مطالعہ سنن ابی داود (۲)

سوالات: ڈاکٹر سید مطیع الرحمٰن

جوابات: ڈاکٹر محمد عمار خان ناصر

مطیع سید: مغرب کی دو رکعتیں چھوٹ جائیں تو ہم ان دونوں میں قعدے کا اہتما م کر تے ہیں۔کیا یہ حدیث میں آیا ہے یا استنباطی چیز ہے؟

عمار ناصر: یہ استنباطی چیز ہے۔

مطیع سید: اس کا مطلب ہے کہ اگر کوئی دونوں میں سے پہلی رکعت میں قعدے میں نہیں بیٹھتا تو سجدہ سہو لازم نہیں ہوگا؟

عمار ناصر: جی، سجدہ سہو نہیں آئے گا۔ امام کے ساتھ اگر آپ کی ایک رکعت چھوٹ گئی ہے تو جس رکعت میں آپ شامل ہوئے ہیں، آپ اس کو چاہے اپنی پہلی اور جو امام کے بعد پڑھیں گے، اس کو دوسری اور تیسری شمار کرلیں یا اس کے برعکس امام کے ساتھ جو رکعات پڑھ رہے ہیں، ان کو دوسری اور تیسری شمار کرلیں جبکہ چھوٹی ہوئی رکعت کو پہلی شمار کرلیں۔ یہ آپ کی نیت پر منحصر ہے۔ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے بھی ان دونوں طریقوں کی تصویب منقول ہے۔

مطیع سید: مروان بن حکم نے خطبہ پہلے اور نماز عید بعد میں پڑھنے کا طریقہ نکالا۔ایک صحابی نے فرمایا کہ تونے یہ بدعت نکالی ہے۔(کتاب الصلوۃ، باب الخطبۃ یوم العید، حدیث نمبر ۱۱۴۰) بعض کہتے ہیں کہ وہ اصل میں حضرت علی پر تبرا کرتا تھا اور صحابہ نماز کے بعد اٹھ کر چلے جاتے تھے، اس لیے اس نے خطبہ پہلے رکھ دیا۔کیا یہ ایسے ہی تھا؟

عمار ناصر: اموی عمال کی یہ روش تو روایات میں بیان ہوئی ہے۔ لیکن اس وقت میرے ذہن میں نہیں کہ مروان نے جو خطبے کو مقدم کرنے کا طریقہ اختیار کیا، اس کی وجہ بھی یہی تھی۔ بعض دیگر روایات میں ہے کہ خطبے کو نماز سے مقدم کرنے کا طریقہ اس سےپہلے حضرت معاویہ نے بھی اختیار کیا تھا۔ وجہ یہی بیان ہوئی ہے کہ نماز کے بعد لوگ خطبہ سننے کے لیے نہیں ٹھہرتے تھے تو انھوں نے ترتیب بدل دی۔

مطیع سید: حضرت عبد اللہ بن عباس کی روایت میں بلاخوف ومطر نمازیں اکٹھی پڑھنے کا ذکر آتا ہے۔ (کتاب صلاۃ السفر، باب الجمع بین الصلاتین، حدیث نمبر ۱۲۱۰) ایک شیعہ دوست کہتے ہیں کہ آپ لوگ کبھی بھی اکٹھی نہیں پڑھتے۔ کیا شیعہ نے مستقل نمازیں اکٹھی کرلیں تو اہل سنت نے رد عمل میں کبھی کبھار بھی ایسا کرنا چھوڑ دیا؟

عمار ناصر: نہیں، رد عمل میں ایسا نہیں ہوا۔ اہل سنت کا موقف یہ ہے کہ نمازیں اصل میں اپنے الگ الگ اوقات میں مشروع کی گئی ہیں تو انھیں اپنے وقت میں ہی پڑھنا چاہیے اور کوئی وجہ ہو، کوئی جواز ہو توپھر ان کو جمع کرنا چاہیے۔یہ جمہور فقہاء کے نزدیک ہے، احناف تو جمع کے قائل ہی نہیں، ،یعنی سفر میں بھی قائل نہیں۔ خوف اور بارش کے بغیر جمع سے متعلق ابن عباس کی جو روایت ہے، چونکہ وہ ایک ہی روایت ہے تو اس سے واضح نہیں ہوتا کہ وہ کہنا کیا چاہتے ہیں۔یہ روایت مختلف تعبیرات قبول کرلیتی ہے۔ وہ احناف کی تعبیر بھی قبول کرلیتی ہے جو کہتے ہیں کہ آپﷺ نے اگر مدینے میں نمازیں جمع کی ہیں تو یہ جمع ِ صوری تھی، یعنی بظاہر اکٹھی پڑھی جا رہی تھیں،لیکن حقیقت میں ایک نماز کو آخری وقت تک موخر کر کے دوسری نماز کو ابتدائی وقت میں پڑھا جا رہا تھا۔وہ شیعہ حضرات کی تعبیر کو بھی قبول کرلیتی ہے کہ کوئی عذر نہیں تھا، محض لوگوں کو یہ بتا نے کے لیے نمازیں جمع کی گئیں کہ اس کی بھی سہولت ہے۔ ایک تیسری تعبیر بھی ہو سکتی ہے کہ ابن عباس یہ کہنا چاہتے ہیں کہ نمازوں کو جمع کرنے کی وجہ محض خوف یا بارش نہیں ہے،عذر کی کئی اور بھی شکلیں ہو سکتی ہیں۔ بعض دفعہ کسی کام میں مصروفیت ہوتی ہے یا کوئی اور ایسی وجہ ہو سکتی ہے کہ نمازوں کو جمع کرنا ایک مجبوری بن جاتی ہے۔ اس کو بارش یا خوف کی حالت میں محصور نہ سمجھو۔تو وہ دو تین طرح کی تعبیرات قبول کرلیتی ہے۔

مطیع سید: کیا تہجد پہلے تمام مسلمانوں پر فرض تھی یا شروع سے ہی بس آپﷺ پر فرض تھی اور مسلمان تطوعاً‌ پڑھتے تھے؟ عبد اللہ بن عباسؓ کی روایت میں بیان ہوا ہے کہ یہ پہلے لوگوں پر فرض تھی، پھر اسے منسوخ کر دیا گیا۔ (کتاب التطوع، باب نسخ قیام اللیل والتیسیر فیہ، حدیث نمبر ۱۳۰۴)

عمار ناصر: مفسرین عام طورپر یہ کہتے ہیں کہ شروع میں اصل میں یہی نماز تھی جو فرض کی گئی تھی، پھر بعد میں اس کو نفل کا درجہ دے دیا گیا۔ البتہ مجھے ایسے یاد پڑتا ہے کہ شاید علامہ انور شاہ صاحب نے لکھا ہے کہ یہ ایسا نہیں ہے۔ یہ عام لوگوں پر فرض نہیں تھی۔

مطیع سید: سبعۃ احرف کی کافی روایات ہیں۔ (کتاب الوتر، باب انزل القرآن علیٰ سبعۃ احرف، حدیث نمبر ۱۴۷۵ تا ۱۴۷۸) ان کی کچھ سمجھ نہیں آتی۔

عمار ناصر: یہ بڑامشکل مسئلہ ہے۔ سبعہ احرف والی روایت میں کئی طر ح کے سوالات ہیں۔خاص طور پر سبعہ کی تعیین کرنا کہ قراءتیں کس لحاظ سےسات ہیں، بڑاہی مشکل ہے۔ اس کی کوئی ایسی توجیہ یا تعبیر جو پوری طرح سمجھ میں آتی ہو، میرے علم میں نہیں ہے۔ علامہ سیوطی نےتو کہہ دیا کہ یہ متشابہات میں سے ہے۔

مطیع سید: علامہ انور شاہ صاحب نے اس کے بارے میں کوئی رائے دی ہے؟

عمار ناصر: اس وقت ذہن میں نہیں ہے۔

مطیع سید: اگر ہم اس سے لہجے مراد لیں تو وہ توسات سے زیادہ ہیں۔

عمار ناصر: لہجوں پر یہ منطبق نہیں ہوتی۔

مطیع سید: غامدی صاحب فرماتے ہیں کہ یہ ساری چیزیں بعد میں عجم کی شامل کی ہوئی ہیں۔

عمار ناصر: یہ بات بنیادی طورپر تمناعمادی وغیرہ نے کہی ہے۔غامدی صاحب اس طرح سے نہیں کہتے، ان کی بات مختلف ہے۔

مطیع سید: امام ابو داؤد نے باب فی تعجیل الزکوٰۃ کا عنوان باندھا ہے، ،یعنی زکوٰۃ وجوب سے پہلے ادا کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔ (کتاب الزکوٰۃ، باب فی تعجیل الزکوۃ، حدیث نمبر ۱۶۲۳) تو کیا ہم اسے پر دوسری عبادات کو قیاس کر سکتے ہیں؟

عمار ناصر: نہیں۔عبادات میں نوعیت کے لحاظ سے فرق ہے۔ نماز کے اوقات بتائے گئے ہیں تو اسے اوقات کے لحاظ سے متعین کرنے کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو وہ اس خاص وقت میں ہی مطلوب ہے۔اس میں بھی خاص حالات میں پہلے پڑھ لینے کی اجازت دی گئی ہے۔روزے اور حج کا بھی یہی معاملہ ہے۔ لیکن زکوۃ میں ایسا نہیں ہے کہ اس کا کوئی خاص وقت رکھا گیا ہے جس میں سب نے زکوۃ ادا کرنی ہے۔ یہ کہا گیا ہے کہ سال گزرنے پر وہ آپ پر لازم ہوگی۔ ظاہر ہے، ہر آدمی کا سال الگ ہوگا۔ تو یہ نوعیت کا فرق ہے کہ زکوۃ فر ض سال کے بعد ہوتی ہے، لیکن یہ مطلب نہیں کہ آپ پہلے نہیں دے سکتے۔ اگر آپ نے دینی ہے اور لوگوں کی ضرورت موجود ہے تو آپ پہلے بھی دے سکتےہیں۔

مطیع سید: حضرت ابن عباس فرماتےہیں کہ ان کے والد حضرت عباس کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقے کے اونٹوں میں سے کچھ اونٹ دیے۔ (کتاب الزکوٰۃ، باب الصدقۃ علیٰ بنی ہاشم، حدیث نمبر ۱۶۵۳) حضرت عباس تو بنو ہاشم میں سے تھے، کیا زکوٰۃ ان کے لیے جائز تھی؟

عمار ناصر: احادیث میں صدقہ کی تعبیر کافی وسیع معنی میں آتی ہے۔ زکوٰۃ کے علاوہ بیت المال میں آنے والے دیگر محصولات پر بھی اس کا اطلاق کیا جاتا ہے۔ ممکن ہے، حضرت عباس کو یہ مال فے میں سے دیے گئے ہوں۔ مال فے میں خمس رسول اللہ ﷺ اور آپ کے اقربا کے لیے خاص کیا گیا تھا۔ ممکن ہے، اس میں سے ان کو اونٹ دیے گئے ہوں یا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ذاتی حصے میں سے دیے ہوں۔

مطیع سید: حج کا احرام باندھنے کے بعد صحابہ نے اس کو عمرے میں تبدیل کر لیا۔آگے لکھا ہے کہ یہ بات صحابہ کے ساتھ خاص تھی۔ (کتاب المناسک، باب الرجل یہل بالحج ثم یجعلہا عمرۃ، حدیث نمبر ۱۸۰۸) ان کے ساتھ خاص ہونے کی کیا وجہ تھی؟

عمار ناصر: اصل تو یہی ہے کہ آپ جس عبادت کے لیے احرام باندھ کر نکلے ہیں، اسی کو پورا کریں۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس اصول سے ہٹ کر صحابہ کو احرام تبدیل کرنے کا حکم دیا تو اس کے خاص ہونے کی وجہ یہ ہے کہ یہ ایک خاص مصلحت کے تحت کیا گیا تھا۔ آپﷺ اور صحابہ روانہ تو حج کا احرام باندھ کر ہوئے تھے،لیکن راستے میں آپ کو خیال آیا کہ ایک بڑا غلط تصور چلا آرہا ہے جس کی اس موقع پر اصلاح ضروری ہے۔ وہ یہ کہ لوگ سمجھتے ہیں کہ حج کے سفر میں عمرہ کر نا گناہ ہے۔تو آپ ﷺ نے عام قاعدے کے خلاف صحابہ سے کہا کہ وہ اسی احرام میں عمرے کی نیت کر لیں اور عمرہ ادا کر کے احرام کھول دیں۔یہ ایک خاص صورت حال میں کیا گیا تھا۔ عام ضابطہ یہی ہے کہ جس عبادت کی نیت سے احرام باندھا ہو، اسی کو مکمل کریں۔

مطیع سید: حدیث میں دوسرے کی طرف سے حج کرنے کی اجازت آئی ہے۔ (کتاب المناسک، باب الرجل یحج عن غیرہ، حدیث نمبر ۱۸۰۹) کیا کسی دوسرے کی طرف سے حج وہی شخص کر سکتا ہے جس نے پہلے حج کیا ہوا ہو؟ کیا یہ ضروری ہے؟

عمار ناصر: کوئی نص تو میرے علم نہیں ہے، لیکن یہ عقلی اور قیاسی طورپر سمجھ میں آتی ہے۔ آدمی کے ذمے پہلے اس کا اپنا حج ہے،وہ ادا کرے، پھر کسی دوسرے کی طرف سے فریضہ ادا کرے۔ یہ معقول بات ہے۔

مطیع سید: ایک آدمی غریب ہے، اس پر حج فر ض ہی نہیں۔ اس کو کسی نے کہا کہ آپ کو میں خرچ دیتا ہوں، آپ میرے والدین کی طرف سے حج کر آئیں۔ تو کیا یہ درست نہیں ہوگا؟

عمار ناصر: اس رائے کے مطابق درست نہیں ہوگا۔ نیابتاً‌ حج کے لیے ایسے آدمی کا انتخاب کرنا چاہیے جو پہلے اپنا فریضہ ادا کر چکا ہو۔بہرحال چونکہ استنباطی مسئلہ ہے، اس لیے آپ چاہیں تو اختلاف بھی کر سکتے ہیں۔

مطیع سید: غریب آدمی پر تو فرض تھا ہی نہیں، اس پر اپنا فریضہ ادا کرنے کی شرط کیسے لگائی جا سکتی ہے؟

عمار ناصر: یہاں دوسرے کی طرف سے ادا کرنے کی اہلیت کی بات ہو رہی ہے۔ اس پر فرض نہیں تھا، یہ ٹھیک ہے۔ جب اس نے اپنا حج نہیں اداکیا تو فقہا یہ کہہ رہے ہیں کہ وہ کسی دوسرے کی طرف سے ادا کرنے کااہل نہیں ہے۔

مطیع سید: احرام کی حالت میں عورت دستانے اور نقاب نہ پہنے۔ (کتاب المناسک، باب ما یلبس المحرم، حدیث نمبر ۱۸۲۶) متقدمین تو چہرے کے پردے کے قائل نہیں تھے تو کیا یہ دستا نے بھی اس دور میں چلتے تھے؟

عمار ناصر: متقدمین چہرے کے پر دے کے وجوب کے قائل نہیں تھے، جواز کے تو قائل تھے۔بہت سی خواتین کر تی بھی تھیں، احرام کی حالت میں چہرے کو ڈھانپنا ممنو ع ہے۔

مطیع سید : دستا نے بھی اس دور میں تھے کہ جس کا ذاتی ذوق ہو، پہن لے؟

عمار ناصر: دستانے تو ضروری نہیں، پردے کی نیت سے ہی پہنے جاتے ہیں۔ سردیوں میں موسم کے لحاظ سے بھی پہنے جاتے تھے۔

مطیع سید: کب یہ کہا گیا کہ چہرے کا پر دہ بھی نا لازمی ہے؟

عمار ناصر: کافی بعد میں متاخرین کے ہاں یہ رجحان پیدا ہوا۔ائمہ اربعہ کے ہاں تو نہیں ملتا۔

مطیع سید: آپ نے اپنے دادا جان کے بارے میں بھی یہی لکھا ہے کہ وہ اس کے وجوب کے قا ئل نہیں تھے۔

عمار ناصر: احناف کے ہاں تو یہی ہے۔البتہ متاخرین حنابلہ اور امام ابن تیمیہ وغیرہ کے ہاں وجوب ہے۔سعودیہ میں ابن تیمیہ کی رائے کی بنیادپر اس کو قانوناً‌ بھی لازم کر دیا گیا تھا۔احناف کے ہاں ہندوستان میں بعض لوگوں نے کچھ شدت اختیار کی ہے۔

مطیع سید: احرام کی حالت میں نکاح کی ایک طرف ممانعت کی روایات آتی ہیں، (کتاب الحج، باب المحرم یتزوج، حدیث نمبر ۱۸۴۱) دوسری طرف یہ بھی آتا ہے کہ آپ ﷺنے حضرت میمونہ سے احرام کی حالت میں نکا ح فرمایا۔ (کتاب المناسک، باب المحرم یتزوج، حدیث نمبر ۱۸۴۴)

عمار ناصر: اس نکاح کے بارے میں روایتیں متعارض ہیں۔ایک میں ہے کہ آپ ﷺنے احرام میں کیا اور دوسری میں ہے کہ آپﷺ احرام سے نکل چکے تھے۔محدثین کے ہاں احرام سے نکل جانے والی روایت کو عام طورپر قبول کیا جاتا ہے۔

مطیع سید: امام داؤود لکھتے ہیں کہ ابن عباس کو وہم ہواہے، حالتِ احرام میں آپ ﷺ نے نکاح نہیں کیا۔

عمار ناصر: جی محدثین یہی کہتے ہیں کہ ابن عباس کو غلط فہمی ہوئی ہے۔

مطیع سید: لاینکح ولا یُنکح میں نکاح سے مرا دیہ بھی لے سکتے ہیں کہ عقد نکاح نہیں، بلکہ نکاح کے بعد خلوت کرنا مراد ہے؟

عمار ناصر: احناف یہ تاویل کر تےہیں، لیکن بظاہر یہی لگتا ہے کہ عقد نکاح ہی مراد ہے۔ لاینکح ولا یُنکح ۔ یعنی خود بھی نکاح نہ کرے اور دوسرے کا بھی نہ کروائے۔

مطیع سید: احرام باندھنے میں کندھے کو ننگا رکھنا (کتاب المناسک، باب الاضطباع فی الطواف، حدیث نمبر ۱۸۸۴) یہ بھی رمل جیسی وقتی کوئی چیز تھی یا مستقل حکم ہے؟ حضرت عمر سے مروی ہے کہ انہوں نے ان دونوں چیزوں کا یعنی رمل اور اضطباع کا پس منظر ایک ہی بیان کیا۔ (کتاب المناسک، باب الاضطباع فی الطواف، حدیث نمبر ۱۸۸۷)

عمار ناصر: حضرت عمر کی رائے یہی تھی کہ اگرچہ یہ طریقہ ایک خاص موقع پر مشرکین کو مسلمانوں کی ہمت اور حوصلہ دکھانے کے لیے اختیار کیا گیا تھا اور اب اس کی ضرورت نہیں، لیکن چونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں یہ عمل کیا جاتا رہا، اس لیے اس کو جاری رکھنا چاہیے۔

مطیع سید: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع میں حرمت والے مہینوں کے اپنی جگہ پر واپس آ جانے کاذکر فرمایا۔ (کتاب المناسک، باب الاشہر الحرم، حدیث نمبر ۱۹۴۷) یہ حرمت کے مہینے کیا پچھلی شریعتوں سے چلے آرہے تھےیا اہل عرب نے خود طے کرلیے تھے؟

عمار ناصر: قرآن ِ مجید سے یہی پتہ چلتا ہے کہ عرب کے ماحول میں حج اور عمرے کی عبادت کو محفوظ کرنے کے لیے یہ مہینے باقاعدہ مقرر کیے گئے تھے۔ حرمت کے مہینوں کا حج اور عمرہ کے ساتھ باقاعدہ تعلق ہے اور ان کی حکمت یہی ہے۔ اسی لیے حج کے لیے تین مہینے اکٹھے اور عمرے کے لیے ایک مہینہ الگ رکھا گیا ہے تاکہ لوگ آسانی سے آکر حج ادا کر سکیں اور واپس بھی جا سکیں۔قاضی ابوبکر ابن العربی نے احکام القرآن میں ان کی مشروعیت کے پس منظر اور حکمت پر تفصیلی بات کی ہے۔

مطیع سید: چونکہ وہ حج اور عمرے کو محفوظ رکھنا چاہتے تھے، اس لیے انہوں نے خود یہ طے کر لیا کہ ان مہینوں میں جنگ نہیں کریں گے؟

عمار ناصر: نہیں، خود نہیں طے کیا۔یہ دینِ ابراہیمی کی روایت کا حصہ تھا۔

مطیع سید: اب ان حرام مہینوں کی کیا حیثیت ہے؟

عمار ناصر: فقہاء میں یہ بحث ہے کہ کیا یہ حرمت قائم ہے یا ختم ہو گئی ہے۔ جمہور فقہاء اس کو برقرار مانتے ہیں، جبکہ احناف کا کہنا ہے کہ یہ حرمت منسوخ ہو چکی ہے۔ اب یہ نسخ والی بات تو دلیل کے اعتبار سے کمزور معلوم ہوتی ہے، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع میں ان مہینوں کی حرمت کا ضابطہ بیان فرمایا جو آپ کی وفات سے تین مہینے پہلے کی بات ہے۔ لیکن امت کے تعامل کو دیکھیں تو وہ بظاہر احناف کا موید ہے، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کےبعد صحابہ کے دور میں اس کا ذکر نہیں ملتا کہ صحابہ ان مہینوں میں جنگ سے گریز کرتے ہوں۔ قیاسی طور پر بھی بعض استنباطات کی گنجائش نکلتی ہے۔ مثلاً‌ اگر حج اور عمرے کے سفر کو محفوظ بنانے کے لیے ان مہینوں میں لڑائی ممنوع کی گئی تھی تو پھر یہ حکم جزیرہ عرب تک محدود ہونا چاہیے، یعنی باقی دنیامیں آپ لڑ سکتے ہیں۔پھر یہ کہ عرب میں بھی صورتحال اس طرح سے نہیں رہی۔ تو یہ ایک اجتہادی بحث بن جاتی ہے۔

مطیع سید: منیٰ میں قیام کے دوران قصر نماز پڑھنا یہ کیا حج کے احکام کا حصہ ہے یا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سفر کی وجہ سے نماز قصر کی تھی؟ (کتاب المناسک، باب الصلاۃ بمنی، حدیث نمبر ۱۹۶۰)

عمار ناصر: یہ بھی استنباطی بحث ہے کہ کیا قصر، حج کے عمل کا حصہ ہے یا حاجی، مسافر ہونے کی وجہ سے قصر کرتے ہیں۔ فقہا میں یہ بحث چلتی ہے۔

مطیع سید: آپ ﷺ نے حلق کروایا۔ہزاروں کے مجمع کےسامنے کروایا، ،(کتاب المناسک، باب الحلق والتقصیر، حدیث نمبر ۱۹۸۱) پھر اس کی مقدار کے بارے میں اختلاف کیوں ہے؟جیسے امام شافعی کہتے ہیں کہ تین بال بھی کٹوالے تو بھی ٹھیک ہے، لیکن احناف کا موقف اور ہے۔ وہ پورے سر کے بال کٹوانے کا کہتے ہیں۔

عمار ناصر: نہیں، اس اختلاف کی وجہ یہ نہیں ہے کہ حضورﷺ نے حلق پورا کروایا تھا یا نہیں۔ وہ تو معلوم ہے، ،لیکن سر منڈوانا لازم نہیں۔ اگر کسی نے سر منڈوانا ہے تو ظاہر ہے پورے سرکو ہی منڈوانا ہے۔بحث، بالوں کے قصر میں ہوتی ہے کہ اگر بال چھوٹےکروانے ہیں تووہ کتنے کفایت کر جائیں گے۔چونکہ بنیادی طور پر اس کی حیثیت ایک علامت کی ہے تو شوافع کہتے ہیں کہ بس ٹھیک ہے، علامتاً‌ دو تین بال کٹوالیےتو بھی کافی ہے۔

مطیع سید: آپﷺ جب خانہ کعبہ میں بت گرا رہے تھے تو کہا جاتا ہے کہ وہاں سے اس مینڈھے کے سینگ بھی ملے جو حضرت ابراہیم ؑ نے قربان کیا تھا۔آپ ﷺنے غالباً‌ ان پر پردہ ڈال دینے کا حکم دیا۔کیا یہ واقعی اسی مینڈھے کے سینگ تھے؟

عمار ناصر: عرب میں زبانی روایت تو چلی آ رہی تھی کہ یہ اسی مینڈھے کے سینگ ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی تصویب یا تغلیط کے متعلق کوئی بات منقول نہیں، البتہ بعض روایات میں ہے کہ آپ نے کعبہ کے کلیدبردار سے کہا کہ وہ ان سینگوں کو ڈھانپ دے تاکہ کعبے میں نماز ادا کرنے والوں کی توجہ ان کی طرف مبذول نہ ہو۔ اب حقیقت حال کیا تھی، یہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔

مطیع سید: ایک روایت میں ہے کہ جو کوئی مجھ پر درود پڑھتا ہے تو اس وقت میری روح میرے جسم میں لوٹا دی جاتی ہے اور میں اس کے سلام کا جواب دیتا ہوں۔(کتاب المناسک، باب زیارۃ القبور، حدیث نمبر ۲۰۴۱) کیا یہ روایت ٹھیک ہے؟

عمار ناصر: ابو داؤد کی روایت کےاس جملے پر محدثین کو تحفظات ہیں کہ یہ جملہ ٹھیک نہیں ہے۔

مطیع سید : آپ اسے کیسے دیکھتے ہیں؟

عمار ناصر: اس روایت کی یہی سند ہے اور محدثین اس پر مطمئن نہیں ہیں۔سلام کا جواب دینے کی اور بھی روایتیں ہیں، لیکن یہ جملہ جو اس روایت میں ہے، اس پر محدثین مطمئن نہیں ہیں۔

مطیع سید: مصاہرت کے حوالے سے جو احناف کہتے ہیں کہ شہوت سے کسی عورت کو چھونے سے مصاہرت کا رشتہ ثابت ہو جاتا ہے تو کیا کوئی کسی غیر عورت کو غلطی سے یہ سمجھ کر شہوت سے چھو لے کہ یہ میری بیوی ہے، ،تب بھی حرمت ثابت ہو جاتی ہے؟

عمار ناصر: نہیں غلطی سے نہیں، ارادے سے کسی عورت کو شہوت کے ساتھ چھوا تو رشتے کی حرمت قائم ہوجائے گی۔ جس عورت کو آدمی نے شہوت کے ساتھ چھو لیا، اس کی ماں کے ساتھ نکاح اس پر حرام ہو جائے گا، کیونکہ اس کو ایک طرح سے اس کی ساس کا درجہ حاصل ہو گیا ہے۔قرآن نے تو اصل میں نکاح کی صورت میں یہ حکم بیان کیا ہے۔ احناف نے اس میں ایک لطیف استدلا ل کرتے ہوئے یہ کہا ہے کہ کسی عورت کو شہوت کے ساتھ چھو لینے کی نوعیت بھی یہی بن جاتی ہے۔

مطیع سید: ذوالکفل کا نام قرآن مجید میں آتا ہے لیکن اس کی کوئی وضاحت نہیں ملتی۔صحابہ کی طرف سے بھی کوئی سوال نہیں اٹھا۔

عمار ناصر: ذوالکفل نام سے زیادہ ایک لقب لگتا ہے۔قرآن نے بہت سی شخصیات کا یا واقعات کاذکر مخاطبین کے ہاں جو تصور عام تھا یا جو معلومات موجود تھیں، ان پر انحصار کرتے ہوئے کیا ہے۔

مطیع سید: تو کیا وہ تصورات یا معلومات بھی ہمیں کچھ ملتی ہیں؟

عمار ناصر: بعض میں مل جاتی ہیں، بعض میں نہیں ملتی۔

مطیع سید: ایک غیر مسلم کا قرآن پر یہ اعتراض بن سکتا ہے کہ ایسی ایک شخصیت کا ذکر دیا جس کا کچھ اتا پتہ نہیں۔

عمار ناصر: یہ قرآن پر تو اعتراض نہیں بنتا۔قرآن نے ایک شخصیت کا ذکر کیا ہے جو اس کے مخاطبین کومعلوم تھی۔ اب اگر وہ معلومات جو ان کو معلوم تھیں، ہمیں نہیں پہنچیں تو یہ تاریخ کا مسئلہ ہے، اس میں قرآن پر کیا اعتراض ہو سکتا ہے؟

مطیع سید : بعض لوگ کہتے ہیں کہ ذوالکفل اصل میں کپل سے معرب ہوا اور یہ اشارہ ہے کپل دسو کی طرف جو مہاتما گوتم بد ھ کا علاقہ تھا۔یعنی یہاں گوتم بدھ مراد ہیں۔

عمار ناصر: یہ سارے قیاسات ہیں۔

مطیع سید: ایک شخص نے اپنی بیوی کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو شکایت کی کہ وہ جو بھی ہاتھ لگانا چاہے، اس کو روکتی نہیں لیکن میں اس کے بغیر رہ نہیں سکوں گا۔ آپ نے فرمایا کہ ٹھیک ہے، اس سے فائدہ اٹھاتے رہو۔(کتاب النکاح، باب النہی عن تزویج من لم یلد من النساء، حدیث نمبر ۲۰۴۹) ابن جوزی کہتے ہیں کہ یہ روایت موضوع ہے، ،حالانکہ رواۃ اس کے سارے ثقہ ہیں۔

عمار ناصر: ابن جوزی درایتاً‌ اس روایت کو دیکھ رہے ہیں۔ ان کا اشکال یہ ہے کہ وہ آدمی کہہ رہا ہے کہ بد کر دار و بدکار عورت ہے اور رسول اللہ ﷺ اس کو ساتھ رکھنے کی اجازت دے رہے ہیں۔ تو یہ نہیں ہو سکتا۔ اس پہلو سے وہ درایتاً‌ اس پر سوال اٹھاتے ہیں۔

مطیع سید: یہ صلوٰۃ اور سلام میں فرق کیا ہے، جو ہم درود میں پڑھتے ہیں؟

عمار ناصر: صلوٰۃ کا لفظ رحمت کے لیے اور سلام سلامتی کے لیے آتا ہے۔ رحمت کی تعبیر بہت عام ہے، سلامتی اللہ کی رحمت اور عنایت کی ایک خاص صورت ہے۔

(جاری)

حدیث و سنت / علوم الحدیث

(فروری ۲۰۲۲ء)

تلاش

Flag Counter