اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۱۲۰)
مولانا امانت اللہ اصلاحیؒ کے افادات کی روشنی میں

ڈاکٹر محی الدین غازی

(552) مِیثَاقَ النَّبِیِّینَ

درج ذیل آیت میں میثاق النبیین سے مراد وہ عہد ہے جو اللہ نے نبیوں سے لیا ہے۔ عام طور سے مفسرین نے یہی مفہوم مراد لیا ہے۔ 

وَإِذْ أَخَذَ اللَّہُ مِیثَاقَ النَّبِیِّینَ۔ (آل عمران: 81)

’’یاد کرو، اللہ نے پیغمبروں سے عہد لیا تھا‘‘۔ (سید مودودی)

’’اور جب خدا نے پیغمبروں سے عہد لیا‘‘۔ (فتح محمد جالندھری)

’’اور (یاد کرو) جب خدا نے تمام پیغمبروں سے یہ عہد و اقرار لیا تھا‘‘۔ (محمد حسین نجفی)

لیکن صاحب تدبر نے ایک مختلف ترجمہ اختیار کیا ہے:

’’اور یاد کرو جب کہ خدا نے تم سے نبیوں کے بارے میں میثاق لیا‘‘۔ (امین احسن اصلاحی)

درج ذیل ترجمہ بھی غالبا ً اسی سے متأثر ہوکر کیا گیا ہے:

’’اور یاد کرو جب اللہ نے نبیوں کے متعلق عہد لیا‘‘۔ (محمد فاروق خان)

تدبر قرآن میں اس ترجمے کی وجہ بھی بتائی گئی ہے:

’’میثاق النبیین، میں اضافت فاعل کی طرف نہیں بلکہ مفعول کی طرف ہے۔ یہ مطلب نہیں ہے کہ انبیا سے میثاق لیا گیا بلکہ یہ مطلب ہے کہ انبیا کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل سے میثاق لیا‘‘۔ (تدبر قرآن)

یہ ترجمہ بعض وجوہ سے غلط معلوم ہوتا ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ اس آیت میں مذکور عہد کے الفاظ خود بتارہے ہیں کہ یہ عہد عام نبیوں کے بارے میں نہیں بلکہ خاص آخری رسول حضرت محمد ﷺ کے بارے میں ہے۔ اس لیے اس عہد کو نبیوں کے بارے میں کہنا درست نہیں ہوگا۔ دوسری بات یہ کہ اس ترجمے کو اختیار کرنے کے نتیجے میں آیت کا مفہوم متعدد پرتکلف توجیہات کا تقاضا کرتا ہے، جب کہ عام ترجمے میں ایسے کسی تکلف کی ضرورت نہیں پڑتی ہے۔ جیسے یہ بات کہ بنی اسرائیل سے یہ عہد لیا گیا، آیت کے الفاظ میں مذکور نہیں ہے، آپ کو فرض کرنی پڑتی ہے۔ تیسری بات یہ کہ قرآن میں دیگر مقامات پر بھی میثاق اضافت کے ساتھ آیا ہے۔ ہر جگہ میثاق کے ساتھ انھی لوگوں کا ذکر ہے جن سے میثاق لیا گیا نہ کہ جن کے بارے میں کسی اور سے لیا گیا۔ جیسے: 

وَإِذْ أَخَذْنَا مِیثَاقَ بَنِی إِسْرَائِیلَ۔ (البقرۃ: 83)

’’اور یاد کرو جب کہ ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا‘‘۔(امین احسن اصلاحی)

وَإِذْ أَخَذَ اللَّہُ مِیثَاقَ الَّذِینَ أُوتُوا الْکِتَابَ۔ (آل عمران: 187)

’’اور یاد کرو جب کہ اللہ نے ان لوگوں سے عہد لیا جن کو کتاب دی گئی‘‘۔(امین احسن اصلاحی)

وَلَقَدْ أَخَذَ اللَّہُ مِیثَاقَ بَنِی إِسْرَائِیلَ۔ (المائدۃ: 12)

’’اور اللہ نے بنی اسرائیل سے عہد لیا‘‘۔(امین احسن اصلاحی)

(553) غَنِیٌّ کا ترجمہ

غنی کا مطلب ہے وہ ہستی جو کسی کی ضرورت مند اور محتاج نہ ہو۔ قرآن میں یہ لفظ متعدد بار آیا ہے اور اسی مفہوم میں آیا ہے۔ الگ الگ مقامات پر بعض لوگوں نے غنی کا ترجمہ بے پروا کیا ہے اور بعض لوگوں نے بے نیاز کیا ہے۔ ان کے پیش نظر یہی رہا ہوگا کہ دونوں ہم معنی الفاظ ہیں۔ اردو لغت کے لحاظ سے بے پروا اور بے نیاز دونوں کے معنی بے غرض کے ہیں۔ اس لحاظ سے دونوں ترجمے درست ہیں۔ تاہم بے پروا کے معنی غافل اور بے فکر بھی ہوتے ہیں۔ بلکہ انھی معنوں میں بے پروا زیادہ استعمال ہوتا ہے۔ اس پہلو سے بے نیاز کی تعبیر زیادہ مناسب ہے، اللہ کے لیے بے پروا کے لفظ سے اجتناب بہتر ہے۔

(۱)  وَمَنْ کَفَرَ فَإِنَّ اللَّہَ غَنِیٌّ عَنِ الْعَالَمِینَ۔ (آل عمران: 97)

’’اور جو منکر ہو تو اللہ سارے جہان سے بے پرواہ ہے‘‘۔ (احمد رضا خان)

’’اور جس نے کفر کیا تو اللہ عالم والوں سے بے پروا ہے‘‘۔ (امین احسن اصلاحی)

’’اور جو انکار کرے تو پھر اللہ جہان والوں سے بے پرواہ ہے‘‘۔ (احمد علی)

’’اور جو کوئی کفر کرے تو اللہ تعالیٰ (اس سے بلکہ) تمام دنیا سے بے پرواہ ہے‘‘۔ (محمد جوناگڑھی)

’’ اور جو اس حکم کی تعمیل نہ کرے گا تو خدا بھی اہلِ عالم سے بے نیاز ہے‘‘۔ (فتح محمد جالندھری)

(۲)  وَمَنْ جَاہَدَ فَإِنَّمَا یُجَاہِدُ لِنَفْسِہِ إِنَّ اللَّہَ لَغَنِیٌّ عَنِ الْعَالَمِینَ۔ (العنکبوت: 6)

’’اور جو اللہ کی راہ میں کوشش کرے تو اپنے ہی بھلے کو کوشش کرتا ہے بیشک اللہ بے پرواہ ہے سارے جہان سے‘‘۔ (احمد رضا خان)

’’اور جو شخص محنت کرتا ہے تو اپنے ہی فائدے کے لیے محنت کرتا ہے۔ اور خدا تو سارے جہان سے بے پروا ہے‘‘۔ (فتح محمد جالندھری)

’’اور ہر ایک کوشش کرنے والا اپنے ہی بھلے کی کوشش کرتا ہے۔ ویسے تو اللہ تعالیٰ تمام جہان والوں سے بے نیاز ہے‘‘۔ (محمد جوناگڑھی)

’’اور جو ہماری راہ میں جدوجہد کر رہا ہے تو وہ اپنے ہی فائدے کے لیے جدوجہد کر رہا ہے۔ اللہ عالم والوں سے بے نیاز ہے‘‘۔ (امین احسن اصلاحی)

(۳)  إِنْ تَکْفُرُوا فَإِنَّ اللَّہَ غَنِیٌّ عَنْکُمْ۔ (الزمر: 7)

’’اگر ناشکری کرو گے تو خدا تم سے بے پروا ہے‘‘۔ (فتح محمد جالندھری)

’’اگر تم ناشکری کرو تو بے شک اللہ بے نیاز ہے تم سے‘‘۔ (احمد رضا خان)

’’اگر تم ناشکری کرو تو (یاد رکھو کہ) اللہ تعالیٰ تم (سب سے) بے نیاز ہے‘‘۔(محمد جوناگڑھی)

(۴)  وَاللَّہُ غَنِیٌّ حَلِیمٌ۔ (البقرۃ: 263)

’’اور خدا بے پروا اور بردبار ہے‘‘۔ (فتح محمد جالندھری)

’’ اور اللہ بے پروا حلم والا ہے‘‘۔ (احمد رضا خان)

’’اور اللہ تعالیٰ بے نیاز اور بردبار ہے‘‘۔(محمد جوناگڑھی)

(554) صَرَفَکُمْ عَنْہُمْ کا ترجمہ

صرف (عن) کا معنی پھیرنا ہے۔ جیسے فَصَرَفَ عَنْہُ کَیْدَہُنّ (یوسف: 34)۔ (اللہ نے ان کی چالوں کو اس (یوسف) سے پھیر دیا) درج ذیل آیت میں بھی یہ لفظ آیا ہے اور اس کا ترجمہ عام طور سے ’پھیرنا‘ کیا گیا ہے۔ بعض لوگوں نے ’پسپا کرنا‘ کیا ہے۔ یہ درست نہیں ہے۔   

ثُمَّ صَرَفَکُمْ عَنْہُمْ لِیَبْتَلِیَکُمْ۔ (آل عمران: 152)

’’پھر خدا نے تمہارا رخ ان سے پھیر دیا تاکہ تمہیں آزمائش میں ڈالے‘‘۔ (امین احسن اصلاحی) ’آزمائش میں ڈالے‘ مناسب تعبیر نہیں ہے، ’آزمائش کرے‘ مناسب ہے۔ 

’’پھر تمہارا منھ ان سے پھیردیا کہ تمہیں آزمائے‘‘۔ (احمد رضا خان)

’’تو پھر اس نے تمہیں ان سے پھیر دیا تاکہ تم کو آزمائے‘‘۔ (محمد جوناگڑھی)

’’پھر اس نے تمہیں ان کے مقابلے میں پسپا کر دیا تاکہ تمہارے ایمان و اخلاص کی آزمائش کرے‘‘۔ (محمد حسین نجفی)

’’تب اللہ نے تمہیں کافروں کے مقابلہ میں پسپا کر دیا تاکہ تمہاری آزمائش کرے‘‘۔ (سید مودودی)

یہاں کافروں کے مقابلے میں مومنوں کی پسپائی کا ذکر نہیں ہے، بلکہ کافروں کی طرف سے مومنوں کی توجہ ہٹ جانے کا ذکر ہے۔ جب ’پسپائی‘ ترجمہ کیا تو ’مقابلے‘ کا اضافہ کرنا پڑا، حالاں کہ مقابلے کا مفہوم ادا کرنے والی تعبیر بھی یہاں نہیں ہے۔

(555) اتَّبَعَ رِضْوَانَ اللَّہِ کا ترجمہ

قرآن مجید میں اتبع کا لفظ مختلف صیغوں میں متعدد بار آیا ہے۔ تمام مقامات پر اس کا مطلب پیروی کرنا ہے۔ تمام مقامات پر وہی ترجمہ بھی کیا گیا ہے۔ درج ذیل آیات میں بھی وہی ترجمہ ہونا چاہیے۔ محض اس وجہ سے کہ اس کے ساتھ رضوان آیا ہے، طلب کا ترجمہ کرنا درست نہیں ہے۔ 

(۱)  أَفَمَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَ اللَّہِ کَمَنْ بَائَ بِسَخَطٍ مِنَ اللَّہِ۔ (آل عمران: 162)

’’کیا وہ جو خدا کی خوشنودی کا طالب ہو، اس کے مانند ہوجائے گا جو خدا کا غضب لے کر لوٹا‘‘۔ (امین احسن اصلاحی)

’’بھلا یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ جو شخص ہمیشہ اللہ کی رضا پر چلنے والا ہو وہ اُس شخص کے سے کام کرے جو اللہ کے غضب میں گھر گیا ہو‘‘۔ (سید مودودی)

’’تو کیا جو اللہ کی مرضی پر چلا وہ اس جیسا ہوگا جس نے اللہ کا غضب اوڑھا‘‘۔ (احمد رضا خان)

(۲)  فَانْقَلَبُوا بِنِعْمَۃٍ مِنَ اللَّہِ وَفَضْلٍ لَمْ یَمْسَسْہُمْ سُوءٌ وَاتَّبَعُوا رِضْوَانَ اللَّہِ وَاللَّہُ ذُو فَضْلٍ عَظِیمٍ۔ (آل عمران: 174)

’’سو یہ لوگ اللہ کی نعمت اور اس کے فضل کے ساتھ واپس آئے، ان کو ذرا گزند نہ پہنچا، اور یہ اللہ کی خوشنودی کے طالب ہوئے اور اللہ بڑے فضل والا ہے‘‘۔(امین احسن اصلاحی)

’’پھر وہ خدا کی نعمتوں اور اس کے فضل کے ساتھ (خوش وخرم) واپس آئے ان کو کسی طرح کا ضرر نہ پہنچا۔ اور وہ خدا کی خوشنودی کے تابع رہے۔ اور خدا بڑے فضل کا مالک ہے‘‘۔ (فتح محمد جالندھری)

(556) إِنَّ اللَّہَ لَا یُخْلِفُ الْمِیعَادَ کا ترجمہ

بامحاورہ ترجمے یا ترجمانی میں بھی الفاظ کی حتی الامکان رعایت ضروری ہے۔ قرآن مجید میں إِنَّکَ لَا تُخْلِفُ الْمِیعَادَ (آل عمران: 194) آیا ہے، اس کا ترجمہ ہوگا: ’’بے شک تو اپنے وعدے کے خلاف کرنے والا نہیں ہے‘‘ (سید مودودی)۔ لیکن وہی ترجمہ درج ذیل آیت کا نہیں ہوگا: 

إِنَّ اللَّہَ لَا یُخْلِفُ الْمِیعَادَ۔ (آل عمران: 9)

’’تو ہرگز اپنے وعدے سے ٹلنے والا نہیں ہے‘‘۔ (سید مودودی)

درج بالا ترجمہ درست نہیں ہے۔ ترجمے کی اس غلطی کا مفہوم پر اثر پڑتا ہے۔ ترجمے کی رو سے وہ جملہ بندے کی دعا کا حصہ ہے۔ آیت کے الفاظ کی رو سے وہ جملہ اللہ کی طرف سے ہے۔ اللہ اعلان کررہا ہے اور تسلی دے رہا ہے کہ اس کا وعدہ ضرور پورا ہوگا۔

درست ترجمہ درج ذیل ہے:

’’یقیناً اللہ تعالیٰ وعدہ خلافی نہیں کرتا‘‘۔ (محمد جوناگڑھی)

قابل ذکر بات یہ ہے کہ اسی طرح کی درج ذیل آیت میں وہ غلطی نہیں ہوئی۔

إِنَّ اللَّہَ لَا یُخْلِفُ الْمِیعَادَ۔ (الرعد: 31)

’’یقیناً اللہ اپنے وعدے کی خلاف ورزی نہیں کرتا‘‘۔(سید مودودی)

(557) یَرَوْنَہُمْ مِثْلَیْہِمْ کا ترجمہ

درج ذیل آیت میں یَرَوْنَہُمْ مِثْلَیْہِمْ کے ترجمے میں کئی امکانات موجود ہیں۔ 

دیکھنے والا کافر گروہ ہو، وہ مسلمانوں کو اپنے آپ سے زیادہ دیکھے، یا مسلمانوں کو ان کی حقیقی تعداد سے زیادہ دیکھے، یا خود کو مسلمانوں سے زیادہ دیکھے۔

دیکھنے والا مسلمان گروہ ہو اور وہ خود کو اپنی حقیقی تعداد سے زیادہ دیکھے، خود کو کافروں سے زیادہ دیکھے، کافروں کو اپنی یعنی مسلمانوں کی تعداد سے زیادہ دیکھے۔

بعض قرینوں کی بنا پر زیادہ بہتر یہ توجیہ لگتی ہے کہ کافر گروہ مسلمانوں کو ان کی حقیقی تعداد سے دوگنا زیادہ دیکھ رہا تھا اور یہ نصرت الٰہی کی ایک شکل تھی۔ یہ چیز اس کے حوصلے پست ہونے کا سبب بن رہی تھے۔ ایک قرینہ وَأُخْرَی کَافِرَۃٌ  کی فعل سے قربت ہے، جس کی بنا پر اس کے فاعل ہونے کا امکان بڑھ جاتا ہے۔ پھر وَاللَّہُ یُؤَیِّدُ بِنَصْرِہِ مَنْ یَشَاء سے بھی اسی کا اشارہ ملتا ہے کہ یہاں تائید الٰہی کی بات ہورہی ہے۔ رَأْیَ الْعَیْنِ سے بھی اشارہ ملتا ہے کہ حقیقی تعداد تو کم تھی مگر آنکھوں کو زیادہ نظر آرہی تھی۔   

البتہ درج ذیل ترجمے میں یرونھم کا فاعل دونوں گروہوں میں سے کسی ایک کے بجائے ’’دیکھنے والے‘‘ یعنی کسی تیسرے گروہ کو بنایا ہے، وہ درست نہیں ہے۔ 

فِئَۃٌ تُقَاتِلُ فِی سَبِیلِ اللَّہِ وَأُخْرَی کَافِرَۃٌ یَرَوْنَہُمْ مِثْلَیْہِمْ رَأْیَ الْعَیْنِ وَاللَّہُ یُؤَیِّدُ بِنَصْرِہِ مَنْ یَشَاءُ۔ (آل عمران: 13)

’’ایک گروہ اللہ کی راہ میں لڑ رہا تھا اور دوسرا گروہ کافر تھا، دیکھنے والے بچشم سر دیکھ رہے تھے کہ کافر گروہ مومن گروہ سے دو چند ہے، مگر (نتیجے نے ثابت کر دیا کہ) اللہ اپنی فتح و نصرت سے جس کو چاہتا ہے، مدد دیتا ہے‘‘۔ (سید مودودی)

دونوں گروہوں میں سے ہی کوئی ایک فاعل ہوگا، جیسا کہ حسب ذیل ترجموں میں دیکھتے ہیں:

’’ایک جماعت تو اللہ تعالیٰ کی راہ میں لڑ رہی تھی اور دوسرا گروہ کافروں کا تھا وہ انہیں اپنی آنکھوں سے اپنے سے دگنا دیکھتے تھے‘‘۔ (محمد جوناگڑھی)

’’ایک گروہ تو اللہ کی راہ میں لڑتے تھے (یعنی مسلمان) اور دوسرا گروہ کافر لوگ تھے یہ کافر اپنے کو دیکھ رہے تھے کہ ان مسلمانوں سے کئی حصہ (زیادہ) ہیں کھلی آنکھوں دیکھنا‘‘۔ (اشرف علی تھانوی)

’’ایک گروہ خدا کی راہ میں جنگ کر رہا تھا۔ اور دوسرا گروہ کافر تھا جن کو (مسلمان) اپنی آنکھوں سے دوگنا دیکھ رہے تھے اور اللہ اپنی مدد سے جس کی چاہتا ہے، تائید و تقویت کرتا ہے‘‘۔ (محمد حسین نجفی)

(558) إِنَّکَ سَمِیعُ الدُّعَاءِ کا ترجمہ

حصر عربی زبان کا ایک لطیف اسلوب ہے، اس کی مخصوص علامات ہوتی ہیں جن سے حصر کا مفہوم پیدا ہوتا ہے۔ جہاں حصر کی کوئی علامت نہ ہو وہاں حصر کا ترجمہ کرنا درست نہیں ہے۔ جیسے درج ذیل عبارت میں تاکید تو ہے مگر حصر نہیں ہے۔ اس لیے حصر کے بغیر ترجمہ ہونا چاہیے:  

إِنَّکَ سَمِیعُ الدُّعَاءِ۔ (آل عمران: 38)

’’ تو ہی دعا سننے والا ہے‘‘۔ (سید مودودی) یہاں حصر کا اضافہ ہے اور تاکید جو إِنَّکَ کی وجہ سے ہونی چاہیے، نہیں ہے۔ 

’’بیشک تو ہی ہے دعا سننے والا‘‘۔ (احمد رضا خان) یہاں حصر کا اضافہ بھی ہے اور تاکید بھی ہے۔ صرف تاکید ہونی چاہیے۔

درج ذیل ترجمہ حصر کے بغیر اور بجا طور پر تاکید کے ساتھ ہے۔

’’بے شک تو دعا کا سننے والا ہے‘‘۔ (محمد جوناگڑھی)

دلچسپ بات یہ ہے کہ جن حضرات نے اوپر والی عبارت میں حصر کا ترجمہ کیا، انھوں نے اسی طرح کی درج ذیل عبارت میں بجا طور سے حصر کا ترجمہ نہیں کیا۔

إِنَّ رَبِّی لَسَمِیعُ الدُّعَاءِ۔ (إبراہیم: 39)

’’حقیقت یہ ہے کہ میرا رب ضرور دعا سنتا ہے‘‘۔ (سید مودودی)

’’بیشک میرا رب دعا سننے والا ہے‘‘۔ (احمد رضا خان)


قرآن / علوم القرآن

(الشریعہ — جنوری ۲۰۲۵ء)

الشریعہ — جنوری ۲۰۲۵ء

جلد ۳۶ ، شمارہ ۱

تلاش

مطبوعات

شماریات

Flag Counter