ہمسایہ ملک ایران میں آج کل شہنشاہیت کے خاتمے اور نئے انقلاب کا جشن منایا جا رہا ہے جسے فجر کا نام دیا گیا ہے۔ جشن کے اس پُرمسرت موقع پر، جب ایرانی عوام انقلاب کی خوشیاں منا رہے ہیں، ایران کے عوام کی ایک بڑی تعداد جو سنی مسلک پر عمل پیرا ہے، اپنے گھروں پر کالے جھنڈے لہرانے اور اس مسجد کا سوگ منانے پر مجبور ہے جو ایران کے شہر مشہد میں ۱۳ جنوری کی رات حکومتِ ایران نے ظالمانہ انداز سے منہدم کر دی۔ ایک اطلاع کے مطابق اس مسجد کی جگہ، جو ایرانی رہنما خامنہ ای کے گھر کے نزدیک واقع تھی، اب ایک بڑا پارک بنایا جا رہا ہے۔
مسجد کی شہادت کے بعد پاکستان کا دورہ کرنے والے ایرانی سنی علماء کے ایک وفد نے بتایا کہ مشہد میں ڈھائی جانے والی یہ مسجد تقریباً ۶۰ سال قبل اور بعض روایات کے مطابق سو سال قبل تعمیر کی گئی تھی۔ برصغیر کے ایک مسلمان شیخ فیض احمد نے اس مسجد کے لیے جگہ فراہم کی تھی جس کی بنا پر یہ جامع مسجد فیض کے نام سے مشہور تھی۔ ۶۴ سال قبل شاہ کی اجازت سے اس مسجد کی توسیع کی گئی۔ اور ایران کے حالیہ انقلاب کے بعد ایرانی حکومت کی اجازت سے چھ ماہ قبل مسجد میں مزید توسیع کی گئی، لیکن بعد ازاں نئی توسیع کو ناجائز قرار دے دیا گیا۔
ایک اطلاع کے مطابق تین سال قبل بھی اس مسجد کو منہدم کرنے کے لیے حملہ کیا گیا تھا لیکن لوگوں نے مزاحمت کی جس کی بنا پر اسے ڈھانے کی کوشش میں ناکامی ہوئی۔ بعد ازاں مسجد کی کل زمین فروخت کر دینے کے لیے بھی دباؤ ڈالا گیا لیکن مسجد کی انتظامیہ نے مسجد کی زمین فروخت کرنے سے انکار کر دیا۔ چنانچہ ۳۱ جنوری کی رات اچانک سرکاری اہلکاروں نے مسجد کو گھیرے میں لے لیا اور یوں رات رات تقریباً سو سال پرانی مسجد صفحہ ہستی سے مٹا دی گئی۔ اس موقع پر مزاحمت کرنے والے تقریباً گیارہ افراد کو گرفتار کر لیا گیا جبکہ مسجد کا خادم اور مؤذن مزاحمت کی کوشش میں بلڈوزر سے کچلا گیا۔
مسجد کی جگہ پر بڑے بڑے درخت لا کر لگائے جا رہے ہیں اور پورے علاقے کو سرکاری اہلکاروں اور پاسدارانِ انقلاب نے گھیرے میں لے رکھا ہے۔ ایرانی حکومت یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہی ہے کہ گویا یہاں کوئی مسجد نہیں تھی، حالانکہ مختلف اسلامی ممالک کے سفیر وہاں نماز پڑھ چکے ہیں۔ مسجد کی جگہ تیزی سے پارک بنایا جا رہا ہے اور وزارتِ اطلاعات نے مسجد کے انہدام کی خبر کو بیرونی ایجنسیوں کی سازش قرار دیتے ہوئے وقوعہ سے انکار کیا ہے۔ ایران کے اخبارات چونکہ مکمل طور پر ایرانی حکومت کے کنٹرول میں ہیں اس لیے اخبارات میں مسجد کے انہدام کی خبر شائع نہیں کی گئی لیکن بی بی سی، وائس آف امریکہ اور دیگر غیر ملکی ذرائع ابلاغ سے مسجد کے انہدام کی خبر نشر ہونے کے بعد پورے ایران میں احتجاجی مظاہرے شروع ہو گئے۔ ایران کے ان علاقوں میں جہاں سنی آبادی کی اکثریت ہے مثلاً ایرانی بلوچستان کے شہر سرادان، ایران شہر، خاش، چاہ بہار، نیک شہر، خراسان کے علاقے تربت جام، تربت حیدریہ، ترکمان صحرا، بندر عباس، کردستان اور زاہدان ہیڈکوارٹر میں مظاہرے اور احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔
ایرانی وفد نے بتایا کہ یکم فروری کو جامع مسجد فیض کے انہدام پر احتجاج کی غرض سے لوگ زاہدان کی جامع مسجد مکی میں جمع ہو رہے تھے، پاسدارانِ انقلاب کی جانب سے انہیں دھمکیاں دی گئیں اور مسجد خالی کرنے کا حکم دیا گیا۔ لوگوں کی تعداد بڑھتی گئی تو رات ساڑھے دس بجے مکی مسجد پر حملہ کر دیا گیا اور فائرنگ سے تین افراد فوری طور پر شہید ہو گئے۔ یہ تین افراد مسجد کے اندر محراب میں تلاوت کر رہے تھے، فائرنگ سے مسجد کا مؤذن بھی زخمی ہو گیا۔ مسجد کی کھڑکیاں، دروازے اور شیشے توڑ دیے گئے، مدرسے پر بھی حملہ کیا گیا، امام مسجد مولانا عبد الحمید صاحب کے گھر کی تلاشی لی گئی اور وہاں موجود علماء سے بھی بدتمیزی کی گئی، سرکاری اہلکار جوتوں سمیت مسجد میں گھس گئے، تقریباً ڈیڑھ سو افراد اس پر موقع پر گرفتار کیے گئے جبکہ تین افراد ہلاک اور ستر افراد زخمی ہوئے تھے۔
پورے ایرانی بلوچستان میں اس واقعے کا شدید ردعمل ہوا اور اس ردعمل کے نتیجے میں پچیس افراد کو سڑکوں اور گلیوں میں ہلاک کیا جا چکا ہے جن میں پاسدارانِ انقلاب کی اکثریت ہے۔ گرفتاریوں کا سلسلہ ابھی جاری ہے، مکی مسجد میں مظاہرے کے لیے جمع ہونے والے نوجوانوں اور مسجد کے آس پاس موجود نوجوانوں کی ویڈیو فلموں کی مدد سے گرفتاری کی جا رہی ہے۔
مکی مسجد کے امام مولانا عبد الحمید نے اس واقعے کے بعد جناب خامنہ ای سے ملاقات کی اور پورے واقعے سے آگاہ کیا، جنہوں نے مولانا عبد الحمید کو اس امر کا یقین دلایا کہ مکی مسجد زاہدان کا جو کچھ نقصان ہوا ہے اسے پورا کیا جائے گا۔ واضح رہے کہ توڑ پھوڑ کے باعث مسجد میں چند دن سے نماز نہیں ہو سکی۔ وفد نے بتایا کہ اگرچہ جامع مسجد مکی زاہدان کا نقصان پورا کرنے کا ایرانی حکومت نے وعدہ کیا ہے لیکن افسوسناک واقعے پر معافی نہیں مانگی جبکہ مسجد فیض کے بارے میں تو ایرانی حکومت بات کرنے پر آمادہ ہی نہیں ہے اور کہتے ہیں اسے بھول جاؤ۔
ایرانی وفد نے بتایا کہ ایران میں سنیوں کی تمام مساجد میں حکومتی اہلکار نماز اور خطبے میں شرکت کرتے ہیں اور ان خطبات کو ٹیپ کیا جاتا ہے تاکہ مساجد میں حکومت کے خلاف یا حکومتی فرقے کے خلاف یا اپنے مسلک کے حق میں کوئی بات نہ کی جا سکے۔ انہوں نے بتایا کہ پورے ایران میں کوئی کتاب، میگزین یا اخبار حکومت کی اجازت کے بغیر شائع نہیں کیا جا سکتا اور حکومت سنی مسالک کی کتابیں شائع کرنے کی اجازت نہیں دیتی۔ علاوہ ازیں تمام اسکولوں میں خواہ سرکاری ہوں یا پرائیویٹ ایک ہی نصاب پڑھایا جاتا ہے اور اس میں شیعہ مذہب کی اسلامیات پڑھائی جاتی ہے۔ عدالتوں میں سنیوں کے ازدواجی اور دیگر معاملات زندگی کے بارے میں شیعہ مسالک کے قوانین کے مطابق فیصلے کیے جاتے ہیں۔ اصفہان، شیراز، تبریز، تہران وغیرہ میں سنیوں کو ایک مسجد بنانے کی بھی اجازت نہیں ہے اور نہ ہی سنیوں کو سرکاری ملازمتوں میں رکھا جاتا ہے۔
وفد نے بتایا کہ شاہِ ایران کے دورِ حکومت میں سنی شیعہ اختلافات کی بات کرنا ممنوع تھا اور مذہبی منافرت پھیلانے پر سخت سزا دی جاتی تھی۔ ۱۹۷۶ء میں وہاں کے اخبار کیہان کے ایک مضمون میں حضرت عثمان غنیؓ کی شان میں گستاخی کی گئی تو اسی زاہدان میں عوام مسلح ہو کر سڑکوں پر نکلے اور اخبار کے خلاف مظاہرہ کیا۔ ساواک کا نمائندہ آیا، فوج آئی اور رہنماؤں نے مذاکرات کیے، پھر اس شخص کو جس نے گستاخی کی تھی گرفتار کیا، اس موقع پر ایک گولی بھی نہیں چلائی گئی۔ لیکن انقلاب کے بعد ایران کے سنی عوام مجموعی آبادی کا تیس فیصد ہونے کے باوجود مذہبی سہولیات تک سے محروم کر دیے گئے ہیں۔
وفد نے کہا کہ اس بات کی ضرورت ہے کہ اس واقعے پر سخت احتجاج کرتے ہوئے حکومتِ ایران سے مسجد جامع فیض کی دوبارہ تعمیر کی درخواست کی جائے، بصورتِ دیگر یہ سلسلہ جاری رہا تو ایران میں سنیوں کی کوئی مسجد باقی نہیں رہے گی۔
(بشکریہ ’’تکبیر‘‘ کراچی)