اسلام، دہشت گردی اور مغربی لابیاں
سابق روسی صدر میخائل گورباچوف کا حقیقت پسندانہ تجزیہ

ادارہ

سابق سوویت یونین کے آخری صدر گورباچوف نے یورپ اور یورپ کے ذرائع ابلاغ کو اسلام اور مغرب کے درمیان ٹکراؤ کی فضا پیدا کرنے سے خبردار کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت دنیا کے امن و سلامتی کے لیے اسلام اور مسلمانوں کو خطرہ بتانے کی جو مہم چلی ہوئی ہے دراصل اس کے پیچھے ان شرپسند عناصر کا ہاتھ ہے جو یورپ کے ذرائع ابلاغ اور پالیسی ساز اداروں پر قابض ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ میڈیا اور بعض مغربی سیاستدانوں کے لیے اپنے افکار و نظریات اور عزائم کی تکمیل کے لیے عوام کی تائید حاصل کرنے کی غرض سے کسی خارجی دشمن کا ہوّا کھڑا کرنا ایک محبوب مشغلہ اور پسندیدہ عمل بنا ہوا ہے۔ انہوں نے اس سیاست کو تمام مذاہب و ادیان کے ماننے والوں کے درمیان باہمی میل جول اور آپسی تعلق و تعاون کے لیے سنگین خطرہ قرار دیا۔ انہوں نے خبردار کیا کہ اسلام کو دشمن بنا کر پیش کرنے کی سیاست سے دنیا دو دینی اور مذہبی متحارب کیمپوں میں بٹ جائے گی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا مشرق و مغرب کے درمیان سرد جنگ کے خاتمہ کے بعد ایک بار پھر ایسی جنگ میں داخل ہو گی جس میں ایک طرف اسلام ہو گا اور دوسری طرف یورپ۔

گورباچوف نے، جو اپنے عرب امارات کے دورہ کے موقع پر کثیر الاشاعت انٹرنیشنل ہفت روزہ ’’المسلمون‘‘ سے گفتگو کر رہے تھے، کہا کہ انسانی تہذیب و تمدن کے لیے اسلام اور مسلمان کبھی بھی خطرہ نہیں رہے ہیں، بلکہ انسانی تمدن اور انسانی علوم و فنون کی حفاظت و ترقی میں انہوں نے نہایت اہم رول ادا کیا ہے۔ یورپ کو یہ احسان کبھی نہیں بھولنا چاہیے کہ مسلمانوں نے اپنے دورِ عروج میں علم و تہذیب کو روشنی دی ہے۔

سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے گورباچوف نے کہا، یہ کہنا کہ اسلام دہشت گردی کی ہمت افزائی کرتا ہے اور دہشت گرد جماعتیں اس دینی شدت پسندی کا شاخسانہ ہیں جو مسلم معاشروں میں فروغ پا رہی ہے، ایسا کہنا حقیقت اور انصاف کے سراسر خلاف ہے۔ انہوں نے کہا، اسلام صلح و آشتی کا دین ہے، اس کی تعلیمات قوموں اور افراد کے مابین یگانگت و بھائی چارگی پر زور دیتی ہیں۔ انسانیت کی تاریخ میں وہ دن بہت مبارک تھے جب اسلام کی قدریں غالب تھیں۔ اس کے نتیجہ میں خوشحالی، امن و سلامتی، تہذیب و تمدن اور علم و فن کے قافلوں نے صدیوں کی مسافت طے کی ہے۔

گورباچوف نے ان کوششوں کی مذمت کی جو اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کرنے کی غرض سے بعض مغربی لیڈروں، جن کو میڈیا کا پورا تعاون حاصل ہے، کی طرف سے ہو رہی ہیں۔ انہوں نے اسے ایک خطرناک سیاست قرار دیتے ہوئے کہا، اس سے عظیم فتنہ جنم لے گا اور انسانی تاریخ پیچھے چلی جائے گی۔ انہوں نے سوال کیا کہ مسلمانوں کو کس منہ سے دہشت گرد کہا جا رہا ہے؟ جبکہ خود یورپ اور مسیحی دنیا کے بہت سے ممالک میں دہشت گردی ایک مسئلہ بنتی جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا، روز نئی دہشت گرد تنظیموں کا انکشاف ہوتا ہے جن کا تعلق مختلف مذاہب اور مختلف ممالک سے ہوتا ہے، لیکن کیا ان کی وجہ سے ان قوموں کو بھی دہشت گرد قرار دیا جائے گا جن سے ان کا تعلق ہے؟

(بشکریہ تعمیرِ حیات لکھنؤ)


عالم اسلام اور مغرب

(فروری و مارچ ۱۹۹۵ء)

تلاش

Flag Counter