مدارس اور مولوی: پس منظر اور معاشرتی حیثیت

ڈاکٹر شہزاد اقبال شام

ملکی آبادی کا غالب حصہ یہ سمجھتا ہے کہ محلے کا مولوی جس کسمپرسی کے عالم میں آج رہ رہا ہے، شاید ابتدائے آفرینش سے وہ اسی بے چارگی کا شکار رہا ہے، جو لعل و گُہر اس کی زبان سے آج جھڑتے ہیں، شاید اس کے آبا و اجداد نے اس کی گھٹی میں ڈالے تھے۔ یہاں تک کی لاعلمی تو قابلِ معافی ہے، لیکن آبادی کا ایک بڑا تناسب یہ ایمان بھی رکھتا ہے کہ مولوی صاحب جو کہہ رہے ہیں وہی اسلام ہے، وہی اللہ کا فرمان ہے، وہی الہامی ہدایت ہے۔

یہ کیفیت آج اکیسویں صدی کے اس دوسرے دَہے میں ہے کہ جب ذرائع ابلاغ لوگوں کی رسائی میں نہیں، جیب میں پڑے ہوتے ہیں، لیکن کتب تاریخ کے اوراق میں کچھ اور مرقوم ہے۔ انہی اوراق میں سے ایک بوسیدہ، مُڑا تڑا اور کٹا پھٹا ورق مولوی کی داستان سے عبارت ہے۔

زیادہ دور کی بات نہیں 1857ء کی جنگِ آزادی تک کا ذکر ہے کہ برصغیر کے مراکزِ علم، اور کسی حد تک قدرے دور کے شہروں اور قصبہ جات میں اس وقت کے تعلیمی ادارے معاشرے کی تمام ضروریات کے کفیل تھے۔

یہی مدارس علمِ طب کے میدان میں ماہرینِ علوم طب پیدا کرتے تھے۔ وہی ماہرین یعنی طبیب عام فرد سے لے کر بادشاہ سلامت تک کی طبی ضروریات پوری کرتے۔ انہی مدارس سے فارمیسی یعنی ادویہ سازی کے ماہرین بھی سند حاصل کرتے۔ اور یہ جو تاج محل، لال قلعہ، شاہی قلعہ، بادشاہی مسجد اور اس طرح کی متعدد تاریخی عمارات آج شان و شوکت سے سر اٹھائے کھڑی ہیں، ان کے بنانے والے آرکیٹکٹ اور انجینئر انہی تعلیمی اداروں کے سند یافتہ تھے۔ پشاور سے کلکتہ تک وسیع و عریض برصغیر کو چلانے والے بیوروکریٹ اور سول سروس کے کل پرزے بھی انہی مدارس کے ’’مولوی‘‘ حضرات سے فیض یافتہ تھے۔

یہ مدارس اپنے وقت کی جامعات ہوا کرتے تھے۔ ان کے پاس وسیع و عریض رقبے بغرض کاشتکاری ان کی اپنی ملکیت میں ہوا کرتے تھے، جہاں سے حاصل غلہ اور دیگر زرعی اجناس یہ مدارس سال بھر کے لئے حاصل کرتے اور گوداموں میں رکھ لیتے۔

مدرسین کو تنخواہوں وغیرہ کا کوئی مسئلہ ہی نہیں تھا۔ طلبا سے نہ صرف کوئی فیس نہیں لی جاتی تھی، بلکہ تعلیمی سال کے اختتام پر گھر جانے آنے کے لئے انہیں سفر خرچ (Travel Grant) بھی دیا جاتا تھا۔ روٹی، کپڑا اور چھت تو یہ تعلیمی ادارے دیتے ہی تھے، طلبا کی دیگر جملہ ضروریات بھی ان کے ذمے تھیں، حتیٰ کہ 1857ء آ گیا۔

برطانوی راج جب 1857ء کی جنگِ آزادی سے پیدا شدہ مسائل سے نمٹ چکا تو اس نے دو اوّلین کام ایسے کئے، جن سے ہم مسلمان آج بھی نبردآزما ہیں۔ بھارتی مسلمانوں کی موجودہ بے چارگی کا جواز موجود ہے کہ وہ ایک لادین مُلک میں اور معاندانہ رو یہ والے ہندو کے ساتھ رہ رہے ہیں۔ افسوس تو پاکستان کے باشندوں پر ہے، جو ڈیڑھ سو سال سے زائد مدت گزارنے کے بعد بھی انگریز کے پیدا کردہ مسائل کو نہ تو ختم کر سکے اور نہ ختم کرنے کا داعیہ رکھتے ہیں۔

انگریز کا سب سے پہلا حملہ مسلمانوں کے نظامِ تعلیم پر یوں ہوا کہ اس نے مذکورہ تعلیمی اداروں کے ان وسیع و عریض رقبوں کو اپنی تحویل میں لے لیا جن کی بنیاد پر یہ تعلیمی ادارے مکمل خود کفیل تھے۔ یہ رقبے انگریز نے اپنے ان مقامی معاونین کے نام کر دیئے جو جنگِ آزادی کے عمل میں انگریز کے حلیف تھے اور جن کی مدد اور غداری سے انگریزوں نے ہزاروں مجاہدینِ آزادی کا خون کیا تھا۔ مسلمانوں کے وقف کردہ لاکھوں ایکڑ ان تعلیمی اداروں سے کیا چھنے کہ ان کی کمر ہی ٹوٹ گئی۔ اکابر مسلمان ’’مولوی‘‘ سر جوڑ کر بیٹھے اور نتیجہ یہ نکالا کہ جنگ ختم نہیں ہوئی، جنگ کی ابتدا ہوئی ہے، جس میں خالی ہاتھ اگر کوئی ہے تو وہ عامۃ الناس ہیں۔ رہے رقبہ یافتگان تو ان میں اور انگریزوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔ بڑے بڑے زرعی رقبے تعلیمی اداروں سے چھین لئے گئے تو ان کی آمدنی دفعتاً ختم ہو کر رہ گئی۔ کہاں کی خود کفالت اور کون سی ٹریول گرانٹ۔ حالت یہ ہو گئی کہ طلبا کے روزمرہ اخراجات پورے کرنا بھی ان تعلیمی اداروں کے لئے ناممکن ہو گیا۔

دوسری افتاد یہ پڑی کہ انگریزی حکومت نے فارسی کی جگہ انگریزی کو دفتری اور سرکاری زبان قرار دے کر ملکی نظام اس کے تحت چلانا شروع کر دیا۔

اس کے تطابق میں سرسید احمد خان نے حالات سے سمجھوتہ کرنے کا سبق دینا شروع کر دیا۔ کہتے ہیں معاش سب سے بڑا نظریہ ہوا کرتا ہے۔ انگریزی کے دفتری زبان قرار پاتے ہی لوگوں کی بڑی تعداد نے انگریزی سکولوں میں بچوں کو داخل کرانا شروع کر دیا۔ تھوڑے ہی عرصے بعد حالت یہ ہو گئی کہ مسلمانوں کے اپنے تعلیمی ادارے وسائل سے محروم تو پہلے ہی کر دیے گئے تھے، ان میں طلبا کی تعداد بھی گھٹنا شروع ہو گئی۔ یہ وہ لمحہ تھا جب مسلمانوں کے اصل رہنماؤں — علمائے کرام — نے بڑی جرأت سے یہ فیصلہ کیا کہ ہم اور کچھ کر سکیں یا نہ کر سکیں، تعلیمی اداروں میں ’’قال قال رسول اللہ‘‘ کی صدا ہر حال میں زندہ رکھنا ہے۔

مسلمانوں کی عام آبادی میں اس فیصلے کو خوب پذیرائی حاصل ہوئی۔ اب یہ طے ہوا کہ ان محروم وسائل تعلیمی اداروں کے کم از کم ایک طالب علم کی کفالت ایک مسلمان خاندان کرے گا۔ شروع میں ان اداروں میں سے آہستہ آہستہ میڈیکل، انجینئرنگ، مینجمنٹ سائنسز، فلکیات اور اس طرح کے دیگر علوم ایک ایک کر کے اجنبی بننا شروع ہوئے۔ علماء نے اس کے باوجود ہتھیار نہ ڈالے اور علومِ قرآن، تفسیر، علمِ حدیث، فقہ، تاریخ اور عربی فارسی جیسے متعلقہ علوم کی تدریس کا سلسلہ جاری رکھا اور یوں ’’قال قال رسول اللہ‘‘ کی صدا ان جنونی مسلمانوں کی کوششوں سے جاری رہیں۔

فارسی کی جگہ انگریزی کو دفتری زبان قرار دیا گیا تو ظاہر بات ہے آبادی کے بڑے حصے نے انگریزی سکولوں کا رخ کرنا شروع کر دیا۔ اس کے متوازی رُخ پر انگریزی نہ جاننے کے باعث مسلمانوں میں بے روزگاری کا تناسب بڑھتا چلا گیا۔ حالت یہ ہو گئی کہ دوسری نسل تک پہنچتے پہنچتے ان عام مسلمان گھرانوں کے لئے خود اپنی سفید پوشی کو برقرار رکھنا محال ہو گیا، جو کسی ایک مسلمان طالب علم کی کفالت کیا کرتے تھے۔ اب ان میں ایک جھنجھلاہٹ سی پیدا ہونا شروع ہو گئی:

’’ابا حضور نے معلوم نہیں کس برتے پر ایک طالب علم کی کفالت کی ذمہ داری اٹھائی تھی۔ ہم یہ سلسلہ موقوف یا منقطع تو نہیں کرنا چاہتے، لیکن مولانا! حالات آپ کے سامنے ہیں۔ عید بقر عید پر کپڑوں کے دو جوڑے ہم خود بناتے ہیں، اپنے اس طالب علم کو بھی دے دیا کریں گے۔ رہا کھانا، تو حضرت جو ہم کھاتے ہیں وہی اس طالب علم کو بھی کھلائیں گے۔ یوں کیجئے حضرت! طالب علم کو بھیج دیا کریں دو وقت کا کھانا ہمارے ذمہ‘‘!

قارئین کرام! یہ تھا مولوی کے کشکول کی ایجاد کا پس منظر!

دلخراش باتیں میں اب شروع کرتا ہوں۔ انگریز تو رخصت ہو گیا، لیکن اپنا ریاستی نظام تمام کامے فل اسٹاپ کے ساتھ اسی طرح ہم نے قبول ہی نہیں کیا، پوری جزئیات کے ساتھ اسے اسی طرح نافذ رہنے دیا جس طرح انگریز نے چھوڑا تھا۔ ابھی گزشتہ سال جی ہاں 2017ء میں میرا ایم فِل کا ایک طالب علم گاڑی میں لفٹ لے کر میرے ساتھ بیٹھا تو موضوع سخن ذاتی امور کا رخ کرتا چلا گیا۔ معلوم ہوا موصوف کسی مسجد میں امام ہیں، وہیں رہتے ہیں اور دو وقت کا کھانا آج اکیسویں صدی میں بھی وہ تب کھا پاتے ہیں جب محلے کے لوگ باری باری انہیں کھانا دیں۔ اور یہ قصہ ہے سیالکوٹ شہر کے اندرونی حصے کا، اور یہ اس سیالکوٹ شہر کا ذکر ہے جس کے سرمایہ داروں نے اپنی برآمدات بڑھانے کے لئے اپنے اربوں کے خرچ سے حکومت کو ایک ایئرپورٹ بنا کر دے دیا۔

زندگی کے دو کنارے چار سُو
اِک طرف ہنگامہ اہل ہوس اور ہاؤ ہُو
اِک طرف اللہ ہو، اللہ ہو، اللہ ہو

انگریز کے اس انتظامی آکٹوپس پر آہنی ضرب لگائی تو پاکستان آرمی نے۔ 1976ء تک یہ صورتِ حال تھی کہ یونٹ کے مولوی صاحب کو رہنے کے لیے جو کوارٹر الاٹ ہوا کرتا تھا، وہ ان کوارٹروں میں سے کوئی ایک ہوتا تھا جن میں بھنگی، موچی، ترکھان وغیرہ رہتے تھے۔ جنرل ضیاء الحق نے بے چارگی کی شکار اس مخلوق کو پہلی دفعہ کمیشنڈ آفیسر قرار دے کر اسے اس قابل بنا ڈالا کہ کمیشنڈ آفیسر کم از کم اس سے ہاتھ ملا سکیں۔

تو کیا یہ ذمہ داری پاک فوج ہی تک محدود ہے؟ آزادی کے بعد معاشرتی اداروں کو نئے انداز اور آزاد قوم کے شایان شان تبدیل کرنا پوری قوم کی ذمہ داری ہے۔ مُلک کی نظریاتی ساخت کی شکل کوئی بھی ہو، مسجد مسلمان آبادی کا ایک جزولاینفک ہے۔ لادین ممالک میں بھی مسجد وہ ادارہ ہے جس کی تعمیر و ترقی کے لئے لادین ریاست انہی خطوط پر کام کرتی ہے جن پر ہسپتالوں، تعلیمی اداروں، ریلوے اسٹیشنوں کو بہتر بنانے کے لئے کام کیا جاتا ہے۔ شعبہ اوقاف اور سرکاری مساجد کے ائمہ کرام بلاشبہ بہتر شرائط اور بہتر انداز میں کام کرتے ہیں، فوج کے ائمہ کرام بھی اب سر اٹھا کر چلنے کے لائق ہو گئے ہیں۔

اس سب کچھ کے باوجود انگریز کی تشریف آوری سے قبل کے امام اور تعلیمی اداروں کی بحالی نہ کیے جانے تک پورا معاشرہ تند و تاریک خانوں ہی میں بٹا رہے گا۔ موجودہ دینی مدارس بڑی حد تک بہتر انداز میں کام کر رہے ہیں، لیکن بڑی تعداد میں چھوٹے مدارس میں آج بھی کشکول بردار طلبا ہی پڑھتے ہیں۔ ایسے تعلیمی اداروں سے سند یافتہ افراد سے اگر کوئی شخص اس وجہ سے نفرت کرے کہ مولوی صاحب کے انداز و اطوار ٹھیک نہیں ہیں تو ایسے شخص کی ذہنی سطح پر بغور نظر ڈالنے کی ضرورت ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ ان دینی مدارس کے نظامِ تعلیم کو چھیڑے بغیر انہیں درست خطوط پر استوار کیا جائے۔ معاشرہ جس دن ان تعلیمی اداروں کو واپس دو سو سال قبل کے خطوط پر لے جانے میں کامیاب ہو گیا، وہ دن ہماری خود کفالت کا پہلا دن ہو گا۔ پھر یہی تعلیمی ادارے قانون دان، محقق، ڈاکٹر، انجینئر، ماہرینِ مالیات پیدا کریں گے۔ اور پھر نہ غیرملکی ماہرین ہوں گے اور نہ غیرملکی اداروں سے غیرملکی فکر اٹھائے وہ ماہرین ہوں گے جو ورلڈ بینک، آئی ایم ایف سے قرض لینے کی سفارش کریں۔

خود کفالت کے حصول کے لئے دیگر اقدامات کے پہلو بہ پہلو یہ بھی ایک اہم قدم ہے کہ ہمارا نظامِ تعلیم اور تعلیمی ادارے ہمارے اپنے انداز کار سے مطابقت رکھنے والے ہوں اور یہی خود کفالت کی بنیاد ہو گی۔

مدارس و جامعات / تعلیم و تعلم

(الشریعہ — جنوری ۲۰۲۵ء)

الشریعہ — جنوری ۲۰۲۵ء

جلد ۳۶ ، شمارہ ۱

تلاش

مطبوعات

شماریات

Flag Counter