’’قدامت پسندی‘‘ ایک مبہم اصطلاح ہے ،اس کی حدود قیود اور خصوصیات کے متعلق کوئی ایک رائے نہیں پائی جاتی۔ یہ ہو سکتا ہے کہ کوئی انسان یا انسانوں کا کوئی گروہ ، زندگی کے کسی ایک پہلو کے متعلق بے لچک رویے کا مظاہرہ کر رہا ہو اور کسی دوسرے پہلو کے حوالے سے اس کا رویہ نرمی اور لچک لیے ہوئے ہو ۔ لیکن اس امر سے شاید ہی کسی کو انکار ہو گا کہ ماضی کے ساتھ انسان کا فطری لگاؤ ہوتا ہے اور وہ کسی بھی پیش آمدہ اور ممکنہ تبدیلی کو فوراََ قبول نہیں کرتا بلکہ اس کی راہ میں عموماََ مزاحم ہوتا ہے ۔ اس لیے ایک خاص ذہنی سطح کے لوگ جوخود بھی طبعاََ جمود پسند ہوتے ہیں ، انسان کے عمومی جمودی رجحان کو ہائی جیک کرکے لوگوں کی اکثریت کے نمائندے اور قائد بن بیٹھتے ہیں اور قدامت پسند کہلوانا پسند کرتے ہیں ۔
مسلمانوں کے جو مختلف گروہ اسلام کے تصورِ اجتہاد پر بات کرتے رہتے ہیں ، ان میں ایک گروہ قدامت پسندوں کا بھی ہے۔ یہ گروہ اجتہاد کی ایسی تعریف کرتا ہے جس میں اجتہاد کے علاوہ اور سب کچھ پایا جاتا ہے ۔ اگر قدامت پسندوں کی داخلی تقسیم پر نظر دوڑائی جائے تومعلوم ہوتا ہے کہ ان میں سے بعض گروہ تعفن پھیلانے کی حد تک جمود کے فروغ کے لیے کوشاں ہیں ۔ سرِ دست ہم ایسے گروہوں سے تعرض نہیں کریں گے ۔ اس وقت ہمارے پیشِ نظر قدامت پسندوں کا ایسا گروہ ہے ، جو اگرچہ نظری اعتبار سے جمودِ مطلق کا منکر ہے لیکن اپنی ذہنی افتادِ طبع کے باعث جمودِ مطلق کاعملاََ طواف کیے جا رہا ہے ۔ ایک معاصر قدامت پسند محمد تقی عثمانی نے اپنی تالیف ’’ تقلید کی شرعی حیثیت ‘‘ کے بین السطور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ ائمہ اربعہ کے بعد کوئی مجتہدمطلق جنم نہیں لے سکتا ۔دلچسپ بات یہ ہے کہ موصوف، تقلید میں جمود اور غلو کو قابلِ مذمت خیال کرتے ہیں اور اس کے باوجود کچھ ایسے خیالات رکھتے ہیں :
’’کسی امام یا مجتہد کی تقلید صرف اس موقع پر کی جاتی ہے جہاں قرآن و سنت سے کسی حکم کے سمجھنے میں کوئی دشواری ہو ، خواہ اس بنا پر قرآن و سنت کی عبارت کے ایک سے زائد معنی نکل سکتے ہوں ، خواہ اس بنا پرکہ اس میں کوئی اجمال ہو ، یا اس بنا پر کہ اس مسئلے میں دلائل متعارض ہوں ، چنانچہ قرآن و سنت کے جو احکام قطعی ہیں ، یا جن میں کوئی اجمال و ابہام ، تعارض یا اسی قسم کی کوئی الجھن نہیں ہے وہاں کسی امام و مجتہد کی تقلید کی کوئی ضرورت نہیں۔‘‘ ( تقلید کی شرعی حیثیت ، ص ۱۰، ۱۱ )
اس کا مطلب یہ ہو اکہ قطعی احکام میں بھی تقلید کی’’ گنجایش‘‘ موجود ہے اگرچہ ایسی تقلید کی ’’ ضرورت ‘‘ نہیں ہے ۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہاں بھی تقلید کی گنجایش نکال لی گئی ہے تو پھر تقلیدِ محض اور کسے کہتے ہیں ؟ جمود اور غلو کی اور کیا صورتیں ہو سکتی ہیں؟ حقیقت یہ ہے کہ ایسی گنجایش نکال لینا ہی تقلیدِ محض ہے ۔ چلیے ، یہاں یہ فرض کیے لیتے ہیں کہ تقی صاحب کی منشا وہ نہیں ہے جو ہم اخذ کر رہے ہیں ، حقیقت میں وہ قطعی احکام میں تقلید کے قائل نہیں ہیں ۔ اندریں صورت یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ’’ قطعی احکام کا تعین ‘‘ کون کرے گا ؟ کیا یہ ذمہ داری بھی ’’ فقیہِ شہر ‘‘ کی ہو گی کہ وہ پاپائیت کے سے انداز میں خدا کا نمائندہ بن کر ’’ عوام ‘‘ کے لیے قرآن و سنت کے قطعی احکام کا تعین کرے کہ لیجیے اب بغیر تقلید کے، ان احکام کی اطاعت کر لیجیے ؟ امرِ واقعہ یہ ہے کہ قطعی احکام کے تعین میں بھی اختلاف کی خاصی گنجایش موجود ہے ، اس لیے قرآن و سنت کے احکام کی ایسی قطعی تقسیم کافی مشکل ہو گی جو مجتہد اور عام لوگوں کے اختیارات الگ الگ کر سکے ۔ تقی صاحب نے جس ’’ دشواری ‘‘ کی طرف اشارہ کیا ہے وہ کافی مبہم اور غیر واضح ہے ، کیونکہ یہ عین ممکن ہے کہ کوئی حکم سمجھنے میں ایک فر د کو دشواری محسوس ہو اور دوسرے فرد کے محسوسات اس کے بالکل الٹ ہوں ، اس لیے یہ معاملہ اپنی نوعیت میں ’’اضافیت ‘‘ کی سرحدیں چھو لیتا ہے ۔اس سلسلے میں سب سے اہم گزارش یہ ہے کہ اگر قرآن و سنت کے کسی حکم کے ایک سے زائد معنی نکلتے ہیں ، اجمال ہے ، تعارض ہے یا ابہام ہے، تو غور کرنے کا مقام یہ ہے کہ شارع نے ایسا ’’ کیوں ‘‘ کیا ہے ؟ اگر شارع نے ایسی دشواری رکھی ہے تو اس کے پیچھے لازماََ کوئی حکمت پوشیدہ ہے۔ کیا اس حکمت کے مصداق کوئی خاص مقدس لوگ ہیں ؟ کیا اس حکمت کا مصداق کوئی خاص مقدس زمانہ ہے ؟ ہم سمجھتے ہیں کہ تقی صاحب کی فقہی بصیرت subjectivity سے مالامال ہے ، اس لیے ان کی نظر اپنے موقف کے ان داخلی تضادات پر نہیں گئی ۔ بہرحال ، اگر کوئی غیر جانبدار شخص مسلکی تعصبات سے بالاتر ہوکر ان کی تالیف کا جائزہ لے تو غالباََ یہی نتیجہ اخذ کرے گا کہ تقی صاحب فکری سطح پر status quo کے خواہش مند ہیں ۔ اگرکوئی ان کی خواہش کے محرک کو جاننے کی کوشش کرے گا تواسے وہ بھی اسی تالیف میں مل جائے گا ۔ وہ محرک ، بنیادی طورپر ان نتائج سے خوف زدگی سے عبارت ہے جو status quo ٹوٹنے کے بعد رونما ہوں گے ۔’’ تقلید کی شرعی حیثیت ‘‘ کے مولف ایک علمی شخصیت ہیں ، اس لیے مدرسے کے خول سے باہر تانک جھانک لیتے ہیں۔ اس تانک جھانک نے اتنا اثر ضرور دکھایا ہے کہ وہ ’’طے شدہ اصولوں کے دائرے ‘‘میں رہتے ہوئے اجتہاد کی ضرورت اور اہمیت کو تسلیم کرگئے ہیں ۔ڈاکٹر محمود احمد غازی کے بھی ایسے ہی خیالات ہیں ، ملاحظہ کیجیے :
’’جہاں تک اجتہاد کی پہلی سطح کا تعلق ہے اس کو اجتہادِ مطلق کہا جاتا ہے ۔ اس کے اجتہاد کرنے والے کو مجتہدِ مطلق کہتے ہیں ۔ مجتہدِ مطلق کا کام تقریباََ ختم ہو گیا ۔ جب فقہا نے یہ لکھا کہ اجتہاد کا دروازہ بند ہو گیا ، تو ان کی مراد یہی تھی کہ اجتہاد مطلق کا دروازہ بند ہو گیا ۔ دراصل اب اس کی ضرورت نہیں رہی ۔ اس لیے کہ جو کام اجتہادِ مطلق کے ذریعہ کرنا مطلوب تھا وہ سارا کا سارا کیا جا چکا ۔ اب دوبارہ اجتہادِ مطلق کی مشق کرنا انگریزی محاورہ کے مطابق پہیہ کو دوبارہ ایجاد کرنے کے مترادف ہے ۔ اس لیے یہ دروازہ عملاََ بند ہو چکا۔‘‘ ( محاضراتِ فقہ ، ص ۳۳۷، ۳۳۸)
ڈاکٹر صاحب نے اس عبارت سے قبل ، اجتہادِ مطلق کی تردید میں کافی دلچسپ نکات بیان کیے ہیں۔ ہم ان نکات کی تردید میں الجھے بغیر گزارش کریں گے کہ آخر ان ’’ محاضرات ‘‘ کی کیا ضرورت تھی ؟ ۔ انگریزی محاورے کے مطابق پہیے کو دوبارہ ایجاد کرنے کی انھیں یہ کیا سوجھی ؟ ۔ ڈاکٹر صاحب یہ سامنے کی بات نظر انداز کر گئے ہیں کہ ہر نئی نسل ماضی کی نسلوں کے تجربات پر انحصار نہیں کرتی ، بلکہ اسے خود ان تجربات سے گزرنا پڑتا ہے۔ محاضرات کے روپ میں خود ڈاکٹر صاحب بھی ان تجربات سے گزرے ہیں ، اب اگر مجتہدِ مطلق کے سے مراحل سے گزرنے کی ان میں سکت نہیں ، تو اس کا یہ حل نہیں کہ وہ سرے سے اس کے انکاری ہی ہو جائیں ، انھیں کم از کم نظری اعتبار سے، اجتہادِ مطلق کی ہمیشگی کو تسلیم کر لینا چاہیے ۔جناب محمد تقی صاحب عثمانی اور جناب ڈاکٹر محمود احمد غازی کے مانندجناب ابوعمار زاہد الراشدی کا بھی یہی موقف ہے ۔ زاہد صاحب لکھتے ہیں کہ :
’’قرآن و سنت کی تعبیر و تشریح اور اجتہاد کے اصول وضع کرنے کا ایک دور تھا ، جب دو چار نہیں بلکہ بیسیوں فقہی مذاہب وجود میں آئے ، مگر ان میں سے پانچ چھ کو امت میں قبول حاصل ہوا اور باقی تاریخ کی نذر ہو گئے ۔ اب کسی نئے فقہی مذہب کے اضافے کی گنجایش نہیں ہے ، اس لیے نہیں کہ اس کا دروازہ کسی نے بند کر دیا ہے یا اس کی صلاحیت و اہلیت ناپید ہوگئی ہے ، بلکہ اس لیے یہ کام ایک بار مکمل ہو جانے کے بعد اب اس کی ضرورت نہیں رہی اور ان مسلمہ فقہی مذاہب کے اصول و قوانین میں وہ تمام تر گنجایشیں اور وسعتیں موجود ہیں جن کی روشنی میں ہر دور کے مسائل کا حل تلاش کیا جا سکتا ہے۔‘‘ (ماہنامہ الشریعہ ، نومبر ۲۰۰۶ ، ص ۵ )
زاہد صاحب کے اس اقتباس کا پہلا فقرہ ہی کافی عجیب و غریب ہے ۔ اگر ان کی یہ بات مان لی جائے کہ قرآن و سنت کی تعبیر و تشریح اور اجتہاد کے اصول وضع کرنے کے زمانے لد گئے تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہمارے دور میں قرآن و سنت کی کیا معنویت باقی ہے ؟ ۔ حقیقت یہ ہے کہ زاہد صاحب کا یہ فقرہ ایک پوری مدرسی ذہنیت کی نمایندگی کر رہا ہے جس کے مطابق قرآن و سنت کا ’’ نچوڑ ‘‘ ایک خاص زمانے کے خاص لوگوں نے نکال لیا ہے اور یہ عمل خدا کی منشا کے عین مطابق ہے ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ایسا طرزِ فکر، دین (قرآن و سنت) کی آفاقیت کے منافی اور بے ادبی کے مترادف ہے ۔ زاہد صاحب جب یہ لکھتے ہیں کہ ’’۔۔۔ مسلمہ مذاہب کے اصول و قوانین میں وہ تمام گنجایشیں اور وسعیتں موجود ہیں جن کی روشنی میں ہر دور کے مسائل کا حل تلاش کیا جا سکتا ہے ‘‘ تو ہمارے جیسا قرآن و سنت کا طالب علم حیرت زدہ ہو جاتا ہے کہ’’ فقیہِ شہر‘‘ نے مسلمہ مذاہب کے اصول و قوانین کو کیسے اور کیونکر قرآن و سنت کے متوازی ہی نہیں بلکہ ایک قدم آگے بڑھا کر کھڑا کر دیا ہے؟ یعنی ماخوذ کو ماخذ کے سر پر سوار کر دیا ہے اورلا محدود کو محدود میں سمو دیا ہے ، آخر کیسے؟ زاہد صاحب کے مذکورہ اقتباس سے ایک واضح مطلب برآمد ہو رہا ہے کہ ہر دور میں قرآن و سنت کی تعبیر و تشریح اور اجتہاد کے اصول وضع کرنے کی ضرورت نہیں ہے، کیونکہ ایک خاص زمانے میں جو تعبیر و تشریح اور اصولِ اجتہاد طے کیے جا چکے ہیں ، وہ ہر زمانے کی ضرورتوں پر محیط ہیں ۔ لہذا اب زیادہ سے زیادہ یہ کیا جا سکتا ہے کہ طے شدہ تعبیر و تشریح اورطے شدہ اصولِ اجتہاد کے دائرے میں رہتے ہوئے ( جسے انھوں نے ’’ روشنی ‘‘ سے تعبیر کیا ہے ) ہر زمانے کے مسائل کا حل تلاش کر لیا جائے ۔ہم سمجھتے ہیں کہ اس نقطہ نظر میں جس قدر سادگی پائی جاتی ہے اس کے پیشِ نظر اس پر علمی بحث کی گنجایش باقی نہیں رہتی۔
زیرِ بحث اقتباس کا یہ جملہ بھی اہم ہے کیونکہ اس میں ایک روایتی موقف کا اعادہ کیا گیا ہے کہ ’’بیسیوں فقہی مذاہب وجود میں آئے مگر ان میں سے پانچ چھ کو امت میں قبول حاصل ہوا اور باقی تاریخ کی نذر ہو گئے ‘‘ ۔ یہاں امت میں قبول سے مراد غالباََ تعاملِ امت ہے ، جس کی طرف توجہ دلانا اکثر قدامت پسند، فرضِ عین خیال کرتے ہیں ۔ اسی فقرے کا دوسرا حصہ ایک بار پھر مدرسی ذہنیت کی چغلی کھا رہا ہے ، ’’اور باقی تاریخ کی نذر ہو گئے ‘‘ ۔ ہم زاہد صاحب سے استفسار کریں گے کہ کیا یہ بات واقعی ایسے ہی ہے جس طرح وہ فرما رہے ہیں ؟ ۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ بات کچھ اس طرح کہنی چاہیے کہ بیسیوں فقہی مذاہب وجود میں آئے مگر ان میں سے پانچ چھ کو تاریخ نے قبول کیا اور باقی تاریخ کی نذر ہو گئے یا یہ بات اس طرح کہی جا سکتی ہے کہ بیسیوں فقہی مذاہب وجود میں آئے مگر ان میں سے پانچ چھ کو امت میں قبول حاصل ہوا اور باقی امت میں مقبول نہ ہو سکے ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اہلِ مدرسہ جب تعاملِ امت کو تاریخ سے مکمل لاتعلق اور الگ انداز میں لیتے ہیں تو گڑ بڑ کے مرتکب ہوتے ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ کیا تعاملِ امت ( یا امت میں قبول حاصل ہونا ) میں تاریخی عوامل کی کارفرمائی نہیں ہوتی ؟ کیا تعاملِ امت ، تاریخ سے ماورا عمل ہے ؟ یعنی، کیا یہ زمان و مکان کی حدود و قیود میں واقع نہیں ہوتا ؟ اگر بعض مذاہب تاریخ کی نذر ہو گئے تو اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ ان کے تاریخ کی نذر ہونے میں تاریخی عوامل کا خاطر خواہ کردار ہے ( جیسا کہ زاہد صاحب تسلیم بھی کر رہے ہیں ) ، اسی طرح جن مذاہب کو قبول حاصل ہوا ، ان کی قبولیت میں بھی تاریخی عوامل کا ایک خاص کردار ہے( زاہد صاحب یہ پہلو قبول کرنے سے گریز کر رہے ہیں ) ۔یہاں یہ بات بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ تاریخی عوامل ، ہر زمانے اور ہر علاقے میں یکساں نہیں ہوتے ، بلکہ ان میں تنوع اور تغیر پایا جاتا ہے ۔ مسئلہ یہ ہے کہ قدامت پسند اہلِ مدرسہ ، جن کی نمائندگی یہاں زاہد صاحب کر رہے ہیں، ہمیشہ پورا سچ قبول کرنے سے گریز کرتے ہیں اور تعاملِ امت میں کارفرما تاریخی عوامل کو یکسر نظر انداز کر دیتے ہیں ۔ یہ ایک بدیہی حقیقت ہے کہ تاریخی عوامل اور تکوینی پہلووں سے مکمل چشم پوشی ، قدامت پسندوں کی جمود پسندی کا ایک بڑا سبب ہے ۔
اسی بات کو ایک اور رخ سے دیکھنے کی ضرورت ہے جس سے اسلام کے حرکی اور اجتہادی نظریے کا وہ پہلو نمایاں ہو جاتا ہے جس کی طرف ہم توجہ دلانا چاہتے ہیں ۔ قرآن مجید کے مطابق تمام انسان پہلے امتِ واحدہ تھے جو بعد میں قبائل اور قوموں میں تقسیم ہو گئے ( البقرۃ ۲:۲۱۳، ہود ۱۱: ۱۱۸، یونس ۱۰: ۱۹) ۔ پھر مختلف قوموں میں نبی مبعوث ہوئے جنھوں نے لوگوں کواللہ کا پیغام پہنچایا اور لوگوں نے پیغام قبول کرتے ہوئے اس پر عمل بھی کیا ( المائدہ ۵: ۴۸، البقرۃ ۲: ۶۲، الفاطر ۳۵: ۲۴، الرعد ۱۳: ۷) ۔اس امر میں کسی کو کلام نہیں کہ مرورِ ایام سے’’ پیغام اور عمل‘‘ اصل اور مقصود نہج سے ہٹتے چلے گئے ، اس لیے اللہ تعالیٰ نے لوگوں کی اصلاح کے لیے نبیوں کی بعثت جاری رکھی ، جس کا سلسلہ محمد مصطفی احمد مجتبی ﷺ پر آ کر ختم ہوا ۔ اہم بات یہ ہے کہ مختلف قوموں کے پاس مختلف زمانوں میں جو پیغمبر آتے رہے ہیں ، ان کے پیغام ایک جیسے تھے ۔ یہاں منطقی طور پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب کسی قوم کو ایک بار پیغام بھیج دیا گیا پھر اسی قوم میں دوبارہ پیغام بھیجنے کی ضرورت کیوں پیش آئی ؟ ۔ ظاہر ہے اس کا جواب یہی ہے کہ اس قوم کے فکروعمل ( تعامل ) میں بگاڑ پیدا ہو جاتا تھا ۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب ایک بار پیغام مل گیا تو پھر بگاڑ’’ کیوں‘‘ پیدا ہوتا ہے ؟ ۔ قدامت پسند اس ’’ کیوں ‘‘ کا جواب دینے سے جی کتراتے ہیں۔ حالانکہ ماضی میں( اسلام سے قبل ) اس کیوں کے جواب کی اتنی ضرورت نہیں تھی ، کیونکہ بگاڑ کی صورت میں خدا پیغمبر بھیج دیتا تھا ، اب چونکہ کوئی پیغمبر نہیں آئے گا ، اس لیے اب امتِ مسلمہ کو خود اس ’’کیوں ‘‘ کا جواب تلاش کرنا پڑے گا ۔ حقیقت یہ ہے کہ جب نبی خاتم ﷺ مبعوث ہوئے تو آپ ﷺ کی قوم کا بھی ایک تعامل تھا ، جو کسی گزرے ہوئے نبی کی تعلیمات پر مبنی صحیح فکر و عمل کا بگڑاہوا روپ تھا اور صحیح فکرو عمل کے بگاڑ میں مرورِ ایام کا بنیادی کردار تھا ۔ اب ذرا مرورِ ایام کو تحلیل کرنے کی کوشش کیجیے ، اس میں سے تکوینی پہلواور تاریخی عوامل وغیرہ برآمد ہوں گے ۔ تعاملِ امت کو حرفِ آخر سمجھنے والے ، کیا وضاحت کرنا پسند فرمائیں گے کہ کس قرآنی نص یا صحیح فرمانِ رسول ﷺ سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ نبی پاک ﷺ کی امت کا تعامل ، مرورِ ایام کی منفیت سے بے نیاز رہے گا ؟۔ حالانکہ اہم بات یہ ہے کہ نبوت کے خاتمے کے بعد چونکہ کوئی نبی نہیں آئے گا اور لوگ چونکہ مرورِ ایام سے بگاڑ کا شکار ہوتے رہیں گے ، اس لیے اسلام میں خاتمیت کے تصور کے تحت ، اجتہادِ مطلق ایسا متحرک اصلاحی عنصر بن جاتا ہے جو تعامل ( وغیرہ ) پر نظر ثانی کر کے بگاڑ کا قلع قمع کر دیتا ہے ۔ یوں سمجھیے کہ اسلام میں اجتہادِ مطلق کا وہی کردار ہے جو اسلام سے قبل کسی قوم میں بھیجے گئے دوسرے نبی کا ہوتا تھا ۔ دوسرے نبی کا بنیادی کردار یہی ہوتا تھا کہ وہ پہلے نبی کے پیغام کا احیا کر دیتا تھا ( جسے قوم نے بگاڑ لیا ہوتا تھا ) ۔ حیرت ہے ، قدامت پسند اہلِ مدرسہ ایسے اجتہاد کے منکر ہیں اور الٹا تعاملِ امت کو حجیت کے دائرے میں عملاََ لائے ہوئے ہیں ۔ عجیب بات یہ ہے کہ یہ قدامت پسند ہی ہیں جو یہ تسلیم کرتے ہیں کہ چونکہ لوگوں کا سنتِ رسول ﷺ پر عمل نہیں رہا تھا ( یعنی فکر و عمل میں بگاڑ پیدا ہو گیا تھا ) اس لیے علمِ حدیث کی داغ بیل ڈالی گئی ۔اس کا ایک مطلب یہ نکلتا ہے کہ ایک خاص دور میں تعامل میں بگاڑ پیدا ہوا ، اس کے بعد ایسے بگاڑ کی کو کوئی گنجایش موجود نہیں ، ’’دل کے بہلانے کو غالب یہ خیال اچھا ہے ‘‘ ۔ قدامت پسندوں کے تصورِ اجتہاد میں بنیادی تضاد یہی ہے کہ وہ ایک طرف تعاملِ امت اور اجماع وغیرہ ( جن کا تاریخ سے گہرا تعلق ہے ) پر اس قدرزور دیتے ہیں جس سے قرآن ( جو تاریخ سے ماورا ہے ) کی بالادستی مشکوک ہو جاتی ہے اور دوسری طرف تاریخی و تکوینی عوامل کی نفی کرکے اپنے تئیں تعاملِ امت اور اجماع وغیرہ کو تاریخ سے ماورا کرنے کی احمقانہ کوشش کرتے ہیں، اسی لیے ان کے ہاں مذکورہ بگاڑ کی گنجایش نہیں نکلتی ۔ اگر قدامت پسند، تعاملِ امت اور اجماع وغیرہ کو کلیدی حیثیت دینے پراس قدر مصر ہیں تو انھیں چاہیے کہ آدھے کے بجائے پورے سچ کو قبول کریں اور جرات مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے دینِ اسلام کے بجائے تاریخی اسلام (Historical Islam) سے وابستگی کا اعلان کریں ۔( تاریخی اسلام اور دینِ اسلام کی بحث کے لیے ماہنامہ الشریعہ نومبر ۲۰۰۶ میں ہمارا مضمون ’’ اسلامی تہذیب کی تاریخی بنیاد ‘‘ ملاحظہ کیجیے )۔
اب یہاں یہ دیکھنے کی ضرورت باقی ہے کہ قدامت پسند، اجتہادِ مطلق سے اتنا کیوں بدکتے ہیں ؟ ۔ اس کا جواب یہ ہے کہ ان کی خاص نفسیاتی سرحدیں ہیں ، جنھیں عبور کرنے سے وہ معذور ہیں ۔ ابھی چند روز پیشتر ہماری نظر سے ایک تحریر گزری جس میں بڑے فخریہ انداز میں بتایا گیا تھا کہ کسی’’ حضرت‘‘ کا چند عرب نوجوانوں سے ٹاکرا ہوا ، انھوں نے حضرت سے کہا ، ہم سلفی ہیں ، آپ کون ہیں ؟ حضرت نے جواب دیا ، حنفی ہوں ۔ اس کے بعد بھی یہ مکالمہ چلا ۔ کیونکہ ہم زاہدالراشدی صاحب کو قدامت پسندوں کے نمائندے کے طور پر لے رہے ہیں اس لیے اس سلسلے میں بھی ان کی ایک تحریر کا اقتباس نذرِ قارئین کیے دیتے ہیں :
’’میں ایک متصلب اور شعوری حنفی ہوں اور اپنے دائرہ کار میں اپنے فقہی اصولوں کی پابندی ضروری سمجھتا ہوں لیکن اس حقیقت کو نظر انداز کرنا بھی میرے لیے مشکل ہے کہ جس طرح گلوبلائزیشن کے بڑھتے ہوئے عمل نے مختلف ادیان کے حوالے سے مشترکہ عالمی سوسائٹی کی تشکیل کی راہ ہموار کر دی ہے اسی طرح مسلم ممالک کے درمیان آبادی کے روزافزوں تبادلہ نے فقہی مذاہب کے حوالے سے بھی مشترکہ سوسائٹیاں قائم کر دی ہیں اور دنیا کے مختلف حصوں میں سینکڑوں جگہ ایسا ماحول موجود ہے جہاں حنفی ، شافعی ، مالکی ، حنبلی اور ظاہری مکاتبِ فکر کے حضرات مشترکہ طور پر رہتے ہیں ، اکھٹے نمازیں پڑھتے ہیں اور مل جل کو دینی تقاضے پورے کرتے ہیں ۔ انہیں فقہی اختلافات کے حوالہ سے آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ کیسے چلنا ہے ؟ اس کی وضاحت آج کی مستقل ضرورت ہے۔ ہمارے فقہا نے اس کی حدود بیان کی ہیں لیکن ہماری اس طرف توجہ نہیں جس سے مسائل پیدا ہوتے ہیں ۔ ‘‘ (عصرِ حاضر میں اجتہاد اور اس کی قابلِ عمل صورتیں / شیخ زایداسلامک سینٹر جامعہ پنجاب لاہور / ص ۳۵ )
کیونکہ قدامت پسند گروہ داخلی اعتبار سے کم از کم پانچ چھ بڑے گروہوں میں منقسم ہے ، اس لیے کوئی متصلب حنفی ہے، متصلب مالکی ہے، کوئی متصلب شافعی ہے ، متصلب حنبلی ہے اور کوئی متصلب سلفی ہے ۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ یہ سارے گروہ ’’ شعوری ‘‘ بھی ہیں ۔ اب کوئی بھی انصاف پسند انسان ان ’’ شعوری ‘‘ گروہوں سے یہ توقع نہیں کر سکتا کہ وہ ’’اپنے شعور کی سرحدیں‘‘ کراس کر جائیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اجتہادِ مطلق کے لیے ( کم از کم اسے نظری سطح پر تسلیم کرنے کے لیے بھی ) نہ تو سلفی حنبلی شافعی ہو ناضروری ہے اور نہ ہی حنفی مالکی ہونا ، بلکہ اجتہادِ مطلق کے لیے ان سرحدوں کو کراس کر کے ’’ امتی ‘‘ ہو نا انتہائی ضروری اور ناگزیر ہے ۔ نفسیاتی اکائیوں میں منقسم قدامت پسندوں کوکم از کم وہ حدیث مبارک یاد رکھنی چاہیے جس کے مطابق نبی خاتم ﷺ قیامت کے روز شفاعت کے لیے سجدہ ریز ہوں گے تو اللہ کے حکم سے سر اٹھا کر فرمائیں گے ’’یا رب امتی امتی‘‘ ( صحیح بخاری ، کتاب التوحید ، ۳۶) اگر کسی روایت میں یارب سلفی سلفی ، یارب حنفی حنفی وغیرہ کے الفاظ موجود ہیں تو اہلِ علم سے درخواست ہے ہمیں مطلع کرکے شکریے کا موقع دیں ۔
زاہد الراشدی صاحب کی تحریر کا جو اقتباس ہم نے نقل کیا ہے، اس سے صاف معلوم ہو رہا ہے کہ وہ ایک مخمصے میں گرفتار ہیں ۔سچ یہ ہے کہ ہر صاحبِ فکرغیر روایتی قدامت پسند ایسے ہی مخمصے کا شکار ہے ۔ اگر ایسے قدامت پسند ، کسی فقہی دبستان سے لا محدود وابستگی کو حدود میں لے آئیں تو ایسے مخمصے سے چھٹکارا پا سکتے ہیں اور یہ کوئی مشکل کام نہیں ہے ، صرف اور صرف اپنے آپ کو متصلب اور شعوری امتی سمجھنا اور کہلوانا ہو گا ۔ مذکورہ اقتباس پر دوبارہ نظر ڈالیے اور آخری سطروں پر غور کیجیے ، زاہد صاحب گلوبلائزیشن کو تسلیم کر رہے ہیں کیونکہ یہ ایک امر واقعہ ہے ، لیکن اس کے حوالے سے جو سوالات اٹھ رہے ہیں ، زاہد صاحب انھیں صرف فقہی ( قانونی ) تناظر میں دیکھ رہے ہیں ۔ مسئلہ وہی ہے جو ہم نے اوپر بین السطور ڈسکس کیا کہ قدامت پسند حلقہ، تاریخی و تکوینی عوامل کی ماہیت ، سماج پر ان کے اثرات وغیرہ سے یکسر نابلد ہے اور کسی بھی معاملے کے محض قانونی و لفظی پہلووں کو پیشِ نظر رکھتا ہے ۔اس لیے یہ حلقہ ’’ کیوں ‘‘ کا خاطر خواہ احاطہ کرنے میں مکمل ناکام ہے ۔ محمد تقی صاحب عثمانی کو بھی ان کی حنفیت نے اس ’’ کیوں ‘‘ پر غور و فکر کرنے سے روکا ہوا ہے ۔ موصوف لکھتے ہیں کہ :
’’ فقہا کرام نے محسوس فرمایا کہ لوگوں میں دیانت کا معیار روز بروز گھٹ رہا ہے ، احتیاط اور تقوی ٰ اٹھتے جا رہے ہیں ، ایسی صورت میں اگر تقلیدِ مطلق کا دروازہ چوپٹ کھلا رہا تو بہت سے لوگ جان بوجھ کر اور بہت سے غیر شعوری طور پر خواہش پرستی میں مبتلا ہو جائیں گے۔‘‘ ( تقلید کی شرعی حیثیت ، ص ۶۱ )
( خیال رہے تقلیدِ مطلق سے مراد یہ ہے کہ کوئی شخص مختلف معاملات میں مختلف مجتہدین کی پیروی کر سکتا ہے ) ذرا غور فرمایے کہ فقہا کے محسوسات کیا ہیں ؟ کہ دیانت گھٹ رہی ہے ، احتیاط اور تقویٰ اٹھ رہے ہیں ، ذرا پھر غور فرمایے کہ فقہا نے ان امراض کا حل کیا نکالا ہے؟ اب زیرِ لب مسکراہٹ کے ساتھ اس حل پر داد دے دیجیے ۔لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ تقی صاحب اس حل پر داد و تحسین کے ڈونگرے برسا رہے ہیں :
’’لیکن اللہ تعالیٰ رحمتیں نازل فرمائے ہمارے بعد کے فقہا پر جو اپنے اپنے زمانے کے نبض شناس تھے اور جنھیں اللہ تعالیٰ نے زمانے کے بدلتے ہوئے حالات پر نگاہ رکھنے کی توفیق عطا فرمائی تھی ، انھوں نے بعد میں ایک زبردست انتظامی مصلحت کے تحت ’’ تقلید‘‘ کی مذکورہ دونوں قسموں میں سے صرف ’’ تقلیدِ شخصی ‘‘ کو عمل کے لیے اختیار فرما لیا اور یہ فتویٰ دے دیا کہ اب لوگوں کو صرف ’’ تقلیدِ شخصی ‘‘ پر عمل کرنا چاہیے ، اور کبھی کسی امام اور کبھی کسی امام کی تقلید کے بجائے کسی ایک مجتہد کو معین کرکے اسی کے مذہب کی پیروی کرنی چاہیے ‘‘ ( تقلید کی شرعی حیثیت ، ص ۶۰ ، ۶۱ )
حیرت انگیز بات یہ ہے کہ تقی صاحب تسلیم کر رہے ہیں کہ فقہا اپنے اپنے زمانے کے نبض شناس تھے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ اچھی طرح جانتے ہیں، زمانہ کیا ہوتا ہے اور یہ کہ وہ بدلتا بھی رہتا ہے ، لیکن نجانے وہ کیوں اس امر پر مصر ہیں کہ فقہی مذاہب کے اصولوں کی تشکیل کے بعد زمانہ بدلنا بند ہو گیا ہے ۔ یہاں ایک بنیادی سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تقی صاحب جس انتظامی مصلحت کا ڈھنڈورہ پیٹ رہے ہیں کیا وہ مستقل بالذات تھی ؟ یا زمانے کی ضرورت تھی ؟ ۔ آخر تقی صاحب تقلیدِ شخصی پر اس پہلو سے غور کیوں نہیں کرتے کہ یہ بعض محرکات کا نتیجہ ہے اور وہ محرکات ایک خاص زمانے کی پیداوار تھے ، لہٰذا تقلیدِ شخصی ، بالذات اصول نہیں ہے ۔ اگر فرض کر لیا جائے کہ وہ عوامل ابھی تک موجود ہیں جن کی وجہ سے ’’ تقلیدِ شخصی‘‘ کا رویہ اختیار کیا گیا ، تو کیا صحیح اسلامی رویہ یہ ہے کہ تقلیدِ شخصی کے جواز کے لیے اپنی ساری توانائیاں صرف کر دی جائیں یادین کی غایت یہ ہے کہ ان عوامل کی بیخ کنی کے لیے سرگرمی دکھائی جائے جن کی وجہ سے تقلیدِ شخصی کو اختیار کرنا پڑا ؟ ، تاکہ ان عوامل و محرکات کی بیخ کنی کے عمل کے دوران میں اور نتیجے کے طور پر بھی دین کا حرکی پہلو ہمیشہ متحرک رہے ۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ تقی عثمانی صاحب ان امور کو بہت مختلف زاویے سے دیکھ رہے ہیں ، وہ تو اس بات کے نہ صرف قائل ہیں بلکہ تلقین بھی فرما رہے ہیں کہ کسی عام مقلد کو تقلید کرتے وقت’’ دلائل‘‘ طلب نہیں کرنے چاہییں، پھر اس پر مصر ہیں کہ ایسا کرنا ’’تقلیدِ محض ‘‘ کے زمرے میں نہیں آتا ۔اس سلسلے میں تقی صاحب نے کافی دلچسپ دلائل دیے ہیں ، مثلاً :
’’حضرت سلیمان بن یسار ؒ فرماتے ہیں کہ حضرت ابو ایوب انصاریؓ حج کے ارادے سے نکلے ، یہاں تک کہ جب مکہ مکرمہ کے راستہ میں نازیہ کے مقام تک پہنچے تو ان کی سواریاں گم ہو گئیں ، اور وہ یوم النحر ( ۱۰ ذی الحج ) میں ( جبکہ حج ہو چکا تھا ) حضرت عمرؓ کے پاس پہنچے اور ان سے یہ واقعہ ذکر کیا ، حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ تم وہ ارکان ادا کرو جو عمرہ والا ادا کرتا ہے ( یعنی طواف اور سعی ) اس طرح تمھارا احرام کھل جائے گا ، پھر اگلے سال جب حج کا زمانہ آئے تو دوبارہ حج کرو ، اور جو قربانی میسر ہو ، ذبح کرو ‘‘ ( موطا امام مالک ؒ ، ص ۱۴۹، ہدی من فاتہ الحج )
یہاں بھی نہ حضرت ابو ایوب انصاریؓ نے مسئلے کی دلیل پوچھی اور نہ حضرت عمرؓ نے بتائی ، بلکہ حضرت عمرؓ کے علم و فہم پر اعتماد کرکے عمل فرمایا ، اسی کو تقلید کہتے ہیں ‘‘ ( تقلید کی شرعی حیثیت ، ص ۳۶ )
پہلی بات تو یہ ہے کہ اس سے متعارض آثار بھی بطور دلیل پیش کیے جا سکتے ہیں ، پھر لازماََ تطبیق کی کوئی صورت نکالنی پڑے گی۔ دوسری بات یہ ہے کہ تقی صاحب نے اس روایت سے جو معنویت اخذ کی ہے ، اسے زیادہ سے زیادہ ان کا’’ فہم ‘‘ قرار دیا جا سکتا ہے ، جو حجت نہیں ہو سکتا ۔ اس جملہ معترضہ سے قطع نظر یہاں ہم ان کی توجہ ایک بنیادی نکتے کی طرف مبذول کرانا چاہیں گے کہ کیا واقعی اسی نوعیت کی تقلید ، ائمہ اربعہ و دیگر مجتہدین کی، کی جانی چاہیے ؟ کیا صحابہ کرامؓ اور دیگر مجتہدین کے درجات میں عملی طور پر کوئی فرق نہیں ہے ؟ ۔معلوم ہوتا ہے کہ تقی صاحب کی رائے کے مطابق ایسا کوئی فرق موجود نہیں ہے ۔ لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ ایک بنیادی فرق موجود ہے اور ہمیشہ موجود رہے گا ۔ وہ بنیادی فرق ’’دلائل کے مطالبات ‘‘ کا ہے ۔ اور یہی فرق عملی طور پر ، تقلیدِ محض اور تقلید کی اس سطح کے درمیان ایک واضح لکیر کھینچ دیتا ہے جس تقلید کی گنجایش ہمیشہ موجود رہی ہے اور ہمیشہ موجود رہے گی ۔اگر اس فرق کو ملحوظِ خاطر نہیں رکھا جاتا ، یعنی اگر دلائل کا تقاضا نہیں کیا جاتا تو پھر تقلید ، جائز سطح سے بلند ہوتے ہوتے دینی عقائد کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے ( کیونکہ دلائل کی عدم موجودگی کے باعث ایک خاص مجہولی رویہ پنپنا شروع ہو جاتا ہے ) اور نتیجے کے طور پر معاشرے کی اکثریت ، عقائد سے شعوری وابستگی کے بجائے تقلیدی وابستگی پر قانع ہو جاتی ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ پچھلی کئی صدیوں سے مسلم معاشرے کی یہی حالت ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ قدامت پسندوں کی نظر اس حالت کی ’’ وجوہ ‘‘ پر نہیں ہے۔ بہرحال ، تقی عثمانی صاحب کے استدلال کا ایک اور نمونہ ملاحظہ کیجیے :
’’حضرت مصعب بن سعد ؒ فرماتے ہیں کہ میرے والد ( حضرت سعد بن ابی وقاصؓ ) جب مسجد میں نماز پڑہتے تو رکوع اور سجدہ پورا تو کر لیتے مگر اختصار سے کام لیتے ، اور جب گھر میں نماز پڑہتے تو رکوع سجدہ اورنماز ( کے دوسرے ارکان) طویل فرماتے ، میں نے عرض کیا ، ابا جان ! آپ مسجد میں نماز پڑہتے ہیں تو اختصار سے کام لیتے ہیں اور جب گھر میں پڑہتے ہیں تو طویل نماز پڑہتے ہیں ؟۔۔۔حضرت سعدؓ نے جواب دیا کہ بیٹے ! ہم ( لوگوں کے ) امام ہیں ، لوگ ہماری اقتدا کرتے ہیں ( یعنی لوگ ہمیں طویل نماز پڑہتے دیکھیں گے تو اتنی لمبی نماز پڑھنا ضروری سمجھیں گے ، اور جا و بیجا اس کی پابندی شروع کر دیں گے ) ‘‘( مجمع الزوائد للہیثمیؒ ، ج ۱ ص ۱۸۲، باب الاقتداء بالسلف )
اس روا یت سے معلوم ہوا کہ عام لوگ صحابہ کرامؓ کے صرف اقوال ہی کی تقلید نہیں کرتے تھے ، بلکہ بڑے صحابہؓ کا صرف عمل دیکھ کر اس کی بھی تقلید کی جاتی تھی، اور ظاہر ہے کہ عمل دیکھ کر اس کی اقتدا کرنے میں دلائل کی تحقیق کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، اسی لیے یہ حضرات اپنے عمل میں اتنی باریکیوں کا بھی لحاظ رکھتے تھے ‘‘ (تقلید کی شرعی حیثیت، ۳۷)
اس روایت پر ذرا غور فرمائیے ، کیا اس سے یہ مترشح ہوتا ہے کہ تقلید کے اثبات کے لیے اس سے ’’ اصول ‘‘ اخذ کر لیے جائیں؟ حقیقت میں یہاں پھر فقیہِ شہر کی بصیرت ، گل کھلا رہی ہے۔ جناب تقی صاحب ایک رسمی معاشرتی رویے کی نشاندہی کو اصولی و قانونی حوالے سے دیکھ رہے ہیں اور خرد کو جنوں اور جنوں کو خرد کہے جا رہے ہیں ۔اس تنقیدی مطالعے کے اختتام پر ابو عمار زاہدالراشدی کی تحریر کا ایک اقتباس ملاحظہ کیجیے اور غور کیجیے کہ وہ کس قدر گومگو کی حالت میں گرفتا رہیں :
’’اجتہاد کے حوالے سے جو کام اس وقت ہمارے خیال میں سب سے زیادہ ضروری ہے ، بد قسمتی سے وہی سب سے زیادہ نظر انداز ہو رہا ہے اور وہ ہے اقوامِ متحدہ کا انسانی حقوق کا چارٹر اور اقوامِ متحدہ کے مختلف اداروں کے وہ فیصلے اور ضوابط جنہیں بین الاقوامی قوانین کا درجہ حاصل ہے اور جن کی بنیاد پر متعدد اسلامی احکام و قوانین کی عالمی سطح پر نہ صرف مخالفت ہو رہی ہے بلکہ عالمی ادارے مسلم حکومتوں پر ان اسلامی احکام و قوانین کی مخالفت میں مسلسل دباؤ ڈالتے جا رہے ہیں ، مگر ان بین الاقوامی قوانین کے بارے میں ہمارے علمی حلقوں اور دینی اداروں کا کوئی مشترکہ موقف ابھی تک سامنے نہیں آیا ۔ ‘‘ ( عصرِ حاضر میں اجتہاد اور اس کی قابلِ عمل صورتیں / ایضاً )
ہم زاہد صاحب سے گزارش کریں گے کہ علمی حلقوں اور دینی اداروں کا مشترکہ موقف دیوانے کا خواب ہے ۔ جو علمی حلقے اور دینی ادارے ’’تقلیدِ شخصی ‘‘ کی تنگنائے کے اسیر ہوں وہ مشترکہ موقف کی طرف کیسے اور کیونکر بڑھ سکتے ہیں ؟ امرِ واقعہ یہ ہے کہ بات ’’ تقلیدِ شخصی ‘‘ سے بھی بہت آگے بڑھی ہوئی ہے ۔زاہد صاحب کے اقتباس کے حوالے سے ایک بنیادی سوال کرکے ہم قدامت پسندوں کے تصورِ اجتہاد پر بات ختم کرنا چاہیں گے ۔ وہ سوال یہ ہے کہ فقہی مذاہب کے دائروں میں رہتے ہوئے کیا اس سطح کا اجتہاد ممکن ہے ، جس کا تقاضا یہ اقتباس کر رہا ہے ؟
حاصل بحث
قدامت پسندوں کا تصورِ اجتہاد مکمل طور پر غلط نہیں ہے ۔ قدامت پسند حلقہ ، بیسیوں فقہی مذاہب کے وجود کو تسلیم کرتا ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس حلقے کے نزدیک بھی دین کی تعبیر اور اس کا معاشرے پر اطلاق stereotype نہیں ہے کیونکہ دین کی تعبیر و اطلاق اگر stereotype ہوتے ، تو صدرِ اسلام سے اب تک بلکہ قیامت تک ، فقط ایک ہی مذہب کا اسلامی سماج میں اثرونفوذ ممکن ہوسکتا ۔امرِ واقعہ یہ ہے کہ ایسا نہیں ہوا ۔ اہم بات یہ ہے کہ دین کی ایسی تعبیری و اطلاقی proliferation اس بیج سے مشابہ ہے جواگرچہ اپنے اندرکئی امکانات لیے ہوئے ہوتا ہے ، لیکن وہ اس عمل کا محتاج ہوتا ہے کہ انسانی ہاتھ اسے مَس کریں ، زمین میں بوئیں ، دیکھ بھال کریں اور خدا بھی اس انسانی عمل کی مدد پر آمادہ ہو ، یعنی سورج کی کرنیں اور بارش کی رم جھم وغیرہ اپنا کردار ادا کر رہے ہوں ، تو پھر بیج کے امکانات ، بتدریج وجود میں آجاتے ہیں ۔ یہاں یہ حقیقت بھی سمجھ لینی چاہیے کہ بیج ارتقا کے مراحل طے کرکے تناور درخت نہیں بنتا بلکہ ارتقا کے بجائے محض اپنے امکانات ( جو پہلے سے ہی اس کے اندرموجود ہوتے ہیں ) کو سامنے لاتا ہے۔ دین کی تعبیری و اطلاقی proliferation کا بھی یہی مطلب ہے کہ اس کے اندرپہلے سے موجودامکانات، انسانی عمل اور خدائی مدد سے وجود میں آجاتے ہیں ۔ اس کا ایک مطلب یہ ہوا کہ دین کی تعبیری و اطلاقی proliferation کے عمل سے انسان کو خوف زدہ ہو کر گریز نہیں کرنا چاہیے ، کیونکہ اس عمل میں وہ تنہا نہیں ہوتا بلکہ خدا کی مدد ہر لمحے اس کی شریک کار ہوتی ہے ۔ اس سلسلے میں قابلِ غور بات یہ ہے کہ اگر امکانات کے حامل بیج کو حضرت انسان بونے کے بجائے ویسے ہی پڑا رہنے دے تو بیج کے امکانات بیج کے اندر ہی دفن ہو جاتے ہیں ۔ بالکل یہی صورتِ حال دین کے ساتھ ہے۔ اگر دین کا حامل ہونے کے باوجود حضرت انسان اس کی تعبیری و اطلاقی حالتوں کو پیشِ نظر نہیں رکھتا ، یعنی اسے انسانی عمل سے وابستہ نہیں کرتا ، تو دین کے تعبیری و اطلاقی امکانات، کوئی اظہار پائے بغیر ختم ہوجاتے ہیں، کیونکہ یہ خودرو جھاڑیوں سے مشابہ نہیں ہیں جو محض تکوینی عمل سے اپنے اندر کے امکانات کو وجود بخشتی رہتی ہیں ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ متقدمین اس نزاکت سے بخوبی آگاہ تھے۔ بیسیوں فقہی مذاہب کا وجود اس امر پر دال ہے کہ متقدمین دین کو خود رو جھاڑی کے مانند خیال نہیں کرتے تھے بلکہ مذکورہ بیج کے مماثل سمجھتے تھے ۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے تعبیری و اطلاقی proliferation کرنے میں پہل کی، اور ان کے قدم آگے بڑھانے پر خدا نے بھی ان کو راہ دکھائی : وَالَّذِیْنَ جَاہَدُوا فِیْنَا لَنَہْدِیَنَّہُمْ سُبُلَنَا وَإِنَّ اللَّہَ لَمَعَ الْمُحْسِنِیْن (العنکبوت ۲۹: ۶۹ )
آج کے قدامت پسند، دین کی تعبیری و اطلاقی proliferation کے انکاری نہیں ہیں کیونکہ یہ امرِ واقعہ ہے ، اس لیے فقہی مذاہب کی سب سے زیادہ اطاعت انھی کے ہاں پائی جاتی ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ قدامت پسند ، فقہی مذاہب کی فقط مظہری تسلیمیت (phenomenal confession) کے قائل ہیں ، ان کی نظر واقعات کے اس تسلسل (continuity of incidents) پر نہیں ہے ، جن کی وقوع پذیری ، مربوط نامیاتی تعلق اورنموسے،اس مظہر کی مجموعی تشکیل ہوئی ہے، اورنتیجے کے طور پر دین کے چند تعبیری و اطلاقی امکانات سامنے آئے ہیں ۔ ہمیں حیرت ہے کہ قدامت پسندوں کی تیکھی نظروں سے یہ حقیقت کیسے چھپی رہ گئی کہ مختلف فقہی مذاہب کسی اچانک حادثے) Big Bang ( کا نتیجہ نہیں ہیں ، بلکہ ایک واقعاتی صورتِ حال (a given situation) کے چیلنج کے جواب میں اختیار کی گئی انسانی بصیرت کے باعث، جس میں خدائی مدد بھی شامل رہی، منصۂ شہود پر آئے ہیں ۔ اگر وہ اس حقیقت سے آگاہ ہیں توپھر ان کے جامد رویے کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ ان کی نظراس واقعاتی صورتِ حال کے فقط ظواہر(appearances) پر ہے ، انھوں نے اس کے باطن میں جھانکنے کی زحمت گوارہ نہیں کی۔ حقیقت تو یہ ہے کہ صرف ایک انسان کے باطن میں جھانکنے کے لیے جس درجے کی متانت ، سنجیدگی ، تعمق ، بصیرت اور مشاہداتی قوت درکار ہوتی ہے، اس کو دیکھتے ہوئے یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں ہے کہ بہت سے انسانوں کے باہمی تعلق سے جنم لی گئی صورتِ حال کے باطن تک رسائی کے لیے کس درجے کی ذہنی قابلیت درکار ہو گی۔ اندریں صورت یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا قدامت پسندوں میں ایسی ذہنی قابلیت نہیں پائی جاتی ؟ اگر اس سوال کے جواب میں ’’ہاں‘‘ کہا جائے تو ہمارے خیال میں یہ بہت زیادتی ہوگی ۔ قدامت پسند حلقہ ، ذہنی قابلیت کے اعتبار سے بانجھ نہیں ہے ۔ اس کے ساتھ مسئلہ صرف یہ ہے کہ وہ فقہی مذاہب کی مظہری تسلیمیت (phenomenal confession) کو اوڑھنا بچھونا بنا چکا ہے ۔ وہ ایک غیر مستقل واقعی صورتِ حال کے سحر کا شکار ہے۔ قدامت پسند حلقہ ’’پہل‘‘ کرنے کے بشری عمل سے خوف زدہ ہے ۔ وہ موجودہ واقعاتی صورتِ حال کے چیلنج کے جواب میں قدم آگے بڑھانے کے بجائے ، دین کی اسی تعبیری و اطلاقی proliferation کو کافی خیال کرتا ہے ، جو درحقیقت ایک خاص واقعاتی صورتِ حال کے چیلنج کا جواب تھی ، یقیناًہماری مراد فقہی مذاہب سے ہے ۔ قدامت پسند حلقہ یہ غور کرنا پسند نہیں کرتا کہ جس واقعاتی صورتِ حال کے باطن سے مختلف فقہی مذاہب کی تشکیل ہوئی ، وہ صورتِ حال آخر کن معنوں میں اتنی مختلف اور متغیر تھی کہ ایک فقہی دبستان کے بجائے مختلف دبستان وجود میں آئے۔ پھروہ اصول آخر کیونکر یکساں اور غیر متغیر ہوسکتے ہیں جن کی بنیاد پرارتقائی مراحل طے کر کے فقہ کی تدوین ہوئی۔ آخر کیسے ایک خاص واقعاتی صورتِ حال کے چیلنج کے جواب میں تشکیل پائے گئے’’ اصول‘‘ اتنے مستقل اور ابدی ہو سکتے ہیں کہ ان کے دائرے میں رہتے ہوئے کسی بہت مختلف واقعاتی صورتِ حال کے چیلنج کا جواب دے دیا جائے ؟یہ لحاظ کیے بغیر کہ کسی دوسری واقعاتی صورتِ حال کے باطن میں کیا کچھ پوشیدہ ہے ۔ لہٰذا ، معلوم ہوتا ہے کہ قدامت پسند حلقہ ، ایک فکری مغالطے کا شکار ہوکر اپنی ذہنی قابلیت کو خوامخواہ ضائع کر رہا ہے ۔اس حلقے کو اب اس حقیقت کا ادراک ہو جانا چاہیے کہ فقہی مذاہب کی اصولی حیثیت ، ایک خاص واقعاتی صورتِ حال میں، درحقیقت قرآن و سنت کی تعبیر و اطلاق کی ہے اور یہ لازمی امر ہے کہ کسی بھی تعبیری واطلاقی حالت سے ٹھوس غیر متغیر اصول اخذ نہیں کیے جا سکتے ۔ اس لیے لامحالہ، قرآن وسنت کی تعبیری و اطلاقی proliferation کی ہمیشگی و تسلسل کوتسلیم کیے بغیر کوئی چارہ کار نہیں ہے۔