مکرمی جناب مولانا کوثر نیازی صاحب، چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل پاکستان،
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ مزاج گرامی؟
عرض ہے کہ کچھ دنوں سے پبلک لا کمیشن اور اسلامی نظریاتی کونسل کی طرف سے گستاخِ رسول کے لیے سزائے موت کے قانون پر نظرثانی اور ترمیم کی خبریں شائع ہو رہی ہیں، اس پر مذہبی حلقوں میں سخت بے چینی اور تشویش کی صورت پیدا ہو چکی ہے۔ توہینِ رسالت کا جرم کوئی معمولی جرم نہیں، اس لیے جہاں تک تحقیق کرنے اور کسی کو بلاوجہ مجرم بنانے کی بات ہے اس سے کسی مسلمان کو خوشی نہیں کہ خوامخواہ غیر مسلم افراد کو سزا دلوانے کے لیے جھوٹے مقدمات بنوا کر انہیں پریشان کیا جائے۔ مگر یہ بات بھی بڑی واضح ہے کہ پاکستان میں مسیحی اقلیت تمام غیر مسلموں کی نمائندگی کر رہی ہے، جس کے لیے مثالیں موجود ہیں۔
(۱) مسلمانوں نے شناختی کارڈ میں مذہب کا خانہ شامل کرنے کا مطالبہ کیا تو اس کے خلاف مسیحی اقلیت نے ملک بھر میں مظاہرے اور بھوک ہڑتالی کیمپ قائم کر کے قومی شناختی کارڈ میں مذہب کے خانہ کے اندراج میں رکاوٹ کھڑی کی۔
(۲) گستاخِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے سزائے موت کے خلاف جے سالک اور دیگر عیسائی نمائندوں نے کہا کہ ہم اس پارٹی کو ووٹ دیں گے جو گستاخِ رسولؐ کی سزا کو ختم کرے گی۔ اور بعض جگہوں پر قرآن پاک کی بے حرمتی بھی کی گئی جس کی مثال گوجرانوالہ کے تھانہ کوٹ لدھا کے گاؤں رتہ دوہتڑ کا مشہور واقعہ جس میں مرکزی حکومت نے مسز رابن رافیل کی پاکستانی وزیراعظم سے ملاقات کے بعد امریکی دباؤ میں آ کر سیشن کورٹ اور ہائیکورٹ کی کارروائی میں مداخلت کر کے ملزمان کی ضمانت پر رہائی کروا لی اور مسیحی قوم اور امریکی سرکار کی وفا کا حق ادا کیا ہے۔ اب اس کی اپیل سپریم کورٹ میں کی گئی ہے (آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا)۔
جناب والا! ان حالات کے پیشِ نظر آپ سے درخواست ہے کہ اس قانون میں کسی قسم کی ترمیم کر کے نرمی پیدا نہ کی جائے، اس سے ایک بہت بڑا مسئلہ پیدا ہو گا جو پھر شاید آپ اور آپ کی حکومت سے کنٹرول نہ کیا جائے۔ مسلمان امریکہ کی خوشنودی نہیں اللہ کی خوشنودی کا عقیدہ رکھتے ہیں۔ ملازمت کی اپنی مجبوریوں میں آپ نے کوئی تبدیلی کر دی تو سلمان رشدی جیسے لوگوں کی حوصلہ افزائی ہو گی اور پھر غازی علم دین شہید کا کردار ادا کرنے کے لیے بھی بہت لوگ اٹھیں گے (ان شاء اللہ)۔
ڈاکٹر غلام محمد
ڈپٹی سیکرٹری جمعیۃ علماء اسلام (پنجاب)
جامع مسجد شیرانوالہ باغ، گوجرانوالہ
محترمی ڈاکٹر صاحب!
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
آپ کا خط مورخہ ۲۶ فروری ۱۹۹۴ء کو موصول ہوا۔ شکریہ۔
توہینِ رسولؐ کے بارے میں آپ کے جذبات قابلِ قدر ہیں اور وہی ہر مسلمان کے ہونے چاہئیں، ہم اس سلسلے میں جو بھی ترمیم یا اضافہ کریں گے وہ علمائے کرام کے مشورے سے کریں گے اور انشاء اللہ ایسا کرتے وقت اسلامی شریعت کی حدود کو کاملاً ملحوظ رکھا جائے گا۔
(کوثر نیازی)