جس طرح بعض موسموں کو بعض چیزوں سے مناسبت ہوتی ہے، جب وہ موسم آتا ہے تو ان چیزوں میں فراوانی نظر آتی ہے، اسی طرح رمضان کا مہینہ اللہ تعالیٰ کی جود و سخا کا مہینہ ہے۔ اس مہینہ میں اس کی جود و سخا بارش کی طرح برستی ہے۔ اس ماہِ مبارک میں انوار و تجلیات سایہ فگن ہوتی ہیں، رحمتوں اور برکتوں کی بارش ہوتی ہے، گناہ گاروں کے لیے اس میں سامانِ مغفرت ہے اور اپنی بد اعمالیوں کی وجہ سے نارِ جہنم کے مستحق بننے والوں کو آزادی کا پروانہ دیا جاتا ہے۔ اس ماہ میں ایمان و عمل کی بہار آتی ہے۔ گناہوں کی سیاہی سے زنگ آلود دلوں کی صفائی کا سامان کیا جاتا ہے۔ جہنم کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں اور جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں۔ ’’اے خیر کے طلب گار! آگے بڑھ، اے شر کے چاہنے والے! پیچھے ہٹ جا‘‘ کی صدائیں بلند ہوتی ہیں۔ سرکش شیاطین قید کر دیے جاتے ہیں۔ اس میں دن کو روزہ فرض کیا گیا تاکہ نفسِ امارہ کو اس کی خواہشات اور مرغوبات سے دور رکھ کر زیورِ تقویٰ سے آراستہ کیا جائے۔ اور رات کو قرآن کی تلاوت سے دلوں کو جِلا دینے کا حکم دیا گیا ہے۔
اس ماہِ مقدس میں اللہ تعالیٰ کی رحمت کس قدر بے پایاں ہوتی ہے، اس کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ اس ماہ میں نفل کا ثواب فرض کے برابر، اور ایک فرض کا ستر فرضوں کے برابر ملتا ہے۔ اس مہینہ کو ہمدردی اور خیر خواہی کا مہینہ قرار دیا گیا ہے کہ جب ایک شخص پورا دن بھوکا پیاسا رہتا ہے تو اسے ان فقراء اور مساکین کی حالت کا احساس ہوتا ہے جو نان شبینہ کے محتاج ہوتے ہیں اور کئی کئی دن فاقے میں گزارتے ہیں۔ ان کے لیے قدرتی طور پر اس کے دل میں ہمدردی پیدا ہو جاتی ہے۔
اس مہینہ کے پہلے حصہ کو رحمت، دوسرے کو مغفرت، اور آخری حصہ کو جہنم سے آزادی کا ذریعہ کہا گیا ہے۔ اس لیے ان تینوں حصوں میں اطاعت و عبادت سے اللہ کی رحمت و مغفرت اور جہنم سے آزادی کا پروانہ حاصل کرنے کی ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے۔ اور اس وعید سے بچنا چاہیے جس میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بد دعا کی اور حضرت جبریل علیہ السلام نے اس پر آمین کہی کہ ’’ہلاک ہو وہ شخص جو رمضان کا مہینہ پائے اور اپنی مغفرت نہ کرائے۔‘‘
اس ماہِ مبارک میں اللہ تعالیٰ نے انسان کی ہدایت و رہنمائی اور تزکیہ و اصلاح کے لیے قرآن کریم کی صورت میں ایک نسخہ کیمیا امتِ محمدیہ علیٰ صاحبہا السلام والتحیہ کو عطا کیا۔ تاکہ اس کی رہنمائی میں یہ امت صراطِ مستقیم پر گامزن ہو اور اپنے اس مقصدِ زندگی کے حصول میں کامیاب وہ کامران ہو۔ قرآن کریم نے انسان کو اس کا بھولا ہوا سبق یاد دلایا، چنانچہ اس نعمتِ عظمیٰ کی شکرگزاری کے لیے اس ماہ میں روزہ، تراویح اور اعتکاف کی اہم عبادتیں رکھی گئیں۔ اس کے ساتھ ساتھ روزے کا مقصد بھی واضح کر دیا گیا کہ بھوکا پیاسا رکھنا یا خواہشاتِ نفسانی سے روکنا مقصود نہیں، بلکہ اس کے ذریعے تقویٰ کے ساتھ متصف کرنا مقصود ہے۔
روزہ پورے سال کے ایک مہینے میں فرض کیا گیا ہے تاکہ معدہ اور مادہ کی شقاوت اور سختی دور ہو۔ کچھ دن مادیت پرستی میں تخفیف ہو اور نفسِ انسانی میں روحانیت اور ایمان کی اتنی مقدار شامل ہو جائے جس سے اس کی زندگی اعتدال پر آجائے۔ وہ نفسِ امارہ کا مقابلہ کر سکے اور رزق کی فراوانی کے باوجود بھوکا پیاسا رہ کر وہ لذت و نشان حاصل کر سکے جو انواع و اقسام کے لذیذ کھانوں سے حاصل نہیں ہو سکتی۔ اسی چیز کو قرآن کریم ’’تقویٰ‘‘ سے تعبیر کرتا ہے۔ ارشاد خداوندی ہے:
’’اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کیے گئے ہیں جیسے کہ تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے، تاکہ تم متقی اور پرہیزگار بن جاؤ‘‘ (البقرہ)
علامہ ابن قیمؒ فرماتے ہیں‘
’’روزے سے مقصود یہ ہے کہ انسانی خواہشات اور عادات کے شکنجہ سے نفس آزاد ہو، اس کی شہوانی قوتوں میں اعتدال اور توازن پیدا ہو، اور وہ اس کے ذریعے سے سعادتِ ابدی کے گوہرِ مقصود تک رسائی حاصل کر سکے۔ بھوک اور پیاس سے اس کی ہوس کی تیزی اور شہوت کی حدت میں تخفیف پیدا ہو، اور یہ بات یاد آئے کہ کتنے مسکین ہیں وہ لوگ جو نان شبینہ کے محتاج ہوتے ہیں۔ وہ شیطان کے راستوں کو تنگ کر دے اور اعضا و جوارح کو ان چیزوں کی طرف مائل ہونے سے روک دے جن میں دنیا و آخرت دونوں کا نقصان ہو۔‘‘
دوسری جگہ لکھتے ہیں:
’’چونکہ دل کی اصلاح اور استقامت اللہ کی طرف چلنے اور جمعیتِ خاطر پر منحصر ہے، اور مکمل طور پر اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع پر اس کا مدار ہے۔ اس لیے پراگندہ خاطری اس کے حق میں سخت مضر ہے۔ کھانے پینے کی زیادہ مقدار، لوگوں سے میل جول، ضرورت سے زیادہ گفتگو، یہ تمام چیزیں جن سے دل منتشر ہوتا ہے اور جمعیتِ باطنی پر اثر پڑتا ہے، اور انسان اللہ تعالیٰ سے علیحدہ اور جدا ہو کر مختلف راستوں میں بھٹکنے لگتا ہے، ان باتوں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی رحمت کا تقاضا تھا کہ اپنے بندوں پر روزہ فرض کرے اور اس کے ذریعے سے کھانوں کی زائد مقدار اور خواہشات کی زیادتی کا ازالہ ہو سکے۔ جس کی وجہ سے وصول الی اللہ سے محرومی ہو جاتی ہے، اور اس طرح وہ دنیا اور آخرت دونوں جگہ فائدہ اٹھا سکے۔‘‘ (زاد المعاد)