مسلسل ڈرون حملوں نے تو اسلامی جمہوریہ پاکستان کی قومی خود مختاری پر پہلے ہی سوالیہ نشان لگا رکھا تھا، مگر شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ کے حوالہ سے ’’ایبٹ آباد آپریشن‘‘ نے اس سوال کے سوالیہ پہلو کو اور زیادہ تاریک کر دیا ہے اور پوری قوم وطن عزیز کی خود مختاری کی اس شرم ناک پامالی پر چیخ اٹھی ہے۔ پوری قوم مضطرب ہے، بے چین ہے اور ایک ’’اتحادی‘‘ کی اس حرکت پر تلملا رہی ہے، مگر حکومتی پالیسیوں کے تسلسل میں کوئی فرق دیکھنے میں نہیں آ رہا اور وہ پالیسیاں جن کو ملک کے عوام نے گزشتہ الیکشن میں کھلے بندوں اپنے ووٹوں کے ذریعے مسترد کر دیا تھا او رمنتخب پارلیمنٹ نے بھی متفقہ قرارداد کی صورت میں ان پالیسیوں سے بے زاری کا اظہار کر دیا تھا، پرویز مشرف کے وہ معاہدات اورپالیسیاں آج بھی نہ صرف جاری ہیں بلکہ ان پر عمل درآمد کی شدت میں اضافہ ہو رہا ہے۔
قوم کے اضطراب اور غصے کو پارلیمنٹ کی ایک اور ’’متفقہ قرارداد‘‘ کے ذریعے کم کرنے کی کوشش کی گئی ہے مگر اس قرارداد کا مستقبل بھی سابقہ قرارداد سے مختلف دکھائی نہیں دے رہا۔ اصل بات قراردادوں اور اخباری بیانات کی نہیں، بلکہ پالیسیوں اور خفیہ معاہدات کی ہے۔ جب تک ان پر نظر ثانی نہیں ہوتی اور قومی مفادات اور عوامی جذبات کے مطابق ان سے ’’یوٹرن‘‘ لینے کی کوئی سبیل سامنے نہیں آتی، تب تک ان قرادادوں اور اخباری بیانات کی کوئی حیثیت نہیں ہے بلکہ اب تو یہ بیانات اور قراردادیں قوم کے ساتھ مذاق کی صورت اختیار کرتے جا رہے ہیں۔
شیخ اسامہ بن لادن تو شہید ہو گئے ہیں اور اللہ تعالیٰ ان کے درجات جنت الفردوس میں بلند فرمائے کہ وہ شہادت ہی کی تمنا رکھتے تھے، مگر ان کے ساتھ ہماری قومی خود مختاری بھی شہید ہو گئی ہے۔ یہ بات ہماری قومی سطح کی سیاسی ودینی قیادت کے لیے لمحہ فکریہ ہے بلکہ نشان عبرت ہے۔
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ:
وَلَا تَکُونُوا کَالَّذِیْنَ نَسُوا اللَّہَ فَأَنسَاہُمْ أَنفُسَہُمْ (الممتحنہ: ۱۹)
’’ان لوگوں کی طرح نہ ہو جانا جنھوں نے اللہ تعالیٰ کو بھلا دیا تو اللہ تعالیٰ نے انھیں اپنے آپ سے غافل کر دیا۔‘‘
قوموں کا اپنے نفع ونقصان سے غافل ہو جانا اور قومی قیادتوں کا ملی جذبات ومفادات سے بے پروا ہو جانا ’’عذاب خداوندی‘‘ ہوتا ہے۔ آج ہماری حالت بتاتی ہے کہ ہم اسی دور سے گزر رہے ہیں۔ اس کا تقاضا ہے کہ ہم اپنی اللہ تعالیٰ کو بھول جانے کی حالت کا ادراک کریں، اپنے رویوں پر نظر ثانی کریں، انفرادی اور اجتماعی معاملات میں اپنے خالق ومالک کو یاد کرنے کا ذوق زندہ کریں اور بارگاہ ایزدی میں توبہ واستغفار کا اہتمام کریں تاکہ ’’خود سے غافل ہو جانے‘‘ کے اس قومی عذاب سے نجات حاصل کر سکیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو ہر سطح پر اس کا احساس وادراک اور اصلاح احوال کی توفیق سے نوازیں۔ آمین یا رب العالمین