۔ ہے اور ارتداد کی یہ سزا بطور حق اللہ واجب ہے ۔ لہٰذا مرتد کی سزاے موت حد ہے ، خواہ متقدمین فقہائے احناف نے کتاب الحدود میں اس کا ذکر نہ کیا ہو ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ متقدمین بھی ارتداد کے لئے ان ساری صفات کے قائل ہیں جو حد کی ہیں ۔ 

یہاں ابن عابدین ایک شبہے کا ذکر کرتے ہیں اور وہ یہ کہ اگر یہ سزا حد ہے تو پھر یہ توبہ سے ساقط کیسے ہوتی ہے ؟ اس کا جواب وہ یہ دیتے ہیں کہ مرتد کی بطور حد سزاے موت کی وجہ خاص فعل ارتداد نہیں ہے بلکہ فعل ارتداد کے ساتھ ساتھ اس کا دوسرا سبب اس کا کفر پر قائم رہنے کا ارادہ ہے ۔ اور ایسی علت جو دو اجزا پر مشتمل ہو وہ ان میں کسی کے بھی نہ ہونے کی صورت میں موجود نہیں رہتی ۔ پس اس کے اسلام کی طرف لوٹ آنے کے بعد تنہا ارتداد سزاے موت کا سبب نہیں بن سکتا کیونکہ سزاے موت بیک وقت دو افعال کی جزا تھی ۔ 

وہ مزید کہتے ہیں کہ عام قاعدے کے تحت تو بقیہ حدود کی طرح چاہیے تھا کہ یہ حد بھی توبہ سے ساقط نہ ہوتی لیکن کئی آیات و احادیث میں صراحتاً قرار دیا گیا ہے کہ اسلام قبول کرنے پر پچھلے گناہ معاف کردیے جاتے ہیں ۔ اس لیے فقہا نے اسے عام قاعدے سے استثنا قرار دیا ہے ۔ اسی طرح اس سزا پر یہ اعتراض بھی درست نہیں ہے کہ اگر یہ حد ہے تو پھر مرتد عورت پر کیوں نہیں نافذ کی جاتی کیونکہ کئی روایات میں صراحتاً کافر عورتوں کے قتل سے منع کیا گیا ہے ۔ اس لیے یہ ممانعت بھی ایک استثنائی حکم ہے ۔ 

فصل دوم : مسلمان کہلانے والے گستاخ رسول کی توبہ کے بعد سزا کا سقوط 

اس فصل کو علامہ شامی نے تین حصوں میں تقسیم کیا ہے : 

حصۂ اول میں انھوں نے ایسے گستاخ رسول کی توبہ کی قبولیت پر مختلف مسالک کے فقہا کا اختلاف نقل کیا ہے ؛ 

حصۂ دوم میں انھوں نے اس پر بحث کی ہے کہ کیا ایسے گستاخ رسول سے توبہ کے لیے کہناواجب ہے؟ 

حصۂ سوم میں انھوں نے اس مسئلے میں حنفی مسلک کے نمائندہ موقف کی تنقیح کی ہے اور نہایت تفصیل سے امام ابوحنیفہ کی راے کی وضاحت کی ہے ، نیز بعض متاخرین حنفی فقہا کی اختلافی آرا کی کمزوری بھی واضح کی ہے ۔ 

ایسے مجرم کی توبہ کی قبولیت کے متعلق مذاہب فقہ کا اختلاف 

حصۂ اول میں علامہ شامی نے واضح کیا ہے کہ ایسے گستاخ رسول کی توبہ کی قبولیت کے مسئلے پر فقہا کا اختلاف ہے ۔ 

چنانچہ انھوں نے قاضی عیاض کی الشفا اور دیگر فقہا کی کتب سے طویل اقتباسات نقل کرکے دکھایا ہے کہ فقہا کے ہاں اس مسئلے پر تین آرا پائی جاتی ہیں: 

۱ ۔ امام مالک کی مشہور راے یہ ہے کہ ایسے گستاخ رسول کو سزا گستاخی کی ملتی ہے ، نہ کہ کفر کی ، اور اس وجہ سے یہ سزا توبہ سے ساقط نہیں ہوتی۔ یہ راے امام شافعی ، امام احمد اور امام لیث سے بھی نقل کی گئی ہے۔ 

۲ ۔ امام مالک سے ہی دوسری راے کی روایت ولید بن مسلم نے کی ہے اس شخص پر ارتداد کے احکام کا اطلاق ہوگا جن میں ایک حکم توبہ کی قبولیت کا ہے ۔ یہی راے امام ابو حنیفہ ، امام ثوری اور امام اوزاعی کی ہے ۔ 

۳ ۔ تیسری راے ، جس کی روایت سحنون نے کئی مالکی فقہا سے کی ہے ، یہ ہے کہ اس شخص پر زندیق کے احکام کا اطلاق ہوگا ، گویا اس کی توبہ دنیوی سزا ساقط نہیں کرسکے گی ۔ 

کیا ایسے مجرم کو توبہ کے لیے کہنا واجب ہے ؟ 

حصۂ دوم میں علامہ شامی نے واضح کیا ہے کہ جو فقہا ایسے گستاخ کی توبہ کی قبولیت کے قائل نہیں ہیں وہ اس سے توبہ کرانے کے بھی قائل نہیں ہیں۔ البتہ توبہ کی قبولیت کے قائل فقہا میں بھی اکثریت کا کہنا یہ ہے ، اور یہی حنفی فقہا کا نمائندہ موقف ہے ، کہ اگر ایسے شخص کو توبہ کے لیے کہے بغیر بھی اسے سزاے موت دی گئی تو اس سزا کو جائز سمجھا جائے گا ، اگرچہ قانوناً صحیح طریقہ یہ ہے کہ اسے توبہ کے لیے کہا جائے ، اس کے شبہات دور کیے جائیں اور اسے رجوع کا موقع دیا جائے ۔ علامہ شامی نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ اگر ایسا شخص غور و فکر کے لیے مہلت چاہے تو پھر حنفی فقہا کا موقف یہ ہے کہ اسے سوچنے سمجھنے کے لیے مہلت دینا واجب ہے ۔ 

ایسے مجرم کی توبہ کے قانونی اثرات کے متعلق امام ابو حنیفہ کے مسلک کی تحقیق 

حصۂ سوم اس ساری بحث کی جان ہے ۔ یہاں علامہ شامی نے فقہ حنفی کے تمام ذخیرے کا باریک بینی سے جائزہ لینے کے بعد جو نتائج نکالے ہیں وہ نہایت اہمیت کے حامل ہیں ۔ علامہ شامی کی اس تحقیق سے یہ بھی معلوم ہوجاتا ہے کہ کسی بھی فقہی مسلک ، اور بالخصوص حنفی مسلک ، میں اگر ایک سے زائد آرا پائی جاتی ہوں تو ان میں کسی راے کو اس مسلک کا نمائندہ موقف ماننے کے لیے کیا طریق کار اختیار کرنا چاہیے ۔ اصول قانون اور اصول فقہ پر کام کرنے والوں کے اس فصل میں بہت مفید مواد موجود ہے ۔ 

امام ابو حنیفہ کے مسلک کے متعلق دیگر مذاہب کے ائمہ کی گواہی 

اس مقام پر پہلے تو علامہ شامی نے قاضی عیاض اور امام طبری کے اقتباسات کا تجزیہ کرنے کے بعد یہ ثابت کیا ہے کہ امام ابو حنیفہ ایسے گستاخ کی توبہ کی قبولیت اور توبہ کے ذریعے اس کی سزا کے سقوط کے قائل تھے کیونکہ وہ اس پر مرتد کے احکام کا اطلاق کرتے تھے ۔ اس کے بعد انھوں نے دو اہم نکات کی طرف توجہ دلائی ہے : 

۱ ۔ یہ کہ یہی راے امام مالک سے ولید بن مسلم نے روایت کی ہے کہ ایسے گستاخ پر ارتداد کے احکام کا اطلاق ہوگا۔ 

۲ ۔ دوسری یہ کہ توبہ کی عدم قبولیت کے متعلق امام مالک کی مشہور راے کی بنیاد یہ امر ہے کہ وہ اس سزا کو گستاخ کے مرتد ہوجانے کی حد نہیں بلکہ خاص گستاخی کے فعل کی حد سمجھتے ہیں ، اور یہی راے قاضی عیاض نے امام شافعی ، امام احمد اور امام لیث سے نقل کی ہے ۔ 

اس آخری نکتے کے متعلق علامہ شامی فرماتے ہیں کہ امام احمد کی مشہور راے تو یہی ہے جو قاضی عیاض نے نقل کی ہے ۔ تاہم امام شافعی کے مسلک کی تحقیق کے متعلق علامہ شامی کی راے قاضی عیاض سے مختلف ہے ۔ علامہ شامی فرماتے ہیں کہ یہ راے شافعی فقیہ ابو بکر الفارسی کی راے کے موافق ہے جو قرار دیتے ہیں کہ حد قذف کی طرح یہ سزا بھی توبہ سے ساقط نہیں ہوتی ( کیونکہ شافعی فقہا کے نزدیک حد قذف حق العبد سے متعلق ہے ، نہ کہ حق اللہ سے متعلق ، اور ابو بکر الفارسی کی راے میں گستاخ رسول کی سزا رسول اللہ ﷺ کے حق سے متعلق ہے ) ۔ دیگر مشہور شافعی فقہا میں ابو بکر القفال اور امام الحرمین نے بھی اسی راے کو ترجیح دی ہے لیکن خاتمۃ المحققین تقی الدین السبکی نے صراحت کی ہے کہ امام شافعی کا مشہور مسلک اس کے برعکس توبہ کی قبولیت ہی کا ہے اور اسی مسلک پر قاضیوں نے فیصلے دیے ہیں ۔ امام سبکی نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ امام فارسی کے قول کی روایت مختلف الفاظ میں کی گئی ہے ، اور یہ کہ اس کے قول کی سیاق و سباق اسے گستاخی کی ایک خاص نوعیت ، رسول اللہ ﷺ کے خلاف قذف کے ارتکاب ، کے ساتھ خاص کردیتا ہے ۔ امام الحرمین نے بھی امام فارسی کے قول کی روایت قذف کے لفظ کے ساتھ کی ہے ۔ شافعیہ کے مسلک کے متعلق امام سبکی کی تحقیق کا خلاصہ یہ ہے کہ : 

۱۔ گستاخی کی عام صورتوں میں مجرم کو توبہ کے لیے کہا جائے گا اور اگر اس نے توبہ کی تو اس کی سزا ساقط ہوجائے گی ؛ 

۲ ۔ اگر گستاخی قذف کی نوعیت کی ہو اورپھر مجرم توبہ کرے تو پھر شافعیہ کے ہاں تین آرا ہیں : ایک یہ کہ اس کی سزا ساقط ہوجائے گی ؛ دوسری یہ کہ اس کی سزاے موت ساقط ہوجائے گی لیکن اسے سزاے قذف دی جائے گی ؛ اور تیسری راے یہ ہے کہ اسے سزاے موت ہی دی جائے گی ۔ 

جہاں تک امام ابوحنیفہ کے مسلک کا تعلق ہے تو امام سبکی نے تصریح کی ہے کہ حنفی مسلک توبہ کی قبولیت ہی کا ہے اور اس میں دو رائیں نہیں پائی جاتیں۔ اس کے بعد علامہ شامی نے اس سلسلے میں امام تیمیہ کی گواہی پیش کی ہے ۔ امام ابن تیمیہ نے بھی امام شافعی اور امام ابو حنیفہ کا یہی مسلک نقل کیا ہے کہ اگر مجرم پہلے مسلمان ہو اور گستاخی کے بعد توبہ کرے تو اس کی توبہ قبول کی جائے گی اور اس کی سزا ساقط ہوجائے گی ۔ 

امام ابو حنیفہ کے مسلک کے متعلق متقدمین فقہاے احناف کی گواہی 

اس کے بعد علامہ شامی قرار دیتے ہیں کہ امام ابو حنیفہ کے مسلک کے متعلق اگر حنفی متون خاموش بھی ہوتیں تو امام طبری ، قاضی عیاض ، امام ابن تیمیہ اور امام سبکی جیسے انتہائی ثقہ اور معتبر فقہاء کی گواہی اس سلسلے میں کافی تھی ۔ تاہم حنفی متون اس سلسلے میں خاموش نہیں ہیں بلکہ وہ صراحتاً اس گواہی کی تائید کرتی ہیں ۔ یہاں علامہ شامی امام ابوحنیفہ کے ممتاز شاگرد امام ابو یوسف یعقوب بن ابراہیم کی کتاب الخراج سے یہ اقتباس نقل کرتے ہیں جو فقہ حنفی کے موقف کے متعلق بالکل صریح ہے : 

و قال ابو یوسف : و أیما رجل مسلم سب رسول اللہ ﷺ أو کذبہ أو عابہ أو تنقصہ، فقد کفر باللہ تعالیٰ ، و بانت منہ امرأتہ ۔ فان تاب، و الا قتل ۔ و کذلک المرأۃ ، الا أن أبا حنیفۃ قال : لا تقتل المرأۃ ، و تجبر علی الاسلام ۔ 
[ابو یوسف کا قول ہے کہ جو مسلمان رسول اللہ ﷺ کی شان میں گستاخی کرے ، یا ان کی تکذیب کرے ، یا ان کی عیب جوئی کرے ، یا ان کی شان میں تنقیص کرے ، تو اس نے اللہ تعالیٰ کے کفر کا ارتکاب کیا اور اس کی بیوی بائن ہوگئی ۔ پھر اگر وہ توبہ کرے تو بہتر ورنہ اسے سزاے موت دی جائے گی۔ یہی حکم عورت کا بھی ہے ۔ البتہ ابو حنیفہ کا مسلک یہ ہے کہ عورت کو قتل نہیں کیا جائے گا بلکہ اسے اسلام کی طرف لوٹ آنے پر مجبور کیا جائے گا۔ ] 

اس اقتباس سے دیگر امور کے علاوہ علامہ شامی یہ بھی ثابت کرتے ہیں کہ حنفی مسلک کے مطابق توبہ کی قبولیت سے مراد سزا کا سقوط ہے کیونکہ امام ابو یوسف فرماتے ہیں کہ : فان تاب، والا قتل۔ 

علامہ شامی نے شیخ الاسلام السعدی کی تالیف النتف الحسان سے یہ اہم اقتباس بھی اس سلسلے میں نقل کیا ہے : 

من سب رسول اللہ ﷺ فانہ مرتد وحکمہ حکم المرتد، یفعل بہ ما یفعل بالمرتد 
[جس نے رسول اللہ ﷺ کی شان میں گستاخی کی تو وہ مرتد ہوا ۔ اس کی قانونی حیثیت وہی ہے جو مرتد کی ہے، اور اس کے ساتھ وہی کچھ کیا جائے گا جو مرتد کے ساتھ کیا جائے گا ۔ ] 

اس کے بعد انھوں نے اس مفہوم کی کئی عبارات فتاوی مؤید زادہ ، شرح الطحاوی ، معین الحکام اور نور العین شرح جامع الفصولین سے نقل کی ہیں جن سے قطعی طور پر یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ حنفی مسلک یہی ہے کہ دیگر مرتد ین کی طرح گستاخ رسول کی سزا بھی توبہ کے بعد ساقط ہوجاتی ہے ۔ 

ایسے مجرم کی قانونی پوزیشن وہی ہے جو مرتد کی ہے 

اس کے بعد علامہ شامی نے ایک اور پہلو سے اس مسئلے کو لیا ہے ۔ انھوں نے دکھایا ہے کہ حنفی فقہا ارتداد کا حکم واضح کرتے ہوئے جب ان الفاظ کا ذکر کرتے ہیں جن کے کہنے سے سے کوئی مسلمان مرتد ہوسکتا ہے تو ان میں رسول اللہ ﷺ کی شان میں گستاخی کا بھی ذکر کرتے ہیں ۔ مثال کے طور پر انھوں نے فتاوی تاتارخانیہ سے یہ عبارت نقل کی ہے : 

من لم یقر ببعض الأنبیاء، أو عاب نبیاً بشیء، أ و لم یرض بسنۃ من سنن سید المرسلین ﷺ فقد کفر۔ 
[جس نے انبیاء علیہم السلام میں بعض کا انکار کیا، یا کسی نبی کی عیب جوئی کی، یا سید المرسلین ﷺ کی سنن میں کسی سنت کو ناپسند کیا تو اس نے کفر کا ارتکاب کیا۔] 

اس طرح کی کئی عبارات علامہ شامی نے التتمۃ ، المحیط ، الظاھریۃ اور متون معتبرہ جیسے مختصر القدوری ، کنز الدقائق ، المختار ، ملتقی الأبحر ، الھدایۃ اور امام محمد بن الحسن الشیبانی کی الجامع الصغیر سے نقل کی ہیں ۔ اس کے بعد وہ قرار دیتے ہیں کہ جب حنفی فقہا صراحتاً اس کو ارتداد قرار دیتے ہیں اور پھر ارتداد کے قانونی اثرات میں ایک اہم اثر یہ بھی ذکر کرتے ہیں کہ مرتد کو توبہ کے لئے کہا جائے گا اور اگر وہ توبہ کرے تو اس کو ارتداد کی سزا نہیں دی جائے گی ، تو ظاہر ہے کہ یہی حکم گستاخ رسول کا بھی ہے ۔ 

اس استدلال پر اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ زندیق بھی تو مرتد ہوتا ہے مگر فقہا اس کی توبہ کے قائل نہیں ہیں تو علامہ شامی اس کا جواب یہ دیتے ہیں کہ زندیق یا جادوگر کو محض ارتداد کی وجہ سے نہیں ، بلکہ فساد فی الارض کی وجہ سے سزاے موت دی جاتی ہے اور گستاخ رسول کو بھی بعض صورتوں میں ارتداد کے بجائے فساد فی الارض کی بنیاد پر سزاے موت دی جاسکتی ہے ، جیسے مثال کے طور غیر مسلم گستاخ رسول کا حکم ہے ، بلکہ فساد فی الارض کی بنیاد پر سیاسۃً سزاے موت تو زندیق، جادوگر، مرتد یا گستاخ رسول کے ساتھ خاص نہیں ہے بلکہ اس مسلمان کو بھی دی جاسکتی ہے جس نے کفر کا ارتکاب نہ کیا ہو ، جیسے مثال کے طور پر باغیوں کو سیاسۃً سزاے موت دی جاسکتی ہے ۔ 

بعض متاخرین احناف کی اختلافی راے 

یہاں سے علامہ شامی اس بات کی طرف رخ کرتے ہیں کہ بعض متاخرین احناف نے کس بنا پر قرار دیا ہے کہ گستاخ رسول مسلمان کو سزاے موت بطور حد دی جائے گی اور اس کی توبہ مقبول نہیں ہوگی ؟ مثال کے طور پر الفتاوی البزازیۃ میں یہی قرار دیا گیا ہے جس کی اتباع الدرر و الغرر میں کی گئی ہے۔ ابن الھمام نے بھی فتح القدیر میں اسی طرح کی رائے کا اظہار کیا ہے ۔ نیز ابن نجیم نے الأشباہ و النظائر اور البحر الرائق میں کہا ہے کہ فتوی اسی قول پر دینا چاہیے کہ گستاخ رسول کی توبہ قبول نہیں ہوگی ۔ اس بات کی اتباع ان کے شاگرد علامہ تمرتاشی نے التنویر میں کی۔ پھر یہی بات علامہ خیر الدین الرملی ، صاحب النھر اور علامہ شرنبلانی نے اور ان کے بعد دیگر کئی متاخرین نے اپنے فتاوی میں کی ہے ۔ 

اختلاف کا اصولی فیصلہ 

اس اختلاف کا اصولی فیصلہ تو علامہ شامی ان اصولوں کے ذریعے کرتے ہیں جن کے ذریعے یہ طے کیا جاتا ہے کہ روایات میں اختلاف کی صورت میں مفتی بہ قول کی پہچان کس طرح ہوگی ؟ یہاں علامہ شامی نے شیخ امین الدین بن عبدالعال کے فتاوی سے جو اہم اصول بیان کیے ہیں ان میں سے چند کا یہاں ذکر مناسب معلوم ہوتا ہے : 

  • اگر امام ابو حنیفہ سے ایک سے زائد آرا مروی ہوں تو اس راے کی اتباع کی جائے گی جو زیادہ قوی ہو ۔ پس اگر صاحبین کی راے امام کی سے مروی آرا میں کسی ایک سے موافق ہو تو اس کے خلاف راے پر فتوی نہیں دیا جائے گا ۔ 
  • اگر امام اور ان کے تلامذہ میں اختلاف ہو تو امام کی راے پر فتوی دیا جائے گا ، بالخصوص جبکہ صاحبین میں کسی ایک کی راے امام کی راے کے موافق ہو ۔ 
  • اگر امام ایک طرف ہوں اور صاحبین دوسری طرف تو اگر یہ اختلاف کسی شرعی دلیل کی تعبیر و تشریح پر مبنی ہو تو امام کی راے پر عمل کیا جائے گا ، اور اگر اختلاف احوال کے تغیر کی بنا پر ہو تو صاحبین کی راے پر فتوی دیا جائے گا ۔ 
  • اگر کسی مسئلے میں امام کی راے نقل نہ کی گئی ہو تو فتوی ابو یوسف کی راے پر دیا جائے گا ؛ وہ بھی نہ ہو تو محمد کی راے پر ، ورنہ زفر کی راے پر اور وہ بھی نہ ہو تو حسن ( بن زیاد ) کی راے پر فتوی دیا جائے گا ۔ 
  • اگر کسی مسئلے پر ان کبار فقہا یا ان کی طرح کے دیگر فقہا کی راے نہ ملے تو پھر دیکھنا چاہیے کہ ان کے بعد کے فقہا نے اس مسئلے میں کوئی متفقہ راے دی ہے یا نہیں ؟ اگر دی ہے تو اسی کی اتباع کی جائے گی ۔ اگر ان کا اختلاف ہو تو پھر جمہور فقہاے مذہب کی راے ، بالخصوص ابو حفص ، ابو جعفر ، ابو اللیث اور طحاوی جیسے فقہا کی راے پر فتوی دینا چاہیے ۔ 
  • اگر یہ راستہ بھی میسر نہ ہو تو پھر مفتی پر یہ ذمہ داری آن پڑتی ہے کہ وہ ان فقہاے کرام کے نقش قدم پر چلتے ہوئے خود اس مسئلے کا شرعی حل تلاش کرے ۔ 
  • واضح رہے کہ وہی مفتی فقہا کی آرا میں اختلاف کی صورت میں کسی راے کا انتخاب کرسکتے ہیں جو کسی مسئلے کا قانونی تجزیہ کرنے اور اس کے لیے قانونی حکم کے استنباط کے لیے مجتہدانہ بصیرت رکھتے ہوں ۔ باقی رہے ہم اور ہمارے معاصرین ، اور ہمارے ان کے اساتذہ اور ان اساتذہ کے اساتذہ ، تو ہماری حیثیت تو صرف مجتہدین کی آرا کے نقل کرنے والوں اور ان کی حکایت کرنے والوں کی ہے ۔ 

یہاں علامہ شامی نے ثابت کیا ہے کہ حنفی مسلک میں اس سلسلے میں کوئی اختلاف نہیں پایا جاتا تھا اور اس کی شہادت متقدمین احناف کی نصوص بھی دیتی ہیں اور دیگر مسالک کے فقہاء کی عبارات بھی ۔ اس لیے امام بزازی کی عبارت ، جہاں پہلی دفعہ حنفی فقہا کے ہاں ایک مختلف راے ملتی ہے ، اصولاً ناقابل قبول ہے ۔ 

بزازی اور ان کے متبعین کی راے کے اصل مآخذ 

اس کے بعد علامہ شامی نے یہ بات بھی قطعی طور پر ثابت کی ہے کہ فتاوی بزازیہ کی عبارت حنفی فقہا کی تصریحات کے بجائے مالکی فقیہ قاضی عیاض کی الشفا اور حنبلی فقیہ امام ابن تیمیہ کی الصارم المسلول سے ماخوذ ہے ۔ نیز علامہ شامی نے یہ بھی دکھایا ہے کہ بزازی سے قاضی عیاض اور امام ابن تیمیہ کی عبارات کے فہم میں غلطی ہوئی ہے ورنہ قاضی عیاض اور امام ابن تیمیہ دونوں نے حنفی موقف کو صحیح طور پر نقل کیا ہے۔ اسی طرح علامہ شامی نے ثابت کیا ہے کہ ابن الھمام کا انحصار بزازیۃ پر تھا اور خود ابن الھمام کے شاگرد رشید علامہ قاسم نے ان کے قول کو اس بنیاد پر رد کیا ہے کہ وہ حنفی مسلک کے خلاف ہے ۔ اسی طرح ابن نجیم پر خود ان کے اہل عصر نے بھی اس سلسلے میں تنقید کی تھی ، بالخصوص جبکہ ابن نجیم نے حوالہ الجوھرۃ کا دیا ہے لیکن وہاں یہ عبارت نہیں پائی جاتی ۔ 

کیا توبہ کی قبولیت سے مراد اخروی سزا کا سقوط ہے ؟ 

یہ ثابت کرنے کے بعد کہ حنفی مسلک توبہ کی قبولیت کا ہی ہے ، علامہ شامی اس تاویل کی طرف رخ کرتے ہیں جو بعض لوگوں نے بزازی اور ابن الھمام وغیرہ کے دفاع میں پیش کی ہے ، کہ توبہ کی قبولیت سے مراد اخروی سزا کا سقوط ہے ، نہ کہ دنیوی سزا ۔ علامہ شامی اس کا جواب یہ دیتے ہیں کہ یہ تاویل پیش کرنے والے اصل محل نزاع کو ہی نظر انداز کرگئے ہیں۔ قاضی عیاض ، امام ابن تیمیہ ، امام سبکی اور اما م ابو یوسف کی جو عبارات نقل کی گئیں ان میں صراحتاً مذکور ہے کہ اصل بحث سزاے موت کے سقوط یا عدم سقوط پر ہے ۔ چنانچہ امام ابو یوسف قرار دیتے ہیں : فان تاب، والا قتل۔ 

کیا توبہ اس لیے دنیوی سزا ساقط نہیں کرسکتی کہ مجرم فساد کا ارتکاب کرتا ہے ؟ 

بزازی اور ابن الہمام کے قول کی ایک اور تاویل یہ بھی پیش کی گئی ہے کہ اس قول کی بنا یہ امر ہے کہ مسلمانوں کے لیے سب سے زیادہ محترم شخصیت کی شان میں گستاخی کرکے مجرم فساد فی الارض کا ارتکاب کرتا ہے اور یہ حنفی مسلک کا مسلمہ اصول ہے کہ فساد فی الارض کی سنگین صورت میں مجرم کو سزاے موت دی جاسکتی ہے ۔ اس تاویل کا جواب علامہ شامی یہ دیتے ہیں کہ ایک تو گستاخ رسول تعزیری نہیں بلکہ اسے ارتداد کی سزا بطور حد دی جاتی ہے اگر وہ توبہ نہ کرے ، دوسرے اگر سزاے موت فساد کی وجہ سے دی جارہی ہے تو یہ حکم مطلق صورت میں صحیح نہیں ہے کیونکہ فساد کی ہر صورت پر موت کی سزا نہیں دی جاسکتی ، بلکہ صرف اسی صورت میں یہ سزا دی جاتی ہے جب مجرم معاشرے میں عمومی انتشار کا باعث بنے اور اس کے فساد کے خاتمے کے لیے سواے سزاے موت کے اور کوئی راستہ نہ ہو ۔ پس اگر مجرم اسے عادت بنالے کہ جب بھی وہ پکڑا جائے وہ توبہ کرکے خود کو بچانے کی کوشش کرے ، یا وہ جرم انتہائی اشتعال انگیز انداز میں یا سرکشی کے ساتھ کرے تب اسے فساد کا مرتکب قرار دے کر سزاے موت دی جاسکتی ہے لیکن ایسا جرم کی ہر صورت میں نہیں ہوسکتا ۔ 

کیا اس طرح بزازی اور دیگر فقہا کی کتب پر سے اعتماد اٹھ جاتا ہے؟ 

یہاں علامہ شامی اس اعتراض کا بھی رد کرتے ہیں کہ ان کے اس موقف کی وجہ سے بزازیہ جیسی مستند کتاب ناقابل اعتماد ٹھہرتی ہے ۔ علامہ شامی فرماتے ہیں کہ امام بزازی ، محقق ابن الھمام اور دیگر فقہا جنھوں نے اس راے کا اظہار کیا ہے ، ان کا احترام اور ان کے ساتھ عقیدت اپنی جگہ لیکن اللہ کی کتاب کے سوا کوئی کتاب غلطی سے پاک نہیں ہوسکتی اور اللہ تعالیٰ نے اس امت پر جو احسان کیے ہیں ان میں ایک بڑا احسان یہ ہے کہ ہر دور میں اس نے اپنے بعض بندوں سے یہ کام لیا ہے کہ وہ اپنے پیش رووں کی غلطیوں کا احتساب کرکے شرعی احکام کی توضیح اور احقاق حق کا فریضہ ادا کرتے رہیں۔ پس فقہا نے اپنے پیش رووں کے کام کا تنقیدی جائزہ لے کر اس میں غث و ثمین کی تمییز کا کام ہمیشہ سے جاری رکھا ہے اور اس سلسلے میں اپنے بزرگوں اور اساتذہ سے بھی اختلاف کرتے آئے ہیں ۔ پھر علامہ شامی نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ غلطی کسی ایک اہل علم سے ہوجاتی ہے لیکن ان پر اعتماد کی وجہ سے دوسرے اس راے کو نقل کرتے چلے جاتے ہیں اور یوں بات پھیل جاتی ہے لیکن جب یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ پہلا قدم ہی غلط اٹھایا گیا تھا تو پھر اس غلطی پر اصرار نہیں کرنا چاہیے ۔ اس کے بعد انھوں نے کئی ایسی مثالیں دی ہیں جن میں بعض بڑے اہل علم سے کسی مسئلے کے صحیح حکم کے تعین میں تسامح ہوا ہو اور بعد کے فقہا نے اس کی تصحیح کی ہو ۔ 

کیا ایسے مجرم پر مرتد کے بجاے زندیق کے احکام کا اطلاق ہوگا؟ 

اس مقام پر پہنچ کر علامہ شامی ایک اور اہم تاویل کا تنقیدی تجزیہ پیش کرتے ہیں ۔ شیخ ابو السعود الآفندی سے روایت کی گئی ہے کہ گستاخ رسول پر عام مرتدین کے بجاے زندیق کے احکام کا اطلاق ہوگا جن میں ایک یہ ہے کہ اس کی ظاہری توبہ دنیوی سزا ساقط نہیں کرسکتی۔ صاحب در مختار کی تحقیق کے مطابق اس راے کی بنا یہ امر ہے کہ فقہا کے درمیان گستاخ رسول کی توبہ کی قبولیت و عدم قبولیت پر اختلاف اس صورت میں ہے جب اسے گرفتار نہ کیا گیا ہو ، اور یہ کہ جب اسے گرفتار کیا گیا تو پھر بالاتفاق اس کی توبہ سزا ساقط نہیں کرسکے گی کیونکہ اسے زندیق سمجھا جائے گا۔ چنانچہ اس سلسلے میں عثمانی خلیفہ کے ایک فرمان کا بھی حوالہ دیا جاتا ہے جو ۹۳۴ ھ میں جاری کیا گیا تھا اور جس میں قرار دیا گیا تھا کہ اگر مجرم کی توبہ قاضی کو مطمئن کردے تو اسے سزاے موت کے بجاے تعزیری سزا دی جائے گی جیسا کہ امام اعظم کا مسلک ہے ، اور اگر قاضی مجرم کی توبہ سے مطمئن نہ ہو تو وہ اسے دیگر فقہا کی راے کے مطابق سزاے موت دے گا ۔ 

علامہ شامی کہتے ہیں کہ محقق ابوالسعود کے احترام اور ان کے ساتھ عقیدت کے باوجود کہنا پڑتا ہے کہ ان کے قول کے دو اجزا باہم متناقض ہیں کیونکہ پہلے جز میں قرار دیا گیا ہے کہ گرفتاری کے بعد مجرم کی توبہ کی عدم قبولیت پر کوئی اختلاف نہیں ہے ، جبکہ آخری جز میں تصریح کی گئی ہے کہ امام اعظم اور دیگر فقہا کا اختلاف گرفتاری کے بعد کے مرحلے پر ہے ۔ مزید برآں خود مفتی ابو السعود نے ایک اور فتوی میں قطعی الفاظ میں تصریح کی ہے کہ امام اعظم کا مسلک یہی ہے کہ مجرم کی گرفتاری کے بعد بھی اس کی توبہ قاضی کو مطمئن کردے تو وہ سزا کو ساقط کردے گا ۔ 

علامہ شامی نے اس بات کا بھی تفصیلی تجزیہ کیا ہے کہ کیا گستاخ رسول کو زندیق سمجھا جاسکتا ہے ؟ اور کیا اسے زندیق قرار دینے سے بزازی کا دیگر فقہاے احناف کے ساتھ اختلاف رفع ہوجاتا ہے ؟ انھوں نے واضح کیا ہے کہ اس مجرم کو زندیق قرار دینے سے ان تمام عبارات کی مخالفت لازم آتی ہے جن میں قرار دیا گیا ہے کہ وہ مرتد ہے اور اس کے ساتھ وہی کچھ کیا جائے گا جو مرتد کے ساتھ کیا جاتا ہے ۔ اس عمومی حکم کی تخصیص تبھی مانی جاسکتی ہے جب ائمۂ مذہب سے اس کی روایت کی گئی ہو اور ایسی کوئی روایت موجود نہیں ہے ۔ نیز اگر یہ تخصیص مان لی گئی تب بھی بزازی اور ائمۂ مذہب کا اختلاف رفع نہیں ہوتا کیونکہ بزازی اور ان کے متبعین کی راے یہ ہے کہ گرفتاری سے قبل بھی اس مجرم کی توبہ ناقابل قبول ہے ۔ گویا اس تاویل کو ماننے سے دو آرا کا اختلاف رفع نہیں ہوتا بلکہ اس سے ایک تیسری راے وجود میں آجاتی ہے ۔ 

یہاں پھر علامہ شامی اس اصول کی طرف توجہ دلاتے ہیں کہ جب مذہب کے مجتہدین کے ساتھ متاخرین کا اختلاف ہو تو مجتہدین کی راے پر عمل لازم ہے ۔ اس لیے فتوی بزازی اور ان کے بعد آنے والوں کی راے کے بجاے ابو یوسف ، طحاوی اور دیگر ائمۂ مذہب کے موقف پر ہی دیا جائے گا ۔ حقیقی اختلاف تو اس صورت میں ہوتا جب ان ائمۂ مذہب کے مرتبے کے مجتہدین سے کوئی مختلف راے منقول ہوتی ۔ ( مثال کے طور پر ابو یوسف کچھ کہتے اور محمد کچھ اور ۔ ) اس صورت میں بھی ہمارا کام یہ نہ ہوتا کہ کسی ایک راے کی ترجیح کریں ، بلکہ یہ کام اصحاب ترجیح ہی کا ہوتا اور ہم پر ان کی اتباع لازم ہوتی ۔ اب جبکہ ائمۂ مذہب میں کوئی اختلاف ہے ہی نہیں تو ان سے مرتبے میں کم متاخرین نے خواہ ایک مختلف راے اختیار کی ہو اس اختلاف کی کوئی حیثیت نہیں ہے ۔ 

علامہ شامی اس حقیقت کی طرف بھی توجہ دلاتے ہیں کہ بزازی ، ابن الہمام ، ابن نجیم اور دیگر فقہا پر، جنھوں نے ائمۂ مذہب سے منقول موقف کے خلاف راے اختیار کی ہے، دیگر فقہاے مذہب کی جانب سے مسلسل تنقید بھی ہوتی رہی ہے۔ بہ الفاظ دیگر ان کے اختلاف کو مذہب کے اندر قبولیت عامہ حاصل نہیں ہوسکی ہے ۔ 

گستاخی کے ہر ملزم کو زندیق کیوں قرار نہیں دیا جاسکتا؟ 

پھر علامہ شامی یہ بھی واضح کرتے ہیں کہ گستاخی کے ہر ملزم کو زندیق کیوں قرار نہیں دیا جاسکتا ۔ انھوں نے ابن الھمام کے حوالے سے زندیق کی یہ تعریف پیش کی ہے کہ زندیق سے مراد وہ شخص ہے جو کسی دین پر ایمان نہ رکھتا ہو اور جو عہد رسالت کے منافقین کی طرح ہو کہ بظاہر مسلمان ہو لیکن بباطن کافر ہو ۔ علامہ شامی فرماتے ہیں کہ ظاہر ہے کہ ایسے شخص کی پہچان صرف اسی وقت ہوسکتی ہے جب اس کا راز کسی طرح آشکارا ہوجائے ، یا وہ اپنے کسی ساتھی پر اپنا اصل عقیدہ واضح کرے ۔ یہاں البحر الرائق اور الخلاصۃ سے بعض جزئیات نقل کرنے کے بعد علامہ شامی التجنیس سے یہ اہم جزئیہ نقل کرتے ہیں کہ زندیق کی تین قسمیں ہیں : 

۱۔ ایسا زندیق جو اصلاً مشرک ہو ؛ 

۲ ۔ ایسا زندیق جو پہلے مسلمان تھا ؛ اور 

۳ ۔ ایسا زندیق جو پہلے ذمی تھا ۔ 

ان میں پہلی قسم سے کوئی تعرض نہیں کیا جائے گا ، الا یہ کہ وہ مشرکین عرب میں سے ہو۔ ( احناف کے نزدیک مشرکین عرب کے لیے دو ہی راستے ہیں : اسلام یا سزاے موت ۔ ) اسی طرح تیسری قسم کے زنادقہ سے بھی تعرض نہیں کیا جائے گا کیونکہ اہل ذمہ بھی غیر مسلم ہیں اور زنادقہ بھی ، اور الکفر ملۃ واحدۃ ۔ البتہ دوسری قسم کے زنادقہ ، جو پہلے مسلمان تھے ، کا حکم یہ ہے کہ انھیں اسلام قبول کرنے کو کہا جائے گا اور انکار پر انھیں سزاے موت دی جائے گی کیونکہ وہ مرتد ہو گئے ۔ 

علامہ کمال پاشا نے بھی تصریح کی ہے کہ ایسے زنادقہ اور مرتدین میں احکام کے لحاظ سے کوئی فرق نہیں ہے ۔ البتہ انھوں نے تنبیہ کی ہے کہ اگر اس قسم کے زنادقہ میں اگر کوئی ایسا ہو جو اپنے مسلک کے لیے بہت مشہور ہو اور اس کی طرف لوگوں کو دعوت بھی دیتا ہو تو اگر گرفتاری سے پہلے وہ توبہ کرے تو اسے ارتداد کی سزا نہیں دی جائے گی لیکن اگر گرفتاری تک اس نے توبہ نہیں کی تو اسے سزاے موت دی جائے گی خواہ گرفتاری کے بعد وہ توبہ کرے ۔ علامہ شامی قرار دیتے ہیں کہ اس سے یہ معلوم ہوا کہ اس دوسری قسم کے زنادقہ میں جن کی توبہ گرفتاری کے بعد ان کی سزا کو ساقط نہیں کرسکتی ، یہ وہ مخصوص طبقہ ہے جن کو فساد پھیلانے کی وجہ سے سزا دی جاتی ہے ، بالکل اسی طرح جیسے جادوگروں ، ڈاکووں اور رہزنوں اور دیگر مفسدین کو سزاے موت دی جاتی ہے ۔ 

کیا گستاخی کے ہر ملزم کو زنادقہ کے اس مخصوص طبقے میں شامل سمجھا جاسکتا ہے ؟ 

اس مقام پر علامہ شامی یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ کیا گستاخی کے ہر ملزم کو زنادقہ کے اس مخصوص طبقے میں شامل سمجھا جاسکتا ہے ؟ وہ پھر یاد دلاتے ہیں کہ ان مخصوص زنادقہ کی سزاے موت کی علت ان کا کفر نہیں ، بلکہ یہ امر ہے کہ یہ فساد پھیلاتے ہیں ۔ اگر کوئی یہ کہے کہ رسول اللہ ﷺ کی شان میں گستاخی کا مرتکب اپنا خبث باطن آشکارا کردیتا ہے اور اس کے ظاہری اسلام یا توبہ کی کوئی حیثیت نہیں ہے ، تو علامہ شامی اس بات کو نہیں مانتے ۔ وہ قرار دیتے ہیں کہ اگر ایسا ہی ہوتا تو پھر یہی حکم اس شخص کا بھی ہوتا جو رسول کے بجاے خدا کی شان میں گستاخی کرے ۔ نیز وہ یاد دلاتے ہیں کہ زنادقہ میں بھی یہ حکم صرف اس مخصوص طبقے کے لیے ہے جو اپنے مسلک کے لیے معروف ہو اور لوگوں کو اس کی طرف دعوت بھی دیتا ہو ۔ گستاخی کا ہر مجرم اس نوعیت کا نہیں ہوتا ۔ علامہ شامی توجہ دلاتے ہیں کہ بسا اوقات اس جرم کا ارتکاب اس وقت کیا جاتا ہے جب کسی شخص کو بہت زیادہ اشتعال دلایا جائے ۔ البتہ اگر مجرم اس فعل کے لیے معروف ہو اور وہ دوسروں کو بھی اس کے ارتکاب کی ترغیب دیتا ہو تو پھر اس کے زندیق ہونے میں کوئی شبہ نہیں ہے اور اسے قطعی طور پر سزاے موت دی جائے گی خواہ وہ دعوی کرتا ہو کہ اس نے توبہ کرلی ہے ۔ 

تکفیر میں احتیاط کی ضرورت 

یہاں پہنچ کر علامہ شامی اس اہم حقیقت کی طرف بھی توجہ دلاتے ہیں کہ کسی قول یا فعل کو کفر یا گستاخی قرار دینے میں بہت احتیاط سے کام لینا چاہیے اور اگر کسی قول یا فعل کی مناسب تاویل ممکن ہو تو اس کے مرتکب کو کافر یا گستاخ قرار نہیں دیا جاسکتا ۔ اس سلسلے میں انھوں نے جامع الفصولین ، الفتاوی الصغری ، البزازیۃ ، التتارخانیۃ ، البحر الرائق اور خیر الدین الرملی کے فتاوی سے کئی جزئیات نقل کی ہیں ۔ 

ساری بحث کا خلاصہ 

علامہ شامی نے ایک بہترین محقق کا کردار ادا کرتے ہوئے اس ساری بحث کا خلاصہ بھی اس مقام پر پیش کیا ہے ۔ چنانچہ وہ قرار دیتے ہیں کہ فقہاے احناف سے اس گستاخ رسول کے متعلق جو پہلے مسلمان تھا ، تین آرا نقل کی گئی ہیں : 

۱ ۔ پہلی راے وہ ہے جس کی روایت امام ابو حنیفہ سے قاضی عیاض مالکی ، امام ابن تیمیہ حنبلی اور امام سبکی شافعی نے کی ہے کہ اس مجرم کی توبہ اس کی سزاے موت کو ساقط کردے گی خواہ اس نے توبہ گرفتاری سے قبل کی ہو یا بعد میں ۔ امام ابو حنیفہ سے اس راے کی روایت امام طبری نے بھی کی ہے ۔ یہ راے فقہاے احناف کے متقدمین کی مستند کتابوں میں بھی منقول ہے ۔ چنانچہ امام ابو یوسف نے کتاب الخراج میں اس کی تصریح کی ہے اور یہی بات شرح الطحاوی میں بھی منقول ہے ۔ نیز حنفی مسلک کی معتبر متون کے مندرجات سے بھی اسی راے کی تائید ہوتی ہے ۔ 

۲ ۔ دوسری راے بزازیہ میں پیش کی گئی ہے کہ مجرم کی توبہ ، خواہ گرفتاری سے قبل ہو یا بعد میں ، ناقابل قبول ہے اور اس کی سزا توبہ سے ساقط نہیں ہوگی ۔ اس راے کی بنیاد حنفی مسلک کی اپنی روایت پر نہیں بلکہ قاضی عیاض کی الشفا اور امام ابن تیمیہ کی الصارم المسلول کی ان عبارات پر ہے جن میں امام ابو حنیفہ کا مسلک بیان کیا گیا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ ان عبارات کے فہم میں امام بزازی سے تسامح ہوا ہے ۔ یہ راے دراصل مالکی اور حنبلی فقہا کی ہے ۔ بزازی کے بعد اس راے پر اعتماد علامہ خسرو نے الدرر میں ، محقق ابن الھمام نے فتح القدیر میں ، ابن نجیم نے البحر الرائق اور الأشباہ میں ، علامہ تمرتاشی نے التنویر اور المنح میں ، شیخ خیر الدین الرملی نے اپنے فتاوی میں اور بعض دیگر متاخرین فقہا نے اپنی کتب میں کیا ہے ۔ 

۳ ۔ تیسری راے مفتی ابو السعود نے اختیار کی ہے کہ گرفتاری سے قبل اس شخص کی توبہ قابل قبول ہے لیکن گرفتاری کے بعد اس کی توبہ اسے سزاے موت سے نہیں بچا سکتی ۔ 

یہ بات بھی ثابت ہوچکی کہ بزازی اور ان کے متبعین کی راے پر دیگر فقہاے مذہب اس بنا پر مسلسل تنقید کرتے آئے ہیں کہ یہ راے حنفی مسلک کے مطابق نہیں ہے ۔ مفتی ابو السعود کی راے دراصل اس کوشش پر مبنی ہے کہ کسی طرح پہلی دو آرا میں تعارض کو رفع کیا جاسکے لیکن اس کوشش سے تعارض تو کیا رفع ہوتا ، ایک تیسری راے وجود میں آگئی ۔ 

ترجیح کے دس دلائل 

بحث کے آخر میں علامہ شامی بعض مزید دلائل سامنے لاتے ہیں جن کی بنا پر وہ ان تین آرا میں پہلی راے کو ترجیح دیتے ہیں جو براہ راست ائمۂ مذہب سے منقول ہے ۔ جو دس دلائل یہاں علامہ شامی نے دیے ہیں، ان کا خلاصہ یہ ہے : 

۱ ۔ ہم مقلد ہیں اور مقلد پر مجتہد کی راے کی اتباع واجب ہے ۔ 

۲ ۔ اس مسئلے میں امام کے ساتھ ابو یوسف اور محمد دونوں متفق ہیں جبکہ امام کے ساتھ صاحبین میں کسی ایک کی راے بھی موافق ہو تو حنفی مسلک میں اسی راے کی اتباع کی جاتی ہے ۔ 

۳ ۔ متقدمین اور متاخرین کے اختلاف کی صورت میں متقدمین کی راے کی اتباع ضروری ہے ۔ 

۴ ۔ متون اور شروح کے درمیان تعارض کی صورت میں متون کو ترجیح حاصل ہے اور اس مسئلے میں پہلی راے ہی متون کے مطابق ہے ۔ 

۵ ۔ اس جرم کا مرتکب اصلاً مسلمان تھا اور شہادتین کی وجہ سے اس کی جان کو عصمت حاصل تھی ۔ پس جو شخص اس کے خون کی حلت کا دعویدار ہے اس پر لازم ہے کہ اس حلت کے لیے قطعی دلیل لائے ۔ جس مجتہد کی اتباع ہم نے اپنے اوپر لازم قرار دی ہے ان کی راے بھی اس حلت کے خلاف ہے ۔ ہم اپنے طور پر مجتہد بھی نہیں ہیں اور ایسے مجتہد کے مقلد بھی نہیں ہیں جو اس حلت کے قائل ہوں ۔ 

۶ ۔ کسی کو عدالتی کاروائی کے ذریعے مرتد قرار دینا ایک انتہائی حساس نوعیت کا معاملہ ہے۔ اس لئے اس میں حتی الامکان احتیاط کی ضرورت ہے ۔ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ محبت کے تقاضے اپنی جگہ، لیکن اس محبت کا اولین تقاضا ان کی شریعت کی اتباع ہے : 

ان أمر الدم خطر عظیم حتی لو فتح الامام حصناً أو بلدۃً و علم أن فیھا مسلماً لا یحل لہ قتل أحد من أھلھا لاحتمال أن یکون المقتول ھو المسلم ۔ فلو فرضنا ان ھذہ النقول قد تعارضت فالأحوط فی حقنا أن لا نقتلہ لعدم الجزم بأنہ مستحق القتل ، فان الأمر اذا دار بین ترکہ مع استحقاقہ للقتل و بین قتلہ مع عدم استحقاقہ لہ تعین ترکہ لخطر الدماء ۔۔۔ و الأدلۃ فی ذلک متعارضۃ مع احتمالھا للتأویل بلا نص صریح ۔ و لیس لنا أن ننصب بآرائنا حدوداً و زواجر ۔ و انما کلفنا بالعمل بما ظھر أنہ من شرع نبینا صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم ۔ فحیث قال لنا : اقتلوا ، قتلنا ۔ وحیث قال : لا تقتلوا ترکنا ۔ و حیث لم نجد نصا قطعیاً و لا نقلاً عن مجتھدنا مرضیاً ، فعلینا أن نتوقف، ولا نقول ان محبتنا لنبینا صلی اللہ تعالی علیہ و سلم تقتضی أن نقتل من استطال علیہ و ان أسلم، لأن المحبۃ شرطھا الاتباع، لا الابتداع ۔ فاننا نخشی أن یکون صلی اللہ تعالی علیہ وسلم أول من یسألنا عن دمہ یوم القیامۃ ۔ فالواجب علینا الکف عنہ حیث أسلم، و حسابہ علی ربہ، العالم بما فی قلبہ، کما کان صلی اللہ تعالی علیہ و سلم یقبل الاسلام فی الظاھر، ویکل الأمر الی عالم السرائر ۔ 
[کسی کی جان کی حلت کا فیصلہ کرنا ایک سنگین معاملہ ہے ۔ یہاں تک کہ اگر امام کوئی قلعہ یا شہر فتح کرے اور اسے علم ہو کہ وہاں ایک مسلمان ہے تو اس کے لئے جائز نہیں ہے کہ وہ وہاں کے لوگوں میں کسی ایک کو بھی قتل کرے کیونکہ ہر شخص کے متعلق یہ احتمال پایا جاتا ہے کہ شاید وہی مسلمان ہو ۔ پس اگر ہم نے یہ فرض کیا کہ ان نصوص کے درمیان تعارض ہے تو ہمارے حق میں زیادہ محتاط طریقہ یہی ہے کہ اسے سزاے موت نہ دیں کیونکہ اس کا سزاے موت کا مستحق ہونا قعطی نہیں ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب اس کے معاملے میں دو امکانات ہیں کہ یا تو اسے سزاے موت کا مستحق ہونے کے باوجود چھوڑ دیا جائے یا اسے مستحق نہ ہونے کے باوجود سزاے موت دی جائے تو جان لینے کی سنگینی کی وجہ سے اسے چھوڑ دینا لازمی ہوگیا ۔۔۔ اور اس مسئلے میں دلائل کا آپس میں تعارض ہے اور ان میں کوئی نص صریح نہیں ہے بلکہ ہر ایک دلیل تاویل کا احتمال رکھتی ہے اور ہمیں یہ اختیار نہیں حاصل کہ ہم اپنی آراء کی بنیاد پر حدود قائم کریں اور سزائیں دیں ، بلکہ ہماری ذمہ داری یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی شریعت کا جو حکم ہم پر ظاہر ہو جائے تو اس پر عمل کریں ۔ پس اگر شریعت نے ہمیں کہا کہ سزاے موت دو تو ہم دیں گے اور اگر کہا کہ نہ دو تو نہیں دیں گے ، اور جہاں ہمیں کوئی قطعی نص نہ ملے ، نہ ہی ہمیں اپنے مجتہد کی جانب سے مقبول روایت ملے ، تو ہماری ذمہ داری ہوگی کہ ہم رک جائیں ۔ ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ہماری محبت کا تقاضا یہ ہے کہ ان پر زبان دراز کرنے والے کو سزاے موت دیں کیونکہ ان کے ساتھ محبت کی شرط یہ ہے کہ ان کی اتباع کی جائے نہ کہ اپنی جانب سے شریعت میں حکم کا اضافہ کیا جائے ، کیونکہ ہم ڈرتے ہیں کہ کہیں قیامت کے دن اس کے خون کے متعلق سب سے پہلے رسول اللہ ﷺ ہی ہم سے نہ پوچھ لیں ! پس ہم پر واجب ہے کہ جب اس نے اسلام قبول کرلیا تو ہم اسے سزاے موت دینے سے باز رہیں اور اس کے ساتھ حساب کا معاملہ اس کے رب پر چھوڑ دیں جو اس کے دل کی اندرونی کیفیت سے باخبر ہے ، جیسے رسول اللہ ﷺ لوگوں کے ظاہری اسلام کو قبول فرماتے تھے اور ان کے دلوں کا معاملہ رازوں سے باخبر ذات پر چھوڑ دیتے تھے ۔ ] 

۷ ۔ اگر ہمارا مسلک یہ ہو کہ اس مجرم کو توبہ کے باوجود بہر صورت سزا دینی ہے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ہمارے نزدیک سزاے موت کی علت خاص گستاخی کا فعل ہے، نہ کہ یہ امر کہ مسلمان گستاخی کے ارتکاب کی وجہ سے مرتد ہوجاتا ہے ۔ اگر ایسا ہو تو پھر ہر گستاخ کو گستاخی کے فعل کی وجہ سے لازماً سزاے موت دی جائے گی ، خواہ وہ مسلمان ہو یا غیرمسلم ۔ تاہم یہ بات ہمارے مسلک کے اس صریح فیصلے کے خلاف ہوگی جس کی تصریح متون میں کی گئی ہے کہ گستاخی کے ارتکاب کی وجہ سے ذمی کا عقد نہیں ٹوٹتا ، اگرچہ حکمران بعض حالات میں اس کے فساد کے خاتمے کے لیے بطور سیاسہ اسے سزاے موت دے سکتا ہے ۔ 

۸ ۔ اگر خون کی حلت و حرمت کے متعلق دلائل میں تعارض ہو تو احناف کے ہاں ترجیح حرمت کی دلیل کو حاصل ہوگی ۔

۹ ۔ شبھۃ کی موجودگی میں حد ساقط ہوتی ہے ، جیسا کہ فقہ کا مسلمہ قاعدہ ہے ۔ 

۱۰ ۔ ابن ابی سرح کے واقعے سے بھی یہی حقیقت ثابت ہوتی ہے جنھوں نے ارتداد کا ارتکاب بھی کیا اور شان رسالت میں گستاخی بھی کی لیکن فتح مکہ کے موقع پر جب سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ ان کو دربار رسالت میں لے آئے تو آپ نے بالآخر اس کی جانب سے توبہ اور اسلام کو دوبارہ قبول کرنے کا فعل قبول کرلیا ۔ اگر یہ حد کا معاملہ ہوتا جس میں معافی نہیں ہوتی ، نہ ہی رحم کی درخواست کی جاسکتی ہے تو رسول اللہ ﷺ کبھی ان کی بیعت قبول نہ کرتے ۔ یہ تاویل بھی صحیح نہیں ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس آنے سے قبل ہی اس نے اسلام قبول کیا تھا کیونکہ جیسا کہ امام سبکی نے تصریح کی ہے یہ روایت اہل سیر کے ہاں غیر مقبول ہے ۔ ایک روایت میں مذکور ہے کہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺ سے کہا کہ ابن ابی سرح آپ کا سامنا کرنے سے ہچکچاتے ہیں ۔ آپ نے فرمایا کیا میں نے اس کی بیعت قبول نہیں کی اور اسے امان نہیں دیا؟ انھوں نے جواب دیا : کیوں نہیں لیکن وہ اسلام سے قبل اپنے گناہوں کو یاد کرکے پچھتاتے ہیں ۔ آپ نے فرمایا : اسلام اپنے سے پہلے کے گناہوں کو دھو دیتا ہے ۔ اسے معلوم ہوا کہ نہ صرف سزاے موت بلکہ گناہ بھی قبولیت اسلام کی وجہ سے دھل جاتا ہے ۔ نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ یہ سزا حق اللہ ہے ، نہ کہ حق العبد ، کیونکہ حق العبد ہونے کی صورت میں یہ سزا قبولیت اسلام پر ساقط نہ ہوتی ۔ 

کیا مجرم کو معاف کرنا رسول اللہ ﷺ کا ذاتی حق تھا ؟ 

بعض لوگوں کا استدلال یہ ہے کہ کسی مجرم کو معاف کرنا یا نہ کرنا رسول اللہ ﷺ کا ذاتی حق تھا ، اس لیے آپ کی رحلت کے بعد کسی کے پاس یہ اختیار نہیں کہ مجرم کو معاف کردے ، پس توبہ سے صرف گناہ ہی معاف ہوسکتا ہے ، دنیوی سزا ساقط نہیں ہوسکتی ۔ اس سلسلے میں ایک حدیث کا حوالہ بھی بالعموم دیا جاتا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ جس نے کسی پیغمبر کی شان میں گستاخی کی تو اسے سزاے موت دو۔ 

علامہ شامی اس سلسلے میں فرماتے ہیں کہ روایات میں مجرم کے لیے عفو کا لفظ استعمال ہوا ہے جو اصطلاح شریعت میں گناہ کی معافی کے لیے نہیں بلکہ سزا کی معافی کے لیے رائج ہے ۔ نیز یہ بھی مسلّم ہے کہ رسول اللہ ﷺ انتہائی کریم تھے ، اپنی امت کی غلطیوں کے معاف کرنے میں نہایت رحم دل تھے اور ذاتی حق کے معاملے میں درگزر سے کام لیتے تھے، البتہ جہاں اللہ تعالیٰ کی حدود کی پامالی ہوتی تو آپ وہاں سختی سے کام لیتے تھے ۔ جہاں تک مذکورہ حدیث کا تعلق ہے تو اس کی تاویل وہی ہے جو اسی نوعیت کی دوسری حدیث کی ہے : جس نے اپنا دین تبدیل کیا اسے سزاے موت دو ، یعنی اگر وہ توبہ نہ کرے ۔ یہی کچھ یہاں بھی کہا جائے گا کہ جس نے کسی پیغمبر کی شان میں گستاخی کی اسے سزاے موت دو اگر وہ توبہ نہ کرے ۔ 

مزید برآں اس سزا کی علت خاص گستاخی کا فعل نہیں ہے بلکہ یہ امر ہے کہ گستاخی کی وجہ سے یہ شخص مرتد ہوجاتا ہے اور مرتد کی سزا موت ہے ۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو پھر گستاخ کے ذمی ہونے کی صورت میں بھی اسے لازماً یہ سزا دی جاتی حالانکہ مسلمہ طور پر ہمارا مسلک یہ نہیں ہے ۔ اگر گستاخی کو علت قرار دیا جائے تب بھی یہی کہا جائے گا کہ گستاخی سزاے موت کی علت اس وجہ سے ہے کہ گستاخی کا یہ فعل کفر و ارتداد کا موجب ہے۔ اگر کوئی یہ کہے کہ گستاخی بذات خود علت ہے خواہ وہ کفر و ارتداد کی موجب نہ ہو تو کیا وہ کسی ایسی صورت کا تصور کرسکتا ہے جس میں گستاخی تو ہو لیکن وہ گستاخی کفر و ارتداد کی موجب نہ ہو ؟ 

علامہ شامی یہاں پہنچ کر فریق مخالف کے دیگر دلائل کے بھی تفصیلی جواب دیے ہیں ۔ 

کعب بن الاشرف وغیرہ کی سزاے موت سے زیرنظر مسئلے میں استدلال باطل ہے ۔ چنانچہ فرماتے ہیں کہ کعب بن الاشرف ، ابو رافع ، ابن خطل اور اس نوعیت کے دیگر مجرموں کو یقیناًرسول اللہ ﷺ نے سزاے موت سنائی لیکن ان میں کسی بھی سزا سے مسئلۂ زیر بحث پر کوئی اثر نہیں پڑتا جب تک کہ یہ ثابت نہ کیا جائے کہ ان میں سے کوئی مسلمان ہوا تھا اور اس کے باوجود رسول للہ ﷺ نے اس کی سزاے موت برقرار رکھی ۔ ابن ابی سرح کے واقعے سے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ اسلام قبول کرنے کے بعد سزا ساقط ہوجاتی ہے۔ 

جہاں تک مجرم کی سزاے موت پر اجماع کے دعوے کا تعلق ہے تو علامہ شامی نے واضح کیا ہے کہ یہ اجماع اس صورت میں ہے جب مجرم نے توبہ نہ کی ہو کیونکہ توبہ کی صورت میں سزاے موت کے وجوب و عدم وجوب پر فقہا کا اختلاف ایک مسلمہ حقیقت ہے ۔ 

اسی طرح علامہ شامی فرماتے ہیں کہ یہ موقف صحیح نہیں ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے ذاتی حق کا معاف کرنا بعد کے لوگوں کے اختیار میں نہیں ہے کیونکہ جب رسول اللہ ﷺ نے یہ فرمایا کہ اسلام قبول کرنے سے پچھلے جرائم معاف ہوجاتے ہیں تو گویا آپ نے تصریح کی کہ جس نے اسلام قبول کیا اسے میں نے معاف کردیا ۔ اس بات کی تائید اس روایت سے بھی ہوتی ہے جسے امام سبکی نے نقل کیا کہ ہبار بن الاسود بن عبد المطلب کی سزاے موت کا رسول اللہ ﷺ نے حکم جاری کیا تھا لیکن انھوں نے آپ کے سامنے آکر اسلام کی قبولیت کا اعلان کیا اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ میں نے تمھیں معاف کردیا اور اسلام پچھلے جرائم کو دھو دیتا ہے ۔ پس اگر گستاخی کو رسول اللہ ﷺ کے ذاتی حق پر عدوان سمجھا جائے تب بھی رسول اللہ ﷺ نے گویا اعلان عام فرمایا ہے کہ اگر کسی نے اسلام قبول کیا تو میں نے اسے معاف کردیا ۔ یہی وجہ ہے کہ کوئی ایک واقعہ بھی ایسا نہیں پیش کیا جاسکتا جب کسی شخص نے گستاخی کے بعد اسلام قبول کیا ہو اور پھر بھی اسے سزاے موت دی گئی ہو ۔ 

علامہ شامی مزید فرماتے ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ نے اسلام قبول کرنے کی شرط پر اپنا حق معاف کردیا ہے تو آپ کا خلیفہ آپ کا حق نافذ کرنے کا مجاز نہیں رہا ۔ نیز اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنا حق معاف نہیں فرمایا تب بھی خلیفہ صرف اسی صورت میں آپ کا حق نافذ کرسکتا ہے جب یہ ثابت کیا جائے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنا حق نافذ کرنے کا اختیار خلیفہ کو دیا ہے ۔ 

اسلام پچھلے جرائم کو مٹا دیتا ہے 

علامہ شامی کا اٹھایا گیا یہ نکتہ بھی قابل غور ہے کہ اگر اس سزاے موت کی بنیاد مصلحت عامہ ہوتی تو رسول اللہ ﷺ اسے کبھی معاف نہ کرتے اور اگر اس کی بنیاد یہ امر ہوتا کہ اللہ کے رسول کی شان میں گستاخی کرکے اور دین کی توہین کرکے مجرم نے حق اللہ کی پامالی کی ہے تو اسلام قبول کرکے وہ اس جرم کو مٹا دیتا ہے ۔ یہاں علامہ شامی قرآن کریم کی بعض ان آیات سے استدلال کرتے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ مرتد کی توبہ مقبول ہے ۔ بناے استدلال یہ امر ہے کہ یہ حکم تمام مرتدین کے لیے ہے جن میں گستاخ رسول بھی شامل ہے ۔ اسی طرح وہ اس حدیث سے استدلال کرتے ہیں جس میں فرمایا گیا ہے کہ مسلمان کا خون صرف تین میں سے کسی ایک امر کی بنیاد پر حلال ہوتا ہے : زانی محصن ، نفس بالنفس اور مرتد ۔ وجہ استدلال یہ ہے کہ گستاخی کا مجرم جب اسلام قبول کرلیتا ہے تو وہ ان تین اصناف میں سے کسی صنف میں بھی شمار نہیں کیا جاسکتا ۔ علامہ شامی یہ نکتہ بھی اٹھاتے ہیں کہ جب اللہ کی شان میں گستاخی کرنے والے کی سزاے موت توبہ اور قبول اسلام سے ساقط ہوسکتی ہے تو یہی حکم رسول اللہ ﷺ کی شان میں گستاخی کرنے والے کے لیے بھی ہے کیونکہ دونوں جرم ایک ہی نوعیت کے ہیں ۔ 

لوگوں کے دلوں میں جھانکنا ہماری ذمہ داری نہیں 

علامہ شامی مزید فرماتے ہیں کہ یہ بات بھی غلط ہے کہ گستاخی کا ارتکاب کرکے مجرم قطعاً اپنا خبث باطن آشکارا کردیتا ہے کیونکہ جب وہ توبہ کرکے اسلام قبول کرلیتا ہے تو وہ اس بات کی نفی کردیتا ہے ۔ یہاں وہ ان آیات او ر احادیث سے استدلال کرتے ہیں جن میں یہ اصول طے کیا گیا ہے کہ لوگوں کے ظاہری اسلام کو قبول کرنا چاہیے اور ان کے دل کے عقیدے کا فیصلہ اللہ پر چھوڑنا چاہیے ۔ یہی طرز عمل رسول اللہ ﷺ نے منافقین کے معاملے میں اختیار کیا تھا ۔ 

آخر میں علامہ شامی نہایت عجز و انکساری کے ساتھ قرار دیتے ہیں کہ ان کی اس تحقیق سے شاید ان کا دعوی قطعی طور پر ثابت نہیں ہوتا لیکن اس سے کم از کم شبھۃ تو پیدا ہوجاتا ہے جس کی موجودگی میں کسی ایسے شخص کے لیے ، جو اپنے دین اور عزت کے بارے میں حساس ہو ، یہ جائز نہیں کہ وہ قطعیت کے ساتھ ایسے مجرم کی توبہ کی عدم قبولیت اور اس کی سزاے موت کے عدم سقوط کی بات کرے۔ 

فصل سوم : ذمی کی جانب سے گستاخی کا ارتکاب 

مسلمان ، جو گستاخی کے نتیجے میں مرتد ہوجائے ، کے مسئلے کے تفصیلی تجزیے کے بعد علامہ شامی فصل سوم میں ذمی کی جانب اس جرم کے ارتکاب کے قانونی اثرات پر بحث کرتے ہیں ۔ 

ذمی کے متعلق امام ابو حنیفہ کا مسلک 

اس فصل کی ابتدا میں علامہ شامی نے امام سبکی ، قاضی عیاض اور امام ابن تیمیہ کے طویل اقتباسات پیش کیے ہیں جن میں امام ابو حنیفہ کے متعلق صراحت کی گئی ہے کہ وہ ذمی کے لیے تعزیری سزا کے قائل تھے اور سزاے موت کو اس کے لیے حد نہیں سمجھتے تھے کیونکہ ان کا موقف یہ تھا کہ جب ان کے شرک کے باوجود ان کے ساتھ عقد ذمہ کیا گیا تو اس کفر میں اضافے پر یہ عقد ٹوٹ نہیں سکتا لیکن فساد کے ارتکاب کی وجہ سے اسے مناسب سزا دی جاسکتی ہے ۔ اس کے بعد انھوں نے قرار دیا ہے کہ حنفی مسلک کی متون میں اسی بات کی تصریح کی گئی ہے جس کی روایت دیگر مسالک سے تعلق رکھنے والے یہ تین بڑے ائمہ کررہے ہیں ۔ 

بعض فقہاے احناف کی اختلافی راے 

البتہ علامہ عینی نے امام شافعی کی راے کو اختیار کیا ہے کہ گستاخی سے ذمی کا عقد ٹوٹ جاتا ہے ۔ اسی طرح محقق ابن الہمام نے قرار دیا ہے کہ اگر ذمی ایسی بات کا کھلے عام اظہار کرے جو گستاخی کے زمرے میں آتی ہو اور وہ ان کے عقائد کا حصہ بھی نہ ہو تو اس پر اس کا عقد ٹوٹ جاتا ہے اور اگر وہ اس بات کا کھلے عام اظہار نہ کرے، لیکن کسی طرح اس کی بات کی سن گن ملے تو اس پر عقد نہیں ٹوٹتا ۔ تاہم ابن الھمام کا یہ موقف حنفی مسلک کے صریح خلاف ہے اور اس وجہ سے ان کے شاگرد علامہ قاسم نے اپنے شیخ کی اس راے کی اتباع سے منع کیا ہے ۔ ابن نجیم نے بھی اس راے پر کڑی تنقید کی ہے ۔ اسی طرح ابن نجیم نے علامہ عینی کی بات کو بھی رد کیا ہے کیونکہ اس کے حق میں ائمۂ مذہب سے کوئی روایت موجود نہیں ہے۔ علامہ خیر الدین الرملی نے دفاع کی کوشش اس طرح کی ہے کہ عدم نقض سے سزاے موت کا عدم لازم نہیں آتا ۔ انھوں نے ابن السبکی کے حوالے سے یہ بھی قرار دیا ہے کہ امام شافعی کا مسلک بھی اصلاً یہی ہے کہ گستاخی سے ذمی کا عقد نہیں ٹوٹتا لیکن اسے سزاے موت دی جاسکے گی ۔ 

اگر ذمی گستاخی کو عادت بنالے 

اس کے بعد علامہ شامی نے مختلف کتب فقہ سے بہت ساری عبارات پیش کی ہیں جن کا مقتضا یہ ہے کہ ذمی اگر گستاخی کو عادت بنالے ، یا سرکشی کے ساتھ اس جرم کا ارتکاب کرے تو حنفی مسلک کے مطابق ایسے شخص کے فساد کے خاتمے کے لیے اسے بطور سیاسہ سزاے موت دی جاسکتی ہے ۔ 

عقد ذمہ نہ ٹوٹنے کے قانونی نتائج 

علامہ شامی نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ عقد ذمہ نہ ٹوٹنے سے کیا فرق پڑتا ہے جبکہ اسے اس کے باوجود سزاے موت دی جاسکتی ہے ؟ انھوں نے دکھایا ہے کہ اگر اس کا عقد ٹوٹنے کی بات مانی جائے تو اس سے لازم آتا ہے کہ اسے دیگر حربیوں کی طرح غلام بنایا جاسکے گا اور اس کا مال مسلمانوں کے لیے فے کی حیثیت رکھے گا ۔ گویا جب حنفی فقہا یہ کہتے ہیں کہ اس کا ذمہ نہیں ٹوٹتا لیکن اسے سزا دی جاسکے گی تو ان کی مراد یہ ہوتی ہے کہ اسے حقوق شہریت حاصل رہیں گے اور ان کے بموجب اسے اور اس کے اموال کو دیگر امور سے قانونی تحفظ حاصل رہے گا، لیکن اس مخصوص جرم کے ارتکاب کی وجہ سے اسے اس جرم کی سزا دی جاسکے گی ۔ 

کیا ایسے مجرم کو سزاے موت نہیں دی جاسکے گی؟ 

بعض حنفی کتب میں قرار دیا گیا ہے کہ اس جرم کے بار بار ارتکاب پر بھی ذمی کو سزاے موت نہیں دی جائے گی ۔ علامہ شامی نے اس بات کا یہ جواب دیا ہے کہ اس سے مراد یا تو یہ ہے کہ وہ اس جرم کا اظہار کھلے عام نہ کرتے ہوں ، گویا فساد نہ پھیلا رہے ہوں ، یا مراد یہ ہے کہ انھیں بطور حد سزاے موت نہیں دی جائے گی ، گویا سیاسۃً سزاے موت کی نفی اس سے نہیں ہوتی ۔ یہاں انھوں نے الملتقی سے یہ جزئیہ نقل کیا ہے کہ کوڑوں کی سزا کو رجم کی سزا کے ساتھ یا جلاوطنی کی سزا کے ساتھ اکٹھا نہیں کیا جائے گا ، الا یہ کہ فساد کے خاتمے کے لیے حکمران ان دو طرح کی سزاوں کو اکٹھا کرنے میں ہی مصلحت سمجھے ۔ نیز فقہا نے یہ بھی قرار دیا ہے کہ سیاسہ پر مبنی حکم جاری کرنا حکمران کا اختیار ہے نہ کہ قاضی کا ۔ اس لیے جب وہ کہتے ہیں کہ ایسے مجرم کو سزاے موت نہیں دی جائے گی تو مراد یہ ہوتی ہے کہ قاضی اسے سزاے موت نہیں دے سکے گا ، الا یہ کہ حکمران اسے سیاسۃً ( یعنی فساد کے خاتمے کے لیے ) سزاے موت دینے کا فیصلہ کرلے۔ 

وآخر دعوانا أن الحمد للہ رب العالمین۔

مکاتب فکر

(جون ۲۰۱۱ء)

جون ۲۰۱۱ء

جلد ۲۲ ۔ شمارہ ۶

تلاش

Flag Counter