مدارس رجسٹریشن: ایوان صدر کے اعتراضات نے قلعی کھول دی

مولانا مفتی منیب الرحمٰن

پارلیمنٹ سے پاس کردہ ’’سوسائیٹیز ایکٹ برائے رجسٹریشن دینی مدارس‘‘ پر ایوانِ صدر کے اعتراضات نے قلعی کھول دی ہے اور اصل نیت آشکار ہو گئی ہے، بلکہ یوں کہیے سانپ کی کینچلی اتر گئی ہے۔ واضح رہے سانپ کے جسم پر باریک سی جھلی ہوتی ہے جسے سانپ بدلتا رہتا ہے، اسے کینچلی کہتے ہیں۔

صدر صاحب کے اعتراض نامے میں لکھا ہے: ’’سوسائیٹیز ایکٹ کے تحت مدارس کی رجسٹریشن سے قانون کی گرفت کمزور ہوگی، من مانی زیادہ ہوگی‘‘۔ اس سے معلوم ہوا کہ اصل مقصد مدارس کو گرفت میں لینا ہے، باقی سب ’وزنِ شعر‘ کے لیے ہے۔

مزید یہ کہ جس سقراط بقراط سیکرٹری صاحب نے یہ خط ڈرافٹ کیا ہے، ان کی علمی سطح بھی سامنے آگئی ہے۔ فرماتے ہیں: ’’سوسائیٹیز ایکٹ فائن آرٹ کے لیے ہے‘‘۔

سوسائیٹیز ایکٹ کے نام ہی سے ظاہر ہے کہ اس کا مقصد ہم خیال لوگوں کی ایسی انجمن، فاؤنڈیشن، ایسوسی ایشن، اکیڈمی، یا ادارہ، جسے کچھ افراد مخصوص مقاصد و اہداف کے لیے قائم کریں۔ وہ اہداف رفاہی، فلاحی، خیراتی تعلیمی، دینی، الغرض ہر طرح کے ہو سکتے ہیں۔ کوئی ہمیں ریکارڈ سے بتائے، سوسائیٹیز ایکٹ کے قیام سے لے کر آج تک جو ہزاروں لاکھوں ادارے رجسٹرڈ ہوئے ہیں، اُن میں ’فائن آرٹ‘ کے ادارے کتنے ہیں؟ آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں ہوں گے۔ لہٰذا یہ محض کٹ حجتی ہے، اس کے سوا کچھ نہیں ہے۔

نیز یہ مکتوب ڈرافٹ کرنے سے پہلے سیکرٹری صاحب کو سوسائیٹیز ایکٹ کی سیکشن 21 کا مطالعہ کر لینا چاہیے تھا جسے سابق مختارِ کل صدر جنرل پرویز مشرف کے زمانے میں پارلیمنٹ، چاروں صوبائی اسمبلیوں، اور آزاد کشمیر قانون ساز اسمبلی سے پاس کرا کے ایکٹ کی صورت میں پورے ملک میں نافذ کیا گیا تھا۔ اس کا تو عنوان ہی یہ تھا: ’’رجسٹریشن آف دینی مدارس‘‘۔ یہ کہا گیا تھا: ’’دینی مدارس کا نام جو بھی ہو (مدرسہ، دارالعلوم، جامعہ، اکیڈمی، اسکول، کالج وغیرہ)، اس کی رجسٹریشن اس سیکشن کے تحت لازمی ہوگی‘‘۔

دوسرا نکتہ یہ اٹھایا گیا ہے: ’’فیٹف اور عالمی اداروں کو اعتراض ہو سکتا ہے‘‘۔

بصد ادب عرض ہے: عالمی اداروں کے پاس ایسا کوئی اختیار نہیں کہ وہ کسی ملک کو ڈکٹیٹ کریں کہ کون سا ادارہ کس قانون کے تحت قائم ہو، یہ آزاد جمہوری ممالک کا اپنا دائرہ اختیار ہوتا ہے۔ فیٹف کی دلچسپی صرف ایک مسئلے سے ہے: "منی لانڈرنگ نہ ہو، وسائل عسکریت کے لیے استعمال نہ ہوں، مالیاتی نظام شفاف ہو، وغیرہ‘‘۔ انہیں آم کھانے سے غرض ہوتی ہے، پیڑ گننے سے نہیں۔

سوسائیٹیز ایکٹ کی مذکورہ بالا سیکشن 21 ذیلی دفعہ 4 میں مدارس یہ ڈکلیریشن دینے کے پابند تھے: ’’کوئی مدرسہ ایسا لٹریچر شائع نہیں کرے گا جو عسکریت پسندی یا مذہبی منافرت کو فروغ دے‘‘۔

نیز اس کے مجوزہ پرفارمے میں یہ اقرارنامہ بھی شامل تھا: ’’ہم عسکریت پسندی یا انتہا پسندی یا نفرت انگیزی کی تعلیم نہیں دیں گے، البتہ تقابلِ ادیان کی نظریاتی بحث اس پابندی کی زد میں نہیں آئے گی‘‘۔ کیونکہ مغربی ممالک میں بھی ان کے جو مذہبی ادارے (Seminaries) قائم ہیں، ان میں بھی تقابلِ ادیان کی تعلیم دی جاتی ہے، اور مستشرقین (Orientalist) کا تو مرکزی موضوع ہی یہی ہوتا ہے کہ وہ اپنی دانست میں اسلام اور پیغمبرِ اسلام کی خامیاں تلاش کرتے رہتے ہیں۔



مدارس و جامعات / تعلیم و تعلم

(الشریعہ — جنوری ۲۰۲۵ء)

الشریعہ — جنوری ۲۰۲۵ء

جلد ۳۶ ، شمارہ ۱

تلاش

مطبوعات

شماریات

Flag Counter