(۱)
۲۶ مئی ۲۰۰۵
محترم جناب حافظ عمار خان ناصر
ایڈیٹر ’الشریعہ‘ گوجرانوالہ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
ماہ مارچ ۲۰۰۵ کے تیسرے ہفتے میں دو سرکاری اداروں ، ادارہ تحقیقات اسلامی اور بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کے زیر اہتمام ’’اجتہاد‘‘ کے موضوع پر اسلام آباد میں ایک سیمینار منعقد ہوا۔ اس کی مختصر سی خبریں تو ملک کے متعدد اخبارات میں چھپیں، لیکن تفصیلی کارروائیاں زیب قرطاس نہ ہوئیں۔ مولانا زاہد الراشدی بھی اس سیمینار کے اہم شرکا میں سے تھے۔ انھی کے لطف وکرم سے لاہو رکے دو روزناموں، پاکستان اور اسلام میں مولانا موصوف کی تقریر کا مطبوعہ متن میسر آیا۔ روزنامہ اسلام لاہور نے اپنی اسی مارچ ۲۰۰۵ کی اشاعت میں مولانا محترم کا مقالہ بعنوان ’’پاکستان میں اجتماعی اجتہاد کی کوششوں پر ایک نظر‘‘ سپرد قلم کیا۔ مذکورہ مقالے میں اس سیمینار کی کارروائیوں کے حوالے سے بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کے ریکٹر جسٹس (ر) خلیل الرحمان خان کی ایک تجویز کا ذکر یوں آتا ہے:
’’مجھے جسٹس خلیل الرحمان خان کی اس تجویز اور تجزیہ میں موجودہ معروضی صورت حال کی روشنی میں اہمیت وضرورت کا پہلو زیادہ نمایاں نظر آیا کہ اصل ضرورت اس بات کی ہے کہ پارلیمنٹ کے ارکان اور عدلیہ کو قرآن وسنت کے احکام سے باخبر کرنے کے لیے ان اداروں کے ساتھ مستقل تحقیقی شعبے قائم کیے جائیں اور ایک بڑی لائبریری موجود ہونی چاہیے کہ اگر کوئی مسئلہ پارلیمنٹ میں پیش ہو تو ارکان اس سلسلے میں دینی رہنمائی کے لیے اس سے رجوع کر سکیں اور انھیں اس بارے میں بریف کیا جا سکے۔ ..... اسی طرح عدلیہ میں بھی اس قسم کے شعبوں کا قیام ضروری ہے۔ ..... جسٹس (ر) خلیل الرحمان نے بتایا کہ بعض مسائل میں جج صاحبان اس لیے بھی صحیح فیصلہ نہیں کر پاتے کہ ان کے پاس دینی طور پر اس مسئلہ میں ضروری معلومات نہیں ہوتیں۔ انھیں اگر صحیح طور پر بریف کر دیا جائے تو وہ بہتر فیصلے کر سکتے ہیں۔ ...... جسٹس (ر) خلیل الرحمان خان کی یہ تجویز مجھے بہت اچھی لگی اور اس نشست کے صدر جناب وسیم سجاد نے بھی اس میں دل چسپی لی۔ میرا خیال ہے کہ اگر وسیم سجاد صاحب اس کی اہمیت کو محسوس کر لیں تو وہ اس وقت اس پوزیشن میں ہیں کہ اس پر عمل درآمد کا اہتمام کر سکتے ہیں۔‘‘
’پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے‘ والی اس صورت حال کو دیکھ کر جان وتن وجد میں آ گئے۔ جسٹس خلیل الرحمان مدظلہم کی یہ تجویز ایک ایسی نشست میں سامنے آئی جس کی صدارت محترم وسیم سجاد کر رہے تھے۔ محترم وسیم سجاد ملک کی ایک مایہ ناز شخصیت جسٹس سجاد احمد خان کے صاحب زادے ہیں۔ قانون ان کی گھٹی میں پڑا ہے۔ دشت سیاست کے خارزار کے آبلہ پا ہونے کے باوجود ضمیر کی دولت ان سے وابستہ ہے۔ سینٹ کے چیئرمین رہے اور اس ناتے کئی بار ملک کے قائم مقام صدر بھی۔ حکمران طبقات کی باہمی آویزش میں توازن واعتدال قائم رکھنے میں ابلہ رہے۔ ان تمام اونچی سیجوں پر رہ کر محترم وسیم سجاد نے ملت کی پستیوں کی ہر سطح بھی دیکھی، پرکھی اور بھگتی ہے۔ یقین ہے وہ اس تجویز سے نہ صرف اتفاق کریں گے بلکہ تن ومن سے (دھن سے نہ سہی) اسے آگے بڑھانے میں لگ جائیں گے۔ آمین۔ اللہ تعالیٰ اس تجویز سے وابستہ تمام حضرات کی فکر ونظر میں ’وجعلنا لہ نورا یمشی بہ فی الناس‘ کی وسعتیں سمو دے۔ آمین
اس غیر معمولی تجویز کی اہمیت وافادیت سے صرف وہی انکاری ہوگا جس کے بارے میں ’الا من سفہ نفسہ‘ کہا جا سکے۔ اللہ کا شکر ہے کہ ابھی ہوش مندوں کا وجود ہے۔ راقم الحروف کو نہ صرف وقتاً فوقتاً اراکین مقننہ سے واسطہ رہا، بلکہ معزز اراکین عدالت نیز معروف وکلا صاحبان سے بھی ربط ضبط رہا کیا۔ فہم دین کے معاملے میں ہو کہ دنیا دانی کی بات ہو، ان معاملات سے وابستہ حضرات کو تہی دامنی کا الزام دینا غلط ہے، یوں کہ خود مروجہ عصری نظام تعلیم ہی ملی سوچ، حکمت ودانائی کے معاملے میں کور چشم ہے، بلکہ صرف ’عمی‘ ہی نہیں، ’صم وبکم‘ بھی ہے۔ (ہاں وہ حضرات مستثنیٰ ملتے ہیں کہ جن کے گھرانے مذہبی تعلیم سے بھی آراستہ چلے آئے ہوں، مگر اب یہ صف خاصی الٹ چکی ) ظاہر ہے کہ یہ تمام حضرات مروجہ نظام تعلیم کے پروردہ ہوتے ہیں اور ان میں سے جو حضرات خم خانہ مغرب کے جرعہ تعلیم سے بھی فیض یاب ہوئے ہوں، ان کی جدید رندی، خوب صورتی پر رسولی کی کیفیت سے عبارت ہوتی ہے۔
پھر یہ کہ عصری نظام تعلیم تو انگریز بہادر کے دم قدم سے آیا تھا، ہمارے مدارس کی کیفیت تو گزشتہ کئی صدیوں سے ایسی رہی کہ اب تو رونے کے لیے بھی آنسو کسی سے قرض ہی لینے پڑیں گے۔ فکری جمود اور کم نگہی کی جس منزل پر ہم آج نظر آتے ہیں، وہ آج کی بات نہیں۔ یہ بے ڈول قدم آج سے نصف صدی سے بھی پہلے دیکھے جاتے تھے۔ آخر ’’نہ خود بیں، نے خدا بیں، نے جہاں بیں‘‘ کی فغاں اور ’’زندگی نہ محبت نہ معرفت نہ نگاہ‘‘ کا نالہ ایک دردمند نے اسی برصغیر میں یہ دیکھ کر ہی تو بھرا تھا کہ ہم من حیث الملت خود داری، خود اعتمادی اور خودی سب کچھ کھوتے جا رہے ہیں۔
آنکھوں نے اس پیاری سرزمین میں وہ منظر بھی دکھلائے جب مقننہ اور عدلیہ کے مقتدر اراکین میں بعض حضرات حیات بعد الموت کو خرافات اور جواب دہی وجزائے اعمال کو دل بہلاوا علی الاعلان گردانتے رہے۔ ایسے ’’معززین‘‘ بھی ملے (اب بھی ملتے ہیں) جنھیں قرآن کریم کی ناظرہ تلاوت بھی نہیں آتی۔ ایک ایسے ملک میں جسے اسلام کے نام پر لاکھوں جانوں کا نذرانہ دے کر حاصل کیا گیا ہو، اگر عصائے قانون سازی اور میزان عدل ان افراد کے ہاتھوں نظر آئے جو
دیر وحرم سے ان کا برابر ہے فاصلہ
جتنے یہاں سے دور ہیں، اتنے وہاں سے دور
کی تصویر ہوں تو پھر حاصل جاں سرکوبی اور سینہ کوبی ہی رہ جاتا ہے۔ مشکل مگر یہ ہے کہ آدمی کا ایک ہی سر، ایک ہی سینہ ہوتا ہے۔ وہ اسے کتنی بار پیٹے اور کس کس بات پر؟ اب تو وہ منزل آن لگی کہ بنی اسرائیل کو دی گئی اجتماعی سزا (فاقتلوا انفسکم) کے امتثال میں اجتماعی طور پر ’توبوا الی بارئکم‘ کے ساتھ ساتھ کم از کم ایک نسل تک ایک دوسرے کا سر پیٹنے پر مکلف ہونا پڑے گا کہ ہم سب ہی اس صورت حال کے ذمہ دار وقصور وار ہیں۔
’’چلو موجیں کرو اب سر سے اونچا ہو گیا پانی‘‘ کی صورت حال ہے۔ گو یقیناًبہت دیر ہو چکی، بریں ہم یہ تجویز فوری روبہ عمل لائے جانے کی حق دار ہے۔ نہ صرف مقننہ وعدلیہ کے حوالے سے، بلکہ ایسے تحقیقی مراکز اور لائبریریاں دینی مدارس کے مختلف وفاقوں کے تحت بوہلہ اول ملک کے بڑے تعلیمی مراکز میں بھی ضرور قائم ہونے چاہییں جہاں مغربی فلسفہ وتہذیب کی پر فریب دیدہ زیبی پر تحقیق ہو سکے اور علاج درد ڈھونڈا جاتا رہے۔ اگر عصر حاضر کے اس شور محشر کی گونج اب بھی ہمارے وارثین منبر ومحراب سننے کے روادار نہیں تو پھر وہ اس دکھیاری کی طرح جس کی دو دفعہ طلاق ہو چکی ہو اور پھر دو دفعہ بیوگی کے داغ بھی اٹھائے ’’ہم تقدیر کو روتا ہے مسلماں تہہ محراب‘‘ کے مصداق ’اللہم غرق دیارہم‘ کے کوسنے ہی تا قیام قیامت دیتے رہ سکیں گے۔
آپ نے وہ مشہور سرائیکی کہاوت تو ضروری سنی ہوگی، ’’جے عقل نئیں تے موجاں ای موجاں‘‘۔ ہم کرائے کے سپاہیوں کی طرح دوسروں سے کلاشن کوف لے کر ادھر ادھر فی سبیل اللہ فساد کا جہاد ہی کریں گے۔ مغرب کی فکری یلغار زندگی کے ہر میدان میں جتنی مہیب ہے، ہمارا فکری اندھا پن جس قدر روز افزوں ہے، اس حوالے سے مجھے پنجابی کی یہ مشہور کہاوت یاد آتی ہے ’’اتے کتے ہرناں دا پچھا کرنا‘‘۔ شاید ہم ثمود کی طرح ’انہم کانوا قوما عمین‘ کی منزل پر ہیں۔
وہ عصری تعلیم کے مراکز ہوں یا ایرانی روایات (بلکہ خرافات) گزیدہ دینی مدارس، ہماری ملت وہیں سے یک چشم دانش ور گود لیتی رہی ہے۔ ہم سب اسی جمود رسیدہ، جہل خورسند، داماں دریدہ مگر خود فریب ملت کا حصہ ہیں۔ سچ بولنا ہم نے صدیوں سے چھوڑ دیا تو نتیجے میں سچ سننے کی صلاحیت ہی نہ رہی، جبکہ سچ بولنا اور سچ سننا یک جان دو قالب حقیقتیں ہیں۔ زندگی کے ہر میدان میں ہماری ملت کی فکری قیادت اب انھی مہربانوں کے ہاتھوں میں ہے جنھوں نے یک چشمی کو کامل بینائی ودانائی سمجھ رکھا ہے اور انھی کی نوازشوں سے ہماری ملت کا فکری جہل مستند تاریخ کے صفحات پر ثبت ہے۔ اس حد تک بھی کہ اب ہمارا ہر طبقہ اپنے سوا ہر دوسرے طبقے کو یا تو مغضوب علیہم سمجھتا ہے یا ضالین گردانتا ہے۔
جسٹس (ر) خلیل الرحمان کی تجویز اپنی جگہ جہاں امید افزا ہے، وہاں ہوش فرسا بھی ہے۔ آپ سوچیے تو یہ مایوس کن حقیقت سامنے آتی ہے کہ اس کے رو بہ عمل آنے میں کئی ایسے مرحلے آئیں گے کہ مردان کار اپنے اپنے گریبانوں کی دھجیاں اپنے ہاتھوں میں لیے بیٹھے ہوں گے۔ وہ ہمارے گریجویٹ اسمبلیوں کے اراکین ہوں کہ وارثان منبر ومحراب مفتیان کرام، ان کی معتد بہ تعداد رائج الوقت کسی بھی علمی زبان سے وہ علاقہ بھول کر بھی نہیں رکھتی جو سب سے اہم پہلو ہے۔ بے زبانی یا بد زبانی ہی ان کی زبان دانی سے عبارت ہے۔ پبلک سروس کمیشن کی رپورٹوں ہی کو دیکھ لیجیے، یہ زار وزبوں صورت حال پوری طرح ہویدا ہو جاتی ہے۔ اب یہ اور بات ہے کہ احساس زیاں ہی کاملاً جاتا رہا ہو۔ وہ دینی مواد ہو کہ قانونی وفنی، ہمارے ملک کے معروضی حقائق کے تناظر میں ہمیں یا تو عربی میں درکار ہوگا یا انگریزی میں یا پھر پارٹیشن کے بعد سے ملک بدر اردو مرحوم میں، جبکہ صورت حال یہ ہے کہ عصری تعلیم یافتہ ہمارے یک چشم دانش ور عربی سے اتنے ہی آشنا ہوتے ہیں جتنے کہ آسٹریلیا کے قدیم باشندے لباس سے۔ اردو سے ایسے گریز پا ومتنفر جیسے ’کانہم حمر مستنفرۃ فرت من قسورۃ‘ ہوں۔ انگریزی پولیو زدہ اور لکنت ماری اور اسی پر نازاں۔
عقل کی موت ، علم کی پستی
الاماں لعنت سیر مستی
کی تصویر! آپ ذرا ان حضرات کو ملی سطح پر کسی بھی میدان عمل میں دیکھ تو لیں۔ ادھر ہمارے وارثان منبر ومحراب!!
رات بھر واعظ نے کی ہجو بتاں
لیکن ایک انداز تحسینی کے ساتھ
انگریزی سن کر ہی جن کی اکثریت کو غسل شرعی واجب ہو جاتا ہے۔ عربی اتنی ہی سیکھتے ہیں جو شاید جنت کی حوریں بولتی ہوں تو ہوں، کیونکہ منتہائے نظر وہی مقام ہے اور اسی غرض سے ہے۔ اور رہی اردو، ذرا کسی دار العلوم میں باوضو ہی سہی، جانے کی ہمت تو کر لیجیے۔ اردو کا جنازہ آپ کو دار الافتا کے باہر ہی رکھا ہوا بے کفن ملے گا۔ آئیے تو، ذرا با جماعت یہ شعر الاپیں
آ عندلیب مل کے کریں آہ وزاریاں
دوسرا مصرعہ ہم سب انفراداً پڑھ لیں گے۔ مگر آپ یقین کیجیے، اس تن ہمہ داغ داغ صورت حال کے باوجود محترم جسٹس خلیل الرحمان کی یہ نوائے درا، یہ نغمہ جرس، عصر کی اذان کے خاصی دیر بعد دی جانے والی صدائے ’الصلوۃ خیر من النوم‘ ہماری لگ بھگ ساٹھ سالہ حیات ملی کے دھند، دھول اور دھویں سے آلودہ افق پر آس کی ایک کرن ہے اور کام اگر خلوص نیت سے آج بھی شروع کیا جائے تو عین ممکن ہے کہ رب غفور، عزیز ورحیم ہمیں کچھ اور مہلت دے دیں گے، ورنہ ہم تو بطور ملت خزی فی الدنیا والآخرۃ کی منزل کے عین نواح پر آن پہونچے ہیں۔
بات نکلے تو بہت دور تک جائے گی۔ اسی گفتگو کے تناظر میں یہ بات میرے لیے بعید از فہم رہتی ہے کہ ادارہ تحقیقات اسلامی کو، اسلامی نظریاتی کونسل کو، اور خود بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کو باہم فوری طور پر اس منفرد اور عظیم ذمہ داری سے مکلف کیوں نہیں کیا جا سکتا؟ کسی نئی تحقیقاتی لائبریری کا قیام اتنا آسان تو نہیں! کسی بالک کا خواب تو نہیں!! آخر ملک وقوم کے خطیر خرچ سے قائم یہ ادارے کس مرض کی دوا ہیں اور کس دن کے لیے ہیں؟ ان اداروں کو وجود ملے ربع صدی سے زاید گزر چکی، قوم کے سامنے آج تک ان کی کوئی انقلابی اجتہادی مساعی نہیں آئیں، سوائے چند ترجمہ شدہ کتابوں یا ادھر ادھر کی گانٹھ جوڑ سے کی گئی تالیفات کے، جن پر ایک ادارہ بزعم خود یہ چھاپ کر کے کہ Not for sale outside Pakistan اپنی کارستانی پر نازاں رہتا ہے، ہٹ دھرم رہتا ہے۔ یہ تمام ادارے عین دار الحکومت اسلام آباد میں براجمان ہیں، قائم ہیں مگر عملاً نائم ہیں۔ ان سب کی اپنی اپنی وقیع لائبریریاں ہیں، تحقیقی شعبے ہیں اور کئی اسکالرز نہ صرف سیاسی اساس پر بلکہ علمی اساس پر بھی وہاں مامور ہیں۔
پاکستان ایک نظریے کا نتیجہ ہے۔ دنیا کی ہر نظریاتی مملکت اپنے فلسفہ حیات کو، اپنے نظریہ حکمرانی وجہاں بانی کو اپنی مطبوعات کی تقسیم کے ذریعے دنیا بھر کو ایکسپورٹ کرتی ہے، جبکہ مملکت خداداد پاکستان کا ایک اسلامی تحقیقاتی ادارہ اپنی گنی چنی مطبوعات کو قیمتاً بھی ملک سے باہر جانے دینے کا روادار نہیں۔ شاید وہ سمجھتا ہے کہ پاکستان کے سوا اسلام کا وجود اور کہیں نہیں۔ اگر یہ کتابیں وہاں جائیں تو بے حرمتی ہوگی۔ یا پھر کام اتنے نکمے ہیں کہ سبکی ہوگی۔ نہیں، بلکہ صرف یہ تاجرانہ سوچ اس سرکاری ادارے میں بھی کار فرما ہے کہ یہ کتابیں صرف ڈالر کی اونچی سطح پر ہی دان کی جا سکتی ہیں۔ بریں عقل ودانش بباید گریست۔
نیز یہ بات بھی وجہ حیرت رہی کہ اپنے مقالہ میں مولانا زاہد الراشدی نے دینی مدارس کے وفاقوں کے تحت تحقیقاتی لائبریریوں کے قیام کی ضرورت کا، ضمناً ہی سہی، ذکر کیوں نہ کیا؟ اسے جسٹس خلیل الرحما ن مدظلہم کی زیر تبصرہ تجویز کے ساتھ نتھی کیوں نہ کر دیا؟ حالانکہ مولانائے محترم نے یہی بات بڑے درد آشام لہجے میں ایک سرکاری فورم (انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز اسلام آباد) کے تحت منعقدہ ایک سیمینار میں اپنے مقالہ بعنوان ’’عصر حاضر میں دینی مدارس کے طریق تحقیق وتالیف کا تجزیاتی مطالعہ‘‘ (جولائی ۲۰۰۴) میں کہہ دی تھی۔ واقعہ کل کا ہے، بات اتنی پرانی تو نہیں! اچھی اور ضروری بات تو سورہ رحمن کے تکراری لحن میں بار بار کہی جاتی ہے۔
یہ بات نہیں کہ حاشا وکلا زاہد الراشدی مدظلہم نے اس سے اغماض کیا ہو۔ ان سے تو اغماز بھی نہیں ہوتا! بلکہ یہ ایک ایسے سہو کا رونا ہے جو کم از کم اسلام آباد کے بے دیوار وبے دروازہ صحرا میں نہیں ہونا چاہیے تھا۔ کان پر جوں وہاں رینگتی ہے جہاں کان ہونے کا کم از کم شائبہ تو ہو! اسلام آباد کے خود مست قلندروں کو تو سنائی صرف اس وقت دیتا ہے جب وہ نفخہ ثانیہ کے صوری لہجہ میں ہو۔ بھائی عمار ناصر، وہ دن گئے جب صرف فجر میں ’الصلوۃ خیر من النوم‘ کہنے سے لوگ آ جاتے تھے، چاہے فجر کی دو فرض میں درود ابراہیمی کی نوبت پر سہی۔ اب تو ہم نیند کے اتنے ماتے ہیں کہ ہر اذان میں اس نعرہ کی ضرورت ہے۔ ہم کسی اور کو جاگنے بھی تو نہیں دیتے۔ اب ہمارے نزدیک نیند انسان کا بنیادی حق ہے اور ہم ٹھہرے ’’بنیاد پرست‘‘۔ آخر ہمارے قریہ بہ قریہ، کو بہ کو قائم خود ساختہ مسلکی دار الافتا یہ اجتہادی فتویٰ تو دے سکتے ہیں نا کہ طویل نیند اصحاب کہف کی سنت ہے۔
حافظ عمار، سلمکم اللہ، کاش کوئی ایسی صورت ہو جاتی کہ آپ جولائی ۲۰۰۴ کے اس مذکورہ مقالے کو ایک بار چھاپ سکتے کہ ملک کی کئی آنکھیں اس نالہ پر سوز کو تحریراً دیکھ لیتیں۔ جو اسے سن نہ پائے، پڑھ ہی لیتے اور عقل کو دعوت دینے کی، ’افلا تعقلون، افلا تذکرون‘ کی تعمیل کو کچھ تو صورت بنتی۔ آخر ’لو کنا نسمع او نعقل‘ کی صورت ابھی تو نہیں آگئی۔ کیا آپ ’انک لا تسمع الموتی‘ کی نوبت کو کاملاً مستولی سمجھ بیٹھے؟
اللہ سائیں سبحانہ زاہد الراشدی صاحب کو اپنی حفاظت میں رکھیں۔ آمین۔ ان کا خیال آتا ہے تو اس عاجز کا حرف دعا اس شعر میں بھی ڈھل جاتا ہے۔ نہ معلوم کس دل جلے کا ہے۔
حشر کے میدان میں کچھ اور وسعت چاہیے
ایک دنیا آ رہی ہے تیرے دیوانے کے ساتھ
میری زباں پر تو یہ دعا جاری ہی رہتی ہے۔ مجھے کوئی اعتراض بھی نہیں ہوگا اگر آپ اپنے قارئین کو بھی اس دعا میں شریک ہونے کی دعوت دیں، انھیں یاد دلائیں کہ الم یان للذین آمنوا ان تخشع قلوبہم لذکر اللہ؟
اللہ آپ کا حامی وناصر ہو۔ آمین
العبد العاجز
الراجی رحمۃ ربہ العزیز الوہاب
سید عماد الدین قادری۔ کراچی
(۲)
مکرم ومحترم حضرت مولانا ابو عمار زاہد الراشدی صاحب دامت برکاتہم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
امید ہے مزاج گرامی بخیر ہوں گے۔
ماہنامہ ’الشریعہ‘ کا شمارہ مئی ۲۰۰۵ موصول ہوا۔ ایک ہی نشست میں تمام کا مطالعہ کیا۔ اداریہ بہترین تھا۔ محترمہ شاہدہ قاضی کا مضمون ایک وسیع وعریض موضوع کا حامل ہے اور اس میں ابھی بہت زیادہ گنجایش ہے۔ اگر تاریخ کے کسی پروفیسر صاحب سے نسیم حجازی کے تاریخی ناولوں کی انھی اغلاط کو ’الشریعہ‘ کے ذریعے سامنے لایا جائے تو یقیناًیہ بہت اہم کام ہوگا، کیونکہ نسیم حجازی صاحب نے جن شخصیات پر یہ تاریخی ناول لکھے ہیں، ہماری تاریخ میں ان کا کردار نہایت روشن اور واضح ہے، لیکن ان سے منسوب بہت سے من گھڑت قصے عجیب وغریب دلائل کے ساتھ بیان کیے جاتے ہیں۔ ان میں ایک دلیل نسیم حجازی صاحب کے ناول بھی ہیں۔ مذہب وتاریخ سے دور طبقہ انھی پر ایمان رکھتا ہے، حالانکہ یہ درست نہیں۔ (میں نے تاریخ کا لفظ اس لیے استعمال کیا ہے کہ ہماری اکثریت اپنی تاریخ سے ناواقف ہے۔ وہ محض سنی سنائی باتوں کو ہی تاریخ سمجھتی ہے) امید ہے ’الشریعہ‘ کے ذمہ داران اس جانب توجہ فرمائیں گے۔
’’آرا وافکار‘‘ میں محترم ڈاکٹر امین صاحب نے ایک اہم موضوع پر قلم اٹھایا ہے۔ فی زمانہ جاری حالات وواقعات کے پیش نظر یہ نہایت ضروری اور لازم ہے کہ امت مسلمہ اپنے داخلی جھگڑوں اور رنجشوں کو پس پشت ڈال کر مشترکہ مقاصد کے لیے جدوجہد کرے اور مشترکہ دشمن (یہود ونصاریٰ، امریکہ، برطانیہ، اسرائیل، بھارت وغیرہ) کے خلاف لڑنے کے لیے تمام تر تدابیر بروئے کار لائے۔ یہ موجودہ وقت کی اہم ترین ضرورت ہے، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ امت مسلمہ بالخصوص سنی اور اہل تشیع حضرات بھلا کیسے ایک پلیٹ فارم پر اکٹھے ہو سکتے ہیں۔ محترم ڈاکٹر صاحب نے اپنے طویل مضمون میں جہاں بہت سی تجاویز دی ہیں، وہاں انتہائی اہم نکات کو نظر انداز کر دیا ہے۔ ممکن ہے علماء اہل سنت اور اہل تشیع میں باہمی عناد کی وجہ فقہ جعفریہ کے نفاذ کے لیے چلائی جانے والی تحریک ہو، لیکن علماء اہل سنت کی طرف سے آج تک اس کے خلاف واضح اور موثر آواز نہیں اٹھائی گئی۔ ان کی آواز ، ان کی تحریک اس سے کہیں زیادہ بلند، پیچیدہ اور نہایت خطرناک مسئلے کی جانب مبذول رہی ہے اور وہ ہے اہل تشیع کا صحابہ کرام وامہات المومنین کے خلاف نہایت ہی نازیبا زبان کا استعمال۔ انھوں نے اپنی سینکڑوں کتابوں میں اس خباثت کا واضح طور پر اظہار کیا ہے۔ وہ اسے اچھا، بہترین اور حق پر سمجھتے ہیں۔ یہ صرف علماء اہل تشیع تک محدود نہیں، اہل تشیع کا ہر وہ فرد جو اپنے مسلک کو سمجھتا ہے، وہ اس بد زبانی کو اپنا حق سمجھتا ہے۔ شاید ڈاکٹر موصوف نے اہل تشیع حضرات کے شائع کردہ لٹریچر کا کبھی مطالعہ نہیں کیا۔ ان کی کتابوں میں صحابہ کرام وامہات المومنین کے خلاف ایسے گستاخانہ الفاظ استعمال کیے گئے ہیں کہ جنھیں پڑھ کر ایک عام مسلمان کے لیے یہ ممکن نہیں کہ وہ سب کچھ ٹھنڈے پیٹوں برداشت کر لے۔ علماء اہل سنت کی ان کے خلاف تحریک اسی کا نتیجہ ہے، وگرنہ مولانا حق نواز جھنگوی، مولانا ضیاء الرحمن فاروقی، مولانا اعظم طارق، علامہ شعیب ندیم وغیرہ کو اس بات کا یقین تھا کہ انھیں جلد یا بدیر موت کے گھاٹ اتار دیا جائے گا، لیکن وہ اپنے مشن پر ڈٹے رہے۔
ان دونوں گروہوں میں بھلا اتحاد واتفاق کیسے ہو سکتا ہے جب حکومت اس میں مخلص ہی نہیں؟ اگر حکومت چاہے تو شیعہ حضرات کی صحابہ کرام کے خلاف لکھی گئی تمام کتابوں، تقریروں وغیرہ پر مکمل پابندی عائد کر کے اس سنگین مسئلے کو ختم کر سکتی ہے، لیکن ایسا ممکن نہیں۔ ایران بھلا ایسا کب ہونے دیتا ہے؟ اگر اہل تشیع پر یہ پابندی عائد ہو تو پھر ان کے خلاف کسی قسم کی تحریک اپنی موت آپ مر جاتی ہے۔ علماء دیوبند میں باہمی رنجش بجا ، لیکن یہ اعزاز بھی انھی کو حاصل ہے کہ انھوں نے کبھی کسی فتنے، کسی جھگڑے کے سامنے سر تسلیم خم نہیں کیا، خواہ بدلے میں جان ہی کیوں نہ چلی جائے۔ اگر آپ غیر جانبدارانہ تحقیق کریں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ علماء دیوبند انتہائی نامساعد حالات، اپنوں کی چیرہ دستیوں اور عددی قلت کے باوجود کفر کے خلاف ہر میدان میں ڈٹے ہوئے ہیں۔ انھوں نے یہ کبھی نہیں سوچا کہ اس کے بدلے میں انھیں نقصان پہنچے گا۔ آپ کوئی بھی میدان ان کی موجودگی سے خالی نہیں پائیں گے، خواہ وہ جنگی میدان ہے یا مناظرہ کا میدان یا کوئی اور میدان۔ لہٰذا یہ کہنا کسی بھی طرح درست نہیں کہ فلاں گروہ نے علماء حق کو زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔ اگر اس نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو سب سے زیادہ نقصان طالبان نے پہنچایا ہے ۔ تو کیا طالبان حق پر نہیں تھے؟
بھارت میں ٹی وی کے جواز وعدم جواز کی بحث پر مبنی مضمون محض انتشار پھیلانے کے سوا اور کچھ بھی نہیں۔ علماء کے مابین یقیناًایسے مسائل جنم لیتے رہتے ہیں اور یہ ضروری بھی ہیں کہ اس سے مزید بہت سی نئی راہیں کھلتی ہیں، لیکن یہ کسی صورت بھی مناسب نہیں کہ انھیں صفحہ قرطاس پر رقم کر کے عوام الناس کے سامنے پیش کیا جائے اور خاص طور پر اس صورت میں کہ یہ معاملہ علماء دیوبند کے مابین ہو۔ ہاں، اگر کوئی اور مسلک اس قسم کی حرکت کرتا تو یہ ان کے نزدیک اچھی کوشش ہوتی، لیکن ’الشریعہ‘ کی یہ کوشش باہمی انتشار کو فروغ دینے کی ایک مذموم حرکت ہے۔ ہمارے جیسے مذہب سے دور لوگ اس قسم کی تحریروں کو پڑھ کر علماء کرام کے خلاف غلط قسم کے خیالات سے اپنے ذہنوں کو بھر لیتے ہیں اور یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ مولوی تو ہمیشہ آپس میں لڑتے ہی رہتے ہیں۔ آپ براہ کرم اس قسم کی اختلافی تحریروں کو شائع کر کے یہ ثبوت نہ دیں کہ آپ بھی روشن خیالی اور اعتدال کی جانب گام زن ہیں۔ یہ کم از کم آپ جیسی شخصیت کو زیب نہیں دیتا، کیونکہ اس قسم کی تحریروں کو پڑ ھ کر یہی اندازہ ہوتا ہے کہ یہ سب علما ومذہب بیزار طبقہ ہی کی کوشش ہے جیسا کہ آج کل ہو رہا ہے۔
باہمی اختلافات پر مبنی تحریروں کے بجائے ایسی تحریروں کو جگہ دیجیے جن سے مذہب سے دور طبقہ علماء کرام اور مذہب سے قریب ہو۔ وہ یہود وہنود کی چالوں کو سمجھ سکے۔ نیز اسے یہ بھی معلوم ہو سکے کہ اس وقت علما ان چالوں کے خلاف کیا کیا تدابیر اختیار کر رہے ہیں۔ یہ صرف ’ضرب مومن‘ یا ’اسلام‘ کا کام نہیں، ’الشریعہ‘ جیسے رسائل وجرائد کو بھی پوری طرح مسلح ہو کر اس میدان میں اترنا چاہیے، وگرنہ وہ لوگ جو کسی ایک راہ پر چلنے کے بجائے بہت سی راہوں کو اکٹھا کرنے کی کوشش کرتے ہیں، وہ درحقیقت ایک نئے راستے کو جنم دیتے ہیں۔ یہاں راستے کا مفہوم آپ بخوبی جانتے اور سمجھتے ہیں۔ اللہ پاک آپ کا حامی ومددگار ہو اور آپ کو اپنے نیک مقاصد میں کامیابی وکامرانی عطا فرمائے۔ آمین
خیر اندیش
انعام الحسن کاشمیری
فیچر رائٹر اردو ڈائجسٹ
۲۱۔ ایکڑ اسکیم سمن آباد لاہور