’الشریعہ‘ گوجرانوالہ وہ واحد پرچہ ہے جس کا میں باقاعدہ خریدار ہوں ورنہ عام مولویوں کی طرح میرا بھی دینی پرچوں کے معاملے میں مفت خوری کا ذوق ہے جو واقعۃً کسی طرح بھی درست نہیں کہ دین کے پرچے جب دین کے نام پر کھانے والے کمانے والے نہ خریدیں تو کون خریدے؟ ہاں ’الشریعہ‘ کا میں بھی آسانی سے خریدار نہیں بن سکا۔ ’الشریعہ‘ کے مدیر اعلیٰ کا بعض ضروری تحفظات کے ساتھ ابتدا سے میں مداح اور قائل ہوں۔ شاید اس کا اثر ہو کہ ایک دفعہ ’الشریعہ‘ کے مدیر اعلیٰ زاہد الراشدی صاحب نے خواب میں مجھے بے تکلفی سے کہا کہ نکالو صد روپیہ ’الشریعہ‘ کے چندہ کا۔ اتفاق سے دو چار روز کے بعد لاہور کے کسی شان دار ہوٹل میں (کسی مسجد مدرسہ میں نہیں) اسلامی نظام کے دعوے داروں کی اعلیٰ تقریب میں (جب کہ میں تقریب میں مدعو نہیں تھا، کسی اور کام سے لاہور گیا ہوا تھا) مولانا زاہد الراشدی صاحب سے آمنا سامنا ہوا تو میں نے سو روپیہ کا سرخ نوٹ نکال کر مولانا کو تھماتے ہوئے کہا کہ ’’لے لو ’الشریعہ‘ کا چندہ جس کا آپ نے خواب میں آرڈر دیا تھا۔‘‘
یہ کافی زمانہ پہلے کی بات ہے۔ بہرحال اس وقت سے ’الشریعہ‘ مطالعہ میں ہے اور جب چندہ کے ختم ہونے کی اطلاع آتی ہے تو میں اب خواب دیکھے بغیر بھی تجدید وفا کر لیتا ہوں۔
’الشریعہ‘ اور مولانا زاہد الراشدی صاحب کی دوسری تحریرات اور راشدی صاحب سے ملنے والوں کی گفتگو سے اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ راشدی صاحب تسلسل کے ساتھ مختلف پیرایوں سے یہ بات دہرایا کرتے تھے (جب کہ بعض باتیں مثلاً کفر واسلام کے اختلاط کی بات تسلسل سے دہرانے کے وہ روادار نہیں) کہ کاش جمعیتیں ( ف س ) کا اتفاق ہو جاتا تو اسمبلیوں میں علما کی معقول نمائندگی ہو جاتی۔ حق تعالیٰ نے راشدی صاحب کی اس خواہش کو ایسے پورا کر دیا کہ صرف ف س کا اتحاد نہیں ہوا بلکہ ایک دوسرے پر کفر کا فتویٰ لگانے والوں، مشرک مشرک کی پھبتی کسنے والوں، امام اعظم ابو حنیفہؒ پر غلاظتوں کے انبار ڈالنے والوں، ایک دوسرے سے آئینوں میں تصادم رکھنے والوں، ایک دوسرے پر غیر ملکی چوہے چوہے کے آوازے کسنے والوں نے اتحاد کی برکت سے مکالموں کی وہ تمام دستاویزات جس میں یہ تمام باتیں ریکارڈ پر ہیں، خس وخاشاک کی طرح بہا دیں اور تمام فرقے ماشاء اللہ ایک دوسرے سے ہم آہنگ ہوتے ہوئے باہم شیر وشکر ہو گئے۔ والحمد للہ
ہمیں بے حد خوشی ہے کہ حق تعالیٰ نے راشدی صاحب کی خواہش کو پورا فرما دیا اور تمام اسمبلیوں میں مولوی کی معقول اور بھرپور نمائندگی ہو گئی اور شاید کسی مولوی کے حاشیہ خیال میں بھی نہ ہو کہ مولانا سید شمس الحق افغانیؒ ، مولانا سید محمد یوسف بنوریؒ ، مولانا عبد الحق صاحبؒ شیخ الحدیث حقانیہ، مولانا خیر محمد صاحب جالندھریؒ اور مولانا قاضی عبد الکریم صاحب آف کلاچی جیسے درویش صفت علماء دین کے ہاتھوں سے جھونپڑیوں میں (ہم دوش فلک دفاتر میں نہیں) قائم ہونے والے ادارہ وفاق المدارس العربیہ پاکستان کی برکت سے آج چٹائیوں پر پڑھنے والا مولوی اپنے آپ کو گریجویٹ مولوی کہہ کر فخر بھی محسوس کر رہا ہے اور اسی وفاق کی برکت سے یہ مولوی آج ملک کی اسمبلیوں میں معقول نمائندگی کر رہا ہے۔
’الشریعہ‘ کے ایک ادنیٰ قاری کی حیثیت سے کیا مدیر ’الشریعہ‘ مجھے یہ حق دیں گے کہ جہاں وہ اپنی بات تسلسل کے ساتھ امت تک پہنچاتے رہے کہ اتحاد سے مولوی کی معقول نمائندگی ہو جاوے گی، کیا وہ میری یہ بات قارئین ’الشریعہ‘ تک پہنچانے میں مدد دے سکیں گے کہ اسمبلیوں میں مولوی کی معقول نمائندگی تو ہو گئی، کیا اب اسلام کی بھی معقول نمائندگی ہو سکے گی اور اسمبلیوں میں کسی مولوی کی یہ تقریر بھی سنی جا سکے گی کہ:
۱۔ پارلیمنٹ پر اسلام کی بالادستی کا قانون پاس ہونا چاہیے۔
۲۔ کلیدی عہدوں سے غیر مسلموں اور کفر کا ناجائز قبضہ ختم ہونا چاہیے۔
۳۔ خیار ناس، خیار امت اصحاب رسول اللہ ﷺ کی عزت کے تحفظ کا موثر قانون بننا چاہیے۔
۴۔ کفریہ عقائد رکھنے والوں کو اقلیت قرار دینا چاہیے۔