(الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ میں دورۂ تفسیر قرآن کے شرکا سے گفتگو۔)
بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ الحمد للہ رب العالمین والصلاۃ والسلام علی سید المرسلین محمد وعلی آلہ واصحابہ اجمعین۔ اما بعد!
قرآن مجید کا مطالعہ کرتے ہوئے اور اس کے تفسیری مباحث پر غور کرتے ہوئے ایک بنیادی سوال جس کے حوالے سے قرآن مجید کے طالب علم کا ذہن واضح ہونا چاہیے، یہ ہے کہ قرآن کا اصل موضوع اور قرآن نے جو کچھ اپنی آیات میں ارشاد فرمایا ہے، اس سے اصل مقصود کیا ہے؟
اس سوال کا جواب ہمیں خود قرآن مجید کی تصریحات سے یہ ملتا ہے کہ یہ اصل میں کتاب تذکیر ہے۔ قرآن نے اپنے لیے ’ذکر‘، ’تذکرہ‘ اور ’ذکری‘ کے الفاظ استعمال کیے ہیں۔ تذکیر کا مطلب ہے یاد دہانی کرانا۔ ایسے حقائق جو انسان کے علم میں تو ہیں اور وہ ان سے بالکل نامانوس نہیں ہے، لیکن کسی وجہ سے ان سے غفلت کا شکار ہو گیا ہے اور وہ اس کے فعال حافظے سے محو ہو گئے ہیں، وہ حقائق اسے یاد کرانا، ان کی طرف اس کی توجہ مبذول کرنا اور ان حقائق کی یاد دہانی سے اس کو اپنی زندگی میں ایک خاص طرح کا رویہ اختیار کرنے پر آمادہ کرنا، یہ ’تذکیر‘ کی اصل روح ہے۔ معروف اور مانوس لیکن بھولی ہوئی باتوں کو یاد کرانا اور ا س یادد ہانی کے ذریعے سے انسان کے فکر کو ، اس کے عمل کو اور اس کے رویے کو ایک خاص رخ پر ڈالنا، یہ تذکیر ہے۔
قرآن مجید اپنے اصل مقصد کے لحاظ سے ایک کتاب تذکیر ہے۔ اللہ تعالیٰ چند حقائق کی تذکیر انسان کو کرنا چاہتے ہیں تاکہ وہ حقائق انسان کے ذہن میں مستحضر رہیں اور انسان کا دھیان اور اس کی توجہ ان پر لگی رہے اور ان کی مدد سے وہ زندگی کے ایک ایک قدم پر صحیح راستے پر قائم رہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کی ذات کا، اس کی صفات کا اور اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے لیے جو قانون، ضابطے، قاعدے، سنن اور نوامیس مقرر کیے ہیں جن کے تحت وہ اس دنیاکا نظام چلا رہا ہے، خاص طو ر پر انسانوں کے معاملات وہ جن ضابطوں کے تحت چلاتا ہے، ان کا تعارف انسان کو کروانا، یہ نزول قرآن کی اصل غایت ہے۔
قرآن مجید کے جتنے مضامین ہے، ان کی آپ ذیلی تقسیمات کریں تو وہ بے شمار بن جاتے ہیں او رمختلف اہل علم نے اپنے اپنے ذوق کے لحاظ سے قرآن میں پھیلے ہوئے مضامین ومطالب کو مختلف عنوانات کے تحت تقسیم کیا ہے۔ ہمارے ہاں ایک معروف تقسیم شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی ہے۔ انھوں نے اپنی کتاب ’الفوز الکبیر‘ میں لکھا ہے کہ قرآن مجید کے مضامین کو پانچ قسموں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:
۱۔ تذکیر بآلاء اللہ، یعنی اللہ تبارک وتعالیٰ کی قدرت اور اس کی رحمت وربوبیت کی جو نشانیاں کائنات میں بکھری ہوئی ہیں، ان کی یاد دہانی۔
۲۔ تذکیر بایام اللہ، یعنی اللہ تعالیٰ نے اس سے پہلے دنیا کی مختلف قوموں کے ساتھ نعمت ونقمت، دونوں پہلووں سے جو معاملہ کیا ہے، ان کی یاد دہانی۔
۳۔ تذکیر بما بعد الموت، یعنی اس بات کی یاد دہانی کہ اس دنیا سے جانے کے بعد جو ایک یوم الجزاء آنے والا ہے، اس دن اللہ تبارک وتعالیٰ انسانوں کے ساتھ کیا معاملہ کریں گے۔
۴۔ احکام وشرائع، یعنی شریعت کے وہ قوانین جن کی پابندی اس دنیا کی زندگی میں اللہ تعالیٰ کو انسانوں سے مطلوب ہے۔
۵۔ علم المخاصمۃ، یعنی قرآن کا مخاطب بننے والے جو گروہ قرآن کے دعاوی اور اس کے پیغام کو تسلیم کرنے اور اس کی دعوت کو قبول کرنے سے گریزاں تھے اور اس پر ان کے ذہن میں کچھ استدلالات اور کچھ شبہات تھے، ان کا جواب دینا اور ان کی تردید کر کے صحیح بات کو واضح کرنا۔
یہ بڑی حد تک ایک جامع تقسیم ہے جس میں قرآن مجید کے کم وبیش سارے نمایاں مطالب اور مضامین آ جاتے ہیں۔ اب ان پانچوں پر اگر آپ غور کریں تو مرکزی نکتہ یہ نکلے گا کہ انسان کو اس بات کی پہچان کرا دی جائے کہ اس کائنات کا خالق ومالک کیسا ہے، اس کی صفات کیا ہیں، اس کی صفات سے جو نتائج پیدا ہوتے ہیں اور جو مظاہر وجود میں آتے ہیں، وہ کیا ہیں اور اللہ تعالیٰ نے خود اپنے لیے وہ کون کون سے قوانین مقرر کیے ہیں جن کے تحت وہ اپنی مخلوق کے ساتھ معاملہ کرتا ہے۔ گویا یہ سب مضامین مختلف پہلووں سے تذکیر ہی کے مقصد کو پورا کرتے ہیں اور مختلف حوالوں سے، مختلف زاویوں سے انسان کے ذہن میں اس بات کے شعور کو راسخ کرتے ہیں کہ وہ اپنے مالک کو پہچانے اور اس کے ذہن میں اللہ کی ذات اور اس کی صفات کا صحیح تصور قائم ہو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان کے ذہن میں کسی بھی ہستی کے بارے میں جو تصور ہوگا، اسی کے لحاظ سے اس کا اس کے ساتھ تعلق بھی قائم ہوگا۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کی ذات ، اس کی صفات اور اس کے قوانین اور اس کے معاملہ کرنے کے اصولوں اور ضوابط کا جو تصور انسان کے ذہن میں ہوگا، اسی کے لحاظ سے انسان کا تعلق بھی خدا کے ساتھ قائم ہوگا۔ یہ ساری باتیں جس درجے میں انسان کے ذہن میں واضح ہوں گی، اسی کے لحاظ سے خدا کے ساتھ اس کا تعلق بھی ایک خاص رنگ اختیار کر لے گا۔
اللہ نے اپنے لیے کچھ نوامیس مقرر کیے ہیں جن کے تحت وہ اپنی ساری کائنات کا نظام چلا رہا ہے۔ کوئی دوسری ہستی اللہ کو کسی بات کی پابند نہیں کر سکتی: لَا یُسْئلُ عَمَّا یَفْعَلُ وَہُمْ یُسْأَلُونَ (الانبیاء: ۲۳) ۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنی عالی صفات مثلاً عدل، رافت ورحمت کے تقاضے سے خود اپنے لیے کچھ قوانین مقرر کیے ہیں جن کی پابندی وہ کہتا ہے کہ میرے ذمے لازم ہے۔ کسی دوسرے نے لازم نہیں کی اور نہ کوئی کر سکتا ہے، لیکن ان کی پابندی اس نے خود اپنے ذمے لازم کی ہے۔ وہ کہتا ہے کہ: حَقّاً عَلَیْْنَا (یونس: ۱۰۳)۔ یہ جو ہم نے وعدہ کیا ہے، اس کی پابندی اب ہم پر لازم ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے لیے جو قوانین او ر نوامیس مقرر کیے ہیں، ان کے لیے قرآن نے ’سنت‘ کی اصطلاح استعمال کی ہے۔ مثلاً دنیا میں حق کا انکار کرنے والی قوموں کے ساتھ معاملہ کرنے کا اللہ تعالیٰ نے ایک خاص قانون بنایا ہے جس کے ظہور کی مثالیں تاریخ میں وقتاً فوقتاً سامنے آتی رہی ہیں۔ قرآن اس کو ’سنت اللہ‘ کہتا ہے جس میں کوئی تبدیلی نہیں کر سکتا: سُنَّۃَ اللَّہِ فِیْ الَّذِیْنَ خَلَوْا مِن قَبْلُ وَلَن تَجِدَ لِسُنَّۃِ اللَّہِ تَبْدِیْلاً (الاحزاب: ۶۲)۔
اللہ نے اس ساری کائنات کے لیے کیا ضابطے بنا رکھے ہیں، وہ تو اس نے ہمیں نہیں بتائے۔ ہمیں تو ا س نے قرآن میں مخاطب کیا ہے اور صرف اس دائرے کے قوانین اور ضابطے بتائے ہیں جس کا تعلق ہم انسانوں سے ہے۔ سورج چاند اور دوسری مخلوقات کو اس نے کن قوانین کے تحت بنایا ہے، وہ اس نے ہمیں نہیں بتائے۔ کائنات کے مادی قوانین بھی، جن کو سائنس دریافت کرتی ہے، قرآن کا موضوع نہیں کہ وہ انسان کو یہ بتائے کہ سورج، چاند اور دوسرے مظاہر فطرت کن قوانین کے تحت کام کر رہے ہیں۔ اسی طرح باقی مخلوقات سے متعلق جو اخلاقی قوانین ہیں، ان کی وضاحت بھی قرآن کا موضوع نہیں۔ مثال کے طور پر ایک انسان کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ اپنی کسی ضرورت یا خواہش کی تکمیل کے لیے کسی دوسرے انسان کی جان لے، لیکن آپ جانوروں میں دیکھیں گے کہ بہت سے درندوں کی زندگی ا ور بقا کا دار ومدار ہی اس پر ہے کہ وہ کسی دوسرے جاندار کی، بسا اوقات اپنے ہی کسی ہم جنس جاندار کی جان لیں اور ا س کے گوشت سے اپنا پیٹ بھریں۔ اب حیوانات کے اور اسی طرح دوسری بے شمار مخلوقات کے معاملات کن اخلاقی قوانین اور ضابطوں پر مبنی ہیں، ان کی وضاحت قرآن کا موضوع نہیں اور نہ اس نے ان کی وضاحت کی ہے۔ قرآن کا موضوع یہ ہے کہ انسان کو اس دنیا میں اللہ نے ایک خاص مقصد کے تحت بھیجا ہے اور اس کی نقل وحرکت کا اور زندگی کی سرگرمیوں کا ایک محدود دائرہ ہے۔ اللہ نے کائنات کے اربویں کھربویں بلکہ اس سے بھی حقیر ایک چھوٹے سے حصے میں انسان کو بسایا ہے اور اس کو ایک نہایت محدود دائرے میں اختیار دیا ہے۔ انسان کو یہاں بھیجنے کا مقصد یہ ہے کہ اس کی آزمایش کی جائے۔ اس آزمایش میں کامیاب ہونے کے لیے انسان کو اپنے خالق ومالک اور اس کے مقرر کردہ قوانین کی پہچان کی ضرورت ہے تاکہ وہ اپنے خدا کے ساتھ صحیح طو رپر تعلق قائم کر سکے اور اس معرفت صحیحہ کا ظہور اس کے فکر وعمل اور اس کے کردار میں بھی ہو۔ یہ سب باتیں انسان کے علم میں ہونی چاہییں تاکہ جب وہ اس دنیا سے رخصت ہونے کے بعد خدا کے حضور میں پیش ہو تو اس کی ابدی نعمتوں کا حق دار بن سکے۔
یہ ہے قرآن کی ساری تذکیر اور اس کے تمام تر مطالب ومضامین کا محور۔ دین کے جو تین بنیادی عقیدے ہیں جن پر پورے دین کی بنیاد ہے، وہ بھی یہی ہیں۔ خدا کو ماننا اس کی تمام صفات کے ساتھ اور ان تمام قوانین ونوامیس کے ساتھ جو اس نے اپنے لیے مقرر کیے ہیں، نبوت ورسالت کے اس سلسلے پر ایمان رکھنا جو اللہ نے اپنی صفات اور اپنے قوانین اورضابطوں سے انسانوں کو متعارف کرانے کے لیے دنیا میں جاری کیا اور اس حقیقت پر ایمان رکھنا کہ دنیا کی اس زندگی کے بعد ایک دوسری زندگی بھی آنی ہے جس میں انسان اپنے قول وعمل کے لحاظ سے ابدی عذاب یا ابدی نعمتوں کا مستحق قرار پائے گا۔
اس کے ساتھ ساتھ اس معاملے کا ایک اور نہایت اہم پہلو بھی آپ کے سامنے رہنا چاہیے۔ وہ یہ کہ قرآن مجید سے اس کا یہ مطمح نظر بڑے غیر مبہم طریقے سے واضح ہوتا ہے کہ اس کو پڑھتے ہوئے لوگ اسی چیز کے حصول پر اپنی توجہ کو مرکوز رکھیں جو اس کے نزول کا اصل مقصد ہے۔ یہ نہ ہو کہ لوگ اپنی اپنی دلچسپیاں لے کر آئیں اور ان میں الجھ کر رہ جائیں۔ قرآن نے بعض پہلووں سے اپنا یہ مطمح نظر واضح کرنے کا خاص اہتمام کیا ہے اور اپنے انداز سے، اپنے اسلوب سے یہ بات سمجھائی ہے کہ قرآن کو پڑھنے کے لیے آؤ تو کیا ذہن لے کر آؤ اور تمھاری دلچسپی کا مرکزی نکتہ کیا ہونا چاہیے۔ مثال کے طو رپر آپ دیکھیں کہ قرآن مجید کا ایک بہت بڑا حصہ واقعات پر مشتمل ہے۔ شاید ایک تہائی یا اس سے زیادہ آپ کو قرآن میں واقعات ہی ملیں گے۔ شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ نے اسی لیے اس حصے کو تذکیر بایام اللہ کا ایک مستقل عنوان دے دیا ہے۔ قرآن میں انبیا کے، دنیا کی قوموں کے اور قوموں کی تاریخ کے واقعات ہیں۔ ان واقعات کے ذکر سے قرآن کا مقصود انسان کا دل بہلانا یا اس کی تفریح طبع نہیں۔ گزشتہ زمانے کے واقعات کے بارے میں جستجو اور ان میں دلچسپی محسوس کرنا انسانی نفسیات کا حصہ ہے۔ عام طو رپر انسان جب ایسے واقعات کو سنتے ہیں تو اس کا مقصد جستجو کے جذبے کی تسکین یا محض تفریح طبع ہوتا ہے۔ تاہم قرآن کے، واقعات بیان کرنے کا مقصد ہرگز یہ نہیں ہے۔ اس سے اس کا مقصد وہی تذکیر ہے اور وہ چاہتا ہے کہ ان واقعات سے انسان روحانی واخلاقی سبق حاصل کرے اور ان واقعات میں اللہ تعالیٰ کے جن ضابطوں اور قوانین کا ظہور ہوا، ان کی طرف متوجہ ہو۔ یہی وجہ ہے کہ کسی بھی واقعے سے متعلق ایسا لوازمہ جو اس میں کہانی کا مزہ پیدا کرتا ہے اور ایسے پہلو جو اسے تفریح طبع کا سامان بنا سکتے ہیں، قرآن کم وبیش ہر جگہ ایسے عناصر کو بالکل نظر انداز کر دیتا ہے۔ وہ ایک طویل عرصے کو محیط سلسلہ واقعات کے بے شمار اجزا کو حذف کر کے اس کے صرف ان اجزا کو بیان کر دیتا ہے جو اس کے مقصد کے لحاظ سے مفید ہیں۔ کئی سالوں پر پھیلے ہوئے سلسلہ واقعات کو قرآن یوں بیان کرتا ہے کہ اس کا ابتدائی حصہ، کچھ درمیانی حصے اور کچھ اختتامی حصہ معرض بیان میں آ جاتا ہے اور یہ تمام اجزا وہ ہوتے ہیں جو تذکیر کے پہلو سے مفید اور برمحل ہوتے ہیں۔ باقی تمام تفصیلات جن کو اگر قرآن بیان کرنے لگ جائے تو لوگ قصے میں الجھ کر رہ جائیں اور اس سے کہانی کا لطف اٹھانے لگیں، ان سب کو قرآن حذف کر دیتا ہے۔ اس کی چند مثالیں دیکھیے:
قرآن مجید نے حضرت موسیٰ کی پیدایش سے لے کر وادئ تیہ تک ان کی زندگی کا سفر بیان کیا ہے، لیکن اس سارے واقعے کے صرف وہ اجزا منتخب کیے ہیں جن میں تذکیر کا کوئی نہ کوئی پہلو پایا جاتا ہے اور جس سے اللہ تبارک وتعالیٰ کا کوئی خاص ضابطہ اور کوئی مخصوص قانون واضح کرنے میں مدد ملتی ہے۔ قرآن نے یہ بیان کیا ہے کہ حضرت موسیٰ کی پیدایش سے پہلے مصر میں صورت حال کیا تھی اور بنی اسرائیل کس طرح ظلم وستم کا شکار تھے۔ پھر حضرت موسیٰ کی پیدایش کا ذکر ہوا ہے اور بتایا گیا ہے کہ اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے کس طرح انھیں فرعون کی قتل اولاد کی اسکیم سے معجزانہ طو رپر محفوظ رکھا اور خود فرعون کے گھر میں ان کی پرورش کا انتظام کر دیا۔ اس کے بعد اگلا منظر جو سامنے آتا ہے، وہ یہ ہے کہ حضرت موسیٰ جوانی کی عمر کو پہنچ گئے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس درمیانی عرصے میں بھی کئی واقعات رونما ہوئے ہوں گے جن سے قرآن نے کوئی تعرض نہیں کیا۔ جوانی کے زمانے کا بھی صرف وہ واقعہ منتخب کیا ہے جو سلسلہ واقعات کو آگے بڑھانے والا ہے، چنانچہ بیان کیا گیا ہے کہ کیسے حضرت موسیٰ نے قبطی کے مقابلے میں اپنے اسرائیلی بھائی کی مدد کی اور اس کے نتیجے میں انھیں ہجرت کر کے مدین جانا پڑا۔ پھر وہاں اللہ نے ان کے لیے کیا بندوبست کیا، اس کا ذکر ہوا ہے۔ مدین سے واپسی پر راستے میں انھیں نبوت سے سرفراز کیا جاتا ہے اور پھر وہ سیدھے فرعون کے دربار میں پہنچ جاتے ہیں۔ اس طرح کئی سالوں پر پھیلے ہوئے سلسلہ واقعات کو قرآن نے صرف چند اجزا میں سمیٹ دیا ہے۔
اس ضمن میں حضرت یوسف علیہ السلام کا واقعہ ایک خاص پہلو سے توجہ طلب ہے۔ اس واقعے کو قرآن نے تفصیل سے بیان کیا ہے اور اگرچہ یہاں بھی قرآن نے واقعے کے وہی حصے منتخب کیے ہیں جن سے کوئی نہ کوئی تذکیری فائدہ حاصل ہوتا ہے، تاہم یہ واقعہ نسبتاً زیادہ تفصیل سے بیان ہوا ہے۔ یہ واقعہ پڑھتے ہوئے آپ کو محسوس ہوگا کہ حضرت یوسف کی کہانی سے متعلق بعض ایسے اہم سوالات سامنے آتے ہیں جن سے قرآن کوئی تعرض نہیں کرتا، جبکہ کہانی کے تسلسل کے اعتبار سے اس میں ایک خلا سا رہ جاتا ہے جس کی وجہ سے انسان کو تشنگی کا احساس ہوتا ہے۔ انسان اپنے ذہنی قیاسات سے اس خلا کو پر کرنے کی کوشش کرتا ہے تو کرتا رہے، لیکن قرآن کو اس سے کوئی دلچسپی نہیں۔ مثلاً یہ دیکھیں کہ حضرت یوسف علیہ السلام کو بچپن میں ہی خواب کے ذریعے سے یہ بتا دیا گیا تھا کہ اللہ کی طرف سے ان پر خاص رحمت اور عنایت ہوگی۔ یہ بھی ان کو معلوم ہے کہ ان کے سوتیلے بھائی ان کے ساتھ مخلص نہیں ہیں۔ پھر جب بھائی ان کو لے جا کر کنویں میں پھینک دیتے ہیں تو اس وقت بھی اللہ کی طرف سے وحی آتی ہے کہ ایک وقت آئے گا جب تم یہ سب کچھ اپنے بھائیوں کو بتاؤ گے۔ اس کے بعد یوسف علیہ السلام مصر پہنچ جاتے ہیں۔ قرآن سے یہ واضح ہے کہ یوسف علیہ السلام کو اپنا بچپن، اپنا خاندان اور یہ سارا سلسلہ واقعات اچھی طرح یاد ہے۔ انھیں معلوم ہے کہ ان کے والد کون ہیں، ان کا خاندانی پس منظر کیا ہے، لیکن مصر میں فروخت ہونے سے لے کر منصب اقتدار پر فائز ہونے تک کے اس سارے عرصے میں وہ کہیں بھی اس بات کی کوشش کرتے نظر نہیں آتے کہ اپنے والد سے رابطہ کریں۔ ان کے والد ان کی جدائی کے غم میں نڈھال ہیں، رو رو کر بینائی کھو چکے ہیں، ان کی ملاقات کے شوق میں تڑپ رہے ہیں اور کوئی ظاہری امید نہ ہونے کے باوجود پرامید ہیں کہ یوسف زندہ ہے، لیکن ادھر حضرت یوسف کے ہاں ایسی کسی تڑپ یا کسی کوشش کا ذکر قرآن میں نہیں ملتا۔ یہ چیز عام انسانی نفسیات کے لحاظ سے بڑی عجیب سی لگتی ہے۔ معلوم نہیں، حضرت یوسف نے اس سلسلے میں کیا کیا ہوگا۔ کچھ کیا بھی ہوگا یا نہیں کیا ہوگا۔ بہرحال یہ ایک سامنے کا سوال ہے جو شاید ہر پڑھنے والے کے ذہن میں پیدا ہوتا ہوگا کہ جب یوسف کو اپنے والد کے بارے میں معلوم ہے اور یہ بھی معلوم ہے کہ وہ ان کی جدائی پر سخت بے چین اور مضطرب ہوں گے تو وہ ان سے رابطہ کر کے انھیں صورت حال سے آگاہ کرنے کی کوشش کیوں نہیں کرتے؟ خاص طو رپر بادشاہ کا وزیر بن جانے کے بعد تو کوئی ظاہری رکاوٹ بھی اس میں دکھائی نہیں دیتی، تاہم قرآن اس پہلو سے سرے سے کوئی تعرض نہیں کرتا کہ انھوں نے اس کی کوشش کی یا نہیں کی۔ نہیں کی تو کیوں نہیں کی اور اگر کی تو اس کا کیا بنا اور وہ کیوں کامیاب نہیں ہوئی۔
اب دیکھیں، قرآن یہاں اپنے انداز سے یہ واضح کر رہا ہے کہ جب وہ یہ واقعہ بیان کر رہا ہے اور بڑی تفصیل سے بیان کر رہا ہے تو واقعے سے متعلق ایک بڑے نمایاں سوال کا جواب دینے سے اسے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ قاری کو اس کا جواب ملتا ہے تو ملے، نہیں ملتا تو نہ ملے۔ قرآن کا مقصد کہانی سنانا اور کہانی کا پورا لوازمہ فراہم کرنا نہیں۔ وہ تو حضرت یوسف کے واقعے میں تذکیر کے اور تربیت کے جو پہلو ہیں، بس ان کو سامنے لانا چاہتا ہے۔
اسی طرح حضرت سلیمان علیہ السلام کی وفات کا جو واقعہ سورۂ سبا میں نہایت اختصار سے بیان ہوا ہے، وہ بھی بہت سے سوالات پیدا کرتا ہے۔ بیان ہوا ہے کہ جب ان کی موت کا وقت آیا تو وہ اپنی لاٹھی کا سہارا لیے کھڑے تھے۔ اسی حالت میں اللہ نے ان کی روح قبض کر لی۔ جنات جنھیں ان کی غلامی میں دیا گیا تھا، ان کو پتہ نہ چل سکا۔ زمین کے کیڑے نے حضرت سلیمان کی لاٹھی کو کھانا شروع کیا اور جنات کو اس وقت خبر ہوئی جب لکڑی اتنی کھوکھلی ہو گئی کہ حضرت سلیمان کا وزن نہ سہار سکی اور وہ گر گئے۔ تب جنات کو پتہ چلا کہ حضرت سلیمان کا انتقال ہو چکا ہے۔ یہاں دیکھیں، قرآن نے اپنے مقصد کے تحت واقعے کا صرف یہ پہلو بیان کر دیا ہے کہ جنوں کو غیب کا علم نہیں ہوتا۔ اگر ہوتا تو حضرت سلیمان کی وفات کے بعد وہ اس ’’عذاب مہین‘‘ میں مبتلا نہ رہتے، لیکن اس مختصر بیان سے ایک سوال ہر پڑھنے والے کے ذہن میں پیدا ہوتا ہے کہ حضرت سلیمان وفات کے بعد لکڑی کے سہارے آخر کتنا عرصہ کھڑے رہے؟ ظاہر ہے کہ کیڑے کو لکڑی کو کھوکھلا کرتے ہوئے کچھ دن تو لگے ہوں گے۔ کیا اس سارے عرصے میں حضرت سلیمان وہیں لاٹھی کے سہارے کھڑے رہے اور ان کی اس کیفیت پر کسی کو تعجب نہیں ہوا؟ کسی کو یہ خیال نہیں آیا کہ اتنے دن سے وہ نہ کہیں آ جا رہے ہیں، نہ کھا پی رہے ہیں اور نہ نماز پڑھ رہے ہیں؟ اس سوال سے قرآن کوئی تعرض نہیں کرتا۔
حضرت مسیح علیہ السلام کے واقعے کے بیان میں بھی یہی اسلوب ہے۔ قرآن جب نازل ہوا تو یہودی اور مسیحی صدیوں سے یہ عقیدہ رکھتے چلے آ رہے تھے کہ حضرت مسیح کو یہودیوں نے سولی چڑھا کر قتل کر دیا تھا۔ قرآن آ کر اس حقیقت کو واضح کرتا ہے کہ یہ بات درست نہیں۔ یہودی نہ انھیں سولی چڑھانے میں کامیاب ہوئے اور نہ کسی اور طریقے سے قتل کرنے میں، بلکہ اس معاملے کو ان کے لیے مشتبہ بنا دیا گیا جس کی وجہ سے وہ یہی سمجھتے رہے کہ انھوں نے سیدنا مسیح کو سولی چڑھا دیا ہے، حالانکہ حقیقت میں اللہ نے حضرت مسیح کو بحفاظت آسمانوں کی طرف اٹھا لیا تھا۔ اب دیکھیں، قرآن مذہبی تاریخ کے ایک نہایت اہم واقعے کی اصل حقیقت کو واضح کرتے ہوئے صرف دو لفظوں میں یہ کہہ کر گزر جاتا ہے کہ یہ معاملہ یہود ونصاریٰ کے لیے مشتبہ بنا دیا گیا۔ وہ اس اشتباہ کی نوعیت اور واقعے کی عملی تفصیلات سے جن سے اس پہلو پر روشنی پڑتی ہو، بالکل کوئی تعرض نہیں کرتا، اس لیے کہ یہ سب باتیں اس کے مقصد سے متعلق نہیں۔ آپ غور کرتے رہیں، چاہیں تو اسرائیلیات کو پڑھیں اور یہود ونصاریٰ کے لٹریچر کا مطالعہ کریں تاکہ اندازہ کیا جا سکے کہ کیا ہوا ہوگا، لیکن قرآن کو اس سے کوئی غرض نہیں ہے۔
حاصل یہ ہے کہ کہ واقعات کے بیان میں قرآن جگہ جگہ اپنے اسلوب سے یہ واضح کرنا چاہتا ہے کہ جتنی بات اس نے بیان کی ہے، یقیناًاس کی کچھ زائد تفصیلات بھی ہیں جن کو جاننے کی انسان کو جستجو ہو سکتی ہے، لیکن قرآن کو ان سے غرض نہیں۔ قرآن کا مقصد یہ نہیں کہ وہ پورے واقعے کو اس کی جملہ تفصیلات کے ساتھ بیان کرے تاکہ سننے والے کو کسی پہلو سے تشنگی کا احساس نہ ہو۔ وہ قاری کی توجہ کو اپنی نظر میں مقصود معنوی حقائق پر مرکوز رکھنا چاہتا ہے اور اپنے انداز سے قاری کو متنبہ کرتا رہتا ہے کہ واقعات کے بیان سے قرآن کے اصل مقصد کو سمجھے اور اسی کو اپنا مطمح نظر بنائے۔
قرآن کے اصل مقصد کی وضاحت کے ضمن میں، میں نے جو کسی قدر طول بیانی سے کام لیا، شاید وہ آپ کو بے فائدہ دکھائی دیتی ہو۔ اس لیے کہ یہ بات بظاہر ایک سادہ سی اور معلوم ومعروف سی بات لگتی ہے اور ظاہری نظر سے دیکھیں تو علم تفسیر کے طلبہ کے سامنے اس کا ذکر شاید تحصیل حاصل بھی لگتا ہے۔ قرآن مجید نے اپنا یہ تعارف کروایا ہے اور اس کے لفظ لفظ سے اس کا یہ مقصد ٹپکتا ہوا نظر آتا ہے۔ قرآن کو پڑھنے والا ہر مسلمان اس سے واقف ہے کہ قرآن اس مقصد کے لیے نازل کیا گیا ہے اور یہ یہ اس کے مطالبات ہیں۔ اس لیے یہ سوال ذہن میں پیدا ہو سکتا ہے کہ اس نکتے کو خاص طو رپر موضوع بنانے کی کیا ضرورت ہے؟ یہ قرآن کا مطالعہ کرنے والے اور خاص طور پر علم تفسیر سے دلچسپی رکھنے والے طلبہ کے لیے خاص طو رپر سمجھنے کی بات ہے۔
اصل میں ہوا یہ ہے اور انسانی تاریخ میں ہمیشہ ایسے ہی ہوتا رہا ہے کہ اللہ کی کتاب نے اپنا جو اصل موضوع متعین کیا اور اپنے مضامین ومطالب کا جو اصل مقصد بیان کیا، ایک خاص وقت گزر جانے کے بعد لوگوں کی توجہ اس اصل مقصود سے ہٹ کر کچھ اور باتوں پر مرکوز ہو گئی۔ میں نے ’توجہ ہٹنے‘ کا لفظ استعمال کیا ہے، لاعلمی یا جہالت کا نہیں۔ ایسا نہیں ہوتا کہ اصل مقصد لوگوں کے دائرۂ معلومات میں نہیں رہتا۔ وہ لوگوں کے علم میں ہوتا ہے، لیکن جس چیز کو ‘مرکز توجہ‘ کہتے ہیں، وہ آہستہ آہستہ بدل جاتا ہے۔ اس کتاب کو اتارنے سے جو چیز اللہ کو مقصود ہے کہ انسان جب اس کو پڑھیں تو ان کے ذہن کا رخ اس طرف ہو، وہ مرکز توجہ نہیں رہتی اور اس کے ساتھ ملحق، اس کے ارد گرد گھومنے والی کچھ دوسری باتیں، کچھ اضافی معلومات اور کچھ زوائد زیادہ توجہ حاصل کر لیتے ہیں۔ اس دنیا میں انسان کے لیے ظاہر ہے کہ دلچسپی کی چیزیں بے شمار ہیں۔ یہ چیزیں مادی بھی ہیں اور ذہنی وفکری بھی۔ ایک عام آدمی کی سوچ کا دائرہ محدود ہوتا ہے اور اس کے فکر کی سطح بھی سادہ ہوتی ہے، لیکن جب علم ودانش سے دلچسپی رکھنے والے لوگ کسی چیز کی طرف متوجہ ہوتے ہیں تو آپ جانتے ہیں کہ انسان کو دیے گئے بہت تھوڑے اور محدود علم کے باوجود، اس دنیا میں علم کے رنگ بے شمار اور اس کے اطراف وجوانب ان گنت ہیں اور علمی وفکری مزاج رکھنے والے افراد قدرتی طو رپر ان میں دلچسپی بھی محسوس کرتے ہیں۔ انسان اپنی بنیادی فطرت کے لحاظ سے علوم وفنون میں اور ان تمام چیزوں میں غیر معمولی کشش محسوس کرتا ہے جنھیں انسان اپنی عقل سے دریافت کر سکتا ہے۔
اب جب اس طرح کے مختلف علوم وفنون کا پس منظر رکھنے والے حضرات کلام الٰہی کی طرف متوجہ ہوتے ہیں تو قدرتی طور پر انسان میں یہ خواہش پیدا ہوتی ہے کہ اس کے اپنے ذوق پر جس چیز کا غلبہ ہے، وہ کتاب الٰہی کو بھی اسی رنگ میں دیکھے۔ اس کی توجہ کتاب الٰہی میں ان پہلووں پر زیادہ مرکوز ہو جاتی ہے جو اس کے اپنے ذہنی وفکری پس منظر سے ہم آہنگ ہوتی ہیں اور وہ انھیں زیادہ نمایاں کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ اس کے غور وفکر اور اس کی دلچسپی کے دائرے سے تعلق رکھنے والے جو پہلو ہیں، انھیں زیادہ اجاگر کیا جائے۔ چنانچہ آپ دیکھیں، صحابہ وتابعین اور ابتدائی ایک دو صدیوں کے بعد رفتہ رفتہ قرآن مجید کی تفسیر میں کئی انداز سامنے آ گئے۔ آپ تاریخ تفسیر کی کوئی کتاب، مثلاً محمد حسین ذہبی کی مشہور کتاب ’التفسیر والمفسرون‘ اٹھا کر دیکھ لیں جس میں علم تفسیر کی تاریخ اور اس کے مختلف مناہج کا تعارف کروایا گیا ہے۔ آپ کو تفسیر کے ضمن میں بہت سے رجحانات مثلاً تفسیر بالراے، تفسیر بالروایۃ، بلاغت کے پہلو سے قرآن کی تفسیر، تصوف کے نکات ومعارف کے لحاظ سے آیات قرآنی کی تشریح، فقہی احکام کے استنباط کے پہلو سے قرآن کی تفسیر اور اس طرح کے دوسرے رجحانات کا تعارف ملے گا۔ اب آپ ان سب کا تجزیہ کریں اور یہ جاننے کی کوشش کریں کہ یہ مختلف رجحانات کیسے وجود میں آئے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ جن لوگوں کی علم نحو اور علم بلاغت کے ساتھ ایک خاص مناسبت تھی، انھوں نے اپنے زاویہ نظر سے قرآن کو دیکھا۔ ظاہر ہے کہ قرآن عربی زبان کا ایک نہایت عالی شان شہ پارہ ادب ہے اور اسالیب زبان اور نحو وبلاغت سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیے اس میں غور وفکر کے لیے نہ ختم ہونے والا مواد اور لطائف ودقائق اخذ کرنے کی ایک وسیع جولان گاہ ہے۔ اسی طرح سے فقہا، جن کی توجہ اور غور وفکر کا محور احکام وقوانین کا استنباط ہے، قرآن کی طرف متوجہ ہوئے اور انھوں نے اس کی کوشش کی کہ قرآن کی آیات سے، دلالت کے مختلف درجات کے تحت حتی کہ لطیف اشارات تک سے جتنے زیادہ سے زیادہ فقہی احکام اخذ کیے جا سکتے ہیں، وہ کیے جائیں اور قرآن کے فقہی اور قانونی پہلو کو نمایاں کیا جائے۔
اس طرح جب مختلف علمی وفکری پس منظر رکھنے والے حضرات قرآن کی طرف متوجہ ہوئے تو انھوں نے اپنی اپنی دلچسپی کے لحاظ سے قرآن کو ایک خاص رنگ میں پیش کرنے کی کوشش کی۔ اب یہ جو کام ہوا، اس کا ایک مثبت پہلو بھی ہے۔ وہ یہ ہے کہ اس طرح قرآن کی علمی خدمت اور اس کی شرح ووضاحت کے اتنے متنوع اور گوناگوں پہلو سامنے آ گئے، تاہم اس کے ساتھ اس کا ایک سلبی پہلو بھی ہے جس کا میں ذکر کر رہا ہوں۔ آپ جیسے جیسے ابتدائی دور کا تفسیری ذخیرہ دیکھتے ہوئے نیچے آتے جائیں گے، آپ کو ہر دور میں تفسیر کے مباحث میں مزید تنوع اور وسعت پیدا ہوتی نظر آئے گی۔ شروع کے دور کی تفسیریں دیکھیں تو صحابہ وتابعین کے ہاں قرآن کی کسی آیت کی تشریح میں آپ کو بہت سادہ انداز نظر آئے گا۔ کوئی لفظ مشکل ہے تو وہ اس کی وضاحت کر دیں گے۔ آیت کے مفہوم اور عملی مصداق کو واضح کرنے کے لیے کسی واقعے کا حوالہ دے دیں گے۔ اسی کو عام طو رپر شان نزول کہہ دیتے ہیں۔ کسی آیت کے معنی ومفہوم کے حوالے سے کوئی اشکال کسی کے ذہن میں پیدا ہوا ہے تو اس کو وہ حل کر دیں گے۔ یہ ایک سادہ سا انداز ہے۔ لیکن جیسے جیسے آپ نیچے آتے جائیں گے، یہ دائرہ وسیع سے وسیع تر ہوتا ہوا دکھائی دے گا۔ آپ تفسیر کی کوئی بھی کتاب اٹھا کر دیکھ لیں، آپ کو بے شمار علوم کی بحثیں مل جائیں گی۔ شروع میں لوگ اپنے اپنے مخصوص دائرے میں قرآن کے متن سے نکات ومعارف استنباط کرتے تھے۔ نحویوں نے اپنے انداز میں فوائد جمع کیے اور فقہا نے اپنے انداز میں۔ اس کے بعد جو لوگ آئے، انھوں نے سوچا کہ کیوں نہ ان سب مباحث کو یکجا کر دیا جائے۔ اس طرح گوناگوں اور رنگا رنگ علوم وفنون کے مباحث تفسیر کے عنوان سے جمع کیے جانے لگے۔
آپ متاخرین میں سے مثال کے طو رپر پانچویں صدی کے امام رازی کی تفسیر اٹھا کر دیکھ لیں۔ اس کے بعد پچھلے دور میں روح المعانی دیکھ لیں۔ آپ کو دنیا جہان کے علوم سے متعلق بحثیں ملیں گی۔ ایک آیت پر غور کرتے ہوئے اہل نحو نے کیا کیا بحثیں اٹھائیں، وہ سب آپ کو مل جائیں گی۔ فقہا نے اس کے تحت کیا کیا مسائل چھیڑے، وہ بھی آپ کو دستیاب ہوں گے۔ اہل تصوف نے اس سے کیا کیا نکات مستنبط کیے، وہ بھی آپ کی ضیافت طبع کے لیے مہیا ہوں گے۔ اب اس طرز تفسیر کا سلبی پہلو یہ ہے کہ قرآن کا مختصر سا متن علوم وفنون کے اتنے بڑے انبار کے نیچے دب کر رہ جاتا ہے۔ انسانی ذہن کی یہ محدودیت مسلمہ ہے کہ آپ اس کے سامنے بیک وقت جتنی زیادہ چیزیں رکھ دیں گے، اس کی توجہ اتنی ہی تقسیم ہوتی چلی جائے گی، جبکہ توجہ طلب چیزیں جتنی کم سے کم ہوں گی، اتنا ہی انسانی ذہن ان پر اپنی توجہ کو بہتر انداز میں مرکوز کر سکے گا۔ انسانی ذہن کی ساخت اور اس کی خصوصیات کا مطالعہ کریں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ انسانی توجہ کی مثال روشنی کی سی ہے۔ روشنی کو ایک خاص جگہ پر مرکوز کیا جائے تو جس جگہ پر روشنی براہ راست پڑ رہی ہوتی ہے، وہ زیادہ واضح ہوتی ہے جبکہ اس کے اطراف وجوانب میں جو چیز اس مرکز سے جتنا دور ہوتی چلی جاتی ہے، اتنا ہی بتدریج اندھیرے کی زد میں آتی چلی جاتی ہے۔ یہی معاملہ انسانی توجہ کا ہے۔ انسان بیک وقت اپنی مکمل توجہ ایک آدھ سے زیادہ چیزوں پر مرکوز نہیں کر سکتا۔ ایک وقت میں آپ کی توجہ جس چیز پر جتنی زیادہ مرکوز ہوگی، اتنی ہی وہ آپ کے سامنے واضح ہوگی، جبکہ باقی چیزیں درجہ بدرجہ توجہ کے دائرے میں تو ہوں گی، لیکن اس طرح سے آپ کے ذہن کے سامنے واضح نہیں ہوں گی۔ چنانچہ متنوع علوم وفنون سے پیدا ہونے والی مختلف بحثوں کو تفسیر کے دائرے میں لے آنے کا بڑا نقصان یہ ہو اہے کہ قرآن کا اصل موضوع اور اس کا اصل مقصد یعنی تذکیر بالکل دب جاتا ہے۔ اب ایک طالب علم جو مختلف علوم وفنون سے واقف ہے اور ان میں دلچسپی رکھتا ہے، وہ جب قرآن کی طرف آتا ہے تو اس کے اصل پیغام اور اس کے اصل فائدے کی طرف جو قرآن چاہتا ہے کہ اس کے پڑھنے والے کو حاصل ہو، اس کا دھیان کم جاتا ہے جبکہ زوائد اور ضمنی بحثوں اور نکات کی طرف اس کی توجہ زیادہ مبذول ہو جاتی ہے۔ وہ یہ جاننے میں زیادہ دلچسپی محسوس کرتا ہے کہ یہاں علم نحو کا نکتہ کیا ہے، آیت کی شان نزول کیا ہے، علم کلام کا کون سا مسئلہ اس آیت سے متعلق ہے، قرآن نے جو بات اور جو واقعہ اجمال میں بیان کیا ہے، اس کی تفصیلات کیا ہیں، وغیرہ وغیرہ۔ تو یہ ایک پہلو ہے جس پر قرآن کے طلبہ کو متنبہ رہنا چاہیے اور خاص طو رپر میرے اور آپ جیسے طالب علموں کے لیے یہ بات خاص طو رپر توجہ کی محتاج ہے۔
ہماری علمی روایت میں جب مختلف علوم وفنون کا تفسیر کے ساتھ امتزاج ہوا اور تفسیر کے دائرے میں یہ سب چیزیں آتی چلی گئیں اور تفسیری مواد کا حجم بڑھتا چلا گیا، تفسیر کے نام پر ہر طرح کے علوم وفنون جمع کیے جانے لگے تو لازمی طور پر اس کا یہ نتیجہ نکلا کہ قرآن کے طلبہ کی اور تفسیر کے عنوان سے قرآن پر غور کرنے والے لوگوں کی توجہات ان زوائد کی طرف زیادہ ہوتی گئیں اور اکابر اہل علم کو اس صورت حال پر بے اطمینانی کا اظہار کرنا پڑا۔ مثال کے طو رپر ہمارے قریب کے دور میں شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ نے ’الفوز الکبیر‘ میں اس پر باقاعدہ بحث کی ہے کہ یہ جو تفسیروں میں شان نزول کی روایات کا انبار لگا ہوا ہے، اس سے قرآن کے طالب علم کو خلاصی دلوانی چاہیے، کیونکہ ان میں سے بیشتر روایات کا متن قرآن کے فہم سے کوئی واسطہ نہیں۔ ان کا ایک بہت محدود حصہ ہے جس کا انسان کے علم میں ہونا قرآن کے متن کے فہم کے لیے ضروری ہے اور یہ قرآن کے وہ مقامات ہیں جہاں اس نے عہد نبوی کے بعض متعین واقعات کو سامنے رکھ کر ان پر تبصرہ کیا ہے۔ ظاہر ہے کہ قرآن نے وہ سارا واقعہ اپنے متن میں بیان نہیں کیا۔ اس واقعے کی تفصیلات سے اس کے اولین مخاطبین پہلے سے واقف تھے۔ قرآن نے اس کو سامنے رکھ کر بس تبصرہ کر دیا ہے۔ اب اگر تاریخ وسیرت کا وہ حصہ آدمی کی نظر میں نہیں ہوگا جو ان آیات کے واقعاتی پس منظر پر روشنی ڈالتا ہے تو وہ قرآن کے تبصروں کی معنویت سے واقف نہیں ہو سکے گا۔ شاہ صاحب کا کہنا ہے کہ اس طرح کے چند مقامات کو چھوڑ کر، یہ جو ہر دوسری تیسری آیت کے تحت شان نزول کے نام سے دو چار واقعات درج کر دینے کا رجحان ہے، یہ تفسیر کے طالب علم کو ایک بے معنی مشغلے میں الجھا دینے کا ذریعہ ہے۔ وہ ساری زندگی اس طرح کی چیزیں جمع کرنے اور پڑھنے میں لگا رہتا ہے، جبکہ ان چیزوں کا قرآن کے متن کے فہم سے کوئی خاص واسطہ نہیں۔
مجھے یاد پڑتا ہے کہ ایک دوسرے مقام پر غالباً شاہ صاحب نے ہی علم تجوید سے اشتغال پر بھی اسی نوعیت کا تبصرہ کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ متاخرین کے ہاں قرآن کے الفاظ کی ادائیگی اور تلاوت میں لمبے چوڑے قواعد کی رعایت اور پابندی کا جو اہتمام دیکھنے کو ہے، اس کی وجہ سے لوگوں کی ساری توجہ تلفظ کی تصحیح اور تحسین صوت پر مرکوز ہو گئی ہے اور قرآن کے اصل مقصود سے ان کی توجہ ہٹ گئی ہے۔ شاہ صاحب کی اس بات میں بڑا وزن ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کے ہاں تو اس معاملے میں بڑی سہولت اور تیسیر دکھائی دیتی ہے۔ آپ کو معلوم ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر اللہ تعالیٰ سے باقاعدہ درخواست کی کہ قرآن تو بڑا اعلیٰ کلام ہے، بڑی فصیح وبلیغ عربی میں اترا ہے، جبکہ میری امت میں ہر طرح کے لوگ ہیں، سارے قرا نہیں ہیں۔ ان میں بوڑھے بھی ہیں اور ان پڑھ بھی ہیں۔ ان سب کو اس کا پابند نہیں کیا جا سکتا کہ وہ قرآن کو اس کے بالکل معیاری لہجے پر پڑھیں۔ ان کے لیے یہ رخصت ہونی چاہیے کہ جو شخص جس طرح بآسانی قرآن کو پڑھ سکے، پڑھ لے۔ صحابہ کے ہاں آپ دیکھیں، عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ لوگوں کو قرآن پڑھایا کرتے تھے۔ ایک موقع پر وہ ایک عجمی بوڑھے کو سورۂ دخان پڑھا رہے تھے۔ اس میں طَعَامُ الْأَثِیْمِ (الدخان: ۴۴) کے الفاظ آتے ہیں۔ یہ لفظ اس بوڑھے کی زبان پر نہیں چڑ ھ رہا تھا۔ عبد اللہ بن مسعود نے دو چار مرتبہ اسے کہلوانے کی کوشش کی، لیکن جب ناکامی ہوئی تو فرمایا کہ تم طعام الفاجر پڑھ لو۔ دونوں کا معنی ایک ہی ہے۔ اگر أَثِیْمِ زبان سے ادا نہیں ہوتا تو فاجر پڑھ لو۔
آج ہم قرآن کی تلاوت کے ایک معیاری لہجے کو کسوٹی بنا کر کہتے ہیں کہ ساری امت اسی کے مطابق پڑھے اور اگر کوئی نہیں پڑھے گا تو لفظوں کی ادائیگی میں معمولی فرق سے کفر وایمان کے اور نماز کے ادا ہونے یا نہ ہونے کے مسئلے پیدا ہوجائیں گے۔ یہ غلو کی بات ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کا انداز یہ نہیں ہے۔ قرآن کے الفاظ کو جس حد تک انسان کے لیے ممکن ہو، تجوید کے قواعد کے مطابق تحسین صوت اور تصحیح تلفظ کے ساتھ ادا کرنے کی کوشش یقیناًکرنی چاہیے، لیکن آپ لوگوں کی محنت اور توجہ کا مرکز ہی اس چیز کو بنا دیں کہ قرآن کی تلاوت میں اصل کام تو بس اس کو تجوید کے مطابق پڑھنا ہی ہے تو یہ بات اعتدال سے ہٹی ہوئی ہے۔ اسی لیے شاہ صاحب فرماتے ہیں کہ تجوید پر بہت زیادہ توجہ دینے کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ لوگ اسی کو مقصود سمجھ لیتے ہیں اور قرآن کے معانی ومطالب سے ان کی توجہ ہٹ جاتی ہے۔ آدمی حسب استطاعت بہتر سے بہتر انداز میں پڑھنے کی کوشش کرے، لیکن محنت اور توجہ کا اصل مرکز یہ بات ہونی چاہیے کہ قرآن جن حقائق کی تذکیر کرنا چاہتا ہے، اللہ کی جن صفات کی اور اللہ کی جن سنن کی طرف متوجہ کرنا چاہتا ہے، وہ کیا ہیں اور ان چیزوں کی تذکیر کی مدد سے مجھ سے کن تقاضوں کی تکمیل مطلوب ہے؟
یہاں میں اسی ضمن میں امام شاطبی کی ایک بات کا حوالہ بھی دینا چاہوں گا۔ امام شاطبی آٹھویں صدی ہجری کے ایک بڑ ے نامور مالکی عالم اور فقیہ ہیں۔ ’’الموافقات فی اصول الشریعہ‘‘ کے نام سے ان کی کتاب اصول فقہ اور فلسفہ دین میں ان چند اعلیٰ درجے کی کتابوں میں شمار ہوتی ہے جو اس موضوع پر علماے امت نے لکھیں۔ اس میں بے شمار مباحث ہیں۔ اس کی قسم ثالث ’کتاب المقاصد‘ کے عنوان سے ہے۔ اس میں انھوں نے ایک مستقل فصل قائم کی ہے جس میں وہ بیان کرتے ہیں کہ قرآن سے فائدہ حاصل کرنے اور اس کے پیغام تک رسائی حاصل کرنے کے لیے ایک خاص اصول ہے جسے صحابہ ملحوظ رکھتے تھے۔ وہ یہ کہ جب آپ کلام اللہ کو پڑھیں تو آپ کی توجہ اس کے ’’مقصود اعظم‘‘ کی طرف ہونی چاہیے۔ ظاہر ہے کہ کلام بہت سے الفاظ پر مشتمل ہوتا ہے۔ایک آیت میں مثال کے طو رپر دس پندرہ الفاظ ہوں گے۔ ہر لفظ کا اپنا ایک معنی ہوگا۔ پھر لفظوں سے جب تراکیب بنتی ہیں تو ان کے ساتھ کچھ مسائل وابستہ ہوتے ہیں۔ اگر آپ کلام کے اجزا میں اور اس کے ایک ایک لفظ میں الجھے رہیں گے تو پورے کلام کا جو اصل نکتہ ہے جس کا متکلم ابلاغ کرنا چاہتا ہے، اس سے آپ کی توجہ ہٹ جائے گی۔ اگر آپ کو اجزاے کلام میں سے کسی جز کا انفرادی فہم نہ حاصل ہو تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ پورے کلام کا حاصل اگر آپ تک منتقل ہو گیا ہے تو کلام کا اصل فائدہ آپ کو حاصل ہو گیا ہے۔ شاطبی کا مقصود اس بات سے اجزاے کلام سے کماحقہ واقفیت کی اہمیت کو کم کرنا نہیں۔ ظاہر ہے کہ ایک ایک لفظ پر لغت اور نحو کے اعتبار سے اگر آپ کی گرفت مضبوط ہوگی تو آپ کے فہم کا درجہ اور سطح بہت بلند ہو جائے گی، تاہم قرآن کے اصل مقصد یعنی تذکیر کے پہلو سے شاطبی کا بیان کردہ یہ نکتہ بہت اہم اور مفید ہے کہ آپ کی نظر کلام کے مجموعی مفہوم پر رہنی چاہیے۔ اگر مجموعی طو رپر کلام کا مقصود آپ پر واضح ہو گیا ہے تو اجزا میں سے کسی ایک آدھ جز کا معنی معلوم نہ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
اس بات کو واضح کرنے کے لیے شاطبی نے حضرت عمر کے ایک مشہور واقعے کا حوالہ دیا ہے۔ روایات میں بیان ہوا ہے کہ سیدنا عمر نے ایک موقع پر سورۂ عبس کی آیت وَفَاکِہَۃً وَأَبّا (عبس: ۳۱) پڑھی اور لوگوں سے پوچھا کہ لفظ ’اب‘ کا کیا مطلب ہے؟ شاید ا س کا لغوی معنی انھیں معلوم نہیں تھا۔ پھر خود ہی فرمایا کہ ’ما کلفنا ہذا‘۔ اگر نہیں پتہ تو ہمیں اس مشقت میں نہیں ڈالا گیا کہ ایک ایک لفظ کی پوری لغوی تحقیق ہمارے علم میں ہو۔ ایک روایت میں ہے کہ یہ سوال کسی دوسرے شخص نے ان سے کیا تو انھوں نے جواب میں کہا کہ ’نہینا التکلف والتعمق‘۔ ایک لفظ کا معنی اگر ہمیں معلوم نہیں تو ہمیں خواہ مخواہ تکلف کرنے اور تعمق میں پڑنے سے منع کیا گیا ہے۔
اب یہاں کلام کا جو اصل پیغام ہے، وہ بالکل واضح ہے۔وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سورۂ عبس کے اس حصے میں اپنی بہت سے نعمتوں کو گنوا کر انسان کو یاد دلا رہے ہیں کہ دیکھو، اللہ نے تم پر کیا کیا انعامات اور احسانات کیے ہیں اور ان کے اعتراف کے طو رپر تمھارا کیا فرض بنتا ہے۔ انسان کو چاہیے کہ وہ اپنی حقیقت پر نظر کرے کہ اسے کس چیز سے اور کیسے پیدا کیا گیا اور پھر یہ سوچے کہ اس جیسی حقیر اور بے حیثیت مخلوق کے لیے اللہ نے کیا کیا نعمتیں مہیا کرنے کا اہتمام کیا ہے۔ اس ضمن میں اللہ تعالیٰ نے مثال کے طور پر پانچ سات نعمتوں کا ذکر کیا ہے۔ اب ان میں سے ایک لفظ کا معنی اگر کسی شخص کو معلوم نہیں تو اسے ایک ’’علمی‘‘ نقصان تو شمار کیا جا سکتا ہے، لیکن کلام کا مجموعی مفہوم اور اصل مقصود بالکل واضح ہے اور وہ یہ ہے کہ انسان کے دل میں اللہ کی نعمتوں کے اعتراف اور قدر دانی اور اس کے مقابلے میں اپنی ناشکری کا احساس بیدار ہو۔ اگر ان آیات کو پڑھ کر یہ احساس انسان کے دل میں پیدا ہو گیا ہے تو قرآن کا مقصود حاصل ہو گیا ہے۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ قرآن مجید کو پڑھتے ہوئے اصل توجہ اس بات کی طرف ہونی چاہیے کہ قرآن کی آیات کو پڑھ کر دل میں خدا کا قرب حاصل کرنے کی، خدا کی عبادت کی اور خدا کی رضا کے حصول کی تڑپ پیدا ہو۔ اس بنیادی پہلو کو ملحوظ رکھتے ہوئے آپ جتنے چاہیں، ز وائد بھی حاصل کریں۔ آپ قرآن سے بلاغت کے نکتے بھی مستنبط کریں، نحو کے اسالیب پر بھی غور کریں، احکام وشرائع اور لطیف نکات بھی اخذ کریں، یہ سب کریں، لیکن اصل غرض کی قیمت پر نہیں۔ قرآن سے حاصل کرنے کی اصل چیز یہی تذکیر ہے۔ اگر یہ مجھے اور آپ کوحاصل نہیں ہو رہی تو باقی سب چیزیں درحقیقت ہماری توجہ کو بٹانے اور قرآن کے مقصد سے نظر ہٹانے کا کام کر رہی ہیں۔ کرنے کا پہلا کام یہ ہے کہ اس طرح کی باقی سب چیزوں سے کچھ عرصے کے لیے ’’ایلا‘‘ کر لیں۔ اپنے آپ کو اس بات کا عادی بنانے کی کوشش کریں کہ جو غذا آپ کو قرآن دینا چاہتا ہے، آپ کی طبیعت اس سے مانوس ہو جائے۔ جب یہ ہوجائے اور قرآن سے تذکیری غذا حاصل کرنے کا ذوق پختہ ہو جائے تو پھر باقی چیزیں بھی ان شاء اللہ قرآن کے طالب علم کے لیے مفید ہوں گی، لیکن اس کے بغیر یہ جو تفسیری نوعیت کی بحثیں ہیں، یہ آپ کی توجہ کو ہٹاتی رہیں گی۔ آپ کو تفسیری معلومات، نکات اور معارف تو بہت حاصل ہو جائیں گے، لیکن قرآن سے جو روحانی فائدہ آپ کو ملنا چاہیے، وہ ممکن ہے نہ ملے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو اس ضمن میں اس حد تک اہتمام فرمایا کہ عام دعوت وتبلیغ کے لیے او رمسلمانوں کی عمومی تعلیم کے لیے نصاب صرف قرآن کو قرار دیا اور اس کے علاوہ کسی اور چیز کو اس طرح مقصوداً واہتماماً تبلیغ اور تعلیم کا موضوع نہیں بننے دیا۔ چنانچہ ایک عرصے تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن مجید کے علاوہ خود اپنے ارشادات واقوال بھی لکھنے کی اجازت صحابہ کو نہیں دی۔ آپ نے فرمایا کہ قرآن کے علاوہ کچھ نہ لکھو، بلکہ ایک روایت کے مطابق لوگوں نے جو کچھ لکھا ہوا تھا، اس کے متعلق بھی فرمایا کہ اسے مٹا دو۔ مقصد یہ تھا کہ قرآن ہی کو لکھا جائے، اسی کو یاد کیا جائے، اسی کو لوگوں تک پہنچایا جائے، اسی کو پڑھا اور اسی کو پڑھایا جائے۔ اس میں یہ حکمت بھی یقیناًملحوظ تھی کہ کہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات وفرمودات قرآن کے متن میں شامل نہ ہو جائیں، لیکن اصل مقصد یہ تھا کہ پڑھنے پڑھانے اور تعلیم وتبلیغ کا موضوع قرآن کے متن کے علاوہ اور کوئی چیز نہ بننے پائے۔ اسی طرح سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے جب اپنے دور میں باقاعدہ تعلیمی پالیسی بنائی اور مختلف علاقوں میں نئے مسلمان ہونے والوں کی تعلیم وتربیت کے لیے اساتذہ اور معلمین کی تقرری کا ایک نظام وضع کیا تو انھیں یہ ہدایات دیں کہ جب تک لوگ قرآن سے مانوس اور واقف نہ ہو جائیں، انھیں احادیث سنا کر ان کی توجہ قرآن سے ہٹا نہ دینا۔ اس طرح انھوں نے واضح کیا کہ لوگوں کو اور خاص طو رپر نئے مسلمان ہونے والوں کے لیے نصاب تعلیم صرف قرآن ہونا چاہیے۔ قرآن کے علاوہ کوئی دوسری چیز ساتھ شامل ہوگی تو وہ ان کی توجہ قرآن سے ہٹا دے گی۔ ان کی توجہ صرف قرآن کی طرف رہے اور جب تک قرآن کے ساتھ ان کی واقفیت اور مناسبت گہری نہ ہو جائے اور وہ قرآن کے انداز کو سمجھنے کی صلاحیت بہم نہ پہنچا لیں، کسی اور چیز میں ان کی توجہ بٹائی نہ جائے۔ گویا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام نے اس کا اہتمام کیا کہ کسی دوسری چیز کے ساتھ، چاہے وہ دینی نوعیت رکھنے والی کیوں نہ ہو اور چاہے وہ خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات ہی کیوں نہ ہوں، ایسا اشتغال نہیں ہونا چاہیے جو قرآن کے متن کے ساتھ مسلمانوں کے تعلق کو کمزور کرنے کا ذریعہ بن جائے۔
قرآن کے ساتھ ہمارا تعلق زندگی بھر کا تعلق ہے۔ اس تعلق کے قائم ہونے ، اس کے نشوو نما پانے اور مضبوط سے مضبوط تر ہونے کا عمل ساری زندگی جاری رہتا ہے۔ کوئی مرحلہ ایسا نہیں آتا جس میں انسان یہ کہہ سکے کہ میں نے قرآن سے جو سیکھنا تھا، سیکھ لیا ہے اور اب میرے لیے اس کو پڑھنا محض تکرار ہے۔ قرآن کو روزانہ پڑھنا اور اس کے کسی نہ کسی حصے پر باقاعدہ غور کرنا، دین کے ایک طالب علم کو یہ چیز اپنے معمولات کا حصہ بنا لینی چاہیے۔ تلاوت تو ہر مسلمان کو کرنی چاہیے، وہ دینی زندگی کا ایک حصہ ہے۔ دین کے ایک طالب علم کو تلاوت کے ساتھ ساتھ قرآن کے کسی ٹکڑے پر روزانہ غور کرنے کا بھی اہتمام کرنا چاہیے۔ اس غور وفکر کے دوران میں جو سوالات سامنے آئیں، ان کو باقاعدہ طالب علمانہ طریقے پر نوٹ کریں۔ جو خیالات پیدا ہوتے ہیں، ان کو نوٹ کریں۔ کوئی بات سمجھ میں نہیں آئی، کوئی نکتہ واضح نہیں ہوا تو اس کے لیے تفسیروں کی مراجعت کریں۔ قرآن کے علما اور اس پر غور وفکر کرنے والے محققین سے استفادہ کریں، لیکن اس ساری تگ ودو میں اگر دلچسپی کا محور زوائد بن جائیں تو قرآن کا اصل پیغام، جو وہ چاہتا ہے کہ اس کے پڑھنے والے تک پہنچے اور وہ روحانی اثر جو قرآن چاہتا ہے کہ اس کے قاری کے دل پر پڑے، خدشہ ہے کہ انسان اس سے محروم رہ جائے گا۔ اس لیے کوشش کر کے، تربیت کر کے اپنے اندر اس ذوق کی نشوونما کریں۔ اس کے لیے خاصی ریاضت کی ضرورت ہوگی۔جب تک آپ اپنی تربیت نہیں کریں گے اور ریاضت کر کے اپنے آپ کو اس کا عادی نہیں بنائیں گے، قرآن سے کماحقہ فائدہ حاصل نہیں کر سکیں گے۔ قرآن سے حاصل ہونے والا اصل فائدہ عقلی اور فکری نہیں، بلکہ جذباتی، تاثراتی اور روحانی ہے۔ قرآن آپ کو اللہ کے قریب کرتا ہے، اللہ کی پہچان کراتا ہے اور اللہ کے ساتھ تعلق استوار کرنے میں آپ کی مدد کرتا ہے۔ مجھے اور آپ کو اس بات کے لیے کافی ریاضت کرنا ہوگی کہ زوائد سے صرف نظر کرتے ہوئے اصل مقصود پر توجہ دیں اور قرآن کی آیات سے وہ روحانی غذا حاصل کریں جو قرآن چاہتا ہے کہ ہمیں حاصل ہو۔
اللہ تعالیٰ ہمیں قرآن کا بہتر سے بہتر فہم حاصل کرنے اور اس کے تقاضوں پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائیں۔ اللہم اجعل القرآن ربیع قلوبنا ونور صدورنا وجلاء احزاننا وذہاب ہمومنا۔ آمین