مکاتیب

ادارہ

(۱)

محترم و مکرم مولانا عمار خان ناصر صاحب، 

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

اللہ کی ذات سے امید کرتا ہوں کہ آپ بخیروعافیت ہوں گے۔ 

آپ نے احسان فرمایا کہ دعوت وتبلیغ سے متعلق چند اہم مضامین کو، جو مختلف اخبارات میں شائع ہو جانے کے بعد وقت کی گرد میں گم ہورہے تھے، الشریعہ کے پچھلے کچھ شماروں میں شائع کرکے محفوظ کردیا اور اِنھیں اپنے قارئین تک پہنچانے کا بندوبست فرمادیا۔ آپ نے مزید احسان فرمایا کہ مولانا محمد یوسف صاحب، ناظم الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ کا مقالہ ’’دین کی جامعیت اور ہمارا عمومی مذہبی رویہ‘‘ الشریعہ کے شمارہ اگست ۲۰۰۶ء میں شائع فرمایا۔ یہ آپ کی بے پایاں محبت ہے ۔ کوئی تعلق ہو تبھی آدمی ایسی کھکھیڑ اُٹھاتا ہے ورنہ راہ چلتوں کو کلمۂ نصیحت بھلا کون کہتا ہے؟ اِسی طرح اگلے شمارے میں کسی مشتاق احمد نامی صاحب کا خط شائع ہوا، اگرچہ یہ معلوم نہ ہوسکا کہ طوطیِ پسِ آئینہ کون ہے۔ 

میں اِس مقالے کو آپ کا نمائندہ مقالہ تصور کرتے ہوئے آپ سے مخاطِب ہوں۔ آپ نے اپنے عظیم المرتبت والد مولانا زاہدالراشدی صاحب اور یکتائے روزگار دادا، استادِمحترم حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد سرفراز خان صفدر صاحب کے اقوال بھی پیش کیے۔ (یہاں آپ کی ذات سے حفظِ مراتب کی شان دار مثال وجود میں آگئی۔ کاش کوئی اِس اہم اخلاقی قدر کو آپ سے سیکھنے کی نیت کرے۔) مفتی محمد شفیع صاحب اور مفتی زین العابدین صاحب کے حوالے بھی تحریر فرمائے گئے۔ یہ نور علیٰ نور ہے۔ پھر اِس ساری بات کو مولانا سعید احمد خاں مہاجر مدنی رحمۃاللہ علیہ جیسے اِس دور کے نادر مجسمۂ اِکرام واَخلاق عالمِ ربّانی کے اقوال پر ختم کرکے گویا ’ختٰمہ مِسک‘ والا کام کیا گیا۔ سخن کوتاہ، یہ ایک اچھا مقالہ ہے جس میں تنقید بھی ہے اور ’تنبیہ الغافلین‘ کا پہلو بھی۔ 

عرض ہے کہ آپ حضرات علمائے کرام ہمارے سروں کے تاج ہیں۔ جو کمی دیکھیں، ہمیں نہ صرف متوجہ کرنے بلکہ ٹوکنے اور اِس سے بھی بڑھ کر ہمیں ہاتھ سے پکڑ کر سیدھا کرنے میں عنداللہ مامور ہیں۔ بلکہ شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا صاحبؒ کے الفاظ میں، اگر آپ حضرات ایسا نہ کریں گے تو عنداللہ گناہ گار ہوں گے۔ واللہ ہمیں کسی ذمہ دار نے یہ نہیں بتایا کہ علما کو درسِ حدیث چھوڑ کر ’’فضائلِ اعمال‘‘ پڑھنے کا حکم دیا جائے۔ اگر کسی گرم شِتاب نے کہیں ایسا کیا ہے تو نری جَہالت کی ہے۔ نصاب کی کتب پر اِکتفا تو عام احباب ہی کے لیے ہے۔ ایک خط میں مولانا محمد الیاسؒ نے علما کے لیے خاص طور سے ’’عربیت، صحابہؓ کے کلام، اعتصام بالکتاب والسنۃ، اور نشرِدین کی تحریص کے مضامین جمع کرنے کی انتہائی ضرورت‘‘ پر زور دیا ہے۔ اِسی طرح ایک جگہ تحریر فرمایا کہ ’’۔۔۔اہلِ علم خاص طور سے کتاب الاعمال، کتاب العلم والاعتقادات یا کتاب السنۃ یا کتاب الجہاد، کتاب المغازی، کتاب الفتن، کتاب الرقاق اور کتاب الامر بالمعروف مطالعے میں رکھیں۔‘‘ اِسی طرح مولانا محمد یوسفؒ نے تحریر فرمایا ہے کہ ’’۔۔۔پستی کا واحد علاج، فضائلِ تبلیغ، فضائلِ نماز، فضائلِ ذکر، فضائلِ قرآن، فضائلِ صدقات، حکایاتِ صحابہؓ، جزاء الاعمال عام اوقات میں عمومی مذاکرہ میں رکھی جائیں اور اِن کی تعلیمِ خصوصی کا فارغ اوقات میں ضرور اہتمام رکھا جائے۔ اور رمضان کے مہینے میں فضائلِ رمضان اور حج کے زمانے میں فضائلِ حج کی تعلیم کا اہتمام مزید بڑھالیا جائے۔ البتہ شخصی طور پر حسبِ استعداد وذوق حضرتؒ [مولانا الیاس] کی سوانح وملفوظات وغیرہ کو مطالعے میں رکھیں یا اِس کے علاوہ اور کتبِ حدیث وفقہ وسیرت اپنے ذاتی مطالعے میں رکھی جائیں۔۔۔۔‘‘ یاد رہے کہ مولانا محمد یوسفؒ نے یہ سب کچھ پڑھنا عوام کے لیے تجویز کیا ہے، اور اُن کے لیے یہی مناسب بھی ہے کہ اجتماعی تعلیم میں اِن کتابوں سے آگے نہ بڑھیں۔ خواص یعنی طبقۂ علما کے لیے اِزدیاد کا اندازہ اِس فہرست کو دیکھ کر بڑی آسانی سے کیا جاسکتا ہے۔ مولانا سعید احمد خاں صاحبؒ نے بھی ایک خط میں تحریر فرمایا ہے کہ دعوت کا سمجھنا قرآن کی تفسیر، احادیث، سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم و سیرتِ صحابہؓ کو پڑھے بغیر ممکن نہیں۔ 

یہ بات آپ حضرات کے علم میں ہے کہ مولانا محمد الیاسؒ کے نزدیک امت کے دو ہی طبقے ہیں: علما اور عوام۔ اور امت کے اِنھی طبقوں کے درمیان جوڑ ہی اُن کے کام کا اہم ترین مقصد ہے، اور اِسی کے لیے وہ اپنی جان اور صلاحیتوں کو ایندھن کرتے رہے۔ اپنے ایک خط میں شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا صاحبؒ کو تحریر فرمایا کہ: ’’۔۔۔آپ جیسے اہلِ حق کی نگرانی کا میں سخت محتاج ہوں۔ اور اپنی نگرانی کا آپ حضرات مجھے ہر وقت محتاج خیال کریں، کہ اِس میں کی خیر پر مجھے جمنے کی تاکید فرماویں اور اِس میں کے شر سے مجھے جھنجھلاہٹ سے منع کردیں۔۔۔۔‘‘ علما کا کون سا طبقہ تھا جس کی طرف مولانا الیاسؒ نے توجہ میں کمی کی ہو؟ مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ فرماتے ہیں کہ: ’’ایک روز میں نے [مولانا الیاسؒ سے] عرض کیا کہ حضرت! ندوہ کے لوگوں نے اہلِ دین کی طرف ہمیشہ عقیدت کا ہاتھ بڑھایا مگر اُن کی طرف سے اِس کے جواب میں محبت کا ہاتھ نہ بڑھا۔ اِن کو ہمیشہ بیگانگی اور غیریت کی نگاہ سے دیکھا گیا۔ خدا کا شکر ہے، آپ نے ہمارے سر پر شفقت کا ہاتھ رکھا اور ہمارے ساتھ یگانگت کا معاملہ کیا۔ مولانا کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے اور فرمایا آپ کیا فرماتے ہیں؟ آپ کی جماعت تو اہلِ دین کی جماعت ہے۔ میں تو علی گڑھ والوں کو بھی چھوڑنے کا قائل نہیں۔ اُن سے بھی بُعد اور وحشت صحیح نہیں۔‘‘ اِسی کا نتیجہ ہوا کہ مولانا کی دعوت وتحریک میں باہم مختلف الخیال مدارسِ دینیہ کے ساتھ ساتھ انگریزی کالجوں اور یونیورسٹیوں کے طلبہ اور اساتذہ، اور تجارت پیشہ، ملازمت پیشہ اور ہر طرح کے کاروباری مسلمان دوش بدوش ہیں۔ کوئی دوسرے سے متوحش نہیں۔ مولانا مرحوم ہر ایک کے امتیازِخصوصی کی خوب داد دیتے اور تعریف فرماتے تھے۔ کسی کی دینداری کی، کسی کی سلیقہ مندی کی، کسی کی حاضردماغی اور تجربہ کاری کی۔ اُن کے نزدیک ہر ایک کی فطری صلاحیت دین کے کام میں لگنی چاہیے تھی۔ 

ذات خدا کی بے عیب ہے۔ ہم تو کام کرنے والے نہیں، کام کو بگاڑنے والے لوگ ہیں۔ ہمارے جسم کا ریشہ ریشہ رُوآں رُوآں آپ حضرات علمائے کرام کا احسان مند ہے۔ ہم دراہم و دنانیر کے بندے ہر آن، ہر گھڑی، ہر سانس، اللہ کی توفیق اور آپ حضرات کی رہنمائی کے محتاج ہیں۔ ہم میں کا کوئی بے وقوف اگر کسی حماقت کا مرتکب ہوتا ہے یعنی علما کی بے توقیری و بے اِکرامی کربیٹھتا ہے تو آپ اپنے بڑوں کے اُسوہ پر چلتے ہوئے نادانیوں سے صرفِ نظر اور اللہ سے دعا ہی میں اضافہ فرماویں۔ ایک کارگزاری میں معلوم ہوا کہ پچھلے دنوں آپ کے شہر میں چند سادہ مسلمانوں کی ایک جماعت ایک بڑے محدث، عالمِ دین کی خدمت میں حاضر ہوئی تو اُن کے ایک ساتھی نے حضرت سے کہا کہ ’’آپ کو بھی دین کا کام کرنا چاہیے۔‘‘ مقام تو رونے کا تھا لیکن اِس پر ایک ساتھی نے ہنستے ہوئے تبصرہ کیا کہ اُن عالمِ دین کو اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ وہ اِس مقام پر پہنچ گئے کہ اُن کے سامنے ایسی نالائقی کی بات کی گئی۔ اللہ ہر ایک سے اُ س کی حیثیت کے مطابق معاملہ فرماتا ہے۔ ہر عالمِ دین ایسے مقام پر نہیں ہوتا کہ ایسا سخت جملہ اُس کے روبرو کہا جائے۔ اِس واقعہ میں افسوس کا جو پہلو ہے، وہ تو ظاہر ہے لیکن اطمینان کا پہلو یہ ہے کہ علما کے سامنے ہماری جَہالت پورے طور پر آشکارا ہوگئی۔ یعنی پہلے اگر وہ کسی حیثیت میں ہم لوگوں کے بارے میں مطمئن ہوگئے تھے تو اب اُن پر یہ کھل گیا کہ یہ لوگ کتنے محتاجِ توجہ و نگرانی ہیں۔ اِس پر اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے۔ دعا میں اضافے کا اہتمام اور آپ حضرات سے دعا کی اِلتجا کا مذاق بھی ہم نالائقوں کو مولانا محمد الیاسؒ کے ملفوظات ومکاتیب سے ملتا ہے۔ اپنے ایک خط میں شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا صاحبؒ کو تحریر فرمایا کہ: ’’۔۔۔اِسی اثر کی بنا پر سائل و طالبِ عاجز ہوکر آپ کی بارگاہ کی طرف ملتجی ہوں کہ ۔۔۔ باستقلال و طمانیتِ تامہ اِس کام پر جمنے اور چالو ہونے کے لیے بارگاہِ ایزدی میں ملتجی و داعی بخشوع و خضوع بہت استقلال سے رہیں اور اِس کے لیے پوری ہمت صرف فرماویں۔۔۔ نیز ظاہری کوئی تدبیر اِس کی تثبیت و تنشیط کی ذہن میں آوے، اِس میں سعی کریں۔۔۔‘‘ اللہ کی توفیق سے دعوت کا یہ کام جتنا اب تک ہوا، حضرات علمائے کرام ہی کی سرپرستی میں اور توجہات کے جلو میں ہوا۔ آئندہ بھی اِس کا یہی چلن رہے گا کیوں کہ یہ چلن اللہ کے ہاں مقبول ہوچکا ہے۔ 

آپ ’الشریعہ‘ والے حضرات کی اس حکمتِ عملی کو کہ مختلف اصحابِ فکر ودانش اپنی اپنی آرا وافکار کا اظہار فرماتے رہیں، کچھ ظاہربیں لوگ یہ سمجھ بیٹھے کہ آپ دعوت وتبلیغ کے خلاف لکھ/لکھوارہے ہیں حالانکہ اِن افکار اور نقاطِ نظر پر جو تنقیدی مضامین اور خطوط وغیرہ موصول ہوتے ہیں، ان کو بھی آپ من وعن شائع فرماتے ہیں۔ عرض ہے کہ پایۂ وثاقت سے گرے ہوئے ایسے اعتراضات کی طرف توجہ نہیں دینی چاہیے۔ اگرچہ زیادہ مناسب یہی ہے کہ ہر تحریر کو شائع نہیں کرنا چاہیے۔ کیا معلوم کہ چند تحریریں جو آپ کسی خاص ترتیب میں شائع کرنے کے بعد معاملات کو ایک دھڑے پر لے جانا چاہ رہے ہوں، اپنی فرادہ فرادہ حیثیت میں کسی سطح بین کے لیے فوری نقصان کا سبب بن جائیں۔ جن کمیوں کی طرف توجہ دلائی گئی ہے، وہ زیادہ تر اِنفرادی نوعیت کی ہیں۔ اِن شاء اللہ اِن کو دور کرنے کی بات بھی اِسی طور سے چلائی جائے گی۔ آپ کے خانوادے کی دعوت کے کام سے محبت کی وجہ سے ہم امید کرتے ہیں کہ آپ آئندہ بھی نہ صرف قلمی طور پر اپنی توجہات سے نوازتے رہیں گے بلکہ علیٰ الترتیب السابق ہمارے نکلے ہوئے لوگوں کو اپنی براہِ راست نگرانی سے فیض یاب بھی فرماتے رہیں گے، کہ اِس گرم اِختلاط کے بغیر نہ آپ تک ہماری کمیاں پورے طور پر پہنچ سکتی ہیں اور نہ ہی اِن کا انسداد پورے طور پر ہوسکتا ہے۔ یہ لوگ جو اللہ کے دین کو سیکھنے کے لیے گھروں کو چھوڑتے ہیں، ’’نکلنے‘‘ کی اِس ایک خوبی کے علاوہ ہر ہر چیز میں ہر لحظہ آپ حضرات کی کامل، ذاتی توجہ کے محتاج ہیں۔ دین کی طلب سے زمانہ علی العموم خالی ہے۔ چوں کہ یہ نکلے ہوئے لوگ بھی مادّیت والے جراثیم کی فضا کے عمومی اثرات سے بچے ہوئے نہیں ہیں، اِس لیے آپ حضرات کے رحم، شفقت اور بلاواسطہ نگرانی کے اور بھی زیادہ محتاج ہیں۔ دعوت ایک عملی کام ہے۔ کوئی عملی کام گھر بیٹھے یا کتابوں سے یا صرف علم حاصل کرلینے سے نہیں آتا۔ غلطی کام کرنے والے ہی سے صادر ہوتی ہے۔ اَز خرداں خطا و اَز بزرگاں عطا۔ آپ سے بڑی لجاجت سے عرض ہے کہ آپ حضرات ہماری اصلاح وبہتری کی ہر ممکن کوشش فرماتے رہیں اور اللہ سے ہمارے راہِ مستقیم سے بچل جانے سے پناہ بھی مانگتے رہیں۔ اللہ ہمیں حضرات علمائے کرام کے مقام کو پہچاننے اور اُن کا شایانِ شان اِکرام کرنے والا بنادے اور ہماری کسی نالائقی کی وجہ سے ہمیں اُن کی برکات وتوجہات سے محروم نہ فرمائے۔ آمین۔ 

حافظ صفوان محمدچوہان

D-62، ٹی این ٹی کالونی ، ہری پور

(۲)

محترم مدیر ماہنامہ ’الشریعہ‘

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ 

الشریعہ ستمبر ۲۰۰۶ء کے شمارہ میں ایک تحریر ’’مجلس عمل کی سیاسی جدوجہد۔ چندسوالات‘‘نظر سے گزری جس میں محترم چوہدری محمد یوسف ایڈوکیٹ صاحب نے مجلس عمل کی چار سالہ کارکردگی اور تاریخی خدمات پر اظہار اطمینان کرنے کے بجائے سوالات کی بوچھاڑ کردی ہے۔ خیر ان کا بھی اتنا ہی حق ہے جتنا کہ دوسرے ناقدین کا کہ وہ اپنے خیالات کا اظہار کریں ۔

پہلا سوال انہوں نے یہ کیا ہے کہ ’’مجلس عمل میں چار بڑے قائدین ،مولانا فضل الرحمن ،مولانا سمیع الحق ،پروفیسر سنیٹر ساجد میر اور قاضی حسین احمد کے مابین چار سال بعد بھی نمائشی یکجہتی کے سوا کیا سامنے آیا ہے؟‘‘ ان کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ مجلس عمل میں کوئی نمائشی یکجہتی نہیں بلکہ مجلس عمل کے قائدین معاملہ فہم اور حالات پر گہری نظر رکھنے والے پر مغزمذہبی وسیاسی رہنما ہیں۔ وہ مجلس عمل کو ہرگز ٹوٹنے نہیں دیں گے۔

جناب ایڈوکیٹ صاحب لکھتے ہیں: ’’چار سال میں پبلک کے مسائل پر ہماری پارلیمانی پارٹی نے، جو تاریخی لحاظ سے ہماری سب سے بڑی اور سب سے زیادہ باصلاحیت نمائندگان پر مشتمل پارٹی ہے، کوئی ترجیحات طے کیں اور ان کے لیے کوئی لائحہ عمل ترتیب دیاہے ؟‘‘ اگر ایڈوکیٹ صاحب سرحدحکومت کی چار سالہ کارکردگی پر ایک نظر ڈال لیتے تو انھیں اس سوال کا جواب مل جاتا۔ سرحد حکومت نے صوبے اور عوام کے حقوق کے لیے وفاق کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کی ہے۔ غیر ترقیاتی اخراجات کو کم کرکے وسائل کو عوام کی فلاح وبہبود کے لیے خرچ کیاگیا۔ سرحد کے میگا پروجیکٹ کو وفاقی حکومت سے منظور کروایا گیا جو سرحد حکومت کی بڑی کامیابی ہے۔ غیر ترقیاتی اخراجات میں کمی کرکے تعلیم اور صحت کے شعبوں کو فعال کرنا، روزگار کے مواقع کی فراوانی، امن وامان کا قیام، سماجی بہبود، شریعت ایکٹ کی منظوری، معاشی اصلاحات کمیشن، تعلیمی اصلاحات کمیشن، سرکاری دفاتر میں نظام صلوٰۃ کا قیام، شراب، جوا اور فحاشی پر پابندی، حسبہ ایکٹ کی منظوری، اسلامی بینکاری کا اجرااور حکومتی معاملات میں شفافیت اور میرٹ کے کلچر کا فروغ انتہائی احسن اقدامات ہیں۔

جہاں تک پرویز مشرف کی وردی اورسمجھوتے کی بات ہے تو یہ مجلس عمل خصوصاً مولانا فضل الرحمن پر محض ایک الزام ہے۔ پرویز مشرف جیسے سیکولر اور فوجی حکمران کو قوم کے سامنے کھڑا کر کے یہ کہلوانا کہ ’’میں دسمبر ۲۰۰۴ء کے آخر میں وردی اتاردوں گا‘‘ مجلس عمل کی بہت بڑی کامیابی او رسیاسی فتح ہے ۔ اگر مشرف نے وعدہ کرکے وردی نہیں اتاری تو اس کا الزام مجلس عمل پر لگانا اور فرینڈلی اپوزیشن کا طعنہ دینا محض افترا، ضداور عناد پر مبنی ہے۔ حقیقت کا اس سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔

موصوف نے فرمایا کہ کوئی دو پارلیمنٹیرین ایسے تیار ہوجاتے جو ہاؤس پر پورے عرصے میں چھائے محسوس ہوتے ہوں، تو عرض یہ ہے کہ مجلس عمل کے تمام پارلیمنٹرین اور بالخصوص اس کے قائدین محترم قاضی حسین احمد صاحب، مولانا فضل الرحمن صاحب، محترم لیاقت بلوچ صاحب اور حافظ حسین احمد صاحب خوب چھائے رہے ہیں اور ان قائدین کا رعب اور دبدبہ اسمبلی کے اندر اور باہر حکمرانوں کے خلاف قائم رہا۔

رہی یہ بات کہ کون اپنے پیسوں یا لوگوں اور جماعتوں کے اخراجات برداشت کرکے اسمبلی میں پہنچا تو اس کی فکر ایڈووکیٹ صاحب کو کیوں ہے؟ کوئی جیسے بھی اپنی ہمت واستطاعت، تقویٰ یا جماعتی اخراجات پر اسمبلی میں پہنچتاہے تو اس کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے نہ کہ اعتراضات کے انبار لگا کر اسے مایوس کرنے کا سبب بننا چاہیے۔

آخر میں گزارش ہے کہ متحدہ مجلس عمل اس پر فتن دور میں امت مسلمہ، بالخصوص اہل پاکستان کے لیے نعمت خداوندی ہے۔ اسلامی نظا م کے نفاذ، حقیقی عدل کے قیام اورفرقہ واریت کی روک تھام کے لیے بقدر استطاعت اس سے تعاون کرنا چاہیے۔

حافظ خرم شہزاد 

کامونکی، ضلع گوجرانوالہ

(۳)

جناب مدیر الشریعہ گوجرانوالہ

السلام علیکم !

آپ کی محنت اور خلوص کی بدولت ’الشریعہ ‘وہ مقام حاصل کر چکاہے کہ اگر نہ ملے تو کمی سی محسوس ہوتی ہے۔ ’الشریعہ‘ طبقہ علما اور خواص کو نئی جہتوں سے آشنا کروا رہاہے۔ سخت تنقیدی خطوط ابھی الشریعہ میں جگہ پاتے ہیں جو معیاری صحافت کے اصولوں کی پاسداری کا ایک اچھا نمونہ ہے۔ تاہم ایک کمی شدت سے محسوس ہوتی ہے کہ طبقہ علما، عوام کی معاشرتی محرومیوں اور مسائل کو قابل اعتنا نہیں سمجھتا۔ کیا انھیں انتہائی غربت کے بوجھ تلے انسانیت سسکتی دکھائی نہیں دیتی؟ کیا چوری، ڈکیتی، طلاقیں، جسم فروشی اور بے امنی سب اسی کی وجہ سے نہیں ہیں؟ لیکن افسوس، ایم ایم اے اور دیگر علما کو اسلام تو خطرے میں نظر آتاہے، لیکن انسان اور مسلمان نہیں۔ کبھی ان لوگوں نے غربت، بے روز گاری کے خلاف جلسہ کیاہو، جلوس نکالا ہو، کوئی تحریر لکھی ہو یا کوئی بیان دیاہو؟ 

میں بالمشافہہ مولانا زاہد الراشدی صاحب سے دو مرتبہ درخواست کرچکا ہوں کہ ’الشریعہ‘ میں ان مسائل کو بھی جگہ دیں۔ انھوں نے فرمایا کہ ’’اس طرح کے مسائل پر لکھنے کے لیے وقت اور مواد نہیں ہے۔ البتہ آپ لکھیں، ہم جگہ دیں گے۔ ‘‘ لیکن ہم مولانا صاحب کے قلم کی سی تاثیر کہاں سے لائیں؟ مطلب یہ ہوا کہ ان کی نگاہ میں بھی یہ مسئلہ غیر اہم ہے، ورنہ وقت اور مواد، دونوں میسر ہو سکتے ہیں۔ بہرحال میری طبقہ علما اور اصحاب قلم سے درخواست ہے کہ وہ معاشرتی مسائل کو بھی اپنی تحریروں اور تقریروں کا موضوع بنائیں کیونکہ غریب جسے دو وقت کی روٹی میسر نہ ہو، اس کا نہ ایمان ہوتاہے اور نہ عقیدہ۔ اس سے اگر پوچھا جائے کہ دو اور دو کتنے ہوتے ہیں تو اس کا جواب ہوگا: چار روٹیاں۔ 

عبد الحفیظ قریشی 

ڈائریکٹر کیوز ریز، پیپلز کالونی ، گوجرانوالہ

(۴)

مکرمی مدیر الشریعہ 

السلام علیکم !

نومبر ۲۰۰۶ء کے شمارے میں اقبالیات کے حوالے سے ایک سے بڑھ کر ایک مضامین پڑھنے کو ملے، لیکن مسلم سجاد صاحب کا مکتوب پڑھ کر میں فیصلہ نہیں کر پا رہا کہ آنجناب ’ترجمان القرآن‘ کے مدیر ہیں یا نائب مدیر؟ اگر تو وہ نیابت پر اکتفا کریں تو یہ مکتوب انہوں نے یقیناًاپنے مدیر کی رضا مندی سے لکھا ہوگا، دوسری صورت میں انہیں محمد یوسف ایڈووکیٹ صاحب کی تحریر اپنے مدیر کی خدمت میں پیش کرکے ان کے تاثرات سے اپنے قارئین کو ضرور آگاہ کرنا چاہیے ۔

کچھ ایسا محسوس ہوتاہے کہ مسلم صاحب اپنا ’’رد عمل‘‘ حق نصیحت ادا کرتے ہوئے غالباً ورلڈ ٹریڈ سنٹر سے بھی کئی گنا زیادہ بلند ’’مینا رتقدس‘‘ پر تشریف فرماہیں، جبھی تو وہ یہ ارشاد فرمارہے ہیں کہ ’’بہت صاف بات تھی جو آپ کو سمجھنا چاہیے تھی‘‘۔ یہ کیا بوا لعجبی ہے کہ جناب مسلم صاحب ۱۰۰ سے زیادہ صفحات پر مشتمل اپنے رسالے میں اپنے ایک قاری کو صرف ۴ صفحات دینے پر آمادہ نہیں، لیکن ۵۰ سے بھی کم صفحات کے حامل ’الشریعہ‘ میں پہلے سے شائع شدہ ۸ صفحات کے مضمون کے چھپنے کے خواہشمند ہیں! ایک سیاسی جماعتی اتحاد کی کارکردگی رپورٹ کیا آسمانی صحیفہ ہے کہ اس کے متعلق ایک ووٹر، شہری اور قاری کو تبصرہ کرنے سے روکا جا رہا ہے؟ کیا ارباب ’ترجمان‘ بتاسکتے ہیں کہ صحافت اور ادارت کا یہ کون سا اعلیٰ اسلوب ہے جس کا مظاہر ہ کیا جارہاہے؟

اگر مسلم صاحب ناراض نہ ہوں تویہ کہوں گا کہ اگر یوسف صاحب کو آپ کے بقول ’’ابال‘‘آیا تھا تو آپ کے رد عمل میں ہونے والی تاخیر کی وجہ سے آپ کے مکتوب کو ’’باسی کڑھی میں ابال‘‘ بآسانی قرار دیاجاسکتاہے ۔

محمد عمر فاروق 

۱۹ ۔ گورونانک پورہ، گوجرانوالہ

(۵)

محترم جناب مولانا زاہد الراشدی صاحب

السلام علیکم ورحمۃ اللہ۔ مزاج گرامی!

الشریعہ کے نومبر ۲۰۰۶ کے شمارے میں محترم قاری شجاع الدین صاحب کا خط زیر نظر ہے۔ میں نے اگست کے شمارے میں مولانا محمد یوسف صاحب کا مضمون کئی بار پڑھا۔ مجھے تو اس مضمون میں تبلیغی جماعت کی تنقیص نظر نہیں آئی۔ خود قاری صاحب کی تمثیل کے بموجب حافظ یوسف صاحب تو تصویر ٹھیک کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

قاری شجاع الدین صاحب جیسے بزرگوں کی توجہ کے لیے چند سوالات پیش کرتا ہوں۔ ہمارے علاقہ کے دو معروف میڈیکل کالجز ہیں، نشتر ہسپتال ملتان اور قائد اعظم میڈیکل کالج بہاولپور۔ یہاں کے پروفیسر حضرات تقریباً ساٹھ فی صد معروف تبلیغی حضرات ہیں۔ کیا ان سب حضرات میں سے کوئی ایک بھی یہ دعویٰ کر سکتا ہے کہ وہ گورنمنٹ کے مقرر کردہ اوقات میں آؤٹ ڈور میں کبھی پورا وقت حاضر رہا ہو؟ غریب مریض جن کے ٹیکس سے حکومت چلتی ہے، وہ تو ان حضرات کی توجہ سے محروم رہتا ہے، جبکہ جنھیں بے دین اور کمیونسٹ کہا جاتا ہے، وہ ایمان داری سے ڈیوٹی ادا کرتے ہیں۔ کیا یہ تبلیغی بھائی، تیس چالیس سال کی تبلیغی سرگرمیوں کے بعد بھی اپنی اولاد کو (جن میں لڑکے اور لڑکیاں دونوں شامل ہیں) اسلام کی دی ہوئی آزادی کے مطابق اپنے شریک حیات کے انتخاب کا حق دیتے ہیں؟ کیا یہ لوگ بہنوں اور بیٹیوں کو خدا کے حکم کے مطابق میراث میں سے حصہ دیتے ہیں؟ 

جماعت میں تو شہر شہر امیر جماعت بننے کے لیے سازشیں ہوتی ہیں۔ برادریاں اور گروپ بنتے ہیں۔ الغرض دین اور تبلیغ کے نام پر عجب بے ہنگم طوفان برپا ہے ۔ اللہ ہم سب کو ہدایت عطا فرمائے۔

ڈاکٹر طاہر مسعود

فاطمہ کلنک۔ کہروڑ پکا

(۶)

محترم زاہد الراشدی صاحب 

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ 

الشریعہ کا تازہ شمارہ ملا ۔شکریہ۔ اس بار تو آپ نے اقبال نمبر شائع کردیا۔ ان دنوں خطبات اقبال پر بحث چل رہی ہے۔ ابتدا ’جریدہ‘ اور ’ساحل‘ (کراچی) نے کی تو لاہور سے اقبال اکادمی کے سہیل عمر صاحب کو ۱۰۵ صفحات کا کتابچہ ’’میارا بزم بر ساحل کہ آنجا‘‘ شائع کرنا پڑا۔ یہ سب کچھ دیکھ کر خداکا شکر ادا کیا کہ ابھی علمی بحث کرنے والے دانشور باقی ہیں۔ اتنے میں ’الشریعہ‘ آگیا۔ اب اتفاق دیکھئے کہ ہر چند الشریعہ اس بحث کا حصہ نہیں، لیکن موضوع ایک ہی ہے۔ آپ نے ا س موضوع کے لیے مناسب وقت کا انتخاب کیا اور نہایت اعلیٰ علمی مضامین کو جگہ دی ہے۔

کلمہ حق میں آپ نے لکھاہے کہ :

’’علامہ محمد اقبال نے اجتہاد کے بند ہونے کے حوالے سے اپنے خطبے میں جوکچھ کہاہے، وہ اسی خلا کی نشان دہی ہے لیکن وہ خود مجتہد اور فقیہ نہیں تھے اور نہ ہی اجتہاد اور فقہ سے ان کا کبھی علمی واسطہ رہاہے۔ اس لیے ایک مفکر کے طورپر خلا کی نشان دہی اور اسے پر کرنے کی ضرورت کا احساس دلانے کی حد تک ان کی بات بالکل درست ہے مگر اس کے عملی پہلوؤں، ترجیحات اور دائرہ کار کا تعین چونکہ ان کے شعبہ کاکام نہیں تھا، اس لیے اس باب میں ان کے ارشادات پر گفتگو کی خاصی گنجائش موجود ہے اور یہ گفتگو اس موضوع کا تقاضا بھی ہے‘‘۔

ڈاکٹر وحید عشرت صاحب کو اقبال کے حوالے سے ایسی باتیں سخت ناپسند ہیں۔ وہ لکھتے ہیں :

’’علامہ سید سلیمان ندوی کی ذہنی اور علمی صلاحیت تھی ہی نہیں کہ وہ خطبات کے گہرے مطالب کا ادراک کرسکیں‘‘۔

ڈاکٹر صاحب کا یہ خط آپ نے بھی پڑھ لیا ہوگا۔ اس پرزیادہ گفتگو کیا کی جائے۔ آپ نے بروقت یہ نمبر شائع کیا ہے۔ دیکھئے ڈاکٹر وحید عشرت صاحب آپ کے بارے میں کیا تحریر فرماتے ہیں۔ اور یہ موضوع کہاں تک جائے گا او ربحث میں کون کون شریک ہوں گے اور اگر یہ موضوع چل نکلا تو اقبال اکادمی کو کتب لکھنے اور شائع کرانے پر خصوصی گرانٹ منظور کروانی پڑے گی۔

جاوید اختر بھٹی

۱/۵۱۷، ریلوے ر وڈ، ملتان

مکاتیب

(دسمبر ۲۰۰۶ء)

تلاش

Flag Counter