مسلم حکومتیں اور اسلامی نظام

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

(۲۶ ستمبر ۲۰۲۱ء  کو ادارۃ النعمان پیپلز کالونی گوجرانوالہ میں ’’تخصص فی الفقہ‘‘ کے طلبہ کے ساتھ گفتگو)


بعد الحمد والصلوٰۃ۔ آج میں آپ حضرات کو موجودہ معروضی حالات میں اسلام کے قانون و نظام کو کسی بھی سطح پر تسلیم کرنے والی مسلم حکومتوں کی صورتحال سے آگاہ کرنا چاہتا ہوں جن کے دستور و قانون میں اسلام کا نام شامل ہے اور ان کا دعویٰ ہے کہ وہ اسلامی حکومتیں اور ریاستیں ہیں۔ سعودی عرب، پاکستان اور ایران تو سب کے سامنے ہیں البتہ مراکش میں بھی سربراہ مملکت کو امیر المؤمنین کہا جاتا ہے جس کا پس منظر اس وقت میرے سامنے نہیں ہے۔

  1. سعودی عرب کا باقاعدہ نام ’’المملکۃ العربیۃ السعودیۃ‘‘ ہے جو آج سے کم و بیش ایک صدی قبل خلافتِ عثمانیہ کے بکھرنے کے دور میں قائم ہوئی تھی۔ اس ریاست میں ’’آل سعود‘‘ کے زیر اقتدار وہ علاقے شامل ہیں جن میں اس وقت مختلف معاہدات کی صورت میں آل سعود کے دائرۂ اقتدار میں شامل کیا گیا تھا اور ان پر بین الاقوامی طور پر آل سعود کا حق حکمرانی خاندانی اور نسلی بنیاد پر تسلیم کیا گیا تھا، جبکہ آل سعود نے حکمرانی کا حق ملنے کے بعد قرآن کریم کو اپنی مملکت کا ریاستی مذہب اور دستور و قانون کی بنیاد قرار دینے کا اعلان کیا تھا، سعودی عرب کی حکومتی نظام میں الشیخ محمد بن عبد الوہابؒ کا خاندان بھی ’’آل شیخ‘‘ کے نام سے ایک معاہدہ کے تحت شریک تھے اور ان کے درمیان تقسیم کار چلی آرہی ہے۔
  2. سعودی عرب کا عدالتی نظام مکمل طور پر قرآن و سنت کے تابع ہے جس کی برکات پورے ملک میں دکھائی دے رہی ہیں، البتہ اب موجودہ ولی عہد شہزادہ محمد نے یہ سوال اٹھا دیا ہے کہ دستور و قانون کی بنیاد قرآن کریم کے ساتھ حدیث و سنت بھی ہے یا صرف قرآن کریم ہی ریاست و حکومت کی اساس ہے۔ بہرحال خاندانی حکومت ہونے کے باوجود اپنے دستور و قانون کے حوالہ سے ایک اسلامی ریاست ہے اور حالات میں مختلف تغیرات کے باوجود اسلامی ریاست اور حرمین شریفین کے انتظام و خدمت کے حوالہ سے دنیا بھر کے مسلمانوں کی عقیدت و احترام سے بہرہ ور ہے۔
    پاکستان ایک سیاسی اور عوامی تحریک کے نتیجے میں ۱۹۴۷ء کے دوران برطانوی استعمار کے تسلط کے خاتمہ اور متحدہ ہندوستان کی تقسیم کے موقع پر وجود میں آیا تھا، اور اس نئی مملکت کے قیام کی تحریک چلانے والے قائدین نے واضح طور پر اعلان کیا تھا کہ وہ مسلمانوں کے لیے الگ ریاست کے قیام کا مطالبہ مسلمانوں کی تہذیب و ثقافت کے تحفظ اور قرآن و سنت کے احکام و قوانین کی عملداری کے لیے کر رہے ہیں، چنانچہ ملک کے باقاعدہ قیام اور مسلم لیگ کو اقتدار منتقل ہونے کے بعد اس کے ریاستی و حکومتی نظام کی تشکیل کا سوال کھڑا ہوا تو اگرچہ سیکولر حلقوں اور لابیوں نے پوری کوشش کی کہ اس نوزائیدہ مملکت کو ایک سیکولر اور جمہوری ریاست کی حیثیت دے دی جائے مگر دستور ساز اسمبلی نے ’’قرارداد مقاصد‘‘ کی صورت اس کی نظریاتی بنیاد ہمیشہ کے لیے طے کر دی کہ (۱) حاکمیتِ اعلیٰ اللہ تعالیٰ کی ہو گی۔ (۲) حقِ حکمرانی عوام کے منتخب نمائندوں کو ہو گا اور (۳) پارلیمنٹ اور حکومت قرآن و سنت کے احکام کی پابند ہوں گی۔
    ان اصولوں کی تشریح تمام مکاتب فکر کے ۳۱ اکابر علماء کرام نے متفقہ ’’۲۲ دستوری نکات‘‘ کی صورت میں کر دی جن میں سے بیشتر نکات دستورِ پاکستان کا باقاعدہ حصہ ہیں اور انہی اسلامی دستوری بنیادوں کی وجہ سے اسلامی جمہوریہ پاکستان ایک نظریاتی اسلامی ریاست سمجھا جاتا ہے۔ اگرچہ عملی صورتحال شروع سے اب تک اس سے مختلف چلی آرہی ہے اور مقتدر حلقے دستوری صراحتوں کے باوجود عملی طور پر اسلامی احکام و قوانین کو نفاذ و فروغ کا کوئی راستہ نہیں دے رہے۔ البتہ دستوری اساس کے لحاظ سے ہر ایک اسلامی ریاست ہے اور اگر دستور پر تمام ادارے اور طبقے خلوص کے ساتھ عمل کریں تو پاکستان اسلامی ریاست کے طور پر ایک آئیڈیل ملک کی حیثیت سے دنیا کے سامنے آسکتا ہے۔
  3. تیسری طرف ایران نے جناب آیت اللہ خمینی کی قیادت سے مذہبی انقلاب کے بعد خود کو ’’اسلامی جمہوریہ ایران’’ کی شکل دی اور اسلام کو ریاست کا سرکاری دین اور ’’اثنا عشری فقہ‘‘ کو ملک کا ریاستی مذہب قرار دیا، دستور کے مطابق ملک میں حاکمیت اعلیٰ ’’امامِ غائب‘‘ کی تسلیم کی گئی اور ان کی نمائندگی ’’ولایتِ فقیہ‘‘ کے عنوان سے ملک کے سب سے بڑے فقیہ کرتے ہیں جو اپنے دور میں خمینی صاحب تھے، اور اب جناب آیت اللہ خامنہ ای صاحب کو وہ مقام حاصل ہے جو مقننہ، عدلیہ اور انتظامیہ سمیت تمام ریاستی و حکومتی اداروں کے لیے حکمران اعلیٰ اور فائنل اتھارٹی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ البتہ نظام حکومت چلانے کے لیے عوام کے منتخب نمائندوں کو ذریعہ بنایا گیا ہے اور پارلیمنٹ اور حکومتی مناصب عوامی الیکشن کے ذریعے وجود میں آتے ہیں۔ گویا ایران میں اہلِ تشیع کے اثنا عشری طبقہ نے اپنے ’’تصور امامت‘‘ کو دستوری اور قانونی حیثیت دے دی ہے جو ان کے دائرہ میں کامیابی کے ساتھ چل رہا ہے اور وہ اس پر سختی سے قائم ہیں۔

اس پس منظر میں افغانستان اور طالبان پر بھی ایک نظر ڈال لینی چاہئے۔ طالبان نے اب سے دو عشرے قبل اپنے دور اقتدار میں افغانستان کو ’’امارت اسلامی افغانستان‘‘ کا عنوان دیا تھا جس میں امیر المؤمنین کے طور پر ملا محمد عمر مجاہدؒ نے کم و بیش پانچ سال حکومت کی جس کے مثبت ثمرات و نتائج اور برکات کا ابھی تک عالمی سطح پر اعتراف کیا جا رہا ہے، اس کے بعد انہیں امریکی اتحاد کے ساتھ بیس سال تک جنگ لڑنا پڑی جس میں سرخرو ہونے کے بعد اب پھر وہ پورے افغانستان میں برسر اقتدار ہیں اور نئے عزم و حوصلہ کے ساتھ اپنے اقتدار اور نظام کو حتمی شکل دینے کی تیاریاں کر رہے ہیں۔ اس موقع پر میں باقی تفصیلات سے قطع نظر دو باتوں کا بطور خاص تذکرہ کرنا چاہتا ہوں۔

  • ایک یہ کہ افغانستان پر طالبان کے کنٹرول اور حکومت کو تسلیم کرنے کی بجائے بین الاقوامی دباؤ کے ذریعے انہیں مجبور کیا جا رہا ہے کہ وہ ان شرائط اور قیود کو بہرحال تسلیم کریں جو عالمی اداروں نے ان کے لیے طے کر رکھے ہیں۔ ہمارے خیال میں یہ زیادتی اور نا انصافی کی بات ہے، وہ اسلامی عقیدہ اور افغان ثقافت کے ساتھ بے لچک کمٹمنٹ رکھتے ہیں اور ان کا ایک مستقل ’’وژن‘‘ ہے جسے یکسر مسترد کر دینے کی بجائے معاشرتی تجربہ اور سماجی عملداری کا موقع ملنا چاہئے۔ عالمی قوتیں اپنے نظام اور سولائزیشن کو ہر جگہ مسلط کرنے کے لیے دباؤ، جبر اور مکر کے جو حربے مسلسل استعمال کر رہی ہیں وہ بجائے خود ان کے نظام و ثقافت کے کھوکھلا ہونے کی علامت ہے۔ انہیں اگر اپنی سولائزیشن کے انسانی سماج کے لیے مفید ہونے کا یقین ہے تو اس کا فیصلہ انسانی سماج کو کرنے دیں جو تجربہ و مشاہدہ کے ذریعے ہی ہو سکتا ہے اور اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ متبادل نظام و ثقافت کے طور پر امارت اسلامی افغانستان کو کسی بیرونی مداخلت اور ڈکٹیشن کے بغیر آزادی کے ساتھ اپنا نظام قائم کر نے کا موقع دیں اور کچھ عرصہ انہیں مکمل خود مختاری کے ساتھ اپنے نظام و ثقافت پر عمل کرنے دیں، تاکہ دنیا کے سامنے یہ بات واضح ہو سکے کہ انسانی سماج کی بہتری کے لیے مغرب کا نظام و ثقافت زیادہ کارآمد ہے یا اسلامی نظام و قانون زیادہ مفید ہے۔ یہ فیصلہ خود کرنے کا کسی بھی فریق کو حق حاصل نہیں ہے، جبکہ مغرب یکطرفہ طور پر دھونس، دھاندلی، جبر اور دباؤ کے تمام حربے اختیار کر کے افغانستان میں اسلامی نظام و ثقافت کے نفاذ کا راستہ روکنے پر تُلا بیٹھا ہے۔
  • دوسری بات مسلم حکومتوں سے کرنا چاہوں گا کہ اسلام کے عقیدہ و ثقافت کے ساتھ وہ بھی اپنے ایمان و کمٹمنٹ کا دعویٰ کرتے ہیں مگر عالمی دباؤ کے سامنے خود کو بے بس محسوس کر رہے ہیں، ان کے لیے اپنے ایمان و عقیدہ اور تہذیب و ثقافت کے ساتھ وابستگی کے اظہار کا طریقہ یہی ہے کہ وہ امارت اسلامی افغانستان کے راستے میں روڑے اٹکانے کی بجائے اسے آزادی کے ساتھ کام کرنے کا موقع دیں، وہ اگر تعاون نہیں کر سکتے تو رکاوٹیں کھڑی کرنے سے گریز کریں، ہمیں یقین ہے کہ اگر امارت اسلامی افغانستان کو کسی قسم کی بیرونی مداخلت اور ڈکٹیشن کے بغیر کم از کم دس سال آزادی کے ساتھ کام کرنے کا موقع مل گیا تو دنیا کے سامنے اسلامی احکام و قوانین کو آئیڈیل نظام کے طور پر پیش کرنے کا جو خواب بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح مرحوم نے پیش کیا تھا وہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے پڑوس میں امارت اسلامی افغانستان کی صورت میں دنیا ضرور دیکھ لے گی، ان شاءاللہ تعالیٰ۔

اسلام اور عصر حاضر

(دسمبر ۲۰۲۱ء)

تلاش

Flag Counter