اہل تشیع کے دیگر مصادر رجال اور جرح و تعدیل
اہل تشیع کے اولین مصادر رجال کا اقوال جرح و تعدیل کے اعتبار سے ایک جائزہ سامنے آچکا ہے،کہ ان کتب میں رواۃ کی تقویم نہ ہونے کے برابر ہے،اس کے بعد اہل تشیع کی بعد کے زمانوں میں لکھے جانے والی کتب ِ رجال کا فردا فردا ایک جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ ان کتب میں جرح و تعدیل کا مواد کم اور کیف کے اعتبار سے کس درجہ کا حامل ہے؟ان کتب میں سے متعدد کتب ایسی ہیں،جو ان اولین مصادر رجال کی جمع و ترتیب یا ان پر شروح و حواشی کی صورت میں ہے جیسا کہ احمد ابن طاووس کی التحریر الطاووسی (یہ کتاب حسن بن زین الدین العاملی کی تیار کردہ ہے،جو انہوں نے ابن طاووس کی کتاب حل الاشکال فی معرفۃ الرجال سے تیا رکی ہے )،جو رجال کے اولین مصادرِ خمسہ (رجال الکشی،رجال الطوسی،فہرسۃ الطوسی،رجال النجاشی اور رجال ابن الغضائری ) کا مجموعہ ہے،اس لئے ان جیسی کتب کا جائزہ لینے کی ضرورت نہیں ہے،کیونکہ ان سب کتب پر فردا فردا بحث ما قبل میں آچکی ہے،البتہ ان کتب پر بحث ہوگی،جو مستقل تالیفات شمار ہوتی ہیں:
1۔رجال ابن داود الحلی
ان کتب میں سے سب سے پہلی اور اہم کتاب "رجال ابن داود " ہے،جو ساتویں صدی ہجری کے شیعہ محقق ابن داود الحلی کی تصنیف ہے،شیعہ کتب رجال میں یہ سب سے اولین تصنیف ہے،جو جرح و تعدیل کی اساس پر لکھی گئی ہے،چنانچہ محقق حیدر حب اللہ اس کتاب کے بارے میں لکھتے ہیں:
"ظہر فی ھذا لکتاب ابداع جدید فی تقسیم مادۃ الرجالیہ لم یسبقہ الیہ غیرہ من الرجالیین فیما نعلم،حتی ان الشہید الثانی قال فی حقہ "سلک فیہ مسلکا لم یسبق بہ احد من الاصحاب"1
یعنی "اس کتاب میں رجالی مواد کی تقسیم میں نئی صورت گری کی گئی ہے،جو ہمارے علم کے مطابق سابق رجالیین میں سے کسی نے نہیں کی،یہاں تک شہید ثانی نے بھی اس کتاب کے بارے میں فرمایا کہ مصنف نے ایسا اسلوب اختیار کیا ہے،جس کی طرف کسی نے اس سے پہلے سبقت نہ کی "
چنانچہ آگے اس ابداع کی وضاحت کرتے ہوئے شیخ حیدر حب اللہ نےلکھا ہے کہ اس کتاب میں پہلی بار رجال کو جرح و تعدیل کے اعتبار سے ممدوحین اور مجروحین و مجہولین میں تقسیم کر کے ذکر کیا گیا ہے، اس کتاب میں سے چند تراجم نقل کئے جاتے ہیں تاکہ اس کا منہج و اسلوب سامنے آسکے:
"زكريا بن يحيى الواسطي ق (جخ، جش) ذكر ابن نوح ثقة.2
زياد بن سابور أخو بسطام الواسطي ق (جخ) ثقة.3
هاشم بن أبي هاشم قر (جخ) مجهول.4
المنهال بن عمرو الأسدي سين (جخ) مهمل5
رجال ابن داود سے چند تراجم کا نمونہ سامنے آچکا ہے،ان تراجم کو تراجم کی بجائے فہارس کہنا زیادہ انسب ہوگا،کہ راوی کا نام ہے اور اس کی توثیق یا تضعیف کے بارے میں صرف ثقہ یا مجہول و مہمل کا لفظ ہے فقط، رواۃ کی ان تقویمات میں ایک اساسی سقم یہ ہے کہ شیخ ابن داود رواۃ اور کتب ِ حدیث کے مصادر اساسیہ کے مصنفین کے ہم عصر نہیں ہیں،قریب تین صدیوں کے بعد کی شخصیت ہیں،تو آپ نے ان تقویمات کی کوئی وضاحت نہیں کی ہے کہ یہ تقویمات متقدمین اہل علم سے مروی ہیں، ائمہ (معصومین ) سے منقول ہیں؟یا اگر ابن داود کی اپنی توثیقات ہیں تو کس بنیاد پر اور کن اصولوں کے تحت وہ رواۃ کی توثیق یا تجریح کا فیصلہ کرتے ہیں؟ شیخ ابن داود نے مقدمہ میں بھی ان امور مہمہ میں سے کسی امر کی وضاحت نہیں کی،جبکہ اس کے برخلاف اہل سنت کتب رجال سے جو تراجم ہم نے نقل کئے،ان میں خصوصیت کے ساتھ رواۃ کی تجریح یا تعدیل کے بارے میں متقدمین اہل علم کے اقوال سند کے ساتھ منقول تھے،جیسا کہ تہذیب التہذیب سے جو ترجمہ نقل کیا گیا،اس میں صرف ایک راوی کے بارے میں سولہ کبار محدثین کے اقوال منقول تھے۔
ان اہم ابحاث کے معدوم ہونے کے ساتھ یہ بات بھی قابل ِ ذکر ہے کہ یہ کتاب ایک مجلد پر مشتمل ایک مختصر کتاب ہے،شیخ حیدر حب اللہ کے بقول اس کتاب میں 1744 رواۃ کو ممدوح اور 565 رواۃ کو مجہولین کی درجہ بندی میں ذکر کیا گیا ہے،یوں کل 2300 کے قریب رواۃ کا ذکر ہے،جو اہل تشیع کے کل رواۃ کے اعتبار سے نہایت قلیل تعداد ہے۔ اس کے ساتھ مزید بات یہ ہے کہ اس کتاب کے قابل اعتماد ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں علمائے شیعہ میں بڑے پیمانے پر اختلاف ہوا ہے،کیونکہ اس میں متعدد جہات سے اغلاط پائی جاتی ہیں،جن کی تفصیل حیدر حب اللہ نے مکمل تفصیل دی ہے،چنانچہ شیخ لکھتے ہیں:
لاحظ المتتبعون من الرجالیین وجود مشاکل فی ھذا الکتاب،کالاخطاء الواردۃ فی ضبط الاسماء،وفی النقل من المصادر وفی مقدمتھم السید مصطفی التفرشی فی کتابہ نقد الرجال الذی رصد فیہ بشکل مکثف اھم الملاحظات علی الکتاب"6
یعنی بعد میں آنے والے علمائے رجال نے اس کتاب میں کئی مشاکل پائے ہیں،جیسا کہ اسماء کو ضبط کرنے میں ہونے والی اغلاط،مصادر سے نقل میں غلطیاں،ان میں سب سے قابل ذکر سید مصطفی تفرشی ہیں،جنہوں نے اپنی کتاب نقد الرجال میں مفصل انداز میں کتاب کے بارے میں اپنے ملاحظات بیان کئے ہیں۔ اس کے بعد تفرشی کا قول نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
"کتابہ ھذا مشتمل علی اغالیط لا تحصی واشتباہات لا تستقصی،یعرفھا من تامل فیہ و نظر فی ظاہرہ و خافیہ"
یعنی ان کی یہ کتاب لا تعداد اغلاط اور بے شمار التباسات پر مشتمل ہے،ہر وہ آدمی ان کو جان سکتا ہے جو،اس کے ظاہر و مخفی مقامات میں دقت ِ نظر سے دیکھے۔
اس کے بعد شیخ حیدر حب اللہ نے اس کتاب کے معتمد ہونے اور اسے بطور ِ مصدر لینے یا نہ لینے کے بارے میں علمائے شیعہ کے تین مواقف بیان کئے ہیں،الرفض التام،القبول التام اور القبول المعتدل یعنی اسے مکمل لے لینا،مکمل ترک کر دینا،یا اس کے ساتھ اعتدال کا رویہ اپنانا،کہ اغلاط کے ملاحظہ کے ساتھ اس کو لیا جائے۔
2۔خلاصۃ الاقوال فی معرفۃ الرجال
جرح و تعدیل کے نکتہ نظر سے لکھی گئی اس دور کی دوسری اہم ترین کتاب معروف شیعہ محدث اور امام ابن تیمیہ کے ہم عصر ابو منصور حسن بن مطہر حلی،جنہیں عام طور پر علامہ حلی کے نام سے ذکر کیا جاتا ہے،کی تصنیف ہے،علامہ حلی کا اہل تشیع میں جو مقام ہے،وہ کسی پر مخفی نہیں،علامہ حلی کی شہرت کی وجہ سے اس کتاب کو بھی خاصی مقبولیت ملی،بعد کے اہل علم نے اس پر شروح و حواشی کثرت سے لکھے،علامہ حلی مقدمہ میں کتاب کی تالیف کا مقصد بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
"فان العلم بحال الرواة من أساس الأحكام الشرعية، وعليه تبتني القواعد السمعية، يجب على كل مجتهد معرفته وعلمه،ولا يسوغ له تركه وجهله، إذ أكثر الاحكام تستفاد من الاخبار النبويةوالروايات عن الأئمة المهدية، عليهم أفضل الصلوات وأكرم التحيات،فلا بد من معرفة الطريق إليهم، حيث روى مشايخنا رحمهم الله عن الثقةوغيره، ومن يعمل بروايته ومن لا يجوز الاعتماد على نقله.فدعانا ذلك إلى تصنيف مختصر في بيان حال رواة ومن يعتمد عليه،ومن تترك روايته، مع أن مشايخنا السابقين رضوان الله عليهم أجمعين صنفوا كتبا متعددة في هذا الفن، الا ان بعضهم طول غاية التطويل مع اجمال الحال فيما نقله، وبعضهم اختصر غاية الاختصار، ولم يسلك أحد النهج الذي سلكناه في هذا الكتاب، ومن وقف عليه عرف منزلته وقدره وتميزه عما صنفه المتقدمون.7
یعنی احوال رواۃ کا علم احکام شرعیہ کی بنیاد ہے اور اسی پر قواعد کی بنا ہے،لھذا ہر مجتہد پر اس علم کی معرفت واجب ہے اور اس کے بارے میں بے خبری کا ترک ضروری ہے،کیونکہ اکثر احکام نبی ﷺ کی احادیث اور ائمہ (علیھم السلام ) کی روایات سے ماخوذ ہیں،تو ان ائمہ تک خبر کی طریق کی معرفت ضروری ہے،کہ ہمارے مشائخ نے ثقہ سے روایت لی ہے یا کسی اور سے،اور کن رواۃ کی روایت پر عمل جا ئزہے اور کن رواۃ کی روایت پر عمل ناجائز؟اس وجہ سے ہم احوال رواۃ میں ایک مختصر تصنیف کی طرف متوجہ ہوئے جو معتمد و غیر معتمد رواۃ کے احوال پر مشتمل ہو،باوجودیکہ ہمارے مشائخ نے اس فن میں متعدد کتب تصنیف کی ہیں،مگر بعض بظاہر تو لمبی کتب ہیں مگر احوال کے اعتبار سے مجمل ہیں،جبکہ بعض انتہائی اختصار کی حامل ہیں،لھذا کسی نے ایسا طریقہ اختیار نہیں کیا،جو ہم نے اس کتاب میں اپنایا ہے،جو اس کتاب سے واقف ہوگا،تو اس کتاب کی متقدمین کی کتب کی بنسبت قدر و منزلت اور اس کا امتیاز جان سکے گا۔
علامہ حلی کے اس اقتباس میں ایک تو اس بات کا اعتراف نظر آتا ہے کہ خاص جرح و تعدیل کے اعتبار سے متقدمین کی کتب ناکافی ہیں،اسی وجہ سے وہ اپنی کتاب کو متقدمین کی کتب سے عالی و ممتاز قرار دے رہے ہیں اور اسے اسلوب و منہج میں یکتا کہہ رہے ہیں،اب اس کتاب سے چند تراجم نقل کئے جاتے ہیں،تاکہ کتاب کا منہج و اسلوب واضح ہوسکے:
- الحسن بن الحسين اللؤلؤي، كوفي، روى عنه محمد بن أحمد بن يحيى.قال النجاشي: انه ثقة كثير الرواية له كتاب، وقال الشيخ الطوسي رحمه الله: ان ابن بابويه ضعفه.وقال النجاشي: كان محمد بن الحسن بن الوليد يستثني من روايةمحمد بن أحمد بن يحيى ما رواه عن جماعة، وعد في جملتهم ما تفرد به الحسن بن الحسين اللؤلؤي، وتبعه أبو جعفر بن بابويه رحمه الله علی ذلك8
- حفص بن سالم، يكنى أبا ولاد، الحناط - بتشديد اللام، وتشديد النون بعد الحاء المهملة - ثقة، كوفي، مولى، جعفي، له أصل.وقال ابن فضال: انه حفص بن يونس المخزومي، روى عن أبي عبد الله(عليه السلام)، ثقة لا بأس به.وقال ابن عقدة: حفص بن سالم خرج مع زيد بن علي، وظهر من الصادق (عليه السلام) تصويبه لذلك.9
ان دو تراجم سے اتنی بات تو واضح ہوتی ہے کہ علامہ حلی کی کتاب واقعی متقدمین کی کتب سے ممتاز اور منہج و اسلوب میں انفرادیت کی حامل ہے،کہ اس کتاب میں راوی کے بارے میں علمائے جرح و تعدیل کے اقوال نقل کرنے کی کوشش کی گئی ہے،اس کتاب کا اسلوب اہل سنت کی کتب رجال کے اسلوب کے مماثل ہے،یاد ش بخیر!علامہ حلی کی اس کتاب کا پس منظر عموما یہ بیان کیا جاتا ہے کہ علامہ حلی نے یہ کتاب امام ابن تیمیہ کے اس اعتراض کے جواب میں لکھی ہے،کہ اہل تشیع کے ہاں علم رجال و جرح و تعدیل کا کوئی وجود نہیں ہے،اس پس منظر کی طرف شیخ حیدر حب اللہ نے بھی اشارہ کیا ہے اور اپنے تئیں اس بات کو رد کرنے کی کوشش کی ہے،اس کے واقع میں ثبوت و عدم ثبوت سے قطع نظر، علامہ حلی نے اس کتاب میں اہل سنت کی کتب رجال کا اسلوب و منہج اپنانے کی جو کاوش کی ہے،اس سے اس پس منظر کو تقویت ملتی ہے،واللہ اعلم
لیکن کتاب کے اس امتیاز کے باوصف یہ کتاب انتہائی مختصر کتاب ہے،ساڑھے پانچ سو کے قریب صفحات پر مشتمل ایک متوسط حجم کی جلد میں چھپی ہے،شیخ حیدر حب اللہ کے بقول اس کتاب میں معتمد رواۃ میں 1227 رواۃ اور غیر معتمد رواۃ میں 510 رجال کا ذکر کیا گیا ہے،یوں کل ملا کے اس کتاب میں صرف ساڑھے سترہ سو رواۃ کا ذکر ہے 10حالانکہ شیعہ رواۃ کی کل تعداد ایک محتاط اندازے کے مطابق تیس ہزار کے لگ بھگ ہے،کیونکہ شیخ خوئی کی معجم رجال الحدیث میں پندرہ ہزار کے قریب رواۃ ہیں،جبکہ شیخ علی نماز ی کی مستدرکات علم الرجال،جس میں ایسے رواۃ کا ذکر ہے،جو جملہ کتب رجالیہ میں مذکور نہیں ہیں،اس میں اٹھارہ ہزار سے زائد رواۃ کا ذکر ہے،یوں 33 ہزار رواۃ بنتے ہیں، تو ایک محتاط اندازہ بھی لگا لیں تو تیس ہزار رواۃ بن جاتے ہیں،جبکہ علامہ حلی کی کتاب میں صرف ساڑھے سترہ سو رواۃ کا ذکر ہے،جو رواۃ کی کل تعداد کا بمشکل پانچ فیصد بنتا ہے،یوں علامہ حلی کی کتاب اہل تشیع کے علم رجال کی جرح و تعدیل کے اعتبار سے بلا شبہ ایک اچھی کاوش ہے،لیکن اس میں کل رواۃ کے صرف پانچ فیصد کا احاطہ کیا گیا ہے،جو ظاہر ہے،علمی لحاظ سے بالکل ناکافی تعداد ہے۔
اب یہ سوال اپنی جگہ قائم ہے کہ علامہ حلی نے اتنے کم رواۃ کا ذکر کیوں کیا؟علامہ حلی کے منہج و اسلوب کو دیکھتے ہوئے یہ توجیہ کی جاسکتی ہے کہ چونکہ علامہ حلی نے اس کتاب میں رواۃ کے بارے میں جرح و تعدیل کے اقوال ذکر کرنے کا التزام کیا ہے،اور متقدمین کے پورے ذخیرے میں صرف یہی رواۃ ہی علامہ حلی کو ملے،جن کے بارے میں کسی نہ کسی کتاب اور کسی نہ کسی عالم کا قول ِ جرح و تعدیل مل جاتا ہے،جبکہ متقدمین کے تراث میں باقی تمام رواۃ جرح و تعدیل کے ابحاث سے مسکوت عنہ ہیں،پچھلے صفحات میں متقدمین کے اولین مصادر رجالیہ خمسہ کا رواۃ کے جرح و تعدیل کے اعتبار سے ایک مفصل تجزیہ سامنے آچکا ہے،اس تفصیل کی روشنی میں یہ توجیہ بعید نہیں ہے،واللہ اعلم
یہ بات یاد رہے کہ اہل تشیع کے علمی تراث کے بارے میں عموما مخالفین کا نظریہ یہ ہے کہ اہل تشیع کے تراث میں خواہ حدیثی تراث ہو یا رجالی،اس تراث میں دورِ صفوی میں مصنوعی اضافہ کیا گیا ہے، اس نظریے کے مطابق اہل تشیع کا رجالی تراث ہی اتنے رواۃ پر مشتمل تھا،اس لئے علامہ حلی نے اتنے رواۃ کا ذکر کیا ہے،لیکن مضامین کے اس سلسلے میں ہم نے چونکہ مخالفانہ و مخاصمانہ الزامات و دعاوی سے صرف نظر کیا ہے،بلکہ اہل تشیع و اہل سنت ہر دو فریقوں کے ہاں موجود تراث کا تقابل کیا گیا ہے،اس لئے اس دعوی اور اس کی تاریخی ثبوت یا عدم ثبوت کے بارے میں سکوت اختیار کرتے ہیں۔
3۔حاوی الاقوال فی معرفۃ الرجال
یہ کتاب گیارہویں صدی ہجری کے شیعہ محقق شیخ عبد النبی جزائری کی ہے،اسے رجال الشیخ عبد النبی الجزائری بھی کہہ دیا جاتا ہے،یہ کتاب بھی اصلا متقدمین کے تراث کی جمع و ترتیب پر مشتمل ہے،لیکن مصنف نے اس میں ابداع سے کام لیتے ہوئے متقدمین کی کتب میں موجود رواۃ کو چار اقسام میں تقسیم کر کے بیان کیا ہے:
رجال الحدیث الصحیح
رجال الحدیث الحسن
رجال الحدیث الموثق
رجال الحدیث الضعیف
اس میں پہلی قسم کے تحت 1045 رواۃ،دوسری قسم میں 83 رواۃ، تیسری قسم میں 59 رواۃ اور آخری قسم میں 1171 رواۃ کو بیان کیا ہے،یوں کل ملا کے 2360کے قریب رواۃ کو بیان کیا ہے،جو ظاہر ہے کہ کل شیعہ رواۃ کے اعتبار سے نہایت قلیل تعداد ہے اور کل رواۃ ِشیعہ کا بمشکل 7 فیصد حصہ بنتا ہے،اس کتاب میں مصنف نے اپنی طرف سے سوائے مقدمہ و خاتمہ کے کچھ نہیں لکھا،بلکہ متقدمین کا تراث ہی نقل کیا ہے،چنانچہ مقدمہ میں اپنی کتاب کا منہج بتاتے ہوئے لکھتے ہیں:
"اعلم ان کل رجل ذکرہ النجاشی فی کتابہ ذکرتہ اولا بعبارتہ من غیر تغیر۔۔ثم اتبعتہ بکلام العلامہ فی الخلاصہ من غیر تغییر ایضا۔۔ثم اتبعتہ کلام الخلاصۃ بالحواشی المنسوبۃ الی الشہید الثانی ان وجدتھا،ثم اتبع بکلام الشیخ فی کتاب الرجال و الفہرست محافظا علی اللفظ ما امکن۔۔۔ھذا کلہ فی الفصول الثلاثۃ الاول،و اما فی الفصل الرابع فانی قد اقتصرت علی ما ذکرہ النجاشی و العلامہ فی الخلاصہ،سواء کان فی بابہ او فی غیرہ،و اتبعت کلاھما بباقی الکلام علی النہج المذکور فی الفصول الثلاثۃ11
یعنی میں ہر اس راوی کا پہلے ذکر کروں گا،جس کو نجاشی نے اپنی کتاب میں ذکر کیا ہے،نجاشی کی عبارت میں بغیر کسی تبدیلی کیے، اس کے بعد علامہ حلی کا خلاصہ سے کلام بلا تغییر نقل کروں گا،،پھر اس کے بعد میں شہید ثانی کے حواشی کی عبارت بغیر تبدیلی کے لاوں گا م،اگر مجھے ملی،پھر اس کے بعد شیخ طوسی کی رجال و فہرست کی عبارت لاوں گا،حتی الامکان الفاظ کی رعایت کرتے ہوئے،یہ ترتیب پہلی تین فصلوں (یعنی پہلی تین اقسام ) میں ہوگی،جبکہ فصل رابع میں میں نجاشی و علامہ حلی کے کلام پر اکتفاء کروں گا،خواہ اسی جگہ انہوں نے کلام کیا ہو یا کسی اور جگہ،پھر ان کے کلام کے بعد میں باقی کلام فصول ثلاثۃ کی ترتیب کے مطابق نقل کروں گا۔
یہ بات قابل ِ ذکر ہے کہ مصنف گیارہویں صدی (المتوفی 1021ھ)سے تعلق رکھتے ہیں،تو انہوں نے رواۃ پر متقدمین کے کلام کو استقصاء کے ساتھ نقل کرنے کی کوشش کی ہے،یوں ماضی کے سات سو سالہ تراثِ رجال میں شیخ جزائری کو دو ہزار سے کچھ اوپر رواۃ ملے،جن پر ماضی کے اہل علم نے جرحا و تعدیلا گفتگو کی ہے،اس سے اہل سنت کتب رجال اور اہل تشیع کے تراث ِ رجال کا تقابل بخوبی کیا جاسکتا ہے کہ اہل سنت کے صرف ایک محدث امام ابن ابی حاتم رازی نے علم رجال کے تدوین کے زمانے میں ہی الجرح و التعدیل لکھ کر اٹھارہ ہزار رواۃ کے بارے میں اہل علم کے اقوال و جرح و تعدیل بیان کردئیے،جبکہ شیخ عبد النبی جزائری سات صدیوں کے رجالی تراث کو کھنگالنے کے بعد بھی صرف ڈھائی ہزار کے قریب رواۃ کے بارے میں شیعہ محدثین کے کلام ِ جرح و تعدیل کو نقل کر سکے۔
حواشی
- دروس تمہیدیۃ فی تاریخ علم الرجال،ص 188
- رجال ابن داود،رقم الترجمہ:643
- ایضا:رقم الترجمہ:651
- رقم الترجمہ:1670
- رقم الترجمہ:1606
- دروس تمہیدیۃ:ص 191
- خلاصہ الاقوا فی معرفۃ الرجال،ابن مطہر حلی،ص43
- خلاصۃ الاقوال: ص102
- ایضا:ص127
- دروس تمہیدیۃ:ص 204-205
- حاوی الاقوال فی معرفۃ الرجال،عبد النبی الجزائری،ص95۔96
(جاری)