مولاناعتیق الرحمٰن سنبھلیؒ کی وفات

ڈاکٹر محمد غطریف شہباز ندوی

چنددن قبل معروف عالم دین، مفسرِقرآن اوردانشورومحقق مولاناعتیق الرحمن سنبھلی نوے سال سے زیادہ کی عمرمیں وفات پاگئے۔اناللہ واناالیہ راجعون۔

وہ عرصہ درازسے علیل چل رہے تھے۔موصوف دارالعلوم دیوبندکے فارغ التحصیل اورمولانامحمدمنظورنعمانی رحمہ اللہ کے فرزنداکبرتھے۔قلم کے دھنی اوراپنی بات آزادانہ طورپر کہنے والے مصنف تھے۔صاحب اسلوب اورصاحب فکرانسان تھے۔تقریباً‌ تین دہائی قبل سے وہ لندن میں مقیم تھے اوراس لیے شاعرکی زبان میں کہہ سکتے تھے کہ ؎

بہت دیکھے ہیں میں نے مشرق ومغرب کے مے خانے

جب وہ ہندوستان میں تھے توبرسوں تک پہلے ندائے ملت اورپھرمشہوراصلاحی مجلہ الفرقان (بانی: مولانا محمد منظور نعمانیؒ) کی ادارت کرتے رہے جن میں انہوں نے اپنے پختہ سیاسی نظریات کے ساتھ ملت کی اصلاح اورتربیت شعور کا کام انجام دیا۔وہ علم وتحقیق کی آبروتھے۔ بہت سلجھاہودماغ ااوررواں قلم پایاتھا۔جس موضوع پر قلم اٹھاتے، بڑے اعتمادکے ساتھ تجزیاتی اسلوب میں گفتگوکرتے۔طالبان اورامریکہ کی پہلی جنگ میں انہوں نے طالبان کی شکست کے اسباب کا جائزہ لیا۔ اسی طرح مسلمانوں میں اہانت رسول کو لے کریاحجاب کے مسئلہ میں جوغیرضروری حساسیت پائی جاتی ہے، اس کی نشان دہی کی۔افغانستان پر لکھے ان کے مقالہ پر بھی ردعمل ہوااورندوۃ العلما کے ایک دوسرے سنبھلی استادمولانابرہان الدین سنبھلی مرحوم نے اس کا جواب لکھااورطالبان کے موقف کی ستائش کی۔پھر غالباً‌ ترجمان (جدید)دارالعلوم دیوبندمیں جواب الجواب بھی آیا۔

ہندوستانی مسلمانوں کا موجودہ حالات میں سیاسی، تعلیمی کیالائحہ عمل ہوناچاہیے، اس کی برابررہنمائی کرتے رہے۔لندن چلے جانے کے بعدان کی تحریریں زیادہ ترمعروف علمی وفکری مجلہ الشریعہ(گوجرانوالہ پاکستان) اور الفرقان اورترجمان (جدید)دارالعلوم دیوبندمیں شائع ہوتی تھیں جس کے مدیر مولانا ڈاکٹروارث مظہری صاحب ہیں۔ طلاق ثلاثہ کے مسئلہ پرانہوں نے علامہ ابن القیم کی بحث کی خاصی گرفت کی ہے اوراس مسئلہ پر حنفی نقطہ نظرکی وکالت کی ہے۔مغرب میں رہنے والے مسلمان کس اندازمیں اپنی دینی شناخت کوبرقراررکھتے ہوئے وہاں کے معاشروں سے ایڈجسٹ کریں اوران کے لیے فائدہ مندثابت ہوں، اس پر بھی ان کے مضامین میں روشنی ڈالی گئی ہے۔

مشاجرات صحابہ کے نازک باب میں انہوں نے انقلاب ِایران کے سیاق میں گفتگوکرتے ہوئے اپناموقف پیش کیاہے جومدلل اورتجزیاتی ہے اورکسی قسم کی عقیدت سے مبراہوکراختیارکیاگیاہے۔بہتوں کواس سے اختلاف ہے اور ہوناچاہیے، مگروہ ناصبی ہرگزنہ تھے جیساکہ بعض فیس بکی لکھاریوں نے ظاہرکرنے کی کوشش کی ہے۔سیدناعثمان بن عفان ذی النورین سیدناامیرمعاویہ، سیدناعمروبن العاص سیدناحضرت مغیرہ رضی اللہ عنہم کادفاع اوران پر لگائے گئے تاریخ کے الزامات کی تحقیق وصفائی لاریب ”نصب“نہیں ہوسکتی وہ ان جلیل الشان لوگوں کا حق ہے۔انہوں نے سیدناحضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے مقام ومرتبہ کا پوراپاس ِادب رکھاہے۔یزیداوراس کے عمال کے اقدامات کی توجیہ کی ہے۔یزیدپر لگے گھنونے الزامات کا دفاع کیاجوان سے پہلے بہت سے ائمہ کباربھی کرچکے ہیں۔ تاہم لوگ اس بات کوبالکل نظراندازکردیتے ہیں کہ مولانانے اپنی تحقیق میں سیدنامعاویہ کے یزیدکواپناجانشین بنانے کی حمایت نہیں کی بلکہ نتائج کے لحاظ سے اس کوغلط ہی قراردیاہے۔اتفاق واختلاف کی بات الگ، یہ کتاب ”واقعہ کربلاکا حقیقی پس منظر“ایک معرکۃ الآراکتاب ثابت ہوئی اوراس پر برصغیرمیں خوب لے دے بھی مچی۔

اس کے بعدمولاناعتیق الرحمن سنبھلی نے حیات نعمانی لکھی جس میں انہوں نے اپنے والدبزگوارکا نقش جمیل کچھ اس طرح پیش کیاکہ اس عہدکی پیچیدہ ملی صورت حال بھی قاری کے سامنے آجاتی ہے اورموجودہ زمانہ میں ملی کاموں کا طریقہ بھی سمجھ میں آتاہے۔

مولاناسنبھلی کا تیسرابڑاکارنامہ ان کی تفسیر”محفل قرآن“ہے۔جووہ عرصہ درازتک ایک کالمی درس قرآن کی صورت میں الفرقان میں لکھاکرتے تھے۔اسی تاریخی مناسبت کوباقی رکھتے ہوئے اس کانام محفل ِقرآن ہی رکھا گیا ہے۔راقم سطورنے اس تفسیرکی ابتدائی دوجلدیں حرفاً‌ حرفاً‌ پڑھی ہیں اوروہ گواہی دیتاہے کہ اس نے اس مختصر تفسیرکو عصرحاضرکی دوسری بہت سی معروف ومتداول تفسیروں سے کہیں بڑھ کربہترومفیدترپایاکیونکہ وہ غیرضروری مباحث وتفصیلات سے مکمل گریز کرکے صرف قرآن کی آیات کے مفہوم ومدعاپر فوکس کرتے ہیں۔اکثرمقامات پر سلف کے فہم ہی کوترجیح دی ہے، بہت کم اپنی الگ رائے بیان کی ہے۔حدیث وسیرت اورفقہ کوبھی سامنے رکھا ہے۔ طرزبیان عقلی ومنطقی ہے۔

راقم خاکساربرسوں تک ماہنامہ افکارملی دہلی کا مدیر رہا۔ مولانالندن میں اس کے خریدارتھے اورانہوں نے اپنی کئی کتابیں تبصرے کے لیے گاہے بگاہے بھجوائیں۔چنانچہ راقم کے کی تبصرے ان کی کتاب واقعہ کربلاکا حقیقی پس منظر (انگریزی ایڈیشن پر) حیات نعمانی اورتفسیرکی دوجلدوں پر شائع ہوئے۔واقعہ کربلاوالی کتاب پر تبصرہ الشریعہ کے علاوہ عالمی اسلامی یونورسٹی اسلام آبادکے شائع ہونے والے مجلہ فکرونظرمیں بھی چھپااورمولانانے شکریہ کا ایک خط بھی راقم خاکسارکے نام لکھا۔یہاں یہ کہنابھی غالباً ضروری ہوگاکہ جدیدتفاسیرمیں انہوں نے تدبرقرآن کی بڑی تعریف کی ہے۔ نمازکی اہمیت پر جابجاروشنی ڈالنے کی بنیادپر دوسرے قرآنی نظم اورعربی لغت کی رعایت کی بنیادپر اگرچہ اس کا اظہاربھی کھل کرکردیاہے کہ صاحب ِتدبرنے بعض صحابہ کی شان میں نازیباالفاظ استعمال کیے ہیں جو نہیں ہونا چاہیے تھا۔(اشارہ سزائے رجم کے سلسلہ میں حضرت ماعزؓکے بارے میں مولانااصلاحیؒ کے ریمارک کی طرف ہے)۔

پروفیسرفریدہ خانم (صاحب زادی مولاناوحیدالدین خاں رحمہ اللہ)کی کتاب مولانامودودی کی تعبیردین پر نقدکے سلسلہ میں شائع ہوئی۔اِس کتاب پر راقم نے افکارملی میں ایک مثبت تبصرہ کیاکردیاکہ ایک مخصوص حلقہ کی باسی کڑھی میں ابال آگیا اور اس تبصرے کی تردیدمیں کئی مضامین افکارمیں شائع ہوئے۔میرے تبصرہ کے بعد مولانا عتیق الرحمن سنبھلی کا مکتوب آیا۔ انہوں نے پروفیسرموصوفہ کی کتاب منگوا کرپڑھی اوراپنے والدگرامی کے حوالہ سے واقع ہوئی حوالہ کی ایک بڑی فروگزشات کی طرف توجہ دلائی۔اسی موقع سے مولانانے راقم کولکھاتھاکہ جب مولانا مودودی علیہ الرحمہ کی کتاب ”قرآن کی چاربنیادی اصطلاحیں“منظرعام پر آئی توغالباً‌ سب سے پہلے انہوں نے الفرقان میں اس تعبیرِدین پر پہلانقدکیاتھا۔خاکسارنے ان سے گزارش کی کہ وہ مقالہ فراہم کرایاجائے۔انہوں نے بھی تلاش کروایا، لیکن تاحال ان کا ناقدانہ تبصرہ کہیں ملانہیں۔ممکن ہے کہ کہیں الفرقان کی فائلوں میں دباہو۔تاہم اِس سے یہ پتہ چلاکہ مولاناموصوف بھی مولانامودودی کی تعبیردین سے اختلاف رکھتے تھے۔

مولاناسنبھلی کثرت سے مطالعہ کرتے اورعلماء کے حلقہ میں راقم کی رائے میں اِس لیے ممتازتھے کہ مشرق ومغرب دونوں کوبہت قریب سے دیکھنے اوربرتنے کی بناپر ان کی تحریروں میں حقیقت پسندی معروضیت ا ورعدم جذباتیت اورانصاف پسندی پائی جاتی ہے، یک رخاپن نہیں ہے۔اوراس لیے مغربی فکرکے نقدکے ساتھ مغرب والوں کی بعض اخلاقی قدروں کی ستائش انہوں نے کی جوکہ علما کے حلقہ میں یکسرناپیدہے۔ساتھ ہی وہ موجودہ زمانے کے چیلنجوں اورمطالبات پر بھی گہری نظررکھتے تھے۔اسلام کے تعلق سے مغرب میں کیاکچھ لکھاپڑھاجارہاہے، اس کی انگریزی سے اپنی واقفیت کی بناکرفرسٹ ہینڈمعلومات رکھتے۔ملی ضرورتوں کے ادراک کی وجہ سے مدارس اسلامیہ کے نصاب ونظام پر بھی انہوں نے لکھاہے۔الفرقان کے اداریوں پر مشتمل ان کے کچھ مضامین کا مجموعہ ”مجھے ہے حکم اذاں“کے عنوان سے چھپ چکاہے۔ضرورت ہے کہ ان کے منتخب علمی فکری اورتنقیدی مضامین بھی شائع کیے جائیں۔

بعض مباحث پر انہوں نے مولانا علی میاں ندوی رحمہ اللہ اوردوسرے اکابرسے اختلا ف بھی کیامگران کے پورے احترام کومدنظررکھتے ہوئے۔مولاناابوالحسن علی ندوی کی کتاب المرتضی ٰ کا بھی انہوں نے ناقدانہ جائزہ لیاتھاجس کودوبارہ شائع کرنے کی ضرورت ہے۔

ان کی زبان وبیان مولویانہ وواعظانہ نہیں بلکہ سنجیدہ، دانشورانہ، شگفتہ اورمنطقی اوراستدلالی اسلوب کے حامل ہیں۔مولانامرحوم کے اخلاف میں جہاں تک راقم کی واقفیت ہے، بھائیوں، پوتوں، نواسوں اوربھانجوں میں بھی یہی صفات عالیہ منتقل ہوئی ہیں اوربلامبالغہ کہاجاسکتاہے کہ:

این خانہ ہمہ آفتاب است

مولاناسنبھلی اِس سے قبل بھی کئی بارسخت بیمارپڑے تھے مگرشایدقدرت ان سے ترجمہ وتفسیرکا کام مکمل کراناچاہتی تھی چنانچہ وہ ہرباربسترسے اٹھ کرپھرجانفشانی سے اِس کام میں لگ جاتے گویاشبلی وعتیق میں یک گونہ مشابہت یوں ظاہرہوئی کہ شبلی رحمہ اللہ نے اپنے اخیرایام سیرت نبوی علی صاحبہا الف الف تحیہ وسلام میں بسرکیے تومولانا عتیق الرحمن سنبھلی نے اپنی حیات مستعارکے آخری لمحات کتاب اللہ کے فہم وتفسیرمیں گزارے۔

خداکاشکرہے یوں خاتمہ بالخیر ہونا تھا۔ اللہم انزل علیہ شآبیب رحمتک


اخبار و آثار

(فروری ۲۰۲۲ء)

تلاش

Flag Counter