تین دن آرزوؤں اور حسرتوں کی سرزمین میں

مولانا محمد عیسٰی منصوری

بھارت کے ممتاز عالم دین، اسکالر اور مفکرِ اسلام مولانا ابوالحسن علی ندوی کے نواسے اور بہت سی صفات میں آپ کے جانشین مولانا سید سلمان الحسینی حسب معمول برمنگھم کی سالانہ سیرت کانفرنس میں شرکت کے لیے یکم جون ۲۰۰۶ء لندن پہنچے۔ اس بارآپ کاسفر دہلی سے براستہ استنبول تھا۔ استنبول میں معروف اسلامی رہنما نجم الدین اربکان نے جو موجودہ دینی ذہن رکھنے والی حکومت کے ایک لحاظ سے سرپرست ورہبر ہیں۔دنیا بھر کی دینی تحریکات وشخصیات کوسلطان محمدالفاتح کی فتح قسطنطنیہ (استنبول)کی سالانہ تقریب وجشن کی مناسبت سے مدعو کیا تھا۔۲۹؍مئی ۱۴۵۶ء کوسلطان محمدفاتح نے عیسائیت کے سب سے بڑے مستحکم قلعے پر اسلام کاپرچم لہرایا تھا ۔یاد رہے اتاترک کے آئین کی رو سے اللہ تعالیٰ اوررسول اللہ ا کے نام پر کوئی تقریب نہیں کی جاسکتی۔اس لیے جب سے ترکی میں دینی ذہن رکھنے والی حکومت برسراقتدار آئی ہے، اس کی کوشش ہے کہ سلطان فاتح کے ساتھ ترکی قوم کووابستہ کیا جائے۔

نجم الدین اربکان نے اس تقریب کی پور ی ایک نشست تقریباً (اڑھائی گھنٹہ)موجودہ حالات میں ملت اسلامیہ کے لیے لائحہ عمل پیش کیا کہ موجودہ حالات میں ملت اسلامیہ کو سیاسی ،اقتصادی ،عسکری ،تہذیبی طورپر کیا لائحہ عمل اختیار کرنا چاہیے۔مثلاً انہوں نے کہا ہمارے پاس اتنے مالی وسائل نہیں ہیں کہ امریکہ کی طرح بحری بیڑے بنا سکیں۔مگر ہم ایسے میزائل ضرور بناسکتے ہیں جو ان بحری بیڑوں کوتباہ کرسکتے ہوں وغیرہ وغیرہ۔غرض فاتح استنبول کی یاد میں اس تقریب کوترکی رہنما نجم الدین اربکان نے ترکی قوم کواسلام کی درخشاں تاریخ وتہذیب سے وابستہ کرنے کاذریعہ بنایا۔مولانا سلمان الحسینی مجھے باربار کہتے رہے کہ آپ کوترکی کی اس تقریب میں ضرور ہونا چاہیے تھا۔اب اس کی تلافی یہی ہے کہ واپسی میں میرے ساتھ استنبول چلیں تاکہ وہاں کے علما، مشائخ ،اسکالر،دانشوروں اور مفکرین اور ملت کے احیاء کاجذبہ رکھنے والے حضرات سے مل کر معلوم کرلیں کہ وہ حضرات سخت پابندیوں کی فضا میں کس طرح خاموشی سے علمی ،فکری ،تصنیفی ،دعوتی اور ہرنوع کاتعمیری کام کررہے ہیں۔اس طرح لندن کے ابراہیم کمیونٹی کالج میں دینی وعصری تعلیم کی یکجائی کاجو تجربہ ہورہا ہے ‘اس میں اُن کے تجربات سے فائدہ اٹھائیں ۔مولانا سلمان الحسینی صاحب کے حکم واصرار پر بندہ اور ابراہیم کالج کے لیکچرار اور نائب مدیر مولانا شمس الضحیٰ صاحب انٹرنیٹ پر ٹکٹ بک کرکے ۵جون بروزبدھ سہ پہر ساڑھے چار بجے ٹرکش ایئرویز سے روانہ ہوکر استنبول کے وقت کے مطابق رات ساڑھے دس بجے استنبول ائرپورٹ پر پہنچے ۔یہ ائر پورٹ اپنی وسعت ،شان وشوکت اور نظافت میں یورپ وامریکہ کے کسی ائر پورٹ سے کم نظر نہیں آیا۔مولانا شمس الضحیٰ کہنے لگے گویا ہم لندن ہیتھرو کے چینل فور(۴)پرہیں ۔جہاں کوئی مسلمان نظر نہیں آتا۔مولانا سلمان نے فرمایا یہ سبھی مسلمان ہیں ۔صرف اتاترک کے انقلاب کااثر ہے ۔باہر نکلے تو مولانا سلمان الحسینی ایک ترکی نوجوان سے اردو میں گفتگو کرنے لگے ۔پتہ چلا اُن ترکی نوجوان کانام اسماعیل ہے ۔چند سال پہلے ندوہ میں تعلیم حاصل کرچکے ہیں اور مولانا کے شاگرد ہیں ۔تھوڑی ہی دیر میں اُن کے دو رفقاء محمدالفاتح اور محمدصفرگاڑی لے کر آموجود ہوئے ۔الغرض ہم تین ترکی میزبانوں کی رفاقت میں ائرپورٹ سے تقریباً ڈیڑھ گھنٹے کی مسافت طے کرکے اسماعیل صاحب کے گھر پہنچے ۔رات کے بارہ بج چکے تھے ۔نمازپڑھی اور کھانا کھاکر سوگئے۔

استنبول کاکائی فاؤنڈیشن

دوسرے روز ۶جون ۲۰۰۶ء کونوبجے کے قریب اپنے میزبان اسماعیل ندوی صاحب کے ہمراہ ترکی کے معروف عالم دین مفکر اور نقشبندی شیخ ‘شیخ مصطفی الجواد کے قائم کردہ ادارے کائی (Caye)فاؤنڈیشن پہنچے ۔شیخ مصطفی جواد نے یہ ادارہ ترکی کے ذہین اورغریب طلباء کواستنبول یونیورسٹی شعبہ الہٰیات اور دیگر شعبوں میں ایم اے اور پی ایچ ڈی کروانے کے لیے بطور دارالاقامہ (ہاسٹل)وقف کیا ہے ۔یہاں کوشش کی جاتی ہے کہ طلباء کوعربی زبان اوربنیادی دینی علوم میں مہارت پیدا ہوجائے۔ان کااصل کام طلباء کو دینی ذہن وفکر اور اسلامی تمدن وطرز حیات سے وابستہ کرنا ہے ۔کیونکہ اتاترک کے انقلاب کے وقت سے حکومت کی بنیادی پالیسی حکومتی مناصب وعہدوں پر لبرل واسلام بیزار ذہن رکھنے وا لوں کی ترجیح رہی ہے ۔شیخ مصطفی الجواد کی کوشش ہے کہ دینی ذہن رکھنے والے طلباء میں علمی وتحقیقی طورپر اتنی زبردست قابلیت وصلاحیت پیداکریں کہ طلباء محض اپنی اہلیت (میرٹ)کی بنیاد پر حکومت کے اعلیٰ مناصب وعہدوں میں جگہ پاسکیں۔کائی فاؤنڈیشن کی سات منزلہ عمارت نہایت مستحکم کشادہ اور جدید سہولتوں سے آراستہ ہے ۔شیخ کے صاحبزادے شیخ محمود نے جو انجینئرنگ پروفیسر ہیں‘بتایا کہ یہ عمارت علاقے کی تمام عمارتوں سے زیادہ مستحکم اور جدیدتر سہولتوں سے آراستہ اور زلزلہ پروف ہے ۔ہم نے اس کی تعمیر میں نہایت باریک بینی سے جدید تعمیری قواعد کالحاظ رکھا ہے ۔تاکہ حکومت کسی تعمیری نقص کابہانہ بناکر ادارے کوبند نہ کرسکے۔عمارت کی بالائی منزل شیخ اور اُن کے دونوں صاحبزادوں کی رہائش اور بقیہ چھے منزلیں غریب ذی استعداد طلباء کے لیے وقف ہیں۔چند سال پہلے ترکی حکومت نے فیصلہ کیا کہ حکومت کے تمام شعبوں حتیٰ کہ افتاء شعبے میں بھی خواتین کوترجیحی مناصب پرفائز کیاجائے گاتوشیخ مصطفی نے کائی فاؤنڈیشن کاایک حصہ طالبات کے لیے مخصوص کردیا۔

دارالحکمت، استنبول کاایک علمی،تحقیقی و تصنیفی ادارہ

کائی فاؤنڈیشن میں شیخ مصطفی الجواد کے مہمان خانے میں سامان رکھ کر جناب اسماعیل ندوی کے ہمراہ استنبول کے تاریخی مقامات دیکھنے کے لیے روانہ ہوئے۔راستے میں مولانا سلمان کے ایک دوست واسکالر جناب عمر فاروق کوبطور گائیڈ ورہبر ساتھ لیا۔جناب عمرفاروق ایک علمی ادارے دارالحکمت کے ڈائریکٹر ہیں۔یہ ایک تصنیفی ،تحقیقی وتربیتی ادارہ ہے جہاں مختلف دینی موضوعات پر ریسرچ اور تصنیفی کام ہوتا ہے ۔اکیڈمک جنرل ریسرچ کے تحت بلند پایہ معیاری کتب کی طباعت کی جاتی ہے ۔ان کاموں میں علماء اور اسکالر کی ایک ٹیم مصروف رہتی ہے ۔اس ادارے نے مولانا سلمان الحسینی کی مرتب کردہ شیخ عبدالحق محدث دہلویؒ کے مقدمۂ علوم حدیث پر تدوین وتحقیق اور شاہ ولی اللہ دہلویؒ کے فارسی رسالے ’’الفوزالکبیر‘‘ کے عربی ترجمہ اور تدوین وتحقیق کردہ رسالے بھی شائع کیے ہیں نیز ’’دارالحکمت ‘‘کالج یونیورسٹی کے طلباء کے لیے وقتاً فوقتاً مختصر دینی کورس اور سیمینارز منعقد کرکے انہیں اسلام سے وابستہ رکھنے کے لیے کوشاں ہے ۔عمر فاروق صاحب اور اُن کی اہلیہ چند سال اسلام آباد میں بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی میں گزارچکے ہیں ۔اس لیے اردو بھی سمجھ لیتے ہیں اور برصغیر کے حالات سے بخوبی واقف ہونے کی وجہ سے ہم لوگوں سے خوب مانوس رہے ۔

آیا صوفیہ دنیائے عیسائیت کاعظیم روحانی ومذہبی مرکز

ترکی کے تاریخی آثار کو د یکھنے کی ابتدا سب سے مشہور جامعہ آیا صوفیہ سے کی۔ آیاصوفیہ قسطنطنیہ (استنبول)کے سلطان محمدفاتح کے ہاتھوں فتح ہونے تک عیسائیوں کادوسرا بڑا مذہبی مرکزرہا ہے ۔پانچویں صدی عیسوی میں عیسائی دنیا دوبڑی سلطنتوں مشرقی اور مغربی میں تقسیم ہوگئی تھی۔آیا صوفیہ مشرقی عیسائیت یعنی ہولی آرتھوڈکس چرچ کاسب سے بڑا مذہبی مرکز تھا، جبکہ مغربی عیسائیت یعنی کیتھولک چرچ کامرکزروم (اٹلی)رہا ۔درحقیقت حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے آسمان پر اٹھائے جانے کے بعد صدیوں تک عیسائیت ‘عابدوں ،زاہدوں اور تارک دنیا درویشوں کامذہب تھا ۔جوترکِ دنیا کرکے صومعون عبادت گاہوں اور غاروں میں عبادت وریاضت کرتے تھے تاآنکہ تیسری صدی عیسوی میں رومن بت پرست شہنشاہ قسطنطین نے عیسائیت قبول کرکے اپنی عسکری طاقت کے بل بوتے پر آناً فاناً پورے یورپ کابلکہ دنیا کاسب سے بڑا مذہب بنادیا۔تاریخی حقیقت یہی ہے کہ تلوار یاطاقت سے پھیلنے والا کوئی مذہب ہے تو وہ عیسائیت ہے نہ کہ اسلام اسی نے استنبول فتح کیا تھا جواس وقت بزنطیہ(Bazantia)کہلاتاتھا اور اسے اپناپایۂ تخت بنایا اور اس کانام اپنے نام پر قسطنطنیہ رکھا۔ اُسی نے روم (اٹلی)کے چرچ کی بنیاد رکھی جو بعد میں مغربی کیتھولک عیسائیت کاعالمی مرکز بنااور اس کا مذہبی پیشوا پوپ آج بھی کیتھولک عیسائیت کاسب سے بڑا مذہبی پیشوا ہے مگرآیا صوفیہ کو اس لحاظ سے روم (اٹلی)کے کلیسا سینٹ پیٹر پرفوقیت حاصل ہے کہ اس کی بنیاد روم کے کلیسا سے پہلے یعنی ۳۱۰ عیسوی میں پڑی۔اس کی تعمیر لکڑی سے ہوئی تھی جو آگ لگنے سے جل گیا تو اس جگہ قیصر جسٹینن نے ۳۲۲ عیسوی میں عظیم الشان پختہ تعمیر کی ۔جس وقت یہ چرچ (آیا صوفیہ) تعمیرہوا۔ دنیا کی سب سے عظیم الشان عمارت تھی حتیٰ کہ جب جسٹینن پہلی بار اس میں داخل ہوا تو اس کی زبان پر یہ مغرورانہ الفاظ آگئے کہ سلیمان میں تم پر سبقت لے گیا (تعمیر وتقدس میں بیت المقدس)پر ایک ہزار سال تک آیا صوفیہ کلیسا کے طورپر ہی نہیں بلکہ پوری عیسائی دنیا کے مذہبی وروحانی مرکز کے طورپر مشہور رہی ۔حتیٰ کہ سلطان محمدفاتح نے فتح قسطنطنیہ کے موقع پر اس میں ظہر کی نماز پڑھی ۔اس وقت سے یہ جامعہ آیا صوفیہ کہلائی پھر صدیوں تک کی صیہونی صلیبی سازشوں کے نتیجے میں اتاترک نے ۱۹۳۴ء اسے بطور مسجد بند کرکے ایک میوزم بنادیااور جہاں نماز پڑھنا قانوناً ممنوع قراردیا۔اب یہاں غیر ملکی سیاح نیم برہنہ خواتین گھومتی رہتی ہیں، حتیٰ کہ محراب ومنبر میں اپنے اپنے کیمروں سے تصاویر کھینچتی پھرتی ہیں ۔اناللہ وانا الیہ راجعون۔

آیا صوفیہ ایک گہری صلیبی سازش کی زد میں 

اتاترک کے انقلاب کے بعد سے اُن کے جانشین یورپ کی خوشامد ودریوزہ گری میں لگے ہیں اور اُس کی چوکھٹ پر ناک رگڑ رہے ہیں کہ مہربانی فرما کر ہمیں اپنی برادری یورپین یونین میں شامل کرلو اور اس کے لیے کچھ بھی کرنے کوتیار ہیں اور یورپ شرطوں پر شرطیں عائد کرکے ترک قوم کی تذلیل کاحظ ومزہ اٹھارہا ہے ۔اس سفر میں معلوم ہوا کہ اب یورپ کی ایک اور تازہ شرط یہ ہے کہ آیا صوفیہ اسے واپس کیا جائے تاکہ اس میں دوبارہ عیسائیت کی دعوت واشاعت کاعالمی مرکز بناسکیں۔ اب یہ دعویٰ دنیا کے مختلف پلیٹ فارموں پر گونج رہا ہے اور انٹرنیٹ پر بھی تفصیلات موجود ہیں اور اس کے لیے دنیا بھر میں دستخطی مہم چل رہی ہے ۔اس تحریک کوپس پردہ امریکہ ویورپ کے حکمرانوں کی پشت پناہی حاصل ہے ۔یہی نہیں کہ یورپ کے مطالبات توآگے تک ہیں ۔مثلاً مغربی دنیا کامطالبہ ہے کہ اگر یورپین یونین میں شامل ہونا ہے تو ہمیں مساجد کے میناروں والا استنبول قبول نہیں ہوسکتا ہے کہ ان میناروں کومنہدم کرنے کے لیے یورپ کاذخیرہ ذہن جومکمل طورپر صیہونی کنٹرول میں ہے ۔ان میناروں کوڈھانے کی کوئی تخریبی کارروائی کاآغاز کرکے ورلڈ ٹریڈسنٹر کی طرح اس کاالزام کسی اسامہ کے سرمنڈ ھ دے کیونکہ استنبول پہاڑوں پرآباد ہے ۔ہربلندی پر مساجد کے اونچے اونچے مینار نظر آتے ہیں ۔ترکی مساجد میں ایک دونہیں پورے چار مینار ہوتے ہیں جوکفر کے کلیجے کو چھید کر رکھ دیتے ہوں گے ۔مغرب کے اس مطالبے سے وہاں کے دینی ذہن رکھنے والے دوست کافی فکر مند وپریشان تھے ۔ہم نے کہا آپ حضرات بھی اسپین ،مسجد قرطبہ ،الحمراء اور دیگر بے شمار مسلم دور کی عمارات کو مسلمانوں کے حوالے کرنے کامطالبہ عالمی طورپر بلند کریں۔ بقول اقبال:

ہے خاکِ فلسطیں پہ یہودی کا اگر حق
ہسپانیہ پر حق نہیں کیوں اہل عرب کا

جامعہ سلطان احمد

جامعہ آیا صوفیہ دیکھنے کے بعد مولانا سلمان نے کہا ظہر کاوقت قریب ہے ۔توپ کاپی سرائے جانے سے قبل نماز ظہر پڑھ لیتے ہیں ۔آیا صوفیہ سے نکلتے ہی سامنے مسجد سلطان احمدہے ۔یہ مسجد سلطان احمد نے سترہویں صدی عیسوی ۱۶۱۶ء میں عین آیا صوفیہ کے سامنے تعمیر کروائی تھی ۔چونکہ ترکی کی سب سے نمایاں عمارت عیسائیوں کے کلیسا کے طورپر تعمیر ہوتی تھی۔ سلطان محمدنے حکم دیا کہ ایک ایسی مسجد تعمیر کی جائے جو آیا صوفیہ سے زیادہ بلند اور پرشکوہ ہو۔چنانچہ اس مسجد کی تعمیر نے واقعی آیا صوفیہ کوگردکردیا۔یہ مسجد کیا ہے۔ترکی فن تعمیر کاایک عجوبہ ہے ۔اس میں داخل ہوتے ہی انسان اس کے شکوہ جاہ وجلال اور حسن وجمال میں کھو جاتا ہے اس طرح قدرت نے سلطان احمد کے ذریعے آج کی اہم ترین ضرورت کا انتظام کردیا ہے ۔ کیونکہ یہ جگہ ترکی کی اہم ترین تاریخی آثار اور تفریح کی جگہ ہے یہیں آیا صوفیہ توپ کاپی سرائے اور بحر فاسفورس وغیرہ غیرہ ہیں یہاں پر ہر وقت ہزار ہا سیاح ہوتے ہیں آیا صوفیہ کے میوزم بن جانے کے بعد مسلمان سیاحوں کے لیے سب سے بڑا مسئلہ یہ درپیش ہوتا ہے کہ نماز کہا ں پڑھیں؟ مسجد سلطان احمد میں ظہر کی نماز ادا کرکے مسجد کے امام سے ملاقات کی جو حضرت مولانا ابوالحسن علی ندوی اور تبلیغی جماعت سے نسبت کی بنا پر اسلام کے داعی ہیں ۔ آیا صوفیہ اور مسجد سلطان احمد کے درمیان وسیع پُرفضا میدان کے ایک قہوہ خانے میں کافی پی کر تازہ دم ہوئے ۔ اور ساتھ میں واقع ترکی کے مشہور میوزیم توپ کاپی دیکھنے روانہ ہوئے ۔ 

ترکی زبان میں سرائے محل کو اور کاپی دروازے کو کہتے ہیں۔یعنی توپ دروازہ محل باز نطینی دور میں سینٹ رومانوس دروازہ تھا اور فتح کے بعد سلطان احمد فاتح اسی دروازسے داخل ہوئے تھے بعد میں محل تعمیر ہوا تو سلطان فاتح کے دورسے آخری خلیفہ سلطان عبدالحمید تک عثمانی سلاطین کی رہائش گاہ رہا اور آج کل ترکی کا سب سے بڑ ا موزیم ہے یہ میوزیم اسلامی دنیا کا سب سے اہم موزیم ہے اس میں داخل ہوتے ہی قصرمحمد فاتح کی عمارت نظر آتی ہے اس کے صحن کے بیچوں وبیچ فرش پربڑا سا سوراخ ہے جو عرصے سے خالی پڑاہے اس میں کبھی خلافت عثمانیہ کا سرخ ہلالی پرچم لہراتا تھا جو دنیامیں مسلمانوں کے غلبے اور عظمت و شوکت کی علامت تھا اس سے یورپ لرزہ براندام رہتا تھا ۔ اس کے اترنے کے بعد ۱۹۲۴ء سے ملت اسلامیہ کی حیثیت ایک ایسے ریوڑ کی ہوگئی ہے جس کا کوئی رکھوالا نہ ہو اب شاید حضرت مہدی ہی اس خلاء کو پُر کرسکیں ۔ اس کے بعد سلطان عبدالحمید کے افسر مہمانداری کا دفتر ہے پھر نسبتاً کچھ بڑا ۔ سلطان کی ملاقات کا کمرہ اور اس سے متصل سلطان کی خواب گاہ جہاں پرانے طرزکی مسہری بچھی ہے ‘ بڑی حیرت ہوئی ۔دنیا کے سب سے بڑے حکمران کی خواب گاہ اس قدر چھوٹی اور سادہ اس کے اندازِ تعمیرمیں ٹھاٹھ باٹھ کا شائبہ تک نہیں اس کے مقابلے میں دنیا کے چھوٹے چھوٹے بادشاہوں مغرب کے لارڈوں (جاگیرداروں) کے محل اس سے کہیں زیادہ شان و شوکت والے ہیں ۔ یہی نہیں آج کے سعودی ،کویتی حکمرانوں کے پاس اس سے کہیں زیادہ عالیشان پُر شکوہ محل یورپی ملکوں کے ہر بڑے شہرمیں موجودہیں ۔ مگرکیا کریں انگریز نے ہم لوگوں کو اپنے سلاطین کو گالی دینا سکھا دیا ہے ۔ توپ کاپی دنیاکا عظیم ترین نواردات کا میوزیم ہے یہاں سینکڑوں سال کے نواردات محفوظ ہیں ۔ دنیا بھر کے خصوصاً یورپ کے حکمران عثمان خلفاء کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے نہایت بیش قیمت تحفے بھیجا کرتے تھے جس طرح آج کے سعودی و کویتی حکمران ملکۂ برطانیہ کی خدمت میں پیش کرتے رہتے ہیں۔ ہم لوگ جلدی جلدی میوز یم کے کمروں سے گزرے جہاں سلاطین عثمانیہ کے لباس ، اسلحہ، زرہیں ،برتن ،بیش قیمت ہیرے جواہرات ، ایران کے شیعی بادشاہ اسمٰعیل صفوی کا ہیرے جواہرات سے مرصع تخت وغیرہ وغیرہ دیکھتے ہوئے تبرکات کے کمرے میں پہنچے جہاں سرورِ دوعالم ا کا جُبہ مبارکہ آپ کی دو تلواریں ، آپ کا علم ( جھنڈا) جو بد رمیں استعمال ہوا تھا۔موئے مبارک ، دندان مبارک،مقوقس شاہِ مصر کے نام آپ کا مکتو ب گرامی ، مہر مبارک ، خلفاء راشدین ، حضرت خالد بن ولیدص ،حضرت جعفر طیار ص حضرت عمار بن یاسر کی تلواریں ، بیت اللہ کا لکڑی کا دروازہ حجرِ اسود کا سونے کا خول ، کعبہ شریف کا قفل اور چابیاں ، میزابِ رحمت کے ٹکڑے وغیرہ وغیرہ ہیں ۔ زیارات سے اپنی آنکھیں ٹھنڈی و دل شاد کیا ۔ یہاں ہمہ وقت ایک قاری نہایت خوش الحانی سے تلاوت قرآن میں مصروف رہتا ہے ۔ 

عثمانی سلطنت کی سادگی و جفاکشی 

توپ کاپی سرائے دیکھ کر دو باتیں خاص طور پر محسوس کیں پہلی یہ کہ خلافتِ عثمانیہ کی واحد سلطنت تھی جن کی مساجد‘ شاہی محلات سے بیسیوں گُنا زیادہ پُرشکوہ ،عالشان اور مستحکم ہیں ۔ عثمانی سلاطین کا یہ محل ( قصر) اپنی شان و شوکت ،بلندی اور تعمیر کے اعتبار سے مساجد سے بدرجہا کم بلکہ مساجد کے مقابلے میں بے حیثیت محسوس ہوتا ہے ۔توپ کاپی سرائے کاایک حصہ سلاطین کے اہل خانہ کی رہائش گاہ رہا ہے ۔جوحرم کہلاتا ہے ۔حسب عادت حرم کے نام پر یورپین اقوام اسلام کوبدنام کرنے کے لیے کوشاں رہتی ہیں جبکہ یورپ کے معمولی سے بادشاہ ہی نہیں جاگیردار وں (لارڈز)کے محلوں کے سامنے یہ دنیا کی سب سے بڑی امپائرکے محلات بے حیثیت نظر آتے ہیں ۔توپ کاپی سرائے کی دوسری بات یہ محسوس ہوئی کہ عثمانی سلاطین کی زندگیاں عام طورپر پروقار مگر سادگی کی حامل تھیں ۔اُن میں زیادہ نمودونمائش طمطراق اور کروفر نہیں تھا۔توپ کاسرائے کی حیثیت پرانے زمانے کے وسیع مکان یا حویلی کی ہے ۔اس کی تعمیر میں کہیں محلاتی بلند ی یا شان وشوکت نظر نہیں آتی ۔توپ کاپی کے آخری حصے میں چھوٹا صحن بحیرۂ فاسفورس کے کنارے کھلی جگہ پر ہے ۔یہاں سے عمر فاروق صاحب نے گولڈن ہارن(شاخِ زریں)کاوہ کنارہ دکھایا جن پرسلطان محمدفاتح نے اپنے جنگی جہاز چلاکر دوسری جانب سمندر میں اتارے تھے۔ یہ واقعہ کتابوں میں بارہا پڑھاتھا مگر اب آنکھوں سے دیکھا کہ بحیرۂ فاسفورس اورشاخِ زریں کے درمیان تقریباً دس میل طویل بلند وبالا پہاڑوں کاسلسلہ ہے ۔ان پہاڑوں پر سے راتوں رات جہازوں کو چڑھا کر دوسری جانب سمندر میں پہنچا دینا ‘اس قدر محیر العقول ہے جس کے تصور سے پسینہ آجاتا ہے ۔توپ کاپی دیکھنے کے بعد آیا صوفیہ مسجد سلطان احمداور بحر فاسفورس کے درمیان پرانی شہر پناہ(فصیل)پر سیاحوں سے ایک خوبصورت ریسٹورنٹ ہے۔وہاں خالص ترکی کھانے کھائے اور ترکی چائے پی کر عمرفاروق کے ساتھ اُن کے دارالحکمت میں تھوڑی دیر قیلولہ کرکے عصر کی نماز پڑھ کر حضرت ابوایوب انصاریؓ کے مزار کی زیارت کے لیے روانہ ہوئے ۔جوترکی میں ایک مسلمان کے لیے اہم جگہ ہے ۔

میزبانِ رسول حضرت ابو ایوب انصاریؓ کے مزار پر

عصر کی نماز پڑھ کر حضرت ابوایوب انصاریؓ کی زیارت کے لیے پہنچے ۔یہ استنبول کی واحد جامع ہے جس میں وسیع صحن ہے۔ مزارِ مبارک پر ہروقت ترکوں کاتانتا بندھا رہتا ہے ۔مرد ،عورتیں، بچے ،بوڑھے سب باچشم تر فاتحہ پڑھنے چلے آرہے ہیں۔ یہاں آکر محسوس ہوا کہ ترکی کے حقیقی حکمران حضرت ابوایوب انصاریؓ ہیں ‘جن کی دلو ں پر حکومت ہے۔ حضرت معاویہؓ کے دور میں جب قسطنطنیہ پر پہلا حملہ یزید بن معاویہؓ کی سرکردگی میں ہوا۔اس لشکر میں آپ شریک تھے۔ نوے سال سے زیادہ عمر تھی ‘شدید بیمارہوگئے۔وصیت فرمائی میری نعش کودشمن کی سرزمین میں جتنی دور لے جانا ممکن ہو لے جاکر دفن کرنا۔ یہاں سب کے دلو ں پر عجیب رقت طاری تھی ۔مولانا سلمان صاحب کہنے لگے :سوچئے نوے سال عمر ہے۔ اولاد پوتے پڑپوتے سب راہ دیکھ رہے ہیں ۔دیارِ رسول(ا) اور قبرِ رسول(ا) کی کشش اپنی جگہ پر مگر حضرت ابوایوب انصاریؓ وصیت فرمارہے ہیں کہ دشمن کی سرزمین میں دور سے دور دفن کیا جائے۔پتا نہیں قبر کانشان رہے گا نہیں رہے گا؟کوئی پئے فاتحہ آئے گا؟یہ قبر ہرمسلمان کوایک پیغام دے رہی ہے ۔یہاں آکر محسوس ہوا کہ اللہ کے نبی(ا) کے اس صحابی نے کمالی ظلم وجبر کے سخت ترین حالات میں بھی ترکوں کارشتہ اسلام میں محمدرسول اللہا سے ٹوٹنے نہیں دیا۔عثمانی سلطنت کی رسم تاج پوشی اسی جامعہ میں ہوتی تھی ‘وہ اس طرح کہ بانئ سلطنت عثمان خان کی تلوار نئے سلطان کی کمر میں باندھ دی جاتی۔ اب یہ پورا علاقہ ہی ایوبی کہلاتا ہے ۔باہر نکلے تو پولیس کی کار پرایوبی پولیس لکھانظر آیا ۔سامنے چوراہے پر اتاترک کامجسمہ تھا جو ایک ہاتھ میں یورپین ہیٹ اٹھائے گویا ہیٹ پہننے کی دعوت دے رہا تھا۔

جامع سلطان بن محمدفاتح میں

حسبِ پروگرام عشاء کی نماز کے لیے جامع فاتح پہنچ کر پہلے سلطان محمدفاتح کی قبر پر فاتحہ پڑھی ۔قبر کی لوح پر نہایت سفید چمکدار سلطان فاتح کاعمامہ رکھا ہوا ہے ۔معلوم ہوا کہ ترکی سلاطین کادستور تھا کہ اُن کی قبر کی لوح پر اُن کاعمامہ رکھ دیا جاتا۔عمامہ اس قدر جاذبِ نظر تھا کہ چشمِ تصور میں سلطان کی عظمت وشوکت گھوم گئی ۔اس کے بعد ہم لوگ جامع میں داخل ہوئے جہاں سب سے پہلے جامع فاتح کے امام شیخ عثمان نے جومولانا سلمان صاحب کے واقف تھے ‘نہایت پرتپاک استقبال کیا ۔ان کی اقتداء میں عشا ء کی نماز پڑھی ۔نماز کے بعد ان کی تلاوت سے محظوظ ہوئے ۔اُن کے استاد اور ترکی کی معروف علمی ودینی شخصیت شیخ امین سراج سے ملاقات ہوئی۔شیخ امین سراج ترکی کے ممتاز عالم دین اور سکالر ہیں ۔وہ اسی جامع سلطان فاتح میں بخاری شریف کادرس دیتے ہیں۔جامع کے موجودہ امام صاحب سمیت ان کے بے شمار شاگرد ترکی میں دینی وملی خدمات انجام دے رہے ہیں ۔آپ مفکر اسلام حضرت مولانا سیدابوالحسن علی ندوی ؒ کے عقیدت مندوں میں ہیں۔ فرمایا کمالی دور کے جبروالحاد کے بعد ترکی طلباء کی پہلی کھیپ جامعہ ازہر میں پڑھنے کے لیے گئی ۔اُس میں ‘میں بھی تھا۔ وہاں مولانا سید ابوالحسن علی ندوی ؒ ۱۹۵۱ء میں تشریف لائے ۔اُس وقت آپ کی عمر ۳۸سال تھی ۔آپ نے ترکی طلباء سے ملاقات کرنے اور ترکی احوال جاننے کی خواہش ظاہر کی تو ہم لوگ خدمت میں حاضر ہوئے ۔اُس وقت سے اب تک حضرت مولانا رحمتہ اللہ علیہ سے محبت ویقین اور عقیدت کارشتہ قائم ہے ۔حضرت مولاناؒ کی بہت سی باتیں سناتے رہے ۔شیخ سراج نے نہایت تفصیل سے جامع فاتح کامعائنہ کروایا۔تاریخی معلومات بہم پہنچاتے رہے ۔فرمایا اس جامع کے فرش کاقالین سلطان عبدالحمید کے دور کابنا ہوا ہے ۔تقریباً سوسال ہوگئے مگر نہایت شفاف اور عمدہ حالت میں ہے ۔فرش کے اس قالین پر بعینہٖ گنبد کی ڈیزائن بنائی گئی ہے۔جامع میں آیاتِ قرآنی کاایک کتبہ سلطان عبدالحمید کے ہاتھوں کالکھا ہوا ہے، دوسرا سلطان مراد کے ہاتھوں کالکھاہوا۔اس کے بعد تالاکھول کرمسجد کی بالکنی میں اُس جگہ لے گئے ‘جہاں سلطان فاتح اپنے مخصوص لوگوں کے ساتھ نماز اداکرتے تھے ۔پھر سلطان کی مخصوص ضیافت گاہ میں جہاں سلطان فاتح باہر سے آئے ہوئے وفود اور مہمانوں کوشرفِ باریابی بخشتے تھے ۔اسی جگہ شیخ امین سراج نے ہم لوگوں کے لیے ترکی مٹھائیوں، فروٹ اور مشروبات سے ضیافت کااہتمام کیا تھا۔فرمایا :اسی جگہ میرے والد محترم نے مجھے کمالی جبرواستبداد کے دور میں عربی کی ابتدائی صرف ونحو کی کتابیں پڑھائیں اور قرآن پاک حفظ کروایا۔اُس وقت یہ کام ہم اس طرح چھپ چھپ کرکرتے تھے گویا سنگین جرم کررہے ہوں۔

ترکی کے علما ،اسکالرز اور دانشوروں سے ایک اہم نشست

اسی نشست میں ترکی کے مشہور عالم شیخ حمدی ارسلان سے ملاقات ہوئی ۔آپ بھی جامعہ ازہر سے فارغ ہیں اور جامعہ سلطان فاتح میں درس دیتے ہیں ۔ترکی کے صدر وزیراعظم اورحکومتی عہدیداروں سے ذاتی تعلقات رکھتے ہیں ۔وسیع النظر عالم ہیں اور دنیا کے سیاسی تمدنی احوال پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ ترکی کے متعلق بڑی اہم معلومات اُن سے حاصل ہوئیں۔ آپ قدم قدم پر اپنے کیمرے سے تصاویر بھی لیتے رہے ۔فرمایا میری خواہش تھی کہ کل آپ حضرات کوترکی کے قدیم کیپٹل کے آثار دکھانے لے جاتا۔جوقدیم دارالسلطنت رہا ہے اور بہت سی تاریخی عمارت کے علاوہ بہت سے عثمانی سلاطین وہاں مدفون ہیں۔اور ترکی کی سب سے بڑے گنبد والی مسجد وہاں ہے اور میں نے ائرکنڈیشنڈ بس کاانتظام بھی کرلیا ہے ۔مگر افسوس ہمارے پاس وقت نہیں تھا ۔اسی محفل میں ترکی کے معروف اسکالرومصنف جناب ڈاکٹر خلیل ابراہیم سے ملاقات ہوئی۔آپ جامعہ ازہر کے فاضل بڑے محقق او ربہت سی کتابوں کے مصنف ہیں۔ اب استنبول یونیورسٹی کے شعبۂ الہٰیات کے پروفیسر ہیں۔شیخ حمدی ارسلان کہنے لگے :مجھے رشک آتا ہے کہ آپ حضرات برصغیر میں آزادی سے دینی جامعات ومدارس قائم کرسکتے ہیں۔بندہ نے عرض کیا مجھے توآپ حضرات پہ رشک آرہا ہے کہ اتنی جکڑبندیوں ،سخت گیری اور پابندیوں کے باوجود آپ حضرات جوعلمی تصنیفی وتحقیقی کام کررہے ہیں اور عوام کے ذہنوں تک رسائی کے لیے جدید ذرائع ابلاغ اخبارات، رسائل، سی ڈی وغیرہ کوجس مہارت وقابلیت سے دین کی نشرواشاعت کے لیے استعمال کررہے ہیں ‘ہم توبرصغیر میں اس کاعشر عشیر بھی نہیں کرپارہے ۔غرض یہ مبارک نشست عشاء کی نماز کے بعد سے رات ساڑھے گیارہ بجے تک چلتی رہی ۔یہ محفل ترکی کی عظیم علمی ودینی شخصیات سے ملاقات اور ترکی کے جدید احوال ومعلومات کے لحاظ سے ہمارے سفر کاحاصل تھی۔ یہاں سے روانہ ہوکر رات بارہ بجے کے قریب شیخ مصطفی الجواد کے گھر یعنی کائی فاؤنڈیشن پہنچے۔جہاں شیخ کے صاحبزادے شیخ محمود نے استقبال کیا اور نہایت پرتکلف دعوت کی ۔رات اُن کے مہمان خانے میں آرام کیا۔صبح کائی فاؤنڈیشن کے طلباء کے ساتھ ناشتہ کیا ۔ناشتے پر طلباء مولانا سلمان الحسینی سے علمی سوالات پوچھتے رہے۔ یہ ناشتہ بھی نہایت پرتکلف تھا ۔اس سے اندازہ ہواکہ شیخ مصطفی الجواد نے جونقشبندی سلسلے کے جلیل القدر مشائخ میں ہیں۔ عصری علوم کے طلباء کو دین کی طرف مائل کرنے کے لیے نہ صرف فا ؤنڈیشن کی رہائش فائیوسٹار ہوٹل جیسی دی بلکہ کھانے پینے اور دیگر لوازمات کا بھی اعلیٰ معیاری انتظام کیا۔یہ سب صرف اس لیے کہ یہ طبقہ جوکل ملک کی باگ ڈور سنبھالنے اور انتظام پرفائز ہونے والا ہے ‘وہ اسلام بیزاری کے بجائے دینی ذہن کے ساتھی اپنی منزل پر پہنچے ۔اس میں برصغیر کے اہل علم وفضل کے لیے بڑی عبرت ونصیحت ہے ۔کاش کہ ہم نے پاکستان وبنگلہ دیش میں کالج اور یونیورسٹیوں کے طلبا پر توجہ دی ہوتی ۔

دارالحکمت میں ترکی کے اخباری نمائندے اور علماء کے وفد سے گفتگو

کائی فاؤنڈیشن میں ہی ترکی میزبان اسماعیل ندوی اور اُن کے دوست فاتح صاحب لینے آگئے تھے ۔اُن کے ساتھ روانہ ہوکر دارالحکمت پہنچے۔ مولانا شمس الضحیٰ علمی ودینی کتب کی تلاش میں عمر فاروق صاحب کے ساتھ مختلف کتب خانے دیکھنے چلے گئے ۔بندہ مولانا سلمان الحسینی کے ہمراہ دارالحکمت میں رہا ۔جہاں مختلف علماء اور اخباری نمائندے ملنے آتے رہے ۔انہی میں علامہ شیخ یوسف قرضاوی کی تنظیم اتحاد العلماء العالمی کے منتظم حضرات بھی تھے ‘ جو مولانا سلمان صاحب کے ساتھ تبادلۂ خیالات کرتے رہے ۔اُن کااصرار تھا کہ تنظیم کاسالانہ اجلاس تین دن بعد استنبول میں ہورہا ہے ۔آپ حضرات اس کے لیے رک جائیں اور بندہ ترکی روزنامہ ’’اِکت (Akit)کے دینی ذوق رکھنے والے نمائندے توزان قسلق(Kaslaq)سے محو گفتگو رہا ۔اُن سے ترکی کے سیاسی حالات کے متعلق بیش قیمت سیاسی معلومات حاصل ہوئیں۔ اُن کااخبار روزانہ تقریباً دو لاکھ تیس ہزار چھپتا ہے ۔جس کانام Yenesafak(شفق جدید )ترکی وزیراعظم جناب طیب اردگان کی پارٹی کاروزنامہ’’ زمان‘‘ (Zaman)ایک لاکھ دس ہزار اور فضیلت پارٹی کا’’ملی گزٹ‘‘(Mille Gazatte)تیس ہزار ۔سب سے زیادہ حیرت یہ معلوم کرکے ہوئی کہ نورسی مشائخ کے صوفیا کا (Yen Asia) (نیا ایشیا) چھ لاکھ اور دوسرا اخبار اُن کاتقریباً اڑھائی لاکھ روزانہ چھپتا ہے ۔ان نامساعد حالات میں جہاں اقتدار اعلیٰ مذہب دشمن لوگوں کے پاس ہو ۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ فوج اورعدلیہ اسرائیلی ہیں ۔وہاں تصوف کے سلسلے کے مشائخ کرام اور علما ومفکرین ‘خاموشی وحکمت کے ساتھ عصری تقاضوں کوملحوظ رکھ کر نئی نسل کے لیے جو کام کررہے ہیں ‘وہ ہمارے لیے سبق آموز ہی نہیں‘ قابل تقلید بھی ہے ۔اسی طرح ترکی کے مرکز ی بازار میں جگہ جگہ اخبارات کی دکانوں پر ترکی کے مشائخ تصوف اور علماے کرام اور ہمارے شیخ مصطفی الجواد کے آڈیو ویڈیو ،سی ڈیز نظر آئیں ۔جب کہ برصغیر میں ابلاغ کے ان جدید شعبوں میں جن کے ذریعے سے ہرمسلمان بلکہ ہرانسان کے دل ودماغ پر دستک دی جاسکتی ہے اور اسلام کا پیغام پہنچایا جاسکتا ہے۔ ہمارا کام نہ ہونے کے برابر ہے ۔پوری نئی نسل ہمارے ہاتھوں سے نکلی جارہی ہے۔ جدید ذرائع ابلاغ کے ذریعے اُن کی فکری ونظریاتی غذا کاکوئی انتظام ہم نہیں کرسکے،بلکہ ہم اب تک جدید الیکٹرانک میڈیا کے حلت وحرمت کی بابت کوئی فیصلہ نہیں کرپائے۔ لیکن جوچیز بالاتفاق حلال وطیب ہے یعنی پرنٹ میڈیا اس میں ہماری کیا کارکردگی ہے ۔اللہ ہی ہمیں عقل وہوش نصیب فرمائے ۔آمین۔

مجلس جامع سلیمانیہ اور سلیمان اعظم کے مزار پر

ظہر کی نماز بعد اسماعیل ندوی مولانا سلمان کو لے کر ائرپورٹ روانہ ہوگئے ۔جہاں شام چھے بجے مولانا کی دہلی کے لیے فلائٹ تھی ۔بندہ اور مولانا شمس الضحیٰ صاحب مختصر سا قیلولہ کرکے تاریخی آثار دیکھنے نکل پڑے ۔پہلے چہارشبہ محلے کے مرکزی بازار کے فروٹ اور میوہ جات کے پاس سے ہوتے ہوئے ایک سادہ سے ترکی قہوہ خانے میں ترکی چائے کے ساتھ ترکی کباب کھائے ۔عمرفاروق صاحب نے بتایا کہ ترکی میں ہرنوع کے میوہ جات وفروٹ بکثرت ہوتے ہیں جو نہایت اعلیٰ کوالٹی اور نہایت ارزاں ہیں ۔لندن میں غریب خانے پر بندہ کے ناشتے میں ترکی زیتون وپنیر لازماً ہوتا ہے ۔چند منٹ کے فاصلے پر جامع شہزادہ بشیر کی زیارت کی جو ترکی کی دیگر شاہی مساجد کی طرح نہایت پرشکوہ اور حسین وجمیل تھی پھرچند منٹ چل کر عصر کی نماز جامع سلیمانیہ میں پڑھی۔جامعہ سلیمانیہ استنبول کی سب سے بڑی اور عالیشان جامع ہے جو سلیمان اعظم نے تعمیر کروائی تھی ۔سلیمان اعظم کے دور میں خلافتِ عثمانیہ اپنی وسعت ،قوت اور خوشحالی وترقی کے اوجِ کمال کو پہنچ گئی تھی۔کہا جاتا ہے کہ اس جامع کی تعمیر میں شرکت کے لیے ایران کے شیعی حکمران شاہِ طہماسپ نے بھاری رقم اور قیمتی جواہرات بھیجے تھے ۔سلیمان اعظم نے رقم فقراء میں تقسیم کرادی اور بیش قیمت جواہرات سنگریزوں کے ساتھ دیواروں میں چنوا دے کیونکہ سلیمان اعظم کے نزدیک وہ بے نمازی اور فاسق تھا ۔اُس نے اہل سنت پر بے پناہ مظالم کیے او راُن کی مساجد کومسمار کیا۔اس لیے سلیمان اعظم کی حمیت وغیرت نے اُس کی رقم مسجد میں لگانی گوارا نہیں کی۔ ہمارے میزبان عمرفاروق صاحب نے اس خط کامضمون سنایا جو سلیمان اعظم نے شاہِ ایران کولکھا تھا جس کامضمون کچھ اس طرح شروع ہوتا ہے یا شارب الیل والنہار ویاامام الزیغ والضلال (اے دن رات شراب پینے والے گمراہی وکج روی کے امام)جامع سلیمانیہ کے ساتھ ہی سلیما ن اعظم کی قبر پر فاتحہ پڑھی ۔سلیمان اعظم کے مزار کے قریب جامع سلیمانیہ کے معمارریتان کامزارہے جو فن تعمیر کاامام مانا گیا ہے۔ اس کی تعمیر کردہ تین سوساٹھ یادگاریں اُس کے بعد بھی محفوظ ہیں جس میں جامع سلیمانیہ سب سے بڑا شاہکار ہے۔تاریخ میں باالاتفاق مورخین اسے دنیا کاسب سے بڑا معمار تسلیم کیا جاتا ہے ۔

ترکی کے نورسی ونقشبندی مشائخ تصوف 

سلیمان اعظم کی قبر کے ساتھ ہی نورسی اور نقشبندی کے سلسلے کے بہت سے مشائخ مدفون ہیں ۔ترکی اور وسط ایشیاء میں زیادہ تر نقشبندی کے سلسلے کی خالدی کردنی شاخ نے کام کیا جو حضرت مجدد الف ثانیؒ کے سلسلے میں دہلی کے شاہ غلام علی نقشبندیؒ کے خلیفہ تھے ۔یہیں پرشیخ محمدزاہد کی قبر ہے جن کاچند سال پہلے انتقال ہواتھا ۔یہ ترکی کے موجودہ وزیراعظم طیب اردگان اور اُن کے رہبر اور سیاسی رہنما نجم الدین اربکان کے شیخ تھے ۔یہیں عالم اسلام کی بے مثال ہستی شیخ محمدضیاء الدین غاموش ہناوی کی قبر ہے ۔جورموز الاحادیث کے مصنف ہیں ۔غرض سلیمانِ اعظم کی قبر کے ساتھ اولیاء کرامت کاعظیم خزانہ مدفون ہے ۔ہم نے ان سب بزرگوں کی قبروں پر فاتحہ پڑھی۔آج کل تصوف کاانکار واستہزاء ایک فیشن بن گیا ہے ۔مگر ہمیں یہ نہ بھولنا چاہیے کہ وسط ایشیاء میں کمیونزم کی کالی آندھی ہویا اتاترک کے جبرواستبداد کے طوفان کے سخت حالات میں ان قوموں کوصرف تصوف ہی نے اسلام پر قائم رکھا ہے ۔حقیقت یہ ہے کہ اگر یہ تصوف کے سلسلے نہ ہوتے تو اُندلس کی طرح ترکی سے بھی اسلام ختم ہوگیا ہوتا۔نقشبندی نورسی تیجانی ،حلیمیہ وسلیمانیہ سلسلوں کی خانقاہوں نے اتاترک کے استبدادی دور میں بھی زیرزمین دینی واخلاقی رہنمائی جاری رکھی ۔ان سلاسلِ تصوف کے مشائخ نے اخلاقی ،سماجی ،تعلیمی میدانوں میں رہنمائی کی اور مثالی تعلیمی ادارے اسلامی ہوسٹل،کارخانے نشرواشاعت کے ادارے اور کمپنیاں قائم کیں۔نقشبندی سلسلے کے رہنما شیخ سعید کُردی، شیخ عاطف اور شیخ اسعد نے قیدوبند کی صعوبتوں اور تختہ دار کی پروانہ کرتے ہوئے دین کادامن تھامے رکھا۔شیخ سعید کُردی اور اُن کے دوسو کے قریب مریدین شہادت سے سرفراز ہوئے ہزاروں گھر منہدم کیے گئے۔ 

آٹھویں دہائی میں جب نجم الدین اربکان نے بیت المقدس کی بازیابی کے لیے ریلی نکالی تو اتاترک کی فوج نے تین ہزار سے زیادہ لوگوں کو تختہ دار پر چڑھادیا اور بے شمار لوگوں کو جیل میں ٹھونس دیا۔ پھر ۱۹۸۰ء میں ایک لاکھ تیس ہزار لوگوں کو جن میں بہت بڑی تعداد جدید تعلیم یافتہ نوجوانوں کی تھی ۔دینی ذہن رکھنے کے جرم میں گرفتارکیاگیا ۔انہیں ملازمت سے نکال دیا گیا۔ جن میں استنبول وانقرہ یونیورسٹیوں اور دیگر کالجوں کے پروفیسروں کی بڑی تعداد شامل تھی لیکن نورسی نقشبندی سلیمانیہ سلسلے برابر اپنا کام کرتے رہے۔ انہوں نے رفاہی سوسائیٹیاں قائم کیں ۔اسلامی بنیاد پر غیر سودی بینک اور سوسائیٹیاں بنائیں۔ اسلامک مالیاتی بینک ،برکہ بینک فیصل فنانس کارپوریشن جیسے غیر سودی بینکوں کی شاخیں پھیلادیں ۔پورے ترکی میں حفظ قرآن کے مکاتب کاجال پھیلادیا۔جامع سلیمانیہ کے ساتھ ہی ترکی کاسب سے بڑا تاریخی کتب خانہ سلیمانیہ ہے جہاں بے شمار نادر مخطوطات محفوظ ہیں۔ کہا جاتاہے کہ یہ دنیا میں عربی فارسی مخطوطات کاسب سے بڑا ذخیرہ ہے ۔اسے سرسری طورپر بھی دیکھنے کے لیے بھی کئی ہفتے درکار ہیں ۔حسرت کے ساتھ واپس لوٹے شاید کبھی فرصت میں حاضر ہوسکیں۔جامع سلیمانیہ سے چند منٹ کے فاصلے پر جامع سلطان بایزید ہے ۔یہ بھی ترکی کی جامع کی طرح نہایت ہی پرشکوہ اور فن تعمیر کانادر نمونہ ہے۔ جامع بایزید کے سامنے کھلا صحن غیر معمولی طورپر وسیع ہے ۔جس میں بلامبالغہ لاکھوں آدمی آسکتے ہیں ۔یہاں ہروقت ایک میلہ سا لگارہتا ہے ۔اس میدان کے کنارے عثمانی دور کاایک عظیم الشان گیٹ(دروازہ )ہے جس پر عربی میں لکھی عبارت سے معلوم ہوا کہ یہاں عثمانی دور میں عسکری وفوجی تربیت کاادارہ تھا۔اب یہاں استنبول یونیورسٹی ہے اور کسی باحجاب خاتون کواندر جانے کی اجازت نہیں۔ جامع بایزید کے متصل ہی سلطان محمدفاتح کا تعمیرکردہ مسقف بازار، گرینڈ مارکیٹ(Grand Market)ہے جو ۱۴۸۱ء کاتعمیر کردہ نہایت خوبصورت اور منقش محرابوں کی شکل میں ہے ۔اس کی چھت نہایت پختہ ومنقش ہے ۔ یہ ترکی مصنوعات کااہم مرکز ہے ۔اس میں ۳۲۰ دکانیں،۶ غسل خانے ،۵ مساجد اور پینسٹھ گلیاں ہیں ۔یہاں ہم نے تقریباً آدھ گھنٹہ گزارا۔مولانا شمس الضحیٰ صاحب نے ایک ترکی حقہ اور بندہ نے پشمینی چادریں خریدیں۔

ترکی مساجد کی خصوصیات

پوری دنیا میں ترکی کی مساجد سے زیادہ عالیشان ،بلند وبالا ،پرشکوہ مساجد کسی ملک میں نہیں ہوں گی ۔سول انجینئرنگ کے اس دور میں اس معیار کی تعمیر کے تصور سے بڑے بڑے انجینئروں کوپسینہ آجائے گا۔یہ مساجد چار نہایت ضخیم ستونوں پر قائم ہیں ۔اُن کاقطر عموماً تیس سے چالیس فٹ کے قریب ہے ۔اس کے ستونوں کے اوپر نہایت عظیم الشان بلند بڑے گنبد کے ساتھ چھے سے بارہ تک معاون گنبد ہوتے ہیں ۔اس طرح مسجد کی تقریباً پوری چھت گنبدوں پر مشتمل ہوتی ہے اور چھت کی بلندی چھے منزلہ عمارت کے برابر ہوتی ہے ۔اس میں سینکڑوں روشن دان اور کھڑکیاں ہوتی ہیں ۔دن کے وقت پوری مسجد اس طرح روشن رہتی ہیں کہ مزید کسی خارجی روشنی کی احتیاج نہیں رہتی ۔دوسرے ان گنبدوں کی تعمیر میں یہ کمال رکھاگیا ہے کہ وہ قدرتی طورپر آلہ مکبرالصوت (لاؤڈ سپیکر)کاکام دیتی ہے ۔خطیب کی آواز مسجد کے ہرگوشے میں صاف اور واضح سنائی دیتی ہے ۔ان گنبدوں کے اندرونی حصوں میں اسی طرح دیواروں پر اسی طرح حسین ودلکش میناکاری ہوتی ہے کہ انسان اس کے حسن وجمال میں گم ہوجاتا ہے ۔چاروں ستونوں اور گنبد کے جوڑوں کی جگہ خلفائے راشدین کے اسمائے گرامی واضح خط میں نمایاں لکھے ہوئے ہیں۔بعض مساجد میں مزید عشرہ مبشرہ،ؓ حضرت فاطمہؓ اور حضرات حسنینؓ کے اسماے گرامی بھی ہوتے ہیں۔ عثمانی دور کی ہرمسجد کے دالان میں چھوٹے گنبدوں پر مشتمل بے شمارکمرے ہوتے ہیں جو کسی وقت تعلیم وتعلم کی عظیم یونیورسٹیوں اورخانقاہوں کاکام دیتے تھے ۔مگر اب ان کاکوئی تعلیمی یادینی استعمال نہیں ۔البتہ بعض میں حکومت نے ان میں سرکاری انتظامی شعبے قائم کررکھے ہیں یا وہ بند پڑے ہیں ۔مساجد کے چاروں طرف سبزہ زار ہوتا ہے جس میں پچاس ہزار سے ایک لاکھ کااجتماع ہوسکتا ہے ۔ترکی کی ہرمسجد میں فرض نمازوں کے بعد امام نہایت خوش الحانی سے قرآن پاک پڑھتے ہیں اور تقریباً تمام ہی مُصلّی نہایت مؤدب ہوکرسنتے ہیں ۔یہ تلاوت اتاترک کے انقلاب کے بعد سے ترکوں کو اسلام سے وابستہ رکھنے کاذریعہ رہا ہے ۔ہرمسجد کے ممبر نہایت ہی بلند وبالا تقریباً ایک یا دو منزلہ عمارت کے برابر ہیں ۔جب خطیب کھڑا ہوتا ہے تو عظمت وشوکت اور رعب طاری ہوجاتا ہے اور ہرشخص خطیب کویکساں دیکھ رہا ہوتا ہے۔ عثمانی سلاطین نے اپنے دفن کے لیے عالیشان تاج محل تعمیر کرنے کے بجائے وہ ان ہی عظیم الشان مساجد کے زیر سایہ چھوٹے چھوٹے اور معمولی ہجروں میں آرام فرماہیں۔

قلعۂ رومیل حصار

استنبول میں کئی بار بحیرۂ فاسفورس پر بنائے گئے عظیم الشان پل سے گزرنا ہوا جو یورپ کو ایشیاء سے بذریعہ روڈ ملاتا ہے۔ یہ ایک معلق پل ہے جس کے دونوں کناروں پر دودوآہنی ستون ہیں ۔دوستون ایشیاء میں دویورپ ہیں ۔اس کوہلالی شکل میں نکلے ہوئے دولوہے کے مضبوط ستونوں نے سنبھالا ہواہے ۔اس پل کی لمبائی ایک ہزار چوہتر (۱۰۷۴)اور چوڑائی ۴۰ء ۳۳میٹر اوریہ پل سمندر سے ۶۴میٹر بلند ہے ۔اس برج پر سے گزرتے ہوئے عمر فاروق صاحب نے سلطان محمدفاتح کاتعمیر کردہ عظیم الشان قلعہ رومیل حصاربتایا جو سلطان بایزید یلدرم کے تعمیرکردہ قلعہ حصار کے بالکل سامنے یورپ کے ساحل پر واقع ہے ۔قلعہ اس طرح تعمیر کیا گیا ہے کہ فضا سے محمد (ا)لکھا ہوا محسوس ہوتا ہے ۔خواہش کے باوجود وقت کی کمی کے باعث اندر جاکر نہیں دیکھ سکے ۔

ترکی قوم پر تصوف کے اثرات

رات کاکھاناایک کُردی ریسٹورنٹ میں کھایا ۔کُردی کھانوں کایہ ریسٹورنٹ ایک کُردی گاؤں کانظارہ پیش کررہا تھا۔دنیا میں کھانے اپنی لذت اور اقسام کے تنوع کے لحاظ سے فائق ان ہی ملکوں کے ہیں جو صدیوں تک عالمی امپائر رہے ہیں ۔جیسا کہ مغربی دنیا میں اٹلی کے کھانے او رایشیاء مشرق میں ترکی کھانے ‘کھانے کے بعد نمازِ عشاء چہارشنبہ کی جامع میں پڑھی ۔یہ محلہ قدیم زمانے سے نقشبندی ونورسی سلاسل تصوف کامسکن رہا ہے ۔موجودہ سب سے بڑے شیخ محمود آفندی بسترِ علالت پرزندگی کے آخری لمحات میں بتائے جاتے ہیں ۔اُن سے ملاقاتیں بند تھیں ۔اس محلے میں داخل ہوتے ہی محسوس ہوا کہ گویا صدیوں پرانے کی خالص خانقاہی ماحول میں آگئے ہوں ۔لوگوں کالباس حلیہ سب ہی متشرع خواتین بلکہ بچیاں تک پورے حجاب میں ہمیں استنبول میں یہ واحد مسجد ملی جواو پر نیچے تک پوری طرح بھری ہوئی تھی ۔اور تمام مُصلّی پوری داڑھی میں اور شرعی لباس میں تھے ۔بندہ چشم تصورمیں صدیوں پرانے دور میں پہنچ گیا۔جب ترکی میں اسلام کاغلبہ تھا اور ترکوں نے اسلام کاپرچم اٹھایا ہوا تھا۔

مفکرِ اسلام مولانا ندویؒ اور مولانا سلمان الحسینی کی مقبولیت

ترکی میں عصر حاضر کے مفکرین میں سے زیادہ مقبولیت ،محبوبیت اور رسوخ مفکرِ اسلام حضرت مولانا ابوالحسن علی ندویؒ کانظر آیاکیوں کہ حنفیت اور تصوف ترکوں کے رگ وپے میں پیوست ہے ۔کسی غیر حنفی یا سلفی مفکر کاوہاں جگہ بناپانا دشوار ہے۔موجودہ حکومت کے بڑے بڑے عہدیدار اپنی ابتدائی تعلیم میں حضرت مولانا کی کتابیں قصص النبیین منشورات ومختارات پڑھے ہوئے ہیں ۔ایک ترکی فاضل صالح قراجہ نے جو ندوہ میں بھی پڑھ چکے ہیں ۔حضرت مولانا کی تقریباً تمام ہی کتب کاترکی زبان میں ترجمہ کردیاہے ۔حضرت مولانا کی کتابوں کے ترکی ایڈیشن اردو سے بھی کہیں زیادہ طبع ہوئے ہیں۔ افسوس کہ ہماری یوسف صالح قراجہ سے ملاقات نہ ہوسکی۔وہ سفر میں تھے ۔مولانا سلمان صاحب سے انہوں نے فون پر گفتگو کی اور اپنے حاضر نہ ہوسکنے پر افسوس کااظہار فرمایا۔ہمارے مکرم مولانا سلمان الحسینی کی ترکی وعلمی وفکری حلقے میں بے پناہ محبوبیت ومقبولیت دیکھی۔بڑے بڑے سکالر ومفکر ین اور علمی اداروں کے ذمہ داران ملنے آتے رہے ۔ایک ترکی عالم نے کہا: مولانا سلمان صاحب کاعربی تقریر کالہجہ خالص عربی ہے ۔کوئی عجمی اس لہجے میں تقریر کرہی نہیں سکتا۔یقیناًمولانا کی رگوں میں عربی خون ہے۔ کیوں نہ ہو ۔آپ کی شخصیت میں ساداتِ حسنی وحسینی کامبارک ا متزاج ہے ۔بندہ نے مولانا سلمان صاحب سے کہا :آپ نے مردہ لوگوں میں بہت وقت گزارلیا ۔اب باقی زندگی میں زیادہ توجہ زندہ اقوام ترک عرب وسط ایشیاء پر دیجیے ۔ترکی کے تمام طبقات بڑے بڑے علماء اور نوجوانوں میں مولانا سے جو والہانہ محبت وتعلق اور قدرومنزلت دیکھی۔ انگلینڈ وامریکہ کے برصغیر (گجرات)لوگوں میں اس کاعشرِ عشیر بھی نظر نہیں آیا۔شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ برصغیر کی مٹی کی خاصیت ہے کہ جتنے کنکر اُتنے شنکر۔گویا شخصیت یا پیرپرستی رگوں میں پیوست ہے اور مولانا کاطرز زندگی پیر کے بجائے ایک عالم ربانی کا ہے۔

بہ صدحسرت لندن واپسی

ہم لوگوں نے آخری رات عمر فاروق صاحب ڈائریٹر دارالحکمت کے گھر آرام کیا ۔صبح ساڑھے چار بجے نمازفجر پڑھ کر ائرپورٹ کے لیے روانہ ہوئے۔ائرپورٹ پر کرغزستان کے ایک صاحب سے ملاقات ہوئی جو تبلیغی جماعت میں پاکستان جاتے رہتے ہیں ۔کچھ اردو بھی بول لیتے ہیں ۔گھنٹہ بھر ائرپورٹ کے ریسٹورنٹ میں ناشتے کے دوران کرغزستان کے مسلمانوں کے احوال پرگفتگو رہی۔معلوم ہوا کہ وسط ایشیا کے ملکوں میں کمیونزم سے آزادی کے بعد عام لوگوں اور نئی نسل میں اسلام کی طرف کثرت سے رجوع ہے مگر ان کو دین سکھانے اور تعلیم دینے والوں کی اشد کمی ہے ۔صبح ساڑھے آٹھ بجے ترکش ائرپورٹ سے روانہ ہوکر لندن کے وقت کے مطابق ساڑھے دس بجے ہیتھرو پورٹ پر اترے ۔

ترکوں کے مستقبل پر امید وبیم کے سائے

ترکی میں گزرے تین دن بندہ کی زندگی کا اہم ترین موڑہے۔ شدت سے احساس ہورہا ہے کہ ترکی کاسفر بہت پہلے ہونا چاہیے تھا ۔یہاں ملی ودینی کام کرنے والوں کے لیے عملی نمونے اورمثالیں ہیں ۔ترکی دوبارہ انگڑائی لے کر اٹھ رہا ہے۔ ہم نے ترکی کوامید وبیم کے درمیان چھوڑا۔اتاترک کے جس ملک میں عربی میں اذان دینا جرم تھا ‘آج وہاں دوملین سے زیادہ حفاظ قرآن ہیں اور نئی نسل اسلام کے متعلق پرعزم ایمان وایقان کی دولت سے مالامال ہے۔ کبھی اندیشہ سراٹھاتا ہے کہ فوج اورعدلیہ پوری طرح دونمہ یا اسرائیلی ہے ۔آنِ واحد میں سب کو کچل کر کسی نئے اتاترک کو لے آئے گی ۔ہم نے بہت سے ترک نوجوانوں سے پوچھا: اس فوج سے نجات کی کوئی صورت ہے ؟ان کاجواب خاموشی تھا، لیکن چہروں پر کرب والم صاف جھلکتا تھا ۔صحیح احادیث میں قیامت کی علامتوں میں سے ہے کہ حضرت مہدی علیہ السلام ظہور کے بعد سب سے پہلے قسطنطنیہ (ترکی)فتح کریں گے ۔شاید ہماری قسمت میں ابھی مزیدانقلابِ گردشِ دوراں باقی ہے ۔مگرایمان وہ طاقت ہے جو ہرحال میں امید کی جوت جلائے رکھتی ہے ۔

عجب کیا ہے کہ یہ بیڑہ غرق ہوکرپھر اچھل جائے
کہ ہم نے انقلاب چرخِ گردوں یوں بھی دیکھے ہیں

عالمی حالات پر نظر رکھنے والے صاف محسوس کررہے ہیں کہ دنیائے کفر خاص طورپر صیہونی ،صلیبی گٹھ جوڑ سے اسلام کی جنگ اپنے آخری راؤنڈ میں ہے۔ مغرب فلسفہ و فکرکے میدان میں شکست کھاچکا ہے ۔اس کی قابل فخر چیزیں فرد کی آزادی، انسانی حقوق ،سماجی انصاف اور معاشرہ کی حریت کا ملمع نائن الیون نے اتاردہا ہے ۔اب اس کے پاس صرف ظلم وجارحیت کاسہارا رہ گیا ہے ۔جو ان شاء اللہ چند سالوں میں افغانستان کے پہاڑوں اور عراق کے ریگزاروں میں دفن ہوجائے گا اور دنیا پرا سلام کے امن وسلامتی ،انسانیت کے احترام اور فلاح وبہبودی کاسور ج طلوع ہو کررہے گا۔ان شاء اللہ تعالیٰ۔


حالات و واقعات

(دسمبر ۲۰۰۶ء)

تلاش

Flag Counter