میں اس وقت سوچ میں پڑ جاتا ہوں جب میڈیا کا ایک مخصوص گروپ ایسے روایتی مغرب مخالف بنیاد پرست کے طور پر میری تصویر کشی کرتا ہے جو سیاسی قوت حاصل کرنے کے لیے پند و نصائح کر رہا ہے۔ یہ سلسلہ اس وقت شروع ہوا جب شوکت خانم میموریل ٹرسٹ کے پہلے مرحلے کی تکمیل کے لیے آخری ۱۲ کروڑ جمع کرنے کی غرض سے مجھے عوام کے پاس جانا پڑا۔ اگر تاجر برادری اقتصادی بدحالی کی شکایت نہ کرتی، یا بال ٹمپرنگ کا تنازعہ کھڑا نہ ہوتا، تو مجھے ملک کے طول و عرض میں ۴۵ دن کا وعدہ کر کے عوام، دکانداروں اور طالب علموں، جو میری اصل قوت ہیں، سے مدد مانگنے کی ضرورت پیش نہ آتی۔ اس دورے کے دوران میں نے اپنے آپ کو طالب علموں کے لیے ایک مثالی کردار کے طور پر استعمال کیا تاکہ انہیں اپنی ثقافت پر فخر ہو اور انہیں قومی عزتِ نفس کا احساس دیا جائے۔ اس کام کے لیے میں نے ’’براؤن صاحب‘‘ کے کلچر پر حملہ کیا جو سامراجی باقیات اور ایک گہری جڑوں والے احساس کمتری سے نمو پذیر ہوا۔ میں نے اپنے نوجوانوں کو یہ احساس دینے کی کوشش کی کہ زندگی کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ جب تک آپ اپنی عزت نہیں کریں گے کوئی آپ کی عزت نہیں کرے گا۔
چنانچہ اگر ہمارا مغربیت پرست طبقہ مغربی ثقافت کی نقل کرتا ہے اور اپنے ہی لوگوں سے نالاں ہے تو وہ دنیا میں وقار حاصل کرنے کی توقع کیسے کر سکتا ہے؟ کسی حقیقی نمونۂ مصوری کی نقل چاہے کتنی ہی اچھی کیوں نہ ہو وہ ہمیشہ نقل ہی کہلائے گی۔ اگر ہم یہ فرض کریں کہ برطانوی اعلیٰ طبقہ عربوں کی طرح کا لباس پہننا شروع کر دے، ان کی زبان بولے، اور اپنی ثقافت کو تحقیر کی نظر سے دیکھے، اور اپنے ہم وطنوں کو ادنیٰ سمجھے تو ہم ان کے بارے میں کیا سوچیں گے؟ جب میں اپنے نوجوانوں سے کہتا ہوں کہ وہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے انگلش کو بطور زبان سیکھیں لیکن انگریز بننے کی کوشش نہ کریں، تو میں انگلش یا مغرب پر حملہ نہیں کر رہا ہوتا بلکہ میں انہیں صرف عزتِ نفس کا احساس دلانے کی کوشش کر رہا ہوتا ہوں۔
میں نے مغرب میں زندگی کی ۲۰ بہاریں گزاریں، میں ان کی ثقافت کی کمزوریوں اور استحکام کو سمجھتا ہوں۔ میں ’’براؤن صاحبان‘‘ سے وہاں پر مختلف ہو جاتا ہوں کیونکہ میں انہیں اپنے سے برتر یا اپنا آقا نہیں سمجھتا۔ میرے خیال میں ان کے ساتھ ہمارا رشتہ آقا اور غلام کی بجائے پروفیسر اور طالب علم جیسا ہونا چاہیے۔ جیسے یورپی لوگوں نے مسلم اسپین کی یونیورسٹیوں سے علم سیکھا اور وہی علم ان کی نشاۃِ ثانیہ کا باعث بنا۔ اسی طرح ہمیں بھی مغرب سے انسانی حقوق، اہلیت، قابلیت اور صلاحیتوں کی قدر دانی کا وطیرہ سیکھنا چاہیے نہ کہ وی آئی پی کلچر۔
اس کے ساتھ ہمیں خدا کی بجائے مادیت کی پرستش جیسی کمزوریوں کو بھی جاننا چاہیے، اور خصوصاً خاندانی نظام کے ٹوٹنے کو جب جان میجر ’’اساس کی جانب مراجعت‘‘، یا جارج بش خاندانی اقدار کے بارے میں بات کرتے ہیں، تو دراصل وہ دونوں ہی خاندانی اکائی ٹوٹنے کے تباہ کن اثرات پر اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہیں۔ میرے خیال میں جب ۱۹۶۰ء کی دہائی کی لذت پرستانہ جنسیت، منشیات، راک این رول کلچر، اور غیر اخلاقی پن کی تحسین شروع ہوئی تو خاندان کی اکائی ٹوٹ گئی۔ جبکہ وکٹورین انگلینڈ کے دوران برطانیہ خوفِ خدا رکھنے والا اخلاقی معاشرہ تھا۔
میں اپنی نوجوان نسل کو بتانا چاہتا ہوں کہ غیر اخلاقی پن میں اضافے کو ترقی کا نام نہیں دیا جا سکتا۔ میری خواہش ہے کہ وہ بھی پاپ کلچر کی چکاچوند کے پس پردہ دیکھیں، جیسے میں دیکھتا ہوں، انہیں گمشدہ جذبوں کی ایک داستان ملے گی۔ میں پاکستانی خواتین کو بھی خبردار کرنا چاہتا ہوں کہ وہ بھی آزادئ نسواں کے درآمد شدہ تصورات کے بارے میں بات کرتے ہوئے تنقیدی رویہ اختیار کریں۔ انہیں اس بات کا احساس کرنا چاہیے کہ ماں، جو اسلام میں نہایت قابلِ عزت ہے، کے رتبے کی تحقیر کر کے آزادئ نسواں کی تحریکوں اور مردوں کی ہمسری کرنے کی کوشش نے مغرب میں خاندانی نظام کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ کچھ مغربی خواتین کے مطابق سر پر چادر لینے کا مطلب عورت کی آزادی سلب کر لینا ہے، لیکن کیا اس وقت عورت کا استحصال نہیں ہوتا جب مصنوعات فروخت کرنے کے لیے اسے نیم عریاں ہو کر بل بورڈز پر جانا پڑتا ہے؟ اگر مختصر ترین کپڑے پہننا ہی ترقی ہے تو زمانہ قبل از تاریخ کی عورتیں کہیں زیادہ جدید تھیں، کیونکہ وہ بالکل برہنہ تھیں۔
اگر ہمارے مغربیت پرست طبقے ایسے احساس کمتری میں مبتلا نہ ہوتے، اور اسلام کے بارے میں ان کا علم ناکافی نہ ہوتا، تو ہو سکتا تھا کہ خاندان بحال کرنے کی لڑائی میں ہم مغربی معاشرے کی مدد کرنے کے قابل ہوتے۔ مشاہدہ سے یہ پتہ چلا ہے کہ بچوں کے ذہن پر طلاق کے کیسے خوفناک اثرات مرتب ہوتے ہیں، اور وہ تعلیم میں ان بچوں سے پیچھے رہ جاتے ہیں جو ایک مضبوط خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ جنوبی کوریا اور جاپان میں تعلیمی نتائج دنیا بھر میں سب سے بہتر ہیں، اور تحقیق سے پتہ چلا کہ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ان ملکوں میں خواتین اعلیٰ بنیادی تعلیم یافتہ ہیں اور اس وقت تک گھروں ہی میں رہتی ہیں جب تک بچے سکول جانے کی عمر تک نہیں پہنچ جاتے۔
اگر ترقی کا راز کسی اجنبی ثقافت کی نقل کرنے میں مضمر ہے تو ترکی کو اس وقت سپر طاقت ہونا چاہیے تھا۔ اتاترک نے شاندار ماضی کے ساتھ ترکوں کے بندھن کو زیادہ مضبوط نہیں کیا، اور نتیجتاً اسے دوسرے درجے کی یورپی قوم بنا دیا گیا، حالانکہ بار بار درخواست کے باوجود آج بھی اسے یورپی براری میں شامل کرنے کے قابل نہیں خیال کیا جاتا۔ میں نے عزتِ نفس کے بارے میں بات کی ہے جس کے بغیر کوئی قوم ترقی نہیں کر سکتی۔ تاہم مغرب کی مخالفت کر کے بھی ترقی کرنا ممکن نہیں۔
شوکت خانم میموریل کینسر ہسپتال نے یہ عیاں کر دیا کہ پاکستانی عوام قومی مقاصد کی حمایت کریں گے۔ اور میں یہ واضح طور پر محسوس کرتا ہوں کہ ہمیں اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا چاہیے۔ مجھے اس وقت شدید نفرت محسوس ہوتی ہے جب ہمارے بعض لیڈر یا اعلیٰ طبقہ یہ سمجھتا ہے کہ غیر ممالک کے تلوے چاٹ کر ہمیں کچھ امداد مل جائے گی اور ہم ترقی کر لیں گے۔ ہمیں بھارت کی جانب دیکھنا اور سمجھنا چاہیے کہ سرد جنگ کے دوران سوویت روس کا حامی ہونے کے باوجود مغرب اس کی مدد کر رہا ہے (اس کی تازہ ترین مثال ڈگلس ہرڈ کا بھارت کے حق میں حالیہ بیان ہے)۔ اس کی وجہ بھارت کی خود انصاری ہے۔ اگر ہم خود کو ذلیل کرنا چاہتے ہیں تو یہ مغرب کا قصور نہیں، دوستی تو برابری کی سطح پر ہوتی ہے، کیا کوئی گداگروں کو دوست بناتا ہے؟
مجھے یہ معلوم نہیں کہ میری روحانی وابستگی کی وجہ سے مخصوص حلقوں کو اتنی تشویش کیوں لاحق ہوئی ہے۔ علامہ اقبال کے تصورِ شاہین کی طرح میں یہ سمجھتا ہوں کہ اسلام کو گہرائی میں جا کر سمجھنے کے بعد میں اپنی ذاتی خواہشات پر قابو پانے کے قابل ہو گیا ہوں، اور یوں میری حقیقی اہلیت ظاہر ہو گئی ہے۔ ہم زندگی میں اپنی اہلیت کو محدود کر لیتے ہیں، ہم اس وقت تک اقبال کا شاہین نہیں بن سکتے جب تک ہماری دنیا ہماری ذاتی خواہشات کے تابع ہے۔ یہ خدا پر اعتقاد ہی ہے جو انسان کو ایک مثالیت پسند اور ناممکنات سے لڑنے کے قابل بناتا ہے۔ الحاد ظاہر پرستی کی جانب لے جاتا ہے جس کا نتیجہ قنوطیت کی صورت میں برآمد ہوتا ہے۔ ماضی میں کسی بھی مرحلے پر میں نے شاہین یا درویش ہونے کا دعوٰی نہیں کیا، صرف زندگی کی صحیح راہ دکھانے پر خدا کا شکر ادا کیا۔ میرا اسلام دوسروں کے نظریات کو برداشت کرتا ہے اور قرآن کی اس آیت پر یقین رکھتا ہے ’’دین میں کوئی زبردستی نہیں‘‘۔ اگر اسلام کو پھیلانا مقصود ہے تو اس کے لیے خود مثال بننا پڑے گا، جیسا کہ ہمارے محمد صلی اللہ علیہ وسلم یا برصغیر کے عظیم بزرگانِ دین نے کیا، جو عظیم انسان تھے۔ پاکستان کے مغربیت پرست آزاد رو ملحدوں کے لیے میرے پاس حقارت کے سوا کچھ نہیں، جو اسلام کے بارے میں بات کرنے والوں کو برداشت نہیں کرتے۔ اس کی وجہ ان کا احساسِ کمتری، درآمد شدہ خیالات اور رویے ہیں۔
آخر میں، میں مخصوص حلقوں کی جانب سے اپنی اس تصویر کشی کے بارے میں بات کرنا چاہتا ہوں جس میں مجھے جنرل حمید گل کے ہاتھوں ایک روبوٹ کے طور پر پیش کیا گیا۔ جہاں تک جنرل حمید گل کا تعلق ہے تو میں ان کے بارے میں بہت اچھی رائے رکھتا ہوں۔ کیونکہ چار سال قبل کور کمانڈر ملتان کی حیثیت سے انہوں نے شوکت خانم میموریل ہسپتال کے لیے نہ صرف فنڈ جمع کرنے کا بندوبست کیا بلکہ اپنی ایک ماہ کی تنخواہ بھی بطور عطیہ دی۔ اگر افغانستان میں سوویت روس کے خلاف ان کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے جرمن انہیں ’’دیوارِ برلن کی اینٹ‘‘ قرار دے سکتا ہے، تو میں ان کا ہم وطن ہونے کے ناتے ان پر فخر کیوں نہیں کر سکتا؟ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ میں ان کے ہاتھوں استعمال ہو رہا ہوں۔
۱۹۸۷ء کے بعد سے مجھے مختلف سیاسی دھڑوں کے ہاتھوں استعمال ہونے کے متعدد مواقع میسر آئے۔ اگر میں نے ایسا کرنا ہوتا تو تب ہی کر لیتا۔ اور کیا میں اتنا کم عقل ہوں کہ یہ بھی نہیں سمجھتا کہ سیاست میں جانے کے لیے مجھے کسی کے سہارے کی ضرورت نہیں۔ خاص طور پر ’’فالتو سامان اٹھائے ہوئے لوگوں کی‘‘ یا جو خود میرے اوپر بوجھ بن سکتے ہیں۔ میں جانتا ہوں کہ میں ایک ایسے سیاسی نظام میں شامل نہیں ہو سکتا جس میں کسی کو انتخاب لڑنے کے لیے بھاری رقم کی ضرورت ہو۔ میں امریکی نظام سے بھی متفق نہیں ہوں جہاں ایک سینٹر کو بھی انتخاب لڑنے کے لیے ۱۴ ملین ڈالر کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ بعد میں اسے یہ رقم پوری بھی کرنا ہے، عموماً اصولوں کی قربانی پر۔ میں پارلیمانی جمہوریت میں پارٹی سسٹم سے بھی پوری طرح مطمئن نہیں کیونکہ اس میں پارٹی ڈسپلن کے نام پر سچائی کو چھپانا یا عوام کو جھوٹ بتانا پڑتا ہے۔ اور یوں بھی جتنی عزت، محبت اور احترام، عوام کا اعتماد اور شناخت مجھے آج میسر ہے، کیا وزارتِ عظمیٰ کے بعد اس میں اضافہ ممکن ہے؟ کیا اس ملک میں کوئی ایسا وزیر اعظم تھا یا ہے جس کی اپیل پر لوگ اس طرح لبیک کہیں اور اپنے پیٹ کاٹ کر کروڑوں پیش کر دیں؟
چنانچہ میں فلاحی کاموں میں اپنے لوگوں کی خدمت کر سکتا ہوں، اور حکومتوں سے کہنا چاہتا ہوں کہ وہ مجھ سے خوف کھانے کی بجائے میری مدد کریں۔ ’’براؤن صاحبان‘‘ کے لیے میں صرف یہ تنبیہ کرنا چاہتا ہوں کہ اگر مغربیت کا شکار اعلیٰ طبقے اور عوام کے درمیان حائل خلیج بہت زیادہ وسیع ہو گئی تو ہمیں الجیریا اور ایران کی صورتحال کو ذہن میں رکھنا چاہیے جہاں انقلابات بنیادی طور پر تو کلچرل تھے لیکن ان کا اظہار اسلام کی صورت میں ہوا۔
(بشکریہ روزنامہ جنگ، لاہور ۔ ۲۰ جنوری ۱۹۹۵ء)