اسلامی کیلنڈر کا نواں مہینہ جس کی فضیلتوں اور برکتوں کا شمار ممکن نہیں، واحد وہ مہینہ ہے جس کا ذکر قرآن مجیدمیں آتا ہے اور دو مناسبتوں سے آیا ہے۔ اول یہ کہ یہی وہ ماہ مقدس ہے جس میں نزول قرآن کا آغاز ہو ایا قرآن لوحِ محفوظ سے آسمان دنیا پر نازل کیا گیا اور پھر حکمتِ الٰہی اور ضرورتِ بشری اور حکمتِ خداوندی سے ۲۲؍سال اور ۷؍ ماہ اور ۱۴؍دن کے عرصے میں نجماًنجماً، آیۃً آیۃً، سورۃً سورۃً، نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر اترتا رہا۔
شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِیَ أُنزِلَ فِیْہِ الْقُرْآنُ (البقرۃ۲:۱۸۵)
’’رمضان وہ مبارک مہینہ ہے جس میں قرآن اتارا گیا۔‘‘
دوسری مناسبت یہ ہے کہ اسی مہینے میں روزوں کی فرضیت کے احکامات نازل ہوئے۔
مَن شَہِدَ مِنکُمُ الشَّہْرَ فَلْیَصُمْہُ (البقرۃ ۲: ۱۸۵)
’’تم میں سے جواس مہینہ میں موجود ہو وہ اس کے روزے رکھے ۔‘‘
یوں ایک طرف یہ جشن نزول قرآن کا مہینہ ہے تودوسری طرف ماہ صیام ہے۔
لغوی طورپر رمضان ’’رمض‘‘ سے مشتق ہے جس کے معنی سخت گرمی اورتپش کے ہیں۔ اہلِ لغت نے اس لفظ کی اشتقاقی حیثیت پر بحث کرتے ہوئے دو ممکنہ وجوہ بتائی ہیں:
۱۔جب ابتدامیں مہینوں کے وضع کیے گئے تویہ مہینہ سخت گرمی کے موسم میں آیا ہوگا۔
۲۔ روزہ دار روزوں کی وجہ سے بھوک اور پیاس کی حدت وشدت کا احساس رکھتاہے، اس لیے اسے رمضان کانام دیا گیا۔
رمضان المبارک میں روزوں کی فرضیت مکی زندگی میں نہیں ہوئی بلکہ ۲ ؍ہجری میں پہلی مرتبہ اہلِ اسلام پر روزے فرض کیے گئے اور صرف اسی ماہ کے روزے فرض کیے گئے ۔ یوں سفر ہجرت کے کم وبیش ڈیڑھ سال بعد روزے فرض ہوئے۔ یوں کلمہ طیبہ اورنماز کے بعد تیسرا رکن اسلام (روزہ) اس خصوصی مہینے سے گہری وابستگی رکھتا ہے اور تزکیہ نفس کے ساتھ ساتھ دین سے گہری محبت اور شیفتگی کا درس دیتا ہے۔
عظمتوں والے اس ماہ مبارک کی فضیلتیں قرآ ن وحدیث میں پوری شرح و بسط سے دی گئی ہیں۔ آج کی نشست میں ہم سرکار رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک خطبہ پیش کرتے ہیں۔یہ وہ خطبہ ہے جو آپ نے شعبان ۲ھ کے آخری دن ارشاد فرمایا۔ اس ایک خطبے سے رمضان المبارک کی فضیلت، اہمیت اور افادیت کھل کر سامنے آ جاتی ہے۔ اس خطبے کے راوی حضرت سلمان فارسیؓ فرماتے ہیں کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شعبان ۲ھ کے آخری دن ہم سے یہ خطاب فرمایا:
’’اے لوگو! ایک عظیم مہینہ، ایک مبارک مہینہ تم پر سایہ فگن ہے۔ یہ ایک ایسا مہینہ ہے جس میں ایک ایسی رات ہے جو ہزار مہینوں سے زیادہ خیروبرکت والی ہے۔ اللہ نے اس کے دنوں میں روزہ رکھنا فرض قرار دے دیا اور اس کی راتوں میں قیام سنت قرار دیا ہے۔ جو شخص اس ماہ مبارک میں ایک نیکی کرے، وہ ایساہے جیسے اس نے دوسرے مہینوں میں ایک فرض ادا کیا اور جو اس میں ایک فرض ادا کرے، وہ ایساہے جیسے اس نے دوسرے مہینوں میں ستر فرض ادا کیے۔ یہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا ثوا ب جنت ہے۔ یہ ہمدردی کرنے کا مہینہ ہے اور ایسا مہینہ ہے جس میں مومن کے رزق میں اضافہ کر دیا جاتا ہے۔ جس شخص نے کسی روزہ دار کا روزہ افطار کروایا، اس کے گناہ معاف کر دیے جائیں گے اور اسے آتشِ جہنم سے آزاد کر دیا جائے گا۔ اسے بھی روزہ دار جتنا ہی ثواب ملے گا، درآں حالیکہ روزہ دار کے اجر میں بھی کوئی کمی نہ آئے گی۔
ہم نے عرض کیا۔اے اللہ کے رسول! (صلی اللہ علیہ وسلم) ہم میں سے ہر کوئی اس پوزیشن میں نہیں کہ وہ کسی روزہ دار کا روزہ افطار کرا دے۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ ثوا ب اللہ تعالیٰ پانی ملے ہوئے دودھ یا پانی کے گھونٹ پر بھی مرتب فرما دے گا۔ جو روزہ دار کو پیٹ بھر کرکھلا دے، اسے اللہ میرے حوض سے پانی پلائے گا جس کے بعد اسے تشنگی محسوس نہ ہو گی تاآنکہ وہ جنت میں داخل ہو جائے گا۔
یہ وہ مہینہ ہے جس کا عشرہ اول رحمت ہی رحمت ہے، جس کا درمیانی عشرہ بخشش ہی بخشش ہے اور جس کا آخری عشرہ آگ سے آزادی ہے۔ جس شخص نے اپنے غلام یا خادم یا ملازم کی ذمہ داریاں اس مہینہ میں کم کر دیں، اللہ تعالیٰ اس کی بخشش فرما دے گا اور اسے آتشِ دوز خ سے آزاد فرما دے گا۔‘‘ (کنزالعمال ، رقم حدیث: ۲۳۷۰۹)
سرکارِ رسالت پنا ہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث جس میں آ پ کا یہ خطاب نقل کیا گیا ہے، رمضان المبارک کی مبارک ساعتوں میں خیر و برکت کے خزانوں اور حسنات و فضائل کے گنج ہاے گراں مایہ کی نشاندہی کرتی ہے۔ اس حدیث میں اس مہینہ کی چار اہم صفات کا تذکرہ ہے:
۱۔شہر عظیم: عظمتوں والا مہینہ۔
۲۔ شہر مبارک: برکتوں والا مہینہ ۔
۳۔شہرصبر : ہمت و استقلال سے نیکیوں پر اور جرات و حوصلے سے گناہوں کے خلاف ڈٹے رہنے کا مہینہ۔
۴۔شہرمواساۃ: ایسا مہینہ جس میں لازم آتا ہے کہ ہم اپنے ابنائے جنس کے ساتھ زیادہ سے زیادہ ہمدردی، غم گساری اور دل سوزی کے ساتھ پیش آئیں۔
خطاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے سامنے ہے ۔ ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ ہم کس حد تک اس پر عمل پیرا ہیں۔ اگراس آئینے میں دیکھ کر اپنے اندر کوتاہیاں پاتے ہیں تو ان کے ازالے کا ہم نے کیا سوچا ہے؟ یہ ایک سوال ہے جس کا جواب ہر مسلمان کے ذمے ہے۔
ماہ صیام کے ہدایا و عطایا
رمضان المبارک اپنی تمام ترجلوہ سامانیوں اور ضیاپاشیوں کے ساتھ جب پورے عالم اسلام کو بقعہ نور بنا دیتا ہے تو اس کے جلو میں ان برکتوں، رحمتوں اور فضیلتوں کا ظہور بھی ہوتا ہے جن سے سال بھر کے دوسرے مہینے خالی ہیں۔ یوں کہنا چاہیے، رمضان ایک ابرنو بہار ہے جس سے ایمان کی کھیتیاں لہلہاتی ہیں، حسنِ عمل کے نہال پروان چڑھتے اور رحمت و بخشش کے اثمار شیریں جھولیوں میں آن گرتے ہیں۔ اس ماہ مقدس میں خیر کے خزانے لٹتے اور نیکیوں کے بھنڈار بٹتے ہیں۔ رحمتیں محض بہانے تلاش کرتی ہیں۔ کبھی رحمت عالمِ انسانیت کو محیط ہوتی ہے تو کبھی گناہوں کی تپتی دھوپ میں مغفرت کے سائبان تن دیے جاتے ہیں اور کبھی گرفتار بلا کو نارِجہنم سے آزادی کے پروانے عطا کیے جاتے ہیں۔ اولہ رحمۃ، اوسطہ مغفرۃ و آخرہ عتق من النار۔ (کنزالعمال ، رقم حدیث: ۲۳۷۰۹)
حالت صیام ہو یا حالت قیام، ہر دو کو اس زور سے تبشیری سانچے میں ڈھال دیا گیا ہے کہ گزشتہ گناہوں کے دھل جانے کی نوید جانفزا دلوں کو سکون کی نعمت سے مالا مال کرتی ہے۔ نبوت کی ز بان فیض ترجمان ہے ، اعلا ن ہوتا ہے:
من صام رمضان ایماناً واحتساباً غفر لہ ما تقدم من ذنبہ، ومن قام رمضان ایماناً واحتساباً غفر لہ ما تقدم من ذنبہ (الجامع الصحیح للبخاری، رقم حدیث: ۱۷۶۸)
اس ماہ کے خصوصی ہدایا کو نگاہ میں رکھیے اور پھر اس کی عظمتوں کا اندازہ لگائیے کہ اس کی ایک ایک آن کس ندرت آمیز شرف کی آئینہ دار ہے۔
سب سے پہلا ہدیہ خود روزہ ہے۔ باقی مہینوں میں آپ روزے رکھیں تو محض نفلی عبادت ہو گی جس کی استحبابی قدر و قیمت تواپنی جگہ ہے مگر یہ عبادت ادائے فرض کے مرتبے کو نہیں پہنچ سکتی۔ رمضان اپنے ساتھ روزہ لاتا ہے اور روزہ جن جسمانی، طبعی، طبی، نفسیاتی، روحانی، معاشرتی فوائد و مصالح کو متضمن ہے، اسے لفظوں کے شکستہ پیمانوں سے ناپاہی نہیں جا سکتا۔ لفظ کیسے ہی خوبصورت کیوں نہ ہو ں، روزے کی افادیت اور جزا کی وسعتوں کو نہیں پا سکتے۔ وجہ یہ ہے کہ باقی عبادات میں ریاکاری اور نمود و نمائش کے سو پہلوؤں کا امکان ہے۔ محض روزہ ایک ایسی عبادت ہے جس میں ریاکاری کو ذرہ برا بر دخل نہیں تا آنکہ خود روزہ دار ہی نمود روزہ پر مصرنہ ہو۔ اس عبادت کا یہی اخلاصی پہلو ہے جس کے لیے حدیث قدسی میں فرمایا گیا: الصیام لی و انا اجزی بہ (الجامع الصحیح للبخاری، رقم حدیث: ۱۷۶۱) ’’روزہ میرے لیے ہے اور میں خود اس کی جزا دیتا ہوں‘‘۔ اگرچہ جزا تو سبھی اعمال کی وہی دیتا ہے اور کوئی نہیں دے سکتا، مگر اپنی طرف یہ انتسابِ جزا روزہ کے دوسرے اعمال پر شرف و تخصص کا اظہار کرتا ہے۔
دوسرا تحفہ جو رمضان اپنے ساتھ لایا، وہ، وہ ضابطہ حیات ہے جس نے پوری کائنات میں ہلچل مچا دی۔ فرسودہ زندگی کے اندر سے ایک تازہ تر اور شادا ب تر زندگی نمودار ہوئی۔ دقیانوسی اور رسم و رواج کے مارے ہوئے آدمی کے اندر سے ایک پر عزم اور بالیدہ روح انسان برآمد ہوا جس نے چار دانگ عالم میں فکر ونظر اور علم و عمل کا ایک انقلاب تازہ پیدا کر دیا۔ یہ وہ نوشتہ دانش و بینش ہے اور وہ کتاب ہدایت ہے جس نے آتے ہی پوری نسل انسان کو یہ چیلنج کر دیا کہ اس جیسے کم از کم تین جملے ہی گھر لاؤ مگر اپنی فصاحت و بلاغت اور قدرت زبان و بیان کی جملہ توانائیوں کے باوجود نہ کوئی اس دور میں اس کی نظیر ومثال پیش کر سکا، نہ ہی آج تک اس تحدی کا جواب پیش کیا جا سکا ہے۔ آج بھی وہ چیلنج انھی زوردار لفظوں میں پورے تحکمانہ لہجے کے ساتھ موجود ہے جیسے چودہ سو سال پہلے تھا:
فَأتُواْ بِسُورَۃٍ مِّن مِّثْلِہِ وَادْعُواْ شُہَدَآءکُم مِّن دُونِ اللّٰہِ إِنْ کُنْتُمْ صَادِقِیْنَ (البقرۃ ۲:۲۳)
زیادہ سے زیادہ جواب دیا گیا تو صرف یہ کہ لَوْ نَشَاء لَقُلْنَا مِثْلَ ہَذَا (الانفال ۸:۳۱) مگر یہ بھی خالی الفاظ تھے، ہر طرح کی معنوی معقولیت سے خالی۔ آج تک جواب کا انتظار ہے بلکہ قیامت تک رہے گا، جواب یقیناًنہیں بن پڑے گا۔ اس کتاب حکیم نے دلوں کے زاویے بدل دیے، نگاہوں کی آرزوئیں بدل دیں، دلبری اور دل ربائی کے طور بدل دیے، روحوں میں بے تابیاں بھر دیں اور فکر وعمل کو نئی وسعتیں عطا کر دیں۔ جس نے یہ کلام سنا اس کی تاثیر کا گھائل ہو کے رہا۔
مخدرات سرا پردہ ہائے قرآنی
چہ دلبر ند کہ دل می برند پنہانی
جس جان میں اتر گیا، اس میں زبردست انقلابی داعیے ابھارے، بالکل کائنات ہی بدل کر رکھ دی :
چوں بجاں در رفت جاں دیگر شود
جاں چو دیگر شد جہاں دیگر شود
تیسرا ارمغان ثمین اس ماہ مبارک میں اعتکاف ہے۔ اعتکاف اصل میں دنیوی آلائشوں اور بہت حد تک مکروہات زمانہ سے اپنے آپ کو الگ تھلگ کر کے اپنے خالق و مالک کے ساتھ تخلیے کا دوسرا نام ہے۔تخلیہ طالب ومطلوب کے راز ونیاز کا بہترین ذریعہ ہوتاہے۔ ایک عابد شب زندہ دار اپنے محبوب حقیقی کے ساتھ رات کی تنہائیوں میں اس زاویہ عزلت میں چپکے چپکے خضوع وخشوع کے ساتھ لو لگاتا ہے۔ کبھی اس کی آنکھوں سے آنسوؤں کی جھڑی لگ جاتی ہے تو کبھی اپنی تردامنی پر سسک سسک کر، بلک بلک کر معافی کا خواستگار ہوتا ہے۔ اس حال میں اس کی یہ دعائیں درِ اجابت سے ٹکراتی اور بارگاہِ حق میں شرف باریابی پاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس کائنات کے محسنِ اعظم نے ہر ماہ رمضان کے عشرہ اخیرہ میں اعتکاف فرمایا۔ ۸ھ کو فتح مکہ میں مصروفیت کی وجہ سے اعتکاف نہ فرما سکے تو اگلے سال ۹ھ میں بیس دن کا اعتکاف فرمایا۔ یہ رمضان ہی ہے جس میں بنی نوع انسان کے لیے رحمتوں کے خزانے لٹتے اور انعاماتِ الٰہیہ کی بے طرح بارش ہوتی ہے۔
رحمت حق بہانہ می جوید
رحمت حق بہانمی جوید
چوتھی عطائے رمضان المبارک لیلۃ القدر ہے۔ کس حتمی انداز سے کہہ دیا گیا ہے کہ ’’لَیْْلَۃُ الْقَدْرِ خَیْْرٌ مِّنْ أَلْفِ شَہْرٍ‘‘ (القدر ۹۷:۳) حساب لگائیے تو ۸۳ ؍سال ۴ ؍ماہ بنتے ہیں۔ ایک شخص بغیر کوئی دوسرا کام کیے بارگاہ ایزدی میں سرنہوڑائے، پورے استغراق و انہماک اور جذب و انجذاب کے ساتھ عبادت میں ۸۳ ؍سال ۴ ؍ماہ تک مسلسل کھڑا رہے تو بھی اس رات کی بیداری اور تعلق باللہ اس عرصہ دراز سے بھی بہتر ہے ۔ خَیْْرٌ کا لفظ تفضیل کل سے بھی کوئی اوپر درجہ ہو تو اس کو بھی شامل ہے۔ امت محمدیہ کی کوتہ عمری کا اس کثرت ثواب اور جزائے جزیل سے ازالہ کیا جا رہا ہے۔ یوں سمجھئے کہ تھوڑا کرنے پر بہت زیادہ انعامات کا مستحق قرار دینا اسی ذات ستودہ صفات کا شیوہ ہے جس نے اپنے آ پ کور ب العالمین اور رحمن و رحیم کے دلنواز القاب دیے ہیں۔
پانچواں عطیہ جو اس مقدس ماہ کا خاصہ ہے، وہ عیدالفطر ہے۔ اگرچہ یہ روز سعید شوال کی پہلی تاریخ کو ہوتا ہے مگر یہ ہے حاصلِ رمضان ہی۔ یہ فضیلتوں والا دن ہے جس روز پورا عالم اسلام ایک ماہ کی پوری بدنی و روحانی ریاضتوں کے بعد انبساط ومسرت کے جذ بات میں ڈوب جاتا ہے۔ دل والے
بنتی نہیں ہے بادہ وساغر کہے بغیر
کے لہجے میں اس دن کی خوشیوں کو دوبالا کرتے، استعاروں سے کام لیتے ہوئے، مجاز کے پردے میں معارف کا ذکر ایسے ایسے حسین پیرا یہ میں کرتے ہیں کہ ذوق جھوم جھوم اٹھتا ہے۔
ساقیا عید ہے لا بادے سے مینابھر کے کہ مے آشام پیاسے ہیں مہینہ بھرکے
یہ ارمغان بہجت مسرتوں و شادمانیوں کا پیغام لاتا ہے۔ قربتوں اور محبتوں میں اضافے کا موجب ہے۔ روزے نے جن بہیمی قوتو ں کو مضمحل کر دیا تھا، یہ ان پر اترانے کا دن ہے۔ روح کی بالیدگی کا دن ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ غرہ شوال کو دیکھتے ہی روحیں یوں مچلنے لگتی ہیں گویا کوئی سالوں کا محروم حجِ اکبر کی سعادت سے بہرہ ور ہو رہا ہو۔
روزے داراں نوں عید دا چن چڑھیا
جویں حاجیاں حج تیاریاں نیں
کیا فائدہ ہے ترکِ غذائے حلال سے
روزہ اردو اور فارسی میں ترجمہ ہے صوم کا اور صوم کے لغوی معنی ہیں باز رہنا، رک جانا، خواہ کھانے سے ہو یا کلام کرنے سے یا چلنے سے:
الصوم فی الاصل: الامساک عن الفعل مطعماًکان اوکلاماً اومشیاً (المفردات فی غریب القرآن للاصفہانی، ص۲۹۳)
’’روزہ اصل میں کسی کام سے رک جانے کانام ہے، وہ کھانا ہو بات ہو یا چلنا ہو ۔‘‘
الصوم فی اللغۃ :الامساک عن ما تناز ع الیہ النفس (تفسیربیضاوی،۲؍۴۳۵)
’’روزہ لغت میں اس چیزسے رک جانے کو کہتے ہیں جس کی طرف نفس زور کر کے جائے‘‘۔
معلوم ہوا کہ روزہ نفس کی مرغوبات سے پرہیز کا دوسرا نام ہے۔ شرعی اصطلاح میں روزہ طلوع فجر سے غروب آفتاب تک نیت کے ساتھ بعض حلال چیزوں سے بچے رہنے کا نام ہے جن میں کھانا پینا اور جنسی عمل سرفہر ست ہیں۔ دیگر منکرات عام زندگی میں بھی قابل پرہیز ہیں، بحالت روزہ توبدرجہ اولیٰ ممنوع ہوں گے۔
کھاناپینا زندگی کی بدیہی ضروریات میں سے ہے، مگر سوال یہ ہے کہ کیا کھانا پینا ہی زندگی کی غایت ہے؟ اس کا جواب انسانی فکر نے د و طرح دیا ہے:
۱۔زیستن برائے خوردن، کھانے ہی کے لیے زندہ رہنا چاہیے۔
۲۔خوردن برائے زیستن، ز ندگی گزارنے کے لیے کھانا چاہیے۔
پہلا طرزِ فکر وہ ہے جو مادہ پرستانہ نظریات نے دیا ہے۔ اس نقطہ نگاہ کے مطابق تن پروری ہی انسانی زندگی کی غایت اولیٰ ہے ۔ ایسے افراد یا ایسے معاشرے اپنی کوتاہ بینی کی وجہ سے پیٹ پوجا سے آگے کوئی حقیقت نہیں دیکھ سکے۔ان کا نعرہ مستانہ یہی ہوتا ہے:
بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست
Eat, drink and be merry, for tomorrow you will die.
یہ زندگی کو دیکھنے کا اپیقورین (Epicurean) مطمح نظر ہے۔
دوسرا نقطہ نگاہ وہ ہے جس کے پیچھے وحی کی قوت محرکہ اور الہامی سوچ کے دھارے بہہ رہے ہیں۔ کھانا ایک ناگزیر ضرورت حیات ہے، مگر محض کھانا اور شکم پروری ہی غایت حیات نہیں۔ یہ پیغمبرانہ طرزِفکر ہے۔ اس سوچ کے مطا بق جسم کا جان سے رشتہ قائم رکھنا از حد ضروری ہے، مگروہ تن پروری جو تن آسانی پیدا کر دے، مطلوب نہیں۔ یہاں جاں پروری اور روح کی پرورش و تربیت کے وسائل کو بروئے کار لانا ضروری قرار دیا گیا ہے۔
اسلام دین فطرت ہے اور انسانی فطرت کی نشوونما کے جملہ اسباب فراہم کرتا ہے۔ وہ کھانے پینے میں اِسراف کو فسق سے تعبیر کرتا ہے تو اس سے کلیۃً بچے رہنے کو رہبانیت جانتا ہے۔ یوں وہ ’’خیر الامور اوسطہا‘‘ کا معیار پیش کر کے ہر طرح کی انتہاپسندی کو ناپسندیدہ قرار دیتا ہے، لہٰذا روح انسانی کی، جو ایک لطیف چیز ہے، نشوونما کے لیے اس نے سال بھر میں ایک ماہ کا ایسا ریفریشر کورس دیا ہے جس سے روح کی کثافتیں دھلتی اور اس میں لطافتیں در آتی ہیں۔ یہی مہینہ وہ ہے جس کے بارے میں قرآ ن کہتا ہے:
شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِیَ أُنزِلَ فِیْہِ الْقُرْآنُ (البقرۃ ۲:۱۸۵)
’’رمضان کا وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا ‘‘۔
اور فرمودہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں اس کی توثیق یوں کی گئی کہ حضرت طلحہ بن عبید اللہ ( یکے از عشرہ مبشرہ ) نے ایک شخص کے بارے میں بتایا کہ اس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی:
یا رسول اللّٰہ ! اَخبِرنِی عما فرض اللّّٰہ عَلَیَّ من الصیام؟ قال: شہر رمضان ( الجامع الصحیح للبخاری، رقم حدیث: ۱۷۵۸)
’’اللہ کے رسول! مجھے بتائیے کہ اللہ نے مجھ پر کون سے روزے فرض کیے ہیں ؟ فرمایا: رمضا ن کا مہینہ ‘‘۔
روحانی لطافتوں میں اضافے کے لیے روزہ بہترین تد بیر ہے۔ یوں سمجھئے کہ جسم وجان کے کئی امراض کے لیے یہ ایک پرہیز ہے، جس طرح نماز جسم وجا ں کی صحت وبقا کے لیے دوا ہے۔ دوا اور پرہیز دونوں کی اہمیت سے کسی بھی دور میں کسی بھی صاحبِ فہم کو کبھی انکار نہیں رہا، بلکہ بعض نے پرہیز کی افادیت کے پیش نظر یہ تک بھی کہہ دیاہے کہ پرہیز علاج سے بہتر ہے۔ اس پرہیز سے نہ تو بھوک پیاس کی شدت اور تکلیف مالایطاق مقصود ہے اور نہ ہی اذیت رسانی، بلکہ واضح طور پر اس کی غایت بتا دی گئی ہے اور وہ ہے لَعَلَّکُمْ تَتَّقُونَ، تاکہ تم تقو یٰ شعار ہو جاؤ۔ تقویٰ کیا ہے؟ تقویٰ دراصل اس احساس کا نام ہے جس سے انسان کے دل میں نیکی کی طرف شدید رغبت ہوتی ہے اور گناہوں سے سخت نفرت پیدا ہوتی ہے۔ روزہ دراصل اسی غایت اولیٰ کے لیے فرض کیا گیا ۔ اگر یہ مقصد حاصل ہو گیا تو روزہ، روزہ ہے، ورنہ بھوکا پیاسا رہنا نہ مفید مطلب ہے، نہ مقصود و مطلوب ہے۔ اس حقیقت سے سرکارِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ایک فرمان واجب الاذعا ن سے یوں پردہ اٹھایا ہے:
رب صائم لیس لہ من صیامہ الا الجوع (سنن ابن ماجہ، رقم حدیث: ۱۶۸۰)
’’کتنے ہی روزہ دار ایسے ہیں کہ ان کو ان کے روزوں سے بھوک پیاس کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا۔‘‘
وہ شخص بڑا ہی محروم القسمت ہے جو بھوکا پیاسا رہ کر اور اپنے آپ کو نڈھال کر کے بھی مفسدات روزہ سے بچنے کی کوشش نہیں کرتا اور تقویٰ شعاری سے محروم رہتا ہے۔ جب حرام کھانے سے اجتناب نہ کیا جائے تو حلال کھانا ترک کر دینے سے کیا فائدہ!
کیا فائدہ ہے ترکِ غذائے حلال سے
روز ے میں جب نہ عزم ہو ترکِ حرام کا