غیر قانونی طور پر تعمیر شدہ مساجد کا حکم

محمد عمار خان ناصر

گذشتہ دنوں کراچی میں ایک مسجد کے انہدام سے متعلق سپریم کورٹ کا حکم قومی سطح پر زیربحث رہا اور اس کی موزونیت یا غیر موزونیت پر مختلف نقطہ ہائے نظر سامنے آئے۔ اس ضمن میں کسی خاص مقدمے کے اطلاقی پہلووں سے قطع نظر کرتے ہوئے، اصولی طور پر یہ بات واضح ہونا ضروری ہے کہ غیر قانونی طور پر تعمیر کی گئی مساجد کا فقہی حکم کیا ہے ۔ چونکہ عموماً‌ اس حوالے سے جو فقہی موقف اور استدلال سامنے آ رہا ہے، وہ ادھورا اور فقہ وشریعت کی درست اور مکمل ترجمانی نہیں کرتا، اس لیے کچھ اہم توضیحات یہاں پیش کی جا رہی ہیں۔

پہلی بات جو اس بحث میں بہت عام کہی گئی، وہ یہ تھی کہ مسجد اگر کسی کی زمین غصب کر کے بھی تعمیر کی گئی ہو تو تعمیر ہو جانے کے بعد اسے گرانا جائز نہیں، بلکہ اس کی تلافی مالک کو زمین کی قیمت اور تاوان وغیرہ ادا کر کے کی جا ئے گی۔ یہ بات قطعی طور پر غلط ہے اور نہ صرف دین وشریعت کا ابتدائی فہم رکھنے والا شخص اس کی غلطی کو واضح طور پر سمجھ سکتا ہے، بلکہ اس پر مستند اداروں کے فتاویٰ بھی موجود ہیں۔ مثال کے طور پر جامعہ الازہر کے فتوے کے مطابق ایسی زمین پر مسجد کی تعمیر جائز نہیں بلکہ حرام ہے اور اگر مسجد بنا لی جائے تو بھی اس کو مسجد نہیں سمجھا جائے گا اور زمین کے مالک کو اسے گرا دینے کا حق حاصل ہے۔

اسی طرح جامعہ علوم اسلامیہ بنوری ٹاون کراچی کے فتوی نمبر 144202200526 میں کہا گیا ہے کہ

’’شرعی مسجد کی جگہ خالص اللہ کے لیے وقف جگہ ہوتی ہے اور جگہ وقف کرنے کی ایک شرط اس جگہ کا مالک ہونا ہے۔ صورتِ مسئولہ میں چونکہ غاصب زمین کا مالک نہیں ہوتا، لہذا غصب شدہ زمین میں مسجد بنانے سے وہ مسجد شرعی مسجد نہیں کہلائے گی۔ نیز زمین غصب کرنا اور اس پر مسجد بنانا گناہ ہے۔"

غصب شدہ زمین پر بنائی گئی مسجد کو شرعی تحفظ دینے کے موقف سے جو عمومی تاثر بنتا ہے، وہ یہ ہے کہ بس جہاں مسجد کا نام آ جائے، سب اخلاقی اور قانونی ضابطے معطل ہو جاتے ہیں اور جہاں بھی جیسے بھی ایک دفعہ مسجد بن جائے، اس کو شرعی تحفظ حاصل ہو جاتا ہے۔ یہ نوعیت کے لحاظ سے ویسا ہی ایک تاثر ہے جیسا توہین مذہب کے معاملے میں عام ہو گیا ہے کہ جہاں گستاخی کا کوئی واقعہ ہو جائے تو پھر مذہبی جذبات ہی بنیادی اہمیت اختیار کر لیتے ہیں، اور قانون ضابطوں کو ان کے تابع ہو جانا چاہیے۔ ہمارے نزدیک اس تاثر کا ازالہ اور ان کے پیچھے کارفرما انداز فکر کی غلطی واضح کرنا بھی دینی نقطہ نظر سے اتنا ہی اہم ہے جتنا کسی انتظامی یا عدالتی فیصلے کی ناموزونیت پر سوالات اٹھانا۔

دوسری اہم بات جو اس حوالے سے کہی گئی، یہ ہے کہ سرکاری املاک کا حکم انفرادی ملکیت سے مختلف ہے اور سرکاری زمین پر اگر لوگوں نے اپنی ضرورت کے تحت حکومتی اجازت کے بغیر بھی مسجد تعمیر کر لی ہو تو اس کو گرایا نہیں جا سکتا، بلکہ حکومت پر اس کی قانونی منظوری دینا لازم ہو جاتا ہے۔ لیکن یہ بات علی الاطلاق اور اس عموم کے ساتھ درست نہیں جس طرح پیش کی جا رہی ہے۔ حنفی فقہ کی کتب میں اس مفہوم کی جزئیات یقیناً‌ موجود ہیں جن میں یہ کہا گیا ہے کہ جو زمینیں ملکیت عامہ کی نوعیت رکھتی ہوں، یعنی کسی کی انفرادی ملکیت میں یا کسی خاص مقصد کے لیے وقف شدہ نہ ہوں، وہاں اگر علاقے کے مسلمان دینی ضرورت کے تحت مسجد تعمیر کر لیں تو یہ درست ہے اور اسے بھی شرعی مسجد کا درجہ حاصل ہوگا اور وہ تمام احکام اس پر جاری ہوں گے جو ایک مسجد پر ہوتے ہیں۔ ان فقہی جزئیات کی بنیاد دراصل اس قانونی مفروضے پر ہے کہ ایسی جگہیں مفاد عامہ کے لیے ہوتی ہیں اور حکومت کی طرف سے عوام کو ایک طرح کی خاموش اجازت حاصل ہے کہ وہ حسب ضرورت انھیں مسجد کے لیے خاص کر لیں۔ فقہاء کی مراد ہرگز یہ نہیں ہے کہ حکام وقت کی طرف سے لوگوں کویہ اجازت عمومی طور پر اور ہمیشہ کے لیے حاصل رہنا کوئی شرعی تقاضا ہے اور وہ اس کو حکومت کی پیشگی اجازت سے مشروط نہیں کر سکتے۔

پس ان فقہی تصریحات سے استشہاد اسی صورت میں پر درست ہو سکتا ہے جب حکومت کی طرف سے اس حوالے سے کوئی قانون سازی موجود نہ ہو۔ اس صورت میں اسے اجازت سکوتی پر محمول کر کے یہ کہا جا سکتا ہے کہ حکومت کو لوگوں کے ایک فیصلے یا اقدام پر کوئی اعتراض نہیں۔ اسی کو فقہ میں دلالتاً‌ اجازت دینا کہا جاتا ہے۔ تاہم اگر حکومت نے باقاعدہ سرکاری املاک کے متعلق ایک قانون سازی کر دی ہو اور بغیر سرکاری اجازت کے کسی بھی جگہ کو تصرف میں لانا ممنوع قرار دیا ہو تو پھر مذکورہ فقہی جزئیات سے استدلال نہیں کیا جا سکتا ۔ ہمارے دور میں، یہ معلوم ہے کہ حکومتوں کی طرف سے سرکاری املاک کے متعلق ، بالخصوص شہری آبادیوں میں، ایسی کوئی خاموش اجازت لوگوں کو حاصل نہیں ہوتی، بلکہ ایسا کرنے کو خلاف قانون اور جرم سمجھا جاتا ہے۔ اس لیے ان جزئیات کو آج کے حالات پر منطبق کرنا اور یہ نتیجہ نکالنا کہ سرکاری املاک پر مسجد بنانے کے لیے کسی حکومتی اجازت کی ضرورت نہیں اور ایسی جو بھی مسجد بنا لی جائے، وہ حکومتی اجازت کے بغیر بھی شرعی مسجد ہوتی ہے جسے گرانا خود حکومت کے لیے بھی جائز نہیں، قطعی طور پر فقہاء کے موقف کی درست ترجمانی نہیں ہے۔

اس تناظر میں، دار العلوم دیوبند کے مختلف فتاویٰ جات میں تمام ضروری فقہی وشرعی قیود کو ملحوظ رکھتے ہوئے اس مسئلے کی جو نوعیت واضح کی گئی ہے، ہمارے نزدیک وہ زیادہ مستند اور درست تعبیر ہے اور اسی حوالے سے ان فتاویٰ جات کا ایک انتخاب ذیل میں پیش کیا جا رہا ہے۔

  • ’’سرکاری زمین پر سرکاری اجازت کے بغیر مسجد کی تعمیر درست نہیں، تاہم اگر مسجد بنائی گئی تو کوشش کرکے سرکار سے اجازت بھی لے لی جائے، اس مسجد میں نماز پڑھنے کا ثواب ملے گا مگر مسجد شرعی میں نماز ادا کرنے کی طرح ثواب نہ ملے گا الا یہ کہ حکومت کی طرف سے اجازت مل جائے۔” (فتویٰ نمبر 67272)
  • ’’سرکاری زمین میں سرکار کی اجازت سے مسجد تعمیر کرنی چاہیے، سرکاری زمین میں بغیر سرکار کی اجازت سے مسجد تعمیر کرنا صحیح نہیں، اگر کسی جگہ سرکاری زمین پر مسجد تعمیر کرلی گئی ہے تو کوشش کرکے حکومت سے اجازت لے لینی چاہیے تاکہ وہ شرعی مسجد بن جائے۔ (۲) راستہ کی زمین پر مسجد تعمیر کرنا یا مسجد کے کسی کام میں لانا درست نہیں۔” (فتویٰ نمبر 58857)
  • ’’جو راستہ شارع عام ہے، اس کو مسجد کی توسیع میں شامل کرلینے کے لیے حکومت سے اجازت ضروری ہے۔” (فتوی نمبر 145278)
  • ’’سرکاری زمین پر سرکار کی اجازت کے بغیر مسجد کا وضو خانہ، حمام و غیرہ بنانا جائز نہیں ہے ، لہذا صورت مسئولہ میں مسجد سے ملی ہوئی سرکاری زمین پر وضو خانہ، حمام و غیرہ بنانا جائز نہیں ہے۔ ” (فتویٰ نمبر 63790)
  • ’’جہاں سے ہائی ٹینشن بجلی کے تار گذرے ہوں، جب اس کے نیچے بلڈنگ بنانا غیر قانونی ہے تو مسجد بنانا بھی غیر قانونی ہوگا، پس ایسی صورت میں مالک زمین کو چاہیے کہ پہلے وہ متعلقہ محکمہ سے رابطہ کرکے تار ہٹوائے یا ان کی منظوری ختم کرائے ، اس کے بعد مسجد کی تعمیر کا کام شروع کرائے ؛ تاکہ مسجد کو کسی طرح کا خطرہ نہ ہو اور لوگ بلا خوف وخطر مسجد آکر نماز باجماعت ادا کرسکیں۔” (فتویٰ نمبر 159187)
  • "وہ مصلیٰ مسجد شرعی نہ ہوگا یعنی وہاں نماز پڑھنے سے مسجد کا ثواب نہیں ملے گا۔” (فتویٰ نمبر 169425)
  • ’’مسجد کے ایسے حصے میں نماز ادا ہوجائے گی، البتہ غیر قانونی جگہ کو حکومت سے منظوری لیے بغیر مسجد میں شامل کرنا جائز نہیں، وہ جگہ مسجد شرعی نہیں کہلائے گی، اس لیے اس جگہ کو مسجد میں شامل کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ سرکار سے کسی طرح اجازت حاصل کی جائے خواہ قیمتاً ہی سہی، سرکار سے اجازت لیے بغیر اس جگہ کو مسجد میں شامل نہ کیا جائے۔” (فتویٰ نمبر 9092)
  • ’’مسجد کی تاریخ ساٹھ سال پرانی ہے تو اس کو آپ حضرات باقی رکھیں، اگر اس کی زمین اب بھی حکومت کی ملکیت ہے تو اب باضابطہ طور پر حکومت سے اجازت حاصل کرلی جائے، اجازت مل جانے پر وہ مسجد، مسجدِ شرعی کہلائے گی۔” (فتوی نمبر 17357)
  • "ماضی میں کبھی، سڑک کا کوئی حصہ مسجد میں شامل کرلیا گیا گیا تھا، اب جب مسجد کی تعمیر نو ہورہی ہے تو سڑک کا وہ حصہ خارج کردیا جائے، تعمیر میں نہ لیا جائے اور مسجد صرف اپنی اصل جگہ پر تعمیر کی جائے، اور اگر سرکار کا متعلقہ محکمہ سڑک کا وہ حصہ مسجد کے نام منظور کردے تو اُس حصے کو مسجد میں شامل کرنے میں کچھ مضائقہ نہ ہوگا، سرکار کی اجازت ومنظوری کے بعد وہ حصہ شرعاً وقانوناً مسجد کا ہوجائے گا۔” (فتویٰ نمبر 603728 )
  • ’’اگر حکومت سے باقاعدہ مسجد کے نام زمین الاٹ کراکے سرکاری زمین پر مسجد بنائی جائے یا روڈ کا کچھ حصہ مسجد میں شامل کرلیا جائے بشرطیکہ مسجد کی توسیع میں اس کی ضرورت ہو اور اس کی وجہ سے راستہ بہت تنگ ہوکر لوگوں کے لیے زحمت ودشواری کا باعث نہ ہوجائے تو اس میں کچھ حرج نہیں، جائز ہے۔ ” (فتوی نمبر 58336)
  • ’’اگر واقعی وہ زمین قبرستان کی ہے تو چونکہ وقف کی بیع باطل ہے ؛اس میں بیع کا نفاذ نہیں ہوتا ؛اس لیے اس زمین پر دوکان یا مکان بناکر بیچنا درست نہیں،آپ اس بیع کو ختم کرکے رقم واپس لے لیں اور جو کچھ تعمیر کرا رکھا ہے اس کو منہدم کرکے ملبہ کو اپنے استعمال میں لائیں،یہ آپ سے غلطی ہوئی کہ آپ نے بلا تحقیق زمین خرید لی ،اور بائع پر ضروری ہے کہ اس زمین کو قبرستان کی کمیٹی کے حوالہ کردے ،اس کے لیے اس زمین کو فروخت کرنا جائز نہیں۔” (فتوی نمبر 165214)
  • ’’صورت مسئولہ میں جس زمین پر مسجد بنائی گئی ہے اگر وہ زمین ننانوے سال کے لیے پٹہ پر لی گئی ہے ، تو ایسی زمین پر مسجد شرعی نہیں بن سکتی، کسی زمین کے مسجد شرعی بننے کے لیے ضروری ہے کہ مالک زمین نے اس کو مسجد کے لیے وقف کیا ہو، پٹہ کی زمین پر ملکیت ثابت نہیں ہوتی، لہذا ایسی زمین میں شرعا وقف کا تحقق نہیں ہوتا؛ ہاں ضرورت کے وقت ایسی زمین میں جماعت خانہ بنایا جاسکتا ، جس میں پنج وقتہ فرض نمازیں جماعت کے ساتھ اداء کی جاسکتی ہیں ، اس میں انشاء اللہ جماعت کا ثواب ملے گا، صورت مسئولہ میں جبکہ الگ سے کسی مسجد کا نظم مشکل ہے ، تو متعلقہ شخص کے ساتھ حکمت اور حسن تدبیر سے بات کر لی جائے ، تاکہ جماعت خانہ میں نماز جاری رہے ۔” (فتویٰ نمبر 146164)”

مذکورہ فتاویٰ سے متعلق مکمل سوال وجواب دیکھنے کے لیے دار العلوم کے دار الافتاء کی ویب سائٹ سے رجوع کیا جا سکتا ہے۔

https://darulifta-deoband.com/

دار العلوم کے ان فتاویٰ جات سے درج ذیل نکات واضح ہوتے ہیں:

۱۔ سرکاری زمین پر حکومتی اجازت کے بغیر مسجد کی تعمیر جائز نہیں۔ اسی طرح مسجد کی توسیع کے لیے بلا اجازت سرکاری زمین کو مسجد کا حصہ بنانا بھی جائز نہیں۔ مسجد کے متعلقات مثلاً‌ وضو خانہ اور بیت الخلاء وغیرہ کے لیے بھی سرکاری زمین بلا اجازت استعمال کرنا جائز نہیں۔ (فتویٰ نمبر 67272 ، فتویٰ نمبر 58857، فتوی نمبر 145278، فتویٰ نمبر 63790)

۲۔ جس جگہ پر قانون کے مطابق کوئی بھی عمارت بنانا، ناجائز ہو، وہاں مسجد بنانا بھی ناجائز ہے۔ مسجد کو اس حوالے سے کوئی استثنا یا خصوصیت حاصل نہیں۔ (فتویٰ نمبر 159187)

۳۔ اگر کسی جگہ بغیر اجازت مسجد بنا لی گئی ہو یا کسی حصے کو مسجد میں شامل کر لیا گیا ہو تو اس کی حیثیت جائے نماز یا مصلیٰ کی ہے جس پر مسجد کے احکام لاگو نہیں ہوتے اور اس میں نماز کی ادائیگی پر مسجد کی نماز کا ثواب بھی نہیں ملتا۔ (فتویٰ نمبر 169425، فتویٰ نمبر 9092)

۴۔ اجازت وہی معتبر ہے جسے قانونی طور پر اجازت شمار کیا جاتا ہو۔ اگر کسی سرکاری جگہ پر نماز باجماعت کا سلسلہ عرصہ دراز سے جاری ہو اور سرکاری افسران نے بھی اس پر اعتراض نہ کیا ہو تو اس کے باوجود قانونی طور پر حکومتی اجازت ملنے تک وہ مسجد شرعی نہیں بنے گی، یعنی افسران کی رضامندی یا خاموشی کو سرکاری اجازت شمار نہیں کیا جا سکتا۔ (فتوی نمبر 17357)

۵۔ اگر ماضی میں سرکاری زمین کا کوئی حصہ بلا اجازت مسجد میں شامل کر لیا گیا ہو تو اسے سرکاری اجازت سے ہی مسجد میں شامل رکھا جا سکتا ہے۔ اگر حکومت اس کی اجازت نہ دے تو نئی تعمیر میں اس کو مسجد سے خارج کر دینا ضروری ہے۔ (فتویٰ نمبر 603728 )

۶۔ اگر مسجد کی توسیع سے گزرگاہ تنگ ہوتی ہو اور لوگوں کی آمد ورفت متاثر ہوتی ہو تو سرکاری اجازت کے باوجود مسجد کی توسیع کرنا درست نہیں ہے۔ (فتوی نمبر 58336)

۷۔ اگر غلطی یا لاعلمی سے کسی دوسرے مقصد مثلاً‌ قبرستان کے لیے وقف کی گئی جگہ پر مسجد بنا لی گئی ہو تو علم میں آنے پر اس کو منہدم کرنا اور قبرستان کو جگہ واپس کرنا شرعاً‌ ضروری ہے۔ (فتوی نمبر 165214)

۸۔ کرایے کی جگہ پر یا عارضی اور محدود مدت کے لیے حاصل کی گئی جگہ پر قائم کی گئی مسجد کی حیثیت بھی مصلیٰ کی ہے، اس پر مسجد شرعی کے احکام جاری نہیں ہوتے۔ (یہی حکم مختلف اداروں میں نماز کے لیے خاص کی گئی جگہ کا ہے جنھیں باقاعدہ مسجد کے طور پر وقف نہ کیا گیا ہو)۔ (فتویٰ نمبر 146164)

ہذا ما عندی واللہ تعالیٰ اعلم

آراء و افکار

(فروری ۲۰۲۲ء)

تلاش

Flag Counter