بدلتا مشرقِ وسطیٰ: شامی انقلاب اور لبنان میں سیزفائر

ڈاکٹر محمد غطریف شہباز ندوی

مشرقِ وسطیٰ میں تبدیلیوں کی رفتار دنیا کے دوسرے خطوں کے مقابلہ میں کہیں زیادہ تیز ہے۔ یہ وہ بدقسمت خطہ ہے جہاں تیل کے سب سے زیادہ ذخائر ہیں، تاریخی خطہ ہونے کے علاوہ اس کی اسٹریجک اہمیت بھی بہت زیادہ ہے، اس کے باوجود یہاں کے لوگ اپنی قسمت کے مالک نہیں۔

خلافتِ عثمانیہ سے بغاوت کر کے ٹوٹنے کے بعد یوروپی استعمار کے دو ستونوں فرانس اور برطانیہ نے 1916ء میں سائکس پیکو (Sykes-Picot) کے خفیہ معاہدے کے ذریعہ اس خطہ کے حصے بخرے کر ڈالے اور ان کو اپنے درمیان بانٹ لیا۔ اس کے نتیجہ میں مختلف چھوٹے چھوٹے رجواڑوں کا وجود ہوا۔ عراق پر انگریزوں نے قبضہ کیا اور استعماری طاقتوں نے شام کو فرانس کو دے دیا۔ جس نے پہلے تو اس کی مزید تقسیمیں کر کے اس کو غیر متحد کر دیا۔ چنانچہ طرابلس اور الجبل کو لبنان کے نام سے علیحدہ کر دیا گیا جس کی وجہ سے مسلمان اکثریت یک دم اقلیت میں بدل گئی کیونکہ شام کے اِس جنوبی حصہ میں مسیحیوں کی بہت بڑی آبادی تھی۔ لبنان کے علاوہ لاذقیہ اور بلاد العلویین کے نام سے مزید چھوٹی ریاستیں بنادی گئیں۔ باقی جو بچا اُسے سوریا (سیریا) کے نام سے الگ ملک بنا دیا گیا۔ یوں شامیوں کو بہت کمزور کر دیا گیا تھا۔

تاہم شام یا سیریا میں قوم پرست حریت پسند اٹھ کھڑے ہوئے اور انہوں نے پہلے فرانسیسی استعمار کے خلاف مسلح جدوجہد کی، اور جب ان کی فوجی بغاوت کچل دی گئی تو پرامن طریقے پر دوسرے محاذوں پر کام کیا۔ قاہرہ، پیرس، جنیوا اور نیویارک میں نشر و اشاعت کے ادارے قائم کیے، جریدے نکالے، آخر میں قوم پرستوں نے ایک عام ہڑتال کر دی جو پچاس دن تک جاری رہی، جس کے آگے حکومتِ فرانس کو آخر جھکنا پڑا۔ ستمبر 1936ء میں عرب قوم پرستوں اور حکومتِ فرانس کے درمیان ایک معاہدہ ہوا جس کی رو سے شام کو متحد کر دیا گیا۔

لیکن آزادی کے بعد شام میں بعثی نصیری نظریہ کے علمبردار اور کبھی کیمونسٹ عناصر اقتدار میں آتے رہے اور ان سب نے نہ صرف مذہب پسندوں کا گلا دبایا بلکہ انہوں نے ملک میں بدترین آمریت قائم کیے رکھی۔ مثلاً‌ کرنل حسنی زعیم، سامی الحفناوی، نور الدین الاتاسی، ادیب ششکلی، جنرل امین الحافظ، اور حافظ الاسدیہ، وہ ظالم و سفاک فوجی جنرل تھے جو سب بعثی یا کمیونسٹ رجحان رکھتے تھے، اور جو ملک میں بار بار فوجی انقلاب لاتے رہے۔ انہوں نے بنیادی انسانی حقوق کو بہت پامال کیا اور سنی مسلمانوں پر مظالم کے پہاڑ توڑ دیے۔

شام میں علویوں کا فوجی اور بعثی سوشلسٹ اقتدار بشار کے باپ حافظ الاسد نے 1970ء میں قائم کیا تھا۔ اس نے آہنی پنجوں سے ملک پر حکومت کی۔ یہ ملک پولیس اسٹیٹ بلکہ انٹیلیجنس اسٹیٹ تھا جہاں کے جیل خانے بدترین تعذیب خانے تھے۔

حافظ کے وحشیانہ مظالم کے خلاف اس سے قبل بھی آوازیں اٹھیں۔ خاص طور پر اخوان المسلمون کی سرکردگی میں مذہبی مسلمانوں نے 1982ء میں حماۃ شہر میں انقلاب برپا کیا جس کو حافظ الاسد نے بمباری کر کے اس طرح کچلا تھا کہ شہر میں دس ہزار مذہبی مسلمانوں کو مار دیا گیا تھا۔ اس کو تاریخ میں مجزرۃ حماۃ (حماۃ قتل عام) کے نام سے جانا جاتا ہے۔

اس کے بعد 2011ء میں جب تیونس میں خوانچہ فروش بوعزیزی نے اپنے آپ کو سپردِ آتش کر دیا تو یک دم عرب آمر حکمرانوں کے خلاف عرب اسپرنگ یا الربیع العربی کا شعلۂ جوالہ پھوٹ پڑا۔ اور یہ ’’بہارِ عرب‘‘ (بغاوتوں کی لہر) تیونس، الجزائر، مصر ہوتے ہوئے شام میں بھی داخل ہوئی۔ درعا شہر میں ایک چودہ سالہ لڑکے معاویہ سیاسنہ نے بشارالاسد کے خلاف دیوار پر ایک نعرہ لکھ دیا تھا (اجاک الدور یادکتور، ڈاکٹر اب تمہاری باری ہے)۔ یاد رہے کہ بشار الاسد تعلیم کے لحاظ سے آنکھوں کا ڈاکٹر ہے۔ اُس نوجوان کو اور اس کے کم سن ساتھیوں کو گرفتار کر کے شدید ٹارچر کیا گیا۔ اس کے خلاف لوگوں نے مظاہرہ کیا تو بشارالاسد کی پولیس نے مظاہرہ میں شامل بہت سے نوجوانوں کو پکڑ کر ان پر تشدد کیا اور ہلاک کر دیا جن میں تیرہ سالہ حمزہ بھی تھا جس کی قبر پر اب انقلاب شام کا جھنڈا لہرا رہا ہے۔ جب ان بچوں کے والدین ان کو لینے کے لیے پولیس اسٹیشن پہنچے تو بشار کی انٹیلیجنس کے ایک بے رحم اور سفاک افسر نے ان سے کہا کہ

’’اپنی بیویوں کے پاس جاؤ اور اور بچے پیدا کر لو، اگر تم نہ کر سکو تو ان کو ہمارے پاس بھیج دو ہم پیدا کر دیں گے۔‘‘

اس خبیث جملہ نے درعا، ادلب اور حلب میں آگ لگا دی اور ہزاروں لوگ اس نظام کے خلاف نکل آئے۔ ان پر پولیس اور فوج نے بے محابا گولیاں چلائیں، سینکڑوں لوگ جان سے گئے۔نتیجہ میں سارے شام میں سنی مسلمان اس حکومت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے۔ پہلے ملک گیر پُرامن احتجاج ہوئے اور پھر پولیس اور شامی فوج کے تشدد کے ردعمل میں مسلح بغاوت یا انقلابی جدوجہد نے جنم لیا۔

آغاز میں سیرین آرمی بنی جس نے ملک کے خاصے حصے کو بشار اسد کے جبر سے آزاد کروا لیا۔ لیکن افسوس کہ خلیج کے بے ضمیر عرب حکمرانوں نے اپنی اپنی سیاست کھیلنی شروع کر دی اور مذہب و مسلک کی بنیاد پر ایسے پرتشدد تکفیری گروپ میدان میں اتر گئے جنہوں نے شیعوں کا قتل عام کیا۔ ردعمل میں مختلف ملکوں سے ’’فاطمیون اور زینبیون‘‘ کے نام سے شیعہ رضا کار ملیشیائیں بڑی تعداد میں شام میں داخل ہو گئیں اور انہوں نے شامی فوج کے ساتھ مل کر وحشیانہ انداز میں انتقامی کارروائیاں کیں۔ ’’حزب اللہ‘‘ نے بھی اپنے فوجی دستے وہاں اتار دیے۔ فاسفورس گیس تک بے قصور شہریوں پر استعمال کی گئی جس سے ہزاروں بچے اور عورتیں اور بوڑھے ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مر گئے۔ عالمی میڈیا نے اس کو رپورٹ بھی کیا اور امریکی صدر براک اوباما نے فوجی حملہ کی دھمکی بھی دی مگر کیا نہیں۔

اسی درمیان میں عراق میں شیعہ ملیشیاؤں کی دہشت گردی کے خلاف سنی پر تشدد مزاحمت شروع ہو گئی۔ جس میں صدام حسین کی امریکہ کے ذریعہ ختم کر دی گئی بعثی فوج کے سپاہی بڑی تعداد میں داخل ہو گئے اور یوں ISIS (اسلامک اسٹیٹ آف عراق اینڈ سیریا) کا ظہور ہوا جس کو امریکی ’’سی آئی اے‘‘ نے بھی اپنے لانگ ٹرم مفادات کے تحت تقویت پہنچائی، جس نے عراق و شام کے ایک بڑے حصہ پر اپنی پُرتشدد خلافت ابوبکر البغدادی کی قیادت میں قائم کر دی۔ ساری دنیا میں اس کے خلاف جذبات مشتعل کر دیے گئے اور اس نے یوں شام کے اسلامی انقلاب کی راہ کھوٹی کر دی۔

امریکہ اور روس کی وحشیانہ بمباری سے ISIS کا دارالخلافہ رقہ شہر برباد ہو گیا اور آخر میں جعلی خلافت کی یہ تحریک ختم ہو گئی۔ شام میں انقلابی بہت سے گٹوں میں تقسیم تھے۔ ملک کی آدھی آبادی غیر ملکوں میں یا خود شام کے اندر ہی رفیوجی کیمپوں میں رہ رہی تھی۔ ملک کی معیشت برباد ہو گئی۔ بشار الاسد کی حمایت ایران، روس، عراق کی شیعہ ملیشیائیں اور حزب اللہ کے لڑا کے کر رہے تھے۔ اُس وقت ان سب نے مل کر اسد نظام کے لاشے کو سہارا دے دیا اور اس کو دھڑام سے گرنے سے بچا لیا۔ ایران و روس کی مداخلت سے ’’بہارِ عرب‘‘ بھی ٹھٹھر کر رہ گئی۔

اُس کے بعد خلیج کی ثروت مند ریاستوں بالخصوص سعودی عرب اور امارات نے امریکہ کے ساتھ مل کر مصر میں محمد مرسی مرحوم کی جمہوری طور پر منتخب حکومت کا خاتمہ کرا دیا، اور مصر میں اس بہار کا خاتمہ ہوا تو دوسرے ملکوں میں خودبخود ہو گیا۔

اب جبکہ روس یوکرین میں پھنسا ہے، حزب اللہ پر اسرائیل سے تصادم کی وجہ سے شدید ضرب لگی ہے، ایران کے حالات بھی دگرگوں ہیں۔ ترکی کی خاموش مدد سے ادلب میں بہت دنوں سے فوجی تربیت لینے والے شامی انقلابی ’’ہیئۃ تحریر الشام‘‘ (HTS) کے بینر تلے جمع ہو کر دفعۃً باہر نکلے اور انہوں نے 27 نومبر 2024ء کو اسد کی فوجوں پر ملک کی آزادی کے لیے حملے شروع کیے تو اس کی فوجیں ان کے آگے خس و خاشاک کی طرح بہہ گئیں۔ اور صرف دس دنوں کے اندر اندر یہ غاصب نظام ڈھ کر رہ گیا۔

ترکی نے بڑی خاموشی سے یہ کارنامہ انجام دیا ہے اور خطہ میں آنے والے وقت میں اس کے بہت مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ روس اور ایران نے بھی بہت کھل کر بشارالاسد کا ساتھ اس لیے نہیں دیا کہ ان لوگوں کو اندازہ تھا کہ شامی فوج جو زیادہ تر جبراً بھرتی کے سپاہیوں پر مشتمل تھی جس کا مورال ڈاؤن تھا، انقلابی اس بار اس سے نہیں رک پائیں گے۔ چنانچہ انقلابیوں کے حملہ سے چند دن پیشتر ہی دوحہ قطر میں روس، ترکی اور قطرکا اجلاس ہوا تھا جس میں انہوں نے بشارالاسد کو یہی صلاح تھی کہ وہ انقلابیوں سے ڈائیلاگ کا راستہ اپنائے۔ مگر بشار الاسد کے دن گنے جا چکے تھے اس کو یہ بات سمجھ میں نہیں آئی اور روس و ایران نے بھی اس کا کوئی عملی فائدہ نہ دیکھ کر اس سے کنارہ کشی اختیار کر لی۔

شامی انقلاب اپنے دوسرے مرحلہ میں آناً فاناً میں فتحیاب ہو گیا۔ بشار الاسد کا ظالم نظام ۵۴ سال کے مسلسل غاصبانہ اور آمرانہ اقتدار میں رہنے کے بعد محض دس دنوں میں زمیں بوس ہو کر رہ گیا۔ طالبان کے ہاتھوں سقوطِ کابل میں 14 دن لگے تھے مگر دمشق کا سقوط صرف دس دنوں میں ہو گیا۔ بشارالاسد اپنی فیملی کے ساتھ ملک چھوڑ کر فرار ہو گیا۔روس کی شدید بمباری اور ایرانی ملیشیائیں اس کے کچھ کام نہ آسکیں اور انقلابی بالآخر بشارالاسد سے ملک کو آزاد کرانے کے اپنے مشن میں کامیاب ہوگئے۔

دمشق کی فتح کے بعد قائد انقلاب ’’احمد الشرع‘‘ المعروف بہ ‘‘ابو محمد الجولانی‘‘ نے جامع اموی پہنچ کر نماز ادا کی اور خطاب کیا۔ انہوں نے اپنے خطاب میں تمام شامیوں کو بشارالاسد کے مظالم سے چھٹکارا دلانے کا اعلان کیا۔ وعدہ کیا کہ جلد ہی سولین حکومت قائم کی جائے گی اور سب شامیوں کے حقوق محفوظ ہوں گے۔ ملک میں استحکام اور سیاسی امن لایا جائے گا۔ مضبوط سول ادارے قائم ہوں گے اور سیریا کو ایک خوشحال ملک بنایا جائے گا۔ چند دن بعد جمعہ کے دن اس تاریخی مسجد میں پچاس سال میں پہلی بار آزادی سے جمعہ کا خطبہ دیا گیا۔ اس سے پہلے تو حکومت کی طرف سے مخصوص کلمات پر مشتمل خطبہ بھیجا جاتا تھا۔

دمشق کے عماید اور مختلف تنظیموں کے ذمہ داران سے ایک ملاقات میں قائد انقلاب محمد الجولانی نے بتایا کہ

’’یہ انقلاب بظاہر اچانک سے اٹھا اور کامیاب ہو گیا مگر ایسا نہیں ہے۔ ہم اس کی تیاری 21 سال سے کر رہے تھے۔ اور اس میں کسی ملک یا بیرونی طاقت نے ہمارا ساتھ نہیں دیا اور نہ کسی نے باہر سے ہمیں ابھارا بلکہ یہ سب ہمارے اپنے خون پسینے کی محنت ہے، یہ ہتھیار بھی ہم نے خود بنائے۔ بیرونی قوتوں کے اپنے مصالح ہوتے ہیں۔ شام میں اس وقت ظالم اسد کے نظام کا تختہ پلٹنے کو کوئی بھی طاقت اپنے لیے فائدہ کا سودا نہیں سمجھ رہی تھی۔ ‘‘

اسد کی جیلوں (خاص کر صیدنایا جیل جہاں انسانوں کی کھال اتاری جاتی تھی) سے قیدیوں کو رہا کیا گیا۔ فرع فلسطین کے نام سے ایک تین منزلہ جیل تھی جس میں موت کے کمرے تھے۔ اور ایسے آلات تھے جن سے مردہ قیدیوں کی باڈی کو توڑ کر باہر پھینک دیا جاتا تھا۔ جیل میں اجتماعی قبریں بھی دریافت ہوئیں جن میں ایک ساتھ بہت سے قیدیوں کو یونہی دفن کر دیا جاتا تھا۔ ایسے کمرے ملے جن میں نمک ہی نمک تھا۔ ایسے سیل تھے جن میں قیدیوں کو مختلف تعذیب کے مختلف طریقوں سے ٹارچر کیا جاتا اور پھر ان کا نام و نشان مٹا دیا جاتا۔ میڈیا کے لوگوں کو وہاں بہت سے آئی کارڈ، شناختی دستاویزات اور تعلیمی سرٹیفیکیٹ ملے جن کے حاملین موجود نہیں ہیں یعنی ان کو بے رحمی سے مار دیا گیا اور پھر لواحقین کو ان کی نعشیں بھی نہیں دی گئیں۔

ایک ایسا بھی قیدی تھا جسے کم سنی میں جیل میں ٹھونس دیا گیا تھا اور وہ چالیس سال سے وہاں ایڑیاں رگڑ رہا تھا۔ اُس کو یقین نہیں آرہا تھا کہ اس کو قید کرنے والا ظالم نظام ختم ہو چکا ہے۔ ایک شامی پائلیٹ نے حافظ الاسد کے زمانہ میں حماۃ پر بمباری کرنے سے منع کیا تھا اس کو جیل میں ڈال دیا گیا، اس وقت وہ نوجوان تھا، آج 38 سال بعد بوڑھا ہو کر جیل سے باہر آیا ہے۔ قیدیوں میں بہت ساری خواتین بھی تھیں جن میں اکثر مذہبی گھرانوں کی تھیں۔ ان سب کی خوشی دیدنی تھی۔ کچھ لوگ ایسے بھی جنہوں نے برسوں سے سورج نہیں دیکھا تھا۔ جب ان کو جیل سے نکالا گیا تو وہ پوچھ رہے تھے کہ کیا حافظ الاسد مر گیا؟ ان کو پتہ ہی نہیں تھا کہ حافظ الاسد کے بعد اب اس کے بیٹے بشارالاسد کا بھی یوم حساب آچکا ہے۔ غرض تعذیب کی وہ خوفناک کہانیاں اسد حکومت کی جیلوں سے سامنے آرہی ہیں کہ جن کو دیکھ کر ایران اور حزب اللہ وغیرہ سے حیرت ہوتی ہے کہ ایسے ظالمانہ نظام کو انہوں نے سہارا دے رکھا تھا!

انقلاب کا ایک مرحلہ پورا ہوا اب زیادہ مشکل مرحلہ ملک کی تعمیرِنو کا ہے جس میں بہت سارے چیلنج ہیں۔ ایک بہت بڑا چیلنج تو فورً‌ا اسرائیلی جارحیت کو روکنا ہے۔ جس نے اسد حکومت کا تختہ پلٹنے کے اس بحرانی دور کو اپنے لیے غنیمت سمجھ کر اپنے گریٹر اسرائیل کے منصوبہ کو بروئے کار لانا شروع کر دیا ہے اور امریکہ کی حمایت اسے حاصل ہے۔چنانچہ چند ہی دنوں کے اندر اس نے سیریا کے اندر 450 فوجی سائٹس کو نشانہ بنایا۔ اور اس کے اپنے اعلان کے مطابق اس نے سیریا کی 80 فیصد فوجی صلاحیت، ہتھیار، فوجی ٹھکانے اور حساس ادارے برباد کر دیے ہیں۔ گولان ہائٹس پر اس کا پہلے سے قبضہ ہے مگر اب وہ سیریا کی سرحدوں میں گھس کر گولان کے سارے علاقہ پر قبضہ کر چکا ہے اور اس کو اسرائیل میں ضم کرنے کے خواب دیکھ رہا ہے۔

اسرائیل کی لامحدود فضائی قوت ایک ایسی چیز ہے جس کا کوئی توڑ مزاحمتی قوتوں کے پاس نہیں ہے۔ مجموعی طور پر تو شامی انقلاب خوش آئند ہے، اس کا ایک منفی پہلو البتہ یہ نظر آرہا ہے کہ خطہ میں مزاحمتی قوتوں کو اِس سے دھکا لگا ہے۔ ایران کے پراکسی حزب اللہ اور شام اور حماس کمزور ہو گئے۔ اب اسرائیل کے سامنے بظاہر ’’گریٹر اسرائیل‘‘ کے منصوبے کو چیلنج کرنے والا کوئی نہیں ہے۔ شامی انقلابی حکومت ابھی ٹرانزیکشن کے پیریڈ میں ہے اور یہ بہت نازک مرحلہ ہے۔ ابھی ان کو ملک کو استحکام کی طرف لے جانے میں وقت لگے گا۔ اسرائیل اور امریکہ چاہتے بھی یہی ہیں کہ سیریا ایسا ملک بن کر رہے جس کے پاس کوئی فوجی قوت نہ ہو، اور جو کبھی بھی اسرائیل کے سامنے کھڑا نہ ہو سکے۔

فی الحال محمد البشیر کو ملک کا نیا وزیراعظم مقرر کیا گیا ہے۔ کمانڈر الجولانی نے اسرائیل کے حملوں پر تنقید اور اپنی تشویش کا اظہار کرنے میں دیر لگائی۔ اب شاید نئی حکومت یو این او میں اس مسئلہ کو اٹھانے جا رہی ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ملک کے استحکام کے ساتھ ہی اس محاذ پر فوری توجہ دی جاتی اور انقلابیوں کی خاطر خواہ نفری اسرائیلی بارڈر یعنی گولان ہائٹس پر متعین کی جاتی اور اسد کی آرمی نے جن ٹھکانوں، چوکیوں اور اسلحہ ڈپو کو چھوڑ دیا ہے ان کو فوراً اپنے کنٹرول میں لے کر ان کا تحفظ کیا جاتا۔

بعض مبصرین کا یہ بھی تجزیہ ہے کہ اِس انقلاب کو امریکہ کی حمایت بھی حاصل رہی کیونکہ امریکی صدر جوبائڈن کی صدارت کے دن اب ختم ہونے والے ہیں اور وہ خطہ میں اپنی کوئی مثبت ligacy چھوڑ کر جانا چاہتا ہے، کیونکہ غزہ میں اسرائیل نے جو تباہی مچائی ہے اور اس میں جوبائڈن نے آنکھ بند کر کے جس طرح اسرائیل کا ساتھ دیا ہے اُس نے دنیا بھر میں اس کی کِرکری کرا دی ہے۔ امریکی عوام بھی اُس سے خوش نہیں اس لیے اس کی پارٹی کو صدارتی انتخابات میں ذلت آمیز شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ اس لیے سی آئی اے نے، ناٹو ممالک نے، اور ترکی نے شامی انقلابیوں کو آگے بڑھا کر کامیاب کرا دیا ہے۔ ہو سکتا ہے اس تجزیہ میں کچھ دم ہو مگر آئندہ نئی شامی حکومت سے یہ مغربی قوتیں کس طرح تعاون کرتی ہیں، اس سے ہی اس بات کا تیقن ہو سکے گا۔

ملک کی نئی حکومت کے سامنے دوسرا بڑا چیلنج مختلف تنظیموں کو یکجا کر کے ایک متحد سیریائی آرمی کی تشکیل ہے۔ اس وقت صورتحال بڑی پیچیدہ سی ہے۔ ہیئہ تحریر الشام یا HTS جس نے یہ انقلاب برپا کیا کے علاوہ بھی انقلابیوں کے بہت سے گُٹ ہیں جو آپس میں بھی متصادم ہیں:

فری سیرین آرمی ہے جس کو ترکی نے کھڑا کیا تھا اور آج کل اس کو SNA یا سیرین نیشنل آرمی کہتے ہیں۔

شام کے شمال میں کردوں کی SDF ہے جس نے ایک علاقہ پر قبضہ کر کھا ہے، جس کو ترکی اپنے لیے بڑا خطرہ سمجھتا ہے، کیونکہ اس گروپ نے آزاد کردستان کے خواب پال رکھے ہیں جو ترکی، سیریا اور عراق تینوں کے لیے پریشانی کا باعث ہے، کیونکہ کرد سنی کمیونیٹی ان تینوں ملکوں میں پھیلی ہوئی ہے، اور اس میں متشدد عناصر زیادہ تر غیر مذہبی ہیں اور امریکی حمایت کے زیرسایہ ہیں۔

خود ہیئۃ تحریر الشام کو امریکہ نے ایک دہشت گرد تنظیم قرار دے رکھا ہے اور محمد الجولانی کے سر پر دس ملین ڈالر کا انعام رکھا ہوا ہے۔

اس لیے یہ ضروری ہے کہ یہ سارے گروپ اپنے گروہی تعصبات کو چھوڑ کر ایک ملکی وحدت میں منسلک ہو جائیں اور ان کے انقلابی مجاہد سب نئی سیرین آرمی کا حصہ بنا لیے جائیں۔

ملک کی اکثریت عرب سنی مسلمانوں پر مشتمل ہے جو ستر فیصد سے بھی زیادہ ہیں۔ ان کے علاوہ کرد ہیں (وہ بھی سنی ہیں)، اسماعیلی ہیں، دروز ہیں، یزیدی ہیں، عیسائی ہیں اور علوی نصیری ہیں جن کا اپنا علاقہ ہے۔ ان سب اقلیتی گروپوں کو بھی حکومت میں جائز حصہ دینا ہوگا۔

ملک کے ایک حصہ پر ترکی بھی قابض ہے، جبکہ امریکہ کا بھی ایک بیس یہاں ہے جس میں 900 امریکی فوجی موجود ہیں۔ تیل کے کنویں بھی یہیں ہیں جن پر بلاشرکتِ غیر امریکہ قابض ہے۔ نیز لتاکیہ اور طرطوس میں روس کی ایئربیس بھی ہیں۔

یعنی یہ کہنا بالکل بجا ہو گا کہ فی الحال شام تمام بڑی قوتوں کا اکھاڑا بنا ہوا ہے اور اس میں حالات کو معمول پر لانا جوئے شیر لانے سے کم نہیں۔ اس لیے ملک کو سنبھالنا اور وہاں سیاسی استحکام لانا، پڑوسی ممالک سے بہتر تعلقات قائم رکھنا، امریکہ اور روس دونوں سے تعلقات میں توازن برقرار رکھنا بڑی سیاسی سوجھ بوجھ، بین الاقوامی سیاست کے اتار چڑھاؤ، اور اپنے ملک کی نازک صورت حال کو باریکی سے سمجھ کر اس سے عہدہ برآ ہونے کا تقاضا کرتے ہیں۔

ملک کی معیشت بالکل چرمرا کر رہ گئی ہے۔ بجلی کی سپلائی کا یہ حال ہے کہ اگر روزانہ تین گھنٹے بھی آجائے تو غنیمت ہے۔ سردست کمانڈر جولانی نے جو بیانات دیے ہیں، اور جس طرح وہ اقلیتوں سے مل رہے ہیں، اور جس طرح اپنے فوجیوں کو امن و امان قائم کرنے میں لگایا ہے اس سے ملک میں استحکام لانے کے عندیہ کا پتہ چلتا ہے۔

خوش آئند ہے کہ نئی سیرین آرمی کے قیام کی شروعات ہو چکی ہے، شکست خوردہ سابق فوجی اپنے ہتھیار نئی حکومت کے پاس جمع کر رہے ہیں۔ بینک کھل گئے ہیں، ائرپورٹ اپنا کام دوبارہ شروع کر چکے، اور اقتصادی سرگرمیوں کا آغاز ہوا ہے۔ قائد انقلاب سے ملنے کے لیے جرمنی، امریکہ اور یو این کے وفود آچکے جن سے ملاقات میں قائد نے شام پر عائد اقتصادی پابندیاں اٹھا لینے کی مانگ کی ہے۔ انہوں نے یہ عندیہ دہرایا ہے کہ شام کا انقلاب طالبان جیسا نہیں ہے۔ انہوں نے پڑوس کے سبھی ملکوں سے نارمل تعلقات قائم رکھنے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔ 

بشار اسد کے جن افسران نے شامی عوام پر لرزہ خیز مظالم ڈھائے ان کے خلاف منصفانہ اقدام کا اعادہ بھی کیا ہے۔ دنیا میں بھی یہ آواز اٹھ رہی ہے کہ ان مجرموں کے خلاف مقدمات چلائے جائیں اور ان کو قرار واقعی سزا دی جائے۔ مغربی ملکوں کا مطالبہ یہ ہے کہ انقلابی ایسی حکومت بنائیں جس میں سبھی اقلیتی گروپوں کی نمائندگی ہو۔ اندرونی طور پر قائدِ انقلاب سبھی شامی کمییونٹیوں اور جماعتوں سے مل رہے ہیں۔ خدا کرے کہ حالات اسی نہج پر آگے بڑھیں۔ ایک مضبوط اور خود کفیل شام کی تشکیل ہو جائے۔ فلسطین کے پڑوس میں ایک مضبوط اسلامی مملکت کا قیام جو اِس ایشو کو اون کرتی ہو بہت زیادہ ضروری ہے اور اس سے مسئلہ فلسطین کے حل میں بڑی مدد ملے گی۔

لبنان میں سیز فائز

شام میں انقلاب آنے سے ذرا پہلے ہی لبنان اور اسرائیل میں 60 دن کے لیے سیزفائر ہوا ہے جس میں سہولت کاری امریکی خصوصی ایلچی آموس ہوکسٹائن نے کی۔ اس کے فوری سبب دو تھے:

ایک تو امریکہ اور اسرائیل کو یہ یقین ہو چلا تھا کہ زمینی حملہ میں حزب اللہ کو ختم نہیں کیا جا سکتا اور جتنا کچھ لبنان پر حملوں میں حاصل کیا جا چکا ہے وہ بہت ہے۔ حزب اللہ کی ٹاپ قیادت ماری جا چکی، اس کے دفاتر اور اسلحہ ڈپو وغیرہ تباہ کر دیے گئے۔ زمینی لڑائی میں اسرائیلی فوجی بھی روزانہ مر رہے تھے اور حزب اللہ روز ہی حیفا اور اس سے بھی آگے بڑھ کر اسرائیل کے قلب تل ابیب میں دو سو راکٹ مار رہی تھی۔ پھر حزب اللہ کے تابڑ توڑ راکٹ داغنے سے شمالی اسرائیل سے ڈیڑھ لاکھ اسرائیلی بھاگ کر تل ابیب میں آگئے تھے۔ سرکاری طور پر جن کے اخراجات اٹھانے سے ملکی معیشت پر دباؤ بڑھ رہا تھا۔ خود اسرائیلی آرمی کہہ چکی تھی کہ انہوں نے لبنان پر حملہ کے فوجی اہداف حاصل کر لیے ہیں۔

دوسری طرف حزب اللہ پر ملک کی حکومت اور عوام کی طرف سے مسلسل ایک دباؤ تھا۔ اسرائیل کے بے پناہ حملہ میں چار ہزار لبنانی شہید ہوئے، ملکی معیشت کو دس بلین ڈالر کا نقصان پہنچ چکا تھا کہ اسرائیلی جنگی جہاز روزانہ دو دو ہزار حملے کر رہے تھے۔ انہوں نے ضاحیہ بیروت کے علاوہ لبنان کے بہت سے علاقے بالکل تہس نہس کر ڈالے تھے۔

یہی وجہ ہے کہ غالباً ایران سے بھی یہی اشارہ ملا ہو گا کہ اب جنگ بندی کر لی جائے۔ یہ عارضی جنگ بندی تو ہو گئی مگر اس میں اپرہینڈ امریکہ نے اسرائیل کو دلوا دیا ہے اور حزب اللہ کو پسپائی اختیار کرنی پڑی ہے۔ جبکہ اول دن ہی سے اسرائیل اس کی خلاف ورزیاں بھی کر رہا ہے۔ حالات کی رفتار بہت تیز ہے، سردست اسرائیل اور امریکہ بہت فائدے میں ہیں اور ایران کو بے حد نقصان پہنچا ہے۔

ابھی امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ کے اقتدار سنبھالنے کے بعد یہ خطہ کیا کروٹ لے گا اور حالات کس طرف جائیں گے، غزہ میں صورت حال کیا بنے گی؟ یہ دیکھنا ابھی باقی ہے۔

حالات و واقعات

(الشریعہ — جنوری ۲۰۲۵ء)

الشریعہ — جنوری ۲۰۲۵ء

جلد ۳۶ ، شمارہ ۱

تلاش

مطبوعات

شماریات

Flag Counter