شاہ ولی اللہؒ اور اسلامی حدود

ڈاکٹر محمد امین

حضرت شاہ ولی اللہ الدہولی برصغیر کی اسلامی تاریخ ہی کے نہیں پورے عالم اسلام کے وہ مایہ ناز دانشور ہیں جنہوں نے اسلامی احکام کے اسرار و رموز اور حکمتوں کی بھرپور وضاحت کی ہے۔ ان کی تصنیف لطیف حجۃ اللہ البالغہ اپنی نوعیت کی ایک بے نظیر چیز ہے اور اپنے موضوع پر سند کا درجہ رکھتی ہے۔ اسلامی حدود کی حکمتوں کو بھی شاہ صاحب نے اپنی اس کتاب میں خوب نمایاں کیا ہے اور معاشرے پر ان کے پاکیزہ اور مفید اثرات کی تعریف کی ہے۔ بدقسمتی سے شاہ صاحب کی ایک عبارت کو سمجھنے میں علامہ شبلی سے معمولی تساہل ہوا، اور پھر جو شبلی نے نہیں کہا تھا وہ بھی بعض لوگوں نے ان کے سر منڈھ دیا، بلکہ اسے ہی علامہ اقبال کا موقف بھی قرار دے ڈالا، کیونکہ اقبال نے اپنے چھٹے خطبے میں شاہ ولی اللہ صاحب کی اسی عبارت سے استشہاد کیا تھا۔ لہٰذا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ شاہ صاحب کی مذکورہ عبارت کا دقتِ نظر سے جائزہ لیا جائے اور شبلی و اقبال کی آراء کی بھی تنقیح کی جائے تاکہ حقیقتِ حال واضح ہو سکے۔

شاہ ولی اللہؒ نے حجۃ اللہ البالغۃ کے سترہویں باب میں اس امر پر بحث کی ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے وقت انسانیت ذہنی، روحانی اور تمدنی ارتقاء کے حوالے سے اس سطح تک پہنچ چکی تھی کہ اب ایک ایسی شریعت نازل کر دی جاتی جو سابقہ شریعتوں کی ناسخ ہوتی، اور اب یہی شریعت قیامت تک کے لیے نافذ العمل رہتی۔ چنانچہ وہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر جو شریعت نازل ہوئی وہ اپنے اندر یہ صلاحیت رکھتی تھی کہ وہ تاقیامت انسانوں کے مسائل حل کر سکتی۔ شریعتِ اسلامی میں یہ خوبی کیسے پیدا ہوتی ہے اور اس میں ناقابلِ تغیر اور قابلِ تغیر احکام کس حکمت کے ساتھ سموئے گئے ہیں اس پر بحث کرتے ہوئے شاہ صاحب لکھتے ہیں:

’’وھذا الامام الذی یجمع الامم علی ملۃ واحدۃ یحتاج الی اصول اخری غیر الاصول المذکورہ فیما سبق۔ منھا ان یدعو قوما الی السنۃ الراشدہ، ویزکیہم، ویصلح شانہم، ثم یتخذھم بمنزلۃ جوارحہ، فیجاحد اہل الارض، ویفرقہم فی الافاق، وھو قولہ تعالی کنتم خیر امت اخرجت للناس ۔۔۔۔۔ وذٰلک لان ھذا الامام نفسہ لا یتانی منہ مجاھدہ امم غیر محصورۃ، واذا کان کذلک وجب ان تکون مادۃ شریعتہ ما ھو بمنزلۃ المذھب الطبیعی لاھل الاقالیم الصالحۃ عربہم و عجمھم ثم ما عند قومہ من العلم والارتفاتات، ویراعی فیہ حالہم اکثر من غیرھم، ثم یحمل الناس جمیعا علی اتباع تلک الشریعۃ لانہ لاسبیل الی ان یفوض الامر الی کل قوم او الی ائمۃ کل عصر، اذ لا یحصل منہ فائدۃ التشریع اصلا، ولا الی ان ینظر ما عند کل قوم، ویمارس کلا منہم، فیجعل لکل شریعۃ، اذ الاحاطۃ بعاداتہم و ما عندھم علی اختلاف بلدانہم و تباین ادیانہم کالممتنع، وقد عجز جمہور الرواۃ عن روایۃ شریعۃ واحدۃ، فما ظنک بشرائع مختلفۃ، والاکثر انہ لا یکون انقیاد الاخرین الا بعد عدد و مدد لا یطول عمر النبی الیہا، کما وقع فی الشرائع الموجودہ الان فان الیہود والنصاری والمسلمین ما آمن من اوائلم الا جمع، ثم اصبحوا ظاھرین بعد ذلک فلا احسن ولا ایسر من ان یعتبر فی الشعائر والحدود والارتفاتات عادۃ قومہ المبعوث فیہم ولا یضیق کل التضییق علی الاخرین الذین یاتون بعد، ویبقی علیہم فی الجملۃ ۔۔۔ (۱)

’’اس رہنما (پیغمبر) کو، جو مختلف قوموں کو ایک ملت کی صورت میں جمع کرتا ہے، ایسے اصولوں کی ضرورت ہوتی ہے جو اول الذکر اصولوں سے مختلف ہوں (یعنی اس پیغمبر کے اصولوں سے جو کسی ایک قوم کی طرف مبعوث ہوا ہو)۔ جن میں سے ایک یہ ہے کہ وہ (پہلے) ایک قوم کو مخاطب کرتا اور اس کی تربیت و اصلاح کرتا ہے، اور پھر اس کے ذریعے سے دوسری قوموں کی اصلاح کی جدوجہد کرتا ہے۔ جیسا کہ قرآن مجید میں کہا گیا ہے (کنتم خیر امت اخرجت للناس ۔۔۔ (اے مسلمانو!) تم وہ بہترین امت ہو جسے دوسرے لوگوں کی طرف بھیجا گیا ہے تاکہ تم انہیں امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا حکم دو اور ۔۔۔۔)۔ اس لیے (بھی) کہ یہ ایک فرد کے لیے ممکن نہیں ہے کہ وہ سارے عالم کی ذاتی طور پر اصلاح کرے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ اس پیغمبر کی شریعت ایسی ہو اور ایسے فطری مذہبی اصولوں پر مبنی ہو جو عرب و عجم سب کے لیے موزوں ہو، اور اس میں اس کی اولین مخاطب قوم کے علوم اور اعراف کو بھی ملحوظ رکھا گیا ہو۔ پھر سب لوگوں کو اسی ایک شریعت کی پیروی کا حکم دیا جائے۔ کیونکہ یہ تو ہو نہیں سکتا کہ ہر عہد کے لوگوں کو یہ چھوٹ دے دی جائے کہ وہ اپنے قوانین (شریعت) خود بنا لیں کہ اس سے تو شریعتِ الٰہی کا مقصد ہی فوت ہو جائے گا۔ اور نہ یہ ممکن ہے کہ ایسی شریعت میں ہر ایک قوم کے رسم و رواج کا لحاظ رکھا جائے اور (گویا) ہر قوم کے لیے الگ شریعت بنا دی جائے، کیونکہ ہر قوم دوسری سے الگ علاقائی اور مذہبی پس منظر رکھتی ہے۔ (اور ہر قوم کے لیے الگ شریعت مقرر کرنے والی بات اس لیے بھی ممکن نہیں ہے) کہ ایک شریعت کی روایت (بعد والی نسلوں تک اس کا صحیح طور پر پہنچانا) ہی مشکل ہے۔ چہ جائیکہ (ایک دین کے اندر) کئی شریعتوں کا روایت کیے جانا (جس سے معاملات خلط ملط ہو کر رہ جائیں گے) کیونکہ دوسری قومیں عام طور پر پیغمبر کی اپنی زندگی میں اس کی اطاعت قبول نہیں کرتیں۔ جیسا کہ موجودہ شریعتوں کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ یہودیوں، عیسائیوں اور مسلمانوں میں سے بھی (پیغمبر کی زندگی میں) کم ہی ایمان لائے اور (دوسری قوموں پر) غلبہ انہیں بعد میں حاصل ہوا۔ (ان حالات میں) بہترین اور آسان طریقہ یہی ہے کہ وہ (پیغمبر) شعائر (دینی)، حدود (اللہ) اور اجتہادی اداروں کی تشکیل میں (فطری مذہبی اصولوں کے علاوہ) اس قوم کی عادات کا ہی خیال رکھے جس میں وہ مبعوث ہوا ہے۔ اور بعد میں آنے والوں پر ان معاملات (یعنی جو اس خاص قوم کی عادات پر مبنی ہیں اور یونیورسل نوعیت کے نہیں) پر عمل میں سختی نہ کی جائے، اگرچہ بحیثیت مجموعی وہ ان پر لاگو ہی ہوں گے۔‘‘

اگرچہ قوسین میں دیے گئے الفاظ سے ترجمہ کافی واضح ہو گیا ہے لیکن شاہ صاحب کے مدعا کو مزید واضح کرنے کے لیے عرض ہے کہ ایک پیغمبر جو صرف ایک مخصوص قوم کی طرف نازل ہوتا ہے، اس کی شریعت میں اسی قوم کے احوال و اعراف کا خیال رکھا جاتا ہے۔ لیکن ایک ایسا پیغمبر جس کی شریعت کو قیامت تک کے لیے مختلف زمان و مکان میں رہنے والے لوگوں کے لیے نافذ العمل رہنا ہو، یہ نہیں ہو سکتا کہ اس کی شریعت میں صرف اولین مخاطب قوم کے احوال و اعراف کا خیال رکھا جائے، کیونکہ اگر ایسا ہو تو ایسی شریعت بعد میں آنے والے لوگوں کے لیے قابلِ عمل نہ رہے گی جو اس سے مختلف احوال و اعراف رکھتے ہوں۔ اس کا حل شارع یہ اختیار فرماتا ہے کہ اس پیغمبر کی شریعت کی بنیاد ان اصول و اقدار پر رکھی جاتی ہے جو انسان کی سعید فطرت اور طبعی انصاف پر مبنی ہوتی ہیں۔ جو نہ صرف پیغمبر کی اولین مخاطب قوم کی اقدار و اعراف پر مبنی ہوتی ہیں بلکہ ماضی میں بھی بحیثیت مجموعی (یعنی ضروری تفاصیل سے قطع نظر) ان پر عمل رہا ہوتا ہے، اور آنے والے وقتوں اور معاشروں کے لیے بھی وہ صالح ہوتی ہیں۔ اور یہی وہ اصول و اقدار ہیں جو شریعت کا بنیادی ڈھانچہ بناتی ہیں اور انہی پر شریعت کے اکثر احکام (عبادات و معاملات وغیرہ) مبنی ہوتے ہیں۔

رہے وہ معاملات جن میں زمان و مکان کی تبدیلی سے تغیر واقع ہو سکتا ہے تو یہاں شارع یہ حکیمانہ طریقہ اختیار فرماتا ہے کہ وہ ایسے امور میں محض پالیسی کے اصول بیان فرما دیتا ہے، اور تفصیلات ہر زمانے اور علاقے کے مسلمان اہلِ علم اور اہلِ حل و عقد پر چھوڑ دیتا ہے کہ وہ شریعت کے اصولوں کی روشنی میں ان تفصیلات کو طے کر لیں۔ تاہم ان دو بڑے دائروں سے بچ کر کچھ احکام ایسے بھی ہو سکتے ہیں جن میں پیغمبر کی اولین مخاطب امت اور اس کے خصوصی و مقامی احوال و ظروف کا ہی خیال رکھا گیا ہو۔ اور یہ ایسے احوال و اعراف ہوں جو آفاقی نوعیت کے نہ ہوں۔ ظاہر ہے کہ بعد میں آنے والی امتوں پر یہ احکام بعینہ نافذ نہ ہوں گے۔ اصولی طور پر تو یہ ان پر بھی لاگو ہوں گے لیکن ان کا جو جزء مقامی عرف پر مبنی ہو گا بعد میں آنے والوں کے لیے اس پر عمل ضروری نہ ہو گا کہ اس میں ان کے لیے تنگی ہے۔ جب کہ شریعت آسانی کی داعی ہے اور اس کی ضامن بھی۔ مزید وضاحت کے لیے تشریع کے ان تینوں دائروں کی ایک ایک مثال ملاحظہ ہو:

(۱) ان امور کی حفاظت کے لیے، جن کے بغیر کوئی معاشرہ قائم نہیں رہ سکتا اور نہ فرد اطمینان اور خوشی کی زندگی بسر کر سکتا ہے، شارع نے سخت سزائیں اپنی طرف سے مقرر کر دیں۔ جیسے جان کی حفاظت (قصاص)، مال کی حفاظت (قطع ید)، نسل و آبرو کی حفاظت (کوڑے اور رجم)، دین کی حفاظت (حدِ ارتداد)، اور عقل کی حفاظت (حدِ شرب خمر) وغیرہ۔ اب یہ ایسے امور ہیں جن کی حفاظت و حرمت کے بارے میں دو رائیں نہیں ہو سکتیں۔ ہر صاحبِ عقل یہ دیکھ سکتا ہے کہ اگر ان پانچ مقاصد کی حفاظت نہ کی جائے تو کوئی معاشرہ بھی قائم نہیں رہ سکتا۔ اس لیے ان مقاصد کی حفاظت کے لیے ہر زمانے میں اور ہر قوم میں سخت قوانین بنائے گئے۔

قرآن بتاتا ہے کہ ان مقاصد کے خلاف جرائم کی سزائیں پہلی قوموں میں بھی نافذ تھیں اور آج بھی ہم دیکھتے ہیں کہ ہر معاشرے نے ان امور کی حفاظت کے لیے سخت قوانین بنا رکھے ہیں۔ لہٰذا ان مقاصد کی حفاظت کے لیے شارع نے سزائیں خود مقرر فرما دیں۔ اور جب تک انسانی معاشرہ باقی ہے، یہ مقاصد بھی باقی رہیں گے، لہٰذا یہ سزائیں بھی باقی رہیں گی، اور شریعت نے ان سزاؤں میں جن مقداروں کا تعین کیا ہے وہ بھی ہمیشہ کے لیے باقی رہیں گی۔ یہ سزائیں ماضی میں بھی نافذ رہی ہیں، آج بھی نافذ ہونی چاہئیں، اور مستقبل میں بھی۔ کیونکہ ان کا تعلق ایسی اقدار اور ایسے مقاصد سے ہے جو عارضی نوعیت کے نہیں اور نہ ان کا تعلق کسی خاص معاشرے یا زمانے سے ہے۔

(۲) دوسرے دائرے کی مثال سیاسی نظام کی ہے۔ شارع نے اپنی سیاسی تعلیمات میں پالیسی کے بنیادی اصول تو بیان کر دیے لیکن اپنی رحمت و مہربانی سے تفصیلات کا تعین نہیں کیا، تاکہ بدلتے ہوئے زمان و مکان میں لوگ اپنی ضرورت کے مطابق تفصیلات کا تعین خود کر لیں۔ مثلاً شارع نے مسلمانوں کو سیاسی معاملات میں مشاورت کا حکم دیا لیکن مشاورت کی کوئی خاص شکل معین نہیں کی۔ فرض کیجئے کہ عہد رسالت مآبؐ میں کوئی خاص شکل معین کر دی جاتی تو یقیناً آج اس پر عمل ناممکن ہوتا۔ اس لیے لوگوں کو تنگی سے بچانے کے لیے شارع نے ایسے امور امت (کے اہلِ علم اور اہلِ حل و عقد) پر چھوڑ دیے کہ منصوص بنیادی اصولوں کی روشنی میں اپنے حالات و ضروریات کے مطابق تفصیلات کا تعین وہ خود کر لیں۔

(۳) تیسرے دائرے کی مثال دیت میں عاقلہ کا تصور ہے۔ عربوں میں دیت کا رواج تھا۔ اسلامی شریعت نے اسے باقی رکھا کیونکہ یہ انسانی فطرت اور طبعی انصاف کے اصولوں کے عین مطابق ہے کہ اگر کسی شخص سے بغیر ارادے کے انسانی جان کا ضیاع ہو جائے تو وہ متاثرہ خاندان کو مالی تاوان ادا کرے۔ لیکن دیت کے لیے عاقلہ کا تصور یہ ہے کہ اگر ملزم خود مالی تاوان ادا نہ کر سکے تو عاقلہ اس کی مدد کرے۔ عاقلہ وہ لوگ ہیں جن کے ساتھ ملزم اپنے معاشرتی اور معاشی مفاد میں بندھا ہوا ہے۔ عہدِ رسالت مآبؐ کے معاشرتی نظام میں عاقلہ قبائلی نظام تھا۔ آج کے پاکستانی معاشرے میں قبائلی نظام باقی نہیں رہا لہٰذا آج یہ ممکن نہیں ہے کہ ہمارے ہاں پائی جانے والی برادریاں اور خاندان ملزم کی جگہ دیت ادا کریں۔ ہمارے ہاں عاقلہ ڈرائیوروں کی یونین ہو سکتی ہے یا کوئی انشورنس کمپنی ہو سکتی ہے، اور کل کلاں کوئی دوسرا ادارہ ہو سکتا ہے۔ خلاصہ یہ کہ عاقلہ کا حکم من حیث الجملہ باقی رہے گا، لیکن عاقلہ کون ہے؟ اس کا حکم زمان و مکان کے بدلنے سے بدل جائے گا۔

اس وضاحت کے بعد اب شاہ ولی اللہ صاحب کا موقف سمجھنے میں کوئی دقت باقی نہیں رہتی۔ جب وہ یہ کہتے ہیں کہ دینی شعائر، اسلامی حدود (حدود سے مراد یہاں حدود و تعزیرات والی اصطلاحی و شرعی حدود مراد نہیں، یعنی مقاصد حصولِ خمسہ کے لیے شارع کی طرف سے معین کردہ سزائیں قطع ید و رجم وغیرہ۔ بلکہ اس سے مراد وہ حدیں ہیں جو شریعت نے ہر معاملے میں قائم کی ہیں، یعنی یہ چیز جائز ہے وہ ناجائز ہے، یہ غلط ہے اور وہ صحیح ہے۔ مثلاً وضو کس وقت ٹوٹ جاتا ہے، روزہ کس وقت افطار کرنا چاہیے، حج کس چیز سے فاسد ہوتا ہے، حلال کمائی کب حرام ہوتی ہے وغیرہ۔ گویا یہاں حدود سے مراد وہ حدیں ہیں جو اسلام نے مختلف امور میں مقرر کی ہیں۔ یا دوسرے لفظوں میں یوں سمجھیے کہ یہاں اسلامی حدود سے مراد ہیں اسلامی احکام) اور معاشرتی و معاشی اداروں کی تنظیم کے لیے دی گئی تعلیمات کے وہ حصے جن کا تعلق ایسے مقامی احوال و اعراف سے ہو جو یونیورسل نوعیت کے نہ ہوں، ان پر بعینہ عمل بعد کے زمانے میں ضروری نہیں ہوتا، بلکہ وہ احکام اصولی طور پر تو باقی رہتے ہیں لیکن ان کے ایسے اجزاء کا تعین جو خالص مقامی اعراف و احوال پر مشتمل تھے، نئے سرے سے کر لیا جاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ ایسے امور کا تعلق احکام کے اس تیسرے دائرے سے ہے جس کا ہم اوپر ذکر کر چکے ہیں، اور یہ بھی واضح کر چکے ہیں کہ دین کے اکثر و بیشتر احکام کا تعلق پہلے اور دوسرے دائرے سے ہے۔ چند بچی کھچی چیزیں ہی اس تیسرے دائرے میں آتی ہیں۔

اسلامی تشریع کے حوالے سے شاہ ولی اللہ صاحب کا موقف سمجھنے کے بعد آئیے اب دیکھیں کہ علامہ شبلی کو شاہ صاحب کا موقف سمجھنے میں کیا تسامح پیش آیا؟ علامہ شبلی برصغیر کے مشہور عالم اور ادیب ہیں۔ ’’الکلام و علم الکلام‘‘ ان کی عظیم تصنیف ہے۔ الکلام میں ’’انبیاءؑ کی تعلیم و ہدایت کا طریقہ‘‘ کے عنوان سے انہوں نے ان اصول و قواعد کا ذکر کیا ہے جن پر انبیاءؑ کی تعلیمات مبنی ہوتی ہیں۔ اس سلسلے میں انہوں نے چھ اصول بیان کیے ہیں، اور اس کے بعد یہ کہا ہے کہ ان اصولوں کا اطلاق اپنے عموم کے لحاظ سے ہر نبی کی تعلیم پر ہوتا ہے، لیکن اس نبی کا معاملہ ان سے مختلف ہوتا ہے جس کی شریعت کو ہمیشہ کے لیے باقی رہنا ہو۔ اور یہاں وہ شاہ ولی اللہ صاحب کا ذکر کردہ یہ اصول بیان کرتے ہیں کہ وہ احکام جو نبی کی اولین مخاطب قوم کے مقامی اور خصوصی احوال و اعراف پر مبنی ہوں، بعد کے زمانے میں ان کی بعینہ پیروی ضروری نہیں ہوتی بلکہ ان کی تفصیلات میں حسبِ ضرورت تغیر کر لیا جاتا ہے۔ اس کے بعد انہوں نے شاہ ولی اللہ صاحب کی وہ عبارت نقل کی ہے جو ہم نے اس مقالے کے ابتدا میں درج کی ہے اور اس کا ترجمہ دیا ہے۔ اور اس کے بعد اس اصول پر یہ تبصرہ کیا ہے:

’’اس اصول سے یہ بات ظاہر ہو گی کہ شریعتِ اسلامی میں چوری، زنا، قتل کی جو سزائیں مقرر کی گئی ہیں ان میں کہاں تک عرب کی رسم و رواج کا لحاظ رکھا گیا ہے۔ اور یہ کہ ان سزاؤں کا بعینہا اور بخصوصہا پابند رہنا کہاں تک ضروری ہے۔‘‘ (۳)

اس کے باوجود کہ شبلی نے شاہ ولی اللہ صاحب کی عبارت میں لفظ ’’حدود‘‘ کا ترجمہ تعزیرات کیا ہے، ان کے مذکورہ بالا جملے مجمل بلکہ مبہم ہیں۔ انہوں نے واضح لفظوں میں یہ نہیں کہا کہ اسلامی حدود عربوں کے خالص مقامی اعراف پر مبنی تھیں، اور یہ کہ آئندہ زمانوں میں ان پر بعینہ عمل نہیں ہو گا۔ بلکہ وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ اس اصول کی روشنی میں یہ دیکھنا چاہیے کہ کیا اسلامی حدود ایسے مقامی اعراف و احوال پر مبنی تھیں جو خالص مقامی نوعیت کے تھے، اور یونیورسل شریعت کا جزو نہیں بن سکتے تھے؟ یا پھر اسلامی حدود ایسے اعراف پر مبنی تھیں جو یونیورسل نوعیت کے تھے اور وہ ہمیشہ کے لیے باقی رہنے والی شریعت کا جزو بن سکتے تھے؟

شبلی کے ان الفاظ سے پتہ چلتا ہے کہ وہ محض دعوتِ فکر دے رہے ہیں، کوئی فیصلہ نہیں کر رہے۔ اور ان الفاظ کا وہی مفہوم سمجھنا چاہیے جو شاہ ولی اللہؒ کا اور امت کے دیگر اہلِ علم کا موقف ہے۔ اور یہی سمجھنا اولیٰ ہے کیونکہ علامہ شبلی کے بارے میں یہ کہنا کہ وہ حدود کے باب میں شاہ ولی اللہؒ کے موقف سے واقف نہ تھے (جو انہوں نے حجۃ اللہ البالغہ‘‘ ہی میں دوسری جگہوں پر وضاحت کے ساتھ بیان کیا ہے، یا یہ کہ خود علامہ شبلی کا موقف ساری امت سے الگ تھا اور وہ حدودِ اسلامی کو قابلِ تغیر سمجھتے تھے، تو یہ علامہ شبلی سے سوءِ ظن بلکہ ان پر محض ایک اتہام اور دعوٰی بلا دلیل ہے۔

تاہم علامہ شبلی سے یہاں یہ تسامح ضرور ہوا ہے کہ انہوں نے حدود کا ترجمہ تعزیرات کرنے کے باوجود مثال دیتے ہوئے یہاں حدود کو شرعی اور اصطلاحی حدود سمجھ لیا ہے، حالانکہ عبارت کا سیاق و سباق اس کا تقاضا کرتا ہے کہ یہاں حدود کو اسلامی احکام کے معنی میں لیا جائے (جیسا کہ علامہ اقبال نے کیا ہے) نہ کہ شرعی اور اصطلاحی حدود کے معنی میں۔

معروف اصطلاحی معنوں میں حدود سے مراد وہ سزائیں ہیں جو شارع نے خود مقرر کی ہیں اور جنہیں امت تبدیل نہیں کر سکتی۔ پھر یہاں علامہ شبلی کو یہ وضاحت بھی کرنی چاہیے تھی کہ شریعتِ محمدی کی یہ اضافی خوبی اس کی تشریع کا کوئی بنیادی اصول نہیں بلکہ، جیسا ہم نے پہلے ذکر کیا ہے، شریعتِ محمدی کے اکثر و بیشتر احکام تو تشریع کے پہلے دو دائروں پر مبنی ہیں۔ تیسرا دائرہ مختصر اور تنگ دائرہ ہے جس میں بہت کم احکام آتے ہیں۔ تاہم، ہماری ان ساری وضاحتوں کے باوجود اگر کوئی علامہ شبلی کے الفاظ کی اس توجیہ پر اصرار کرے کہ شبلی نے یہاں شاہ ولی اللہ صاحب کی یہ رائے بیان کی ہے کہ اصطلاحی حدود پر بعد کے ادوار میں عمل نہیں ہو گا، تو ہم اسے کہیں گے کہ وہ اصطلاحی اور شرعی حدود کے باب میں حجۃ اللہ البالغہ ہی میں بیان کیے گئے شاہ صاحب کے موقف کو جان لے تو شاید اس کا اطمینان ہو جائے۔

حجۃ اللہ البالغہ میں شاہ ولی اللہؒ شرعی حدود کی حکمتیں بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

’’جس معصیت کے ارتکاب پر شرع نے حد مقرر کی ہے وہ متعدد مفاسد پر مشتمل ہوتی ہے۔ مثلاً وہ کوئی ایسی معصیت ہو جو نظامِ تمدن میں خلل انداز ہونے کے علاوہ مسلمانوں کے لیے طمانیت اور سکونِ قلب کے زوال کا باعث ہو۔ لوگوں کے دلوں میں بار بار اس کے کرنے کا داعیہ پیدا ہوتا ہو، اور اس کے دو چار مرتبہ عمل میں لانے سے اس کی لت پڑ جاتی ہو، جس سے کہ پیچھا چھڑانا مشکل ہو جائے، کیونکہ اس کے اثرات اعماقِ قلب میں سرایت کر جاتے ہیں۔ اس قسم کی معصیت میں ایک خرابی یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ مظلوم جو اس کا نشانہ بنتا ہے، عموماً آپ اپنی حمایت کرنے سے عاجز ہوتا ہے۔ مزید برآں وہ ایک کثیر الوقوع ہوتی ہے۔ اس نوعیت کی معصیت کے لیے صرف عذابِ آخرت کی وعید و تہدید کافی نہیں بلکہ یہ نہایت ضروری ہے کہ اس کے ارتکاب پر اس دنیا میں بھی کوئی سخت عبرتناک سزا مقرر ہو، اور اس کا مرتکب اپنی سوسائٹی میں سخت نفرت کی نگاہ سے دیکھا جائے، تاکہ ان نتائج کے پیشِ نظر بہت کم اشخاص اس کے ارتکاب پر اقدام کرنے کی جرأت کر سکیں۔

اس کی ایک واضح مثال کسی محترم خاتون کی عصمت دری کرنا ہے۔ کیونکہ اس کا محرک صنفی خواہش کا غلبہ ہوتا ہے، اور صنفِ نازک کے حسن و جمال سے اس جذبہ کو تقویت حاصل ہوتی ہے۔ جیسے کہ ہم کہہ چکے ہیں یہ وہ برا فعل ہے جس کے ایک دو بار کرنے سے اس کا چسکا پڑ جاتا ہے۔ اس خاتون کے شوہر اور اس کے دیگر اقربا کے ماتھے پر اس کلنک کا بدنما ٹیکہ ہمیشہ کے لیے ثبت ہو جاتا ہے اور وہ کسی کو اپنا منہ دکھانے کے قابل نہیں رہتے۔ یہ ایک ایسا فعل ہے جس کو انسان کی فطری غیرت ہرگز گوارا نہیں کرتی، الاّ یہ کہ کسی کی فطرت مسخ ہو چکی ہو۔ علاوہ ازیں اس سے کئی قسم کے تنازعات پیدا ہوتے ہیں جس کا نتیجہ کشت و خون ہوتا ہے۔ اکثر یہ فعل قبیح فریقین کی رضامندی سے واقع ہوتا ہے اور اس کا محلِ ارتکاب عموماً کوئی پوشیدہ جگہ ہوتی ہے جو لوگوں کی نظروں سے اوجھل ہو۔ اب اگر اس کے لیے شریعت میں سخت اور عبرتناک سزا مقرر نہ ہو تو اس فعلِ شنیع کے عام طور پر پھیل جانے میں ذرہ بھی شک نہیں‘‘ (۴)

اس کے بعد شاہ صاحب نے چوری، رہزنی، شراب خوری اور قذف کا ذکر کیا ہے اور ان جرائم کی سخت سزاؤں کی حکمتیں بیان کی ہیں۔ بعد ازاں شاہ صاحب نے حدود کے اس باب میں یہ لکھا ہے کہ یہ ایسے شنیع جرائم ہیں کہ سابقہ انبیاءؑ کی شریعتوں میں بھی ان کے لیے ایسی ہی سخت سزائیں مقرر تھیں۔ چنانچہ فرماتے ہیں:

’’ہم سے پہلے جو شریعتیں تھیں ان کا حکم یہ تھا کہ اگر کوئی شخص قتل کا مرتکب ہو تو اس کو قصاص کے طور پر قتل کر دیا جائے، زنا کی سزا رجم مقرر تھی، اور چوری کے ارتکاب پر مجرم کا ہاتھ کاٹا جاتا۔ یہ تینوں سزائیں انبیاء علیہم السلام کی شریعتوں میں متوارث چلی آتی تھیں۔ جملہ انبیائے سابقین کی شریعتوں میں ان جرائم کے لیے یہی سزائیں مقرر تھیں اور ان کی امتوں میں انہی احکام پر عمل درآمد ہوتا تھا۔ یہ حدود اور شرائع اس قابل تھے کہ شریعتِ محمدیہ میں بھی انہی کو برقرار رکھا جائے۔ اتنی بات ضرور ہے کہ شریعتِ ہٰذا نے ان کی مناسب اصلاح کی‘‘۔ (۵)

اس کے بعد شاہ صاحب نے لکھا ہے کہ ان سخت سزاؤں کو تبدیل کر کے ہلکی سزائیں مقرر کرنا دین میں تحریف ہے۔ اور یہ کہ حدود کی سزائیں بغیر کسی مداہنت کے سختی سے نافذ کرنی چاہئیں۔ چنانچہ فرماتے ہیں:

’’یہودیوں میں جب اپنی شریعت کی پابندی کے بارے میں تساہل آ گیا تو وہ ہر کہہ و مہ پر رجم کا، جو زنا کی شرعی سزا تھی، اجراء نہ کر سکے۔ اور انہوں نے اس کو تجبیہ اور تسحیم سے بدل دیا (یعنی مجرم کا منہ کالا کر کے اور گدھے پر سوار کر کے شہر کے بازاروں اور گلی کوچوں میں پھرانا)۔ یہ علماء یہود کی تحریف تھی‘‘ (۶)

آگے چل کر فرماتے ہیں:

’’حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی سخت تاکید فرمائی کہ حدودِ شرعیہ کی تعمیل اور اجراء میں کسی سے بھی مداہنت اور نرمی کا برتاؤ نہ کیا جائے بلکہ حکمِ شرعی کی موبمو تعمیل کی جائے۔ اغنیاء اور اصحابِ عز و جاہ کے ساتھ کسی قسم کی رو رعایت تشریعِ حدود کے منافی ہے، اور اس سے شرائعِ الٰہیہ کا ابطال اور ان کی بے وقعتی ہوتی ہے۔‘‘ (۷)

اب آئیے اقبال کی طرف۔ اقبال کی ’’تشکیلِ جدید الٰہیاتِ اسلامیہ‘‘ کے چھٹے خطبے کا موضوع اسلام کا حرکی تصور اور اجتہاد ہے۔ یہاں انہوں نے اسلامی قانون کے ماخذ پر بھی مختصر بحث کی ہے اور اس ضمن میں قرآن، سنت، اجماع اور قیاس پر گفتگو کی ہے۔ سنت کے ماخذِ قانون ہونے کی حیثیت سے جب وہ گفتگو کرتے ہیں تو کہتے ہیں:

For our present purposes, however, we must distinguish traditions of a purely legal import from those which are of a non-legal character. With regard to the former, there arises a very important question as to how for they embody the Pre-Islamic usages of Arabia which were in some cases left intact, and in others modified by the Prophet. It is difficult to make this discovery, for our early writers do not always refer to Pre-Islamic usages. Nor is it possible to discover that usages, left intact by express or tacit approval of the Prophet, were intended to be universal in their application. Shah Waliullah has a very illuminating discussion on the point. I reproduce here the substance or his view. The Prophetic method of teaching, according to Shah Waliullah, is that, generally speaking, the law revealed by a Prophet takes especial notice of the habits, ways, and peculiarities of the People to when he is specifically sent.  The Prophet who aims at all-embracing principles, however, can neither reveal different principles for different people, nor leaves them to workout their own rules of conduct. His method is to train one particular people, and to use them as a nucleus for the building up of a universal Shariah. In doing so he accentuates the principles under lying the social life of all mankind, and applies them to concrete cases in the light of the specific habits of the people immediately before him. The Shariah values (Ahkam) resulting from this application (e.g. rules relating to penalties for crimes) are in a sense specific to that people; and since their observance is not an end in itself, they cannot be strictly enforced in the case of future generations". 

(۳) اس عبارت کا ترجمہ نذیر نیازی صاحب نے یوں کیا ہے:

’’لیکن جہاں تک مسئلہ اجتہاد کا تعلق ہے، ہمیں چاہیے ان احادیث کو، جن کی حیثیت سر تا سر قانونی ہے، ان احادیث سے الگ رکھیں جن کا قانون سے کوئی تعلق نہیں۔ پھر اول الذکر کی بحث میں بھی ایک بڑا اہم سوال یہ ہو گا کہ ان میں عرب قبلِ اسلام کے اس رسم و رواج کا، جسے جوں کا توں چھوڑ دیا گیا، یا جس میں حضور رسالت مآبؐ نے تھوڑی بہت ترمیم  کر دی، کس قدر حصہ موجود ہے۔ لیکن یہ وہ حقیقت ہے جس کا اکتشاف مشکل ہی سے ہو سکے گا، کیونکہ علماء متقدمین شاذ ہی اس رسم و رواج کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ ہمیں تو شاید یہ بھی معلوم نہیں کہ جس رسم و رواج کو جوں کا توں چھوڑ دیا گیا، خواہ حضور رسالت مآبؐ نے اس کی بالصراحت منظوری دی، یا خاموشی اختیار فرما لی، اس پر کیا سچ مچ ہر کہیں اور ہر زمانے میں عمل کرنا مقصود تھا؟ شاہ ولی اللہ نے اس مسئلے میں بڑی سبق آموز بحث اٹھائی ہے۔ ہم اس کا مفاد ذیل میں پیش کریں گے۔‘‘

’’شاہ ولی اللہ کہتے ہیں انبیاء کا عام طریقِ تعلیم تو یہی ہے کہ وہ جس قوم میں مبعوث ہوتے ہیں ان پر اسی قوم کے رسم و رواج اور عادات و خصائص کے مطابق شریعت نازل کی جاتی ہے۔ لیکن جس نبی کے سامنے ہمہ گیر اصول ہیں، اس پر نہ تو مختلف قوموں کے لیے مختلف اصول نازل کیے جائیں گے، نہ یہ ممکن ہے کہ وہ ہر قوم کو اپنی اپنی ضروریات کے لیے الگ الگ اصولِ عمل متعین کرنے کی اجازت دے۔ وہ کسی ایک قوم کی تربیت کرتا اور پھر ایک عالمگیر شریعت کی تشکیل میں اس سے تمہید کا کام لیتا ہے۔

(یہاں شاہ صاحب کی عبارت سے ایک غلط فہمی کا اندیشہ ہے لہٰذا اس امر کی صراحت ناگزیر ہو جاتی ہے۔ قرآن پاک میں تو یہی عالمگیر شریعت نازل ہوئی جس کی طرف شاہ صاحب اشارہ فرما رہے ہیں۔ رہا اس کے اطلاق میں قوموں کے احوال اور خصائص کا مسئلہ، سو یہ قانون کا مسئلہ ہے، شریعت کا نہیں۔ قرآن پاک کا صاف و صریح ارشاد ہے: شرع لکم من الدین ما وصٰی بہ نوحا والذی اوحینا الیک و ما وصینا بہ ابراھیم و موسیٰ و عیسٰی ان اقیموا الدین ولا تتفرقوا فیہ (۸ الف)۔)

لیکن ایسا کرنے میں وہ اگرچہ انہی اصولوں کو حرکت دیتا ہے جو ساری نوعِ انسانی کی حیاتِ اجتماعیہ میں کارفرما ہیں، پھر بھی ہر معاملے اور ہر موقع پر عملاً ان کا اطلاق اپنی قوم کی مخصوص عادات کے مطابق ہی کرتا ہے۔ لہٰذا اس طرح جو احکام وضع ہوتے ہیں (مثلاً تعزیرات) ایک لحاظ سے اس قوم کے لیے مخصوص ہوں گے۔ پھر چونکہ احکام مقصود بالذات نہیں، اس لیے یہ بھی ضروری نہیں کہ ان کو آئندہ نسلوں کے لیے بھی واجب ٹھہرایا جائے۔‘‘ (۹)

اقبال نے یہاں یہ مسئلہ اٹھایا ہے کہ جو قوانین احادیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ماخوذ ہیں ان کے بارے میں آج تیقن سے یہ کہنا مشکل ہے کہ یہ کسی خالص مقامی نوعیت کے عرف پر مبنی ہیں، یا پھر ایسے عرف پر مبنی ہیں جو یونیورسل نوعیت کا ہے، کیونکہ راویوں نے عام طور پر اس کو بیان کرنے کی طرف توجہ نہیں دی۔ اس لیے اس مسئلے کا حل یہی ہے کہ ان احکام کو (جن کے بارے میں خیال ہو کہ وہ یونیورسل نوعیت کے مقامی اعراف پر مبنی نہیں) آئندہ زمانے میں بعینہ نافذ نہ کیا جائے۔ یہاں حدود کا ترجمہ اقبال نے بجا طور پر احکام اور Sharia Values کیا ہے اور اس کے ساتھ ہی قوسین میں یہ بھی کہہ دیا ہے ’’مثلاً جرائم کی سزاؤں سے متعلق احکام‘‘۔ یہاں اگر ’’جرائم کی سزاؤں سے متعلق احکام‘‘ سے مراد تعزیری احکام ہیں، جیسا کہ اس کا ترجمہ نذیر نیازی صاحب نے کیا ہے، تو یہ بالکل صحیح ہے۔ کیونکہ تعزیری احکام مقصود اصطلاحی حدود ہیں تو اس پر وہی اعتراض وارد ہو گا جو اس سے پہلے ہم علامہ شبلی کے بارے میں بیان کر چکے ہیں۔ لیکن چونکہ اقبال نے یہاں حدود کا لفظ استعمال نہیں کیا اس لیے اسلامی حدود کا لفظ خواہ مخواہ اقبال کے سر کیوں منڈھا جائے؟

موضوع زیر بحث کی رعایت سے ہم یہاں احادیث کی شرعی حیثیت کے حوالے سے ایک ضروری بات کہنا چاہیں گے اور وہ یہ کہ احادیث، خواہ احکامی ہوں یا غیر احکامی، ہمارے لیے حجت ہیں۔ کسی حدیث کے بارے میں علمی اور فنی لحاظ سے تو یہ سوال اٹھایا جا سکتا ہے کہ وہ قولِ رسولؐ ہے یا نہیں، لیکن ایک دفعہ یہ ثابت ہو جانے کے بعد کہ یہ حکمِ رسولؐ ہے، اس کے حجت اور قابلِ اتباع ہونے کے بارے میں کوئی مسلمان سوال نہیں اٹھا سکتا۔ کیونکہ قرآن کی رو سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی حکم کی اطاعت سے انکار آج بھی اس طرح موجبِ گمراہی و کفر ہے جس طرح وہ حضورؐ کی زندگی میں تھا (۱۰)۔ قرآن اس بات کی ضمانت دیتا ہے کہ حضورؐ جو کچھ فرماتے ہیں وہ مبنی بر وحی ہوتا ہے، وہ اپنے پاس سے کچھ نہیں کہتے (۱۱)۔

پھر ساتھ یہ بھی سمجھ لینا چاہیے کہ جب تک حضورؐ زندہ تھے اور آپؐ پر وحی آتی تھی تو یہ آپؐ کے احکام کے صحیح ہونے کی ضمانت تھی۔ خواہ وہ احکام وحی خفی پر مبنی ہوں یا آپؐ کے اجتہادات ہوں۔ کیونکہ اس صورت میں اگر آپؐ خدانخواستہ غلطی کرتے تو وحی کے ذریعے فورًا آپؐ کی تصویب کر دی جاتی۔ جیسا کہ قرآن مجید کی کئی آیات سے پتہ چلتا ہے کہ حضورؐ کے بعض افعال و احکام کو جب اللہ تعالیٰ نے آپؐ کے مرتبۂ کمال کے مناسب نہ سمجھا تو تنبیہ کر دی (۱۲)۔ اس سے یہ بات بھی واضح ہو جاتی ہے کہ حضورؐ جب عربوں کے کسی ایسے عرف کو مسلمانوں کے لیے ایک آفاقی شریعت کے طور پر حکم فرماتے تھے تو اس کے پیچھے وحی کی سند موجود ہوتی تھی۔

مثلاً عربوں میں نکاح کے کئی طریقے مروج تھے۔ اب نبی کریمؐ نے نکاح کے جس طریقے کو پسند فرمایا اور وہ امت کو تعلیم فرمایا، وہ ہمیشہ کے لیے ساری امت کے لیے شریعت بن گیا، تو آج اس کے بارے میں یہ سوال نہیں اٹھایا جا سکتا کہ یہ تو عربوں کا طریقہ تھا، اور آج صدیوٖں بعد کسی غیر عرب معاشرے کے لیے یہ موزوں نہیں ہے۔ کیونکہ نکاح کا یہ طریقہ اگر یونیورسل شریعت کا جزو بننے کے لیے موزوں نہ ہوتا، جبکہ حضورؐ ایسا قرار دے چکے تھے، تو ضروری تھا کہ ۔۔۔۔۔۔۔ وحی کے ذریعے اللہ تعالیٰ اس کی تصحیح کر دیتے۔ لیکن چونکہ ایسی کوئی تصحیح نہیں کی گئی، لہٰذا آج یہ سوال ہی خارج از امکان ہے کہ آیا یہ محض مقامی نوعیت کے عرف پر مبنی ہونے کی وجہ سے خالص مقامی حکم تھا، یا ایسے عرف پر مبنی جو آفاقی نوعیت کا تھا۔

پھر یہ بھی ذہن میں رہے کہ جن معاملات کے بارے میں فقہ و اصولِ فقہ کے ماہرین نے یہ رائے ظاہر کی ہے کہ یہ مقامی نوعیت کے ہیں اور آفاقی نوعیت کے نہیں، ان کے بارے میں بھی یہ فیصلہ انہوں نے محض اپنی رائے سے نہیں دیا بلکہ احادیث کی داخلی شہادتوں پر دیا ہے۔ مثلاً کسی کے بارے میں انہوں نے یہ کہا ہے کہ یہ حضورؐ کا عمومی حکم نہیں بلکہ بطور حکمران کے آپؐ نے یہ انتظامی فیصلہ کیا ہے۔ مثلاً بنجر زمینوں کو آباد کرنے پر حقِ ملکیت حاصل ہونا۔ یا بطور قاضی کوئی فیصلہ دیا ہے مثلاً بیوی کو شوہر کے مال میں بغیر اجازت کفاف کی حد تک تصرف کا حق دینا۔ یا احکام کی نوعیت ہی بتا دیتی ہے کہ یہ کوئی مستقل حکم نہیں بلکہ عارضی حکم ہے، مثلاً حضورؐ کا یہ فرمان کہ ’’حکمران قریش سے ہوا کریں گے‘‘۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ قیامت تک ساری دنیا میں مسلمانوں کے حکمران صرف قریش ہی ہوں گے، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس وقت جزیرہ نما عرب میں قریش کو سیاسی بالادستی اور قوت حاصل تھی اور ان کی موجودگی میں کسی دوسرے قبیلے کو حکومت سازی کا اختیار دینا ایک ایسی بات ہوتی جو چل نہ سکتی بلکہ الٹا معاشرے کو نقصان پہنچاتی۔ اس کا یہ مطلب بھی لیا جا سکتا ہے کہ جب تک قریش کو عربوں میں یہ سیاسی قوت، رسوخ اور بالادستی حاصل رہے گی یہ ضروری ہے کہ حکمران انہی میں سے ہوں۔ لیکن اس حدیث کا یہ مطلب کسی نے بھی نہیں لیا کہ قیامت تک مسلمانوں کے حکمران قریشی ہوں گے اور نہ ہی امت کا اس پر عمل ہے۔

اور جیسا کہ ہم پہلے بھی کہہ چکے ہیں کہ ایسے امور کا تعلق اسلام کے عمومی احکام سے نہیں بلکہ اکثر و بیشتر تشریع کے پہلے اور دوسرے دائرے میں آجاتے ہیں۔ اور اس تیسرے دائرے کی تنگنائے میں محض چند استثنائی احکام رہ جاتے ہیں۔ مثلاً فوجیوں میں تقسیمِ غنیمت، دیت میں عاقلہ کا تصور، بیوی کا شوہر کے مال میں بغیر اجازت تصرف، بنجر زمینوں کو آباد کرنے پر حقِ ملکیت، اور حکومت کا قریش میں محدود ہونا وغیرہ۔ یہی وہ چند احکام ہیں جو فقہاء نے عموماً اس ضمن میں بیان کیے ہیں۔

دینی علوم سے بے بہرہ جو دانشور شاہ ولی اللہ، علامہ شبلی، یا علامہ اقبال کی مذکورہ عبارات کے حوالے سے یہ کہتے ہیں کہ اتنی سخت اور وحشیانہ سزائیں تو اس وقت کے عرب بدوؤں کے لیے تھیں، آج کے ’’مہذب‘‘ معاشرے میں یہ نافذ نہیں کی جا سکتیں۔ وہ یہ نہیں جانتے کہ اس طرح کی اکثر و بیشتر سزائیں خود قرآن میں مذکور ہیں۔ یہ اصلاً حضور اکرمؐ کی مقرر کردہ نہیں کہ ان پر مقامی عرف ہونے کے حوالے سے تنقید کی جا سکے۔ چنانچہ دیکھیے قرآن میں مندرجہ ذیل سزائیں مذکور ہیں:

چوری کی سزا: ہاتھ کاٹنا (۱۳)

زنا (غیر محصن) کی سزا: ۱۰۰ کوڑے (۱۴)

قتلِ عمد کی سزا: قتل (۱۵)

قذف کی سزا: ۸۰ کوڑے (۱۶)

حرابے (ڈکیتی، خللِ امن) کی سزا: قتل یا سولی یا ہاتھ پاؤں کا کاٹنا یا ملک بدری (۱۷)

باقی رہیں زانی محصن کی سزا یا شربِ خمر اور ارتداد و توہینِ رسالتؐ کی سزا تو بلاشبہ یہ حضور ختمی المرتبتؐ سے ثابت ہیں جو اللہ کے مقرر کردہ شارع ہیں۔ لیکن اہلِ علم جانتے ہیں کہ یہ سزائیں بھی دراصل قرآن ہی سے مستنبط ہیں اور وحی خفی و جلی کی اتھارٹی کی وجہ ہی سے ہمارے لیے حجت ہیں۔

ہم یہ سمجھنے سے بھی قاصر ہیں کہ مغربی فکر و تہذیب اور قانون سے مرعوب یہ دانشور اسلامی سزاؤں کو سخت اور وحشیانہ کیوں کر کہتے ہیں۔ جب کہ ان کے قبلہ و کعبہ مغرب میں کیفیت یہ ہے کہ آج بھی امریکہ جیسے متمدن اور مہذب معاشرے میں ۵۱ جرائم ایسے ہیں جن کی سزا موت ہے (۱۸)۔ جب کہ اسلام میں تو صرف تین چار جرائم کی سزا شارع نے موت مقرر کی ہے۔


حواشی

(۱) حجۃ اللہ البالغہ ص ۹۳ مطبع الخیریہ بمصر طبع ۱۳۸۶ھ

(۲) آل عمران: ۱۱۰

(۳) الکلام و علم الکلام، شبلی نعمانی، ص ۱۱۵ طبع لکھنؤ ۱۹۲۶ء

(۴) حجۃ اللہ البالغہ، اردو ترجمہ مولانا عبد الرحیم، طبع قومی کتب خانہ، ص ۶۳۵، ۶۳۶

(۵) ایضاً ص ۶۳۸

(۶) ایضاً ص ۶۳۹

(۷) ایضاً ص ۶۶۰

(۸) Allama Mohammad Iqbal, the Reconstruction of Religious Thought in Islam, Published jointly by Iqbal Academy and Institute of Islamic Culture, Lahore, 1989 Edition p 136, 137

(۹) تشکیلِ جدید الٰہیاتِ اسلامیہ، ترجمہ نذیر نیازی، مطبوعہ بزمِ اقبال کلب روڈ لاہور، طبع سوئم مئی ۱۹۸۶ء، ص ۲۶۴ ۔ ۲۶۶

(۱۰) آل عمران ۳۲، النساء ۸۰، ۶۵، ۵۹، محمد ۳۳، الاحزاب ۳۶ وغیرہ

(۱۱) النجم ۳، ۴

(۱۲) التوبہ ۴۳، التحریم ۱، عبس ۱ ۔ ۱۰ وغیرہ

(۱۳) المائدہ ۳۸

(۱۴) النور ۲

(۱۵) البقرہ ۱۷۸

(۱۶) النور ۴، ۵

(۱۷) المائدہ ۳۲

(۱۸) "Times" July 22, 1991

(بشکریہ سہ ماہی ’’فکر و نظر‘‘ اسلام آباد)


شخصیات

(فروری و مارچ ۱۹۹۵ء)

تلاش

Flag Counter