حدود آرڈیننس اور اس ضمن میں اٹھنے والی بحث میرے لیے ایک سیاسی نہیں ‘سنجیدہ علمی و مذہبی مسئلہ ہے اور میں نے اسے ہمیشہ اس زاویے سے سمجھنے کی کوشش کی ہے ۔ مذہبی سیاست دانوں کے بیانات سے مجھ پر کبھی یہ واضح نہیں ہو سکا ہے کہ حدود آرڈیننس میں کیا چیز اسلامی ہے اور تحفظ حقوق نسواں قانون میں کیا غیر اسلامی۔ جب میں نے سنجیدہ اہل علم کی تحریروں اور بیانات سے روایتی علما کا موقف سمجھا ہے بعض ایسے امور سامنے آئے ہیں جن کی کوئی توجیہہ کرنا میرے لیے ممکن نہیں ہے۔ اس ضمن میں، میں سوالات آج کے کالم میں زبر بحث لانا چاہتا ہوں۔
۱۔ ہمارے مذہبی طبقات کا یہ موقف تواتر کے ساتھ ہمارے سامنے آیا ہے کہ حدود آرڈیننس عین اسلام ہے اور اس میں تبدیلی حدود اللہ میں تبدیلی ہے۔ اس مقدمے کے حق میں جو دلائل پیش کیے جا رہے ہیں‘ ان سے صرف نظر کرتے ہوئے میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ دین کے وہ علما جن کی علمی بصیرت پر یہ لوگ اعتماد کرتے ہیں وہ خود اس مقدمے سے متفق نہیں ہیں۔ ان میں ایک مولانا تقی عثمانی ہیں۔ مولانا علما کے اس وفد کے سرخیل ہیں جو تحفظ حقوق نسواں کے قانون پر حکومت کے ساتھ شریک مذاکرات رہا۔ مولانا محترم نے کچھ عرصہ پہلے اسلام آباد کے انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی سٹڈیز میں اس موضوع پر ایک لیکچر دیا۔ اسے ا ب کتابچے کی صورت میں شائع کر دیا گیا ہے۔ مجھے یہ لیکچر براہ راست سننے کا موقع ملا اور اب پڑھنے کا بھی۔ مولانا کے اپنے ادارے کے ترجمان ’’البلاغ‘‘ نے اکتوبر کے شمارے میں اسے شامل اشاعت کیا ہے۔
ان قوانین میں کس نوعیت کی ترمیم ممکن ہے ، اس کے بارے میں مولانا کا کہنا ہے’’جہاں تک اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ کے حکم یا آپ کے عطا فرمودہ قانون کا تعلق ہے، وہ تو یقیناً اتنا مقدس ہے کہ اس پر کسی اعتراض کی گنجائش نہیں، لیکن جب اس حکم کو ایک مدون قانون کی شکل دی جاتی ہے تو یہ ایک انسانی عمل ہے جس میں غلطیوں کا بھی امکان رہتا ہے۔ قانون کی تسوید(Drafting) ایک انتہائی نازک عمل ہے۔ اس میں ممکنہ صورت حال کا پہلے سے تصور کر کے الفاظ میں اس کا احاطہ کرنا پڑتا ہے اور ظاہر ہے کہ انسانی عقل محدود ہونے کی بنا پر بعض اوقات ہر صورت حال کا احاطہ کرنے سے قاصر رہتی ہے اور اس طرح مسودۂ قانون میں کمزوریوں کا امکان ہمیشہ رہتا ہے۔’’حدود آرڈیننس‘‘ بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہے۔ اس میں بھی تسوید کی غلطیاں ہو سکتی ہیں‘ اس میں بھی اس نقطۂ نظر سے بعض امور قابل اصلاح ہو سکتے ہیں اور جب تک اللہ اور اللہ کے رسولﷺکے حکم میں کوئی تبدیلی نہ ہو، اس میں بھی ترمیم و اصلاح کا عمل ہمیشہ جاری رہ سکتا ہے اور جاری رہنا چاہیے ، بشرطیکہ یہ عمل معروضی تنقید کے ذریعہ ہو کسی عناد کا نتیجہ نہ ہو۔
ایک دوسرے مقام پر مولانا تقی عثمانی نے یہی بات ان الفاظ میں کہی:’’اللہ تعالیٰ اور اللہ کے رسول ﷺ کے صریح احکام تو ہر تنقید سے بالاتر ہیں،لیکن ان احکام کو قانونی شکل دینے کے لیے جو مسودہ تیار کیا جاتا ہے وہ چونکہ ایک انسانی عمل ہے اس لیے اس میں اصلاح و ترمیم کا دروازہ ہمیشہ کھلا رہتا ہے ، حدود کے قوانین اگرچہ علما شریعت اور ماہرین قانون کی مشترک کاوش کے نتیجے میں بنے ہیں اور ان پر مختلف مرحلوں پر اور مختلف دائروں میں طویل غورو فکر ہوا ہے۔ اس کے باوجود نہ انہیں غلطیوں سے پاک کہا جا سکتا ہے نہ ان میں اصلاح و ترمیم کا دروازہ بند سمجھنا چاہیے۔‘‘اپنے اس لیکچر میں مولانا نے حدود آرڈیننس میں بعض تبدیلیاں بھی تجویز کی ہیں۔
اب میری گزارش یہ ہے کہ حدود آرڈیننس پر سنجیدہ اہل علم جو تنقید کر رہے ہیں اس کا تعلق اس مسودہ قانون سے ہے جو ’’انسانی عمل ہے، جس میں غلطیوں کا امکان رہتا ہے‘‘۔ وہ اصولی طور پر وہی بات کہہ رہے ہیں جو مولانا فرما رہے ہیں۔ جو لوگ اس مدون قانون میں تبدیلی کو حدود اللہ میں تبدیلی قرار دیتے ہیں‘ ان پر یہ لازم ہے کہ وہ اس پر اپنی رائے کا اظہار کریں کہ کیا ان کے اس موقف کا اطلاق مولانا تقی عثمانی صاحب پر بھی ہوتا ہے اور اگر نہیں ہوتا تو کس اصول پر؟ اگر رسوخ فی العلم رکھنے والا کوئی دوسرا آدمی یہی بات کہے تو وہ دین کے مخالف کیسے ہے؟
۲۔ تحفظ حقوق نسواں کے ابتدائی مسودہ قانون پر علما کمیٹی کا اعتراض یہ تھا کہ’’زنا بالرضا کی صورت میں اگر حد کی شرائط پوری نہ ہوں تو مجرم کو بالکل آزاد چھوڑ دیا گیا ہے حالانکہ اس صورت میں اگر بدکاری کا ثبوت گواہوں وغیرہ سے ہو جائے تو اس پر تعزیری سزا جاری ہونا ضروری ہے۔ حدود آرڈیننس میں اس کو زنا موجب تعزیر (Zina Liable to Tazir) قرار دیا گیا ہے اس میں یہ ترمیم ممکن ہے کہ اس کو زنا کانام دینے کی بجائے بدکاری یا سیہ کاری وغیرہ کا کوئی نام دیا جائے لیکن ایسے مجرموں کو کسی بھی سزا سے آزاد چھوڑنا عملاً زنا بالرضا کی قانونی اجازت کے مترادف ہو گا، کیونکہ حد تک شرائط تو شاذونادر ہی کسی مقدمے میں پوری ہوتی ہیں اور اس ترمیم سے ایسی صورت میں تعزیر کاراستہ بالکل بند ہو جائے گا۔‘‘
اس بنیاد پر علما کمیٹی نے تجویز پیش کی تھی کہ زنا کی ایک دوسری قسم اس قانون میں شامل کی جائے جسے ’’فحاشی‘‘ کہا جائے اور اس کے لیے پانچ سال تک قید اور جرمانے کی سزا دی جائے ۔ یہ تجویز موجودہ قانون میں شامل کر لی گی ہے۔
علمائے کرام کی خدمت میں، میرا مودبانہ سوال یہ ہے کہ کیا ایک جرم بیک وقت حد ہو سکتا ہے اور تعزیر بھی؟ حد کی تعریف علما نے یہ کر رکھی ہے کہ یہ وہ جرم ہے جس کی سزا قرآن یا سنت نے متعین کر دی ہے ۔ اگر زنا کی سزا قرآن و سنت نے طے کردی ہے تو کسی دوسرے کو کیا یہ حق حاصل ہے کہ وہ اس میں ترمیم کرے ؟ کیا زنا کو فحاشی کا عنوان دینے سے جرم کی نوعیت بدل جائے گا؟ اگر سود، مارک اپ کا نام دینے کے باوجود سود ہی رہتا ہے تو زنا ’’فحاشی‘‘ کے عنوان سے ’’زنا‘‘ کیوں نہیں رہتا؟ علما کمیٹی کے مطابق فحاشی کی تعریف یہ ہے: ’’ اگر ایک مرد اور عورت جو میاں بیوی نہیں ہیں، بالرضا جنسی تعلق قائم کرتے ہیں تو یہ فحاشی ہے‘‘۔ سوال یہ ہے کہ اگر یہ فحاشی ہے تو پھر زنا کیا ہے؟
علما نے اس بات کی ضرورت اس لیے محسوس کی ہے چونکہ حدود کی شرائط شاذو نادر کسی مقدمے میں پورا ہوتی ہیں۔ اس جرم کے لیے تعزیراً بھی سزا ہونی چاہیے۔ اس پر مذکورہ بالا سوالات کے ساتھ ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ اگر دیگر حدود میں اسی طرح فقہا کے بیان کردہ طریقہ ثبوت کے مطابق، جرم ثابت کرنا مشکل ہو جائے تو ان پر بھی تعزیراً سزا دی جا سکتی ہے؟ کیا اس کے بعد حد اور تعزیر کا کوئی فرق عملاً باقی رہ جائے گا؟ پھر یہ کہ جب اللہ تعالیٰ نے زنا کی ایک متعین سزا قرآن مجید میں بیان کی تو کیا معاذ اللہ وہ اس بات سے بے خبر تھے کہ کل حد کے طور پر اس مقدمے کو ثابت کرنا مشکل ہو جائے گا؟ میرے نزدیک سب سے اہم سوال یہ ہے کہ ایک حد کی سزا کو محض لفظی کھیل کے سہارے تبدیل کرنا ‘کیا حدود اللہ میں تبدیلی نہیں ہے؟
دلچسپ بات یہ ہے کہ مولانا تقی عثمانی نے خود حدود آرڈیننس پر جو اعترض کیا ہے وہ یہی ہے کہ ’’زنا موجب تعزیر کیا ہوتی ہے‘‘۔وہ لکھتے ہیں:’’میرے ناقص مطالعے کی حد تک قرآن کریم و سنت کی روشنی میں ’’زنا موجب تعزیر‘‘ کوئی چیز نہیں ہوتی۔ قرآن و سنت سے معلوم ہوتا ہے کہ زنا یا تو موجبِ حد ہے یا پھر وہ زنا نہیں ہے۔ اس اعتبار سے مجھے اس بات کی گنجائش نظر نہیں آتی کہ ایک شخص کے خلاف زنا موجب حد ثابت نہ ہو پھر بھی اسے زانی یا زانیہ کہا جائے۔ حدود آرڈیننس میں صورت حال یہ ہے کہ جہاں حد زنا کی شرائط پوری نہ ہوں، پھر بھی اسے زنا کہہ کر ہی تعزیر دی جاتی ہے۔ شرعی اعتبار سے یہ بات قابل اصلاح ہے۔ ایسی صورت میں ملزم کے جرم کو زنا نہیں کہا جا سکتا، اسے زنا سے کمتر کوئی اور جرم قرار دیا جا سکتا ہے، مثلاً فحاشی یا سیہ کاری وغیرہ، لیکن اسے زنا قرار دینا درست نہیں‘‘۔
کیا مولانا اس پر مطمئن ہیں کہ زنا کو فحاشی کا عنوان دینے سے وہ زنا نہیں رہے گا اور اس سے ان کا وہ اعتراض رفع ہو جائے گا جو انہوں نے مذکورہ بالا اقتباس میں اٹھایا ہے؟
اس ساری بحث کا تعلق ایک طالب علمانہ اشتیاق سے ہے۔ عملاً صورت حال یہ ہے کہ تحفظ حقوق نسواں کا قانون جوہری طور پر حدود آرڈیننس ہی کا نیا نام ہے۔ میں یہ نہیں جان سکا کہ جنرل پرویز مشرف صاحب اور ان کے ہم نوا کس کامیابی پر اظہار مسرت کررہے ہیں اور مذہبی طبقات کس تبدیلی پر ناراض ہیں؟