حضرت مولانا عتیق الرحمٰن سنبھلیؒ کی وفات

محمد عمار خان ناصر

ممتاز اور بزرگ عالم دین حضرت مولانا عتیق الرحمن سنبھلیؒ کئی سال کی علالت کے بعد گذشتہ دنوں انتقال فرما گئے۔ انا اللہ وانا الیہ راجعون

حضرت مولانا عتیق الرحمن سنبھلیؒ سے پہلا تعارف غالباً‌ نوے کی دہائی میں ان کی تصنیف ’’واقعہ کربلا“ کے حوالے سے ہوا تھا۔ رسمی طالب علمی کا دور تھا۔ کتاب انڈیا سے چھپی تھی، لیکن متنازعہ موضوع کی وجہ سے اس کا غیر قانونی ایڈیشن پاکستان سے بھی چھپا اور بڑے پیمانے پر فروخت ہوا۔ عم مکرم مولانا عبد الحق خان بشیر نے اس پر ایک تفصیلی تنقید ماہنامہ ’’حق چاریار’’ میں شائع کی جس میں بنیادی طور پر کتاب کے قابل نقد اقتباسات اور اکابر دیوبند کی آرا سے ان کا اختلاف نمایاں کیا گیا تھا۔ والد گرامی ان دنوں برطانیہ میں تھے اور اس حوالے سے انھوں نے عم مکرم کو ایک خط بھی لکھا جس کی نقل ریکارڈ میں کہیں محفوظ ہوگی۔

۲۰۰۱ء کے بعد الشریعہ کی ادارت کی ذمہ داری مجھے سونپی گئی تو اس میں مباحثہ ومکالمہ کا ایک مستقل سلسلہ شروع کیا گیا جو روایتی مذہبی حلقوں کے لیے بہت تعجب انگیز اور باعث اضطراب تھا۔ نہ صرف دیوبندی حلقے بلکہ دیگر مکاتب فکر کے ذمہ دار حضرات نے اس پر ناپسندیدگی ظاہر کی، کیونکہ اس میں بہت سے نازک مسائل پر مختلف نقطہ ہائے نظر ادارے کی طرف سے صحیح یا غلط کا کوئی حکم لگائے بغیر پیش کیے جا رہے تھے جس سے، ناقدین کے خیال میں، مستند مسلکی یا مذہبی موقف کے قابل بحث اور قابل اختلاف ہونے کا تاثر پیدا ہوتا تھا۔ مباحثہ ومکالمہ کے اس سلسلے کی جن اہل علم نے واضح طور پر تائید اور سرپرستی فرمائی، ان میں حضرت مولانا عتیق الرحمن سنبھلیؒ بھی تھے۔ ان کا خط الشریعہ میں شائع شدہ ہے جس میں انھوں نے لکھا کہ یہ نیا طرز باعث دلچسپی ہے اور خاص طور پر برادرم میاں انعام الرحمن کی تحریروں کی خصوصی توصیف کی جو ان دنوں الشریعہ میں سنجیدہ موضوعات پر مستقل لکھا کرتے تھے۔

 مولانا سنبھلیؒ، اس کے بعد سے، علالت کے آخری چند سال نکال کر، نہ صرف مجلے کے مستقل قاری رہے، بلکہ اپنے خطوط، تبصروں اور کئی اہم موضوعات پر اپنی تحریروں کے ذریعے سے مجلے کی علمی سرپرستی بھی فرماتے رہے۔ ۲۰۰۳ء میں مسجد اقصیٰ کی تولیت پر راقم کا تفصیلی موقف شائع ہوا تو جن بڑے اہل علم کی طرف سے اس پر حوصلہ افزائی موصول ہوئی، ان میں بھی مولانا سنبھلیؒ کا نام نمایاں تھا۔ مولانا کا یہ خط بھی الشریعہ میں شائع شدہ ہے۔ طالبان کی حکومت کے سقوط کے کچھ سال کے بعد مولانا نے ’’خواب جو بکھر گیا“ کے عنوان سے طالبان کی پالیسیوں کا ایک تنقیدی جائزہ پیش کیا جو الشریعہ میں شائع ہوا اور کافی بحث ونقد کا موضوع بنا۔

 الشریعہ اور والد گرامی کے توسط سے مولانا علیہ الرحمہ کے ساتھ ناچیز کا ایک خاص ذاتی تعلق بھی استوار ہو گیا اور وہ بزرگانہ شفقت کے ساتھ کئی مسائل میں اپنے ذاتی ملاحظات سے بھی نوازتے رہے۔ جاوید احمد غامدی صاحب کے حلقے سے متعلق ان کی رائے کافی منفی تھی جس کا وہ کھلا اظہار بھی فرماتے تھے۔ ۲۰۰۱ء میں والد گرامی اور المورد کے اہل قلم کے مابین تین چار اہم موضوعات پر ایک تفصیلی مباحثہ ہوا جو الشریعہ اور اشراق کے علاوہ بعد میں کتابی صورت میں بھی شائع ہوا۔ مولانا نے اس پر والد گرامی کو تفصیلی خط لکھا جس میں فرمایا کہ غامدی صاحب کو فکری طور پر مولانا اصلاحی کی طرف منسوب کرنا درست نہیں اور وہ دراصل مولانا مودودی کے حلقے کے آدمی ہیں۔ راقم کا المورد اور غامدی صاحب کے ساتھ تعلق بھی مولانا کے علم میں تھا اور کافی سال کے بعد انھوں نے ایک خط میں راقم کو لکھا کہ علمی استفادہ تو خود انھوں نے بھی مولانا اصلاحی سے بہت کیا ہے، لیکن اس کے لیے باقاعدہ غامدی صاحب کے ادارے سے میری وابستگی کیوں ضروری تھی؟

 زندگی اور صحت کے آخری سالوں میں مولاناؒ نے اپنی ساری توجہ ’’محفل قرآن“ پر مرکوز کر دی تھی جس کی متعدد جلدیں، الفرقان میں قسط وار اشاعت کے بعد، شائع ہو چکی ہیں۔ اس کی ایک جلد جو سورۃ البقرۃ اور آل عمران پر مشتمل ہے، مولانا علیہ الرحمہ نے خاص طور پر بھجوائی اور اس پر تبصرے کا حکم دیا۔ افسوس، اس مقصد سے کتاب کے تفصیلی مطالعے اور نوٹس وغیرہ لینے کے باوجود تبصرہ لکھنے کی نوبت نہیں آ سکی اور مولانا کی تعمیل ارشاد نہ ہو سکی جس پر بہت شرمندگی ہے۔

 اللہ تعالیٰ حضرت مولانا کو بلند درجات عطا فرمائے، ان کو اپنے سلف صالح کے ساتھ جوار رحمت میں جگہ دے، اور ان کی علمی ودینی خدمات کے سلسلے کو ان کے اخلاف کے ذریعے سے جاری رکھے۔ اللھم لا تحرمنا اجرہ ولا تفتنا بعدہ، آمین۔

اخبار و آثار

(فروری ۲۰۲۲ء)

تلاش

Flag Counter