سن 1997ء میں ان کی کتاب "فقه الزکاۃ" مطالعہ میں آئی تو عربی زبان وادب کے اس مبتدی طالب علم کو ان کی قوت استدلال، اسلوب استنتاج اور طرز تحریر نے اپنے سحر میں اس طرح جکڑے رکھا کہ اسباق کے رسمی دوانیے کے کئی دن اس کی ورق گردانی کی نذر ہوگئے۔اس کتاب کا ہر مبحث قاری کو فکر ونظر کی نئی جہات سے روشناس کراتا ہے اور اسے یہ محسوس ہوتا ہےکہ اس کا مصنف گویادقت نظر اور حیرت انگیز اجتہادی بصیرت میں قرون اولی کے مجتہدین فقہ کے قافلے کا پچھڑا ہوافرد ہو ۔اس بے مثال علمی وفقہی کتا ب کے بارے میں ان کے بعض معاصرین نے کہا ہے کہ اگر علامہ قرضاوی اور کوئی بھی کاوش نہ کرتےتو ان کی علمی جلالت شان کے لئے یہی کارنامہ کافی تھا۔
ڈاکٹر یوسف قرضاوی ۹ ستمبر ۱۹۲۶ میں مصرکے ایک گاوں صف تراب میں پیدا ہوئے اور ۲۶ ستمبر ۲۰۲۲ کو زندگی کی ۹۶ بہاریں دیکھ کر قطر میں داعی اجل کو لبیک کہتے ہوئے اس دار فانی سے عالم جاودانی کی طرف کوچ کرگئے۔ان کی جائے پیدائش صف تراب میں رسول اللہ ﷺکے اصحاب میں سب سے آخر میں انتقال کرنے والے صحابی عبداللہ بن حارث بن جزء زبیدی مدفون ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ایام شباب میں یہ شاعری کیا کرتے تھے اور یہی ان کی شخصیت کی شناخت تھی۔مگر دست قدرت نے انہیں فقہ وحدیث کی خدمت اور دعوت دین کے نبوی مشن پر لگادیا۔ان کا ایک پیشہ ور شاعر سے فقیہ وداعی دین بننے تک کا سفر بھی دلچسپ ہے۔ یہ قید وبند کی عقوبتوں اور ہجر کی قہرماں آزمائشوں سے بھی گزرے۔ 1954ء میں جب انہیں قیدخانے میں ڈالا گیا تو انہوں نے شہرہ آفاق قصیدہ "الملحمة النونية" لکھا۔ اس کے چنداشعار ملاحظہ کیجئے:
يا سائلي عن قصتي اسمع أمسك بقلبك أن يطير مفزعًا فالهول عاتٍ والحقائق مرةٌ والخطب ليس بخطب مصر وحدها في كل شبر للعذاب مناظرٌ فترى العساكر والكلاب معدة هذي تعض بنابها وزميلها ومضت علي دقائق وكأنها يا ليت شعري ما دهانِ؟ وما جرى؟ عجبًا أسجن ذاك أم هو غابةٌ أأرى بناء أم أرى شقي رحى واهًا أفي حلم أنا أم يقظةً لا لا أشك هي الحقيقة حية هذي مقدمة الكتاب فكيف ما |
إنها قصص من الأهوال ذات شجون وتولّ عن دنياك حتى حين تسمو على التصوير والتبيين بل خطب هذا المشرق المسكين يندى لها -والله - كل جبين لنهش طوع القائد المفتون يعدو عليك بسوطه المسنون مما لقيت بهن بضع سنين لا زلت حيًا أم لقيت منوني؟! برزت كواسرها جياع بطون؟! جبارة للمؤمنين طحونِ؟! أم تلك دار خيالة وفتون؟! أأشك في ذاتي وعين يقيني؟! تحوي الفصول السود من مضمون؟ |
فقہ الزکاۃ کی طرح ان کی دوسری مقبول ترین کتاب "الحلال والحرام فی الاسلام "ہے۔عالم عرب میں اس سے زیادہ مقبولیت شاید کسی کتاب کوملی ہو۔مصطفی زرقاءکہا کرتے تھے کہ ہر مسلم گھرانے پر اس سے استفادہ کرنا واجب ہے۔مشہور ادیب علی طنطاوی مکہ مکرمہ میں کلیۃ التربیۃکے طلبہ کو یہ کتاب درسا اور سبقا پڑھایا کرتے تھے۔علامہ ناصر الدین البانی نے اس کی حدیثوں کی تخریج کی جس سے اس کتاب کی وقعت اور قدر وقیمت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
ان کی کتاب "دور القيم والأخلاق في الاقتصاد الاسلامي" بھی اپنے موضوع پر ایک منفرد اور البیلی کاوش ہے ۔ اقتصادیات کے طالب علم اس سے فکر ونظر کی نئی راہیں تلاش کرسکتے ہیں۔ تجارت پیشہ افراد کو اس کا اردو ترجمہ اپنے سرہانے رکھ کر روز کچھ نہ کچھ پڑھتے رہنا چاہئے۔ دگنی قیمت پر اشیا فروخت کرنا ایک گھناونا اخلاقی جرم ہے۔ احادیث، آثار صحابہ اور سلف کے اقوال میں اس طرح کے سفاکانہ کاروباری رویوں پر شدید نکیریں کی گئی ہیں۔ اس پہلو پر اس کتاب کے ایک مستقل باب میں علامہ قرضاوی ؒنے تفصیلی روشنی ڈالی ہے۔ ان کی مطالعاتی زندگی امام غزالیؒ کی کتاب "إحیاء علوم الدین" سے ہوئی،جو انہوں نے اپنے پڑوسی سے عاریتا لے کر مطالعہ کی۔کہتے تھے: "میرے علمی وفکری اعتدال کی وجہ یہی کتاب ہے۔میں نے ابن تیمیہؒ کو پڑھا مگر غزالی کا دامن کبھی نہیں چھوڑا۔ "
ان کی تحریر میں علمی وادبی پختگی، گہرائی اور گیرائی تھی۔سلاست اور روانی تھی۔ موضوع کے تمام اطراف وجوانب کا احاطہ کرتے۔ حیرت انگیز حسن ترتیب سے مختلف ابواب اور فصول میں اس کی تقطیع کرتے۔ دلائل کا محاکمہ کرتے۔ کھل کر اپنی رائے دیتے۔ جو دلیل روایت ودرایت کی رو سے انہیں مطمئن کرتی، اس پر فتوی دیتے۔ کسی ایک امام کے مقلد نہ تھے۔ ائمہ اربعہ کے علاوہ دیگر ائمہ مجتہدین کی آراء پر عوام کی سہولت کی خاطر انہوں نے فتوی دیا۔ ان کی فقہی آرا پر تیسیری پہلو غالب ہے۔ مشہور عربی اینکر احمد منصور نے الجزیرہ پر ان سے انٹریو لیا۔اس میں شیخ قرضاوی نےاپنے تیسیری مزاج پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کے رُخَص اور ابن عمر رضی اللہ عنہما کے شدائد معروف ہیں۔میں ابن عباس رضی اللہ عنہما کی طرف زیادہ مائل ہوں۔ان کے الفاظ تھے"أنا أقرب إلي ابن عباس إلي من ابن عمر"۔کہا کرتے تھے افتاء میں تشدید اور تعسیر کے مقابلہ میں تیسیر اور تخفیف پر عمل کرنااولی اور افضل ہے۔ اپنی اس رائے کی تائید میں وہ قرآن کی آیات یُرِیدُ ٱللَّهُ بِكُمُ ٱلیُسرَ وَلَا یُرِیدُ بِكُمُ ٱلعُسرَ (البقرۃ ۱۸۵)، یُرِیدُ ٱللَّهُ أَن یُخَفِّفَ عَنكُم (النساء ۲۸ٔ)، مَا یُرِیدُ ٱللَّهُ لِیَجعَلَ عَلَیكُم مِّن حَرَج (المائدہ ۶) سے اور حدیثی روایات میں "خَيرُ دينِكم أَيْسرُه" (رواه أحمد فی مسندہ، والبخاري في الأدب المفرد، والطبراني في الأوسط) "أحب الأديان إلى الله الحنيفية السَّمْحة"، "ما خُيِّرَ رسول الله -صلى الله عليه وسلم- بين أمرين؛ إلاَّ أَخَذ أيسرهما ما لم يكن إثمًا، فإذا كان إثمًا كان أبعد الناس عنه" اور "إن الله يُحبُّ أن تُؤتَى رُخَصُه، كما يَكره أن تُؤْتَى معصيته" (رواه أحمد وابن حبان والبيهقي في الشعب، صحيح الجامع الصغير: 1886) سے استدلال کیا کرتے تھے۔ان کے پاس دنیا بھر سے ہزاروں استفتاء آتے تھے۔ان کے فتاوی کا مجموعہ "فتاوی معاصرہ" کے نام سے شائع ہوچکا ہے۔اس کی پہلی جلد کے مقدمےمیں انہوں نے اپنے منہج افتاء پر تفصیلی روشنی ڈالی ہے۔
تحریر اور تصنیف وتالیف میں وہ کبھی جادہ اعتدال سے نہیں ہٹے۔مگر زبانی گفتگو میں کبھی توازن برقرار نہ رکھ پاتے۔ غیرت وحمیت اور جہادی سپرٹ ان میں تھی، جس کے زیر اثر وہ معاصر حکمرانوں پر شدید تنقید کرتے۔اس رد عمل نے انہیں کرب آسا اذیتوں سے گزارا۔
عصر حاضر کے مقتضیات وتحدیات پر ان کی گہری نظر تھی۔ جدید وسائلِ اعلام کی اہمیت وافادیت کے قائل تھے۔ جس زمانے میں عرب کے علمی حلقوں میں ٹی وی نشریات اور ویڈیو کے جواز وعدم جواز کی بحثیں گرم تھیں، قرضاوی نے اس دورانیے میں الیکٹرانک میڈیا کو دعوت وتبلیغ دین اور اپنی فکر کے ابلاغ کے لئے استعمال کیا۔
دوہزاریے(2000ء) کے آغاز میں الجزیرہ ٹیلویزن چینل کے پروگرام "الشريعة والحياة" میں انہوں نے مختلف علمی وفکری اور سماجی موضوعات پر اپنے طویل علمی مطالعے اور تجربے کی روشنی میں گفتگو کا سلسلہ شروع کیا۔ اس پروگرام کو شرق اوسط اور اس سے باہر کی دنیا میں بے پناہ مقبولیت ملی۔
ان کی پوری زندگی تصنیف وتالیف اور دعوت دین میں گذری۔درجنوں کتابیں تالیف کیں۔بےشمار مقالے لکھے۔زندگی کا کوئی لمحہ بے کار نہیں گذرا۔ فضائی اسفارمیں بھی مطالعہ وتحریر کا سلسلہ نہیں ٹوٹا۔ زندگی کا آخری دورکلام اللہ کے زیر سایہ رہا کہ ان ایام میں شیخ نےاپنی ساری توانائیاں تفسیر قرآن کی تکمیل پر مرکوز کی تھیں۔اتحاد بین المسلین کے عظیم داعی تھے۔دنیا بھر میں مسلم اقلیات کا دفاع کیا۔ حق بات کہتے اور لایخاف لومۃ لائم والی صفت سے معمور تھے۔مختلف مواقع پر انہوں نے وزرا و ملوک کے روبرو جرات سے کلمہ حق بلند کیااور انہیں مداہنت پر ٹوکا۔ایک سیمنار میں فرمایا " ماضی میں ایسے بیسیوں مجتہدین ہو گذرے ہیں جو عوام یا سلاطین وقت کی خوشنودی کے لئے فتوے تراشاکرتےتھے،مگر الحمدللہ میرا مقصد عوام کی خوشنودی رہی، نہ سلاطین وقت کے تقرب کی خواہش، کسی کی پرواہ نہیں کی، دائم اللہ کی رضا مطمح نظر رہی"۔پھرفرمایا: ”اس باب میں صالحین کے ہاں متنبی کے یہ اشعار معمول بہارہے ہیں ،جو اس نے سیف الدولہ کی مدح میں کہے تھے:
فليتك تحلو والحياة مريرة
وليتك ترضى والأنام غضاب
وليت الذي بيني وبينك عامر
وبيني وبين العالمين خراب
إذا صح منك الود فالكل هين
وكل الذي فوق التراب تراب
صلحاء کی نظر صرف اللہ کی رضاجوئی پر رہی“۔ رجّاع الی الحق تھے، غلطی پر متنبہ کئے جاتے تو فورا رجوع کرتے ۔اپنے مکتب میں ہر طرح کے لوگوں سے خندہ پیشانی سے ملتے۔کسی ایک مذہب کے متقید نہ تھے۔ مجدد فی الفقہ والملۃ تھے۔ معاندین وحاسدین نے ان پربے جاتنقیدیں کیں۔ مگر وہ جواب نہ دیتے ما یقال لک الا ما قد قیل للرسل من قبلک۔ایک مرتبہ کسی نے عرض کیا آپ انہیں جوا ب کیوں نہیں دیتے؟ زیر لب مسکراتے ہوئے کہا :
لو كلُّ كلبٍ عوى ألقمتُه حجرًا
لأصبح الصخرُ مثقالاً بدينارِ
(یعنی ہر بھونکتے کتے کو پتھر مارنا شروع کروں تو اس سے پتھر کی قیمت مثقال سے بڑھ کرایک دینار ہوجائے گی،اور تو کوئی فائدہ نہیں۔)
-------------------
عالم عرب اور یورپ ومغرب میں شیخ یوسف قرضاوی کی علمی و فقہی آراء سے خوب استفادہ کیا گیا۔مگربرصغیر ہند وپاک میں ان کی علمی خدمات اور فقہی وحدیثی آراء کوخاطر خواہ پذیرائی نہ مل سکی ۔ یہاں بعض حلقے ان پر بے جا تساہل اور تجددپسندی کا الزام بھی عائد کرتے ہیں اور اس وجہ سے ان کی تصنیفات سے استفادے کا دائرہ وسیع نہیں ہوسکا۔ ہمارے ہاں ایک سکہ بند طبقہ علماء کی اجارہ داری ہے۔ جب تک نوجوان طبقہ اس کے دائرہ اثر سے نکل کر عالم عربی کے معاصرعلماء ومشائخ کے علمی تراث سے استفادہ نہیں کرےگا تب تک وہ ان علمی وفکری آفاق سے روشناس نہیں ہوپائے گا جن سے آگاہ ہونا داعیان دین کے لئے ضروری ہے۔بعض مورخین نےاساطین اہل علم کی اس طرح قدرناشناسی پر امام رازی کا واقعہ لکھا ہے۔ ابو عبد الله الحسين الواسطی کہتے ہیں کہ میں نے امام فخرالدین رازی کو ہرات کی ایک جامع مسجد کے منبر پر مقامی لوگوں کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے اوریہ شعر کہتے سنا:
المرءُ ما دام حيًّا يُستهان به
ويعظم الرُّزءُ فيه حين يُفتقَدُ
(یعنی آدمی جب بقید حیات ہوتواس کی کوئی قدر نہیں کی جاتی۔اسے کھوجانے کے بعد پتہ چلتا ہے کہ اس کی موت کتنا بڑا سانحہ ہے۔)
حقیقت یہ ہے کہ ایسے نوابغ اور بواقع صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں اور ان کی رحلت سے پیدا ہونے والا خلا کبھی پر نہیں ہوسکتا۔ان کی قدآور شخصیت کی بوقلموں علمی وفکری جہات پر بہت کچھ لکھا جائے گا۔ انہوں نے تقریبا سو کے لگ بھگ کتابوں کا جو متاع گراں مایہ چھوڑا ہے وہ ہمیشہ علم و تحقیق اور دعوت دین کے طالب علموں کے لئے مشعل راہ رہے گا۔ان کی دلاویز شخصیت سے عجب انس رہا۔ آج ۲۶ ستمبر۲۰۲۲کوجب ان کی رحلت کی دلفگار خبر پڑھی تو دل بیٹھ سا گیا۔ بخدا ایسا محسوس ہوا جیسے سر سے ایک سائبان چھن گیا ہو۔
و ما كان قيس هلكه هلك واحد
و لكنه بنيان قوم تهدّما